ماہنامہ ’’حکمت قرآن‘‘ لاہور نے اپنی اشاعت خاص (جولائی ۲۰۰۶ء) میں ’’مصارف میں ’’فی سبیل اللہ ‘‘کی مد اور مسئلہ تملیک‘‘ حصہ دوم میں مصارف زکوٰۃ کے حوالے سے ایک استفتا کے جواب میں فتویٰ کے دو اہم مراکز کے جوابات شائع کیے ہیں جو حصہ اول میں دیے گئے مضامین کے بالکل برعکس ہیں۔ اس لیے گھوم پھر کر مسئلہ پھر وہیں آجاتاہے جہاں سے شروع ہوتاہے۔ اس سے یہ احساس خود بخود ابھرتاہے کہ ہمارے برصغیر کے مفتیان کرام اپنے تمام تر اخلاص اور دینی دررمندی کے باوجود دینی تقاضوں کو پیش نظر رکھنے اور ان کی اہمیت کا احساس کرکے اس کا حل ڈھونڈ نکالنے کے بجائے (بصد ادب عرض کرنے کی جسارت کی جاتی ہے) بسا اوقات محض متقدمین مولفین کی عبارتوں اور الفاظ تک ہی محدود ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس عالم عر ب کے ارباب افتا چیزوں کو وسیع تناظر میں اور شریعت کی روح اور اس کے عمومی مقاصد ومصالح کو پیش نظر رکھ کر افتا وارشاد کی ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں۔
یہاں ضروری معلوم ہوتاہے کہ ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی مداور ’’تملیک‘‘ کے حوالے سے عرب علما کے فتاویٰ بھی قارئین کے سامنے رکھ دیے جائیں تاکہ تصویر کا دوسرا رخ بھی سامنے آجائے۔
مجلس المجمع الفقہی الاسلامی کا فیصلہ
سب سے پہلے عالم اسلام کے فتویٰ کے ایک نمائندہ ادارے ’’مجلس مجمع الفقہی الاسلامی ‘‘ کے فیصلہ کا ذکر مناسب معلوم ہوتاہے۔ اس مجلس میں پوری اسلامی دنیا کے چیدہ چیدہ علما کی نمائندگی موجود ہے۔یہ مجلس ہر سال نئے پیش آمدہ مسائل پر غور وفکر کے لیے اپنے اجلاس منعقد کرتی اور اس سلسلے میں ایک اجماعی یا اکثریتی رائے دیتی رہتی ہے۔ ’’فی سبیل اللہ ‘‘کی مد کے حوالے سے فقہی مجلس نے مورخہ ۲۷؍۴؍۱۴۰۸ھ تا ۸؍۵؍۱۴۰۵ھ کو مکہ مکرمہ میں ہونے والے اپنے اجلاس میں درج ذیل فیصلہ کیا ہے:
’’المجمع الفقہی الاسلامی ‘‘ کی مجلس نے مکہ مکرمہ میں مورخہ ۲۷؍ ۴؍۱۴۰۵ھ ۔ ۸؍۵؍۱۴۰۵ ھ کوہونے والے اپنے آٹھویں اجلاس میں مصارف زکوٰۃ کی آیت میں ذ کر کردہ مصرف ’’فی سبیل اللہ ‘‘ کے معنی پر غور وخوض کیا اور بحث ومباحثہ کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس مسئلہ میں فقہا کی دو آرا ہیں:
۱۔آیت مبارکہ کے الفاظ ’فی سبیل اللہ‘ کا مفہوم قتال کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔یہ جمہورعلما کی رائے ہے لہٰذا ان کا کہنا ہے کہ ’فی سبیل اللہ‘ کی مد سے زکوٰۃ کے معنی صرف اللہ کی راہ میں بالفعل قتال کرنے والے مجاہدین ہی ہوں گے۔
۲۔ ’سبیل اللہ ‘ نیکی اور رفاہ عامہ کے ہر کام کو شامل ہے جس سے مسلمانوں کو دینی یا دنیوی لحاظ سے فائدہ پہنچے، جیسے مساجد کی تعمیر اور مرمت، مدارس اور سرائے، مسافر خانوں کا قیام اور سڑکوں کی تعمیر وغیرہ۔ یہ قول چند متقدمین علما کا ہے مگر اسے بہت سے متاخرین نے اختیار کیا ہے۔ تبادلہ خیالات اور دونوں فریقوں کے دلائل کا جائزہ لینے کے بعد مجلس نے اکثریت سے درج ذیل فیصلہ کیا:
۱۔چونکہ دوسری رائے بھی علما کی ایک گروہ کی ہے اور بعض آیات مبارکہ سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے، جیسے ارشادباری ہے:
(الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللہ ثم لا یتبعون ما انفقوا منّا ولا اذی لھم اجرہم عند ربہم) (البقرہ :۲۶۲)
نیز بعض احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، جیسا کہ سنن ابی داؤدکی روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنا اونٹ فی سبیل اللہ ( اللہ کی راہ میں وقف) کردیا اور اس کی بیوی حج پر جانا چاہتی تھی تو حضور ﷺ نے اسے فرمایا :’’ تو نے اس اونٹ پر سفر کیوں نہیں کیا، ا س لیے کہ حج بھی فی سبیل اللہ ( اللہ کی راہ میں) ہی ہے‘۔‘ (کتاب المناسک، حدیث ۱۹۸۹)
۲۔ مزید یہ کہ اسلحہ سے جہاد وقتال، اللہ کے کلمہ کا بول بالا کرنے کے لیے اور داعیان دین کی تیاری اور انہیں ان کے فرائض کی ادائیگی میں تعاون فراہم کرنے سے بھی دین کی نشرواشاعت ہی پیش نظر ہوتی ہے، لہٰذا دونوں چیزیں جہاد میں شامل ہیں، جیساکہ امام احمد او ر نسائی نے حضرت انسؓ سے روایت کیاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’مشرکین سے اپنے مال، جان، زبان، ہرذریعے سے جہاد کرو۔ ‘‘ (مسند احمد حدیث ۱۱۸۳۷، نسائی حدیث ۳۰۹۶، ابو داؤد، حدیث ۲۵۰۴)
۳۔ او رجیسا کہ نظریہ وعقیدہ کے میدانوں میں اہل الحاد، یہود نصاریٰ او ردیگر دشمنا ن دین اسلام سے برسر پیکار ہیں اور انہیں بھر پور مادی اور معنوی پشت پناہی حاصل ہے، لہٰذا مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ ان کا اسی اسلحہ سے بلکہ اس سے شدید اسلحہ سے مقابلہ کریں جس سے وہ اسلام پر حملہ آور ہورہے ہیں۔
۴۔مزید یہ کہ اسلامی ممالک میں جنگ اور دفاع کے لیے الگ شعبے اور وزارتیں قائم ہیں اور ہر ملک میں اس کے لیے بجٹ میں رقم مخصوص کی جاتی ہے،جبکہ دعوت دین کے میدان جہاد کے لیے اکثر اسلامی ممالک کے بجٹ میں کوئی رقم نہیں رکھی جاتی۔
ان تمام باتوں کے پیش نظر مجلس نے بھاری اکثریت سے یہ طے کیا کہ دعوت الی اللہ اور اسے قوت وطاقت بہم پہنچانے والے امور اور سرگرمیاں (فی سبیل اللہ ) کے قرآنی الفاظ میں شامل ہیں۔
اس فیصلے پر مجلس کے ایک ممبر، سعودی عرب کے مفتی اعظم الشیخ محمد بن ابراہیم نے یہ اضافہ فرمایا :’’ یہاں ایک ضروری چیز ہے جس پر رقم کی زکوۃ خرچ کی جاسکتی ہے، اور وہ ہے دعوت الی اللہ اور دین کے حوالے سے شکوک وشبہات رفع کرنے کے لیے مالی قوت فراہم کرنا۔ بلاشبہ یہ بات جہاد میں شامل ہے بلکہ سب سے بڑی اللہ کی راہ (اعظم سبیل اللہ ) ہے‘‘۔
سعودی عرب کی سپریم علماء کونسل کے ممبر الشیخ عبداللہ جبر ین سے فقہی مجلس کے اس فیصلے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا :
’’ان معروف علما نے بالکل ٹھیک کیاہے اوردرست رائے دی ہے۔ اس سے مسلمانوں کی مشکلات حل ہوں گی، دعوت وارشاد کا کام کرنے والوں کو تائید ومدد حاصل ہوگی، دین کی دعوت کو فروغ ملے گا اور مشرکین کا زور ٹوٹے گا۔
بلاشبہ سبیل اللہ سے مراد وہ راستہ ہے جو اللہ کی طرف لے جاتاہے جیساکہ ارشاد ہے:
(یھدی بہ اللہ من اتبع رضوانہ سبل السلام)(المائدہ :۱۶)
یعنی اللہ تعالیٰ وہ راہ دکھاتاہے جو اس پر چلنے والے کو سلامتی (جنت ) کی طرف لے جاتی ہے ،چنانچہ ہر وہ نیک عمل جو اللہ کے قریب کردے اور اس کی رضا مندی اور جنت کی طرف لے جائے، وہ سبیل اللہ کی قبیل سے ہے۔ اللہ سبحانہ نے مصارف زکوٰۃ کی آیت میں پہلے ان لوگوں کے اوصاف گنوائے جو اپنی ذاتی ضرورت کی بنا پر زکوٰۃ کے مستحق ہیں جیسے فقیر ، نادار، مقروض، مولفۃ القلوب اور مسافر وغیرہ۔ پھر باقی مصارف کو ’فی سبیل اللہ‘ کے عمومی الفاظ سے ذکر کردیا ۔اللہ تعالیٰ نے ہجرت کو بھی ’’اپنے راستہ میں ‘‘قرار دیا ہے۔
(ومن یھاجر فی سبیل اللہ یجد فی الارض مراغما کثیرا وسعۃ) (النساء :۱۰۰)
بلاشبہ اللہ کے دین کی دعوت، دین کی خوبیان بیان کرنے اورپھیلانے، اہل الحاد اور باطل پرستوں کا رد اور کفار ومنافقین کی طرف سے پھیلائے جانے والے شکوک وشبہات کا ازالہ اورتوڑ، یہ باتیں اللہ کی مدد کرنے اوراس کے پسندیدہ دین کی نشرواشاعت کرنے میں شامل ہیں۔ اگر یہ محاذ بے توجہی کا شکار ہوجائے اور لوگ اس پر خرچ نہ کریں اور اسے آگے نہ بڑھائیں او رداعیان حق کی کفالت کا انتظام نہ کریں تو ان مدّات پر زکوٰۃ کی رقم لگانا ضروری ہوجاتاہے ،بلکہ ان مدّات پر زکوٰۃ کی رقم دینا بعض دیگر مدات (جیسے مکاتب، مولفۃ القلوب اور مسافر) سے زیادہ اہم ہوجاتاہے۔ ان مدات میں قرآن مجید اور دینی کتب کی طباعت واشاعت، کیسٹوں اور انٹر نیٹ کے پروگرامات کی تیاری وغیرہ شامل ہیں (جن کے متعلق سائل نے پوچھا ہے (فتاویٰ علماء البلد الحرام ،مرتب :خالد الجریسی ،موسسہ الجریسی الریاض ۱۹۹۹۔ص۲۶۷۔۲۷۲)
جامعۃ الازہر کا فتویٰ
جامعۃ الازہر کی فتویٰ کمیٹی سے پوچھا گیا کہ مصر کے ایک علاقہ میں جہاں مسلمان بڑی تعدا د میں بستے ہیں اوروہاں مساجد کی قلت ہے، ایک مخیر شخص زکوٰۃ کی رقم سے مسجد کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں، کیا وہ ایسا کرسکتے ہیں؟ اس استفتا کا جواب اس وقت کے شیخ الازہر عبد المجید سلیم نے دیا جو درج ذیل ہے:
’’مسجد وغیر ہ کی تعمیر اورا س طرح کے دیگر رفاہ عامہ کے ایسے کاموں کے لیے بعض فقہا کی رائے میں زکوٰۃ کی رقم استعمال کی جاسکتی ہے جن میں تملیک نہیں ہوتی۔ ان فقہا نے اس کے جواز کے لیے آیت کے لفظ (وفی سبیل اللہ) کے عموم سے استدلال کیاہے، اگر چہ ائمہ اربعہ کی رائے یہ نہیں ہے۔ مگر جو رائے ہم اختیار کررہے ہیں، وہ تفسیر رازی میں یوں مذکور ہے :
’’یہ جان لو کہ ’وفی سبیل اللہ‘ کے ظاہر الفاظ سے مال زکوٰۃ کا صرف قتال کرنے والے مجاہدین تک محدود کردینا لازم نہیں آتا، اسی لیے قفّال نے اپنی تفسیر میں بعض فقہا کی یہ رائے نقل کی ہے کہ وہ مردوں کی تکفین وتدفین ،قلعوں اور مساجد کی تعمیر وغیرہ جیسے کاموں پر خرچ کرنے کو جائز قراردیتے ہیں، اس لیے کہ (وفی سبیل اللہ) کے الفاظ میں عموم پایاجاتاہے اوراس میں یہ تما م چیزیں شامل ہیں ‘‘۔ (بدائع الصنائع کے مولف امام کاسانی حنفی نے بھی ’’سبیل اللہ ‘‘کا مفہوم نیکی کے تمام کام ‘‘بیان کیاہے)۔
’’ابن قدامہ المغنی میں پہلے تویہ بیان کرتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے جن مصارف کی صراحت فرمائی ہے، ان کے علاوہ کسی اور مد جیسے مساجد، پلوں اور سٹرکوں کی تعمیر پر زکوٰۃ کی رقم نہیں لگائی جاسکتی ‘‘پھر کہتے ہیں :’’مگر حضرت انس اور حضرت حسن بصری ؒ کہتے ہیں کہ پلوں اور سٹرکوں کی تعمیر پر جو رقم خرچ کی جائے گی، وہ تو دیرپا رہنے والی زکوٰۃ اور صدقہ جاریہ ہے، مگرپہلی رائے زیادہ درست ہے ،اس لیے کہ (انما الصدقات للفقراء والمساکین) میں ’انما‘ حصر اور اثبات کے لیے ہے، اس سے مذکورہ مصارف کا اثبات اور ان کے علاوہ دیگر کی نفی ہوتی ہے‘‘۔ ابن قدامہ کی عبارت سے یہ ثابت ہوتاہے کہ حضرت انسؓ اور حسن بصریؒ رفاہ عامہ کے کاموں (مساجد او ر سٹرکوں اور پلوں کی تعمیر وغیرہ) پر زکوٰۃکی رقم کے استعمال کو جائز سمجھتے ہیں۔ ابن قدامہ نے اس کا جو رد کیاہے وہ وقیع نہیں ،اس لیے کہ رفاہ عامہ کے ان کاموں کا مصارف زکوٰۃ میں شامل ہونا ’وفی سبیل اللہ‘ کے الفاظ کے عموم کی وجہ سے خود اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوتاہے۔ اسی لیے کتاب ’’الروض النضیر‘‘ کی شرح کے مولف نے اسی رائے کو اختیار کیا ہے۔وہ کہتے ہیں جن فقہا نے میت کی تکفین وتدفین اور مسجد کی تعمیر (جیسے رفاہ عامہ کے کاموں) پر زکوٰۃ کے مال میں سے خرچ کرنے کی اجازت دی ہے، ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ چیزیں سبیل اللہ کی صنف میں شامل ہیں، اس لیے کہ سبیل اللہ کا مفہوم ہر نیک کا م کو شامل ہے ،اگر چہ آغاز اسلام میں بکثرت پیش آنے کی وجہ سے وہ اپنے وسیع تر مدلولات کے فقط ایک ہی فرد یعنی جہاد وقتال کے لیے زیادہ بولا جانے لگا تھا ، جیسا کہ اس طرح کی کئی مثالیں ہیں مگر اس معنی ومفہوم نے حقیقت عرفی کی حیثیت اختیار نہیں کرلی، چنانچہ اس لفظ کا اپنا اصل مفہوم باقی ہے اوراس میں ان تمام اقسام کی نیکی کے کام شامل ہیں جس کا مصلحت عامہ یا خاصہ تقاضا کرتی ہو، الا یہ کہ کوئی مخصوص دلیل اس میں استثناء کردے۔‘‘
حاصل کلام یہ کہ ہمیں جو رائے زیادہ راجح نظر آتی ہے، وہ وہ رائے ہے جو بعض فقہا نے دی ہے کہ زکوٰۃ کی رقم مسجد کی تعمیر اور اس طرح کے دیگر نیکی اوررفاہ عامہ کے کاموں پر خرچ کی جاسکتی ہے اور ایسا کرنے سے زکوٰۃ دینے والے کی زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے او راسے پورا ثواب ملتاہے۔ (فتاویٰ الذکوۃ، بیت الذکوۃ کویت ۱۹۸۸۔ع ،ص ۱۵۰ ۔۱۵۱ بحوالہ الفتاویٰ الاسلامیۃ ۔الازہر)
فتویٰ کمیٹی کویت کی رائے
سوال :زکوٰۃ کا ایک مصرف ’’فی سبیل اللہ‘‘ہے ، کیا اس کا مفہو م صر ف جہاد بمعنی قتال اور مجاہدین کو سازو سامان کی فراہمی تک محدود ہے یا اس میں ہر وہ چیز شامل ہے جس میں دین کا بھلا ہو؟
جواب: کمیٹی کی رائے ہے کہ ’’سبیل اللہ ‘‘سے مراد نیکی کی راہ ہے۔ بعض علماے متاخرین کی رائے میں نیکی کا ہر کام مصارف زکوٰۃ میں شامل ہے، مگر کتاب اللہ او رسنت رسول اللہ ﷺ کا جو شخص جائزہ لے گا، اسے یہ نظر آئے گا کہ یہ لفظ جہاد ہی کے حوالے سے استعمال ہوا ہے مگر جہاد جیسا کہ اسلحہ سے ہو سکتا ہے، معاشرہ کی ضرورت کے لحاظ سے دعوت الی اللہ کے ذریعے بھی ہوسکتاہے۔ فتویٰ کمیٹی نے اس حوالے سے پوچھے جانے والے تمام استفسارات کے بارے میں اسی رائے کو اختیار کیاہے، چنانچہ ہر وہ سرگرمی جو دعوت دین یا دفاع اسلام کے حوالے سے ہو، چاہے اسلحہ کے ذریعے سے ہو یاکسی اور ذریعے سے، وہ ’’فی سبیل اللہ ‘‘ اور مصارف زکوٰۃ میں شامل ہے۔ (فتاویٰ الزکوٰۃ حوالہ مذکورہ ،ص ۱۶۰ لجنۃ الفتویٰ وزارۃ الاوقاف والشوؤن الاسلامیۃ ،الکویت ،فتویٰ نمبر ۸؍ ۸۲)۔