اسلامی تحریکات کا ہدف، ریاست یا معاشرہ؟

مولانا محمد عیسٰی منصوری

اسلام اور قرآن کا مطلوب اسٹیٹ ہے یا انسانی بہبود کے لیے سرگرم معاشرہ؟ یہ اس وقت مسلم دنیائے فکر وفلسفہ کا ایک بڑا سوال ہے۔ دونوں میں سے جس کو بھی نصب العین قرار دیا جائے، ذہن وفکر سعی وجہد اور نتائج بالکل مختلف اور جداگانہ ہوں گے۔ نزول قرآن کے بعد تقریباً ۱۳سو سال تک یہ سوال پیدا نہیں ہوا تھا ۔یہ سوال گزشتہ صدی کے اوائل میں دنیا میں مغرب کے عالمی اقتدار، سیاسی غلبہ اور فکروفلسفے کی حاکمیت کی دین ہے ۔اس سے پہلے مسلم معاشرہ ہر دور میں قر آن وسنت اور سیرت نبویﷺ سے غذا وطاقت اور ہدایت وراہنمائی حاصل کرکے بنی نوع انسان کی فلاح وبھلائی کے نصب العین کی طرف رواں دواں رہا۔ مسلمانوں کے سیاسی عروج وزوال اور عسکری فتح وشکست سے قطع نظر مسلم معاشرے کی اندرونی توانائی اور طاقت اس کے خیر امت ہونے میں پنہاں تھی۔ اس کے خمیر میں ایسی قوت وتوانائی رکھ دی گئی تھی جو اسے انسانیت کی بہبود کے لیے جدوجہد میں مصروف رکھتی تھی او رمعاشرے کی یہ اندرونی طاقت سیاسی وعسکری شکست وزوال کا فی الفور مداوا کرکے اسے دوبارہ کارگاہ حیات میں انسانیت کی راہنمائی اور اس کی بہبود کی راہ پر گامزن کر دیتی تھی۔ رسول خدا ﷺ اور قرآن نے مسلم معاشرے میں ایسی اسپرٹ پید ا کردی تھی جو اسے دنیوی نفع وضرر سے بے نیاز ہو کر پوری انسانیت کی سرفرازی، بہتری اور نفع کے لیے سرگرم رکھتی تھی۔

قرآن حکیم نے مسلم معاشرے کو خالق کی وحدت اور انسانی اخوت ومساوات کے عقیدے پر استوار کیا تھا۔ قرآن پاک کی چھ ہزار چھ سو آیات میں سے کوئی ایک آیت بھی کسی خاص ملک وقوم، نسل یا عرب وعجم سے خطاب نہیں کرتی، بلکہ نوع انسانی سے خطاب کرتی ہے۔ قرآن کا نقطہ نظر قبائلی نہیں بلکہ عالمی ہے۔ وہ پوری انسانیت کی بہبود اور فلاح کی دعوت دیتاہے اور اس کا مقصد ایک ایسا معاشرہ قائم کرناہے جو کسی نسل اور قوم کے بجائے پوری انسانیت کے نفع اور بہتری کے تصور پر مبنی ہو ۔قرآن کے نزدیک مسلم معاشرہ اسی وقت صحیح معاشرہ ہوگاجب وہ پوری نوع انسانی کی بھلائی کے لیے سرگرم عمل ہو ۔قرآن کے نزدیک مسلمان خیر امت یعنی بہترین گروہ اسی لیے ہیں کہ وہ نوع انسانی کی بہبود اور فلاح کے لیے برپا کیے گئے ہیں۔ وہ انسانی سوسائٹی میں معروفات یعنی اچھائیاں اور بھلائیاں عام کرتے ہیں اور منکرات یعنی برائیوں اور ضرر سے بچاتے ہیں اور یہ سب کام کسی دنیوی غرض کے لیے نہیں بلکہ محض خالق کی خوشنودی کے لیے کرتے ہیں۔ یہی چیز مسلم معاشرے کی توانائی اور زندگی تھی جو ہر زخم کو مندمل اور ہر شکست کا مداوا کرتی رہتی تھی۔ 

نزول قرآن کے بعد تقریباً دوسوسال تک مسلم معاشرہ خدا کے ساتھ مستحکم تعلق اور بنی آدم کے ساتھ بھلائی کی بنیاد پر قائم رہا۔ ہر معاشرے کی طرح اچھے برے لوگ یہاں بھی تھے، باہم خونریزیاں بھی چلتی رہتی تھیں، اقتدار اور وسائل کے لیے رسہ کشی اور لذات وشہوات کے لیے تگ ودو بھی جاری رہتی تھی، مگر مجموعی طور پر مسلم معاشرہ اللہ ورسول ﷺکے ساتھ مستحکم تعلق اور نوع انسانی کی وحدت اور بہبود کے دو پہیوں پر آگے بڑھتا رہا۔ یہ معاشرہ انسانیت کی خدمت کے لیے ہر قسم کے علوم وفنون، ایجادات واختراعات، ادارے، شعبے اور افراد مہیا کرتارہا حتیٰ کہ بنی امیہ کے زوال کے وقت جب ہر عربی بولنے والے کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کیا جارہاتھا، عین انھی حالات میں احادیث اور دیگر اسلامی علوم کی تدوین بھی ہورہی تھی ،اجتہاد بھی ہورہاتھا اور مسلمان انسانیت کے بہتری کے لیے نئے نئے علوم وفنون کی ایجاد اور نئے نئے تجربات میں مصروف تھے۔ اسپین میں مسلم حکومتیں اکثر باہم برسرپیکار اور خانہ جنگی میں مبتلا رہیں، مگر مسلم معاشرہ برابر اپنا کام کرتارہا۔ طبیعیات، کیمسٹری، طب ،ارضیات، فلکیات،تاریخ، جغرافیہ اور انسانیت کو نفع پہنچانے والے دیگر علوم وفنون سے مالا مال کرتارہا۔ معاشرے کی یہی اندرونی روح وطاقت اسے ہر دور میں انسانی بہبود کے لیے متحرک رکھتی تھی۔بقول سر آرنلڈ کے جب کبھی مسلمانوں کی تلوار نے شکست کھائی، معاشرے میں پنہاں روح وتوانائی نے بہت جلد اس شکست کو فتح میں بدل دیا۔ تاتاریوں جیسے سفاک اورجابر دشمن سے شکست فاش کے بعد ایسا لگتاتھا کہ اب اسلام کا دم واپسیں ہے ،مگر چند ہی سالوں میں معاشرے کی اندرونی طاقت نے تاتاریوں کو حلقہ بگوش اسلام کردیا۔

مسلم معاشرے کی یہ قوت وروح ہر دور میں برقرار رہی، تاآنکہ مغرب کے مکار وعیار دشمن نے مسلم معاشرے کی اس اندرونی توانائی وقوت ہی کو ڈائنا مائٹ کردیا اور نقب لگاکراس میں پنہاں انسانی بہبود کے جوہر کو برباد کردیا اور مسلم معاشرے کو خود غرضی ،نفس پرستی ،حرص وآز، خواہشات وشہوات اور فلسفہ لذّت وہوس پرستی کے حیوانی وشیطانی خطوط پر استوار کردیا جس کی وجہ سے مسلم معاشرے کی روح نکل گئی اور اصل بنیاد منہدم ہوگئی۔ معاشرے سے انسانیت کی بہبود کی فکر وجذبہ نکلنے سے معاشرہ بے جان لاش بن کر رہ گیا۔ گزشتہ دو تین سو سال میں مسلم معاشرے نے انسانیت کی بہبود کے لیے نہ کوئی علم ایجادکیا ہے اور نہ کوئی سائنسی دریافت کی ہے۔ اس کے بعد مسلمانوں نے جہاں کہیں عسکری وسیاسی شکست کھائی، اس کا کوئی مداو انہیں ہوسکا کیونکہ معاشرے کی روح اور زندگی نکل چکی تھی۔ اب ایک شکست دوسری کی اور دوسری شکست تیسری کی راہ ہموار کرتی رہی۔ اس پے درپے شکست وریخت کے ماحول میں بیسویں صدی کے کچھ ملت کا درد رکھنے والے مفکرین نے جب دیکھا کہ پوری دنیا کا مسلم معاشرہ مغرب کی یلغار کے سامنے ہمہ جہت شکست وریخت سے دوچار ہے اور ایک طرف کمیونزم اور دوسری طرف مغربی فکروفلسفے اور تمدن وکلچر کی یلغار کے سامنے مسلم معاشرہ دن بدن سپر انداز ہوتاجارہاہے تو انہوں نے فکری ونظریاتی طور اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی۔ علمی طور پر کمیونزم کے فلسفے کا پوسٹ مارٹم کیا اور مغربی کے سیاسی واجتماعی نظریات کا تنقیدی جائزہ لے کر ان دونوں کو نوع انسانی کے بجائے محض مغرب کے طبقہ امرا واشراف کے مفادات واقتدار کے تحفظ کا ذریعہ ثابت کیا۔ مگر مسلم معاشرے کی اندرونی طاقت وروح نکلنے کی وجہ سے جو تنزل وزوال پید ا ہوگیا تھا، وہ دن بدن تیز ہوتا گیا اور مغرب کے خونی پنجے کی گرفت مزید مضبوط ہوتی رہی۔ ان حالات میں مسلم مفکرین کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کمیونزم کے نظریے اور مغربی تمدن وکلچر کے نفوذ کا اصل سبب ان کی پشت پر عظیم الشان اسٹیٹ کا ہونا ہے ۔ایک کی پشت پر رشین امپائر ہے تو دوسرے کی پشت پر طاقتور مغربی حکومتیں، جبکہ مسلمانوں کی سیاسی قوت ٹوٹ پھوٹ کر بکھر رہی تھی جو بالآخر ۱۹۲۴ میں اختتام کو پہنچ گئی۔ ان مایوسی کے حالات میں تاریخ میں پہلی بار بیسویں صدی میں بعض اسلامی مفکرین نے اسلامی اسٹیٹ کے قیام کو قرآن اور اسلام کا نصب العین قر ار دے کر پورے قرآن واسلام کو اس فکری محور کے گرد اس طرح سے گھمایا کہ قرآن کی ایک بالکل نئی تعبیر سامنے آئی جسے بجا طور پر ایک ’’سیاسی تعبیر‘‘ کہا جاسکتاہے۔ مسلم نوجوانوں کی آنکھوں میں ہزار بارہ سو سال کی اسلامی امپائر کی شان وشوکت کا نقشہ اور کانوں میں مسلم اسٹیٹ کی عظمت وبالادستی کی پرشکوہ داستانیں گونج رہی تھیں۔ انہوں نے اسلام کی اس نئی تعبیر کو درد کا درمان اور عظمت رفتہ کے حصول کا واحد طریقہ جانا، چنانچہ مسلم نوجوانوں، خاص طور پر جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں نے جوق درجوق ان مفکرین کی آواز پر لبیک کہہ کر اسلامی اسٹیٹ کے قیام وحصول کو مقصد حیات بنایا۔اس نئے نصب العین کی خاطر ان مفکرین کو اسلام کی پوری ترتیب بدلنی پڑی، یعنی عقائد، عبادات، اخلاق، معاملات او رسیاست کی ترتیب کو برعکس کرکے سیاست کو مقدم کرنا پڑا او ر اس تعبیر کے لیے انسان اورخدا کے مابین عبدیت کے گہرے رشتہ وتعلق کو حاکم ومحکوم کا رسمی رشتہ قرار دینا پڑا، جبکہ لفظ اللہ کے لفظی معنی ہی اس ہستی کے ہیں جس سے بے انتہا محبت کی جائے، جسے قرآن نے ’والذین آمنوا اشد حباّ للہ‘ سے تعبیر کیا ہے۔ 

یاد رہے بیسویں صدی کے ان عظیم مفکرین نے، جن میں شیخ حسن البناء، سید ابو الاعلیٰ مودودی اور فلسطین کے شیخ تقی الدین نبھانی وغیرہ شامل ہیں، اپنے کام کی ابتدا معاشرے کی اصلاح وتربیت اور اس کی توانائی وروح کی بازیافت ہی سے شروع کی تھی اور چند سال میں اس کام کے نہایت مفید نتائج سامنے آئے۔ باصلاحیت اور مخلص تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک ٹیم وجود میں آگئی، مگر حالات کے دباؤ، کام کی کٹھنائی، اس کے صبر طلب ہونے اور مغر ب کی طاغوتی طاقتوں کے ظلم وستم کی آندھیوں اور ان کی پوری دنیا پر تسلط وغلبے کے حالات نے ان مفکرین کو مختصر راستے (شارٹ کٹ) پر ڈال دیا۔ پھر ان جماعتوں اور اس فکر سے وابستہ بعض افراد نے جب دیکھا کہ یہ نصب العین (اسٹیٹ کا قیام) دنیا کے مروجہ معروف اور متداول طریقوں سے حاصل نہیں ہو پا رہا تو انہوں نے جلد بازی میں انتہا پسندی کا راستہ اختیار کیا، چنانچہ اخوان ہی سے جماعت الہجرۃ والتکفیر (جس سے احمد الظواہری اور صدر سادات کے قاتل خالد کا تعلق ہے ) جیسی انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والی جماعتیں وجود میں آئیں۔ اگر چہ بعد میں اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی نے ان سے باضابطہ طور پر اظہار لاتعلقی کیا مگر یہ نہ بھولنا چاہیے کہ یہ تنظیمیں اسی نصب العین یعنی اسلامی اسٹیٹ کے جلد حصول کی خواہش میں پید ا ہوئیں اور یہ لوگ دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کی بدنمائی اور بدنامی کا اور انسانیت کو اسلام سے وحشت زدہ کرنے کا سبب بنیں۔

جب ہم اسٹیٹ کے قیام کے نصب العین کے لیے قرآن وسنت اورحضرات انبیا کی زندگیوں کی طرف رجوع کرتے ہیں تو قرآن کی ایک آیت بھی براہ راست ہم سے اسٹیٹ کے قیام کا مطالبہ نہیں کرتی اور نہ کوئی واضح حدیث ہمیں اس کام کا مکلف بناتی ہے، البتہ قرآن نے عمل صالح پر استخلاف فی الارض کا وعدہ کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ جب اہل ایمان کو اقتدا ر ملتاہے تو وہ نماز وزکوٰۃ کو قائم کرتے ہیں ،معروفات کو پھیلاتے ہیں اور منکرات سے روکتے ہیں اور یہ بھی کہ اہل اقتدار حکومت کے قائم ہو جانے کے بعد اگر اللہ اور رسول ﷺ کے احکامات کے مطابق فیصلے نہ کریں تو قرآن انہیں ظالم، فاسق بلکہ کافر تک قرار دیتاہے ۔قرآن نے تین انبیاء سابقین ،حضرت یوسف ؑ ،حضرت داؤدؑ ،اور حضرت سلیمانؑ کا تذکرہ صاحبان اقتدار کے طور پر کیاہے۔ وہیں واضح طور پر یہ بتا دیا کہ یہ اقتدا ر ان کی کسی کوشش کے بغیر محض اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا تھا۔ مقام غورہے کہ جو قرآن سینکڑوں جگہ پر پیرایے اور اسلوب بدل بدل کر نماز ،زکوٰۃ ،اللہ کی راہ میں جان ومال کے خرچ کرنے، تقویٰ، احسان ،صبر اوردیگر اوصاف واعمال کی تلقین کرتا اور تاکیدی حکم بیان کرتاہے اور انہیں ایک مسلمان کا مقصود ومطلوب قرار دیتاہے، ایک جگہ بھی واضح طور پر اسلامی اسٹیٹ کے قیام کا مطالبہ نہیں کرتا۔

اسی طرح ہزارہا احادیث میں سے کوئی ایک حدیث بھی واضح طور پر اسٹیٹ کے قیام کا مطالبہ نہیں کرتی بلکہ اس کے برعکس نفسانیت اور شروفساد کے دور میں بہت سی احایث اقتدار اورحکومت کے جھمیلوں سے دور ہو کراللہ ورسول ﷺ کی اطاعت، عبادات واعمال اور معاشرے کی تعمیر میں لگ جانے کی طرف راہنمائی کرتی ہیں اورقرب قیامت میں جب معاشرہ فساد کی انتہاکو پہنچ کر خیر کو قبول کرنے کی استعداد کھو دے گا، اس وقت معاشرے کی فکر کے بجائے اپنی ذات کو اللہ ورسول ﷺکے حکم اور ذکر وعبادات پر جمانے کی ہدایت کرتی ہے۔ یہ بات بھی محل غور ہے کہ اسلام کے چودہ سو سالہ دور میں کسی صحابی،ؓ تابعیؒ ،مجتہد ،محدث، عالم یا فقیہ اور بزرگ وولی نے قرآن وسنت او رسیرت سے اسلام کا نصب العین اسٹیٹ کا قیام نہیں سمجھا جس پر بیسویں صدی کے بعض مفکرین نے لٹریچر کے ڈھیر لگادیے۔ ہمارے نزدیک اسلام جیسے واضح نصب العین رکھنے والے مذہب کے متعلق یہ تصور ہی ناقابل فہم اور گمراہ کن ہے کہ اس کی صحیح حقیقت ومعنویت یا نصب العین بیسویں صدی تک پردۂ خفا میں رہا۔

اگر اسلام پوری انسانیت کا مذہب ہے اور قرآن ’ہدی للناس‘ اور ’بلاغ للناس‘ ہے،یعنی تمام انسانیت کے لیے پیغام ہے اور پیغمبر اسلام ﷺ ’کافۃ للناس بشیرا ونذیرا‘ ہیں اور ساری نوع انسانی آپ کی امت دعوت ہے تو جس طرح ایک تاجر اپنا مال بیچنے کی خاطر بعض اوقات خرید ار کی طرف سے ناگوار باتوں کو بھی گوارا کرلیتاہے، اسی طرح داعی کو مدعو کے رویے سے صرف نظر کرکے اور صبر وتحمل کا دامن تھام کر اپنا پیغام پہنچانا ہوگا۔ یہی کام مسلم معاشرہ ہر دور میں خاموشی سے کرتارہا حتیٰ کہ برصغیر میں مسلم اسٹیٹ کے اختتام کے وقت مسلم آبادی کا تناسب بمشکل دس فیصد رہاہوگا جوایک صدی بعد کل آبادی کے ایک تہائی کے قریب جاپہنچا ۔اگر حالات نارمل رہتے اور معاشرہ اپنا کام کرتارہتا تو قیاس کہتاہے کہ مزید ایک صدی میں برصغیر کے مسلمانوں کو واضح اکثریت میں بدل جانے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی تھی، مگر دعوتی کام کے بجائے سیاسی ذہن وفکر اور اقتدار کی خواہش نے برصغیر کے معاشرے میں منافرت، دوری اور تلخی گھول کر اسلام کے سمجھنے کے امکانات ختم نہیں تو نہایت محدود ضرور کردیے۔ اسلام جیسے آفاقی اور پوری انسانیت کے لیے پیغام رکھنے والے مذہب کو اسٹیٹ کی تنگ نائے میں بند کرنا ناقابل فہم ہے۔ جس دین کی تعریف خود پیغمبر اسلام ﷺ نے ’النصیحہ‘ یعنی خیر خواہی کے لفظ سے کی ہو اور بتایا ہوکہ یہ اللہ ورسول ﷺ، مسلمانوں اور پوری انسانیت کے ساتھ بھلائی اور خیر خواہی کا نام ہے، ا س کا اولین تقاضا انسانیت کے درمیان ہر قسم کی غلط فہمیوں کو ختم کرکے ان کو پیغام سننے کے مواقع مہیا کرناہونا چاہیے، جبکہ اسٹیٹ اور اقتدار کا لفظ ہی اقوام عالم کے درمیان تناؤ، فاصلوں اور بدگمانیوں کے ڈھیر لگا دیتاہے۔ اگر اسلام کا نصب العین کسی اسٹیٹ کا قیام ہوتا تو مسلمانوں کے اسلامی اسٹیٹ کو چھوڑ کر برصغیر، چین، انڈونیشیا او ر دنیا بھر میں پھیل کر دعوت اسلام کی تگ ودو بے معنی ہوجاتی ہے۔ برصغیر میں موجود تقریباً پچاس کروڑ مسلمانوں میں ننانوے فی صد یہاں کی مقامی آبادی سے ہیں۔ یہی حال دنیا بھر کے مسلم معاشروں کا ہے۔ یہ سب سے بڑی شہادت اور دلیل ہے جو قائد اعظم اور علامہ اقبال ؒ کے دو قومی نظریے پر سوالیہ نشان قائم کر دیتی ہے، کیونکہ اسلام پوری انسانیت کا مذہب ہے نہ کہ ایک قومی یا قبائلی مذہب جو کہ جغرافیے کی تنگ نائے میں محدود ہو کر رہ جائے ۔

آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک انڈونیشیا کسی فوج یا اسٹیٹ کے بغیر مسلم ملک بنا اور دوسرا بڑا ملک بنگلہ دیش مسلم اسٹیٹ کے دور میں نہیں بلکہ برٹش امپائر کے عین دور شباب میں مسلم اکثریت کاخطہ بنا، اسلام اپنی اشاعت میں کبھی اسٹیٹ کامرہون منت نہیں رہا۔ دنیا میں مسلم اسٹیٹس بنتی بگڑتی رہیں، اس سے اسلام کی رفتار پر کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ وہ اپنی اندرونی توانائی واسپرٹ سے برابر نئی نئی فتوحات حاصل کرتارہا کیونکہ

؂ نشہ مے کوتعلق نہیں پیمانے سے

برصغیر میں اسلام کا نام استعمال کرکے ۵۸ سال پہلے ایک اسٹیٹ وجود میں آگئی مگر اسلام کبھی اسلام آباد کے ائیر پورٹ پر نہیں اتر سکا اور نہ مستقبل میں کبھی اترنے کا امکان نظر آتاہے۔ اسلام تو خیر بہت بڑی چیز ہے، اگر اگلے ۵۸ سال میں صحیح معنی میں مغربی ڈیموکریسی اور سوشل جسٹس (سماجی انصاف ) ہی آجائے تو ہم اسے بھی اس نظریے کی کامیابی سمجھیں گے، مگر اس کا بھی دور دور تک کوئی امکا ن نظر نہیں آتا۔ غور کیاجائے تو مسلمانوں کی سوچ وفکر کا رخ انسانی بہبود اور معاشرے کی تعمیر کے بجائے اسٹیٹ کے قیام اور حصول اقتدار کی طرف مڑجاناہی موجودہ پریشانیوں کا بنیادی اور اصل سبب ہے۔ مثلاً امریکہ میں مسلمان تیزی سے اپنے قدم جماتے جارہے تھے اور عددی اعتبارسے دوسری بڑی کمیونٹی بن چکے تھے۔ مسلم معاشرت خاموشی سے اپنا کام کر رہی تھی کہ مسٹر بش کے پہلے الیکشن کے موقع پر مسلمانوں نے اپنی سیاسی طاقت کا مظاہر ہ کردیا جس پر صہیونی طاقتوں کے کان کھڑے ہوگئے جن کا عرصہ سے امریکہ ومغرب پر ہمہ جہت اقتدار قائم ہے کہ مسلمانوں کی یہ جرات کہ ہماری حدود میں دخل دیں، یہاں یہ طے کرنا کہ اقتدار پر کون فائز ہو، صرف ہماراحق ہے، اور اس کے بعد نائن الیون کا ڈرامہ رچایا گیا اور امریکہ میں مسلمانوں کا وہ حشر کیا گیا کہ جان کے لالے پڑگئے ۔

مسلم معاشرہ کی اندرونی روح وتوانائی کے خاتمہ کا ایک بہت بڑا سبب تو خود اہل دین کا اعتقادی وفقہی مسالک کے جھگڑوں میں مشغول ہو کر انسانیت کے تئیں اپنے فریضے سے غافل ہو جانا ہے۔ صدیوں سے مذہبی طبقے کا دائرہ کا ر عقائد وعبادات اور نیک بننے کی مشق رہ گیا ہے۔ ان کے پاس انسانیت کی بہبود کے لیے سوچنے کی فرصت نہیں ہے۔ دوسرا سبب مغربی اقوام بالخصوص برطانیہ وفرانس کا عالم اسلا م پر قائم ہونے والا سیاسی اور علمی وفکری غلبہ ہے۔ برطانیہ نے برصغیر میں اپنے نظام تعلیم، افکار ونظریات اور تمدن وکلچر کے ذریعے ایک ایسی نسل پیدا کردی جس کی نشوونما خواہشات ،خود غرضی ،نفس پرستی اور حیوانیت کے خصائص پر ہوئی۔برصغیر میں برٹش امپائر پنجاب کی فوج، پولیس اور انٹیلی جنس کے بل بوتے پر قائم رہا۔ اس نے ایک طبقے کو ملک وملت سے غداری کے عوض زمینیں وجاگیریں دے کر عوام پر تسلط وغلبہ بخشا۔ جب برطانیہ نے محسوس کیا کہ اس کی پروردہ نسل اس کے منشا کے مطابق اس خطے کو سنبھال سکتی ہے تو سیاسی اقتدار اس ٹولے کے حوالے کرکے واپس آگیا۔ پاکستان بننے کے بعد یہ طبقہ گزشتہ ۵۸ سال سے بلاشرکت غیر ے ملک کا مالک ومختار بنا ہواہے۔ فوجی حکومت ہو یا جمہوری، اصل اقتدار انھی مراعات یافتہ غدار خاندانوں کا رہا جو ہر دور میں ملک کے وسائل کواپنی ذاتی جاگیر جان کر لوٹ کھسوٹ کرتے رہے ۔ بینکوں سے کروڑوں اربوں روپے ہڑپ کرکے معا ف اور قیمتی زمینیں کوڑیوں کے دام اپنے نام الاٹ کرواتے رہے۔ پاکستا ن کے حالیہ زلزلے میں بیرونی ممالک کی امداد کا ایک بڑا حصہ یہ طبقے ہڑپ کرچکے ہیں۔ یہ اسلام اور قرآن کو اپنے لیے پیغام موت سمجھتاہے ۔ مغرب نے تقریباً ہر ملک میں ایسا طبقہ پیدا کرکے اقتدار واختیارات اور ملک کی باگ ڈور اس کے ہاتھ سونپ رکھی ہے جو امریکہ وبرطانیہ کا خادم بن کر ان کے چشم ابرو کے اشارے پر کام کر رہا ہے۔ 

غرض مسلم معاشرے کی تباہی کا اصل وبنیادی سبب معاشرے کی روح کا نکل جانا ہے اور قرآن نے انسان کی بہبود کے لیے جو اسپرٹ پید ا کی تھی، اس سے محروم ہوجانا ہے۔ یہی مسلم مفکرین کے لیے وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے کہ اس جاں بلب معاشرے کی روح وتوانائی کس طرح واپس لوٹے، نہ یہ کہ اقتدار اور حکومت کے ایوانوں تک علما و مفکرین کی رسائی کیسے ہو۔اول تومغرب کی پروردہ نسل کبھی خدا ورسول ﷺ پر ایمان رکھنے والوں کو اقتدارتک پہنچنے نہیں دے گی۔ یہ حقیقت دن بدن واضح ہوتی جارہی ہے کہ مغرب مسلم ممالک میں جمہوریت کے نام پر عراق اور افغانستان کی طرح اپنے فرمانبردار اہلکاروں کی حکومت کا خواہاں ہے۔ بفرض محال دینی جماعتیں اگر کسی مسلم ملک میں الیکشن کے ذریعے اوپر آبھی گئیں تو عالمی طاقتوں نے، جو گزشتہ کئی صدیوں سے صہیونی شیطانوں کی غلام وآلہ کار بن چکی ہیں، انہیں بے بس وبے اثر کرنے کے لیے دوسرا انتظام کررکھا ہے۔ وہ یہ کہ دوسری جنگ عظیم کے فاتحین امریکہ وبرطانیہ وغیرہ نے اپنی فتح کو دائمی بنانے اور پوری انسانیت پر نافذ ومسلط کرنے کے لیے اقوام متحدہ کو وجود بخشا،اور یو این او کے ذریعے دنیائے انسانیت پر اپنا اقتدار مستحکم کرلیا۔ دنیا کے سارے ممالک بشمول مسلم ممالک یواین او کے چارٹر پر دستخط کر کے اس بات کا عہد کر چکے ہیں کہ وہ اپنے اپنے ملکوں میں یواین او کے مطالبات کو نافذ کریں گے اور اپنے ملکی وقومی آئین وقوانین کو بدل کر ان کے مطابق بنائیں گے ۔

یواین او کا یہ دستور اور چارٹر مغربی طاقتوں کے مفادات، خواہشات اور تمدن کے مطابق اور آسمانی تعلیمات کے متوازی بلکہ برعکس ہے۔ مثلاً اس کی ایک دفعہ یہ ہے کہ بالغ عمر کے مرد وعورت رنگ ونسل، جغرافیہ اور مذہب کی تفریق کے بغیر شادی کرسکیں گے۔ اب آپ کسی مسلمان لڑکی کو غیر مسلم سے شادی کرنے سے نہیں روک سکتے ۔ایک دفعہ یہ ہے کہ کسی مجر م کو ایسی سزا نہیں دی جائے گی جس سے اس کی تذلیل ہو یا اسے اذیت ہو، یعنی قرآن کے حدود وقصاص کے تمام قوانین یک لخت ختم۔ ایک دفعہ یہ ہے کہ مرد وعورت ہر اعتبار سے مساوی ہوں گے۔ اس سے قرآن کے تمام معاشرتی وعائلی قوانین ختم ہو جاتے ہیں، مثلاً طلاق دینے کا حق جس طرح مرد کو ہے، عورت کو بھی دینا ہوگا۔ اسی طرح قرآن کے وراثت کے تمام قوانین منسوخ ہو جاتے ہیں۔ لڑکے کے دو حصے اور لڑکی کا ایک حصہ نہیں، بلکہ مساوی حق ہوگا۔ چندسال پہلے مصری عدالت نے دو لڑکوں کو جنسی تعلق قائم کرنے کی وجہ سے سزادی تو اس پر حسنی مبارک کو یہ کہہ کر مغرب سے معافی مانگنا پڑی کہ ابھی معاشرے میں قرآن کا کچھ (فرسودہ) اثر باقی ہے اس لیے یہ غلطی ہوئی ،ورنہ یہ ان ملزمین کا بنیادی حق ہے۔ یو این او پہلے ہی طے کرچکی ہے کہ دنیا میں نیوکلیر پاور بننے کا حق صرف پانچ بڑی طاقتوں ہی کا ہے تاکہ مغرب کی دہشت پوری دنیا پر طاری رہے۔ غرض پوری دنیا پر اقوام متحدہ کے نام سے مغرب کا عالمی ا قتدار قائم ہوچکاہے اور یو این او کا یہ حق دنیا کے تمام ملک تسلیم کرچکے ہیں کہ اس کے آئین وقوانین اورقراردادوں کی خلاف ورزی کرنے والی حکومتوں پر یواین او کو فوج کشی کرکے ان حکومتوں کو ختم کرنے کا حق ہے، جیسا کہ افغانستان میں ہوچکاہے۔

موجودہ حالات میں اقوام متحدہ کے قوانین اور چارٹر کی خلاف ورزی کرنے کی جرات چین اور بھارت جیسے ملک بھی اپنے میں نہیں پاتے تو مسلم ممالک کس شمار میں ہیں؟یہ آج کی دنیا کے زمینی حقائق ہیں۔ اب ان کو سامنے رکھ کر بتائیے، اگر دینی جماعتیں کسی خطے یا ملک میں انتخابات کے ذریعے اقتدار تک پہنچ بھی گئیں تو وہ کیا کچھ کر پائیں گی اور کس طرح اسلام کا نفاذ کریں گی؟ موجودہ حالات میں ہمارے پاس واحد آپشن (راستہ) یہی رہ جاتاہے کہ قرآن واسلام نے پوری انسانیت کی بہبود کا جو پیغام اور پروگرام دیا ہے، اس سے دنیائے انسانیت کو روشناس کرائیں ،اور خود عملی نمونہ بن کر جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے دعوت کا امپائر قائم کرکے تمام انسانیت کو ان کی دنیا وآخرت کی سرخروئی وسرفرازی کی یقینی راہ کی طرف بلائیں، نہ کہ اقتدار کے حصول کی دوڑ میں شامل ہوکر اقوام عالم کے حریف بن جائیں۔ پوری تاریخ شاہد عدل ہے کہ جب کبھی معاشرہ وافراد پر ایمان واسلام کا رنگ چڑھا تو خود بخود اسلامی اسٹیٹ قائم ہوگئی۔ پوری تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اسٹیٹ کے ذریعے معاشرہ وافراد میں ایمان واسلام قائم ہوا ہو۔غرض وقت کا سب سے بڑا چیلنج اور بنیادی سوال ہے، اسٹیٹ یا سوسائٹی؟ ہر مسلمان خاص طور پر مسلم مفکرین وزعما اور قرآن وسنت کا علم رکھنے والوں کے لیے یہ سوال وقت کی سب سے بڑی آزمائش اور ان کے فہم وبصیرت کا امتحان ہے۔ اس سوال کا جواب یا فیصلہ امت مسلمہ بلکہ پوری انسانیت کا مستقبل طے کرے گا۔

اسلامی تحریکات اور حکمت عملی

(مئی ۲۰۰۶ء)

تلاش

Flag Counter