اتحاد امت کا مفہوم اور اس کے تقاضے

محمد وحید خراسانی

امت اسلام کے بنیادی اور ضروری اصولوں میں سے ایک چیز یہ ہے کہ مسلمان ’’ایک امت‘‘ ہیں جیسا کہ آیت کریمہ ’’ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاعبدون‘‘ (بیشک تنہا تمھاری امت ،امت واحدہ ہے اور میں تمھارا پروردگارہوں، پس میری عبادت کرو) یا دوسری آیت شریفہ ’’ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاتقون‘‘ سے ظاہر ہے۔ عبارتیں دو ہیں، مگر دونوں کا مطلب یہ ہے کہ امت اسلامی ایک ہی امت ہے۔ ....... اسلام ’’امت ‘‘ تشکیل دینے کے لیے آیا ہے۔ امت کا مطلب ہے ایسی جماعت جو ایک رہبرکی پیروی کرتی ہو۔ جو جماعت ایک راہ پر گامزن نہ ہو، اس کو امت نہیں کہتے ۔قرآن کریم نے امتوں کو دین اور عمل کے اعتبار سے ایک دوسرے سے الگ کیاہے اور ہرایک کو اپنے عمل کا جو اب دہ گرداناہے: ’’تلک امۃ قدخلت لھا ماکسبت ولکم ماکسبتم ولا تسئلون عما کانوا یعملون‘‘۔ ......

شیخ طوسی تفسیر تبیان میں رقم طراز ہیں: ’’والامۃ اہل الملۃ الواحدۃ کقولھم امۃ موسیٰ،امۃ عیسیٰ،وامۃ محمد‘‘ امت ایک دین کی پیروی کرنے والوں کو کہتے ہیں، جیسے امت موسیٰ ،امت عیسیٰ ،امت محمدﷺ۔ اسی مقام پر لکھتے ہیں: ’’والملۃ والنحلۃ والدیانۃ نظائر‘‘ یعنی ملت، دین اور آئین کے ایک معنی ہیں۔ اور ملت کا ایک معنی جانا پہچانا اور معین راستہ ہے۔ پس ملت ابراہیمؑ کا معنی ہے وہ جانا پہچانا اور معین راستہ جس کو ابراہیم نے جملہ انسانوں اور اپنے ماننے والوں کے لیے بنایا ہے، جس سے مراد دین ابراہیم ہے ۔اس بنا پر امت اور ملت ،معنی میں مشترک ہیں اور ایک ہی نقطے پر ختم ہوتے ہیں اور امت وامام ایک ہی مادہ سے ہیں۔ پس وہ جماعت اور جمعیت جو اسلام کے نام پر ایک امام یعنی لغوی اعتبار سے ایک پیشوا کی،جو سرکاررسالت مآب ﷺ ہیں، پیروی کرنے والے ہیں ،ایک امت ہیں، اور دوسری قومیں ،جن کا پیغمبر ایک ہے، وہ بھی بذات خود امت ہیں۔ مسلمان گورے ہوں یا کالے ،سرخ پوست ہوں یا زرد پوست، مشرقی نسل کے ہوں یامغربی نژاد کے، کسی بھی زبان میں کلا م کرتے ہوں اور کسی بھی قوم و قبیلہ سے تعلق رکھتے ہوں، سب کے سب ایک امت ہیں’’ ایک اسلامی امت ‘‘۔ .......

قرآن مجید میں ارشادہے: ’’ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ‘‘۔ سیاق کے اعتبارسے اس آیت کے دو معنی کیے گیے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ آیت کا خطاب تمام انبیاے کرام کے ماننے والوں سے ہے۔ چونکہ اس آیت سے پہلے قرآن مجید نے دوسرے انبیائے کرام کاذکرکیا ہے اور اس کے بعد فرمایا: ’’ وان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاعبدون‘‘ اس کے بعد بھی اختلاف ہی کابیان ہے، یہ ارشاد فرمانے کے بعد کہ تم سب ایک امت ہو اور میں تمھارا پروردگارہوں ،تمھیں میر ی عبادت کرنا چاہیے، ارشادہوتاہے کہ انہوں نے آپس میں اختلاف کیا اور ان کے اس اختلاف کی بنیاد ’’بغیا بینھم‘‘ ہے، یعنی انھوں نے ایک دوسرے کے خلاف بغاوت کی بنیاد پر اختلاف کیا۔ اگر آیت کے یہ معنی کیے جائیں تو آیت کا تعلق ’’اتحاد ادیان ‘‘ سے ہوگا، چونکہ ارشاد ہوتاہے ’’اے خدا کی عبادت کرنے والو! اے ان انبیائے کرام کے ماننے والو جن کاہم نے پہلے ذکر کیا ہے ،تم سب کے سب ایک امت ہو اور تمھارے امت ہونے کی وجہ یہ ہے کہ تم سب خدا کی عبادت کرتے ہو: ’’ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاعبدون‘‘۔ عبادت، یکتا پرستی اورتوحید ،ادیان آسمانی کے اتحاد کامعیار ہے۔ آیت کے ذیل سے بھی اسی معنی کی تائید ہوتی ہے ،لیکن بعض مفسرین کہتے ہیں کہ نہیں ، بلکہ قرآن مجید نے دوسرے انبیائے کرام کا ذکر کرنے کے بعد مسلمانوں کومخاطب قراردے کرارشاد فرمایا کہ ان کی حالت تویہ تھی، اب تم بتاؤ کہ تم کیسے ہو؟ تم بذات خود ایک امت ہو۔ ’’ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاعبدون‘۔‘ اور دوسری آیت میں ارشاد ہوتاہے ’’فاتقون‘‘۔ اس معنی کی بنیاد پر ایک امت ہونے کا معیار ہمارے ہاتھ آجاتاہے۔ ہم امت اسلام ہیں، اس لیے کہ موحد ،خدا پرست اور ایک پیغمبر وشریعت کے ماننے والے ہیں۔ پس مسلمان سب کے سب ’’ایک امت ‘‘ہیں۔

اسلامی اتحاد کے بارے میں تعبیریں متعدد ہیں۔ ایک تعبیر اور بھی ہے اور وہ ہے ’’اخوت اسلامی‘‘ اسلامی بھائی چارہ۔ اتحاد اسلامی یا اتحاد مسلمین کا زیادہ تر تعلق سیاسی اور اجتماعی پہلو سے ہے او ر اسلامی اخوت وبرادری کاتعلق جذباتی پہلو سے ہے۔ ( قرآن مجید) کہتا ہے کہ تمھیں جذباتی لگاؤ کے اعتبار سے ایک دوسرے کا بھائی ہونا چاہیے۔ ’’واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا ‘‘ اس میں ارشاد ہوتاہے کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، خدا نے تمھارے دلوں کو ایک دوسرے کے نزدیک کیا، تم ایک دوسرے کے بھائی ہوگئے۔ اخوت دلوں کے قرب اور جذبات کی ہم آہنگی کانام ہے۔ بھائی چارہ کا تعلق اسلامی جذبات سے ہے ،مسلمانوں کو میدان سیاست واجتماع ،میدان اقتصاد ،کلی مسائل، احکام وشریعت اور اپنی تقدیر میں ایک دوسرے کے شریک اور ایک امت ہونے کے علاوہ جذبات کی دنیا میں بھی ایک دوسرے کا بھائی ہونا چاہیے۔

قر آن مجید نے اس سلسلے میں تفصیل سے بحث کی ہے اور آیات کریمہ میں ایسے لطیف وظریف مضامین ہیں کہ انسان کو یہ یقین ہوجاتاہے کہ ہر وہ چیز جس سے مسلمانوں میں اتحاد پیدا ہو سکتاہے اور ان کے لیے مایہ سعادت وخوش بختی ہو سکتی ہے، اسے بیان کردیا گیاہے لیکن مسلمان اس سے غافل ہیں۔ ہم قرآن مجید سے کوسوں دور ہیں۔ قرآن مجید کو پڑھتے ہیں ،اس کی تفسیر بھی سنتے ہیں، لیکن میں نے آج تک کسی شخص کو نہیں دیکھا جس نے اسلامی اتحاد اور اسلامی اخوت میں فرق رکھا ہو اور کوئی ایسا شخص بھی نظر سے نہیں گزرا جس نے ’’مسلمانوں کے اتحاد‘‘ اور ’’تقریب مذاہب ‘‘ میں فرق رکھا ہو (جبکہ) اسلامی اتحاد ایک مسئلہ ہے اور تقریب مذاہب دوسرا مسئلہ ہے ،البتہ ان کاآپس میں ربط ہے۔ مذاہب کو ایک دوسرے کے قریب کرنا، مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنے کا پیش خیمہ ہے۔ 

معلوم ہوا کہ مسلمان ایک امت ہیں اور یہ چیز اسلام کے ضروریات میں سے ہے ۔ایک امت ہونے کامطلب یہ ہے کہ اپنے درمیان اتحاد قائم رکھیں۔اتحاد کیسے قائم رہے گا ؟اس کے بارے میں قرآن مجیدنے ارشاد فرمایا ہے’’واعتصموا بحبل للہ جمیعا ولا تفرقوا‘‘ یہ اتحاد نہیں ہے کہ سب مسلمان ایک صف میں کھڑے ہوں بلکہ سب ایک سلسلے سے متمسک ہوں، ایک رسی کو پکڑے رہیں اور وہ رسی خدا کی رسی ہے۔ وہ رسی کیاہے؟ تفسیریں مختلف ہیں۔ قرآن ہے ،دین ہے، اسلام ہے ،احکام ہیں اور بعض شیعہ روایات کہتی ہیں کہ اس سے ’’ولایت ‘‘ مراد ہے اور اس میں کوئی مانع نہیں ہے، اس لیے کہ اسلام کاباطن ’’ولایت ‘‘ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کو ایک ’’اصل‘‘ سے متمسک ہو جانا چاہیے اور اصل ہے اصل توحید، اصل نبوت، اور اصل معاد (قیامت ) اور یہی ہے ہر وہ چیز جو کتاب میں ہے اور جسے رسول لے کر آئے۔ وہ مشترک جامع اصل ،عقیدہ کا اشتراک ہے۔ اسلامی اتحاد کے دو ستون ہیں۔ ایک پر عقیدہ کی عمارت اور دوسرے پر عمل کی عمارت کھڑی ہے ۔

مشترک جامع اصل سے ہماری مراد اسلام کے وہ قطعی اصول ہیں جن پر تمام مسلمانوں کااتفاق ہے ،جو کتاب وسنت سے قطعی طور پر ثابت ہیں اور تمام مسلمان ضرورتاً انہیں مانتے ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ سب مسلمان یکتا پرست ہوں، پیغمبر کو پیغمبر سمجھیں، قیامت کا عقیدہ رکھتے ہوں، نماز پڑھیں، روزہ رکھیں، زکوٰۃ دیں، حج بجا لائیں، نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں،یعنی وہی چیزیں جو اصول وفروع کے نام سے ہمیں یاد کرائی جاتی ہیں۔ 

کہتے ہیں کہ اصول دین تین ہیں : ۱۔توحید ، ۲۔نبوت ، ۳۔قیامت۔ اور دوسری چیزیں جن میں مذاہب کے درمیان اختلاف ہے، وہ اصول مذاہب ہیں ۔ہر مذہب کے اپنے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ ہم شیعوں کے پانچ اصول ہیں جن میں تین مشترک اسلامی اصولوں کے علاوہ عدل اور امامت بھی شامل ہیں۔ معتزلیوں کے بھی مشترک اسلامی اصولوں کے علاوہ پانچ اصول ہیں اور وہ یہ ہیں: ۱۔توحید (جس کے معنی خدا کی صفتیں اس کی ذات سے الگ نہیں ہیں) ۲۔عدل، ۳۔وعدہ اور وعید (جس کے معنی ہیں خدا کے لیے اپنے وعدہ اور وعید پر عمل کرنا لازمی ہے) ۴۔منزلۃ بین المنزلتین ( یعنی گناہ کبیرہ کرنے والا نہ کافر ہے اور نہ مومن) ۵۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ۔دوسرے مذاہب کے بھی اپنے اصول ہیں۔ 

اس بنا پر اتحاد کی پہلی شرط ،اصول سے متمسک ہونا۔ وہ اصول جن کو ’’حبل اللہ ‘‘ سے تعبیر کیاگیاہے۔ قرآن مجید سے متمسک ہونا یعنی ہر اس چیز سے متمسک ہونا جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے، دین سے متمسک ہونا ،یعنی اصل دین سے اور اس کے قطعی مشترکات سے وابستہ ہونا ہے، وگرنہ دین جب مجتہدوں کو دے دیاجائے حتیٰ کہ ایک مذہب کے مجتہدوں کو تو اس کے بال وپر نکل آتے ہیں اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔ اختلاف ہے لیکن اختلافی احکام ایک مذہب کے احکام ہیں، دین کے احکام نہیں ۔یہ صحیح بھی ہے اورخود دین نے اس کو جائز قرار دیاہے کہ اس قسم کے مسائل میں مجتہد حضرات اجتہاد کریں اور ان کے اختلاف کو دین نے پسندکیاہے: ’’للمصیب اجران وللمخطئ اجر واحد‘‘۔ جو مجتہد اپنے اجتہاد کے ذریعہ خدا کے واقعی حکم کو معلوم کرلے، اس کے لیے دو اجر ہیں اور جو اجتہاد میں غلطی کرے، اس کے لیے ایک اجر ہے۔

یہ تھی ایک بات اورپہلا رکن ،یعنی قطعی اور مشترک اصول سے متمسک ہونا ۔ اس وقت تما م مسلمانوں کے پیغمبر، پیغمبر اسلام ہیں، سب کے سب یکتا پرست ہیں، نماز پڑھتے ہیں، سب کا قبلہ ایک ہے ،تمام اسلامی ممالک اور مختلف اسلامی مذاہب کو دیکھ ڈالیے ،آیا کعبہ کے علاوہ ان کا کوئی دوسرا قبلہ ہے ؟نہیں ہے۔ سب کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید کے قوانین کی پابندی کرنا چاہیے۔ سیاست، معاملات، احکام قضا، قصاص اوردیات میں اجمالی طور پر سبھی متفق ہیں۔ ہاں، جب فقہ کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو مختلف مذاہب کے فقہا کے نظریات کی بنا پر مختلف فرعیں وجود میں آتی ہیں۔ یہ ہے ایک رکن ،یعنی ’’حبل اللہ‘‘ سے متمسک ہونا،جس سے مراد ،اصل دین یعنی مسلّمات ،محکمات،قطعیات اور متفق علیہ مسائل ہیں۔

ایک رکن اور بھی ہے او ر وہ ہے ’’مشترک ذمہ داری‘‘ کو پوراکرنا۔ مسلمان جو ایک امت ہیں، ایک دین رکھتے ہیں، انہیں چاہیے کہ مشترکہ ذمہ داری کو قبول کریں۔ میں دو حدیثیں آپ کے سامنے پیش کرتاہوں۔ سرکار رسالت فرماتے ہیں: ’’من اصبح لا یبالی بامور المسلمین فلیس بمسلم‘‘ (کافی؍ کتاب الایمان والکفرباب ۷۰ ؍حدیث ۵۔۱) ’’جو شخص یوں صبح کرے کہ امور مسلمین کو اہمیت نہ دیتاہو، وہ مسلمان نہیں ہے۔‘‘ رسالت مآبﷺ کیا فرماتے ہیں؟ ہم نیندسے اٹھے ہیں، درس وبحث کی فکر میں ہیں، تاجر اپنی تجارت کی فکر میں ہے، مزدور کے سر میں مزدوری کا خیال ہے، سیاست دان سیاست میں الجھاہوا ہے، وہ چیز جو کسی کے دل ودماغ میں نہیں ہے، شاید پورادن یا ہفتہ دو ہفتہ یا ایک مہینہ تک،وہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ کے اس جمع عظیم کے سلسلہ میں وہ بھی ذمہ دار ہے۔قرآن واسلام یہ کہہ رہے ہیں کہ مشرق میں بسنے والے مسلمان کے کندھوں پر مغرب میں رہنے والے مسلمان کی کچھ ذمہ داریاں ہیں، چاہے کسی بھی مذہب کا ہو، مسلمان ہو،اسلام کے مسلمہ اصول کو مانتاہو ،یکتا پرست ہو، اس کا دین اسلام ہو،پیغمبر ،نماز ،قبلہ اوران مشترکات کو جنہیں ہم نے عرض کیاہے، تسلیم کرتا ہو، ایسے شخص کے سلسلے میں ہم بھی ذمہ دار ہیں۔ ذمہ داری ماننے کی شرط اس کا اہتمام ہے، ہمہ تن متوجہ رہے کہ فلاں واقعہ کا کیا ہوا اور میں اپنی ذمہ داری کو کس طرح سے نبھاؤں۔ یہ تھی ایک حدیث ۔

دوسری حدیث جو ہمیں اپنے مطلب سے نزدیک ترکرتی ہے، وہ سرکار رسالت ﷺ کی مشہور ومعروف حدیث ہے: ’’من سمع رجلا ینادی یا للمسلمین فلم یجبہ فلیس بمسلم‘‘ (کافی ؍کتاب الایمان والکفر باب ۷۰؍حدیث ۵) ’’جو شخص دنیا کے کسی بھی گوشہ سے کسی مسلمان کی فریاد سنے جو پکار رہاہے کہ اے مسلمانو! میری فریاد سنو!اور وہ ا س کا مثبت جواب نہ دے، وہ مسلمان نہیں ہے۔‘‘

جنا ب والا!آپ کیسے مسلمان ہیں کہ ایک مسلمان آپ کو مدد کے لیے پکار رہاہے مگر آپ اس کی مددنہیں کرتے ! سرکار رسالت ﷺ ،اس سے زیادہ واضح اور کھلے لفظوں میں اور کیا فرماتے ؟

اسلامی اتحاد یعنی اللہ کی رسی کو تھامنا او ر مشترکہ ذمہ داری کو قبول کرنا، ناگزیر واجبات میں سے ہے ۔جس طرح نماز ہمارے اوپر واجب ہے، اسی طرح اس معنی میں اتحاد کہ جو میں عرض کر رہاہوں یعنی سیاسی اور اجتماعی اتحاد ،مسلمانوں کے امور کو اہمیت دینا اور اسلام وقرآن کی عائد کردہ مشترکہ ذمہ داری کو قبول کرنا بھی واجبات میں سے ہے۔ جس طرح آپ پر نماز پڑھنا ،روزہ رکھنا ،حج کرنا واجب ہے اور جس طرح کھانا کھانا واجب ہے، اسی طرح مسلمانوں کے امور کو اہمیت دینا بھی واجب ہے تاکہ اسلام کا دامن آپ کے ہاتھ سے نہ چھوٹے اور مسلمان ظلم وستم کی چکی میں نہ پسیں۔

آیا اب تک ’’ بینی وبین اللہ ‘‘ ہم نے اس فریضہ پر عمل کیاہے ؟مسلمان اس فریضہ پر عمل کررہے ہیں ؟ہر معاشرہ میں شاذ ونادر ایسے افراد پیدا ہوتے ہیں جن کا دل عالم اسلام کے لیے دھڑکتاہے ،دوسرے یا تو کانوں میں انگلیاں دھرلیتے ہیںیا ان میں سے کچھ ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ہم سے کیا مطلب کہ فلاں جگہ کیا بیت رہی ہے۔ مسئلہ فلسطین ،جس کے بارے میں امام مرحوم ؒ نے کھلے لفظوں میں فرمایا ہے کہ اسلامی مسائل میں سرفہرست ہے، میں نے خود لوگوں کو کہتے ہوئے سنا ہے’’عرب ،یہودیوں سے برسرِپیکار ہیں ،ہم سے کیا مطلب ہے؟‘‘ جنا ب والا! یہ عربوں اور یہودیوں کامسئلہ نہیں ہے، اسلام کا مسئلہ ہے، انہوں نے مسلمانوں کے قبلہ اول پر قبضہ جمالیاہے، تین سو کلو میٹر یا اس سے کچھ زیادہ (مجھے صحیح معلوم نہیں) دوسرے قبلہ (کعبہ) سے دور نہیں ہیں، جب بھی چاہیں اس پر قبضہ جماسکتے ہیں، خاص کر ان کی اس طاقت کو دیکھتے ہوئے۔ اور وہ حکومت جو اس ملک پر حکمران ہے، دونوں امریکہ کے نوکر ہیں۔یہ ہے مسلمانوں کی حالت زار ،ہم کیوں اس کے علاج کی فکر نہیں کرتے؟ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بچپن سے ہمارے اعتقادی مسائل میں اس کو رکھ کر ہمیں صورت سے آگاہ کرتے۔

مسئلہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں یہی چیزیں آتی ہیں۔ جب انسان ذمہ داری قبول کر لے تو وہ آنکھیں کھلی رکھتاہے کہ کہاں غلطی ہو رہی ہے، انفرادی اور اجتماعی غلطی تاکہ اس کا سدِباب کر سکے، کہاں معروف نہیں ہے تاکہ اس کا حکم دے،کمر ہمت باندھ کر اٹھ کھڑا ہو اور اتحاد کامنادی بن جائے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج چاروں طرف سے دشمن نے اسلام پرحملوں کی بھر مار کر رکھی ہے، مسلّم ہے کہ ان کا ایک ہی منصوبہ ہے اور میرا عقیدہ ہے کہ اس منصوبہ کا تانا بانا اسرائیل یا امریکہ میں بنا جاتاہے تاکہ اسلام کو چاروں طرف سے کاٹ کررکھ دیں اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیں۔

میری گزارش یہ ہے کہ اگر مسلمان اس مشترکہ ذمہ داری کو جس کے بارے میں ،میں نے عرض کیاہے، اسلام کے عملی اصولوں کے ساتھ متمسک ہوتے ہوئے، جو بذات خود ایک ضابطہ اور اصل ہے، نبھائیں تو اس کی شرط یہ ہے کہ 

۱۔مسلمان ہوں اور کم سے کم ان بنیادی اصول کو جانیں اور ان پر عمل کریں ۔

۲۔تمام مسلمانوں کے حالات سے باخبر ہوں۔

پچھلے سال ایام حج میں البانیہ سے کچھ لوگ مقام معظم رہبری کے بعثہ میں آئے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم کمیونزم زدہ البانیائی ،ستر سال کے بعد آزاد ہوئے ہیں، ہمارے نوجوانوں کو صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ مسلمان ہیں ،اسلامی جذبات کے دیپ ان کے اندر روشن ہو رہے ہیں، لیکن اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ یہ ایک مصیبت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی اکثریت ایسی ہے جن کا ابھی تک ختنہ نہیں ہوا ہے، حرام وواجب کا شعور سرے سے ان کے دماغ میں پیدا نہیں ہوا ہے، انہیں معلوم نہیں کہ واجب وحرام کیاہے ،یہ مصیبت ہے جس سے ہم بے خبر ہیں۔ بوسنیا ہرز گوینا میں پارٹی کانائب رئیس، جو اس ملک کا نائب صدر بھی تھا، اپنے ایک عالم سے جو عربی اچھی طرح بول لیتا تھا، اپنا درد دل بیان کررہا تھا کہ جناب ہماری فریاد کو پہنچیے۔یہ واقعہ ۱۹۹۲ء کے حج کاہے، جب جنگ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ ایک روز آپ سنیں گے کہ انہوں نے ہمارا قتل عام کردیاہے۔ دوسری جنگ عظیم میں ،جب ساری دنیا جنگ کی لپیٹ میں تھی، عیسائیوں کے مختلف فرقے ’’کیتھولک‘‘ او ’ر’آرتھوڈکس‘‘(یعنی سرب اور کروٹس)آپس میں متحد ہوگئے ،انہوں نے ہمارا قتل عام کیا لیکن مسلمانوں کو کانوں کان خبر نہ ہوسکی۔

اس وقت مسلمان صومالیہ کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟علاوہ ان لوگوں کے جنہوں نے مدرسہ دیکھا ہے ،کالج گئے ہیں، جغرافیائی نقشہ کو جانتے ہیں، کیا کوئی اور یہ بتاسکتاہے کہ صومالیہ کہاں ہے ؟ صومالیہ افریقہ کے ایک کونے میں واقع ہے۔ چند ماہ پہلے میں افریقہ میں تھا، مجھے بتایا گیا کہ مسلمانوں کے دوقبیلے یا ان کی دو پارٹیاں آپس میں لڑ پڑیں اور انہوں نے ہر چیز کو تباہ وبرباد کردیا ۔دونوں مسلمان ہیں ،لیکن جتنی عمارتیں ،جتنے کارخانے اور کھیت تھے، سب تہس نہس ہوگئے اور اب وہ لوگ قحط کی لپیٹ میں ہیں جبکہ ہم بے خبر ہیں۔ (بعد میں امریکہ نے مداخلت کی تھی )۔

اس ذمہ داری کو نبھانے کی شرط ،دو چیزیں ہیں :

پہلی شرط یہ ہے کہ اسلام کو اجمالی طور پر پہچانیں کہ کون مسلمان ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ مسلمانوں کے حالات سے باخبر رہیں ۔

ایک بار کسی اخبار کے ایڈیٹر نے مجھ سے پوچھا کہ میں اسلام کے بارے میں کس قسم کا مقالہ تحریر کروں ؟میں نے کہا دنیائے اسلام کا تعارف ،دنیائے اسلام کو پہچنواؤ۔ چند سال پہلے محمود شاکر نامی مصر کے ایک دانشور نے عربی زبان میں اسلامی ممالک کے بارے میں چھوٹی چھوٹی کتابیں لکھیں ،ہر ملک کے بارے میں ایک چھوٹی سی کتاب لکھی ،میں نے ان کتابوں کو مصر سے خریدا۔ایک کتاب تنزانیا کے بارے میں تھی۔ تنزانیا ایک اسلامی ملک تھا جس کے عوام مسلمان اور کچھ ان میں سے شیعہ تھے۔ بعد میں وہاں انقلاب آیا اور ایک عیسائی ان کا صدر بن گیا ،یعنی ایک اسلامی ملک نے عیسائیت کارنگ اختیار کر لیا اور مسلمانوں کو خبر تک نہ ہوئی۔قصہ یہ ہے ۔

پس اس مشترکہ ذمہ داری کو نبھانے کی شرط مسلمانوں کے حالات سے آگاہی ہے۔ یہاں ایک طرف عوامی خبر رساں ایجنسیوں ،اخباروں ،مقرروں، خبر نگاروں اور ریڈیو وٹیلویژن کی ذمہ داریاں ہیں اور دوسری طرف وزارت ارشاد اور وزارت خارجہ کی ذمہ داری اہم ہوجاتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کے حالات کے بارے میں موثق ذرائع سے مکمل اطلاعات حاصل کریں اور دوسرے مسلمانوں کو ان سے آگا ہ کریں اور مسلمان جب باخبر ہوجائیں گے تو وہ ان کو اہمیت دیں گے، اپنی ذمہ داری کا احساس کریں گے اور انہیں راتوں کو نیند نہیں آئے گی۔ ایک عالم نے مجھ سے چند دن پہلے کہا کہ بوسنیا وہرز گوینا کے حالات سوچ کر مجھے راتوں کو نیند نہیں آتی،یہی وہ حقیقت ہے جس کے بارے میں رسالت مآب ﷺ نے فرمایا ہے: ’’من اصبح لا یھتم بامور المسلمین فلیس بمسلم‘‘۔ بوسنیا ہرز گوینا میں مسلمانوں کے قتل عام کی خبر سن کر مسلمانوں کو نیند نہیں آنی چاہیے اور وہ اپنی ہرچیز کو قربان کردیں ،مال وجان آبرو کیاہے؟ہرچیز کو قربان کردیں تاکہ مسلمانوں کو اس ظلم وستم سے چھٹکارا دلاسکیں۔

مکاتب فکر

(مئی ۲۰۰۶ء)

تلاش

Flag Counter