’’ قرآن کریم کا اعجاز بیان‘‘
علوم القرآن پر صدیوں سے کتابوں کی تدوین کا سلسلہ جاری ہے اور جاری رہے گا۔ زیر نظر کتاب محمد رضی الاسلام ندوی صاحب کے قلم سے معروف مصری عالمہ وفاضلہ ڈاکٹر عائشہ عبدالرحمن بنت الشاطی کی کتا ب ’’الاعجاز البیانی للقرآن الکریم‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ ڈاکٹر عائشہ عبدالرحمن (۱۹۱۳۔۱۹۹۸ء) نہایت وسیع المطالعہ اور دانشور خاتون تھیں اور انہوں نے ایک سو سے زائد کتب اور بے شمارمضامین اپنی یادگار چھوڑے ہیں۔ موصوفہ علمی اعتبار سے بین الاقوامی شہرت یافتہ خاتون تھیں۔ وہ مصر ،مراکش اورعراق کی جامعات میں تدریسی فرائض سرانجام دیتی رہیں اور متعدد بین الاقوامی کانفرنسوں میں اپنے مقالات پیش کیے۔ ان کی علمی خدمات کے صلے میں مصر، سعودی عرب اور کویت کی حکومتوں نے انھیں اعلیٰ سرکاری اعزازات سے نوازا۔
کتاب ایک مقدمہ اورتین مباحث پر مشتمل ہے۔ مقدمہ میں علوم قرآنی پر لکھی گئی عربی کتب کا تعارف کرایا گیا ہے۔ پہلی بحث میں قرآن مجید کے وجوہ اعجاز بیان کیے گئے ہیں۔ دوسری بحث میں، جو کہ کتاب کا خلاصہ ومحور ہے، مصنفہ نے تین فصلیں قائم کی گئی ہیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن مجید کے حروف، الفاظ اور اسالیب میں نہ کوئی حرف زائد ہے، نہ کوئی حرف محذوف ہے اور نہ کسی لفظ کو دوسرے لفظ کی جگہ استعمال کیا ہے۔ قرآن نے عام اسلوب سے ہٹ کر جو اسلوب اختیار کیے ہیں، ان میں بڑی بلاغت موجود ہے اوریہی قرآن کا اعجاز ہے۔ اس بحث میں مصنفہ کی محنت قابل تحسین ہے۔ کتاب کی تیسری بحث کا مترجم نے ترجمہ نہیں کیا اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ یہ بحث قرآن کی لفظی بحثوں پر مشتمل ہے جو اردو خواں طبقہ کے لیے مفید نہیں ہے۔ بہرحال یہ کتاب علوم قرآنیہ پر مشتمل کتب میں اہم اضافہ ہے ۔
دارالکتاب (کتاب مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اردو بازار لاہور ) کے منتظمین نے اسے معیاری کاغذ اور جلد کے ساتھ شائع کیا ہے۔
’’ربوا،زکوٰۃ اور ٹیکس‘‘
صدر ایوب خان کے دور میں ڈاکٹر فضل الرحمن ادارۂ تحقیقات اسلامی کے سر براہ مقرر کیے گئے تھے۔انہوں نے بہت سے مسائل پر ایسی آرا ظاہر کیں جو کہ جمہور امت سے ہٹ کر تھیں۔ ڈاکٹر فضل الرحمن خود کو مجتہد گردانتے تھے۔ ان کے موجب گمراہی اجتہادات میں سے بعض یہ تھے:
۱۔اسلام میں تجارتی سود حرام نہیں ۔
۲۔زکوٰۃ عبادت نہیں، ٹیکس ہے ۔
۳۔دینی مسائل میں مغربی مفکرین کی آرا تلاش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
مولانا ابو الجلال ندوی مرحوم نے انہی دنوں مذکورہ نظریات کاجواب لکھا تھا جو بوجوہ شائع نہ ہوسکا۔ اب ان تحریروں کو ابو الجلال ندوی اکیڈمی کراچی نے شائع کیاہے ۔ مجموعی طورپر یہ ایک قابل قدر کاوش ہے، لیکن گہری نظر سے ناقدانہ جائزہ لیاجائے تو کئی مقامات پر مصنف کا ذہنی الجھاؤ محسوس ہوتاہے۔ مصنف کی بعض آرا بھی محل نظر ہیں۔ مثلاً صفحہ ۳۳ کے حاشیہ میں مصنف ہدایہ شیخ الاسلام علی بن ابی بکر المرغینانی پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے دار الحرب میں سود کو جائز قراردیاہے اور ان کی وجہ سے کابل وسرحد کے پٹھانوں کا اخلاق بگڑ گیاہے۔ پہلے وہ صرف حربی کافر سے سود لیتے تھے، اب پاکستانی مسلمانوں سے بھی لیتے ہیں ۔ اسی طرح آیات میراث کی جو تشریحات فقہائے امت نے کی ہیں، وہ ان کے نزدیک معتبر نہیں ہیں اورقرآن وحدیث سے متصادم ہیں۔ اپنے اس دعوے کے اثبات میں انہوں نے کافی زور لگایاہے۔ تقریباً ادھی کتاب اس بحث پر مشتمل ہے۔ مسئلہ عول کو تو وہ آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔
عجیب بات ہے کہ فاضل مصنف ایک طرف تو فقہا کی آرا کو معتبر نہیں سمجھتے لیکن دوسری طرف ڈاکٹر فضل الرحمن کے رد میں ہدایہ سے ہی استدلال کرتے نظر آتے ہیں۔ (صفحہ ۱۳۷)
کتاب کے مضامین ڈاکٹر فضل الرحمن کے نظریات کا مکمل رد نہیں کرتے اور مزید بحث ونظر کی گنجایش موجود ہے۔
ملنے کا پتہ: فضلی سنز اردو بازار لاہورکراچی/کتاب سرائے فرسٹ فلو رالحمد مارکیٹ اردو بازار لاہور۔
’’اقبال اور قادیانیت: تحقیق کے نئے زاویے‘‘
علامہ اقبالؒ ان مجاہدین ختم نبوت میں سے ہیں جن کی ضرب کاری کی تاب قادیانی نہ لا سکے اور نہ آج تک قادیانیت پر ان کی تنقید کو بھلا سکے ہیں، اسی لیے وہ اقبال کی کردار کشی کرتے رہتے ہیں۔ قادیانیوں کی اس گھٹیا مہم کے جواب میں اقبال کی عظمت اور کردار کو اجاگر کرنے کے لیے بہت سی کتب لکھی گئی ہیں جن میں سے ایک کتاب اس وقت ہمارے پیش نظر ہے۔ محترم بشیر احمد صاحب اس سے پہلے قادیانیت، بہائیت اور فری میسنری پر گراں قدر کتب تحریر کر چکے ہیں۔ زیر نظر کتاب مصنف نے اگرچہ کسی قادیانی کتاب کے جواب کے طور پر نہیں لکھی، لیکن اس میں اقبال کی ذات وافکار پر لگائے جانے والے بہت سے قادیانی الزامات کا جواب آ گیا ہے جس پر مصنف بجا طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔
۲۸۳ صفحات پر مشتمل اس کتاب کو مجلس علم ودانش، پوسٹ بکس ۶۳۰ راول پنڈی نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت ۲۰۰ روپے ہے۔