ربیع الاول کا مہینہ ہر سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصوصی تذکرہ اور یاد کے ساتھ منایا جاتاہے اور اگرچہ اس کا کوئی شرعی حکم نہیں، لیکن اس ماہ میں سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے تذکرہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا اہتمام زیادہ ہوتاہے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے مختلف طبقات اپنے اپنے انداز اور طریقہ کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ، حالات مبارکہ اور ارشادات مقدسہ کے تذکرہ کے لیے تقاریب کا انعقاد کرتے ہیں۔ اس سال یہ تقاریب اس حوالے سے پہلے سے زیادہ اور منفرد اہمیت کی حامل ہیں کہ یورپ کے بعض اخبارات میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیالی اور توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے بعد مسلمانان عالم میں اضطراب واحتجاج کی جولہر اٹھی ہے، اس کے مناظر ابھی ذہنوں میں تازہ ہیں اور ربیع الاول کے یہ اجتماعات بھی اسی تسلسل کا حصہ دکھائی دے رہے ہیں ۔
اس وقت عالمی سطح پر فکرو فلسفہ اور تہذیب وثقافت کے مختلف رویوں کے درمیان کشمکش اور تصادم کے بڑھتے ہوئے امکانات کی جوصورت حال پید اہوگئی ہے اور اس میں اسلام ایک واضح فریق کے طور پر سامنے آرہاہے، اس کے پیش نظر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وتعلیمات کے زیادہ سے زیادہ تذکرہ کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے، اس لیے کہ اس تہذیبی اور فکری کشمکش میں قرآن کریم اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے ہم صحیح سمت کی طرف رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں اور فکرو فلسفہ اورتہذیب وثقافت کے ان رویوں کا سامنا کرسکتے ہیں جو اسلام کوعالمی منظر سے اس حوالے سے ہٹا دینے کے لیے سرگرم عمل ہیں اور جن کا تقاضاہے کہ جس طرح بہت سے دوسرے مذاہب سوسائٹی کی فکری رہنمائی اور ثقافتی ومعاشرتی قیادت سے دست بردار ہوگئے ہیں، اسی طرح اسلام کو بھی معاشرتی قیادت کے منظر سے ہٹ جانا چاہیے اور دوسرے مذاہب کی طرح اپنی سرگرمیوں اور ہدایات کو شخصی اور پرائیویٹ دائروں تک محدود کر لینا چاہیے۔
آج کے عالمی منظر میں مسلمانوں کو فکروفلسفہ اورتہذیب وثقافت کے حوالے سے یہی سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے اور آج نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وتعلیمات کا اس پس منظر میں مطالعہ کرنے او ر اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا جس حوالے سے بھی تذکرہ کیاجائے، اجروثواب، رہنمائی اور برکات کاذریعہ ہے۔ وہ تو سراپا رحمت وبرکت ہیں اور اجر وثواب کا سرچشمہ ہیں، لیکن ہمیں اپنی ضروریات کو دیکھناہے، اپنی کمزوریوں پر نظر رکھنی ہے اور اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ پھر ان ضروریات،کمزوریوں اورکوتاہیوں کا ایک دائرہ ہمارا داخلی دائرہ ہے، اس کے تقاضے مختلف ہیں، اور ایک دائرہ عالمی اور بین الاقوامی ہے جو ہمارے داخلی دائرے سے الگ ہونے کے باوجود تیزی سے بڑھتے ہوئے گلوبل ماحول کی وجہ سے اپنے فاصلے کم کرتا جا رہا ہے اور دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہوئے مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔
اس پس منظر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وتعلیمات کے ان پہلوؤں کو ترجیحی بنیاد پر سامنے لانے کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے جن کا تعلق موجودہ ضروریات سے ہے، کمزوریوں سے ہے اور کوتاہیوں سے ہے۔ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلیمات وارشادات کے ان حصوں کو زیادہ اہمیت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنا ضروری ہوگیاہے جو آج کے عالمی مسائل سے تعلق رکھتے ہیں اور جن میں ان اشکالات وشبہات کا جواب پایا جاتاہے جو آج کی دنیا کی طرف سے اسلام کے بارے میں نمایاں کیے جارہے ہیں اور جن کا جواب دینے کی مختلف اطراف سے کوششیں جاری ہیں۔ بدقسمتی سے ہم اس حوالے سے بھی افراط وتفریط کا شکار ہیں اور ہماری طرف سے ان معاملات میں دو مختلف بلکہ متضاد رویے سامنے آرہے ہیں جو کنفیوژن کا باعث بن رہے ہیں اور مسائل کے حل کی بجائے ان میں اضافے کا سبب بنتے جارہے ہیں۔ مثلاً ایک رویہ یہ ہے کہ آج کی دنیا کو درپیش مسائل ومشکلات اور اس کے حل کے لیے منطقی اور فطری ضروریات کی نفی کرتے ہوئے اور ان سے آنکھیں بند کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد وتعلیمات کو اسی انداز اور ماحول میں پیش کیا جاتا ہے جس کا ہمیں اب سے دو سو سال یا تین سو سال قبل سامنا تھا۔ ہم جب آج کے ماحول اور تناظر میں تین سو سال قبل کے ماحول اور تناظر کے مطابق مسائل اور احکامات کو پیش کرتے ہیں تو اس سے منطقی طور یہ سمجھ لیاجاتاہے کہ اسلام میں معاشرتی ارتقا کے ساتھ ساتھ چلنے کی صلاحیت نہیں ہے اور وہ تبدیل ہونے والے حالات اور تقاضوں کو اپنے اندر ضم کرنے یا اپنے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کا ذوق نہیں رکھتا۔ اب سے تین سو سال قبل یورپ میں مسیحیت کو اس قسم کی صورت حال درپیش تھی ۔مذہب کے علمبردار اپنے احکام وقوانین کی تعبیر وتشریح میں زمانے کے تغیرات اور ماحول کی تبدیلی کا لحاظ رکھنے کے لیے تیار نہ ہوئے تو یورپ کے عوام نے فیصلہ کرلیا کہ معاشرتی ارتقا کا راستہ روکا نہیں جاسکتااور نہ ہی ان کی تمدن کی ترقی پر قد غن لگائی جاسکتی ہے، اس لیے اگر مذہب ارتقا اور ترقی کے ساتھ ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں ہے تو اسے اپنی جگہ کھڑا رہنے دیاجائے او ر سوسائٹی کو اپنی رفتار کے ساتھ آگے بڑھنے دیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب اور سوسائٹی کاباہمی رشتہ ٹوٹ گیا اور مذہب کی رہنمائی اور اس کی حدود کی پابندی سے آزادہوکر سوسائٹی نے ’’مادرپدر آزادی‘‘کاراستہ اختیار کرلیا جس کے خوفناک نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ بد قسمتی سے آج اسلام کے بارے میں بھی یہی سوچ نمایاں کی جارہی ہے اور اس تاثر کو عام کیا جارہاہے کہ اسلام میں جدیددور کے تقاضوں کو اپنے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اور اس لیے اسے مسجد کے دائرہ میں رہنے دیا جائے اور شخصی زندگی میں اس کے کردار کی نفی نہ کی جائے، البتہ سوسائٹی کو مذہب کی رہنمائی اور اس کے احکام وحدود کی پابندی سے آزاد کردیا جائے۔ اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے بہت سے ارباب دانش جو اس صورت حال سے پریشان ہیں اور اس سوال کا اپنے اپنے طور پر جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں، ان میں سے کچھ دوست دوسری انتہا کی طرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ان کے معاشرت وتمدن کے جدید مسائل ومشکلات اور ان کے بارے میں موجودہ انسانی سوسائٹی نے جو حل سوچ لیاہے یا ان سے نکلنے کے لیے جو راستہ طے کر لیاہے، اسی کو حتمی معیار سمجھ لیاجائے اور اس کے مطابق قرآن کریم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات وتعلیمات کی نئی تعبیر وتشریح کرلی جائے تاکہ ہم یہ کہہ سکیں کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں، وہ قرآن وسنت کی روشنی میں کر رہے ہیں، اگرچہ وہ تعبیر وتشریح ہماری خود ساختہ ہی کیوں نہ ہو ۔
ہمارے نزدیک یہ دونوں رویے غلط ہیں اور انتہاپسندانہ ہیں۔ اصل راستہ ان دونوں کے درمیان ہے جو اگر چہ بہت نازک اور حساس ہے لیکن اس کی ضرورت کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح نئی ضروریات اور ان کے بارے میں زمانے کی سوچ کو معیار تسلیم کرکے قرآن و سنت کی اس کے مطابق نئی تعبیر وتشریح کرنا غلط اور گمراہ کن طرز عمل ہے، اسی طرح نئی ضروریات کو نظر انداز کر دینا اور ان کا کوئی نہ کوئی حل نکالنے کی ضرورت محسوس نہ کرنا بھی غلط ہے اور اسلام کے مزاج کے خلاف ہے ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قرآن کریم کی جمع وترتیب اور تدوین وکتابت کے بارے میں حضرت ابو بکرؓ ،حضرت عمرؓ اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کے درمیان جو مکالمہ ہوا تھا ،وہ ہماری اس گزارش کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ مختلف جنگوں میں قرآنِ کریم کے حفاظ کی کثرت کے ساتھ شہادتوں کی خبر سن کر حضرت عمرؓ کو تشویش ہوئی اور انہوں نے ضرورت محسوس کی کہ قرآن کریم کو مرتب انداز میں لکھ کر محفوظ کر لینا چاہیے۔ یہ ایک نئی ضرورت تھی جو حالات کے تحت پیدا ہوگئی تھی،جسے حضرت عمرؓ نے محسوس کیا اور انہوں نے خلیفۃالمسلمین حضرت صدیق اکبرؓ کے سامنے اس ضرورت کا تذکرہ کیا۔حضرت صدیق اکبرؓ نے ابتدا میں یہ کہہ کر اس کام سے انکار کردیا کہ ایک کام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں ہوا تھا،میں کیسے کر سکتاہوں؟لیکن جب حضر ت عمرؓنے باربار ا س کی ضرورت واہمیت کا احساس دلایا تو اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے حضرت ابو بکرؓ نے قرآن کریم کی جمع وترتیب اور تدوین وکتابت کا اجتہادی فیصلہ کرلیا، لیکن جب انہوں نے جنا ب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصوصی کاتب حضرت زید بن ثابتؓ کو بلا کر یہ کام ان کے سپرد کرنا چاہا تو انہوں نے بھی پہلے مرحلہ میں وہی بات کہی جو حضرت صدیق اکبرؓ نے حضرت عمرؓ سے کہی تھی کہ جو کام جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں ہوا تھا وہ کام مجھے کرنے کے لیے آپؓ کیسے کہہ رہے ہیں؟ان دونوں بزرگوں نے انہیں اس کی ضرورت واہمیت کا احساس دلایا تو وہ اس کے لیے تیار ہوئے۔
ان بزرگوں کا یہ مکالمہ اور پھر فیصلہ ہمارے لیے اسوہ کی حیثیت رکھتاہے اور ایک اصول اور بنیاد ہے کہ کوئی نئی اجتماعی ضرورت پیش آجائے تو اسے نظر انداز کر دینا دانش مندی نہیں ہے بلکہ اس ضرورت کو تسلیم کرنا ،اس کی اہمیت کو سمجھنا اور اس کا حل نکالنا اہل علم کی دینی ذمہ داری ہے۔
کوئی ضرورت اپنے حل سے زیادہ دیر تک محروم نہیں رہتی کیونکہ یہ قانون فطرت کے خلاف ہے ۔البتہ یہ ضرور ہوگا کہ اہل علم اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس کا کوئی حل نکالیں گے تو وہ شرعی اصولوں کی روشنی میں ہوگا اور دین کے دائرے میں ہوگا لیکن اگر اہل علم اپنی ذمہ داری پوری نہیں کریں گے تو لوگ خود اس کا کوئی نہ کوئی حل نکالیں گے جو ظاہر ہے کہ دینی اصولوں اور تقاضوں کے دائرہ کا پابند نہیں ہوگا اور اس سے دین سے انحراف کی حوصلہ افزائی ہوگی۔اس حوالے سے ایک اور تاریخی اور اجتہادی فیصلے کا تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور پہلے دونوں خلفا حضرت صدیق اکبر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے دور میں لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرنا بیت المال کی ذمہ داری تھی اور بیت المال کے نمائندے ہر قسم کے اموال کی زکوٰۃ سرکاری طور پر وصول کیا کرتے تھے، لیکن امیر المومنین حضرت عثمانؓ نے اپنے دور خلافت میں یہ محسوس کیا کہ لوگوں کے پاس جو ذاتی اور پرائیویٹ رقم ہوتی ہے، سرکاری طورپر اس کی زکوٰۃ وصول کرنے کی صورت میں ان کی’’پرائیویسی‘‘متاثر ہوتی ہے اور لوگوں کے ذاتی معاملات میں سرکاری اہل کاروں کا تجسس بڑھتا ہے، اس لیے انہوں نے ’’اموال ظاہرہ‘‘اور ’’اموال باطنہ‘‘ کافرق کرکے لوگوں کی ذاتی اور پرائیویٹ رقوم کو زکوٰۃ کے سرکاری وصولی کے حکم سے مستثنیٰ کر دیا اور کہا کہ اس قسم کے اموال کی زکوٰۃ لوگ اپنی ذمہ داری پر خود ادا کیا کریں تاکہ ان کی پرائیویسی متاثر نہ ہو اور سرکاری اہل کار خواہ مخواہ لوگوں کی ذاتی وپرائیویٹ رقوم او ر اموال کا کھوج نہ لگاتے پھیریں۔
اس نوع کی بیسیوں مثالیں آپ کو اسلامی تاریخ میں ملیں گی۔ خلفاے راشدین کے دور میں،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں اور ان کے بعد کم وبیش ہر دور میں آپ اس کی مثالیں دیکھیں گے کہ کوئی اجتماعی ضرورت پیدا ہوئی ہے، کسی نئے معاشرتی تقاضے نے سر اٹھایاہے تو اہل علم نے اس کا بروقت نوٹس لیا ہے ،اس کاحل نکالا ہے اور شریعت اسلامیہ کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے اگر کہیں اجتہادی دائروں میں تعبیروتشریح اور تطبیق وتنفیذ کے زاویے تبدیل کرنا پڑے ہیں تو ان سے گریز نہیں کیا۔ اسی کا نام اجتہاد ہے، اسی کو زمانے کے بدلتے ہوئے اور بڑھتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے سے تعبیر کیا جاتاہے، لیکن اس بنیادی فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ شریعت کو زمانے کے تقاضوں کے سانچے میں ڈھالنا اور چیز ہے اور زمانے کے تقاضوں کاادراک واحساس کرتے ہوئے شریعت کے اصولوں کے دائرے میں ان کوپورا کرنے کی کوشش کرنااس سے بالکل مختلف امر ہے ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ آج نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ، حالات مبارکہ اور ارشادات مقدسہ کوپیش کرتے ہوئے زمانے کی اس ضرورت کو سامنے رکھنا ضرور ی ہے اور اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو فکروفلسفہ اور تہذیب وثقافت کے جدید چیلنج سے نمٹنا کوئی زیادہ مشکل امر نہیں ہے، لیکن اس کے لیے ارباب عزم وہمت اور اصحاب فہم وادرا ک کی ضرورت ہے جو آگے بڑھیں اور جدید تہذیب وفلسفہ کے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے وقت کے فکری دھارے کارخ موڑ دیں۔