’’ہزار سال پہلے‘‘
تاریخ نے اپنے سینے میں کئی ایسے اہل علم کے نام محفوظ کیے ہیں جنھوں نے تحریر وتصنیف اور تقریر وتدریس میں کمال حاصل کر کے اپنی مہارت کا سکہ منوایا۔ اس فہرست کو اگر بہت مختصر کیا جائے تو بھی ’’ازہر الہند‘‘ دار العلوم دیوبند کے فیض یافتہ مولانا سید مناظر احسن گیلانی کا نام سر فہرست ہوگا۔
مولانا نے اپنی تحقیقی وتصنیفی زندگی کا آغاز دار العلوم دیوبند کے زمانہ قیام ہی میں کر لیا تھا، لیکن اس پر بہار حیدر آباد دکن میں آئی جہاں آپ جامعہ عثمانیہ کے شعبہ تعلیمات سے وابستہ ہوئے۔ آپ کے قلم سے سینکڑوں مضامین اور مقالات نکلے جن پر صدق، برہان، ترجمان القرآن، القاسم اور معارف کے صفحات گواہ ہیں۔ مولانا کی مشہور تصانیف میں ’النبی الخاتم‘، ’تدوین قرآن‘، ’تدوین فقہ‘، ’تدوین حدیث‘، ’مسئلہ سود‘، ’نظام تعلیم وتربیت‘ اور ’احاطہ دار العلوم میں بیتے ہوئے دن‘ قابل ذکر ہیں۔ آپ کی کتب کی خاصیت یہ ہے کہ کتاب شروع کرنے کے بعد قاری اس کے سحر میں ایسا گرفتار ہوتا ہے کہ کتاب ختم کیے بغیر اسے چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔
اس وقت ہمارے سامنے مولانا کی کتاب ’’ہزار سال پہلے‘‘ ہے جو عالمی تہذیب وتمدن کے دل چسپ اور انوکھے پہلوؤں پر مولانا کے رشحات قلم سے مزین ہے۔ مولانا نے مختلف سیاحوں کی کتابوں کی سیاحت کے دوران میں جن عجیب وغریب اور متنوع معلومات کو سبق آموز محسوس کیا، انھیں اپنے تاثرات کے اضافے کے ساتھ قارئین کی نذر کر دیا ہے۔ کتاب کے صفحات میں برصغیر پاک وہند، چین، طرابلس اور دیگر اسلامی ممالک کی تہذیب وتمدن اور ثقافت ومعاشرت کی تصویر کے ساتھ ساتھ مسلمان سیاحوں کی بے تعصبی اور معروضیت بھی نمایاں ہے۔ کتاب کی اصل قدر وقیمت تو مطالعے ہی سے معلوم کی جا سکتی ہے، تاہم کتاب کے چند عنوانات کا ذکر دل چسپی سے خالی نہیں ہوگا:
کتے کے برابر چیونٹیاں، بدھ مت کا قبول اسلام، فصل خصومات کا حیرت انگیز طریقہ، (ہندووں کے) گوشت سے احتراز کا سبب، قرآن میں آم کا ذکر، جوئے کا رواج اور حیرت انگیز واقعات، بنی آدم کے لباس کا سفر پتے سے سونے چاندی تک، راجہ کا خط اور مسلمانوں کی تباہی کے اسباب۔
کتاب پہلی مرتبہ نصف صدی قبل شائع ہوئی تھی اور اس کا مواد ترتیب وتنسیق اور عنوان بندی سے عاری تھا۔ عربی وفارسی عبارات واقتباسات اور طویل حواشی اس پر مستزاد تھے۔ جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فاضل مفتی محمد عمر انور نے عربی وفارسی عبارات کا ترجمہ کر کے، حواشی کو متن میں سمو کر اور مختلف عنوانات قائم کر کے کتاب سے استفادہ کو آسان بنا دیا ہے۔ اس طرح کتاب کا یہ ایڈیشن ظاہری وباطنی خوبیوں سے آراستہ ہے۔
یہ کتاب بیت العلم، اے ۱۲۰، بلاک نمبر ۱۹، گلشن اقبال کراچی سے طلب کی جا سکتی ہے۔ قیمت درج نہیں۔
(محمد خالد بلوچی۔ شریک ’خصوصی تربیتی کورس‘ الشریعہ اکادمی)
’’کاروان حیات‘‘
سرزمین پاک وہند ذہین وباکمال افراد کے اعتبار سے بڑی زرخیز ثابت ہوئی ہے۔ یہاں کے بہت سے نامور اہل علم نے اپنی ذاتی محنت اور لگن سے بلند مقام ومرتبہ حاصل کیا اور ان کی شہرت ملک سے نکل کر بلاد عرب وافریقہ تک جا پہنچی۔ ان باصلاحیت لوگوں میں ایک نام قاضی محمد اطہر مبارک پوری کا ہے۔ قاضی صاحب نے تصنیفی اور تحقیقی میدان میں جو کام کیا ہے، بلاشبہ اسے مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ ہمارے سامنے اس وقت قاضی صاحب کی خود نوشت سوانح حیات ’’کاروان حیات‘‘ ہے جس میں ان کے سن پیدایش ۱۹۱۶ء سے لے کر ۱۹۸۸ء کے حالات درج ہیں۔ ان میں موعظت ونصیحت بھی ہے اور سیاسی حالات بھی، علمی تذکرے بھی ہیں اور شخصیات کا تعارف بھی۔
مصنف نے ابتدا میں تصنیف کتاب کا محرک بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’میں نے اپنی طالب علمی کی یہ کہانی خود ستائی اور خود نمائی کے لیے نہیں لکھی۔ عزیز طلبہ اس تحریر کو اس نقطہ نظر سے نہ پڑھیں، بلکہ اس کو پڑھ کر آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کریں۔‘‘
دیگر محاسن اور خوبیوں سے بھرپور ہونے کے ساتھ ساتھ یہ کتاب ایک بہترین استاد اور مصلح بھی ہے۔ جابجا ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے عبرت بھی حاصل ہوتی ہے اور اصلاح بھی ہوتی ہے۔ صفحہ ۱۷۰ پر جدہ میں سعودی سفارت خانہ کی طرف سے اپنے اعزاز میں دعوت کا تذکرہ کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں: ’’استقبالیہ میں کھانے کا انتظام مغربی طور پر کھڑے کھڑے تھا۔ میں نے جرات کر کے کہا کہ میں اسلام کے وطن میں نصاریٰ کے طریقہ پر نہیں چلوں گا۔ یہ کہہ کر اپنے حصے کا کھانا لے کر دوسری طرف میز کرسی پر بیٹھ گیا۔ یہ دیکھ کر سب حضرات نے واللہ صحیح واللہ صحیح کہتے ہوئے میز کرسی پر کھانا کھایا۔‘‘ مرد حق کی یہی شان ہوتی ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ کتاب کے مطالعہ سے حیات مستعار کے لمحات کو قیمتی بنانے کی فکر بڑھ جاتی ہے، تحقیق اور جستجو کا ذوق بیدار ہوتا ہے، اور جہد مسلسل کے عز م میں پختگی آتی ہے۔ علمی ترقی کے خواہاں طلبہ اور علما کے لیے یہ کتاب ایک بہترین تحفہ ہے۔
خوب صورت سر ورق نے کتاب کو مزید پرکشش بنا دیا ہے، تاہم آئندہ طباعت میں اگر پروف کی اغلاط کو زیادہ توجہ کے ساتھ درست کر لیا جائے تو بہتر ہوگا۔ دو سو صفحات کی اس کتاب کو بیت العلم، گلشن اقبال کراچی نے شائع کیا ہے اور اس پر قیمت درج نہیں۔
(محمد شفیع خان عقیل۔ شریک ’خصوصی تربیتی کورس‘ الشریعہ اکادمی)
’’ارمغان حج‘‘
زیر نظر کتاب ندوۃ العلماء کے فاضل اور آکسفرڈ سنٹر فار اسلامک سٹڈیز کے ریسرچ اسکالر ڈاکٹر محمد اکرم ندوی کے سفر حج کی روداد ہے۔ مصنف نے دوران حج میں علم حدیث کے بہت سے اساتذہ اور مشائخ سے شرف ملاقات حاصل کیا اور ان سے سند حدیث حاصل کی۔ اس سے قاری علم حدیث کے ساتھ ان کے غیر معمولی شغف کا اندازہ کر سکتا ہے۔ مصنف نے ان اہل علم کے مختصر تعارف کے ساتھ ساتھ ان کی علمی خدمات کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مقامات مقدسہ کی زیارت کے حوالے سے ان کا مختصر تاریخی پس منظر بھی بیان کیا گیاہے۔ یوں یہ سفر نامہ ایک طرف حدیث کے طلبہ کے لیے بڑی افادیت اور دلچسپی کا حامل ہے اور دوسری طرف حرمین شریفین کی پوری تاریخ اس طرح قاری کے سامنے آ جاتی ہے کہ وہ مقامات مقدسہ میں خود کو مصنف کے ساتھ ساتھ محسوس کرتا ہے۔
کتاب کا ٹائٹل دیدہ زیب، کاغذ عمدہ اور کتابت عموماً اغلاط سے پاک ہے اور اسے انجمن خدام الاسلام ، جامعہ حنفیہ قادریہ، باغ بان پورہ، لاہور نے شائع کیا ہے۔
(فضل حمید چترالی۔ شریک ’خصوصی تربیتی کورس‘ الشریعہ اکادمی)