جمہوریت کو رائے عامہ کی حکومت کہا جاتاہے اور موجودہ دور میں رائے عامہ کی تشکیل اور اظہار میں سیاسی جماعتوں کا کردار نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ ’’ اکثریت کی حکومت‘‘ کے اصول پر عملدرآمد سیاسی جماعتوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ جمہوری سیاسی نظام میں سیاسی جماعتوں کی تقریباً وہی حیثیت ہوتی ہے جو انسانی جسم میں دوڑتے ہوئے خون کی ہے۔ جس طرح جسدِ انسانی کی صحت کا دارومدار خون پر ہوتا ہے، بالکل اسی طرح جمہوری نظام کی کامیابی اور مستقبل کا انحصار سیاسی جماعتوں کی استعداد کار اور تنظیم و قیادت پر ہوتاہے۔ اسی لیے ماہرین سیاست جدید جمہوریت کی کامیابی کے لیے سیاسی جماعتوں کے وجود کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔ منرو(Munro) کہتاہے: ’’آزاد سیاسی جماعتوں کے ذریعے حکومت دراصل جمہوری حکومت کا دوسرا نام ہے۔ سیاسی جماعت، یکساں خیالات، متفقہ منشور اور حصول اقتدار کے بعد ملک و قوم کی خدمت دراصل ایک ہی سلسلے کی کڑیا ں ہیں ۔‘‘
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی تعداد ایک سو سے زائد ہے، تاہم ان میں سے اکثر پر سیاسی جماعت ہونے کا ’’الزام‘‘ لگانا بھی مشکل ہے اور پھر قومی سطح کی شناخت اور ملکی سیاست پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت سے مالا مال سیاسی جماعتیں تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ موجودہ سیاسی جماعتوں میں پیپلز پارٹی ملک کی بڑی اور وفاقی سیاسی جماعت ہونے کی دعوے دار ہے۔ آئندہ سطور میں ہم پیپلز پارٹی کی مختصر تاریخ، اس کی قیادت، اس کے اثرات و کارکردگی اور ملکی سیاست و جمہوریت میں اس کے کردار کا جائزہ لیں گے ۔
ذوالفقار علی بھٹو اپنے عہد کی اہم، غیر معمولی صلاحیتوں کی مالک اور متنازعہ سیاسی شخصیت تھے۔ شروع میں وہ خود کو بھارتی شہر ی تصور کرتے تھے۔ وہ ۱۹۴۷ ء میں بھارت کے پاسپورٹ پر امریکہ گئے۔ انہوں نے متروکہ املاک کے کسٹوڈین کی عدالت میں دائر مقدمے میں اقرار کیا کہ وہ بھارتی شہری ہیں۔ جولائی ۱۹۴۹ ء تک بھٹو کو پاکستانی پاسپورٹ بھی جاری نہ ہوا تھا۔ اسکندر مرزا نے جب انہیں ایوب خاں کی کابینہ میں شامل کیا تو انہوں نے جائیداد کے بارے میں اپنا دعویٰ واپس لیا۔ وہ ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ میں ممبر اور جنرل سیکرٹری رہے۔ ابتدا میں ہی انہوں نے کنونشن مسلم لیگ میں فارورڈ بلاک بنا کر اس پر قبضہ کرنے کی کوشش بھی کی اور پھر کونسل مسلم لیگ کا ممبر بن کر وہ مسلم لیگ کے دھڑوں کو متحد کرنے کے امکانات پر بھی غور کرتے رہے۔ معاہدہ تاشقند پر اختلاف کے بعد اپنے سیاسی گارڈین ایوب خاں کی کابینہ سے ۱۹۶۶ ء میں مستعفی ہوگئے اور انتقام کے جذبے سے مغلوب ہو کر ان پر تنقیدی حملے شروع کر دیے۔ یہاں تک کہ نومبر ۱۹۶۶ ء میں بھٹو نے مجیب الرحمن کے چھ نکاتی پروگرام کی حمایت کے اظہار کے لیے مشرقی پاکستان کا دورہ کیا، حالانکہ بطور وزیر خارجہ انہوں نے خود مختاری کی اسی اسکیم کو قوم دشمن قرار دیا تھا۔ لارنس زائرنگ کے مطابق ’’ بھٹو جانتے تھے کہ ایوب بالآخر اپنے عہدے سے سبکدوش ہو جائیں گے، چنانچہ وہ خم ٹھونک کر اس شخص کے مقابل آگئے جس کی وہ آٹھ برس تک ملازمت کرچکے تھے ۔‘‘ کچھ عرصہ تک حالات کا جائزہ لینے کے بعد انہوں نے ایک سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ وہ کسی دوسری سیاسی جماعت، اس کی قیادت اور منشور و کارکردگی سے مطمئن نہ تھے۔ وہ ایک ایسی سیاسی جماعت بنانا چاہتے تھے جوان کے ذاتی فلسفے کی تشہیر کا ذریعہ بن سکے اور جس کے ساتھ ماضی کے واقعات اور شخصیات کا کوئی سابقہ اور لاحقہ نہ ہو۔ انہوں نے اکتوبر ۱۹۶۷ ء میں پیپلز پارٹی بنانے کا اعلان کیا۔ ۳۰ نومبر سے یکم دسمبر ۱۹۶۷ء تک لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ پر بھٹو کی قیادت میں قومی کنونشن منعقد ہوا۔ جے اے رحیم، عبد الحفیظ پیر زادہ، شیخ عبدالرشید، یحییٰ بختیار، معراج محمد خاں، تاج محمد لنگاہ ، ممتاز بھٹو، محمود علی قصوری، حنیف رامے، حیات محمد خان شیر پاؤ، غلام مصطفی کھر، مختار رانا، خورشید حسن میر، کامریڈ غلام محمد، حامد سرفراز، ملک نوید احمد، احمد خاں وغیرہ اس میں شامل ہوگئے۔ ۱۶ دسمبر ۱۹۶۷ء کو حیدر آباد میں حزب اختلاف کے راہنما میر رسول بخش تالپور کی رہائش گاہ پر پارٹی باقاعدہ تشکیل دی گئی۔ بلا
شبہ پیپلز پارٹی کے قیام کے وقت بھٹو ملک کے سب سے مقبول اور مسلمہ سیاسی راہنما تھے۔ ایوب خاں کے زوال میں ان کا کردار کلیدی تھا۔ ’’اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت اور عوام قوت کا سرچشمہ‘‘ کے پارٹی نعرے سے عوامی سوچ کی عکاسی ہوئی۔ اس تصور نے عام آدمی سے لے کر دانشوروں تک کو اپنے سحر میں لے لیا اور ایوب حکومت سے مایوس لوگ بھی پیپلز پارٹی کی طرف دیکھنے لگے۔ نومبر ۱۹۶۸ء میں بھٹو کو حراست میں لے لیا گیا۔ تب سے مارچ ۱۹۶۹ء تک بھٹو کی کرشماتی لیڈر شپ نے اپنے سابق مربی کے خلاف عوامی شورش کو منظم اور پارٹی کو مزید مقبول بنا یا۔ ایوب نے بھٹو کی رہائی کا حکم دے دیا تاکہ سنجیدہ مذاکرات میں حصہ لے سکیں، مگر پی پی پی کے راہنما صدر سے بھٹو کی ملاقات کے بارے متذبذب تھے کہ اس طرح ایوب کے ہاتھ مضبوط ہوں گے اور اقتدار کو طول ملے گا۔ ۲۵ مارچ ۱۹۶۹ء کو ایوب کے سبک دوش ہونے اور اقتدار جنرل یحییٰ خاں کے سپرد ہونے کا اعلان ہوا ۔ پھر جب یہ اعلان ہوا کہ عام انتخابات اکتوبر ۱۹۷۰ء میں کرائے جائیں گے تو ۲۵سیاسی جماعتوں نے قومی اسمبلی کے لیے پہلے عام انتخابات کی مہم کا بھرپور آغازکیا۔ تین سو منتخب نشستوں کے لیے ۱۵۷۰؍ امیدوار میدان میں آگئے۔ ان انتخابات کا درد ناک پہلو یہ ہے کہ یہ الیکشن نہ تو مسلمہ قانونی راہنما اصولوں کے تحت کرائے گئے اور نہ ہی ان میں حصہ لینے والی سیاسی تنظیموں کے درمیان کوئی افہام و تفہیم موجود تھی۔ یہ الیکشن ۱۹۶۲ء کا دستور منسوخ ہونے کے بعد سیاسی و فوجی ٹولے کے حکم پر کرائے گئے اور ان کا مقصد ایک نیا سیاسی نظام وضع کرنے کی بجائے ایوب خاں کے سیاسی نظام کے خاتمے کی توثیق کرنا تھا۔ سیلاب کی وجہ سے پولنگ کی تاریخیں قومی اسمبلی کے لیے ۷دسمبر اور صوبائی کے لیے ۱۷ دسمبر طے ہوئیں۔ پی پی پی نے قومی اسمبلی کے لیے مشرقی پاکستان سے کوئی امیدوار کھڑا نہ کیا جبکہ مغربی پاکستان میں ۱۱۹؍ امید وار کھڑے کیے۔ بھٹو نے انتخابی مہم کے دوران طلبہ، وکلا اور مخصوص شعبوں سے تعلق رکھنے والے گروہوں پر انحصار کیا جو ایوب حکومت کے خلاف چلنے والی تحریک میں پیش پیش تھے۔ پیپلز پارٹی کو بشیر بختیار کی پاکستان لیبر پارٹی جیسی منظم مزدور تحریک کی پشت پناہی کے علاوہ پاکستان پریس ورکرز یونین، تانگہ اور ٹیکسی ڈرائیور یونینوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ پی پی پی کی انتخابی مہم میں مقبولیت کی وجہ اس کا دلکش نعرہ ’’ روٹی کپڑا اور مکان‘‘ تو تھا ہی، مہاجروں اور پنجابیوں کی دلچسپی کی وجہ بھارت کے خلاف بھٹو کا غیر مصالحانہ رومانوی رویہ تھا۔ انتخابی مہم میں بھٹو نے بھارت کے خلاف ہزار سال تک جنگ کرنے کی باتیں کی تھیں۔ نومولود پارٹی ہونے کی وجہ سے بھٹو کو موجود پاور سٹرکچر سے مصالحت بھی کرنا پڑی۔ سوشلسٹ نظریات کے باوجود پارٹی نے سندھ میں پیروں اور وڈیروں کو ساتھ ملایا۔ اسے پیر آف ہالہ شریف اور پیر رسول شاہ آف تھرپار کر جیسے گدی نشینوں کے ساتھ ساتھ تالپوروں، جتوئیوں اور جام صادق جیسے وڈیروں کی مدد بھی لی۔ پنجاب میں نون ، گیلانی اور قریشی خاندانوں پر مشتمل جاگیردار پارٹی میں شامل ہوگئے، اسی طرح جیسے یہ وڈیرے ماضی میں یونینسٹ پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہو ئے تھے۔ پنجاب اور سندھ کے پس ماندہ دیہی علاقوں میں جاگیرداروں کی حمایت حاصل کرنے او ر وسطی پنجاب اور نہری اضلاع میں چھوٹے کاشتکاروں، مزارعوں اور بے زمین کسانوں کی توجہ حاصل کرنے کی دوہری پالیسی نے پیپلز پارٹی کی انتخابی کامیابی کو یقینی بنایا۔ الیکشن نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی نے حکومتی حمایت یافتہ قیوم لیگ اور مذہبی جماعتوں کو پچھاڑ کر نمایاں کامیابی حاصل کی اور قومی اسمبلی میں دوسری بڑی اکثریتی جماعت بن کر ابھری اور مغربی پاکستان کی ۱۳۸ میں سے ۸۱سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ بعد ازاں خواتین اور دوسری نشستیں ملا کر اس کی سیٹوں کی تعداد ۸۸ہوگئی ۔ زیادہ کامیابی پنجاب میں ملی جہاں سے ۶۲ نشستیں ملیں۔ ایک کے سوا باقی سیٹیں سندھ سے ملیں ۔ اگرچہ مغربی پاکستان میں وہ اکثریتی جماعت تھی، مگر اسے قومی اسمبلی کے لیے ڈالے جانے والے ووٹوں کا صرف ۵ء۱۹فیصدی یعنی ۵/۱ حصہ ووٹ ملے تھے۔
الیکشن کے بعد حالات نے ڈرامائی انداز اختیار کر لیا۔ زائرنگ کا خیال ہے کہ اگر بھٹو عاجزی و انکساری کا مظاہر ہ کرتے اور خود پر قابو رکھتے تو مجیب الرحمن ان کی ناگزیر جانشینی کے لیے راستہ ہموار کر دیتے۔ قواعد کے مطابق مجیب الرحمن حکومت کی ذمہ داریاں سنبھال لیتے تو پاکستان کے سیاسی عمل کی ابتر حالت کے پیش نظر وہ یقیناًزوال پذیر ہو جاتے اور بھٹو ان کے جانشین بن جاتے۔ اگر بھٹو صبر و تحمل کا مظاہر ہ کرتے تو وہ برسر اقتدار آ جاتے۔ اس طرح ملک ایک خوفناک خانہ جنگی اور اس قومی تذلیل سے بچ جاتا جس کا اسے ملک کے دو لخت ہونے کی صورت میں سامنا کرنا پڑا ۔ انوار ایچ سید کا خیال ہے کہ ’’وہ طویل عرصے سے فوج سے پینگیں بڑھا رہے تھے اور انہوں نے فوج کے ساتھ قربت کو پارٹی پر ترجیح دی۔ ‘‘ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے فوراً بعد ہی پی پی پی کی صفوں میں شگا ف پڑنا شروع ہو گئے۔ ممتاز قانون دان احمد رضا قصوری نے یحییٰ خان کی طرف سے قومی اسمبلی کا اجلاس ۳مارچ کو بلانے کا فیصلہ نظر انداز کرنے پر بھٹو کی مخالفت کی، اسی لیے بعد ازاں وہ بھٹو کے غضب کا نشانہ بھی بنے ۔
۱۶؍دسمبر ۱۹۷۱ء کوسقوط مشرقی پاکستان کے بعد بھٹو نے آرمی ہیڈ کواٹرز میں شکست خوردہ جرنیلوں سے ملاقات کی جس کے نتیجے میں ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے تقریباً ۲سال بعد اور جرنیلی جمہوریت کے تقریباً چودہ سال بعد جرنیل، اقتدار پیپلز پارٹی کے راہنما بھٹو کے سپرد کرنے پر تیار ہوگئے۔ ممتاز دانشور حمزہ علوی کے الفاظ میں ’’ستم تو یہ ہے کہ اگرچہ بھٹو (مغربی) پاکستان میں اکثریتی جماعت کا راہنما تھا، اس کے باوجود جمہوری عمل کے ذریعے اقتدار پر فائز نہ ہوا ، بلکہ شکست خوردہ فوج نے اسے منصب حکمرانی سے سرفراز کیا۔ ۲۰ دسمبر ۱۹۷۱ء کو فوج نے بھٹو کا صدر کی حیثیت سے تقرر کیا۔ صدر کے ساتھ ساتھ بھٹو کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ بھی تفویض ہوا ۔ یہ دونوں عہدے اس سے قبل جنرل یحییٰ کے پاس تھے ۔ بھٹو کو انتقالِ اقتدار دراصل ایک فوجی انقلاب (coup-detat) تھا کیونکہ نو منتخب شدہ قومی اسمبلی کا اس انتقال اقتدار میں کوئی حصہ نہ تھا۔ دراصل بھٹو کو امریکہ کے حمایت یافتہ دو جرنیلوں کی پشت پناہی حاصل تھی جن کی مدد سے وہ اس رتبے تک پہنچے۔ ایک جنرل گل حسن اور دوسرا ایئر مارشل رحیم خاں تھا۔ صاف ظاہر ہے، بھٹو کو دو عہدے دیے گئے تھے لیکن تیسرا یعنی فوج کے کمانڈر انچیف کا عہدہ تو اسے کسی صورت نہیں دیا جاسکتا تھا، لہٰذا یہ جنرل گل حسن کے حصے میں آیا۔ اس تمام تر کارروائی کو امریکی حمایت حاصل تھی۔ جب یہ کارروائی ہو رہی تھی، اس وقت بھٹو اقوام متحدہ میں بنگلہ دیش پر ہونے والے مباحثے میں شریک تھے۔ واشنگٹن میں بھٹو نے صدر نکسن اور سیکرٹری آف سٹیٹ راجرز سے بھی ملاقات کی اور وہاں سے کلیرنس مل جانے پر بھٹو کو فوج نے پاکستان کا سربراہ حکومت بننے کی دعوت دی۔‘‘ تاہم ایک خیال یہ بھی ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے افسوس ناک اور دشوار دنوں میں ایک شکست خوردہ اور شکستہ قوم کی حکومت کی سربراہی کے لیے قومی سطح کے وہی واحد سیاسی لیڈر باقی رہ گئے تھے، چنانچہ بھٹو نے خلفشار کو روکا اورممکنہ انتشار کا سدباب کیا۔ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں جو تبدیلیاں ہورہی تھیں، ان کو بھٹو نے بڑی تیزی سے بھانپ لیا اور ان ممالک میں پاکستان کی حیثیت میں اضافہ کیا جبکہ کچھ مورخ یوں بھی بیان کرتے ہیں کہ اگر کسی قوم کی ذلت اور کم حوصلگی سے کسی لیڈر نے کبھی فائدہ اٹھا یا ہے تو وہ بھٹو تھے۔ اقوام عالم کی جدید تاریخ میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالنے والے وہ پہلے سویلین تھے ۔ بھٹو نے یہ عہدہ حاصل کر کے پہلے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح پر بھی سبقت حاصل کر لی۔ بھٹو نے اپنے مطلق اختیارات کو پاکستان کی تشکیل نو کے لیے کس طرح استعمال کیا، اس کا مکمل احاطہ یہاں ممکن نہیں ۔
نامور دانشور اقبال احمد کے الفاظ میں بھٹو کے کارنامے ، ملکی سیاست میں ان کی کوتاہ اندیشی کے بالکل برعکس تھے ۔ وہ صدر بن کر طاقت کے نشے میں بدمست ہو گئے اور ان کے اقتدار نے مطلق العنانی اورشخصی حکومت کا روپ دھار لیا۔ پیپلز پارٹی کی تنظیم کو محض ثانوی حیثیت حاصل ہو کر رہ گئی جس سے پارٹی تیزی سے ایک ایسا کمزور ادارہ بن گئی جس میں اختلاف رائے کو سختی سے دبا یا جاتاتھا ۔ اقتدار میں آنے کے بعد پی پی پی پاکستان کے سابقہ سیاسی نقشے کو ختم کرنے میں ناکام رہی ۔ پارٹی بنانے کا کام منتخب اداروں اور باقاعدہ ڈھانچوں کے ساتھ آگے بڑھنے کی بجائے سر پرستی کے انداز میں آگے بڑھایا گیا۔ اس سے گروہ بندیاں شروع ہو گئیں۔ بائیں بازو کے عناصر اور بھٹو کے درمیان خلیج پیدا ہوگئی۔ بائیں بازو کے عناصر پارٹی تنظیم کی اہمیت پر زور دیتے تھے، لیکن بھٹو شخصیت پر ستی کے خواہاں تھے ۔ پیپلز پارٹی کے قائد بھٹو کی ذات کے تضادات بے وجہ نہیں تھے۔ وہ ایک عبوری طبقے کی پیداوار تھے۔ ہمہ جہت شخصیت، جاگیرداری کے پروردہ ، بورژ وا طبقے کی تعلیم کے حامل، سیاست میں فوجی آمر کی پیداوار، اور ایک خو د ساختہ سوشلسٹ۔ وہ اپنے آپ کو سو ئیکارنو اور نکرومہ، اتاترک اور جمال عبدالناصر کی طرح ہیرو کے قالب میں ڈھلا ہوا محسوس کرتے تھے، حالانکہ نہ وہ ان کی طرح نادار گھر میں پیدا ہوئے اور نہ قربانیاں دیں۔ ا قبال احمد کے خیال میں بے لگام نخوت ، نظریے کا وزن ، اقتدار کا سودا ،اور سیاسی عمل کے سلسلے میں بے بصیرتی کے حامل بھٹو نے ایسی پالیسیاں اختیار کیں جو ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوئیں۔ رچرڈ نکسن کے ساتھ ان کا تقابل بالکل درست ہو گا۔ نکسن کی طرح بھٹو طاقت کے حصول کی طبعی خصوصیات رکھتے تھے اورموقع شناسی کی ایک پُر اسرار حِس بھی۔ نکسن کی طرح وہ بھی ہر قیمت پر کامیابی چاہتے تھے، لیکن اس جواری کی طرح جو داؤ پر کچھ بھی لگانا نہیں چاہتا ۔
پیپلز پارٹی بھی اپنے قائد کی طرح عبوری دور کی پیداوار تھی۔ نظریاتی موقع پرستی پر مبنی بظاہر جدید، اندروں جاگیردارانہ۔ بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ پارٹی کی یہ متضاد کیفیت ہی بھٹو کے مربیانہ انداز کے لیے موزوں تھی۔ اسی لیے تنظیمی حوالے سے پارٹی کے چیئر مین نے سستی دکھائی اور ۱۹۷۶ء تک صوبوں کے تنظیمی دورے نہ کیے جن کے بعد ڈویژنل سطح پر کنونشن منعقد ہوئے۔ مکمل تنظیم نو آخر کار دسمبر ۱۹۷۶ء میں ہوئی، لیکن اس میں بھی انحصار مؤثر ادارہ سازی کی بجائے ذاتی وفاداریوں پر کیا گیا۔ بھٹو نے خود تمام اعلیٰ عہدیدار منتخب کیے۔ سیکرٹریٹ سے لے کر ضلعی تنظیموں بلکہ ان سے بھی نچلی سطح تک کے عہدیداروں کا تقرر اپنی پسند سے کیا۔ اس سے فیصلہ سازی مکمل طور پر مرکز کے تابع ہو گئی اور بھٹو نے بھی پیپلز پارٹی کو اسی طرح ذاتی تنظیم بنا دیا جس طرح اندرا گاندھی نے بھارتی کانگرس کو بنا دیا تھا۔ آئن ٹالبوٹ کے خیال میں بھٹو کی ذاتی ہدایا ت کے مطابق پارٹی کی تشکیل نونے ایک ایک کر کے بانی ارکان کو کنارے لگا دیا۔ تخلیقی سوچوں کی جگہ چاپلوسی نے لے لی تاکہ پارٹی کی ہائی کمان کی خوشنودی حاصل رہے، یہاں تک جے اے رحیم جیسے بانی ارکان جنہوں نے پیپلز پارٹی کی اساسی دستاویز تحریر کی تھی، ۱۹۷۴ء میں خود کو الگ تھلگ محسوس کرنے لگے۔ انہوں نے پارٹی امور نمٹانے میں بھٹو کے انداز کی مخالفت کی اور ان کے انتقام کا نشانہ بنے۔ احمد رضا قصوری نے پارٹی کے فاشسٹ کردار پر نکتہ چینی کی اور گرفتار ہو کر پانچ سال سزا کے مستحق ٹھہرے۔ اسی طرح معراج محمدخاں نے تنقید کی اور جیل کی کوٹھڑی میں پہنچ گئے۔ بھٹو نے اسی طرح کے عمل کو روکنے کے لیے ۳۰ پارٹی ممبران کو قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا حکم دیا اور ان کے ساتھ ۲۰؍ اراکین اور شامل ہو گئے تو ایف ایس ایف کے ذریعے ان کا تعاقب کیاگیا۔ پی پی پی میں کچھ گروہی اختلافات ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم پر ہی ہوگئے تھے۔ پنجاب کے صدر شیخ رشید اور جنرل سیکرٹری غلام مصطفی کھر کے درمیان محاذ آرائی بعد میں بھی جاری رہی۔ ۱۹۷۳ء کے شروع میں ہی شیخ رشید کے حامیوں کو پارٹی سے نکال دیاگیا۔ جورہ گئے، ان کے خلاف انکم ٹیکس کے مقدمات درج کرا دیے گئے۔ پھر قدامت پسند وزیر اطلاعات کوثر نیازی اور ترقی پسند وزیر معراج محمد خاں کے درمیان نظریاتی اختلافات تھے۔ سندھ میں جام صادق اور رسول بخش تالپور تھے، جبکہ سرحد میں ہمایوں سیف اللہ اور حبیب اللہ خان کے درمیان بنوں میں اور مردان میں عبدالصمد خاں اور عبدالرزاق خاں کے درمیان گروہ بندی تھی ۔ اس طرح کی ذاتی دشمنیاں جلد ہی باقاعدہ تصادم میں بدل گئیں۔ انوار ایچ سید کے مطابق بھٹو نے ۱۶؍اگست ۱۹۷۳ء کو اپنے نوٹ میں لکھا کہ ’’ہمارے دائیں بائیں آگے پیچھے بندوقیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پارٹی کا ماٹو ہی یہی ہے۔ انتہائی معمولی باتوں کے لیے پستول نکال لو اور بے دریغ استعمال کرو‘‘۔ مزدور لیڈروں کو ان کے دفاتر میں قتل کیاگیا۔ بلوچستان اسمبلی کے سپیکر اور اپوزیشن کے ایک رکن کو گولی مار دی گئی۔ NAPکے عبدالصمد اچکزئی کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ مولوی شمس الدین اورخواجہ رفیق کا قتل ہوا۔ جماعت اسلامی کے کئی عہدیداروں کو قتل کر دیا گیا۔ ولی خاں اور اصغر خاں متعدد قاتلانہ حملوں میں بال بال بچے۔ پیپلز پارٹی کی کمزوری کے باعث پورے ملک میں سیاسی تشدد کی وارداتیں شروع ہو گئیں۔ سیاسی قتل روز مرہ کا معمول بن گئے حتیٰ کہ پارٹی کارکنوں کے جھگڑے معمول بن گئے۔ فروری اور مئی ۱۹۷۲ء کے درمیان لاہور ، گوجر خاں ، وزیر آباد ، گوجرانوالہ اور وہاڑی میں سنگین گروہی تصادم ہوئے۔ کراچی پارٹی سیکرٹریٹ پر ناراض کارکنوں نے قبضہ کرلیا ۔ انوار سید نے پی پی پی سیکریٹریٹ کی فائلوں کی چھان بین کے بعد تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ ایسا ظاہر ہوتاہے کہ بھٹو پی پی پی کے ساتھ مخلص نہیں تھے۔ انہوں نے اس تنظیم کو محض حصول اقتدار کا ذریعہ بنایا تھا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بھٹو خود کو پارٹی سیاست سے برتر سمجھتے تھے اور اگرچہ خانہ جنگی کے بعدکے پاکستان میں پارٹی کارول جاری رکھنے کے لیے تیارتھے، لیکن انہوں نے پارٹی کو اپنے اجزائے ترکیبی کے محو کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ اس سے سماج میں بامعنی تبدیلی کے خواہاں نوجوان بھٹو سے بد دل ہونا شروع ہو گئے۔ بھٹو نے سماجی اور اقتصادی اصلاحات سیاسی بنیادیں تعمیر کیے بغیر نافذ کیں چنانچہ یہ پارٹی کے لیے حامیوں میں اضافہ کرنے کی بجائے دشمنوں میں اضافہ کرنے کا ذریعہ بن گئیں۔ فوج، جو المیہ مشرقی پاکستان کے بعد ابتری کی حالت میں تھی، بلوچستان میں سیاسی استعمال سے ایک بار پھر عوامی زندگی میں داخل ہو گئی۔ جس طرح تیز تر سماجی و اقتصادی تبدیلیوں نے ایوب خان کی کنٹرولڈ ڈیمو کریسی کے تجربے کو ناکام بنایا تھا، اسی طرح عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں نے بھٹو کے عوامی جمہوری تجربے کو بھی نقصان پہنچایا۔ ڈاکٹر محمد وسیم کے خیال میں ’’حکومت کی طرف سے قیمتوں میں اضافے پر قابو پانے میں ناکامی نے اس کی سیاسی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا کیونکہ مہنگائی کا سب سے زیادہ اثر پیپلز پارٹی کے حامی زیریں طبقات پر پڑا‘‘۔
پیپلز پارٹی نے تاریخ کے اس تصور کے ساتھ اقتدار سنبھالا تھا کہ مستقبل کا پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کا پاکستان ہو گا مگر اسے بدقسمتی کے سوا کیا کہیے کہ بھٹو پاکستان کی حالت بدلنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ اس کی کلیدی وجہ یہ تھی کہ وہ پیپلز پارٹی کی تشکیل نو کر کے اسے ایسا سیاسی ادارہ نہ بنا سکے جس میں وہ اپنی حاکمیت کو منتقل کرتے۔ مسلم لیگ کی طرح پیپلز پارٹی بھی خود کو ایک عوامی تحریک سے ایک جدید حکومتی سیاسی جماعت میں تبدیل نہ کر سکی۔ تنظیمی ڈھانچہ مضبوط کرنے کی بجائے شخصی اثرو رسوخ پر انحصار پارٹی کی مضبوطی کی راہ میں رکاوٹ بنا رہا۔ حالانکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ ایک پارٹی اور اس کی قیادت کو نہ صر ف اقتدار ملا بلکہ اس کا جواز بھی حاصل ہوا جسے بنیاد بنا کر جمہوری روایات پر مبنی مستقبل کی تعمیر ماضی کی نسبت آسان تھی، مگر صد افسوس کہ پاکستان کے اس افسانوی جمہوری شہزادے کے کندھے اتنے چوڑے نہ تھے کہ وہ اس بوجھ کر سہار سکیں جو تاریخ نے ان پر ڈال دیا تھا۔ اس کے باوجود ۱۹۷۱ء کے سانحہ کے بعد شکست خورہ قوم میں خود اعتماد ی بحال کرنا، جنگی قیدیوں کی واپسی، ملک کو ایک جمہوری آئین دینا، کامیاب خارجہ پالیسی اور ایٹمی ری ایکٹروغیرہ پی پی پی کی حکومت کے حاصلات و نمایاں کارنامے ہیں ۔
۷ جنوری ۱۹۷۷ء کو ۲ ماہ میں الیکشن کرانے کا اعلان کر دیا گیا۔ بھٹو نے رفیع رضا کو اپنی انتخابی مہم کا مینیجر بناتے ہوئے انتخابات کے جلد انعقاد کا فیصلہ تو جون ۱۹۷۶ء میں ہی کر لیا تھا۔ یہ عوام کے لیے غیر متوقع بات تھی لیکن الیکشن کی فضا بنتے ہی حیران ہونا بھٹو کے لیے مقدر ٹھہرا کہ وہ اپنی مخالف جماعتوں کے فوری اتحاد پر پریشان ہو گئے۔ ان انتخابات کا جامع تجزیہ ممتاز سکالر M.G.Weinbaum نے ’’ایشین سروے‘‘ کے جولائی ۱۹۷۷ء کے شمارے میں کیا ہے۔ قطع نظر انتخابی تجزیے کے، انتظامیہ نے بھٹو کوواضح کامیابی کا یقین دلایا تھا۔ اس کے باوجود یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ دھونس اور دھاندلی کے لیے گھٹیا اور غیر قانونی ہتھکنڈے کیوں استعمال کیے گئے؟ بھٹو نے خود ایک طرف ماؤزے تنگ جیسا لباس پہننا شروع کیا اور چیئر مین کہلانے لگے، دوسری طرف ملک کے روایتی زمیندار گھرانوں کی سیاسی حمایت حاصل کرنے پر اترآئے۔ وہ زیادہ سے زیادہ بلا مقابلہ کا میابیاں چاہتے تھے جو ان کی غیر جمہوری سوچ کی واضح نشان دہی کرتا ہے ۔ پیپلز پارٹی کو بھاری کامیابی ملی، لیکن قومی اتحاد دھاندلی کے الزامات کے ساتھ سڑکوں پر نکل آیا لیکن بھٹو نے تمام تر دباؤ کے باوجود اقتدار سے چمٹے رہنے کو ترجیح دی۔ لارنس زائرنگ کے مطابق بھٹو پر پاکستانی معاشرے میں ظلم و تشدد کرنے والی طاقتوں کو بے لگام چھوڑنے، ذاتی ہوس کے لیے قوم کو دو لخت کرنے، قومی معیشت کو تباہ کرنے ، اور ملک کے بہترین دماغوں اور جفاکش لوگوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے کے الزامات لگائے گئے۔ یہ تاثر عام تھا کہ اگر اس شخص کو اسی طرح کام کرنے کا موقع دیا گیا تو یہی شخص، جسے خوفناک خانہ جنگی کے زخم مندمل کرنے کا فریضہ سونپا گیا تھا، بچے کھچے پاکستان کو بھی برباد کردے گا۔ قسمت ایک مرتبہ پھر مصروف عمل ہو گئی اور اس نے بھٹو کی جگہ پر ضیاء الحق کو لا بٹھایا ۔ ‘‘
ضیا ء الحق نے ایک سپاہی کی حیثیت سے اس شخص کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی تھی جس نے اسے یہ عہدہ اور مرتبہ دیا تھا۔ بھٹو کے مقابلے میں ضیاء الحق نہایت پر خطر کھیل رہے تھے۔ ایک ایسا کھیل جس میں ان دونوں میں سے صرف ایک کھلاڑی ہی زندہ بچ سکتا تھا۔ ۴؍اپریل ۱۹۷۹ء میں بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ جس طرح یہ ہوا، اس نے بھٹو کو مظلوم بنا دیا ، عوام کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہو گئیں کہ فوج اس لیے ان کو سزا دے رہی ہے کہ انہوں نے ملک کا سیاسی موسم بدل دیا۔ وہ کچلے ہوئے عوامی حقوق کی علامت بن گئے، چنانچہ بھٹو کے قتل کے معنی یہ لیے گئے کہ بھٹو کے سوشلسٹ پروگرام کی عدم تکمیل اور جمہوریت کے خاتمے کی ذمہ دار، فوج اور افسر شاہی ہے۔ بھٹو پاکستان کے پیرون (peron)بن گئے ۔ آئن ٹالبوٹ کا خیال ہے کہ ’’بھٹو کے حامی ان کو چلی کے سلواڈرو آلندے کا ہم پلہ جبکہ ناقدین انہیں ارجنٹائن کے جان پیرون کے مشابہ قرار دیتے ہیں ۔ ‘‘
ضیاء حکومت کا جبر و استبدار، جس میں سیاسی جماعتوں پر پابندی بھی شامل تھی، پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے حوصلے پست کرنے میں ناکام رہا۔ بھٹو کی وفات کے بعد پیپلز پارٹی کی سربراہی بیگم نصرت بھٹو نے سنبھال لی اور بے نظیر شریک چیئر پرسن بن گئیں۔ ضیاء حکومت سے ٹکر لی اور قیدو بند کی مصیبتیں برداشت کیں۔ ۲۴؍اگست ۱۹۸۵ء کو جب بے نظیر انگلینڈ سے اپنے بھائی شاہنواز کی تجہیزو تکفین کے لیے آئیں تو کارکنوں کے جوش و خروش نے ثابت کر دیا کہ پارٹی کی مقبولیت قائم ہے۔ نومبر میں وہ واپس چلی گئیں۔ ضیاء نے ۱۹۸۵ ء میں غیر جماعتی انتخابات کرانے کے لیے جو پالیسی وضع کی، وہ یہ تھی کہ ٹائم میگزین کے بقول ’’ نہ کوئی سیاسی مہم ہو، نہ موضوع، نہ موقف، نہ قومی مسائل پر بحث‘‘۔ اس کے باوجود بے نظیر میدان میں کود پڑنے کو تیار تھیں، لیکن ایم آر ڈی نے ضیا کے بنائے قاعدوں کے مطابق ہونے والے انتخابات میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ نئی حکومت کے بننے کے بعد بے نظیر نے دو سالہ ازخود اختیار کردہ جلا وطنی کے بعد واپس آنے کا فیصلہ کیا تو لندن سے لاہور پہنچنے پر فقید المثال استقبال ہوا۔ ہجوم دیکھ کر فرط و انبساط سے بے نظیر نے کہا تھا کہ ’’ اسی دن ہم اقتدار چھین کر لے سکتے تھے، مگر ہجوم پر تشدد نہیں پر مسرت موڈمیں تھا ‘‘۔ وطن آکر بے نظیر نے جونیجو حکومت سے پہلو بچا کر ضیا کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ یوگو اسلاوی نیوز ایجنسی تانجگ کے نامہ نگار الیگزنڈر سٹانک نے تبصرہ کیا تھا کہ’’ جس طرح بے نظیر کے جلسوں اور جلوسوں کا انتظام کیا جارہا ہے اور جس سیاسی بالغ نظری کا اظہار ہو رہا ہے، اس سے نظر آتاہے کہ یہ تحریک محض جذباتیت پر منحصر نہیں۔ اقتدار میں طاقتور عناصر کی تسلی کے لیے بے نظیر نے اعلان کیا: ’’میں انتقام لینے کے لیے نہیں آئی ہوں ۔‘‘
بے نظیر کے وطن آتے ہی پارٹی میں تنازعات پھوٹ پڑے۔ سب سے پہلے غلام مصطفی جتوئی، جو بھٹو خواتین کی غیر موجودگی میں پارٹی کے سربراہ تھے، علیحدہ ہوئے۔ ان کے خیال میں بے نظیر تمام ’’چاچاؤں ‘‘ سے نجات حاصل کر کے خود قیادت سنبھالنا چاہتی تھیں۔ چھوڑ جانے والے چچاؤں میں حقیقی چچا ممتاز بھٹو بھی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پیپلز پارٹی پنجاب کے ووٹوں پر اتنا زیادہ انحصارکرتی ہے کہ سندھ کے مفادات کی نگہبانی نہیں کر سکتی۔ بے نظیر کو بائیں بازو کے چیلنج کا بھی سامنا تھا۔ پرانے بالشویک ملک معراج خالد، راؤرشید اور شیخ رشید وغیرہ پارٹی کے نئے امریکہ نوازرحجان سے مایوس ہو رہے تھے۔ لندن میں لیبر پارٹی کے نیل کینک سے گفتگو میں بے نظیر نے کہا تھا کہ ’’ان کے لیے یہ بڑا مسئلہ تھا کہ اپنی پارٹی کو بائیں بازو کے بدلے میانہ روی تک لائیں اور ایسا سیاسی موقف اختیار کریں جو چل جائے۔‘‘ بے نظیر نے ملک بھر کا دورہ کیا ، کارکنوں کو متحرک کر کے تنظیم نوکی اور آسانی سے مذکورہ مشکلات پر قابو پا لیا۔ وہ بآسانی پارٹی کی راہنما بن گئیں۔ نظریاتی حوالے سے انہوں نے ہوا کے مخالف رخ پر چلنے کی بجائے حقیقت پسندانہ رویہ اپنا لیا۔ حمزہ علوی کے مطابق ۱۹۸۴ ء میں امریکہ کے دورے کے دوران بے نظیر کو موثر حمایت کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ ۱۵نومبر ۱۹۸۸ء کو گارڈین نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ پی پی پی کی صفوں میں درآنے والی حقیقت پسندی کا نتیجہ مایوسی اور پارٹی نفاق تھا۔ اس کا پرانا انداز تخاطب نئی عملیت پسندی میں بدل گیا۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر رضا مندی ، امریکہ کی علاقائی ترجیحات کی تائید اور سب سے بڑھ کر فوج سے مفاہمت اور اس کی بالادستی کو تسلیم کر لینا اس کے راہنما اصول قرار پائے ۔ ‘‘ بے نظیر نے فوج کو خوش رکھنے کی کوششوں کا آغاز کر دیا، حتیٰ کہ اقبال اخوند کے الفاظ میں ’’وہ ضیا کی ماتحتی میں بھی وزیر اعظم بننے پر آمادہ تھیں۔ کیا یہ ان کی حقیقت پسندی کی انتہا تھی جس کی علامات جا بجا عیاں تھیں؟‘‘
۱۷؍اگست ۱۹۸۸ء کو ضیا ء الحق حادثے کا شکار ہوئے تو فوج نے انتقال اقتدار کے لیے انتخاب کی حمایت کر دی ۔ ان انتخابات کے لیے پارٹی ٹکٹوں کے اجرا میں آصف زرداری نے ہاتھ دکھایا۔ ممتاز صحافی حسن مجتبیٰ کا دعویٰ ہے کہ پیپلز پارٹی کا انتخابی ٹکٹ حاصل کر نے کے لیے ایک ہی معیار تھا کہ امید وار زرداری سے وابستگی رکھتا ہو یا پھر پارٹی فنڈ کے لیے ۲۰ لاکھ سے ۵۰لاکھ روپے مہیا کرے۔ ویسے بھی سعید شفقت کے خیال میں بے نظیر نے اپنی پارٹی کو جمہوری مزاج دینے اور مضبوط بنانے میں بہت کم دلچسپی لی۔ ساز گار فضا کے باوجود نتائج نے سب کو حیران کر دیا۔ پیپلز پارٹی کو اتنے ووٹ نہیں ملے کہ حکومت چاندی کے طشت میں رکھ کر انہیں پیش کر دی جاتی۔ وہ سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کر پائی ۔
بے نظیر نے حقیقت پسندی سے انتخابی مہم کا اختتام کرتے وقت کہا کہ ’’ پاکستان کی موجودہ حالت میں فوج کی مکمل حمایت کے بغیر سویلین حکومت قائم کرنا بے حد مشکل ہے ۔‘‘ اب جبکہ بے نظیر نے فوج کی کھلے عام اور غیر مشروط اطاعت کی قبولیت کا اشارہ دے دیا اور امریکی مفادات کے تحفظ کا بیڑہ اٹھا لیا تو اسٹیبلشمنٹ کو اسے وزیر اعظم بنانے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ اکانومسٹ کی یکم دسمبر ۱۹۸۸ء کی اشاعت کے مطابق انتخابات کے دس روز بعد امریکی سفیر رابرٹ اوکلے سے بے نظیر کی ملاقات کے بعد اسے امریکی تائید حاصل ہوگئی۔ اس نے تمام قواعد و ضوابط کو قبول کر لیا جن کے تحت اسے کاروبار حکومت چلانا تھا۔ بے نظیر بھٹو کی کابینہ جس کا اعلان ۴دسمبر کو ہوا، فوج ، صدر اور امریکہ کی خواہش کے مطابق تشکیل پائی ۔ ان دنوں میں حد سے زیادہ فعال امریکی سفیر کے علاوہ دو سینئرامریکیوں یعنی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے دفاع رچرڈ آرمیٹج اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار رچرڈ مرفی بھی کابینہ سے متعلق انتظامات کو حتمی شکل دینے پاکستان آئے تھے ۔ لہٰذا صدر کی جانب سے بے نظیر یعنی پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے کی عوت پر کسی کو حیرت نہ ہوئی۔ بے نظیر نے جب پہلی مرتبہ ایوان اقتدار میں قدم رکھا تو وہ پاکستان کی ۳۶سالہ کم عمر ترین اور پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں۔ وہ کسی بھی اسلامی مملکت کی پہلی سربراہ حکومت اور دنیا کی کامیاب خاتون سیاستدان تھیں، کیونکہ اندرا گاندھی اور گولڈا میئر اپنی اہمیت کھو چکی تھیں۔ پاکستانی معاشرہ ابھی نئے عہد کے لیے مکمل طور پر تیار نہ تھا۔ پھر بھی بے نظیر سے قوم اور پارٹی کارکنوں نے بھاری بھر کم توقعات وابستہ کر لیں، مگر منقسم شخصیت کی مالک بے نظیر اپنے باپ سے کم نہ نکلیں۔ وہ ایک طرف آفاقی نظریات کی باتیں کرتیں تو دوسری طرف ان کا عمل ایک محدود نظر زندگی کی غمازی کرتا تھا۔ فوج اور بیورو کریسی کے گٹھ جوڑ اور امریکہ سے بے نظیر نے جو سودے بازی کی، اس سے انہیں اور پارٹی کو کچھ حاصل نہ ہوا۔ اقتدار فوج اور بیورو کریسی ہی کے پاس رہا جن کی نمائندگی صدر غلام اسحاق خاں کر رہے تھے، البتہ بے نظیر حکومت نے مقتدر عناصر کو ’’سیاسی جواز‘‘ ضرور فراہم کیا۔ انہوں نے فوج کو’’ تمغہ جمہوریت‘‘ بھی دیا۔ انہیں فائدہ تو حاصل نہ ہوا لیکن حقیقی مقتدر قوتوں کے کرتوتوں کا خمیازہ ضرور بھگتنا پڑا کیونکہ اس کھیل میں عوام کے مسائل جوں کے توں رہے۔ عوامی خوش فہمیوں کے غبارے سے جلد ہوا نکل گئی۔ بد عنوانی ، نااہلی ، اقربا پروری اور انتقامی کارروائیوں کے الزامات نے سپنے چکنا چور کر دیے۔ ان کے مختصر دور حکومت کی محدود کامیابیوں پر ان الزامات نے سیاہی پھیر دی جو ان کی مبینہ وڈیرہ ذہنیت اور متنازعہ شوہر مسٹرٹین پرسنٹ آصف علی زرداری کی سرگرمیوں کے حوالے سے لگائے گئے۔ اس دورمیں پارٹی کو مضبوط بنانے کی طرف توجہ نہ دے کر بے نظیر نے بھٹو کی بیٹی ہونے کا ثبوت دیا ۔
صدر نے ۱۶؍اگست ۱۹۹۰ء کو پیپلز پارٹی کی حکومت برطرف کر دی تو امریکہ کے کسی حلقے سے کوئی ردعمل نہیں آیا۔ ذرا عمومی تجزیہ کیا جائے تو کہا جا سکتاہے کہ اس وقت مقتدر ری پبلکن پارٹی کو یہ بات نہ بھاتی ہو کہ بے نظیر کے بیشتر حامی اور مشیر ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلقات رکھتے تھے ۔ غلام اسحاق خاں نے پی پی پی کے سابق سر براہ اور نیشنل پیپلز پارٹی کے سربراہ غلام مصطفی جتوئی کو نگران وزیر اعظم بنا دیا۔ بہرحال بے نظیر میدان سیاست میں موجود رہیں لیکن صدر نے انہیں اس لیے تو بر طرف نہیں کیا تھا کہ تین مہینے بعد ہونے والے انتخابات میں وہ دوبارہ جیت جائیں، چنانچہ انتخابات کے نتائج ظاہر ہوئے تو آئی جے آئی کو ۱۰۵نشستیں ملیں جبکہ پی پی پی کو پہلی ۹۳کی بجائے اب صرف ۴۵ نشستیں ملیں۔ تاہم غلام اسحاق خاں نے نواز شریف کو وزیر اعظم بنانے میں کوئی کردار ادا کیا تھا تو وہ جلد ہی اس پر پچھتائے۔ ۱۸؍ اپریل ۱۹۹۳ء کو انہیں رخصت کر دیا گیا۔ ۶اور ۷؍اکتوبر کو انتخابات ہوئے۔ پیپلز پارٹی کو ۸۶اور مسلم لیگ کو ۷۲سیٹیں ملیں۔ بے نظیر بھٹو ۳سال تک اپوزیشن میں رہنے کے بعد پھر وزیر اعظم بن گئیں اور ۱۹؍اکتوبر کو حلف اٹھا کر سیاسی کشمکش میں ملک کو لگنے والے زخموں کو مندمل کرنے اور مفاہمت کے دور کا آغاز کرنے کا اعلان کیا۔ عام طور پر ہر نئی حکومت کو اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد روایتی ہنی مون کا جو موقع ملتاہے، بے نظیر کو وہ بھی نہ ملا۔ سیاسی جنگوں، سماجی و اقتصادی مسئلوں ، محاذ آرائی کے علاوہ اس بار بے نظیر اور پیپلز پارٹی کو اپنے ہی گھر اور خاندان سے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا جو ان کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کی صورت میں سامنے آیا۔ وہ خود کو اپنے والد کا حقیقی وارث سمجھتے تھے اور ان کی ماں نصرت بھٹو ان کے ساتھ تھیں ۔اس تنازعے کے پس منظر میں ان کے سیاسی مخالفین نے بھی حملے تیز کر دیے۔ بے نظیر نے سابق فوجیوں اور ضیاء الحق کے ساتھیوں کو نواز نے کا سلسلہ شروع کر دیا جس کی بڑی مثال جنرل (ر) سرو پ خاں کا گورنر پنجاب کی حیثیت سے تقرر تھا۔ پی پی پی اب مبینہ طور پر زرداری کے ہاتھوں میں آچکی تھی۔ پیپلز پارٹی نے سماجی انصاف کا جو وعدہ کیا تھا، اس سے انحراف کے بعد نہ صرف اس کے ارکان پارٹی چھوڑنے لگے بلکہ عوام کی ایک بڑی تعداد بھی اس سے الگ ہو گئی۔ مرتضیٰ بھٹو اور ان کی والدہ نصرت بھٹو نے ایک اور پی پی پی بنالی اور یاد دلایا کہ ان کے والد نے والدہ کو تا حیات چیئر پرسن بنایا تھا۔ سیاسی کھیل اب ہوس اقتدار سے ہوتا ہوا زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا۔ بھٹو کا دوسرا بیٹا بھی اقتدار پر قربان ہوا۔ ۱۹۹۵ء میں صرف کراچی میں تقریباً ۲ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ مختصر یہ کہ پیپلز پارٹی نے بے نظیر کے دوسرے دور میں بھی عوام کے لیے مایوسیوں کا اعادہ کیا۔ پارٹی کی تنظیم مسلسل کمزور ہوتی گئی ۔ حالات اس نہج پر پہنچے کہ ۲۱ستمبر ۱۹۹۶کو وزیر اعظم کے بھائی مرتضیٰ بھٹو ہلاک ہو گئے ۔ دگرگوں حالات کے پیش نظر پیپلز پارٹی کے دیرینہ کارکن و منتخب صدر فاروق لغاری نے ۵نومبر ۱۹۹۶ء کی شب بے نظیر حکومت اور اسمبلیاں توڑ کر نگران حکومت قائم کی اور پی پی پی کے بانی رکن ۸۰ سالہ ملک معراج خالد کو وزیر اعظم مقررکر دیا ۔ یہ نگران حکومت بلا امتیاز احتساب کا عمل پیش نہ کر سکی۔ نئے انتخابات کا عمل شروع ہوا تو پیپلز پارٹی نے عدالت سے رجوع کر رکھا تھا۔ سپریم کورٹ نے پولنگ سے صرف چار روز پہلے صدارتی حکم کی توثیق کا فیصلہ سنا کر پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم کو زبردست نقصان پہنچایا۔ پارٹی کے کئی اہم لیڈر پی پی پی شہید بھٹو گرو پ یا مسلم لیگ (ن) میں چلے گئے ۔ وزیر آباد سے سابق وزیر دفاع کرنل غلام سرور چیمہ مسلم لیگ میں اور جیکب آباد سے تعلق رکھنے تمام اراکین اسمبلی غنویٰ بھٹو کے ساتھ مل گئے۔ الیکشن نتائج بہت بُرے رہے۔ پی پی پی کا ووٹر گھروں سے ہی نہ نکلا۔ اس جماعت کا اصل مسئلہ ووٹر ز کا ٹرن آؤٹ رہا، کیونکہ بار بار مایوسی سے جیالے ناراض ہو چکے تھے۔ ذلت آمیز شکست کے بعد پیپلز پارٹی کی قائد نے حیرت انگیز طور پر باوقار انداز اختیار کیا اور محاذ آرائی کے خاتمے کی پیش کش کر دی۔ انہوں نے پارٹی پر بھی توجہ دی۔ ۱۹۹۷ء کے انتخابات میں انہوں نے اس تصور کی تردید کی کہ صرف بھٹو خاندان ہی پیپلز پارٹی کو متحد رکھ سکتاہے۔ ۱۹۹۲ء میں پی پی پی کی سلور جوبلی پر خطاب کرتے ہوئے بے نظیر نے کہا کہ ۱۹۹۰ء میں، میں نے پارٹی کا نیا تنظیمی پروگرام منظور کیا۔ اس کا لب لباب یہ تھا کہ ممبر سازی کی مہم چلائی جائے اور وارڈ کی سطح تک عہدے دار منتخب کیے جائیں۔ ہم مہینوں کمیٹیاں بناتے رہے اور تاریخیں بڑھاتے رہے۔ کام پورا کرنے کے لیے نہیں، صرف شروع کرنے کے لیے ۔ ظاہر ہے ایک خلا پیدا ہوگیا۔ انجام کار تنظیم کا مطلب ہی بدل گیا۔ منتخب نمائندہ کی جگہ نامزد نمائندوں نے لے لی ۔ ایسا کیوں ہوا؟ بے نظیر نے اس کی وضاحت نہیں کی لیکن پھر مارچ ۱۹۹۹ء میں پارٹی نے انہیں تاحیات صدر منتخب کر لیا۔ ۲۰۰۲ء کے مخصوص حالات کے مخصوص انتخابات کے مخصوص نتائج میں بھی پیپلز پارٹی بغیر کپتان کے کوئی بڑا کردار ادا نہ کر سکی۔ جو کامیاب ہوئے، ان میں سے ابن الوقتوں نے فارورڈ بلاک بنا کر پیٹریاٹ نام رکھ لیا۔ وہ پارٹی ٹکٹ لے کر جیتے، پر کامیابی کے بعد قلا بازی لگالی۔ اس سے پارٹی اور اس کے امیج کو نقصان پہنچا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں امید کی کرن بن کر ابھرنے والی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کی مختصر تاریخ اس کی خود غرض قیادت اور تاریک کارکردگی کی وجہ سے رجائیت سے یا سیت تک کا سفر نظر آتی ہے ۔ جس طرح اس ملک کی ایک نسل مسلم لیگی ہے، اسی طرح پیپلز پارٹی ایک وسیع البنیاد مخالف تحریک اور اکلوتی غالب سیاسی جماعت بن کر ابھر ی مگر وہ بھی مسلم لیگ کی طرح اپنے تین ادوار حکومت میں خود کو عوامی تحریک سے منظم سیاسی جماعت بنانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ اس کی قیادت کوئی کارہائے نمایاں سرانجام نہ دے سکی ۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ رہا ہے کہ یہاں کمزور سیاسی جماعتوں نے ادارہ جاتی بحران میں بڑا عامل ہونے کا کردار ادا کیا ہے۔ اسی چیز نے یہاں پریٹورین ازم کا راستہ ہموار کیا۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں ایک بار پھر اہم موڑ پر ہیں۔ حالات بے نظیر کے لیے ۱۹۸۸سے زیادہ مختلف نہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیابے نظیر اس مرتبہ پھر ہوس اقتدار میں فوجی زعما کو سیاسی جواز فراہم کرنے کے لیے پرانی پالیسی اختیار کرتی ہیں یا نئی دانش سے نیا راستہ چننے کا جرات مندانہ قدم اٹھاتی ہیں۔ پاکستان کے عوام سب سے بڑی سیاسی جماعت سے کسی تاریخ ساز کردار اور بڑے کارنامے کی توقع کر رہے ہیں۔ بلاشبہ پاکستانی سیاست میں پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کا کردار ہنوزباقی ہے۔ پہلے دونوں ادوارمیں لاڑکانہ اور ریڈکلف کی بے نظیر میں کشمکش رہی۔ کچھ لوگوں نے بے نظیر کی سیاست میں آمد کو بھٹو کو دوسرا جنم سمجھا تھا۔ وہ بھی غلط ثابت ہوا۔ اب تک بے نظیر نے بہت کچھ غلط ثابت کیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ اب کی بار وہ عوام کو کس طرح حیران کرتی ہیں۔