(زرعی یونیورسٹی پشاور میں ۹ دسمبر ۱۹۸۱ء کو پڑھا گیا۔)
اجتہاد کا لفظ جہد سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی ایسی کوشش کے ہیں جس میں مشقت شامل ہو۔ اجتہاد اپنے اصطلاحی معنی میں فکر واستنباط کے ذریعے حکم شرعی معلوم کرنے کا نام ہے۔ اجتہاد اپنے شرعی معنی میں اس مربوط اورمنظم طریقہ استنباط کا نام ہے کہ جس کسی مسئلے کے بارے میں قرآن وسنت کی نص موجود نہ ہو، اس میں قرآن وسنت کی تعلیمات میں مضمر اصولوں کو سامنے رکھ کر اصول قیاس کے تحت اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی خاطر حکم شرعی معلوم کیا جائے۔
یہ چیز ہمیں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں جسے حدیث معاذ کہاجاتاہے، زیادہ وضاحت اور قطعیت کے ساتھ ملتی ہے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبل کویمن کا گورنر مقررفرمایا تو ان سے پوچھا کہ جب تمہارے سامنے کوئی معاملہ فیصلے کے لیے لایا جائے گا تو تم اس کا فیصلہ کیسے کروگے؟حضرت معاذ نے جواب دیا کہ میں مقدمات کا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کروں گا۔ ’’لیکن اگر تمہیں قرآن مجید میں کوئی ایسا حکم نہ ملے جس سے رہنمائی حاصل کرسکو تو اس صورت میں کیا کرو گے؟‘‘ ’’میں ایسی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کروں گا‘‘ ’’اگر سنت بھی اس مسئلے میں خاموش ہوتو؟‘‘ ’’میں اس مسئلے کا فیصلہ اپنے اجتہاد سے کروں گا‘‘، معاذ بن جبلؓ نے جواب دیا۔
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جس مسئلہ میں قرآن کریم یاسنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم موجود ہو، اس میں اجتہاد جائز نہیں بلکہ مردود ہے،البتہ جس کسی مسئلے کے حکم میں قرآن وسنت خاموش ہوں، ان میں اجتہاد نہ صرف جائز بلکہ محمود ہے۔
اجتہاد کی دو قسمیں ہیں: ایک اجتہاد مطلق (Absolute Ijthad) اور دوسری اجتہاد اضافی (Relative Ijtihad)۔ کسی ایسے مسئلے میں حکم شرعی معلوم کرنا جس کی کوئی نظیر یا صورت نہ تو قرآن وسنت میں موجود ہو اور نہ اجتہاد کے ذریعے پہلے کبھی معلوم کی گئی ہو، اجتہاد مطلق میں داخل ہے جبکہ اجتہاد اضافی سے کسی ایسے مسئلے میں اجتہاد کرنا مراد ہے جس کی نظیر یا صورت پہلے سے کسی مسئلہ میں قیاس کے ذریعے معلوم ہو اور پہلے مسئلہ کے حکم پر قیاس کرکے اس دوسرے مشابہ مسئلہ میں حکم لگا دیاجائے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں تین چار صدی تک ایسے فقہا موجود رہے ہیں جو اجتہاد مطلق کی صلاحیت وقابلیت سے آراستہ تھے، لیکن بعد کے ادوار میں، منظم مکاتب فقہ کے فکری تسلط کے باعث مطلق اجتہاد کی صلاحیت ختم ہوگئی اور اجتہاد مطلق کا دروازہ بند ہوگیا اور اس کی جگہ تقلید یعنی ائمہ فقہ کی قدیم آرا کی غیر مشروط اتباع نے لے لی۔
یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ مطلق اجتہادکا دروازہ درحقیقت سیاسی اسباب کی بنا پر بند کیا گیا تھا تاکہ مطلق العنان بادشاہ اور حکمران اپنے مستبدانہ اقدامات کے لیے اسلام کے نام پر قانونی جواز حاصل کرکے مسلم معاشرے میں انتشار اور افراتفری کی فضا پید انہ کر سکیں۔ گویا اجتہاد کا دروازہ بند کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اللہ رب العزت کے دین کو بدعات وجدت پسندی اور ذاتی رجحانات وخواہشات کی آلائش سے پاک رکھاجائے، تاکہ اسلام کے قانونی نظام کی بقا اور دوام واستحکام کی ضمانت حاصل ہو سکے جسے اپنی تشکیل اور نشوونما کے ابتدائی دور میں تنازعات اور گہرے اختلافات کی وسیع خلیج سے گزرنا پڑا تھا۔
اسلام کی تاریخ میں جو اسباب دروازۂ اجتہاد کے بند ہونے اور تقلیدی رویے کے اپنائے جانے کا باعث بنے، وہ بڑی حد تک اسلام میں بے جا عقلیت پسندی کے رجحانات، اسلامی تصوف پر مسیحیت کے اثرات اور خاص طور پر بغداد کی تباہی کے سبب پیداہوئے تھے۔ ان اسباب نے اسلام کی فکری نشوونما کو تقریباً مفلوج بنا کر رکھ دیاتھا۔ البتہ بعد کے ادوار میں بھی کچھ ایسے افراد پیداہوئے جو اپنی ذاتی حیثیت میں اضافی اجتہاد کا فریضہ انجام دیتے رہے لیکن یہ عمل صرف ان کے اپنے اپنے مذاہب فقہ کی حدود کے اندر رہا،یعنی ان مسائل کی حد تک جو فقہی مذاہب کے بانیوں نے غیر حل شدہ چھوڑ دیے تھے۔ اس کے علاوہ بعض صورتوں میں اجتہاد کا عمل مختلف مذاہب کی قانونی آرا کے تقابلی مطالعے اور متفرق مسائل کے انتخاب وترجیح کی صورت میں بھی جاری رہا اور اس طرح معاملے کے کسی خاص پہلو پر غور وفکر کے ذریعے اسلامی فقہ کے دائرے میں جو وسعت پیدا ہوئی، اس سے اضافی اجتہاد کے لیے بھی مواقع پیدا ہوتے رہے۔
گزشتہ دس صدی کے دوران میں صرف ایک ممتاز فقیہ ایسا پیدا ہوا جو بجا طور پر یہ حق رکھتاتھا کہ مجتہد مطلق ہونے کا دعویٰ کرے اور اس نے یہ دعویٰ کیا یعنی امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (متوفی ۷۲۸ھ)۔ براعظم پاکستان وہند کی حالیہ تاریخ میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کا نام نامی بھی بجا طور پر اس کا مستحق ہے کہ ابن تیمیہ کے بعد بحیثیت مجتہد ان کا تذکرہ کیا جائے۔ شاہ صاحب نے اس ضرورت پر زور دیا کہ نئے زمانے اور بدلتی ہوئی معاشرتی اقدار کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی فکر کے بنیادی سرچشموں کی از سر نو تعبیر وتشریح کی جانی چاہیے۔ پاکستان میں ڈاکٹر محمد اقبال (متوفی ۱۹۳۸ء ) اگر چہ خود مجتہد یا عالم دین نہ تھے، لیکن اپنے دور میں اجتہاد کے سب سے بڑے داعی تھے اور آج کل انہیں ان تمام لوگوں کا پیشرو سمجھاجاتاہے جو پاکستان میں اجتہاد کی تبلیغ اور وکالت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
ہمارا آج کا مسلم معاشرہ بے شمار سیاسی، معاشی اورمعاشرتی مسائل سے دوچار ہے جنہیں صرف اس صورت میں حل کیا جا سکتاہے جبکہ ہم اجتہاد سے کام لیں، خصوصاً ایسے معاملات میں جن کے متعلق قرآن مجید یا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی براہ راست اور واضح نص موجود نہیں۔ ایسے مسائل کے ضمن میں ہم موجودہ تجارتی لین دین اور اس سے متعلقہ امور کا ذکر کرسکتے ہیں جن میں بیمہ، ذاتی ملکیت کا حق، قومی ملکیت میں لے لینے کا تصور، جدید مالی قوانین اورمحاصل، نظام حکومت، اسمبلیوں کے لیے عوامی نمائندوں اور سربراہ مملکت کے انتخاب کا طریقہ،مغرب کے جمہوری معمولات کے سیاق و سباق کے حوالے سے بالغ رائے دہی کا نظام، بین الاقوامی قانون سے متعلق مسائل جیسے بودو باش سے تعلق رکھنے والے معاملات اور اس طرح بہت سے دوسرے مسائل۔
اجتہاد کا بنیادی اصول یہ ہے کہ اسے کسی صورت اور حالت میں قرآن وسنت کے احکام کے خلاف نہ ہونا چاہیے۔ اسے لازمی طور پر اسلامی مقاصد سے ہم آہنگ ہونا چاہیے ۔ جو افراد یا جماعتیں انفرادی طورپر یا اجتماعی صورت میں اجتہاد سے کام لیں، انہیں نہ صرف یہ کہ دینی علوم اور ان کے اصول وکلیات سے مکمل طورپر آگاہ ہونا چاہیے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ صاحبان تقویٰ اور اعلیٰ اخلاق وکردار کے حامل ہوں تاکہ وہ دینی مسائل میں استنباط واستخراج کا فریضہ اپنی ذاتی پسند و ناپسند اور نفسیاتی خواہشات واحساسات کے تقاضوں سے بالاتر رہ کرانجام دے سکیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اجتہاد کی وہ کون سی حدود ہیں جن کا اسلامی معاشرے میں بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق متعلقہ قوانین میں ترمیم واصلاح کے دوران ملحوظ رکھا جانا ضروری ہے؟بالفاظ دیگر وہ کون سا طریقہ ہے جس کے ذریعے اسلامی نظام اجتہاد کو ہمارے جدید معاشرے میں بروئے کار آنا چاہیے؟ جیسا کہ سب اہل علم جانتے ہیں ،اجتہاد کے ذریعے جو بات جاننے کی کوشش کی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ قانون کیا ہے؟گویا اجتہاد کے ذریعے قانون میں ترمیم نہیں کی جاتی بلکہ اس کے ذریعے قانون سے آگاہی حاصل ہوتی ہے ۔چنانچہ اصول اجتہاد کے تحت وہ تمام معاملات جن کے بارے میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور ہدایات واضح اور قطعی ہیں،ان میں کسی ترمیم اور تبدیلی کی گنجائش نہیں۔ اسی طرح جن معاملات پر کتاب وسنت کی روشنی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع ہوچکا، ان سے انحراف ممکن نہیں کیونکہ صحابہ کرام شاہدین اول ہیں۔انہی کی روایت کے ذریعے ہم تک قرآن پہنچا۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے مستفیض تھے اور علوم نبوت کے براہ راست حامل اور شارح تھے اور جو علم صحابہ کرامؓنے براہ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیااور اس کی تعبیر وتشریح کی، وہ معلم کتاب کی منشا ومراد ہے۔
البتہ وہ مسائل ومعاملات جن کے بارے میں کتاب وسنت کی عبارات مختلف یا ایک سے زائد معنی کی محتمل ہیں اور ان کی تعبیر وتشریح میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے،ان کے متعلق امت کے فقہا وعابدین ماحول، مقتضیات اور مملکت کے مفاد کے پیش نظر کسی ایک تعبیر وتشریح کو ترجیح دے سکتے ہیں یا کوئی جدید تعبیر وتشریح اختیار کرسکتے ہیں اور جن مسائل کے بارے میں اصل ہدایات تو کتاب وسنت میں موجود ہیں، لیکن تفصیلات اور جزئیات موجود نہیں، ان کے بارے میں کتاب و سنت کی روشنی میں اجتہاد کے ذریعے احکا م وضع کیے جا سکتے ہیں اور اس طرح وہ مسائل جن کا کتاب وسنت یا اسلامی فقہی ادب میں کوئی ذکر نہیں ہے، عہد حاضر کے جدید مسائل ہیں، ان کے متعلق اجتہاد کے ذریعے قوانین وضع کیے جاسکتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ اجتہاد کے ذریعے وضع کیے جانے والے قوانین کتاب وسنت کی روح اور منشا کے خلاف یا منافی نہ ہوں۔
لہٰذا نہ صرف یہ کہ موجودہ دور میں اجتہاد کا جواز موجود ہے بلکہ اس سے کام لیا جانا ضروری ہے کیونکہ یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے ہم ترقی پذیر بنیادوں پر اسلامی معاشرے کی تجدید واحیا اور تنظیم نو کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔ جس چیز کی ہمیں آج کے دور میں ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ ہم صرف اسلامی تعلیمات اور ہدایات کی روشنی میں خارجی قوتوں اور مغرب کے ذہنی اور ثقافتی غلبے سے متاثر ہوئے بغیر اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ ان اچھائیوں اور برائیوں کا اپنے اندر ادراک اور شعور پیدا کریں۔ یہاں تما م متعلقہ لوگوں کو آگاہ کرتے ہوئے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جب ہم اجتہاد کے عمل اور طریقے کی پیروی کریں تو ہمیں نص کی جانب سے بے توجہی نہ برتنی چاہیے اور نہ قرآن وسنت کے باقاعدہ علم سے بے بہرہ ہونے اور اسلامی قانون اور فلسفہ قانون کے اصولوں سے لاعلم ہونے کی غلطی کرنی چاہیے۔ یہ صحیح ہے کہ اسلام پاپائیت پر یقین نہیں رکھتا، لیکن وہ ہر عمومی علم رکھنے والے شخص کو نہ یہ حق دیتاہے اور نہ دے سکتاہے کہ وہ اجتہاد کا اہم اور محنت طلب فریضہ اپنے ہاتھ میں لے۔ اجتہاد کا دروازہ بلاشبہ کھلا ہے لیکن داخلے کا حق صرف ان لوگوں کو حاصل ہے جو اجتہاد کی تمام شرائط پوری کرتے ہوں، یعنی علم دین بھی رکھتے ہوں اور پارسائی کی زندگی بھی بسر کرتے ہوں۔
میں اس سے پہلے اجتہاد کی دو اقسام، ایک مطلق اور دوسری اضافی کا ذکر کرچکاہوں ۔اگر ہم گزشتہ صدی کے اسلامی ادب میں قانون سازی کے حالیہ مضمرات کا مطالعہ کریں جس کا آغاز اکثر اسلامی ممالک میں اس صدی کے ربع اول میں ہوا تو ہمیں بہت سی ایسی قانونی دفعات ملیں گی، خصوصاً عائلی قوانین جن میں اضافی اجتہاد سے کام لیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ترکی، پاکستان اور ایران کے قوانین ہیں جن کی رو سے ہر ملک کے اپنے اپنے قوانین نکاح میں بعض جزئی اختلافات کے ساتھ ضروری قرار دیا گیاہے کہ طلاق کا اندارج یا توثیق ریاست کی مقرر کردہ کسی ہیئت (اتھارٹی) سے کروائی جائے۔تعدد ازواج کے معاملے میں بھی عراق، شام، مراکش، اردن، پاکستان اور کچھ دیگر اسلامی ممالک میں مردوں کے اس بلاقید اختیار پر پابندیاں عائد کردی گئی ہیں کہ وہ بیک وقت ایک سے زیادہ بیویاں اپنے نکاح میں رکھ سکتے ہیں،تاہم تیونس کے قانون میں تعدد ازواج پر مکمل پابندی لگا د ی گئی ہے۔ اس معاملے میں تیونس کا قانون دیگر مسلم ممالک کے مقابلہ میں منفرد ہے۔
مصر میں تمام طلاقیں، سوائے اس طلاق کے جو دخول سے پہلے دی گئی ہو یا وہ جس کا معاوضہ لے لیا گیاہو یا وہ تین طلاقیں جوتین طہر میں دی گئی ہو ں، ۱۹۲۹ء کے قانون کی رو سے رجعی قرار دے دی گئی ہیں۔ سوڈان میں ایکٹ ۱۹۳۵ء کے مطابق ایک وقت میں دی گئی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق قرار دے دیا گیا ہے۔ شام میں بھی ایکٹ ۱۹۵۳ء کی رو سے ایسا ہی قانون اپنا لیا گیاہے جیسامصر میں رائج ہے۔ عراق، مراکش اور اردن میں بھی انہی خطوط پر قانون بنائے گئے ہیں، تاہم لبنان اور انڈونیشیا میں ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں کو غیر رجعی سمجھا جاتاہے اور مرد کے لیے یہ جائز نہیں کہ حلالہ کے بغیر اس عورت سے دوبارہ نکاح کر لے۔ ہندوستان کے مسلمانوں میں بھی یہی صورت رائج ہے۔ پاکستان میں عائلی قوانین کے آرڈی نینس مجریہ ۱۹۶۱ء کے تحت طلاق سوائے اس صورت کے جبکہ اس سے رجوع کر لیا گیا ہو، یونین کمیٹی کے چیئرمین کو خاوند کی جانب سے جس نے طلاق دی ہے، قطع نظر اس امر کے کہ ایک طلاق دی ہے یا دو یا تین یا زیادہ طلاقیں اور یہ کہ ایک وقت میں دی ہیں یا مختلف اوقات میں،طلاق کا نوٹس ملنے کی تاریخ سے نوے دن گزر جانے کے بعد موثر ہوتی ہے۔
قانون وراثت میں روایتی قانون کے مطابق یتیم پوتے پوتیاں اپنے دادا کی وراثت سے محروم رہتے ہیں، لیکن مصر کے قانون انتظام و صیت مجریہ ۱۹۴۶ء کے تحت لازمی میراث کا طریقہ رائج کیا گیا ہے جس کے مطابق یتیم پوتوں اور پوتیوں کو اپنے دادا کی میراث میں اتنے حصے کا مستحق قرار دیا گیا ہے جتنا حصہ ان کے والدین کو زندہ ہونے کی صورت میں ملتا۔ تاہم یہ حصہ کل میراث کے ایک تہائی حصے سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ لاز می میراث کا یہ طریقہ شا م نے ۱۹۵۳ء میں، تیونس نے ۱۹۵۷ء میں، مراکش نے ۱۹۵۸ء میں اور عراق نے ۱۹۵۹ء میں اپنایا۔ تاہم شامی اور مراکشی قوانین کے مطابق لازمی میراث کا یہ طریقہ صرف فوت شدہ بیٹے کی اولاد تک محدود ہے۔ فوت شدہ بیٹی کی اولاد پر ا س قانون کا اطلاق نہیں ہوتا ۔اس کے برخلاف پاکستان میں عائلی قوانین کے آرڈیننس مجریہ ۱۹۶۱ء کی رو سے دادا کی میراث میں یتیم پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے حصے کے متعلق قرار دیاگیاہے کہ اگر جانشینی کا آغاز ہونے سے پہلے مورث کا کوئی بیٹا یا بیٹی وفات پاچکی ہو تو اس بیٹے یا بیٹی کی اولاد جو آغاز جانشینی کے وقت زندہ موجود ہو، حسب مراتب اس حصے کے مساوی حصہ وصول کرلے گی جتنا حصہ اس بیٹے یا بیٹی کو ملتا اگر وہ زندہ ہوتے۔ اس معاملے میں پاکستان کا قانون دیگر اسلامی ممالک کے قانون سے بالکل مختلف ہے ۔
اوقاف کے معاملے میں، جن میں وقف علی الاولاد بھی شامل ہے، مصر کے قانون وقف مجریہ ۱۹۴۶ء کی رو سے بنیادی تبدیلیاں بروئے کار لائی گئی ہیں، یہاں تک کہ اگروقف خیراتی ہو تو یہ عارضی اور مستقل دونوں صورتوں میں جائز ہے، لیکن اگر وقف خیراتی نہ ہو تو مستقل طور پر اسے وقف کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی،چنانچہ وقف علی الاولاد کی مدت، حیات واقف کو مستثنیٰ کرتے ہوئے صرف دونسلوں یا ساٹھ سال تک جو بھی پہلے ختم ہو، محدود کردی گئی ہے۔ تاہم کسی مسجد کے وقف یا مسجد کے حق میں وقف کو، اگر وہ محدود مدت کے لیے ہو تو اسے ناجائز قرار دے دیا گیاہے۔یہ ضروری ہے کہ ایسا وقف مستقل بنیادوں پر کیا جائے۔ لبنان میں بھی اوقاف کی قانونی حیثیت یہی ہے جبکہ بہت سے دوسرے ممالک میں جہاں مسلمان آباد ہیں، اوقاف کا روایتی قانون رائج ہے۔
آپ کی خدمت میں یہ مثالیں پیش کرنے سے میرا مقصد ان اختلافات کا اندازہ کرانا ہے جو مسلم ممالک کی قانون سازی میں نمایاں ہو رہے ہیں، اگر چہ ان میں سے کوئی بھی ملک نص یعنی قرآن وسنت کی ظاہری عبارت کو ترک کرنے کا دعوے دارنہیں ہے۔ اس صورت حال سے بخوبی عہدہ برآہو نے اور اجتہاد کے میدان میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے واحد حل یہ ہے کہ مسلم فقہا کا ایک عالمی ادارہ قائم کیا جانا چاہیے جس میں عالم اسلام کے نمایاں صلاحیت رکھنے والے محققین اور فقہا کو نمائندگی حاصل ہو۔
الحمد للہ کہ اس سلسلے میں اجتماعی کوششوں کا آغازہو چکاہے۔ سب سے پہلے اس حقیر نے موتمر عالم اسلامی کی عالمی کانفرنس منعقدہ ۱۹۶۷ء بمقام کراچی میں مسلم فیملی لاز پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے ایک مسلم ورلڈ جیورسٹس کمیشن کے قیام کی تجویز پیش کی تھی۔ (ملاحظہ ہو شمارہ مارننگ نیوز، کراچی ۵؍ جولائی ۱۹۶۷ء ) اس تجویز کی باز گشت بارہ سال بعد بمقام فیض (مراکش) میں ہونے والی اسلامی وزراے خارجہ کانفرنس منعقدہ مئی ۱۹۷۹ء میں سنائی دی جس میں مسلم ماہرین قانون کی ایک بین الاقوامی آرگنائزیشن کے قیام کی سفارش کی گئی۔ ۷؍اکتوبر ۱۹۷۹ء کو پاکستان میں منعقد ہونے والے شریعت سیمینار میں صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے اس تجویز کو پیش کیا کہ انٹر نیشنل اسلامک لا کمیشن قائم کیاجائے۔اس تجویز کو ’’اعلان اسلام آباد‘‘ میں شامل کیاگیا۔ بعد ازاں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقدہ ۲۵ تا ۲۹؍ جنوری میں اس تجویز کو منظور کیا گیا جوا ’’اعلان مکہ‘‘ میں موجودہے۔ اس کے لیے ایک کمیٹی کی تشکیل بھی کی گئی۔ اس کمیٹی نے اپنے متعدد اجلاسوں میں اس تجویز کو مفصل قانونی شکل دے دی ہے جو امید ہے کہ آئندہ منعقد ہونے والی اسلامی وزراے خارجہ کانفرنس میں منظور ہو جائے گی اوراس طرح بین الاقوامی اسلامی کمیشن کی تشکیل عمل میں آجائے گی۔ راقم الحروف کو بحیثیت چیئر مین اسلامی نظریاتی کونسل اس مسودہ کو دیکھنے اور رائے دینے کا موقع ملا ہے۔ امیدہے کہ مجوزہ اقدامات کے رد عمل آنے سے عالم اسلام کی ایک اہم ضرورت پوری ہو جائے گی اورہم مستقبل قریب میں ایک ایسے بین الاقوامی اسلامی معاشرہ کی تعمیر وتشکیل میں کامیاب ہو جائیں گے جس کا قیام اسلام کا حقیقی منشا ومقصود ہے۔
ایسا کمیشن جدید دور میں ادارہ اجماع کے اغراض ومقاصد پورے کرے گا اور فقہی ذکاوت کے ذریعے قبولیت عام کی ضمانت مہیا کرے گا اور امت کی اجتماعی خواہش کے لیے قابل قبول بھی ہوگا۔اس عمل میں قرآن وسنت کی تعلیمات کی حدود میں رہتے ہوئے اور وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اجتہاد کے طریقہ پر عمل پیرا ہوکر قوانین کو وسیع تر بنیادوں پر تمام مسلّمہ فقہی مذاہب کے اسلامی قانون کے ذخیرۂ کتب ومواد پر مبنی ہونا چاہیے اور ان قوانین کی تدوین کے لیے کسی ایک فقہی مسلک پر انحصار نہ کرنا چاہیے۔
ہمیں یقین ہے کہ اجتہاد کا عمل اپنا شاندار کردار ادا کرے گا اور جدید دور میں اسلام کی ذہنی وفکری نشاۃ ثانیہ میں براہ راست اور بھر پور حصہ لے گا۔ صرف اجتہاد ہی ایک ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم جدید تہذیب کے چیلنج کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں اس وقت جو جمود پایا جاتا ہے، وہ ختم ہوجائے گا اور اس کی جگہ ایک نئی قوت حیات او ر بالقوہ نشوونما بروئے کا ر آجائے گی۔ اجتہاد امت مسلمہ کے جذباتی اتحاد کے احیا میں بھی مددگار ثابت ہوگا اور اس کے نتیجے میں بلاشبہ ساری دنیا کے مسلمان ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے اور یہ وہ چیز ہے جو ہمارا بنیادی مقصد ہے یعنی عالم اسلام کا اتحاد۔