حکیم الامت سر ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ بھی ایسے لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے ایک دنیا کو اپنے سحر میں گرفتار کیا، انہیں قلبی تسکین مہیا کی، اور جن کے پیغام کے تنوع نے انہیں عالمگیر قبولیت بخشی۔ بغور دیکھا جائے تو حضرت علامہ کے کلام(نظم ونثر) میں بنیادی حیثیت فلسفہ کی جان، تجسس کو حاصل ہے ،اور تحقیق جس کادستِ راست ہے اور حقیقت کبریٰ تک رسائی اور اس کابرسرِعام ابلاغ ہوپانا اس ساری تحقیق وجستجو کا مدعا معلوم ہوتا ہے۔ اب اس مقصد عظیم میں حضرت علامہ ؒ کہاں تک کامیاب ہوسکے، یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس پر اب تک بہت کچھ لکھا جاچکاہے۔ بہت سے ناقدین اور بہت سے پیروان فکرِ اقبال نے ان خطبات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ کچھ نے مثبت رنگ اختیار کیا اور کچھ نے منفی۔ جہاں علامہ اقبالؒ کی شاعری اور نثر نے گفتگو کے کئی باب واکیے اور کئی عقدے کُشا کیے ،وہاں کئی ابواب میں تشنگی، تشکیک اور تضادات کو بھی جنم دیا۔
حضرت اقبالؒ چونکہ ایک بڑی شخصیت کے طورپر سامنے آئے ،لہٰذا انہیں فکری ،فنی ،ادبی اور نجی سطح پر بھی زیر بحث لایا گیا اور مختلف مفروضات ا ورخیالات نے جنم لیا۔حضرت اقبالؒ کے ایام جوانی اور ان میں ہونے والے مختلف واقعات کو کھنگالا گیا۔ (مے نوشی،رقص وسرود کی محافل میں شرکت، یہاں تک کہ ایک زنِ بازاری کا قتل ان سے منسوب کیاگیا)۔
ان کی نظموں ’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ پر کہا گیاکہ’’شکوہ‘‘دراصل علامہؒ کی قلبی واردات اور اصل موقف ہے جب کہ ’’جواب شکوہ‘‘انہوں نے بیرونی دباؤ اور خوف کے باعث لکھی تھی اور یہ کہ ان کا پیشتر کلام دراصل مشاہیر کے کلام کی منظوم ترجمہ کردہ صورت ہے یا یہ کہ مغربی ودیگر کلاسیکی شعرا وفلاسفہ کے نظریات وخیالات سے ماخوذ ہے۔ مثال کے طور پر ’’خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے‘‘ اصل میں بھگت کبیر کے ایک دو ہے یا بیت کا صرف ترجمہ ہے ۔
یہ تو ایک سیدھی سی بات ہے کہ جب زبان غیر سے شرحِ آرزو ہوگی تو کچھ نہ کچھ اضافہ یا کمی لازم ہے۔ ایسا ہی کچھ حضرت اقبال ؒ کے ساتھ بھی ہواہے۔ چونکہ آپؒ کے خطبات انتہائی مشکل طرز کلام رکھتے ہیں، لہذا آپ کے شارحین کو یہاں چھوٹ مل جاتی ہے کہ وہ اپنی طرف سے تشریحات اور توجیہات پیش کرسکیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ اقبال کے ہاں مذہب کا تصور، خدا کا تصور اور دیگر کئی ایک تصورات رائج تصورات سے مختلف ہیں اور تقدیر کے متعلق یہ کہ انسان کسی بھی وقت اپنا ارادہ بدلنے پر قادر ہے۔ البتہ خدا وقت کی تمام حرکات سے واقف ہے اور نگران کے طور پر ہے ۔اب یہ ایسے تصورات ہیں جن پر ہمارے اعتقادات اور یقین وایمان کی بلندوبالا عمارت ایستادہ ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ بعض اصحاب (جن میں غلام احمد پرویز بھی شامل ہیں) اپنے اپنے مقاصد کی حصول کی خاطر علامہ کے نام کو استعمال کرتے رہے ہیں ،اور تا حال ایسا ہورہاہے (اگر چہ اس کے رد میں کئی ایک فاضل علما وضاحت کر چکے ہیں) اوربعض اصحاب حضرت اقبالؒ کو مذہب بیزاری اور جدت طرازی کی دوڑ میں شامل کرنے کی خاطر انہیں سرسید احمد خان کے مکتب فکر سے منسلک کرنے میں برابر لگے ہوئے ہیں اور ’’معراج‘‘جیسے اہم مذہبی اہمیت اور تقدس کے حامل واقعہ کے منکر قراردیتے ہوئے جلد بازی سے کام لیتے ہیں، اور علامہ کے کچھ رشتہ داروں کی قادیانی ہونے کے تناظر میں علامہ کے ڈانڈے بھی قادیانیت سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، حالانکہ یہ بات طے ہے کہ علامہ اقبالؒ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے، صوم وصلوٰۃ اورتلاوت قرآن ان کے محبوب معمولات میں شامل تھے۔
اور تو اور، ایسے معاملات میں علامہ کے فرزند ارجمند ڈاکٹر جاوید اقبال بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور وہ موقع بہ موقع اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں یوم اقبال پر ان کے ایک اخباری بیان میں شراب کشید کرنے کے ذریعے ریونیو اکٹھا کرنے کی ترغیب پائی جاتی ہے اور وہ ایسے خیالات کا اظہار یوم اقبال کی مناسبت سے کرتے ہیں جس میں ڈھکے چھپے انداز میں اقبال کی فکر کو غلط انداز میں پیش کرنے کی جسارت پائی جاتی ہے ۔ڈاکٹر جاوید اقبال کی خود نوشت تو ایسے بے شمار واقعات اور خیالات سے پُر ہے جو حضرت علامہ کے کردار کو مسخ کرنے اور انہیں سست ،کاہل ،بد معاملہ ثابت کرنے کی مذموم کوشش ہیں۔ معروف بزرگ شاعر وادیب شریف کنجا ہی نے جاوید اقبال کی گوشمالی کرتے ہوئے ایک تازہ مضمون میں ان خیالات کو ایڈی پس کمپلیکس سے تعبیر کیاہے جو کافی حد تک درست ہے ۔حضرت علامہ ؒ بہرحال ایک بشر ہی تھے اور بشری تقاضوں کے مطابق ان میں ذاتی حوالوں سے کمیاں اور کجیاں ہونا کوئی غیر معمولی واقعہ بھی نہیں ہے، البتہ ان کو اس طرح سے بڑھا چڑھا کر شائع کرنا کہ ان کے اصل پیغام سے لوگوں کی نظریں ہٹ جائیں یا ملت اسلامیہ کے نام انہوں نے جو پیغام چھوڑا ہے، ا س سے ملت اسلامیہ صرف نظر کرنا شروع کردے، کوئی کار خیر نہیں۔ جاوید اقبال فرماتے ہیں کہ وہ والد کی طرف سے محبت اور پیار کے جذبات کو ترستے ہی رہے۔ وہ اپنے والد کی طرف سے کسی بھی قسم کے احسان کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے آپ کو ایک سیلف میڈ شخصیت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اسی تناظر میں جناب شریف کُنجا ہی لکھتے ہیں کہ ’’۱۹۳۸ ء میں( علامہ کے) جانہار ہوجانے کے بعد وہ کون سے وسائل تھے جن کے سہارے جاوید عازمِ انگلستان ہوئے تھے کہ بظاہر آمدنی وہی تھی جسے والد چھوڑ گئے تھے اور مذکورہ گوشوارہ کے مطابق مالی سال (۴۵۔۱۹۴۴ء) میں جاوید صاحب کو کتابوں کی مد سے ۲۳۱۷۴ روپے کی بازیافت ہوئی تھی جسے ڈاکٹر صفدر محمود نے ۱۹۷۳ ء کے حوالہ سے ایک لاکھ کے برابر بتاتا تھا اور غالباً یہی کتابوں کی آمدنی سفرِ انگلستان کو آسان کرگئی تھی۔ ‘‘جناب شریف کُنجاہی اس قضیے پر ذرا نفسیاتی اندا ز میں بات کرتے ہیں او رجاوید اقبال کے باطن میں موجود ایک ناراض بیٹے کو دراصل حضرت علامہ کی طبع کی بیٹے میں جزوی منتقلی قرارد ینے پر بھی تیار نظر آتے ہیں جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے کہ’’جس طرح بعض بدنی کیفیات کے زیر اثر بیٹے میں باپ کا عکس موجودہوتاہے، اسی طرح بعض غیر مادی کیفیات بھی باپ سے بیٹے میں منتقل ہوجاتی ہیں۔‘‘ ’’علامہ اقبال کے والد نے بھی جب اپنے بیٹے کے اس اقدام (یعنی کثرت ازواج) کو نہیں سراہاتھا تو بیٹے (علامہ مرحومؒ ) نے اسے اپنی انا میں مداخلت جاناتھا اور یہ شگاف عمر اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلاگیاتھا جس سے ۱۹۳۸ ء میں والد کی وفات کسی مرثیہ کا باعث نہ بن سکی تھی، جب کہ اس کے بعد سرراس مسعود کی موت ایک اثر انگیز نظم کوتخلیق دے گئی تھی‘‘۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علامہ کے قریبی ساتھیوں (جو تحریک پاکستان میں پیش پیش تھے) کے ساتھ اختلافات اور محاذ آرائیاں منظر عام پر لائی جارہی ہیں۔ مثال کے طور پر ’’ماہنامہ نیاز مانہ ‘‘لاہورمیں مسلسل چھپنے والے مضمون ’’یادیں یاد گاریں‘‘میں مضمون نگار معروف تاریخ دان اور شاعر سید نصیر شاہ،ڈاکٹر جاوید اقبال اور دوسرے لوگوں کے توسط سے اس رائے کا اظہار کرچکے ہیں کہ لفظ ’’پاکستان‘‘ کی تخلیق کے سلسلے میں اقبال اور چودھری رحمت علی میں اچھی خاصی نوک جھونک بالواسطہ اور بلاواسطہ ہوتی رہی ہے اور جاوید اقبال اس لفظ ’’پاکستان ‘‘ کو جناب علامہ اقبال ؒ کی تخلیق قراردیتے ہیں جبکہ یہ چودھری رحمت علی نے تجویز کیا تھا، البتہ فاضل مضمون نگارنے اسے علامہ اقبال کا براہِ راست موقف کم اور حاشیہ برداروں، پیرووں اور عقیدت مندوں کا شاخسانہ زیادہ قراردیاہے جسے انہوں نے کافی تفصیل کے ساتھ لکھاہے۔
اپنے ایک حالیہ مضمون ’’غالب کا ہے انداز بیاں اور ‘‘ میں غالب کی مدحِ شاہ کا ذکر کرتے ہوئے معروف شاعر وادیب جناب ظفر اقبال لکھتے ہیں کہ ’’میر کے علاوہ بھی کئی ایسے اساتذہ کے نام گنوائے جاسکتے ہیں جو درباری اور چاپلوس نہیں تھے۔حتیٰ کہ یہ علت پچھلی صدی میں علامہ اقبال تک میں بھی موجود رہی جو والئ بھوپال وغیرہ کے وظیفہ خوار رہے جس کی چند اور دلچسپ مثالیں بھی موجود ہیں۔ مثلاً انہوں نے اپنا مجموعہ کلام’’پیام مشرق‘‘والئ افغانستان غازی امان اللہ خان کے نام معنون کیا ،اور جب نادر شاہ غازی نے امان اللہ کے تخت پر قبضہ کرلیا تو علامہ نے اپنی اگلی کتاب نادر شاہ کے حضور پیش کی، جبکہ ’’ضرب کلیم‘‘ نواب آف بھوپال سے منسوب ہوئی، حالانکہ وہ بے روز گار نہیں تھے اور پیشہ وکالت کو باقاعدہ اختیار کررکھا تھا‘‘۔
جیسا کہ آغاز میں کہا گیاہے کہ چونکہ حضرت علامہ برصغیر کے منظر نامے پر ایک واضح اور نمایاں شخصیت کے طور پر سامنے آئے، اس لیے ان کے بارے میں اختلاف رائے بھی ظاہر ہے، بڑی سطح پر ہی ہونا تھا۔ ویسے علامہ اقبال کوبڑی شخصیت کے طورپر ماننے سے بھی کچھ لوگ گریزاں ہیں، جیسا کہ معروف کلام نگار حسن نثار نے گوجرانوالہ میں اپنی ایک گفتگو میں علامہ کے بارے میں کہا کہ ’’ وہ کوئی بڑی شخصیت وغیرہ نہیں تھا، بس جیسے اندھوں میں کانا راجہ ہوتاہے، کچھ ایسا ضرور تھا، اور یہ جو شاہین کا تصور ہے، یہ انہوں نے معروف پشتو شاعر خوش حال خان خٹک سے مستعارلیا ہے ‘‘۔
علامہ محمد اقبال ایک عظیم مفکر تھے جن کی فکر کسی مخصوص علاقے یا قوم تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے خودی کا جو پیغام دیاہے، وہ ایک ابدی اور عالمگیر پیغام ہے۔ ضرورت ہے تو اسے سمجھنے اور مثبت انداز میں سمجھنے کی۔ یہاں ان کے عقیدت مندوں اور شارحین کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ ایسے خیالات اور رویوں کی جانچ پرکھ نہایت احتیاط اور دیانت داری سے کریں اور اصل حقائق کو مثبت انداز میں سامنے لائیں تاکہ اقبالؒ کا فلسفہ اور ان کی فکر اور شاعری منفی انداز میں کی گئی تنقید کانشانہ نہ بنے۔