مسئلہ طلاق ثلاثہ ۔ علماء کرام توجہ فرمائیں

پروفیسر محمد اکرم ورک

ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے مارچ ۲۰۰۵ کے شمارے میں مولانا سید سلمان الحسینی الندوی کا مضمون ’’اجتہادی اختلافات میں معاشرتی مصالح کی رعایت‘‘ کے زیر عنوان شائع ہوا ہے جس میں فاضل مضمون نگار نے ایک مجلس کی تین طلاقوں کے وقوع کی صورت میں مرتب ہونے والے معاشرتی مسائل کی طرف علماء کرام کو توجہ دلائی ہے اور علماء دین اور مفتیان کرام سے تقاضا کیا ہے کہ وہ آج کے معروضی حالات کے تناظر میں اس مسئلہ پر دوبارہ غور فرمائیں۔ مئی ۲۰۰۵ کے شمارے میں مولانا احمد الرحمن نے اس نکتے کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اگرچہ طلاق ثلاثہ کے موضوع پر احناف اور اہل حدیث مکتبہ فکر کی طرف سے مناظرانہ انداز میں اپنے اپنے موقف پر دلائل پیش کیے گئے ہیں، تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ علماء کرام اس موضوع کو ایک سنگین انسانی اور معاشرتی مسئلے کے طور پر دیکھنے کی کوشش کریں۔ طلاق ثلاثہ کوئی ایمانیات کا مسئلہ نہیں کہ جس کا اقرار یا انکار کفر کو مستلزم ہو یا جس پر غور وفکر کا دروازہ بند ہو چکا ہو۔ یہ ایک فرعی مسئلہ ہے۔ اجتہادی اور فروعی مسائل میں اصول کے دائرے کو قائم رکھتے ہوئے مختلف آرا رکھنا اسلامی علمی روایت کا ایک حصہ ہے۔ اس تناظر میں ہم سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے پر غور وفکر کی دعوت یقیناًدرست ہے اور اصحاب فکر کی ایک بڑی تعداد اس ضرورت کا احساس رکھتی ہے۔ 

طلاق ثلاثہ کے بارے میں دو فقہی مسلک ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ایک وہ فقہی مکتب ہے جو ایک مجلس کی تین طلاقوں کو مغلظہ قرار دیتا ہے، اور دوسرا وہ جو اس صورت میں صرف ایک طلاق کے وقوع کا قائل ہے۔ بعض صحابہ کرامؓ کے علاوہ امام ابن حزم، امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم اس دوسرے موقف کے قائل ہیں، جبکہ مالکی فقیہ قاضی ابن رشد کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ ہمارے دور کے اہل حدیث حضرات بھی اسی نقطہ نظر کے قائل ہیں۔ ان سطور میں ہمار ے پیش نظر اس مسئلے پر کسی حتمی رائے کا پیش کرنا نہیں ہے، بلکہ علماء کرام کو اس موضوع پر اظہار رائے کی دعوت دینا ہے تاکہ وہ ایک اہم معاشرتی مسئلے پر پوری علمی سنجیدگی کے ساتھ قلم اٹھائیں۔

اسلام کے معاشرتی نظام میں خاندان ایک اہم ترین ادارہ ہے۔ میاں بیوی کے مضبوط تعلقات خاندانی استحکام کی بنیادیں ہیں اور خاندانی نظام کی بقا ہی معاشرتی استحکام کی خشت اول ہے۔ اس لیے نکاح وطلاق جیسے بنیادی اور اہم معاشرتی مسائل کے بارے میں اسلامی تعلیمات بڑی متوازن اور فطری ہیں۔

نکاح وطلاق کے باب میں اسلامی احکام کی اصل اسپرٹ یہی ہے کہ نکاح کو باقی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ اسلام نے انسانی رویوں میں پائے جانے والے فطری اختلاف اور فرق کے پیش نظر باہمی تنازع کے امکان کو تسلیم کرتے ہوئے اختلاف کی صورت میں میاں بیوی کو مصالحت کا انداز اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ (النساء ۴/۱۲۸) شریعت نے اگرچہ انتہائی مجبوری کے عالم میں طلاق کا راستہ اختیار کرنے کی اجازت دی ہے، لیکن ’ابغض الحلال الی اللہ الطلاق‘ کہہ کر اس پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار بھی کر دیا ہے۔ گویا اسلام کی نظر میں طلاق ایک ایسی دوا ہے جو ازدواجی زندگی کے ایک مستقل روگ کے علاج کے طور پر جائز قرار دی گئی ہے۔

اسلام نے طلاق دینے کا ایک نہایت حکیمانہ اور مبنی بر مصلحت طریقہ مشروع کیا ہے۔ چنانچہ بتایا گیا ہے کہ حالت طہر میں بیوی کو ایک مرتبہ صرف ایک طلاق دی جائے، تاکہ فیصلے پر نظر ثانی اور طلاق سے رجوع کرنے کا حق باقی رہے۔ عہد رسالت اور عہد صدیقی میں طلاق کا اسی فطری طریقے پر عمل ہوتا رہا، لیکن عہد فاروقی میں جب ایک مجلس میں تین طلاقیں یکجا دینے کے واقعات بڑھنے لگے تو خلیفہ ثانی نے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے ایک مجلس کی تین طلاقوں کو واقع کر کے میاں بیوی میں تفریق کروا دی اور اس کے ساتھ شوہر کو کوڑوں کی سزا بھی دی۔ خلیفہ ثانی کا یہ حکم کوئی منصوص حکم نہ تھا بلکہ ایک اجتہادی اور انتظامی حکم تھا جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ ایک مجلس میں تین طلاقوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ چنانچہ لوگوں نے دائمی جدائی اور کوڑوں کے خوف سے ایک مجلس میں تین طلاقوں کا طریقہ چھوڑ دیا۔ اگرچہ تمام صحابہ کرام حضرت عمر فاروق کے اس حکم سے مطمئن نہ تھے، تاہم صحابہ کرام کی اکثریت نے اس فیصلے کو تسلیم کر لیا اور بعد کے دور میں سوسائٹی کے مجموعی مفاد کے پیش نظر فقہاء کرام نے بھی اسی حکم کو واجب العمل قرار دیا۔

ابتدائی صدیوں کے مخصوص معاشرتی ماحول میں یقیناًاس مسئلہ کا یہی ایک بہترین حل تھا، لیکن چونکہ یہ حکم نص قطعی سے ثابت نہیں ہے، اس لیے ہر دور میں ایک ہی مجلس کی تین طلاقوں کے بارے میں علماء کرام میں اختلاف رہا ہے۔ خود حضرت عمرؓ کے طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعی احکام میں اس قدر لچک موجود ہے کہ اسلامی سوسائٹی کے خاص حالات میں اصلاح کی غرض سے کسی آیت کے حکم میں ظاہری تقیید یا تخصیص کا عمل کیا جا سکتا ہے اور اگر بعد کے زمانے میں مصلحت عامہ کا تقاضا یہ ہو کہ قرآن کے اصل اور منصوص حکم کی طرف رجوع کیا جائے تو یہ رجوع الی الاصل بدرجہ اولیٰ درست ہونا چاہیے، جیسا کہ حضرت عمرؓ نے کتابیہ عورت سے نکاح کے رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے منصوص اجازت کے باوجود کتابیہ عورت سے نکاح کی ممانعت کر دی۔

قدیم عرب معاشرے میں مرد اور عورت کے لیے طلاق کے بعد نکاح ثانی کبھی کوئی معاشرتی مسئلہ نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کے واقع ہونے کے تعزیری حکم کی وجہ سے کوئی سنگین مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ جبکہ اقوام عالم میں تیزی کے ساتھ بدلتی ہوئی معاشرتی اقدار، مسلم معاشروں بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں کا مخصوص طرز معاشرت اور معروضی حالات اس مسئلہ پر ازسر نو غور وفکر کا تقاضا کر رہے ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ لوگ ضروریات دین سے واقف نہیں ہیں۔ جہالت اور لاعلمی کی وجہ سے بیک وقت تین طلاقیں دے بیٹھتے ہیں اور بعد میں پچھتانے لگتے ہیں اور مرد کی معمولی نادانی کی وجہ سے پورے خاندان کے لیے شدید مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف دین بیزار لوگ اسلام کے معاشرتی نظام اور عائلی قوانین کو ہدف تنقید بنا کر لوگوں کو اسلام سے متنفر اور بدظن کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں مصالح امت کا تقاضا یہ ہے کہ جامد تقلید اور فقہی مسلکوں کے خول میں بند رہنے کے بجائے وسعت نظری سے کام لیتے ہوئے اس خالصتاً اجتہادی مسئلہ پر ازسر نو غور وفکر کیاجائے اور اگر امت کے لیے آسانی اور سہولت کی کوئی صورت ممکن ہو تو سوسائٹی کو اس سے محروم نہ کیا جائے۔ کسی سچائی کو فقط اس لیے قبول نہ کرنا کہ اس سے کسی خاص مسلک کی تائید یا تردید ہوتی ہے، غیر علمی رویہ ہے۔

حالات اور زمانے کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے کئی اصحاب علم نے اس سے قبل بھی ارباب دانش کو اس موضوع پر غور وفکر کی دعوت دی ہے جن میں ایک نمایاں نام عصر حاضر کے معروف محقق اور دانش ور پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ کا ہے۔ پیر صاحب نے فریقین کے تفصیلی دلائل کا جو تجزیہ فرمایا ہے، یہاں اس کا اعادہ مقصود نہیں، تاہم ایک قانون دان کی حیثیت سے پیر صاحب نے آج کے معروضی حالات کے پس منظر میں حضرت عمرؓ کے ایک ہی مجلس میں طلاق ثلاثہ کی تنفیذ کے حکم کا جو تجزیہ کیا ہے، قارئین کی دلچسپی کے لیے اسے ہم پیش کیے دیتے ہیں:

’’حضرت عمر نے جب یہ ملاحظہ فرمایا کہ لوگ طلاق ثلاثہ کی حرمت کو جانتے ہوئے اب اس کے عادی ہوتے چلے جا رہے ہیں تو آپ کی سیاست حکیمانہ نے ان کو امر حرام سے باز رکھنے کے لیے بطور سزا حرمت کا حکم صادر فرمایا اور خلیفہ وقت کو اجازت ہے کہ جس وقت وہ دیکھے کہ لوگ اللہ کی دی ہوئی سہولتوں اور رخصتوں کی قدر نہیں کر رہے اور ان سے استفادہ کرنے سے رک گئے ہیں اور اپنے لیے عسر وشدت پسند کر رہے ہیں تو بطور تعزیر انھیں ان رخصتوں اور سہولتوں سے محروم کرنے کے بعد وہ اس سے باز آ جائیں۔ 
حضرت امیر المومنینؓ نے یہ حکم نافذ کرتے ہوئے یہ نہیں فرمایا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوں ارشاد گرامی ہے، بلکہ کہا ’فلو انا امضیناہ علیہم‘ (کاش ہم اس کو ان پر جاری کر دیں) ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ یہ آپ کی رائے تھی اور امت کو اس فعل حرام سے باز رکھنے کے لیے یہ تعزیری قدم اٹھایا گیا تھا۔ اس تعزیری حکم کو صحابہ کرام نے پسند فرمایا اور اسی کے مطابق فتوے دیے۔ لیکن حدود کے علاوہ تعزیرات اور سزائیں زمانہ کے بدلنے سے بدل جایا کرتی ہیں۔ اگر کسی وقت کسی مقررہ تعزیر سے بجائے فائدہ کے الٹا نقصان ہو اور مصلحت کی جگہ فساد رو پذیر ہونے لگے تو اس وقت اس تعزیر کا بدلنا ازحد ضروری ہو جاتا ہے۔
غیر شادی شدہ زانی کی حد کا ذکر تو قرآن حکیم میں موجود ہے کہ اسے سو درے لگائے جائیں، لیکن حدیث میں ہے ’مائۃ جلدۃ وتغریب عام‘، یعنی سو درے لگائے جائیں اور ایک سال جلا وطن کر دیا جائے۔ جب چند آدمیوں کو جلا وطن کیا گیا تو وہ کفار کی صحبت سے متاثر ہو کر مرتد ہو گئے اور علماء احناف نے یہ کہہ کر جلا وطنی کی سزا کو ساقط کر دیا کہ یہ تعزیر ہے اور اب اس سے بجائے اصلاح کے ارتداد کا دروازہ کھل گیا ہے، ا س لیے اب یہ تعزیر ساقط کرنی ضروری ہے۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی اس تعزیر کو آج باقی رکھنے سے جو مفاسد اسلامی معاشرے میں رونما ہو رہے ہیں، کون سی آنکھ ہے جو اشک بار نہیں اورکون سا دل ہے جو دردمند نہیں۔
لوگوں میں شرعی احکام کے علم کا فقدان ہے۔ انھیں یہ پتہ ہی نہیں کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دینا کتنا بڑا جرم ہے اور یہ تلعب بکتاب اللہ کے مرادف ہے۔ وہ غیظ وغضب کی حالت میں منہ سے بک جاتے ہیں۔ انھیں تب ہوش آتا ہے جب انھیں بتایاجاتا ہے کہ انھوں نے ایک جنبش لب سے اپنے گھر کو برباد کر دیا۔ اس کی رفیقہ حیات اور اس کے ننھے بچوں کی ماں اس پر قطعی حرام ہو گئی۔ اس کی نظروں میں دنیا تاریک ہو جاتی ہے۔ یہ ناگہانی مصیبت اس کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ پھر وہ علماء صاحبان کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں جو باستثنا چند حضرات بڑی معصومیت سے انھیں حلالہ کا دروازہ دکھاتے ہیں۔ اس وقت انھیں اپنے غیور رسول کی وہ حدیث فراموش ہو جاتی ہے، لعن اللہ المحلل والمحلل لہ۔ ’’حلالہ کرنے والے پر بھی اللہ کی لعنت اور جس (بے غیرت) کے لیے حلالہ کیا جائے، اس پر بھی اللہ کی لعنت۔‘‘

اس سلسلے میں ایک اور حدیث بھی سن لیں:

قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم الا اخبرکم بالتیس المستعار قالوا بلی یا رسول اللہ قال ہو المحلل لعن اللہ المحلل والمحلل لہ (رواہ ابن ماجہ)
’’کیا میں تمھیں کرائے کے سانڈ کی خبر نہ دوں؟ ہم نے کہا ضرور اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا، وہ حلالہ کرنے والا ہے۔ اللہ کی لعنت ہو حلالہ کرنے والے پر بھی اور اس پر بھی جس کے لیے حلالہ کیا جائے۔‘‘
ان علماء ذی شان کے بتائے ہوئے حل کو اگر کوئی بد نصیب قبول کر لیتا ہوگا تو اسلام اپنے کرم فرماؤں کی ستم ظریفی پر چیخ اٹھتا ہوگا اور دین سبز گنبد کے مکیں کی دہائی دیتا ہوگا۔
اب حالات دن بدن بد تر ہو رہے ہیں۔ جب بعض طبیعتیں اس غیر اسلامی اور غیر انسانی حل کو قبول نہیں کرتیں اور اپنے گوشہ عافیت کی ویرانی بھی ان سے دیکھی نہیں جاتی تو وہ پریشان اور سراسیمہ ہو کر ہر دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ اس وقت باطل اور گمراہ فرقے اپنا آہنی پنجہ ان کی طر ف بڑھاتے ہیں اور انھیں اپنے دام تزویر میں بھی پھنسا لیتے ہیں۔ اس کی بیوی تو اسے مل جاتی ہے لیکن دولت ایمان لوٹ لی جاتی ہے۔ میرے یہ چشم دید واقعات ہیں کہ کنبے کے کنبے مرزائی اور رافضی ہو گئے۔ جب حالات کی سنگینی کا یہ عالم ہو، جب یہ تعزیر بے غیرتی کی محرک ہو بلکہ اس کی موجودگی سے ارتداد کا دروازہ کھل گیا ہو، ان حالات میں علماء اسلام کا یہ فرض نہیں کہ امت مصطفی علیہ التحیۃ والثناء پر در رحمت کشادہ کریں؟‘‘

پیر صاحب نے حالات کا معروضی مطالعہ کرنے کے بعد اہل علم کو جس دل سوزی کے ساتھ اس موضوع پر غور وفکر کی دعوت دی ہے، وہ سنجیدہ توجہ کی مستحق ہے اور اس بات کی متقاضی ہے کہ علماء کرام غور وفکر کے بعد اس مسئلہ پر کوئی ایسا متفقہ موقف اختیار کریں جس میں امت کے لیے آسانی اور سہولت کو ملحوظ رکھا گیا ہو۔ بعض حنفی علما نے تو، جن میں خاص طور پر معروف دیوبندی عالم مولانا سعید احمد اکبر آبادی قابل ذکر ہیں، اپنے نتائج تحقیق کا برملا اظہار کیا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کے حوالے سے بہتر یہی ہے کہ عہد رسالت اور عہد صدیقی کے طرز عمل سے ہی استشہاد کیا جائے۔ برصغیر کے معروف عالم اور دانش ور مولانا وحید الدین خان نے طلاق ثلاثہ کے حوالے سے ایک بڑی مفید تجویز پیش کی ہے جو ارباب دانش کے ساتھ ساتھ ارباب حل وعقد کے لیے بھی خاص طور پر توجہ کی مستحق ہے۔ فرماتے ہیں:

’’راقم الحروف کے نزدیک موجودہ حالت میں اس معاملہ میں ہمارے لیے دو میں سے ایک طریقہ کا انتخاب ہے۔ ایک یہ کہ جب ایک شخص فوری جذبہ کے تحت طلاق طلاق طلاق کہہ دے تو اس کو شوہر کی طرف سے غصہ پر محمول کیا جائے، یعنی یہ سمجھا جائے کہ شوہر نے شدت اظہار کے طور پر اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دی، حالانکہ اس کا مقصد تکمیلی طلاق دینا نہ تھا بلکہ صرف طلاق دینے کے ارادے کا شدید انداز میں اظہار کرنا تھا۔ یہ تہدید وتشدید کا معاملہ تھا نہ کہ حقیقتاً تطلیق ثلاثہ کا معاملہ۔ اس صورت میں یہ کیا جائے گا کہ شوہر سے یہ کہا جائے گا کہ تمہاری تین طلاق عملاً پہلے مہینے کی ایک طلاق قرار دی جاتی ہے۔ اب تم کو یہ اختیار ہے کہ چاہے تو رجوع کر لو اور اگر تم تفریق کے ارادہ پر قائم ہو تو قرآنی طریقہ کے مطابق اگلے مہینے تم دوسرا طلاق دو، اور اگر اس کے بعد بھی تفریق کا ارادہ باقی رہے تو تیسرے مہینے تم طلاق کے عمل کی تکمیل کر کے اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہو۔
اس معاملہ میں دوسرا ممکن طریقہ ہمارے لیے یہ ہے کہ ہم سنت فاروقی کو اپنے زمانہ کے لحاظ سے اختیار کریں، یعنی ایک مجلس کی تین طلاق کو تین طلاق قرار دے کر عورت اور مرد کے درمیان تفریق کرا دیں مگر اس صورت میں لازمی طور پر ہمیں سنت فاروقی کے مطابق یہ کرنا ہوگا کہ اس مزاج کی حوصلہ شکنی کے لیے شوہر کو سخت سزا دیں۔ موجودہ قانونی نظام کے تحت غالباً یہ ممکن نہیں کہ ایسے شوہر کو کوڑا مارنے کی سزا دی جائے، مگر اس کا ایک بدل یقینی طور پر ممکن ہے اور وہ یہ کہ علمائے ہند نے جس طرح شاہ بانو بیگم کے مشہور کیس میں حکومت ہند سے مطالبہ کر کے پارلیمنٹ سے ایک قانون بنوایا تھا، اسی طرح اس معاملہ میں بھی حکومت سے مطالبہ کر کے ہندستانی پارلیمنٹ میں ایک قانون منظور کرایا جائے۔ اس قانون میں یہ طے کیا جائے کہ جو مسلمان ایک مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاق دے گا تو اس کی طلاق تو واقع کر دی جائے گی، مگر اسی کے ساتھ شوہر کو اپنے اس غیر شرعی فعل کی سخت سزا بھی بھگتنی ہوگی۔
راقم الحروف کے نزدیک وہ سزا یہ ہونی چاہیے کہ جس شوہر نے ایک مجلس میں تین طلاق دینے کا غیر شرعی فعل کیا ہے، اس سے جرمانہ کے طور پر بھاری رقم وصول کی جائے اور یہ پوری رقم مطلقہ عورت کو دے دی جائے۔ بالفرض اگر یہ شوہر نقد رقم دینے کی پوزیشن میں نہ ہو تو اس کو طویل مدت کے لیے قید با مشقت (rigorous imprisonment)کی سزا دی جائے۔ اس معاملے میں مانع جرم سزا (deterrent punishment)ضروری ہے۔ اس سے کم کوئی سزا اس معاملہ میں مفید نہیں ہو سکتی۔‘‘

بہرحال اس موضوع کی فنی اور دقیقی علمی بحثوں سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر زمانے کی ضرورتوں، حالات کے تقاضوں اور گلوبلائزیشن کے اس دور میں تیزی سے بدلتی ہوئی معاشرتی اقدار اور مسائل کی روشنی میں دیکھا جائے تو اصل قابل غور نکتہ یہ سامنے آتا ہے کہ اس مسئلے کے عملی حل کیا پیش کیا جا سکتا ہے۔ کیا ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ مروجہ عائلی قوانین میں کوئی ایسی ترمیم لانے میں کام یاب ہو جائیں جس سے ایک مجلس کی تین طلاقوں کی حوصلہ شکنی ہو؟ اور کیا ہمارے لیے یہ زیادہ آسان اور بہتر نہیں کہ ہم شریعت اسلامیہ کے اصل حکم کی طرف رجوع کریں؟


فقہ / اصول فقہ

(جون ۲۰۰۵ء)

تلاش

Flag Counter