’المورد اسلامک انسٹی ٹیوٹ ‘کے سرپرست ‘ماہنامہ ’اشراق ‘کے مدیر اور’ آج ‘ٹی وی کے نامور اسکالر جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے دو اہم اصولوں ’سنت ابراہیمی ‘ اور ’نبیوں کے صحائف ‘ کا تنقیدی اورتجزیاتی مطالعہ ماہنامہ ’الشریعہ ‘ کے صفحات میں پیش کیا جا چکا ہے۔ بعض علم دوست ساتھیوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ گزشتہ مضامین کی روشنی میں غامدی صاحب کے مآخذ دین اور اصولوں کا اجمالی تعارف بھی قارئین کو کروا دیا جائے تو بہت مفید ہوگا۔ زیر نظر مضمون میں ہم ان کے اصول ’دین فطرت کے بنیادی حقائق ‘ پرکچھ معروضات پیش کریں گے۔
غامدی صاحب کے مآخذ دین، علی الترتیب، درج ذیل ہیں :
۱) دین فطرت کے بنیادی حقائق
۲) سنت ابراہیمی
۳) نبیوں کے صحائف
۴) قرآن مجید
غامدی صاحب کے اصل اصول یہی چار ہیں جبکہ ان چار کے علاوہ بھی غامدی صاحب کے کچھ اصول ہیں جن سے ضرورت پڑنے پر غامدی صاحب استدلال کرتے ہیں لیکن ان کو مستقل مآخذ دین نہیں سمجھتے۔یہ اصول درج ذیل ہیں :
۵) حدیث
۶) اجماع
۷) امین احسن اصلاحی ‘جنہیں وہ امام کہتے ہیں ۔
غامدی صاحب کے نزدیک سب سے پہلا ماخذ جس سے دین حاصل ہوتا ہے، فطرت انسانی ہے اور یہی ماخذ ان کے نزدیک اصل الاصول یعنی باقی تمام مآخذ کی بنیاد بھی ہے، جیسا کہ ہم آگے چل کر اس کو ثابت کریں گے ۔ دین کا دوسرا ماخذ ان کے نزدیک نبیوں کی سنت ہے یعنی ایسے اعمال جن پر تمام انبیا عمل کرتے چلے آئے ہیں۔ چونکہ یہ اعمال حضرت ابراہیم کی زندگی میں آ کر ایک واضح شکل اختیار کر گئے تھے، اس لیے اب ان اعمال کی نسبت پچھلے انبیا کی بجائے حضرت ابراہیم کی طرف ہو گی۔ تیسرا ماخذ ان کے نزدیک نبیوں کے صحائف یعنی تورات ، انجیل اور زبور وغیرہ ہیں۔ اور دین کا چوتھا اور آخری ماخذ ان کے نزدیک قرآن مجید ہے، اسی لیے وہ قرآن کو دین کی آخری کتاب کہتے ہیں یعنی دین تو پہلے سے چلا آرہا ہے اور قرآن نے آ کر اس کی تکمیل کی ہے۔ باقی جہاں تک حدیث رسول یا اجماع امت کا معاملہ ہے‘ اس کو غامدی صاحب دین کا کوئی مستقل ماخذ نہیں مانتے۔ لہٰذا غامدی صاحب کے اصل اصول چار ہی ہیں جن پر ان کی پوری فکر استوار ہے۔ غامدی صاحب نے ان چار اصولوں کو اپنی کتاب میزان (فصل اصول و مبادی) میں ص ۴۷ سے ص ۵۲ تک تفصیلاً بیان کیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام دین فطرت ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ فطرت انسانی اس قابل ہے کہ اس سے دین اسلام ‘احکام الہٰی‘ اوامرو نواہی یاحلال وحرام کا تعین ہو سکتا ہے۔ اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اپنے بندوں کو جس فعل کے بھی کرنے کا حکم دیا ہے، فطرت سلیمہ اس فعل کے کرنے کی طرف ایک فطری رجحان اپنے اندر محسوس کرتی ہے اور جس فعل کے کرنے سے اللہ تعالی نے بذریعہ وحی ہمیں روک دیا ہے، فطرت سلیمہ بھی اس فعل سے ابا کرتی ہے۔ احکام الہٰی فطرت انسانی کے مطابق تو ہیں لیکن فطرت انسانی سے ان کا تعین نہیں ہو سکتا۔ یہی غلط فہمی جس میں آج غامدی صاحب مبتلا ہیں، ایک دور میں معتزلہ کو ہوئی۔ معتزلہ کا کہنا یہ تھا کہ عقل سے شریعت کا تعین ہو سکتا ہے۔ عقل جس چیز کو اچھا سمجھے گی، شریعت کی نظر میں بھی وہ چیز مستحسن ہے اور عقل جس کو برا سمجھے گی، شریعت کی نظر میں بھی وہ چیز بری ہے۔ معتزلہ نے جومقام انسانی عقل کو دیا تھا، غامدی صاحب اسی درجے پر فطرت انسانی کو رکھتے ہیں۔ اس دور میں امام ابو الحسن الأشعری اور امام ابو منصور ماتریدی نے معتزلہ کے اس مؤقف کا کہ عقل سے بھی اللہ کے حکم کو معلوم کیا جا سکتا ہے، سختی سے رد کیا جس کی تفصیلات اصول کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
اس مختصر تمہید کے بعد اب ہم اپنی اصل بحث کی طرف آتے ہیں۔
غامدی صاحب کا تصور فطرت
غامدی صاحب اپنی کتاب ’میزان‘ ( اصول و مبادی) میں لکھتے ہیں :
’’اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جو جانور پیدا کیے ہیں، ان میں سے بعض کھانے کے ہیں اور بعض کھانے کے نہیں ہیں۔ یہ دوسری قسم کے جانور اگر کھائے جائیں تو اس کا اثر چونکہ انسان کے تزکیہ پر پڑتا ہے ، اس لیے ان سے ابا اس کی فطرت میں داخل ہے۔ انسان کی یہ فطرت بالعموم اس کی صحیح رہنمائی کرتی ہے اور وہ بغیر کسی تردد کے فیصلہ کر لیتا ہے کہ اسے کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں کھاناچاہیے۔ اسے معلوم ہے کہ شیر، چیتے، ہاتھی، چیل، کوے، گدھ، عقاب ،سانپ ،بچھو، اور خود انسان کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔وہ جانتا ہے کہ گھوڑے ،گدھے ،دستر خوان کی لذت کے لیے نہیں، سواری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ ان جانوروں کے بول و براز کی نجاست سے بھی وہ پوری طرح واقف ہے۔ اس میں شبہ نہیں اس کی یہ فطرت کبھی کبھی مسخ بھی ہو جاتی ہے، لیکن دنیا میں انسانوں کی عادات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی ایک بڑی تعداد اس معاملے میں عموماً غلطی نہیں کرتی۔چنانچہ خدا کی شریعت نے بھی ان جانوروں کی حلت و حرمت کو اپنا موضوع نہیں بنایا، بلکہ انسان کو اس کی فطرت ہی کی رہنمائی پر چھوڑ دیا ہے۔ اس باب میں شریعت کا موضوع صرف وہ جانور اور ان کے متعلقات ہیں جن کی حلت و حرمت کا فیصلہ تنہاعقل وفطرت کی رہنمائی میں کر لینا ممکن نہ تھا۔ سؤر انعام کی قسم کے بہائم میں سے ہے ،لیکن درندوں کی طرح گوشت بھی کھاتا ہے، پھر اسے کیاکھانے کا جانور سمجھا جائے یا نہ کھانے کا؟وہ جانور جنھیں ہم ذبح کر کے کھاتے ہیں، اگر تذکیے کے بغیر مر جائیں تو ان کا کیا حکم ہونا چاہیے؟ انھی جانوروں کا خون کیا ان کے بول و براز کی طرح نجس ہے یا اسے حلال وطیب قرار دیا جائے گا؟ یہ اگر خدا کے سوا کسی اورکے نام پر ذبح کردیے جائیں تو کیا پھربھی حلال ہی رہیں گے؟ ان سوالوں کا کوئی واضح اور قطعی جواب چونکہ انسان کے لیے دینا مشکل تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کے ذریعے اسے بتایاکہ سؤر ،خون،مردار اور خدا کے سواکسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور بھی کھانے کے لیے پاک نہیں ہیں اور انسان کو ان سے پرہیزکرنا چاہیے۔ جانوروں کی حلت و حرمت میں شریعت کا موضوع اصلاً یہ چار ہی چیزیں ہیں۔چنانچہ قرآن نے بعض جگہ ’قل لا أجد فی ما أوحی ‘اور بعض جگہ ’انما‘ کے الفاظ میں پورے حصر کے ساتھ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی حلت وحرمت کے باب میں صرف یہی چار چیزیں حرام قرار دی ہیں ...بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلی والے درندوں ،چنگال والے پرندوں اور پالتو گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ اوپر کی بحث سے واضح ہے کہ یہ اسی فطرت کا بیان ہے جس کا علم انسان کے اندر ودیعت کیا گیا ہے۔ ہم اگر چاہیں تو ممنوعات کی اس فہرست میں بہت سی دوسری چیزیں بھی اس علم کی روشنی میں شامل کر سکتے ہی۔ لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے اسے بیان فطرت کے بجائے بیان شریعت سمجھا، دراں حالیکہ شریعت کی ان حرمتوں سے جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں، اس کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر حدیث سے قرآن کے نسخ یا اس کے مدعا میں تبدیلی کا کوئی مسئلہ پیدا کیاجائے۔‘‘ (میزان:ص۳۷ تا۳۹)
اسی طرح ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’قرآن کی دعوت اس کے پیش نظرجن مقدمات سے شروع ہوتی ہے، وہ یہ ہیں:
۱۔دین فطرت کے حقائق،
۲۔سنت ابراہیمی ،
۳۔ نبیوں کے صحائف۔
پہلی چیز کو وہ اپنی اصطلاح میں معروف و منکر سے تعبیر کرتا ہے ۔یعنی وہ باتیں جو انسانی فطرت میں خیر کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں اور وہ جن سے فطرت ابا کرتی اور انھیں برا سمجھتی ہے ۔قرآن ان کی کوئی جامع مانع فہرست پیش نہیں کرتابلکہ اس حقیقت کو مان کرکہ انسان ابتدا ہی سے معروف و منکر،دونوں کو پورے شعور کے ساتھ بالکل الگ الگ پہچانتا ہے ،اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ معروف کو اپنائے اور منکر کو چھوڑ دے:و المؤمنون والمؤمنات بعضھم أولیاء بعض یأمرون بالمعروف وینھون عن المنکر
اور مؤمن مرداور مؤمن عورتیں ‘یہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔یہ باہم دگر معروف کی نصیحت کرتے ہیں اور منکر سے روکتے ہیں ۔
اس معاملے میں اگر کسی جگہ اختلاف ہو تو زمانہ رسالت کے اہل عرب کا رجحان فیصلہ کن ہوگا۔‘‘ (میزان:ص ۴۸‘۴۹)
المورد کے ریسرچ اسکالرجناب منظور الحسن صاحب، غامدی صاحب کے مآخذ دین کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’قرآن مجید دین کی آخری کتاب ہے۔ دین کی ابتدا اس کتاب سے نہیں، بلکہ ان بنیادی حقائق سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے روز اول سے انسانی فطرت میں ودیعت کر رکھے ہیں۔ اس کے بعد وہ شرعی احکام ہیں جو وقتاً فوقتاً انبیا کی سنت کی حیثیت سے جاری ہوئے اور بالآخر سنت ابراہیمی کے عنوان سے بالکل متعین ہو گئے ۔ پھر تورات، زبور اور انجیل کی سورت میںآسمانی کتابیں ہیں جن میں ضرورت کے لحاظ سے شریعت اور حکمت کے مختلف پہلوؤں کو نمایاں کیا گیاہے۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ہے اور قرآن مجید نازل ہواہے۔ چنانچہ قرآن دین کی پہلی نہیں ، بلکہ آخری کتاب ہے اور دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں۔اس موضوع پر مفصل بحث استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کی تالیف ’’میزان‘‘کے صفحہ۴۷پر ’’دین کی آخری کتاب ‘‘کے زیر عنوان ملاحظہ کی جاسکتی ہے ‘‘۔ (ماہنامہ اشراق: مارچ ۲۰۰۴‘ ص ۱۱)
غامدی صاحب کامذکورہ بالا اصول فطرت غلط ہے اور اس کی غلطی کی درج ذیل وجوہات ہیں :
۱) کیاشریعت نے صرف چار چیزوں کو حرام قرار دیاہے؟غامدی صاحب کایہ دعویٰ ہے کہ شریعت نے کھانے کے جانوروں میں صرف چار چیزوں سؤر ‘خون ‘مرداراور خدا کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانورکو حرام قرار دیا ہے۔ یہ سارا فلسفہ غا مدی صاحب نے اپنے ایک غلط اصول (کہ حدیث کے ذریعے قرآن پر اضافہ یا اس کا نسخ نہیں ہو سکتا ) کوسیدھا کرنے کے لیے گھڑا ۔غامدی صاحب کے نزدیک گدھا حرام ہے، لیکن اس لیے نہیں کہ شریعت نے اسے حرام قرار دیا ہے بلکہ ان کی فطرت انھیں یہ بتلاتی ہے کہ گدھا سواری کرنے کا جانورہے نہ کہ کھانے کا‘ اس لیے یہ فطری محرمات میں سے ہے۔ غامدی صاحب کی فطرت کا اونٹ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ وہ بھی تو سواری کا جانور ہے۔ امر واقعہ تو یہ ہے کہ آپؐ کے زمانے میں عرب میں سواری کے لیے سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا جانور اونٹ تھا اور اس کے بعد گھوڑ ا‘ جبکہ گدھے کا استعمال سواری کے لیے نہ ہونے کے برابر تھا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ غامدی صاحب کی فطرت گدھے کو حرام اور اونٹ کو حلال قرار دیتی ہے؟ اگر غامدی صاحب یہ کہتے ہیں کہ اونٹ کو قرآن نے حلال قرار دیا ہے تو پھر غامدی صاحب کے اس بیان کا کیا مطلب ہے کہ :
’’جانوروں کی حلت و حرمت میں شریعت کا موضوع اصلاً یہ چار ہی چیزیں ہیں‘‘۔(میزان:ص۳۸)
فطری محرمات کا اصول وضع کر کے غامدی صاحب نے دین میں ایک نئے فتنے کی بنیاد رکھ دی ہے، اوریہ فتنہ کس طرح آگے بڑھ رہا ہے، اس کا اندازہ المورد کے ایک ریسرچ اسکالر امیر عبد الباسط صاحب کے شراب سے متعلق ایک سوال کے جواب سے ہوتا ہے:
’’اپنے پچھلے جواب میں ہم نے (شراب کے لیے) ناپسندیدہ کا لفظ حرمت کے مقابلے میں اصطلاح کے طور پراستعمال نہیں کیا۔ اس سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ شراب پینا شرعی حرمتوں میں سے نہیں ہے بلکہ وہ تو اس سے بھی زیادہ بنیادی یعنی فطری حرمتوں میں سے ہے .. .آپ (سائل ) نے فرمایا کہ ہماری رائے نصوص شرعیہ کے خلاف ہے۔ اگر آپ قرآن کی کوئی ایسی آیت پیش کر دیں جس میں اللہ تعالیٰ نے شراب کو واضح لفظوں میں حرام قرار دیا ہے تو ہمیں اپنی رائے سے رجوع کرنے میں ہر گز کوئی تامل نہیں ہو گا۔‘‘
یہ فتاویٰ جات غامدی صاحب کی نگرانی میں قائم شدہ المورد کی سرکاری ویب سائٹ (urdu.understanding-islam.org) پر جاری کیے جا رہے ہیں۔ کیاشراب کی حرمت کے بارے میں قرآن کے چارمختلف انداز سے تاکیدی اور صریح بیانات ’رجس‘ اور ’من عمل الشیطان‘ اور ’فاجتنبوہ‘ اور ’فھل أنتم منتھون‘ سے بھی اس کی شرعی حرمت ثابت نہیں ہوتی؟ واللہ المستعان علی ما تصفون۔
۲) غامدی صاحب کے نزدیک کھانے کے جانوروں میں حلال و حرام کے تعین میں فطرت بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک شریعت نے کھانے کے جانوروں میں صرف چار چیزوں کو حرام کیا ہے، اس کے علاوہ حرام جانوروں کے بارے میں ہم اپنی فطری رہنمائی کی روشنی میں ایک جامع فہرست تیار کر سکتے ہیں۔ ذرا غور کریں تو معلوم ہو گا کہ غامد ی صاحب کی مذکورہ بالا عبارات کس قدر گمراہ کن افکار پر مشتمل ہیں۔ کسی چیز کو حلال وحرام ٹھہرانے کا اختیاراصلاً اللہ کے پاس اور تبعاً اس کے رسول کے پاس ہوتا ہے۔ غامدی صاحب کا عام انسانوں کو تحلیل و تحریم کا اختیار تفویض کرنا خدائی دعویٰ کرنے کے مترادف ہے۔ غامدی صاحب کو یہ اختیار کس نے دیاہے کہ وہ عام انسانوں کے بارے میں یہ کہیں کہ وہ اپنی فطرت سے جس کو چاہیں حلال بنا لیں اور جس کو چاہیں حرام ٹھہرا لیں؟ قرآن نے دوٹوک الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ تحلیل و تحریم کا اختیار کسی انسان کے پاس نہیں ہے۔ مشرکین مکہ نے جب اپنی طرف سے بعض کھانے کی چیزوں کو حرام ٹھہرا لیا تو قرآن نے ان کے اس اقدام پر تنقید کی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
و حرمو ا ما رزقھم اللہ افتراء علی قد ضلوا و ماکانوا مھتدین (الأنعام:۱۴۰)
’’اور انھوں نے اللہ کے عطا کردہ رزق کو حرام ٹھہرا لیا اللہ پر جھوٹ بولتے ہوئے۔ تحقیق وہ گمراہ ہوئے اور وہ ہدایت پانے والوں میں سے نہ تھے۔‘‘
اگر شریعت نے بقول غامدی صاحب کھانے کے جانوروں میں صرف چار کو ہی حرام قرار دیا تھا اور باقی جانوروں کی حلت و حرمت کا فیصلہ انسانی فطرت پر چھوڑ دیا تھا تو اللہ تعالی نے مشرکین مکہ کے اس فعل پر تنقید کیوں کی کہ انھوں نے اپنی مرضی سے بعض جانوروں کو حرام ٹھہرا لیا؟ اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قل آالذکرین حرم أم الأنثیین أما اشتملت علیہ أرحام الأنثیین (الأنعام:۱۴۳)
’’اے نبی ﷺ ان سے کہہ دیں کیا اللہ تعالیٰ نے دونوں مذکر (نر) کو حرام کیا ہے یا دونوں مؤنث(مادہ )کویا اس کو جو دونوں مؤنث (مادہ) کے رحم میں ہو؟‘‘
یہ آیت بھی اس بات کی صریح دلیل ہے کہ تحلیل وتحریم کا اختیار اللہ کے پاس ہے نہ کہ انسانی فطرت کے پاس۔
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قل ھلم شھداء کم الذین یشھدون أن اللہ حرم ھذا (الأنعام: ۱۵۰)
’’اے نبی، آپ ان سے کہہ دیں کہ تم اپنے گواہوں کو لے آؤ دجو یہ گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حرام ٹھہرایاہے ۔‘‘
اگر صرف فطرت سے محرمات کا تعین جائز ہوتا تو اللہ تعالیٰ مشرکین سے یہ مطالبہ نہ کرتا کہ ان جانوروں کی حرمت پراللہ کی نازل کردہ شریعت سے کوئی دلیل پیش کرو۔ ایک اور جگہ مشرکین مکہ سے خطاب ہے :
ولا تقولوا لما تصف ألسنتکم الکذب ھذا حلال و ھذا حرام لتفتروا علی اللہ الکذب (النحل :۱۶۶)
’’اور مت تم کہو جو کہ تمہاری زبانیں جھوٹ بکتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تا کہ تم اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ سکو۔‘‘
یہ آیت بھی اس مسئلے میں نص ہے کہ انسانی فطرت سے حلال و حرام کا تعین کرنا اللہ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے۔ غامدی صاحب نے انسانی فطرت کو تحلیل و تحریم کا اختیار تفویض کر کے اس کو شارع بنا دیا ہے اور اللہ کے بالمقابل لا کھڑا کیا ہے۔ اگر انسان کی فطرت کے پاس کسی چیز کو حلال یا حرام ٹھہرانے کا اختیار ہے تو انسان بھی شارع ہے، اور انسان کو شارع بنانا اللہ کے ساتھ اس کو شریک کرنے کے مترادف ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
سیقول الذین أشرکوا لو شاء اللہ ما أشرکنا و لا أباؤنا و لا حرمنا من شیء (الأنعام:۱۴۸)
’’عنقریب وہ لوگ کہیں گے جنھوں نے شرک کیااگراللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا شرک نہ کرتے اور نہ ہی ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے ۔‘‘
نفی کے سیاق میں اگرنکرہ آئے تو وہ عبارت اپنے عموم میں نص بن جاتی ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا آیت بھی اپنے عموم میں نص ہے یعنی کسی چیز کو بھی حرام قرار دینے کا اختیار انسان کے پاس نہیں ہے۔ ایک آیت میں اس سے بھی زیادہ صراحت سے ’من دونہ ‘کے الفاظ کے ساتھ اس مفہوم کو بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
و قال الذین أشرکوا لو شاء اللہ ما عبدنا من دونہ من شیء نحن و لا آباؤنا ولا حرمنا من دونہ من شیء (النحل :۳۵)
’’اور کہا ان لوگوں نے جنھوں نے شرک کیا، اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ داداللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرتے اور ہم اس کے بغیر کسی چیز کو بھی حرام نہ ٹھہراتے۔‘‘
یہ آیات اس مسئلے میں صریح نص کا درجہ رکھتی ہیں کہ شارع صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور کوئی چیز اس وقت حلال ہو گی جبکہ اللہ تعالیٰ اس کو حلال قرار دے اور اس وقت حرام ہو گی جبکہ اللہ تعالیٰ اس کو حرام قرار دے اور انسان کے پاس کسی بھی چیز کو حرام قرار دینے کا اختیار نہیں ہے ۔
۳) غامدی صاحب کے نزدیک کھانے کے جانوروں میں انسانی فطرت سے حلال و حرام کا تعین ہو گا،لیکن سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اختلاف فطرت کی صورت میں کس کی فطرت معتبر ہوگی؟مثلاً غامدی صاحب نے موسیقی کو مباحات فطرت میں شامل کیا ہے، جبکہ علما اس کو محرمات میں شمار کرتے ہیں۔ اب کس کی فطرت کو لیں گے اور کس کی فطرت کو چھوڑیں گے؟ غامدی صاحب اس مسئلے کا حل تجویز کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر کسی جانورکے بارے میں انسانی فطرت کی آرا مختلف ہو جائیں توجمہور کی رائے پر عمل کیا جائے گا۔ غامدی صاحب اصول و مبادی میں لکھتے ہیں :
’’اس میں شبہ نہیں کہ اس کی یہ فطرت کبھی کبھی مسخ بھی ہو جاتی ہے ،لیکن دنیا میں انسانوں کی عادات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی ایک بڑی تعداد اس معاملے میں عموماً غلطی نہیں کرتی‘‘۔ (میزان:ص۳۷)
غامدی صاحب کے اس سنہری اصول کی روشنی میں دنیا کے انسانوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد نے سؤر تک کو اپنی فطرت سے حلال کر رکھا ہے۔ اور کچھ بعید نہیں کہ مستقبل قریب میں المورد کا کوئی ریسرچ اسکالر یہ تحقیق پیش کر دے کہ قرآن نے جس سؤر کو حرام قرار دیا ہے، وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا سؤر ہے۔ رہا آج کا سؤر جس کی مغرب میں باقاعدہ فارمنگ کی جاتی ہے ‘وہ فطرتاً حلا ل ہے۔ اہل مغرب کو تو چھوڑیے ‘مسلمانوں کو دیکھ لیں، ان کی اکثریت کے ہاں حلال و حرام کا کیا معیارہے جسے غامدی صاحب اپنے اصول فطرت میں اختلاف کی صورت میں بطور دلیل پیش کر رہے ہیں ۔
۴) غامدی صاحب نے ہر انسان کو تو یہ حق دے دیا کہ اپنی فطرت سے حلال وحرام کی فہرست تیار کرے لیکن وہ اللہ کے رسول کا یہ اختیار ماننے سے انکاری ہیں، چنانچہ غامدی صاحب اپنی فطرت کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ قرآنی محرمات (اربعہ) کی فہرست میں جتنا چاہے، اضافہ کر لے ،لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ان کا یہ خیال ہے کہ آپ کے کسی فرمان سے قرآنی محرمات کی فہرست میں اضافہ نہیں ہو سکتاکیونکہ اس سے قرآن کا نسخ یا اس کے مدعا میں تبدیلی لازم آتی ہے جو کہ جائز نہیں ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ غامدی صاحب اپنی فطرت سے قرآنی محرمات میں جو اضافہ کر رہے ہیں تو اس سے کیا قرآن کا نسخ یا اس کے مدعا میں تبدیلی لازم نہیں آتی؟ غامدی صاحب اپنی فطرت سے قرآنی حکم کے نسخ‘ اس میں اضافے اور اس کے مدعا میں تبدیلی کے قائل ہیں لیکن احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ مقام دینے کے لیے تیار نہیں‘ کیوں؟ کیا انسانی فطرت کا رتبہ معاذ اللہ ‘نبوت و رسالت سے بڑھ کر ہے؟
۵) غامدی صاحب کے نزدیک انسانی ہدایت و رہنمائی کے دو بڑے ذریعے ہیں۔ ایک انسانی فطرت اور دوسرا وحی، لیکن ان میں بھی غامدی صاحب فطرت کی رہنمائی کو وحی کی رہنمائی پر مقدم رکھتے ہیں۔غامدی صاحب لکھتے ہیں :
’’دین کی تاریخ یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھیجا تو اس (یعنی دین)کے بنیادی حقائق ابتدا ہی سے اس کی فطرت میں ودیعت کر دیے۔ پھر اس کے ابو الآبا حضرت آدم کی وساطت سے اسے بتا دیا گیاکہ ...اس کی ضرورتوں کے پیش نظر اس کا خالق وقتاً فوقتاً ا پنی ہدایت اسے بھیجتارہے گا... چنانچہ پروردگار نے اپنا یہ وعدہ پورا کیااور انسانوں ہی میں سے کچھ ہستیوں کو منتخب کر کے ان کے ذریعے سے اپنی یہ ہدایت بنی آدم کو پہنچائی۔ اس میں حکمت (یعنی ایمانیات اور اخلاقیات) بھی تھی اور شریعت بھی۔‘‘ (میزان:ص۴۷)
غامدی صاحب کا یہ نقطہ نظر قرآنی آیات کے مخالف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب سے آدم کو اس دنیا میں بھیجا ہے، اس دن سے ہی اس کی رہنمائی کے لیے وحی کا سلسلہ جاری فرما دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قلنا اھبطوا منھا جمیعا فاما یأتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلا خوف علیھم و لا ھم یحزنون و الذین کفروا و کذبوا بآیتنا أولئک أصحب النار ھم فیھا خلدون (البقرۃ :۳۸‘۳۹)
’’ہم نے کہا تم سب (یعنی آدم اور ان کی ہونے والی ذریت) اس جنت سے اتر جاؤ، پس اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جس نے میری ہدایت کی پیروی کی تو اس پر نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے اور جن لوگوں نے کفر کیا اور میری آیات کوجھٹلایا، وہ لوگ آگ والے ہیں اوروہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے ۔‘‘
ایک اور جگہ ارشاد ہے :
قلنا اھبطا منھا جمیعا فاما یأتینکم منی ھدی فمن اتبع ھدای فلا یضل ولا یشقی (طہ :۱۲۳)
’’ہم نے کہا تم(دونوں یعنی )سب اس جنت سے اترو، پس اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جس نے میری ہدایت کی پیروی کی تو وہ نہ تو وہ (دنیا میں )گمراہ ہو گا اور نہ ہی (آخرت میں ) بدبخت ہو گا۔‘‘
اس انتہائی اہم موقع پر جب کہ حضرت آدم کو اور ان کی آنے والی ذریت کوجنت سے اتار کر اس دنیامیں بھیجا جا رہا ہے، اس وقت انھیں صرف ایک ہی چیز کی پیروی کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے اور وہ اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت ہے اور دونوں جگہ قرآن کے الفاظ ’منی ھدی‘ اور اس کا سیاق وسباق بتلاتا ہے کہ اس ہدایت سے مراد کوئی فطری ہدایت نہیں بلکہ اللہ کی آیات اور اس کی طرف سے نازل کردہ وحی کی رہنمائی مراد ہے۔ اس سے یہ ثابت ہو ا کہ پہلے ہی دن سے اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے حضرت آدم اور ان کی آنے والی ذریت کو جو رہنمائی دی جا رہی ہے، وہ وحی کی رہنمائی ہے اور جس نے بھی اللہ کی دی ہو ئی ا س وحی کی رہنمائی سے استفادہ کرنے سے انکار کیا تو وہی لوگ اللہ کے عذاب کے مستحق ہیں ۔
۶) غامدی صاحب کے نزدیک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں ’معروف ‘ اور ’منکر ‘ کا تعین شریعت نہیں بلکہ فطرت انسانی کرے گی ۔ اگر معروف و منکر شریعت کا موضوع نہیں ہے تو اللہ کے رسول ﷺ کی اس حدیث کا کیا مطلب ہے:
من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ (صحیح مسلم ‘کتاب الایمان ‘باب کون النہی عن المنکر من الایمان)
’’جو بھی تم میں سے کسی منکر کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے تبدیل کر دے۔ اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتا تو اپنی زبان سے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتا تو اپنے دل سے ۔‘‘
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منکر کو ہاتھ سے روکنے کا حکم دے رہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے منکرات کا تعین کر دیا ہے۔ اگرغامدی صاحب کا یہ نظریہ مان لیا جائے کہ معروف اور منکر کا تعین فطرت انسانی سے ہوگا تو شریعت اسلامیہ ایک کھیل تماشا بن جائے گی۔ ایک شخص کے نزدیک ایک فعل معروف ہو گا جبکہ دوسرے کے نزدیک وہی فعل منکر ہوگا۔ مثلاً غامدی صاحب کے نزدیک موسیقی معروف کے تحت آئے گی۔اب غامدی صاحب کوقرآ ن کا یہ حکم ہے کہ وہ امر بالمعرو ف کا فریضہ سر انجام دیں، یعنی لو گوں کوموسیقی سننے کا حکم دیں، جبکہ علما موسیقی کو منکرات میں شامل کرتے ہیں اور علما کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ وہ منکرات کو بزور بازو روکیں، یعنی غامدی صاحب کو موسیقی کے جواز کا فتویٰ دینے سے بزور بازو روکیں۔
امام رازی ‘امام جصاص ‘علامہ سید آلوسی ‘علامہ ابن حجر ہیثمی ‘علامہ مناوی ‘ملا علی القاری‘علامہ ابو حیان الاندلسی ‘امام طبری ‘امام ابن تیمیہ ‘امام شوکانی ‘علامہ ابن الاثیر الجزری‘علامہ صاوی اور علامہ عبد القادر عودہ نے واضح اور صریح الفاظ میں اپنے اس مؤقف کو بیان کیا ہے کہ معروف و منکر کا تعین شریعت سے ہو گا۔ ان علما وأئمہ کی آرا کی تفصیل کے لیے سید جلال الدین عمری کی کتاب ’معروف و منکر ص۹۸ تا ۱۱۳ کا مطالعہ فرمائیں۔
۷) غامدی صاحب عالم اسلام کے وہ پہلے نامور اسکالرہیں جنھوں نے فطرت انسانی کو مصادر شریعت میں شمار کیا اور اسے حلال و حرام کی تمیز میں میزان قرار دیا۔ امام شافعی سے لے کر امام شوکانی تک کسی بھی اصولی (اصول فقہ کے ماہر) نے اپنی کتاب میں مصادر شریعت کی بحث میں ’فطرت انسانی ‘کا تذکرہ نہیں کیا۔ علما اور فقہا نے ہر دور میں قرآن ‘ سنت‘ اجماع اور قیاس وغیرہ جیسے مآخذ شریعت کے ذریعے سے شرعی احکام تک پہنچنے کی کوشش کی ہے لیکن کسی بھی فقیہ یا عالم نے امت مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ میں ’ فطرت انسانی‘ کو کبھی بھی استنباط احکام کے لیے بطور اصول یا مأخذشریعت بیان نہیں کیا۔ محسوس یہی ہوتا ہے کہ غامدی صاحب نئی فقہ کے ساتھ ساتھ نئی اصول فقہ بھی مرتب کرنے کا شوق پورا فرما رہے ہیں۔ غامدی صاحب اپنا یہ شوق ضرور پورا فرمائیں، لیکن علم وتحقیق کی روشنی میں۔
غامدی صاحب نے ’فطرت انسانی ‘ کو مصدر شریعت تو بنا دیا لیکن اس کی ان کے پاس دلیل کیا ہے کہ ’فطرت انسانی‘مصدر شریعت ہے؟ غامدی صاحب نے پنجاب یونیورسٹی میں اپنے ایک لیکچر کے دوران اپنے تصور فطرت کے حق میں جو دلیل بیان کی ہے، وہ سورہ شمس کی درج ذیل آیات ہیں :
و نفس وما سواھا فألھمھا فجورھا وتقواھا قد أفلح من زکھا و قد خاب من دسھا (الشمس:۷ تا ۱۰)
غامدی صاحب اس آیت کا یہ مفہوم بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے انسانی فطرت میں نیکی اور بدی کا علم رکھ دیا ہے۔ یہ مفہوم بوجوہ غلط ہے ۔
۱) یہ مفہوم قرآن کی واضح نص کے خلاف ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
واللہ أخرجکم من بطون أمھتکم لا تعلمون شیئا (النحل :۷۸)
’’اللہ تعالی نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا، اس حال کہ تم کچھ بھی نہ جانتے تھے۔‘‘
اسی لیے امام ابن قیم لکھتے ہیں:
لیس المراد بقولہ ’یولد علی الفطرۃ ‘أنہ خرج من بطن أمہ یعلم الدین لأن اللہ تعالی یقول واللہ أخرجکم من بطون أمھتکم لا تعلمون شیئا ولکن المراد أن فطرتہ مقتضیۃ لمعرفۃ دین الاسلام و محبتہ (صحیح بخاری مع فتح الباری‘کتاب اللباس ‘باب قص الشارب)
’یولد علی الفطرۃ‘ سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے دین کا علم لے کر آیا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا، اس حال کہ تم کچھ بھی نہ جانتے تھے ‘‘۔بلکہ حدیث سے مراد یہ ہے کہ انسان کی فطرت دین اسلام کی معرفت اور اس کی محبت کا تقاضا کرتی ہے۔
۲) یہ مفہوم حدیث کے خلاف ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
اللھم آت نفسی تقواھا و زکھا أنت خیر من زکاھا (صحیح مسلم ‘کتاب الذکر و الدعاء‘باب التعوذ من شر ما عمل )
’’اے اللہ تعالیٰ تو میرے نفس کو اس کا تقویٰ (یعنی تقوی کی رہنمائی ) عنایت فرما دے اور اس کو پاک کر دے۔ بے شک تو پاک کرنے والوں میں بہترین پاک کرنے والاہے ۔ ‘‘
اگر ’فجور‘ اور’ تقویٰ ‘ انسانی فطرت میں داخل ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس تقویٰ کو مانگنے کی کیا ضرورت ہے ؟آپ کی یہ دعا اس آیت کے مفہوم کو واضح کر رہی ہے کہ اس آیت میں ’تقویٰ‘ سے مراد اس کی رہنمائی اور ’فجور‘ سے مراد اس کی پہچان ہے ۔
۳) یہ مفہوم صحابہ، جلیل القدر تابعین اور تبع تابعین کی تفسیر کے خلاف ہے۔ امام طبری اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا قول نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :
قولہ: فألھمھا فجورھا و تقواھا یقول: بین الخیر و الشر
’’ابن عباس ’’فألھمھا فجورھا و تقواھا‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے خیر اور شر کو واضح کر دیا ہے ۔‘‘
امام طبری نے اس آیت کی تفسیر میں یہی رائے حضرت مجاہد، حضرت قتادہ، حضرت ضحاک اور حضرت سفیان سے بھی نقل کی ہے۔ جلیل القدر مفسرین امام طبری ‘اما م قرطبی ‘امام بیضاوی ‘امام سیوطی ‘علامہ زمخشری ‘امام نسفی ‘امام شوکانی‘ امام ابن کثیراورعلامہ ابن عطیہ نے بھی اس آیت کا وہی مفہوم بیان کیا ہے جو صحابہ اور تابعین کے حوالے سے اوپر بیان ہوچکا ہے۔
غامدی صاحب کا اپنے اصولوں سے انحراف
جس طرح غامدی صاحب کا اصول فطرت غلط ہے، اسی طرح بعض مقامات پر اس اصول کی تطبیق میں انھوں نے اپنے ہی وضع کردہ اس اصول سے انحراف بھی کیا ہے ۔اس کی ایک مثال ہم یہاں پیش کرتے ہیں۔
مردوں کو اللہ تعالیٰ نے جس فطرت پر پیدا کیاہے، اس میں ڈاڑھی بھی شامل ہے ۔کسی چیز کی فطرت سے مراد اس کی وہ اصل تخلیق ہے جس پر اس کو پید اکیا گیا ہے۔ مردوں کو اللہ تعالیٰ نے جس حالت پر پید اکیا ہے، اس میں یہ بھی ہے کہ ان کے چہرے پر ڈاڑھی کے بال ہوتے ہیں جبکہ عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے جس فطرت پر پیدا کیاہے، وہ یہ ہے کہ ان کے چہرے پر بال نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کی تخلیق میں یہ فطری فرق رکھا ہے۔ ڈاڑھی غامدی صاحب کے اصول فطرت سے ثابت ہے، لیکن غامدی صاحب نے اپنی ہی فطرت اور اپنے اصول فطرت دونوں کی مخالفت اختیار کرتے ہوئے ڈاڑھی کو دین سے خارج قرار دیا۔ ڈاڑھی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ا لمورد کے ایک اسکالر لکھتے ہیں :
’’ڈاڑھی انسانی فطرت ہے۔ آُ پؐ کا ارشاد ہے :عشر من الفطرۃ قص الشارب و اعفاء اللحیۃ و السواک واستنشاق الماء و قص الأظفار وغسل البراجم ونتف الابط وحلق العانۃ وانتقاص الماء قال زکریا قال مصعب ونسیت العاشرۃ الا أن تکون المضمضۃ (صحیح مسلم ‘کتاب الطہارۃ ‘با ب خصال الفطرۃ )
’’دس چیزیں فطرت میں سے ہیں: مونچھوں کو کاٹنا ‘ ڈاڑھی کو چھوڑنا ‘مسواک کرنا‘ناک میں پانی چڑھانا‘ ناخنوں کو کاٹنا ‘انگلیوں کے جوڑوں کا خلال کرنا‘بغل کے بال اکھیڑنا ‘زیر ناف کے بال مونڈنا‘اور استنجا کرنا۔زکریا نے کہا کہ مصعب نے کہا کہ میں دسویں چیز بھول گیا اور میرا خیال ہے کہ وہ کلی کرنا ہے ۔‘‘
اس حدیث میں ڈاڑھی رکھنے کو فطرت قرار دیا گیا ہے ۔تمام انبیا کی ڈاڑھی تھی، اس لحاظ سے ڈاڑھی انسانی فطرت ہونے کے ساتھ ساتھ تمام انبیا کی سنت بھی ہے ۔ابن حجر ؒ ‘فطرت کی تشریح میں امام بیضاوی کا قول نقل کرتے ہیں :
قال ھی السنۃ القدیمۃ التی اختارھا الأنبیاء واتفقت علیھا الشرائع وکأنھا أمر جبلی فطروا علیھا (صحیح بخاری مع فتح الباری‘کتاب اللباس ‘باب قص الشارب)
’’امام بیضاوی کہتے ہیں کہ فطرت سے مراد وہ سنت قدیمہ ہے جسے تمام انبیا نے اختیار کیا ہے اور جس پر تمام شریعتوں کا اتفاق ہو۔ گویا کہ فطرت ایک ایسا جبلی معاملہ ہے کہ جس پر انسانوں کی پیدائش ہوئی ہے ۔‘‘
ڈاڑھی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ا لمورد کے ایک ریسرچ اسکالر لکھتے ہیں :
’’عام طور پر اہل علم ڈاڑھی رکھنا ضروری قرار دیتے ہیں ‘تا ہم ہمارے نزدیک ڈاڑھی رکھنے کا حکم دین میں کہیں بیان نہیں ہوا، لہٰذا دین کی رو سے ڈاڑھی رکھنا ضروری نہیں ہے ۔البتہ اس معاملے میں اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے برعکس مردوں کے چہرے پر بال اگائے ہیں اور یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ڈاڑھی رکھنا اپنے لیے پسند کیا۔‘‘
یہ عبارت اس لحاظ سے قابل غور ہے کہ ایک طرف تو اس میں کس ڈھٹائی کے ساتھ اس بات کا دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ڈاڑھی رکھنے کاحکم دین میں کہیں بھی بیان نہیں ہوا، حالانکہ بیسیوں احادیث ایسی ہیں جن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین ‘ یہود اور مجوسیوں کی مخالفت میں مسلمانوں کو ڈاڑھی چھوڑنے کا حکم دیا ہے ۔کیا حدیث ‘دین نہیں ہے ؟اگر غامدی صاحب ڈاڑھی کی احادیث کو اس بنا پر رد کر رہے ہیں کہ ان کے نزدیک حدیث سے دین ثابت نہیں ہوتا تو ڈاڑھی تو ان کے اصول سنت سے بھی ثابت ہے اورا صول فطرت سے بھی۔ دوسری طرف المورد کے مفتی صاحب اس بات کا بھی اقرار کر رہے ہیں کہ مردوں اور عورتوں میں ایک بنیادی فرق ڈاڑھی کا بھی ہے جو کہ پیدائشی اور فطری فرق ہے ۔تعجب ہے اس انداز فکر پر!جب چاہتے ہیں اپنے مزعومہ افکار کی تائید کے لیے اصول وضع کر لیتے ہیں اور اپنی خواہش نفس کی تکمیل کے لیے جب چاہتے ہیں ‘اپنے ہی وضع کردہ اصولوں کی بھی مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔