اس امر میں شبہ کی گنجایش نہیں کہ زمانہ ہمیشہ رنگ بدلتا رہا ہے۔ بہت کچھ پہلے بدل چکا ہے اورمزید بدلے گا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جمود کسی قوم کی تخلیقی صلاحیتوں کو یخ بستہ کر دیتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا زمانی ارتقا کی ہر تبدیلی اورہرجدید چیز صحت مند ہے؟ کیا ہر تغیر باعث خیر ہے؟ کیا تاریخ کا ہر قدم عروج ہی کی طرف اٹھتا ہے؟ اور کیا ہر حرکت بلندی ہی کی سمت لے جاتی ہے؟ ان سوالات پر جب تاریخ کی روشنی میں غور کیاجاتا ہے تو اس کا جواب نفی میں ملتا ہے کہ ہر حرکت ترقی کے لیے مثبت نہیں۔ ایک نوع کی حرکت اگر آپ کو ثریا کی بلندیوں تک لے جاسکتی ہے تو دوسری قسم کی حرکت تحت الثریٰ کی پستیوں تک لے اترتی ہے۔ مطلوب نفسِ حرکت نہیں بلکہ درست سمت میں حرکت ہے۔ ترقی ایک اضافی اصطلاح ہے، ورنہ ترقی اورتنزل کا فیصلہ منزل کے لحاظ سے ہی ہوسکتا ہے۔ ہم صرف اس حرکت کو ترقی کہہ سکتے ہیں جو صحیح راستے سے ہمیں منزل کی طرف لے جا رہی ہو اور جو حرکت منزل کے برعکس سمت میں لے جائے، وہ ترقی نہیں بلکہ تنزل ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ حرکت سے پہلے سمت حرکت اورمنزلِ مقصود کا تعین ہونا چاہیے، ورنہ محض جمود کو توڑنے کے شوق میں کوئی حرکت کسی قوم کو ترقی کی بجائے تنزل کا مسافر بنا سکتی ہے۔
موجودہ معروضی حالات کو اس فلسفہ کے تناظر میں دیکھاجائے تو ہر شخص ترقی کے مقصد کی خاطر متحرک نظرآتا ہے لیکن اسے سمتِ حرکت کا علم نہیں۔ خصوصاً امت مسلمہ اور اس کی منزل میں دوری پیداکرنے کا بنیادی سبب وہ طبقہ ہے جو ہر حالت میں ترقی کا متمنی ہے، قطع نظر اس سے کہ یہ سفر شاہراہِ اسلام پر طے ہو یا پھر اسلام مخالف ٹریک پر۔ زمانی تقاضوں سے مجبوری کے باعث کسی بھی فکری اساس سے محروم اور قرآن وسنت کی تعبیرنوکا خواہاں یہ تجددپسند طبقہ اسلامی قدامت پسندی، امتِ مسلمہ کی جمہوری روایات اور قدیم مسلم علمی روایت کو تجددپسندی، روشن خیالی اور اسلام کی جدید تعبیر نو سے بدلنا چاہتا ہے۔ وہ شعوری یا پھر غیر شعوری طور پر تقلید اغیار کی دعوت دے رہا ہے۔ تقلید اگر جدید کی، کی جائے تو وہ کوئی قابل فخر چیز نہیں بن جاتی، بلکہ اس کے نقصانات علی حالہٖ قائم رہتے ہیں جن کی بنا پر نہ صرف قوم کی اپنی تخلیقی صلاحیتیں دم توڑجاتی ہیں بلکہ وہ قوم اپنے افکار وروایات کی درستی اورخود کو بدلنے میں لگی رہتی ہے اور دوسروں کی شاگردی کے مقام سے آگے بڑھنا کبھی اسے نصیب نہیں ہوتا۔
تجددپسندی کا بنیادی اصول
اس طبقہ کی فکری تعمیر میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ وہ فکروفلسفہ بھی شامل ہے جو ہر نئی چیز کو خوب تراور قابل احترام ولائق اختیار سمجھتاہے۔ اس طبقہ کے ذہن کو مغربی ہومیونزم (Huminism) نے بہت حد تک متاثر کیا ہے جس کی اساس ’’ ناگزیر تاریخی ترقی‘‘ (Inevitability of Progress)کا اصول ہے جس کی رو سے ’’ہر آنے والا دن گزرے ہوئے دن سے بہتر ہے، انسان کا ورثہ روز بروز بڑھ رہا ہے، ماضی حال سے اچھا ہے اور مستقبل حال سے اچھا ہوگا، ہمارے قدم لازماً ترقی اور عروج کی طرف اٹھ رہے ہیں اور اب پیچھے ہٹنے کا کوئی امکان نہیں‘‘۔
اس اصول کو ہیگل کے فلسفۂ تاریخ، مارکس کی معاشی تعبیرتاریخ وغیرہ نے بڑی تقویت پہنچائی ہے۔ اسی اندازِ فکر کا نتیجہ ہے کہ ماضی کی ہر چیز کو کم مایہ وحقیر اور حال کی ہر شے کو قابل قدر سمجھا جارہاہے اور ترقی کا لازمی تقاضا یہ فرض کرلیاگیا ہے کہ جدیدیت کے نام پر ہر قدیم چیز کو بدل ڈالا جائے۔ یہ فلسفہ تجدد پسند طبقہ کے اذہان پر مسلط ہے اور وہ مختلف عنوانات سے اپنی ترقی پسندی اور روشن خیالی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے اپنی نظریاتی حدوں کو بھی بھول جاتے ہیں اور محض فیشن کے طور پر ہر قدیم چیز پر، خواہ وہ اپنے دین سے ہی متعلق کیوں نہ ہو، ناک بھوں چڑھاتے اور تنقیدی رجحان اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔
نظریاتی لحاظ سے تجددپسندی یا ماڈرن ازم کی فکری مثال معتزلہ کے ساتھ دی جاسکتی ہے۔ انہوں نے قرآن وسنت کو قبول کیا، لیکن اس کی تعبیر میں اپنی عقل وتاویل کو معیار مقررکیا۔ امت مسلمہ کے جمہوری افکار سے متصادم معتزلی طبقہ بظاہر تو ختم ہوگیا لیکن وہ فکر باقی رہی۔ ماڈرن ازم کی جدید تحریک کا آغاز یورپ میں اس وقت ہوا جب اسپین میں سائنسی طریقہ کار کو فروغ حاصل ہوا تو چرچ کی بعض تعلیمات اس کے متصادم نظر آنے لگیں اور اسی چیز نے مذہب سے بغاوت کا راستہ پیداکیا۔ چنانچہ تجدد پسندی کی ابتدا کا بنیادی محرک یہی نظریہ تھا کہ مذہب کو حالات کے مطابق بدلنا چاہیے۔ یورپ میں عیسائی اور یہودی تجدد پسندوں نے اس فکر کو فروغ دینے کی کوشش کی کہ مذہب میں لوگوں کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے اس کی تعبیر نو کی جائے اور نئی چیزیں لوگوں میں متعارف کروائی جائیں۔ اس کی ایک مثال چرچ میں گانا ہے جو کہ انیسویں صدی کی ایجاد ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خدا سے متعلق انسانی اور غیر انسانی دونوں قسم کے کلام بائبل میں شامل ہیں اور وقت کے موافق مذہب کی جدید تشکیل وتعبیرہی انجیل کوسچائی کے مقام پر باقی رکھ سکتی ہے۔ چنانچہ عیسائیت کی مذہبی تاریخ نے دیکھا کہ تعبیر نو کے نام سے شروع ہونے والے تجددپسندی کے سفر نے اہل کلیسا کو مذہب سے بیگانہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی منزل بھی گم کردی۔
اسلامی تجدد پسندی
مغربی تجدد پسندی نے نہ صرف اہل کلیسا سے ان کی مذہبی روایات چھینیں بلکہ اس کا دائرۂ کار وسیع ہوتا ہوا اسلامی دنیا تک بھی پہنچ گیا۔ قطع نظر اس سے کہ حالیہ مغربی تجدد پسندی اسلامی دنیا میں اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے مصروفِ عمل ہے، یہ بات قابلِ غور ہے کہ اسلامی دنیا کے تجدد پسند طبقہ نے مغربی ترقی کو، جو کہ دراصل روایتی تنزل ہے، دیکھتے ہوئے اسلام کی تعبیرنو کی تحریک شروع کررکھی ہے۔ قرآن ،جو کہ اسلام کا اساسی دستور ہے، اس کی اولین تعبیر خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وعمل ہے جسے حدیث کہاجاتا ہے۔ اسی دستور کی عملی شکل آپ کی سنت پیش کرتی ہے۔ تجددپسندی کی اس تحریک نے قرآن کی تعبیرِ اول (حدیث) کو ازکارِ رفتہ خیال کیا اور اسے قدامت پسندوں کی ’جذباتی وابستگی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مسلمہ اہمیت کا انکارکیا کیونکہ تعبیرِ اول(حدیث) کی عدم موجودگی میں ہی تعبیر نو ممکن ہے۔ بعدازاں اساسی دستور میں بدعات وخواہشات کے سدّباب کے لیے فقہا کے قائم کردہ اصولِ اجتہاد کو نشانۂ تنقید بنایا تاکہ اسلام کے اساسی دستور کی تعبیر نو میں وقتی خواہشات کے دخول میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ فقہ اور قدیم اصولِ اجتہاد کے مقام کو مشکوک ثابت کیاجاسکے۔
’تجدید ‘ اور ’تجدد‘
زمانی ارتقا اورجدیدیت کے متعلق دوقسم کے ردعمل مذہبی تاریخ میں نظرآتے ہیں: پہلا ’تجدید‘ اوردوسرا ’تجدد‘۔ تجدید یہ ہے کہ زمانی تغیرات کوملحوظ رکھتے ہوئے اصل دین کو اس کی اصل شکل میں زمانہ قریب وبعید کی زبان میں مکمل استدلال کے ساتھ پیش کیاجائے، نیز تدبر واجتہاد کے ذریعے سے دین کو اپنے دور کے حالات پر نافذ کرنے کی عملی جدوجہد کی جائے۔ ان تمام ذرائع سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جائے جو قدرت نے انسان کو فراہم کیے ہیں اوراسلامی بصیرت کے ساتھ نئے پیش آمدہ مسائل کو قرآن وسنت کی روشنی میں طے کیا جائے۔ نتیجتاً ہرزمانے میں دین کی تعلیمات اورزندگی کے بہاؤ کے مابین تعلق اوررابطہ گہرا ہوتاجاتا ہے اورزندگی کا سفر اسلام کی شاہراہ سے ہٹنے نہیں پاتا۔
’تجدد‘ اس کے مقابلے میں وہ کوشش ہے جوزمانی تقاضوں کے نام پر خود دین کو بدل ڈالنے کے لیے کی جاتی ہے۔ زندگی اور زمانے کے درمیان ربط اس طریقے پر بھی قائم ہوجاتا ہے، لیکن یہ ربط اسلام کی سرزمین پر نہیں بلکہ لادینیت کی گودمیں پروان چڑھتا ہے۔ اس میں مذہب کی تعلیمات کو اصل قرار دے کر حالات کو اس کے مطابق ڈھالنے کی بجائے زمانے کی چلتی ہوئی تہذیب کو اصل اوربہترجان کر اس کے پیدا کیے ہوئے سوالات کے مطابق مذہب کو ڈھال لیاجاتا ہے۔ مؤخر الذکر طریقہ کار کو اگر مسلمان ہرزمانے میں اختیار کرتے چلے جائیں تو اسلام نام کی کوئی چیز اپنی جگہ پر اصل حالت میں باقی نہیں رہ سکتی، بلکہ اسلام سرے سے کسی متعین مذہب ومسلک اوردستورونظام کا نام ہی نہیں رہتا۔
دین اسلام میں تجدید وجدیدیت کے دروازے ہمیشہ کھلے رہے ہیں اورمجتہدین نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں ایسے اصول متعین فرما دیے جن کے تناظر میں ہر جدید مسئلہ کا حل ممکن ہے، چنانچہ قدیم اصولِ اجتہاد کے ناقدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے مسائل کی نشاندہی توکریں جہاں متقدمین کے اصولِ اجتہاد ناکافی ہوگئے ہوں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کا دین ثابت ومحکم ہے اورمحض زمانے کے انداز دیکھ کر اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی، لیکن یہ خیال کرنا بھی غلط ہوگا کہ زمانے کے تغیرات کو دین اسلام کلی طور پر نظرانداز کردیتا ہے۔ دین اسلام انفرادی واجتماعی زندگی کے لیے وہ حدود واضح کردیتاہے جو انسان کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھنے کے لیے درکار ہیں۔ رہے جزوی اوروقتی امور تو ان کو شریعت کے دیے ہوئے بنیادی اصولوں کی روشنی میں ہروقت اور ہرزمانے میں حل کرنے کی اجازت ہے۔ یہ کام اجتہاد کے ذریعے سے انجام پاتا ہے اور اسی کی بدولت نظامِ دین میں حرکت وارتقا کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ چنانچہ دین اسلام نے اجتہاد کو قیامت تک کے جدیدمسائل کے حل کا ذریعہ بنادیا، لیکن تجدد کی اس میں کوئی گنجائش نہیں کہ دین کی بنیادوں کو ہی بدلنے کی کوشش کی جائے۔ ماضی میں جب بھی تجدد نے سر اٹھایا تو علمائے حق نے سختی کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا اور ہر ایسی تخریبی کوشش ملت کی رائے عامہ سے ٹکرا کر آخر کار ختم ہوگئی۔ آج بھی بنیادی کشمکش جدیدیت اور تجدد ہی کے درمیان ہے اورہماری تاریخ اس کی گواہ ہے کہ دین کو متجددین کی خاطر نہ کبھی ماضی میں بدلا گیا اورنہ آج بدلا جاسکتا ہے۔ کسی صاحب اثر شخصیت کی یہ طاقت نہیں کہ زمانے کے تقاضوں کا نام لے کر اسلام کو بدل سکے۔ اس معاملے میں جو انجام اکبر بادشاہ کی کوششوں کا ہوچکا ہے، وہی انجام ان نئے متجددین کے لیے بھی مقدر ہے۔
تجددپسندانہ افکار اورمحرکات
دورِ حاضرمیں تجدد پسندانہ افکار اورماضی کی ایسی کوششوں مثلاً دین اکبری وغیرہ کا موازنہ کیا جائے تو ان میں بہت حد تک مطابقت پائی جاتی ہے۔ تجددپسندانہ رجحانات کی عکاسی عرب محقق جمال الدین زرابوزو نے ان الفاظ میں کی ہے:
...they are also trying to remove the sunna and say the system of the old muhadditheen is insufficient. Most say (as do critics of the Bible) that we need a "higher criticism" of hadith and the earlier conclusions (Ijma) and Ijtihad are not sufficient.
’’[تجددپسند] سنت کو بھی ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پرانے محدثین کا نظام ناکافی ہے۔ (انجیل کے نقادوں کی طرح) اکثر یہ کہتے ہیں کہ ہمیں حدیث کے لیے انتقادِ اعلیٰ کی ضرورت ہے اور سابقہ اخذ کردہ نتائج (اجماع) اور اجتہاد کافی نہیں‘‘۔
اس کے علاوہ پیغمبر کی شخصیت کو انسان اور رسول میں تقسیم کرنا، سنت کو دنیاوی حیثیت دینا، متقدمین کے اجتہاد کو قابل اصلاح قراردینا، کسی بھی چیز کی پیروی کے لیے ہر ایک کو اجتہاد کی اجازت دینا، مذہب کو وقت ،ماحول اور جگہ سے متعلق کرنا، ضعیف حدیثوں سے استدلال، مبہم اصطلاحات کا استعمال، مذہبی تعلیمات کے لیے عقل کو بنیاد بنانا، اہل السنۃ والجماعۃ کی تشریحات کی مخالفت کرنااور نادر ومتروک آرا کو جزوِ بحث بنانا تجدد پسندی کے واضح رجحانات ہیں۔ واضح ر ہے کہ دورِ حاضر کی تجدد پسندانہ تحریک کا مرکزومحور دین اسلام کی وہ تعبیر ہے جو ان کی اپنی عقل کے لیے قابل تسلیم ہو۔چنانچہ’’اسلامی شناخت کی حقیقی تعبیر نو‘‘ کی آڑ میں مذکورہ تمام افکار کو فروغ دیا جاتا ہے ۔
جدیدیت کی طرف میلان کے محرکات میں انسان کی فطری جدت پسندی قابل تنقید نہیں، بشرطیکہ وہ فطری حدود میں ہو کیونکہ دین اسلام بھی عین فطرت ہے، اسی لیے دین حنیف کو فطرۃ اللہ قرار دیا گیا، لیکن انسانی فکر ٹھوکر وہاں کھاتی ہے جہاں وہ فطرت کو اپنی عقل کے سانچے میں پرکھنے کی کوشش کرتی ہے اورجو چیز مافوق العقل محسوس ہوتی ہے، اس کو تحت العقل کرنے کی انسانی کوشش منزل کو گم کردیتی ہے۔ مثلاً دین کی بنیاد وحی ہے اوریہ بھی حقیقت ہے کہ وحی کا فلسفہ انسانی عقل کے گرد پھیلے حصولِ علم کے ذرائع سے مطابقت نہیں رکھتا، چنانچہ انسان جب اس وحی کو ان ذرائع علم کے ساتھ ساتھ عقلی تناظر میں پرکھنے کی ناکام کوشش کرتا ہے تو یہ رجحان اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ وحی کی ایسی تعبیر کرے جو عقل کے لیے قابل قبول ہو۔ چنانچہ تہذیبی غلبہ واثر، فکرنو سے ہم آہنگی اور زمینی حقائق سے متاثر انسان کے ہاں فلسفۂ وحی کی عقلی توجیہات ضروری ٹھہرتی ہیں جو کہ تجدد کا غیرمعمولی عنصر ہے۔ نتیجے کے طور پر دین کی الٰہیاتی تعبیر اور انسانی تعبیرکے درمیان ایک بُعد واقع ہوجاتا ہے اور یہی بُعد انسانی تباہی کا سبب بنتا ہے۔
جدیدیت کا اسلامی فلسفہ
خدا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، اس کا علم ہر شے کو محیط ہے، زمان ومکان کی قیود اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ جو قانون ایسے خدا کی طرف سے ہو، اس کا کسی مخصوص زمانے کے ساتھ محدود ہوجانا کیسے ممکن ہے؟ خدا کی طرف سے دیے گئے قانون کو ازکار رفتہ کہنا جہالت ہے، کیونکہ وہ توہمیشہ اتنا ہی تازہ رہے گا جتنی صبحِ نو۔ خدا کا یہ قانون بنیادی طور پر ہدایت وضلالت کی حقیقت کو واضح کرتا اور اُن اصول واقدار کو بیان کرتا ہے جن پر وقت کے تغیرات، تہذیبوں کے عروج وزوال اورماہ وسال کی آمد ورفت کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اِن وجوہ کی بنا پر جدیدیت(زمانی ارتقا) کے مطابق الٰہیاتی تعلیمات کی تبدیلی کا قطعاً امکان نہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو انبیا وصلحا کی سنت سے معلوم ہوتی ہے۔ ہر نبی ایسے حالات میں مبعوث ہوا جب زمانے کا بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا اور زندگی کا دریا بالکل غلط رخ پر رواں دواں تھا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی نبی نے زمانے کے چلن کے مطابق مذہب کو ڈھالنے کی کوشش نہیں کی بلکہ زمانے کو اپنے رنگ میں رنگنے کی سعی میں مصروف ہوگئے اور بالآخر صبغۃ اللہ کو غالب کردیا۔ قرآن میں اس حقیقت کو یوں بیان کیاگیا : ’ہو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ‘ (الصف:۹)
انبیا نے زمانے کے تقاضوں سے سمجھوتا اور اس کے ساتھ مصالحت کرنے کی بجائے ہر ہر خرابی کے خلاف جنگ لڑی۔ زمانے کے آگے جھکنے والوں کو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا صاف جواب یہ تھا کہ ’’خدا کی قسم اگر یہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اوربائیں ہاتھ پر چاند رکھ کر کہیں کہ مہروماہ کے عوض مَیں اس دعوت کو ترک کردوں تو میں ایسا نہیں کروں گا یہاں تک کہ اللہ اس دعوت کو کامیاب کردے یا میں اس راہ میں جان سے گزرجاؤں‘‘۔ اسلام عبارت ہی سنت نبوی کی پیروی سے ہے۔ اگرزمانے کی سنت، نبی کی سنت سے متعارض ہے تو وہ شخص اپنے دعواے ایمان میں جھوٹا ہے جو نبی کی سنت چھوڑ کر زمانے کی سنت کا اتباع کرے۔
انسانی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ عظیم کارنامے ہمیشہ انہی لوگوں نے انجام دیے ہیں جو حالات کی روپر بہنے کی بجائے ان کے مقابلے کے لیے اٹھے ہیں ۔ زندگی پر ان مٹ نقوش انہوں نے نہیں چھوڑے جو مرغ بادنما کی طرح ہوا کے رخ پر مڑتے اور دوسروں کی نقالی کرتے رہے بلکہ ان لوگوں نے چھوڑے جو ہوا کے رخ سے لڑے ہیں اور زندگی کے دھارے کو موڑ کر رکھ دیا۔ قابل تقلید وہ نہیں جو گرگٹ کی طرح صبح وشام بدلتا ہے، بلکہ وہ ہے جو خود اپنا کوئی رنگ رکھتا اور دنیا کو اپنے رنگ میں رنگتاہے۔ مسلمان دنیا میں زمانے کی پیروی کے لیے پیدا نہیں کیے گئے بلکہ وہ پوری انسانیت کی فلاح واصلاح کا ذریعہ بنائے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے اس سے بڑی ذلت اورکوئی نہیں ہوسکتی کہ وہ خدا کانائب، سنت نبوی کا مدعی اور دینی روایات کا امین ہونے کے باوجود جدیدیت کو اپنے دین کے مطابق بدلنے کی بجائے اپنے ہی دین کو مسخ کرنا شروع کردے۔ یہ بزدل اورکم نظر لوگوں کا طریقہ ہے جنہیں ہوائیں خس وخاشاک کی طرح اڑائے پھرتی ہیں اورجن کی اپنی بنیاد نہیں کہ وہ اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہ سکیں۔ مسلمان کا یہ شیوہ ہے کہ
زمانہ با تو نہ سازد
توبازمانہ ستیز