حدود شرعیہ کا نفاذ ایک اسلامی حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور مسلم معاشرہ میں جرائم کا تعین اور روک تھام انھی حدود کے حوالے سے ہوتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے دینی حلقوں کا یہ مطالبہ چلا آ رہا تھا کہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں اسلامی قوانین واحکام کے نفاذ کے ساتھ ساتھ معاشرتی جرائم کی روک تھام کے لیے ان شرعی حدود کا نفاذ بھی عمل میں لایا جائے جو قرآن وسنت میں بعض سنگین جرائم کے لیے متعین صورت میں بیان کی گئی ہیں، مگر اس کی نوبت اس وقت آئی جب ۱۹۷۷ کی تحریک نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں عوام کی بے پناہ قربانیوں کے بعد جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کی حکومت نے ا س سمت میں پیش رفت کی اور پاکستان قومی اتحاد کی معاونت سے دیگر چند شرعی آئینی اقدامات کے علاوہ حدود آرڈیننس کے عنوان سے شرعی سزاؤں اور حدود کے نفاذ کا بھی اعلان کیا گیا۔
حدود آرڈیننس کے نفاذ کو ربع صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، مگر ان پر عمل درآمد کی کوئی ایسی خوشگوار صورت حال اب تک سامنے نہیں آئی جسے حدود شرعیہ کے موثر نفاذ سے تعبیر کیا جا سکتا ہو اور نہ ہی معاشرہ میں جرائم کی کمی اور ان پر کنٹرول کا مقصد حاصل ہو سکا ہے، حالانکہ یہی حدود شرعیہ سعودی عرب میں نافذ ہیں اور جرائم پرموثر کنٹرول کا ذریعہ ثابت ہوئی ہیں اور انھی حدود شرعیہ کے ذریعے سے افغانستان میں طالبان نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں اپنی حدود کار میں جرائم پر کنٹرول کا ایسا نقشہ پیش کیا تھا جس کا طالبان کے شدید ترین مخالف بھی اعتراف کرتے ہیں اور متعدد بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں میں اسے تسلیم کیا گیا ہے، لیکن پاکستان میں حدود شرعیہ کا قانونی نفاذ ان مقاصد ونتائج کا ذریعہ ابھی تک نہیں بن سکا جو مقاصد واہداف اسی دور میں افغانستان اور سعودی عرب میں عملاً حاصل ہو چکے ہیں، جبکہ اس کے برعکس حدود آرڈیننس کے خلاف بین الاقوامی او رملکی سطح پر پراپیگنڈا اور لابنگ کی مہم ایک عرصہ سے جاری ہے اور حکومت پاکستان پر مختلف اطراف سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ ان قوانین کو سرے سے ختم کر دیا جائے یا کم از کم ان میں ایسی ترامیم کر دی جائیں جن سے اس کی برائے نام بھی کوئی حیثیت باقی نہ رہے۔ چنانچہ روزنامہ پاکستان لاہور میں ۱۷؍ ستمبر ۲۰۰۶ کو این این آئی کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ اس کی طرف سے پاکستان میں عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے سلسلے میں قوانین، توہین رسالت کی سزا کے قانون اور حدود آرڈیننس کو ختم کرنے کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور اس کے لیے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ پاکستانی پارلیمنٹ کے ارکان اور حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے۔
مغربی معاشرہ اور قوانین میں رضامندی کا زنا سرے سے جرم ہی تصور نہیں ہوتا اور اس سلسلے میں کوئی بھی امتناعی قانون انسانی حقوق کے منافی سمجھا جاتا ہے جبکہ اسلام اسے سنگین ترین جرم قرار دیتا ہے اور سنگسار کرنے اور سو کوڑوں کی سخت ترین سزا اس جرم پر تجویز کرتا ہے۔ اس واضح تضاد کو مغربی سوچ کے مطابق دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حدود آرڈیننس کے اس حصے کو یا تو بالکل ختم کر دیا جائے اور اگر اسے کلیتاً ختم کرنا ممکن نہ ہو تو اسے ایسے قانونی گورکھ دھندوں میں الجھا دیا جائے کہ ایک ’’شو پیس‘‘ سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت باقی نہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں تحفظ حقوق نسواں بل کے عنوان سے حدود آرڈیننس میں ترامیم کا مسودہ پیش ہوا تو ان ترامیم کا سب سے زیادہ نشانہ زنا سے متعلق قوانین بنے اور بہت سی قانونی موشگافیوں کی آڑ میں بنیادی تبدیلیاں یہ کی گئیں کہ زنا بالجبر کے جرم کو سرے سے حدود شرعیہ کے دائرہ سے ہی نکال دیا گیا ہے اور اسے تعزیرات کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی زنا بالرضا پر شرعی حد (سنگسار یا سو کوڑوں) کو باقی رکھتے ہوئے اس کے ساتھ جو تعزیری قوانین حدود آرڈیننس میں شامل کیے گئے تھے، انھیں بالکل ختم کر دیا گیا ہے جس کا عملی نتیجہ یہ ہوگا کہ رضامندی کے زنا کے کیس میں اگر چار گواہوں کی عینی شہادت شرعی قوانین کے مطابق میسر نہ آ سکے تو زنا سے کم درجہ کے جو جرائم (مثلاً دواعی زنا وغیرہ) جو اسی کیس میں ریکارڈ پر آ چکے ہیں، ان پر مجرموں کو کوئی سزا نہیں دی جا سکے گی اور وہ بالکل بری ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ حدود شرعیہ کے قوانین کے دیگر قوانین پر بالاتر ہونے کی دفعہ حذف کر دی گئی ہے اور بہت سی دیگر ایسی ترامیم بھی نئے مسودہ میں شامل کی گئی ہیں جو حدود آرڈیننس کو کلیتاً غیر موثر بنانے کے علاوہ اور کوئی افادیت نہیں رکھتیں۔
اس پر ملک بھر میں شدید احتجاج کی لہر اٹھی اور قومی اسمبلی سے باہر اور اندر اس پر سخت اضطراب کا اظہار کیا گیا۔ متحدہ مجلس عمل نے اس ترمیم شدہ مسودہ کی قومی اسمبلی میں بعینہ منظوری کی صورت میں اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا اور ملک کے دینی حلقوں نے مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے کا عندیہ دیا۔ اس تناظر میں حکمران مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمن کے درمیان ایک ملاقات میں طے پایا کہ تحفظ حقوق نسواں کے عنوان سے پیش کیے جانے والے نئے بل پر کچھ ایسے علما سے بھی رائے لے لی جائے جو عملی سیاست میں شریک نہ ہوں اور موجودہ سیاسی کشمکش میں فریق کی حیثیت نہ رکھتے ہوں اور وہ علما جو رائے دیں، اسے فریقین قبول کر لیں۔ اس مقصد کے لیے جن علما کے ناموں پر اتفاق ہوا، ان میں جسٹس (ریٹائرڈ) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، شیخ الحدیث مولانا حسن جان آف پشاور، مولانا مفتی منیب الرحمن آف کراچی، مولانا مفتی غلام الرحمن آف پشاور، مولانا ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی آف لاہور اور مولانا قاری محمد حنیف جالندھری آف ملتان کے علاوہ راقم الحروف (ابو عمار زاہد الراشدی آف گوجرانوالہ) کا نام بھی شامل تھا۔ مجھے خود چودھری شجاعت حسین صاحب نے فون کر کے اس بات سے آگاہ کیا اور اس طرح ہم سات حضرات پر یہ ذمہ داری آ گئی کہ ہم اس نئے مسودہ کا جائزہ لیں اور اس میں جو باتیں صراحتاً قرآن وسنت سے متصادم ہوں، ان کی نشان دہی کر کے اصلاحات تجویز کریں۔
اس سلسلے میں ہمارا پہلا اجلاس ۶ ستمبر ۲۰۰۶ کو قومی اسمبلی کے کمیٹی روم میں عشا کی نماز کے بعد ہوا جس میں محترم چودھری شجاعت حسین، وفاقی وزرا اور دیگر معاونین کی ایک ٹیم کے ساتھ ہمارے ساتھ اجلاس میں شریک تھے۔ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اس وقت بیرون ملک دورے پر تھے اور ہم نے قومی اسمبلی میں پیش ہونے والا بل اور اس پر قومی اسمبلی کی طرف سے سردار نصر اللہ خان دریشک کی سربراہی میں قائم کی جانے والی سلیکٹ کمیٹی کی رپورٹ اسی اجلاس میں پہلی بار دیکھی تھی، اس لیے اس کے باوجود کہ چودھری شجاعت حسین صاحب اور ان کے رفقا کی طرف سے فوری طور پر اسی شب اس کے بارے میں رائے دینے کے لیے اصرار کیا جا رہا تھا، مگر ہم نے یہ کہہ کر معذرت کر دی کہ جب تک مسودہ قانون اور ا س کے بارے میں سلیکٹ کمیٹی کی رپورٹ کا بغور مطالعہ نہ کر لیں، ہم کوئی رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، چنانچہ یہ اجلاس کسی نتیجے کے بغیر اختتام پذیر ہوا۔
ہماری دوسری نشست ۱۰ ستمبر کو پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں ہوئی جس میں مذکورہ ساتوں علماے کرام شریک ہوئے، جبکہ چودھری شجاعت حسین صاحب کے ساتھ پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی، سردار نصر اللہ دریشک اور وفاقی وزارت قانون کے اعلیٰ ترین افسران (لا سیکرٹری، ایڈیشنل لا سیکرٹری اور اٹارنی جنرل) شریک تھے جس کی درج ذیل رپورٹ فریقین کے مشترکہ دستخطوں کے ساتھ جاری کی گئی:
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم
قومی اسمبلی میں ’’تحفظ حقوق نسواں‘‘ کے عنوان سے حدود آرڈیننس میں ترامیم کا جو بل زیر بحث ہے، اس کے بارے میں پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد مولانا فضل الرحمن کے درمیان ملاقات میں طے کی جانے والی خصوصی علما کمیٹی کا اجلاس آج اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا مفتی منیب الرحمن، مولانا حسن جان، مولانا مفتی غلام الرحمن، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی، مولانا زاہد الراشدی، مولانا اخلاق احمد اور حافظ محمد عمار یاسر نے شرکت کی جبکہ پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کے ہمراہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھر ی پرویز الٰہی، سردار نصر اللہ دریشک اور وزارت قانون کے بعض ذمہ دار حکام نے شرکت کی۔
چودھری شجاعت حسین نے علماے کرام سے کہا کہ ’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ کے بارے میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اس میں قرآن وسنت کے منافی باتیں بھی شامل ہیں، اس لیے ہم نے آپ حضرت کو زحمت دی ہے کہ آپ حضرات بل کا جائزہ لے کر قرآن وسنت کی روشنی میں ہماری راہنمائی کریں، کیونکہ ہم کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے جو حدود شرعیہ اور قرآن وسنت کے منافی ہو، بلکہ ہم ایسا سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اس پر علماء کرام اور ماہرین قانون نے بل کی متعدد دفعات کا تفصیلی جائزہ لیا جو ۱۰ ستمبر ۲۰۰۶ بروز اتوار صبح نو بجے سے کھانے اور نماز کے وقفے کے ساتھ رات تین بجے تک جاری رہا اور اگلے روز ۳ بجے سہ پہر تک بھی یہ مشاورت جاری رہی اور متعدد اصولی امور پر اتفاق رائے ہو گیا جس کے مطابق مندرجہ ذیل معاملات طے پائے۔
۱۔ زنا بالجبر اگر حد کی شرائط کے ساتھ ثابت ہو جائے تو اس پر حد زنا جاری کی جائے گی۔
۲۔ حدود آرڈیننس میں زنا موجب تعزیر کی بجائے ’’فحاشی‘‘ کے عنوان سے ایک نئی دفعہ کا تعزیرات پاکستان (PPC) میں اضافہ کیا جائے گا جس کا متن درج ذیل ہے:A man and a woman are said to commit lewdness if they willfully have sexual intercourse with one another and shall be punished with imprisonment which may extend to five years and shall also be liable to fine.
۳۔ زنا آرڈیننس کی دفعہ تین کی جگہ مندرجہ ذیل دفعہ تحریر کی جائے گی:In the interpretation and application of this Ordinance the injunctions of Islam as laid down in the Holy Quran and Sunah shall have effect notwithstanding any thing contained in any other law for the time being in force.
اجلاس میں شریک علماے کرام نے کہا کہ حقوق نسواں بل کے بارے میں قرآن وسنت کے حوالے سے اصولی امور پر اتفاق رائے ہو گیا ہے اور اب اس بل میں اصولی طور پر قرآن وسنت کے منافی کوئی بات باقی نہیں رہی، تاہم بعض ذیلی امور پر اگر ہمیں مزید وقت دیا گیا تو تفصیلی سفارشات پیش کر دی جائیں گی۔ اجلاس میں علماے کرام نے عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں بعض اہم سفارشات پیش کی ہیں جو منسلک ہیں۔‘‘
اس دستاویز پر مندرجہ ذیل حضرات کے دستخط ہیں:
مولانا محمد تقی عثمانی، مولانا مفتی منیب الرحمن، مولانا حسن جان، مولانا زاہد الراشدی، ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی، مولانا مفتی غلام الرحمن، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا اخلاق احمد، حافظ عمار یاسر، جناب چوہدری شجاعت حسین صاحب، جناب چوہدری پرویز الٰہی صاحب، جناب سردار نصر اللہ دریشک صاحب۔
اس کے ساتھ ہی علماے کرام کی خصوصی کمیٹی کی طرف سے حکومت کو اس امر کی طرف توجہ دلانے کا فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان میں عورتوں کی مظلومیت کے حقیقی مسائل وہ نہیں ہیں جن کے حوالے سے بل مرتب کیا گیا ہے، بلکہ معروضی صورت حال میں عورتوں کے حقیقی مسائل کے بارے میں قانون سازی کی ضرورت ہے اور اگر حکومت پاکستان واقعی پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے عملی پیش رفت کرنا چاہتی ہے تو اسے مندرجہ ذیل قانونی اقدامات کرنے چاہییں:
۱۔ خواتین کو عملاً وراثت سے عام طور پر محروم رکھا جاتا ہے۔ اس کے سد باب کے لیے مستقل قانون بنایا جائے۔
۲۔ بعض علاقوں میں خواتین کو ان کی مرضی کے خلاف نکاح پر مجبور کیا جاتا ہے، اس کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی جائے اور اسے قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔
۳۔ بیک وقت تین طلاقیں دینے کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے اور ایسی دستاویز لکھنے والے نوٹری پبلک اور وثیقہ نویس کو بھی شریک جرم قرار دیا جائے۔
۴۔ قرآن کریم کے ساتھ نکاح کی مذموم رسم کاسدباب کیا جائے۔
۵۔ جبری وٹہ سٹہ یعنی نکاح شغار کو قانوناً جرم قرار دیا جائے۔
۶۔ عورتوں کی خرید وفروخت اور انھیں میراث بنانے کے غیر شرعی رواج اور رسوم کا قانونی سدباب کیا جائے۔
یہ تجاویز مندرجہ ذیل علماے کرام کے دستخطوں کے ساتھ الگ یادداشت کے طور پر چودھری شجاعت حسین صاحب کو پیش کی گئیں:
مولانا محمد تقی عثمانی، مولانا مفتی منیب الرحمن، مولانا حسن جان، مولانا زاہد الراشدی، ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی، مولانا مفتی غلام الرحمن، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا اخلاق احمد، حافظ عمار یاسر۔
اس سلسلے میں حکومتی پارٹی اور وزارت قانون کے ذمہ دار حضرات کے علاوہ متحدہ مجلس عمل کے راہ نماؤں مولانا فضل الرحمن، مولانا حافظ حسین احمد، جناب لیاقت بلوچ، مولانا عبد المالک، مولانا سید نصیب علی شاہ، جناب اسد اللہ بھٹو ایڈووکیٹ، سینٹر پروفیسر ساجد میر، مولانا عبد الجلیل نقوی اور دیگر حضرات کے ساتھ ہماری بات چیت ہوتی رہی اور ان حضرات نے بھی ہماری ترمیمات اور سفارشات سے اتفاق کیا، جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کے راہ نماؤں جناب فاروق ستار، ڈاکٹر عامر لیاقت اور جناب حیدر رضوی کے ساتھ ایک طویل نشست میں اس بل سے متعلقہ مسائل پر تبادلہ خیالات ہوا اور ہم نے ایک دوسرے کے نقطہ نظر سے واقفیت حاصل کی۔
بعد میں مذکورہ تین نکات کو موثر بنانے اور ان کے عملی نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے علماء کمیٹی نے مزید پانچ ترامیم تجویز کرتے ہوئے حکومت سے انھیں مجوزہ بل میں شامل کرنے کی سفارش کی، چنانچہ علماء کمیٹی کے رکن مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے ۱۷؍ ستمبر ۲۰۰۶ کو اسلام آباد میں محترم چوہدری شجاعت حسین صاحب سے ملاقات کر کے انھیں کمیٹی کی طرف سے درج ذیل تحریر پیش کی:
’’مورخہ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۶ کو علما کمیٹی نے ’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ کے بارے میں جن تین بنیادی نکات پر دستخط کیے تھے، ان کے آخر میں یہ بات بھی واضح کر دی تھی کہ اصولی طور پر ان نکات پر اتفاق رائے کے بعد کچھ ذیلی امور اور ہیں جن پر اگر کمیٹی کو وقت دیا گیا تو کمیٹی ان پر اپنی رائے ظاہر کرے گی۔ نیز زبانی طور پر یہ طے ہوا تھا کہ ان تین نکات کو مسودے میں سمونے کے لیے بل میں تبدیلیوں کے بعد اسے ہمیں دکھایا جائے گا، چنانچہ ۱۳ ستمبر ۲۰۰۶ کو اس غرض کے لیے جب کمیٹی کو دوبارہ اسلام آباد طلب کیا گیا تو ہم نے نئے مسودے کا جائزہ لے کر یہ محسوس کیا کہ اگرچہ وہ تین نکات اس مسودے میں شامل کر لیے گئے ہیں لیکن اس کے ساتھ کچھ ایسے امور کا اضافہ کر دیا گیا ہے جن کے بعد ان تین نکات کے عملاً موثر ہونے میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔ اس سلسلے میں ہم نے اپنی تشویش سے حکومت کے نمائندہ حضرات کو نہ صرف زبانی طور پر آگاہ کر دیا بلکہ ان پر تفصیلی گفتگو بھی ہوئی۔ ہمیں آخر وقت تک یہ امید تھی کہ کم از کم ان میں سے چند اہم نکات پر ہماری تجویز مان لی جائے گی لیکن آخر وقت میں جو مسودہ انتہائی شکل میں سامنے لایا گیا، اسے دیکھ کر واضح ہوا کہ ان میں سے کوئی بات مسودے میں شامل نہیں کی گئی۔ اگرچہ اس وقت ہم نے زبانی طور پر اپنا یہ تاثر واضح کر دیا تھا، لیکن ان نکات کو تحریری طور پر مرتب کرنے کا وقت نہیں مل سکا تھا۔ اب ہم ذیل میں ان نکات کو تحریری شکل میں پیش کر رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ بل کو بامعنی اور موثر بنانے کے لیے ان تجاویز پر عمل کیا جائے گا:
۱۔ تعزیرات پاکستان میں دفعہ ۴۹۶۔بی کا جو اضافہ کیا جا رہا ہے، اس کے عنوان اور متن میں Fornication کا لفظ طے شدہ لفظ Lewdness کے بجائے بدل دیا گیا ہے۔ اسے بدل کر Lewdness یا Siyahkari کرنا ضروری ہے کیونکہ Fornication صرف غیر شادی شدہ افراد کے ’’زنا‘‘ کو کہتے ہیں۔ اس بات سے زبانی طور پر اتفاق کر لیا گیا تھا، مگر آخری مسودے میں اس کو یقینی بنانا ضروری ہے۔
۲۔ کمیٹی نے جب اپنی سابقہ سفارش میں یہ کہا تھا کہ زنا بالجبر پر بھی حد نافذ کی جائے تو اس کا مطلب واضح طور پر یہ تھا کہ حدود آرڈیننس کی دفعہ ۶ میں ’’زنا بالجبر ‘‘ موجب حد کی جو تعریف اور جو احکام درج ہیں، انھی کو بحال کیا جائے لیکن نئے مسودے میں اس کے بجائے وہاں دوسری تعریف درج کی گئی ہے اور اس کے نتیجے میں سولہ سال سے کم عمر لڑکی کو نابالغ قرار دے کر اس کی مرضی کو غیر معتبر قرار دیا گیا ہے، حالانکہ شرعاً بلوغ کے لیے علامات بلوغ (Puberty) کافی ہیں اور اس کے بعد اس کی رضامندی شرعاً معتبر ہے، لہٰذا ہمارے نزدیک زنا آرڈیننس کی دفعہ ۶ کو جوں کا توں بحال کر دینا ضروری ہے اور اگرموجودہ دفعہ برقرار رہے تو مجوزہ مسودے کی دفعہ ۱۲۔اے کی ذیلی دفعہ v اس طرح بنائی جائے:With or without her consent when she is nonadult
۳۔ مجوزہ مسودے کی دفعہ ۱۲۔بی کے ذریعے جرم زنا (نفاذ حدود) آرڈیننس ۱۹۷۹ میں دفعہ ۶۔اے کا اضافہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے جو ہمارے نزدیک بالکل غلط ہے اور اس سے وہ متفقہ امور غیر موثر ہو جائیں گے جن پر ہماری نشست میں اتفاق رائے ہوا تھا۔ تمام فوجداری قوانین میں یہ بات مسلم رہی ہے کہ اگر ملزم پر بڑا جرم ثابت نہ ہو سکے تو وہی عدالت ملزم کو کمتر جرم کی سزا دے سکتی ہے، بشرطیکہ وہ کمتر جرم اس پر ثابت ہو جائے۔ لیکن نہ جانے کیوں جرم زنا بالجبر اور زنا بالرضا کو اس اصول سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر کسی خاتون نے ملزم کے خلاف زنا بالجبر موجب حد کا مقدمہ درج کرایا ہو لیکن عدالت کے سامنے موجب حد جرم ثابت نہ ہو سکا تو عدالت اس خاتون کی فریاد رسی کے لیے ملزم کو تعزیری سزا نہیں دے سکتی۔ اس کے لیے اس کو یا دوبارہ مقدمہ دائر کرنا ہوگا یا پھر ظلم پر صبر کر کے بیٹھ جانا ہوگا۔
لہٰذا ہمارے نزدیک آرڈیننس میں دفعہ ۶۔اے کا اضافہ کرنے کی جو تجویز دی گئی ہے، وہ قطعی غیر منصفانہ اور غلط ہے اور اسے حذف کرنا ضروری ہے اور اسے حذف کرنے کے نتیجے میں جرم زنا (نفاذ حدود) آرڈیننس کی دفعہ ۲۰ کی پہلی Proviso کو بحال رکھنا بھی ضروری ہے جسے مجوزہ بل میں حذف کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
۴۔ مجوزہ مسودے کے پیرا گراف نمبر ۳ میں ۲۰۳۔سی کا اضافہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور ا س کی ذیلی دفعہ ۲ میں استغاثہ درج کرانے کے لیے یہ شرط لگائی گئی ہے کہ مستغیث دو عینی گواہ پیش کرے۔ اول تو یہ تعزیری جرم ہے اور اس کے لیے مناسب یہ ہوتا کہ اسے قابل دست اندازی پولیس (Cognizable) قرار دے کر اس کے غلط استعمال سے بچنے کے لیے کم از کم ایس پی کے درجے کے پولیس آفیسر کو تفتیش کا اختیار دیا جاتا اور عدالت کے وارنٹ کے بغیر گرفتاری کو ممنوع کر دیا جاتا، لیکن اگر کسی وجہ سے اس کو استغاثہ (Complaint) ہی کا کیس بنانا ضروری سمجھا جائے تو دو عینی گواہوں کی شہادت پیش کرنا یہاں غیر ضروری ہے کیونکہ تعزیر کے ثبوت کے لیے دو عینی گواہ ضروری نہیں ہوتے، بلکہ ایک قابل اعتماد گواہ یا قرائنی شہادت (Circumstantial Evidence) بھی کافی ہوتی ہے، لہٰذا ہماری نظر میں اس دفعہ میں At least two eye witnesses کے بجائے Evidence available as such لکھنا چاہیے۔
۵۔ جرم زنا (نفاذ حدود) آرڈیننس ۱۹۷۹ کی دفعہ ۷ کو زیر نظر مسودے سے حذف کر دیا گیا ہے۔ اس کی بھی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔
ہمارے نزدیک جن امور پر اتفاق رائے ہوا تھا، ان کے موثر نفاذ کے لیے مندرجہ بالا پانچ ترامیم نہایت ضروری ہیں اور ان کے بغیر ان متفقہ امور کے غیر موثر ہو جانے کا قوی خدشہ ہے، لہٰذا مذکورہ اتفاق رائے کے بعد زیر نظر مسودے سے ہمارا اتفاق ان ترمیمات پر موقوف ہے۔ امید ہے کہ مسودے کو بامعنی بنانے کے لیے یہ ترمیمات مسودے میں شامل کی جائیں گی۔ اس کے علاوہ ہم نے زیر نظر بل کے بارے میں شروع ہی میں عرض کیا تھا کہ اس کا نام تو تحفظ حقوق نسواں بل ہے مگر اس میں ساری بحث زنا آرڈیننس سے متعلق ہے اور خواتین کے حقیقی مسائل اور حقوق کو اس میں نہیں چھیڑا گیا۔ چنانچہ ہم نے خواتین کے حقیقی مسائل سے متعلق جو سفارشات پیش کی تھیں، ان کے بارے میں بھی ہم دوبارہ تاکید کرتے ہیں کہ ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ اللہ تعالیٰ صحیح فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین‘‘
یہاں علما کی مذکورہ کمیٹی کے حوالے سے اس اعتراض کا تذکرہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حدود آرڈیننس میں مجوزہ ترامیم کی شرعی حیثیت کے حوالے سے اس کمیٹی سے رائے طلب کرنا آئینی اور جمہوری اصولوں کے منافی ہے ۔ یہ اعتراض مختلف حلقوں کی جانب سے سامنے آیا ہے اور محترم جاوید احمد غامدی صاحب نے گزشتہ دنوں اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت سے احتجاجی استعفا دیتے ہوئے اس کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ تحفظ حقوق نسواں بل پر مشاورت کے لیے حکومت نے علماے کرام کی جو کمیٹی بنائی تھی، وہ ان کے نزدیک اسلامی نظریاتی کونسل کو بائی پاس کرنے کی ایک صورت تھی جس سے ان کے خیال میں ایک آئینی ادارے کا وقار مجروح ہوا ہے اور وہ اس کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت برقرار رکھنے میں کوئی افادیت نہیں سمجھتے۔ میں چونکہ اس ’’خصوصی علما کمیٹی‘‘ کا ایک ممبر ہوں، اس لیے اس وضاحت کا حق رکھتا ہوں کہ اسے خواہ مخواہ مسئلہ بنا لیا گیا ہے۔ اس سے قبل ایم کیو ایم اور بعض دیگر حلقوں نے علما کی خصوصی کمیٹی کو قومی اسمبلی کی سلیکٹ کمیٹی کے متوازی قرار دے کر یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اس کمیٹی کے ذریعے قومی اسمبلی کی سلیکٹ کمیٹی کو بائی پاس کیا گیا ہے جو جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔ خود ہمارے ساتھ مذاکرات کے دوران ایم کیو ایم کے راہ نماؤں جناب فاروق ستار اور ان کے دیگر رفقا نے یہی بات کی تو ہم نے ان سے عرض کیا کہ علما کی یہ کمیٹی قومی اسمبلی کی سلیکٹ کمیٹی کی متبادل یا اس کے متوازی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے اختیارات اور پراسس کی نفی کر رہی ہے۔ اسی طرح علما کی خصوصی کمیٹی کو مشورہ کے لیے بلانے سے اسلامی نظریاتی کونسل کے دائرۂ کار یا اختیارات پر کوئی اثر نہیں پڑا اس لیے کہ جیسے ہماری کمیٹی قومی اسمبلی کی سلیکٹ کمیٹی کے متوازی یا متبادل نہیں ہے، اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل کے متوازی اور متبادل بھی نہیں ہے۔ ہم نے چودھری شجاعت حسین صاحب کے کہنے پر صرف ایک نکتہ پر اپنی رائے دی ہے اور انھی کے کہنے پر وزارت قانون کے اعلیٰ افسران کو اس بات پر مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہم جو رائے دے رہے ہیں، قرآن وسنت کی تعلیمات کا منشا وہی ہے۔ اس سے زیادہ ہمارا کوئی کردار نہیں ہے اور نہ ہماری رائے کو کوئی آئینی اور قانونی درجہ حاصل ہے۔ یہ بل ہماری رائے سمیت دوبارہ سلیکٹ کمیٹی میں جا سکتا ہے بلکہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمن صاحب کا یہ مطالبہ اخبارات میں آ چکا ہے کہ تحفظ حقوق نسواں بل کو علما کمیٹی کی سفارشات کے ساتھ سلیکٹ کمیٹی میں دوبارہ بھیجا جائے۔ اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل بھی اس پر غور کر سکتی ہے او رمیری معلومات کے مطابق کونسل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ حکومت اس کے پاس بل نہ بھی بھیجے تو وہ اپنے کسی رکن کی تحریک پر ایسا کر سکتی ہے۔ اس لیے اس کمیٹی کو اسلامی نظریاتی کونسل کے متوازی قرار دے کر اسے احتجاجی استعفا کی بنیاد بنانا میرے خیال میں درست طریق کار نہیں ہے اور محترم جاوید احمد غامدی صاحب کو اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
حدود آرڈیننس کے حوالے سے اب تک ہونے والی پیش رفت کے بارے میں ایک اجمالی رپورٹ مذکورہ سطور میں قارئین کی خدمت میں پیش کی گئی ہے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ وہ رمضان المبارک کے خصوصی اوقات میں اس دعا کا بطور خاص اہتمام فرمائیں کہ اللہ رب العزت ہم سب کو دین کی سربلندی، قومی وحدت، ملکی سا لمیت اور ملت کی بہتری کے لیے باہمی افہام وتفہیم کے ساتھ بہتر فیصلوں کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔