محمد فیروز الدین شاہ کھگہ (لیکچرار علوم اسلامیہ: نیشنل یونیورسٹی (FAST) لاہور)
حافظ محمد سمیع اللہ فراز (لیکچرار علومِ اسلامیہ: ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان)
قرآنِ کریم اسلامی تشریع کا اولین سرچشمہ ہے اور ہر قسم کی تحریف وآمیز ش سے پاک ہے۔ اس کے برعکس توراۃ وانجیل اپنی اصلی حیثیت کو برقرار نہ رکھتے ہوئے بے شمار تحریفات کا شکار ہوئی ہیں۔غالباً اسی وجہ سے مستشرقین نے قرآنی متن کو موضوعِ بحث بناتے ہوئے اس کو محرَّف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔دراصل استشراقی فکر کا محور یہ ہے کہ جس طرح تورات وانجیل اپنی حیثیت کھو بیٹھی ہیں اور ان کے کئی Version منظرِ عام پر آچکے ہیں، مسلمانوں کے قرآن کو بھی اسی مقام پر لا کھڑاکیاجائے۔ چنانچہ آرتھر جیفری لکھتا ہے:
"It is sometimes said that Christianity could exist without the New Testament, but Islam certainly could not exist without the Quran". (1)
یعنی عہد نامہ جدید کے بغیر عیسائیت تو اپنا وجود باقی رکھ سکتی ہے، لیکن قرآن کے بغیر اسلام باقی نہیں رہ سکتا(۲)۔
قرآن مجید کے ساتھ مسلمانوں کی عدیم المثال وابستگی اور دنیا پر اس کے حیرت انگیز اثرات کے مستشرقین بھی معترف ہیں۔ مارگولیتھ کے الفاظ ہیں:
"The Koran admittedly occupies an important position among the great religious books of the world..... it yields to hardly any in the wonderful effect which it has produced on large masses of men".(3)
اہلِ مغرب اس سے حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ جب تک مسلمان کا تعلق قرآن مجید کے ساتھ پختہ ہے، تب تک اسلامی اقدار کو منہدم کرنا مشکل ہے، چنانچہ راستے کے اس بھاری پتھر کو ہٹانے کے لیے قرآنِ مجید پر اعتراضات کا سلسلہ جاری ہے۔ سینئر برطانوی وزیر گولڈسٹون نے پارلیمنٹ کے ایک اجلاس میں قرآن مجید ہاتھ میں بلند کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ تین چیزوں کی موجودگی میں ہم اسلام اور مسلمانوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے: نمازِ جمعہ، حج اور یہ کتاب‘‘۔(۴)
کچھ عرصہ قبل امریکہ سے ’الفرقان الحق‘ نامی ایک کتاب شائع ہوئی جس کو’ اکیسویں صدی کا قرآن‘ قرار دیاگیا اور اس کی نشرواشاعت پوری تن دہی کے ساتھ تاحال جاری ہے۔ ان سطور کا مقصد دنیا کو مغرب اور مستشرقین کا وہ متعصبانہ رویہ دکھانا ہے جو وہ مسلم امہ اور مسلمانوں کے بنیادی ورثہ کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہیں۔ مقامِ افسوس ہے کہ عہدِ طالبان میں پتھر کے دو مجسموں کے ٹوٹنے پر دنیا کا حیرتناک اور شدید ردعمل دیکھنے کو ملتا ہے، لیکن مسلمانوں کے دستورِ زندگی اور تعلیمات وعقائد کے مرکز قرآن مجید کا جب مذاق اڑایا جائے تو عالمی حقوق کی کسی تنظیم کی طرف سے کوئی مذمتی بیان جاری نہیں ہوتا۔
مغرب سے متاثر وہ افراد جو اسلام کے متعلق تعلیمات کے حصول کے لیے مستشرقین کے بظاہرسائنٹفک مگربباطن غیر حقیقی مواد پر مشتمل مقالات کامطالعہ کرتے ہیں، بہت جلد شکوک وشبہات کی گھاٹیوں میں داخل ہوجاتے ہیں۔ نوجوان نسل، جو پہلے ہی مادی ترغیبات کے سبب سے دائرۂ مذہب سے فرار کی خواہاں ہے،اس کے لیے ایک چھوٹی سی آواز بھی راہِ راست سے بھٹکانے کے لیے کافی ہے۔ ایسے حالات میں اس ضرورت کا شدید احساس ہوتا ہے کہ ہم کسی منظم شکل میں مسلسل جدوجہد کرتے ہوئے مستشرقین اور اہل مغرب کے متعصب افراد کی آوازوں کا قوی اور مسکت جواب دیں۔ قارئین کرام کے لیے حالیہ امریکی قرآن کی اصلیت اوراس کے پس پردہ چشم کشا صہیونی مقاصد کا تعارف پیشِ خدمت ہے:
’الفرقان الحق‘ نامی امریکی قرآن کا مصنف ڈاکٹر انیس شوروش (Anis Shorrosh)ہے جو خود کو ’الصفی‘،’المہدی‘ اور ’مہدی منتظر‘ جیسے القاب سے ملقب کرتا ہے۔ انیس شوروش کا اصل نام پہلی مرتبہ Amazonنامی انٹر نیٹ سائٹ پر دیکھا گیا(۵)۔ انیس شوروش فلسطین میں پیدا ہوا، یعنی یہ اصلاً فلسطینی عربی ہے ۔ اُردن کے میسیسپی کالج (MISSISSIPPI COLLEGE) میں تعلیم حاصل کی۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے سے قبل ORLEANS BAPTIST NEW THEOLOGICAL SEMINARY کے ادارہ میں پڑھاتا رہا اور دومرتبہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری بالترتیب INSTITUTE OF SEMINORY MINISTORY DAYTON TENNESSEEاور INTERNATIONAL LUTHER RICEکی یونیورسٹیوں سے حاصل کی۔ یہودیوں کے ساتھ مقبوضہ ارضِ مقدس میں کام کرتا رہا۔ مزید براں 1959ء تا1966ء یروشلم کے کنیسا میں بھی خدمات انجام دیں۔ امریکہ اور اسرائیل کے مابین 40سال تک Clergymanیعنی پادری سفارتکار کے طور پر جبکہ افریقہ، کینیا، کیپ ٹاؤن، ڈربن، جوہانسبرگ وغیرہ میں بطور عیسائی مبلّغ کام کیا۔ 1955ء میں نیوزی لینڈ سے انگلینڈ منتقل ہوااوربعدازاں پرتگال میں رہائش پذیر رہا(۶)۔
مشہور اسلامی مفکر اور سکالر احمددیداتؒ نے اس کے ساتھ دومناظرے بھی کیے۔ پہلی مرتبہ 1980ء کو لندن میں ’’کیا عیسیٰ خدا ہے؟‘‘ کے موضوع پر پانچ ہزار افراد کی موجودگی میں، جبکہ دوسری مرتبہ برمنگھم میں ’’قرآن وانجیل___کلام اللہ کیا ہے؟‘‘ کے عنوان پر بارہ ہزار افراد کے اجتماع میں مناظرہ ہوا۔
انیس شوروش نے مذکورہ بالا مناظروں کے بعد ایک کتاب An Islamic Revealed, Christian Arabic Veiws of Islamتالیف کی اور اس کتاب کے متعلق کہا کہ یہ لوگوں کو اس بات سے آگاہ کرنے کے لیے کافی ہے کہ اسلام غلط عقائد پر مشتمل دہشت گردی کا دین ہے جو لوگوں کو جھگڑے، قتال اور خون بہانے کی طرف مدعو کرتا ہے کیونکہ اس کا اولین مصدر یہی قرآن ہے۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے قرآن کو ’الفرقان الحق‘ سے بدل لیں (۷)۔ شوروش کے الفاظ ہیں کہ ’’قرآنی أجود، کتبتُہ بالعربیۃ الجیدۃ وترجم الی اللغۃ الإنجلیزیۃ الجیدۃ ‘‘۔(۸)
انیس شوروش کی اسلام اور مسلم دشمنی اس وقت کھل کر سامنے آئی جب اس نے نائن الیون کے دودن بعد امریکی ریاست ہیوسٹن کی یونیورسٹی میں بغض وعناد سے بھر پور ایک لیکچر دیا جس میں اس نے مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے پر زور دیا۔ شوروش کے الفاظ میں چونکہ دینِ اسلام دہشت گردی اور خون بہانے کا دین ہے اور اس وقت دہشت گردی کا اولین مصدر قرآن ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اس قرآن کو ختم کر دیا جائے تاکہ دہشت گردی ختم ہو سکے۔ مزید براں امریکی حکومت پر زورد یا کہ وہ مسلمانوں کو امریکہ سے نکال دے اور تمام مسلمانوں کو مشرقِ وسطیٰ کے علاقہ میں جمع کرنے کے بعد ان کو ہائیڈروجن بم سے اڑا دے۔ بعدازاں اسلام اور مسلمانوں کی ہلاکت کے لیے خصوصی سروس کا اہتمام کیا۔ شوروش کا یہ لیکچر بدکلامی اور اسلام کے خلاف گالی گلوچ سے اس قدر پُر تھا کہ یونیورسٹی کے صدر کو اگلے روز اس سلسلے میں معذرت کرنا پڑی (۹)۔
شوروش نے میڈیا کو اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کا بنیادی ذریعہ بنایا حتیٰ کہ انڈونیشیا کے مشہور ٹی وی چینلز کو خریدنے کے بعد ان کی نگرانی انڈونیشیائی عیسائیوں کے سپرد کردی(۱۰)۔
شوروش اپنی کتاب ’الفرقان الحق‘ میں قارئین کی حمایت حاصل کرنے کے لیے خود کو ایک مظلوم خاندان کا فرد ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہاس کے والد اور چچازاد کی اسرائیل میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاکت نے اس کو 1976ء میں اردن کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کیا۔ (۱۱) وہ مسلمانوں کو ’’I sincerely love all the Muslims‘‘ کے الفاظ کے ساتھ جھانسہ دینے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ ’الفرقان الحق‘ کا سببِ تالیف بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ مسلمانوں سے محبت اوران کے فائدے کی خاطر اس کتاب کو اپنی سابقہ کتاب ’’کشف حقیقۃ الاسلام‘‘کے تتمہ کے طور پر شائع کر رہا ہوں۔اسرائیلی تھنک ٹینک نے شوروش کا مقالہ ’’الاسلام یستھدف امریکا فی مخطط یمتد عشرین عاما‘‘ بھی شائع کیا ہے۔ اس مقالہ میں اپنی کتاب ’الفرقان الحق‘ کی اہمیت اس طرح بیان کی ہے کہ
’’۔۔۔ تاکہ مسلمانوں کے قرآن کو ہر لحاظ سے چیلنج کیا جا سکے۔ اس کے جوہر،اسلوب، لغت اور مشتملات ومحتویات ، غرض یہ کہ ہر لحاظ سے اسلامی قرآن کے مقابل یہی کتاب ہے‘‘(۱۲)۔
اس کے خیال میں مسلمانوں نے 2020ء تک امریکہ کی فتح کے لیے جامع منصوبہ بندی کر رکھی ہے چنانچہ اسی وجہ سے ایک وقت وہ بھی آیا جب مسلمانوں کا یہ منصوبہ 11ستمبر کو اچانک، جب امریکی سکون کی نیند سو رہے تھے، ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹاورز پر حملہ کی صورت میں رونما ہوا۔
شوروش اپنے تعارف میں مزید لکھتا ہے کہ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی سٹڈی کونسل کا ممبر بھی رہا اور 76سے زائد ممالک کے دورے بھی کیے۔ وہ غیر مسلم حلقوں میں حقیقتِ اسلام کو منکشف کرنے کا متخصص (Specialist) قلم کار مانا جاتا ہے۔ شوروش کے خیال میں قرآن انسانیت کو 1400سو برس سے چیلنج کر رہا ہے کہ کوئی انسان اس جیسی کتاب تالیف کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتاجو زمانہ کے مناسبِ حال اورتورات وانجیل کے مابین جمع وتطبیق کرتی ہواورادیانِ ثلاثہ یعنی عیسائیت، یہودیت اور اسلام کی تعلیمات کی جامع تفسیر ہو، لیکن ’الفرقان الحق‘نے قرآن اورمسلمانوں کے اس مقولے اور چیلنج کو باطل کر دیا ہے۔ اس کے مطابق مسلمانوں کے نبی محمد(ﷺ) پر قرآن تیئیس(23)سال اترتا رہا لیکن میں نئے قرآن کی ترتیب وتدوین میں سات سال سے زیادہ مصروف نہیں رہا۔ یہ عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں مرقوم ہے جس پر 1999ء سے عمل شروع ہے۔وہ مسلمانوں کے قرآن سے ’الفرقان الحق‘ کا موازنہ کرتے ہوئے اسلامی قرآن میں قواعدِ نحو ولغت کی 100سے زائد غلطیوں کا دعویٰ کرتا ہے۔ اسی طرح قرآن مجید کو چند مبہم اور غیر واضح نکات پر مشتمل ایک دستاویز سے زیادہ سمجھنے کو تیار نظر نہیں آتا ۔ اس کے برعکس اپنے خود ساختہ کلام کے واضح اور تفصیلی جزئیات کے ساتھ مالا مال ہونے کا دعویدار ہے۔ (۱۳)
’الفرقان الحق‘ 20 x 15 سم کے 366 صفحات پر مشتمل ہے۔ مقدمہ، بسملہ اور خاتمہ کے علاوہ اس کی 77سورتیں ہیں۔ اس متعفن تصنیف کی ہر سورت کی آیات کی تعدادہاتھ پاؤں کی انگلیوں کے برابر ہے جبکہ ہر سورت کو بتکلف ٹھونس ٹھانس کر بھر دیا گیا ہے ۔
’الفرقان الحق‘ کا جزء اول اسی سال American Center of Divine Loveکی وساطت سے امریکہ میں اومیگا۲۰۰۱ (OMEGA 2001) اور پریس وائن (PRESS WINE) سے شائع ہوا ہے ۔ (۱۵) جمعیت احیاء التراث الاسلامی کویت کے ہفت روزہ مجلہ ’’الفرقان‘‘ میں نسخہ کی قیمت 3امریکی ڈالر مذکور ہے جبکہ مذکورہ کتاب امریکہ، اسرائیل، لندن اور دیگر یورپی ممالک میں بڑی تیزی سے فروخت کی جار ہی ہے۔ ’الفرقان الحق‘ کے انٹرنیٹ ایڈیشن کی قیمت49.19امریکی ڈالر مذکور ہے(۱۶)۔
’الفرقان الحق‘ کے ناشرین و متعلقین کی یہ کوشش ہے کہ اس کتاب کو ہر مسلمان کے گھر بلکہ اس کے دل ودماغ تک پہنچا یا جائے۔ اگرچہ انھیں اس بات کا یقین ہے کہ مخلص مسلم سکالرز اور دانشوروں کی موجودگی میں یہ کام ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، تاہم انہوں نے اس کتاب کی تقسیم کا آغاز امریکہ کے بڑے بڑے کتب خانوں سے کیا ہے۔ ۲۰ویں صدی کے مسیلمہ سلیمان رشدی کی خصوصی توجہ سے لندن میں بھی یہ کتاب بڑے پیمانے پر دستیاب ہے۔ کویتی مجلہ ’الفرقان‘ کے مطابق اس کتاب کو خصوصاً کویت کے عجمی اداروں میں مفت تقسیم کیا جا رہا ہے تاکہ مشنری مقاصد کی تکمیل ہو سکے اور آنے والی نسلوں میں اسلامی تشخص کی ایک مسخ شدہ شکل پیش کی جا سکے تاکہ وہ دینِ حنیف سے روگرداں ہو ں۔ اس کتاب کا براہِ راست ہدف نوجوان طبقہ ہے جو امتِ مسلمہ کا قیمتی سرمایہ اور مستقبل کے قائدین ہیں۔ بہت افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے بعض نوجوان اور اسکالرز اجماعِ امت کے خلاف جب باتیں کرتے ہیں تو وہ نہ صرف اجتماعی ساکھ کو نقصان پہنچارہے ہوتے ہیں بلکہ اس سے امت کی وحدت کو بھی خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
اس کتاب کی تقسیم کا دوسرا بڑا مقام ارضِ فلسطین ہے جہاں اسرائیل کے راستے کئی نسخے پہنچائے گئے ہیں جن کو فلسطینی تعلیمی اداروں میں رائج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ فلسطین کو اس کے لیے کیوں منتخب کیاگیا؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنا اس وقت آسان تر ہو جاتا ہے جب بنظر غائر یہ دیکھا جائے کہ اس امریکی مسخرہ میں اسرائیلی اہداف کو کس طرح تقویت دی گئی ہے(۱۷)۔
امریکی فرقان کے ایک نمائندے کی تقریر میں اس کی طرف اشارہ کیاگیا کہ 17/04/2004تک پیرس، لندن، واشنگٹن اور دیگر کئی بڑے شہروں میں اسلامی وعربی سفارت کاروں کو اس کی تقسیم مکمل کی جا چکی ہے۔20اپریل 2004ء کو BBCنے اس کا نسخہ وصول کیا۔ اسی طرح فلسطین سے شائع ہونے والے عربی، انگریزی اور عبرانی زبان کے مجلات کے دفاتر میں 15مئی 2004ء کواس کے نسخے پہنچادیے گئے۔ 17مئی 2004ء کو لندن سے شائع ہونے والے عربی مجلات کے دفاتر کی طرف اس کو ارسال کیاگیا۔ (۱۸)مزید براں مذکورہ کتاب www.amazon.comکے علاوہ کئی دوسرے انٹرنیٹ لنکس پر دستیاب ہے۔ ہمارے لیے مقامِ افسوس بایں طور ہے کہ مسلم مفکرین واسکالرز کو اس بات کی خبر تک نہیں کہ اس فحش کتاب کو کس تیزی کے ساتھ نہ صرف غیرمسلم بلکہ مسلم علاقوں تک پہنچایا جا رہا ہے۔
امریکہ سے شائع ہونے والے مشہور ومعروف جریدہ ’’صوت العربیۃ‘‘ کے چیف ایڈیٹر ولید رباح اپنے ساتھ پیش آنے والے حالیہ واقعہ کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’۔۔۔کچھ روز قبل ایک امریکی شخص نے ٹیلی فون پر مجھ سے رابطہ کیا جو کہ اہل ٹیکساس کے لہجہ میں عربی زبان بو ل رہا تھا۔ کہنے لگا کہ میرا نام قسیس الیاہو ہے اور میں آپ سے جتنی جلدی ممکن ہو، ملنے کا خواہشمند ہوں۔ اس نے مزید کہا کہ میرے پاس آپ کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے ساتھ کب اور کہاں ملاقات ممکن ہے؟ اس نے کہا کہ میں ’’صوت العربیۃ‘‘ کے دفتر میں پہنچ جاتا ہوں۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس ہمارے دفتر کا ایڈریس ہے؟ تو اس نے زور دے کر کہا کہ جناب، اس کا ایڈریس تو میرے دل ودماغ پر کندہ ہے۔ میں نے کہا کہ پلیز ضرور تشریف لائیے۔ میں فوراً دفتر پہنچا تو چند ہی منٹوں بعد طویل قدوقامت اور گہرے رنگ کے بالوں والا ایک آدمی جس کے ہاتھ میں Samsoniteقسم کا ایک بیگ تھا، آن پہنچا۔ اس نے پرتکلف انداز میں زبان کو بل دیتے ہوئے کہا ’’شلام العلیکم‘‘ میں نے وعلیکم السلام کہنے کے بعد اس کو بیٹھنے کے لیے کہا۔اس نے کہا کہ میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا اور اپنا بیگ کھولتے ہوئے ایک چمکدار لفافے میں لپٹی ہوئی کوئی چیز نکالی اور کہا کہ سر! یہ میری طرف سے آپ کو ہدیہ ہے۔ میں نے طنزیہ اندا ز میں کہا کہ اس میں کہیں انتھراکس تو نہیں کیونکہ آپ لوگوں سے کچھ بعید نہیں۔ اس نے کہا نہیں جناب بلکہ اس میں ایک نئی زندگی ہے جو میں آپ کو پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے یہ کتاب میرے حوالے کی جس پر عربی میں ’الفرقان الحق‘ لکھا ہواتھا۔ میں نے اس کو ایک طرف رکھا اور اس کے ساتھ معاشیات، سیاست اور حالاتِ حاضرہ پر تقریباً آدھ گھنٹہ گفتگو ہوتی رہی۔ پھر میں نے پوچھا کہ آپ اس کی تشہیر کے لیے ہمیں کیا دیں گے؟ اس کے دوبارہ استفسار پر میں نے کہا کہ اس کی تشہیر کے لیے آپ ہمیں کیا دیں گے ؟ اس نے کہا کہ ایک تو کم ہوگا، دو ٹھیک ہے۔ میں نے پوچھا کہ اِس ایک اور دو سے آپ کی کیا مراد ہے؟ اس نے کہا، ایک یا دو ملین ڈالرلیکن شرط یہ ہے کہ ’’صوت العربیۃ‘‘ کے ہر قاری کے گھر میں یہ کتاب پہنچنی چاہیے اور یہ بھی کہ یہ کم از کم دس بار شائع ہو‘‘۔ (۱۹)
’’صوت العربیۃ‘‘ کے مدیر اعلیٰ مزید کہتے ہیں کہ:
’’ وہ آدمی چلا گیا۔ میں نے اس کتاب کو کھولا تو عربی اور انگریزی میں ایک ساتھ لکھی ہوئی اس کتاب کا مقدمہ پڑھنا شروع کیا جس میں لکھا ہوا تھا:
الی الامۃ العربیۃ خاصۃ والی العالم الاسلامی عامۃ سلام علیکم ورحمۃ من اﷲ القادر علی کل شئی۔۔۔ یوجد فی اعماق النفس البشریۃ اشواق للایمان الخالص والسلام الداخلی والحریۃ الروحیۃ والحیاۃ الابدیۃ۔۔۔ واننا نثق بالالہ الواحد الاوحد بان القراء والمستمعین سیجدون الطریق لتلک الاشواق من خلال الفرقان الحق۔
یعنی امت عربیہ کے لیے خصوصاً اور عالمِ اسلام کے لیے عموماً۔ اللہ قادر مطلق کی طرف سے تم پر سلامتی اور رحمت ہو۔ نفسِ انسانی کی گہرائیوں میں ایمانِ خالص اور سلامتی ، روحانی آزادی اور ابدی زندگی موجود ہوتی ہے۔ ہم کو یقین ہے کہ الٰہ الواحد الاَوحد کے فضل سے قارئین وسامعین ایمان وسلامتی کے یہ راستے الفرقان الحق کے ذریعے پائیں گے۔۔۔ خالقِ انسانیت نے یہ روشن ستارے اس صفی ومہدی (شوروش) کی طرف وحی کیے ہیں‘‘۔
پھر ولید رباح نے جب پہلا صفحہ پلٹا تو اس پر سورۂ بسملہ تھی :
’’باسم الاب الکلمۃ الروح الالہ الواحد الأوحد۔ مثلث التوحید موحد التثلیث ما تعدد۔ فہو اب لم یلد۔ کلمۃ لم یولد۔ روح لم یفرد۔ خلاق لم یخلق۔ فسبحان مالک الملک والقوۃ والمجد۔ من ازل الازل الی ابد الابد‘‘۔
ولید بن رباح کہتے ہیں کہ میں نے امریکی قرآن کی سورۂ فاتحہ دیکھی اور کتاب بند کرتے ہوئے دل میں سوچا کہ یہ کون سا مہدی ہے جس کو عربی زبان کے اصول وابجد کا ہی علم نہیں تو میں اس کے لطیفہ پر کیوں نہیں ہنس سکتا۔ میں نے فوراً قرآنِ مجید فرقانِ حمید کھولا اور سورۂ فاتحہ کو پوری دلجمعی سے پڑھا تو زندہ ومردہ کا فرق واضح ہوگیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرا خیال اچانک مسیلمہ کذاب کی طرف چلا گیا کہ وہ کذاب ہونے کے باوجود اس فرقان امریکی سے بدرجہا بہتر عربی زبان سے واقف تھا، لیکن پھربھی اس قابل نہ تھا کہ قرآن کا مقابل تیار کر سکے۔
اس امریکی اقدام کے پس پردہ عزائم کا اندازہ حسبِ ذیل اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے:
"The purpose of The True Furqan is a tool of evangelism, because so far we have not found a breakthrough way to reach the Muslim world for Christ," Al-Mahdy said. "We have tried medicine, schools, books, movies and many other methods.(20)
’’المہدی نے کہا کہ الفرقا ن الحق کا مقصد انجیل کی تبلیغ واشاعت کے لیے اسے بطور ذریعہ اختیار کرنا ہے، کیونکہ اب تک ہمیں مسیح کی خاطر مسلم دنیا تک رسائی حاصل کرنے میں کوئی بڑی کام یابی حاصل نہیں ہوئی۔ ہم دواؤں، سکولوں، کتابوں اور فلموں سمیت کئی دوسرے طریقے بھی اختیار کر کے دیکھ چکے ہیں۔‘‘
مولفِ ’الفرقان الحق‘ کی کم علمی و کم عقلی کے ثبوت
موصوف نے اپنے انگریزی مقدمہ میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ’الفرقان الحق‘ وہ پہلی کتاب ہے جس نے اسلامی قرآن کے چیلنج کا مسکت جواب دیا ہے اور اس سے پہلے تاریخ کے کسی دور میں اسلامی قرآن کے مقابل کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ لکھتا ہے:
"1400 years ago the Quran challenged the world to produce a book like itself. Now for the first time in history, The True Furqan presents the gospel message in a unique style".(21)
شوروش مزید کہتا ہے کہ
"The True Furqan will be a breakthrough to Muslims not only because it answers the Qur'an's challenge, but because it also questions many of the Qur'an's teachings, as well as presenting the Gospel message, all in the language Muslims revere -- powerful, perfect, classical Arabic".(22)
شوروش کے مذکورہ بالا دعویٰ کے مطابق یہ وہ پہلی کتاب ہے جو قرآنی اسلوب کے مقابل تالیف کی گئی ہے اور یہی وہ فرقان ہے جس نے چودہ سو سال کے بعد پہلی مرتبہ قرآنی چیلنج کو قبول کیا ہے۔ درحقیقت اس کا یہ گمان مطلق جہالت کے سوا کچھ نہیں کیونکہ معاندینِ اسلام نے سینکڑوں بار شوروش سے بڑھ کر اسلامی قرآن کے مدمقابل کتابیں اور آیات افترا کرنے کی کوشش کی ہے۔تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مسیلمہ،حمام وغیرہ جیسے کذابین ومدعیانِ نبوت نے (وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ ۔۔۔ الخ) کے وزن پر آیات گھڑی تھیں۔ ابن اثیر نے اپنی کتاب ’’اسد الغابۃ‘‘ میں بھی ایسی عبارات ذکر کی ہیں جو قرآن کے مقابلہ میں بنائی گئیں اور اس پر تنقیدی کلام بھی کیا ہے(۲۳)۔
مزید براں امریکی قرآن میں جہاں فاتحہ،القدر،المومنین،التوبۃ،النساء، الطلاق، المائدۃ، المنافقین، الکافرین اورالانبیاء جیسی سورتوں کے نام چوری کیے گئے ہیں، وہیں بعینہ ایک دو حرف کی تحریف کے ساتھ قرآنی آیات کو بھی نقل کیا گیا ہے جو اس بات پر دال ہے کہ شاید ’الفرقان الحق‘، قرآنی کلمات،عبارات، تراکیب، ہیئت، فواصل اورآیات کے توازن وہم آہنگی سے مدد لیے بغیر کبھی معرضِ وجود میں نہ آ سکتا۔ اس ضمن میں چند مثالیں حسب ذیل ہیں:
۱۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ اَعْمَالُہُمْ کَرَمَادِ ن اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ لَایَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلَی شَیْءٍ ذٰلِکَ ہُوَ الضَّلَالُ الْبَعِیْد(۲۴)
اس کے مقابلہ میں شوروش کی افترا کردہ آیت حسبِ ذیل ہے:
مثل الذین کفروا وکذبوا بالانجیل الحق اعمالہم کرماد ن اشتدت بہ الریح فی یوم عاصف لا یقدرون مما کسبوا علی شئی ذلک ہو الضلال الاکید(۲۵)
۲۔ قرآن مجید میں ہے:
ھَا اَنْتُمْ اُولَاءِ تُحِبُّوْنَہُمْ وَلَا یُحِبُّونَکُمْ وَتُؤْمِنُوْنَ بِالْکِتَابِ کُلِّہ وَاِذَا لَقُوْکُمْ قَالُوا آمَنَّا وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْکُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِکُمْ اِنَّ اﷲَ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرO اِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ وَاِنْ تُصِبْکُمْ سَیِّءَۃٌ یَّفْرَحُوْا بِھَا وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْءًا اِنَّ اﷲَ بِمَا یَعَمَلُوْنَ مُحِیْطO ۔(۲۶)
اس کے مقابلہ میں شوروش رقمطراز ہے:
’’یا ایہا الذین آمنوا من عبادنا ہا انتم اولاءِ تحبون الذین یعادونکم، وہم لا یحبونکم، واذا لقوکم قالوا: آمنا بما آمنتم واذا خلوا عضوا علیکم الانامل من الغیظ، وان تمسسکم حسنۃ تسوء ہم وان تصبکم سیئۃ یفرحوا بہا، وان تصبروا وتتقوا لا یضرکم کیدہم شیئا، ولا یضرون الا انفسہم وما یشعرون‘‘۔(۲۷)
انیس شوروش کے دیگر مقاصد کے ساتھ ساتھ یہ مقصد بھی پوشیدہ نہیں کہ ’الفرقان الحق‘ دراصل اسلام اور عیسائیت کے مابین بُعد پیدا کرنے کی کوشش ہے کیونکہ یہودی ہونے کے باوجود اس نے اس کتاب میں عیسائی تعلیمات کو استعمال کرتے ہوئے اسلام کے ساتھ نفرت کا اظہار کیا ہے۔ لیکن منصف مزاج عیسائی دانشوروں نے شوروش کی اس کوشش کو کسی قسم کی قبولیت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ سید عبدہ عبدالرزاق لکھتے ہیں:
’’۔۔۔علی شبکۃ الانترنت یقف علی الکثیر من اقوال النصاری المنصفین الذی یعلمون ان ہذا الکتاب لا یمت للسماء بصلۃ تقول اہداہن ( انا برائی ان الشئی او الکتاب المسمی الفرقان الحق ما ہو الا کذب وتحریف وہجوم علی الاسلام مع اننی مسیحیۃ۔۔۔ واظن ان الاسلام قد حفظ کتابہ القرآن وسیحفظہ۔۔۔‘‘۔ (۲۸)
شوروش کی اس کتاب میں تناقضات بھی جا بجا ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اﷲِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافاً کَثِیْراً (۲۹)
۱۔ یہودیوں کے نزدیک بنی اسرائیل کے بعد کسی نبی یا رسول کا آنا ممکن نہیں جیسا کہ شوروش ’الفرقان الحق‘ کی سورۂ انبیاء میں کہتا ہے:
’’ ما بشرنا بنی اسرائیل برسول یاتی من بعد کلمتنا وما عساہ ان یقول بعد ان قلنا کلمۃ الحق وانزلنا سنۃ الکمال۔۔۔‘‘ (۳۰)
اس دعویٰ کے پیش نظر وہ دراصل عیسائیت کی بھی تنکیر کررہا ہے جبکہ دوسری طرف وہ اپنی کتاب میں ’یشوع‘، ’الاناشید لسیلمان‘،’انجیل متی‘، ’انجیل مرقس‘،’ رؤیا القدیس یوحنا‘ جیسے الفاظ بھی استعمال کرتا ہے۔
۲۔ شوروش کا بنایا ہوا قرآن عربی زبان میں ہے اور یہ اصول ہے کہ ’’ما من نبی اُرسل الا بلسان قومہ‘‘۔ تو یہ ’الفرقان الحق‘ کس طرح عربی زبان میں نازل ہوگیا؟ کیونکہ یہودی حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ محترمہ حضرت ہاجرہ سلام اﷲ علیہا کو(نعوذباللہ) غلام اور باندی کہتے ہیں، بایں وجہ اس نسل سے نبوت نہیں چل سکتی(۳۱)۔ کیونکہ بنی اسرائیل حضرت یعقوب جبکہ اہلِ عرب حضرت اسماعیل علیہما السلام کی اولاد ہیں تو ’الفرقان الحق‘ کس طرح اہلِ عرب کے لیے نازل ہو سکتا ہے؟
۳۔ امریکی قرآن کی سورۂ الکبائر کی آیت 9کے الفاظ ہیں: ’’مومنین منافقین‘‘۔ ایک انسان مومن ہونے کے ساتھ کسی طرح منافق ہو سکتا ہے؟
۴ ۔ جیسا کہ ظاہر ہے کہ شوروش نے بہت سی قرآنی آیات کا سرقہ کیا ہے ، تو جب اس کے بقول مسلمانوں کا قرآن (نعوذ باللہ) باطل ہے تو اس نے کیوں اس ’ باطل قرآن‘ کی آیات کا سرقہ کیا؟ جیسا کہ وہ کہتا ہے ’’ومن یبتغ غیر الانجیل والفرقان کتابا فلن یقبل منہ ‘‘۔
اس کے علاوہ بھی سینکڑوں تضادات ’الفرقان الحق‘ میں ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
عالمِ اسلام کا موقف
تمام اسلامی ممالک میں بالعموم اور مصر و سعودی عرب میں بالخصوص اس کریہہ اقدام پر سخت موقف کا اظہار کیا گیا ہے، ماسوائے وطنِ عزیز پاکستان کے کہ جہاں تادمِ تحریر کسی پلیٹ فارم سے کسی قسم کا کوئی ٹھوس موقف یا مذمت سننے یا دیکھنے میں نہیں آئی۔ ذیل میں بطورِ نمونہ مصر، سعودی عرب اور فلسطین کے علما کی طرف سے اس کی مذمتی بیانات ذکر کیے جاتے ہیں:
جغرافیائی حدود کے اعتبار سے مصر اسلامی دنیا کے علمی میدان میں مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ اس کے مختلف جرائد ورسائل میں اس بات کا اظہار کیاگیا ہے کہ امریکہ نے اسرائیلی تعاون کے ساتھ مصر سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس کتاب کی نشرواشاعت کا انتظام کرے(۳۲)۔ اس کے رد عمل میں جامعہ ازہر کے رئیس ڈاکٹر سید طنطاوی نے شرعی طور پر اس جھوٹے نسخے کی اشاعت کو حرام اور کفر قرار دیا۔ ان کے الفاظ ہیں:
’’یجب الرد علی ذلک والتنبیہ علی ان ہذا المولف لا اساس لہ من الصحۃ وتجب مصادرتہ۔۔۔ ان حکم من یوزع قرآنا مزورا خاصۃ اذا کان یعلم حقیقتہ ویتعمد توزیعہ ویقصد رد الناس عن الحق واستدراجہم الی الباطل، فعملہ ہذا عندئذٍ والعیاذ باﷲ ہو خروج عن الاسلام بل ہو الکفر بعینہ، ومن یفعل بذلک یکون محارباً للاسلام‘‘۔(۳۳)
مجمع البحوث الاسلامی کی ایک قرارداد کے مطابق انیس شوروش کا انتقامی فعل قرار دیا گیا جو اس نے احمد دیدات مرحوم سے مناظرہ میں شکست کے نتیجہ میں انجام دیا ہے اور یہ کہ شوروش اسلام کی تحقیر کرنے پر مستوجب سزا قرار دیا (۳۴)۔
سعودی عرب میں رابطہ عالمِ اسلامی مکۃ المکرمۃ کی مجلسِ تاسیس نے دینِ حنیف اور قرآنِ کریم کے متعلق اس فعلِ شنیع کی سخت مذمت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ حالیہ امریکہ قرآن درحقیقت مسلمانوں کی اسلامی ثقافت اور قرآن کے ساتھ گہری وابستگی کی وجہ سے ان کو برانگیختہ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے اور اس کے ذریعے رسالتِ محمدیہؐ اور آپﷺ کی دعوت کے متعلق لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے جیسے خطرناک عزائم مقصود ہیں۔ چنانچہ مسلم حکومتیں اس کی اشاعت رکوانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
رابطہ عالمِ اسلامی نے دیگر اسلامی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ مشترکہ طورپر قرآن کے دفاع میں اپنی کوششیں صرف کریں اور اسلام دشمن مقاصد کو منظر عام پر لاتے ہوئے مسلمانوں کو اسلام اور قرآن کا دفاع کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کریں(۳۵)۔
فلسطین کے مشہور عالم الشیخ عکرمہ نے ’الفرقان الحق‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا : ’’لو کنا نحن المسلمین قد انتقدنا ای دین سماوی لقامت الدنیا ولم تقعد‘‘ ۔ یعنی اگر ہم مسلمان یہودیت یا عیسائیت پر تنقید کرتے تو ساری دنیا کھڑی ہوجاتی اور چین سے نہ بیٹھتی، باوجودیکہ مسلمانوں کا یہ موقف ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی نبی کا تمسخر اڑائے یا اس پر تنقید کرے اور مسلمان حضرت داؤد وسلیمان علیہما السلام کو نبی مانتے ہوئے ان کو لائق صد احترام سمجھتے ہیں حالانکہ وہ یہودیوں کے بادشاہ ہیں (۳۶)۔
فلسطینی تنظیم ’حرکتِ اسلامی‘ کے نائب رئیس کمال خطیب نے اس کوشش کو اسلام پر ایک حملہ اور دینی شعار کے خلاف سازش قرار دیا(۳۷)۔
مسلم سکالر شیخ ابو اسحق الحوینی نے اس مضحکہ خیز کتاب(الفرقان الحق) کے متعلق شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے قاہر ہ کی جامع مسجد میں اس پر تنبیہ و تردید کو واجب قرار دیا :
واخطر ما فی ہذہ الحرف ان جماہیر المسلمین غافلۃ عن ہذا المخطط۔۔۔ وہذا یقضی ان یکون عندنا جیش جرار من المحققین وعلماء الحدیث الذین یعرفون المصادر الاصلیۃ، فان لم نفعل ذلک فہذا ہو الضیاع بعینہ۔۔۔‘‘(۳۸)۔
یعنی ہمارے پاس ہر وقت ایسے محققین کا لشکر موجود رہنا چاہئے جو ان جیسے شبہات کا فوری طور پر منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
سید عبدہ عبدالرزاق نے اس کتاب پر اسلامی حلقوں کی طرف سے جس کثرت سے Feed Back آنے کی ضرورت تھی، اس کے نہ آنے پر دکھ کا اظہار کیا:
’’ان رد الفعل الاسلامی علی ہذا الفرقان اقل بکثیر مما یجب، وہناک الکثیر من الدول الاسلامیۃ یوضع حولہا علامات استفہام کبیرۃ، فالکتاب یوزع فی اراضیہا، ولنا ان نسال ہؤلاء: ہل سیخیکم الصمت علیکم وکتاب الکفر یوزع باراضیکم؟‘‘(۳۹)۔
غیر مسلم ممالک میں بھی مختلف اسلامی آرگنائزیشنز نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے ۔ برطانیہ میں مسلم تنظیموں نے برطانوی حکومت کو کثیر تعداد میں خطوط ارسال کیے ہیں جن میں ایسی ویب سائٹس کو بلاک کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے (۴۰)۔
امریکی کی مسلم تنظیموں نے بھی شدید مذمت کا اظہار کرتے ہوئے اس کو دین اسلام کے خلاف متعصبانہ اقدام قراردیتے ہوئے کہا کہ یہ ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی ہے۔ امریکی حکومت کو ایک وضاحتی بیان میں کہاگیا ہے کہ جب طالبان گورنمنٹ نے ایک مجسمے کو گرایا تھا تو ساری دنیا سے اس کی مذمت شروع ہوگئی لیکن جب امریکہ میں بیٹھا کوئی شخص مسلمانوں کے تشریعی مصدر اور انسانیت کے دستور قرآن مجید کو مسخ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دانشوروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی (۴۱)۔
شاید کچھ اہل علم یہ موقف بھی رکھتے ہوں کہ قرآن اور اسلام کے خلاف شائع ہونے والے مغربی لٹریچر کو قابلِ غور سمجھنا یا اسے کچھ وقعت دینا بھی اس کے شیوع کا سبب ہے، لیکن اس موقف کو کس اعتبار سے قریب از حکمت سمجھ لیا جائے کہ قرآن دشمن مغربی لٹریچر اور اس کے اثراتِ فاسدہ پر ہم خاموشی اختیار کیے رکھیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی امید رہے کہ بہت جلد ہم سرزمینِ یورپ پر اسلام کے جھنڈے گاڑنے والے ہیں؟
قرآن کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے ہمارا موقف ہے ، اور یقیناًہم اس میں حق بجانب ہیں، کہ اسلام اور قرآن کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو بازگشت بننے سے قبل ہی دبادینا مسلمانوں کی عموماً اور اہلِ علم کی خصوصاً ذمہ داری ہے، کیونکہ ایسا لٹریچر یقیناًپختہ مسلمان پر تو شاید اثرانداز نہ ہوسکے لیکن نو مسلم اور مستقبل قریب میں اسلام قبول کرنے والے وہ لوگ جو دینِ اسلام کے مطالعہ میں مصروف ہیں، اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے جو کسی طور پر بھی اسلام اور مسلمانوں کے حق میں نہیں۔
امریکہ سے شائع ہونے والے ’الفرقان الحق‘ کی اصلیت اور اس کے پس پردہ مکروہ عزائم کا پردہ چاک کرنے کے لیے یہ تحریر پیش کی گئی۔ اہل علم سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس سے باخبر ہونے کے بعدمغرب کے اس متعصبانہ اقدام پر شدید اظہارِ مذمت کے ساتھ ساتھ اس کے چہرہ سے نقاب کشائی میں اپنا علمی فریضہ ادا کرتے رہیں گے۔
حواشی
۱۔ دیکھئے: Arthur Jeffery, The Quran as Scripture, Russel & Moore Company, N,Y,1952.
۲۔ دیکھئے: (G.Margoliouth, INTRODUCTION TO J.M.RODWELL'S THE KORAN, New
Yark, Everyman's Library, 1977, p. vii)
۳۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری، قرآن مجید ایک مسلسل معجزہ، ص۷، اورینٹل کالج میگزین ،جلد۷۶،۲۰۰۱ء
۴۔ دیکھئے: http://www.alminbar.net/alkhutab/khutbaa.asp?media
۵۔ دیکھئے: http://saaid.net/Doat/ahdat/54.htm
۶۔ السید عبدہ عبدالرزاق ابو عبدالرحمن، القرآن الامریکی: اضحوکۃ القرن الحادی والعشرین، ص۵۵، رقم الایداع بدارالکتب 2004/21547 مصر
۷۔ دیکھئے: http://www.messiahsgifts4u.com/truefurqan.html
۸۔ دیکھئے: Monthly GATRA, No. 1125, May 2002
۹۔ القرآن الامریکی: اضحوکۃ القرن الحادی والعشرین، ص ۵۶ و۵۷
۱۰۔ دیکھئے: http://www.saaid.net/Doat/ahdal/54.htm
۱۱۔ ۱۲ القرآن الامریکی: اضحوکۃ القرن الحادی والعشرین، ص۵۷
۱۳۔نفس المصدر، ص۵۸
۱۴۔ نفس المصدر، ص۵۹
۱۵۔ دیکھئے: http://www.alarabonline.org/index.asp?fname
۱۶۔ دیکھئے:
http://www.amazon.com/exec/obidos/tg/detail/-/1579211755/qid=1096805827/sr=1-1/ref=sr_1_1/002-446804-6629664?v=glance&s=books
۱۷۔ القرآن الامریکی: اضحوکۃ القرن الحادی والعشرین، ص۶۴
۱۸۔ دیکھئے:
http://www.muslimuzbekistan.com/eng/ennews/2005/05/ennews01052005a1.html
۱۹۔ القرآن الامریکی: اضحوکۃ القرن الحادی والعشرین، ص۶۶ تا ۶۸
۲۰۔ ۲۲ دیکھئے:
http://www.muslimuzbekistan.com/eng/ennews/2005/05/ennews01052005a1.html
۲۳۔ ڈاکٹر غازی عنایۃ کا مضمون ’’امثلۃ علی بعض المتقولین علی القرآن‘‘ بحوالہ:
www.balagh.com/mosoa/quran/7zOtb5pi.htm
۲۴۔ القرآن الحکیم:ابراہیم:۱۸
۲۵۔ امریکی قرآن(الفرقان الحق):سورۃ الثالوث/۱۸
۲۶۔ القرآن الحکیم:آلِ عمران:۱۱۹،۱۲۰
۲۷۔ امریکی قرآن(الفرقان الحق):سورۃ الخاتم:۱
۲۸۔ القرآن الامریکی: اضحوکۃ القرن الحادی والعشرین، ص ۷۳
مزید دیکھئے:http://writeres.alriyadh.com.sa)
۲۹۔ القرآن الحکیم:النساء: ۸۲
۳۰۔ امریکی قرآن(الفرقان الحق): سورۂ انبیاء
۳۱۔ القرآن الامریکی: اضحوکۃ القرن الحادی والعشرین، ص۷۶
۳۲۔ ۳۳ جریدۃ الاسبوع الاثنین:06/12/2004، عدد403، مصر
۳۴۔ عقیدتی الثلثاء، ۲۹ ذوالحجۃ/ ۸ فروری ۲۰۰۵ء، عدد ۶۲۷
۳۵۔ ۳۷ الحیاۃ الوسط:26/04/2004
۳۸۔ دیکھئے: http://www.alheweny.com/iftra2_5.HTM
۳۹۔ القرآن الامریکی: اضحوکۃ القرن الحادی والعشرین، ص۱۷۳
۴۰۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: جریدۃ الوفد: الاثنین: ۳۱ جنوری ۲۰۰۵ء۔۔۔
مزید دیکھئے: http://www.alwafd.org/front/index.php
۴۱۔ دیکھئے: http://www.alheweny.com/index21