مکاتیب

ادارہ

(۱)

بسم اللہ

بخدمت گرامی منزلت مولانا راشدی صاحب زید مجدہ

محترم مولانا، السلام علیکم

فروری مارچ میں انڈیا رہا۔ واپس آیا تو کچھ وقت گزرنے پر مولانا عیسیٰ صاحب سے پورے نصف درجن الشریعہ کے شمارے ملے۔ ایک پوسٹل رکھ رہا ہوں۔ ڈاک خرچ بہت آتا ہے۔ براہ کرم ڈاک سے بھجوا دیا کریں۔ ہر ماہ ملتا رہے۔ آپ نے ایک نئی طرح ڈالی ہے۔ باعث دلچسپی ہے۔ خدا کرے رفتہ رفتہ یہ تجربہ ایسے نہج میں ڈھل جائے کہ سوچ کی مثبت اور مفید تبدیلی کو راہ ملے۔ آپ کو ما شاء اللہ رفقائے قلم اچھے میسر آ گئے ہیں۔ شاید نئی نہج ہی کی برکت ہے۔ میاں انعام الرحمن صاحب خاص طور سے آپ کا بڑا ساتھ دے رہے ہیں۔ ذرا آپ کے خاص حلقے کی رعایت ان کے یہاں ہو جائے تو بڑا فائدہ ہو سکتا ہے۔

ایک شمارے میں یوگندر سکند صاحب کا مضمون ہے۔ میرے خیال میں ایسے موضوعات پر تو غیر مسلم حضرات کے لیے وسعت قابل نظر ثانی ہے۔ کم از کم ان کے قلم سے تو ملا کو گالی الشریعہ میں نہ چھپے۔ اپنے ہی اس کام کے لیے کیا کم ہیں! اور یہ جو دربار یزید کے اس چیف جسٹس ملا کا ذکر انھوں نے فرمایا ہے جس نے قتل حسینؓ کا فتویٰ دیا تھا، یہ کون بزرگ تھے؟ یہ پتہ نہیں سکند صاحب کی اپنی تحقیق ہے یا مولانا کلب صادق کی؟ کچھ اس پر روشنی پڑ سکے تو اچھا ہے۔

والسلام

نیاز مند

(مولانا) عتیق الرحمن سنبھلی

لندن

(۲)

۲ مارچ ۲۰۰۵

محترم مدیر صاحب ماہنامہ ’الشریعہ‘ گوجرانوالہ

السلام علیکم

آپ کا شمارہ ۲ برائے ماہ فروری ۲۰۰۵ ایک لائبریری میں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس میں مضمون ’’فتنہ انکار سنت‘‘ صفحہ ۲۸ میری توجہ کا مرکز بنا۔ چونکہ ہم سب پر ذمہ داری ہے کہ اسلام کو اس کے صحیح خط وخال میں پیش کریں، اس لیے یہ چند سطریں آپ کی توجہ کے لیے گوش گزار کر رہا ہوں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان پر اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت فرض ہے۔ اس کا قرآن میں متعدد جگہ ذکر ہے۔ اللہ کے احکام تو ہم کو قرآن سے ملتے ہیں اور ان کی تشریح اور تفسیر اور رسول اللہ ﷺ کا قول اور فعل احادیث سے ملتا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ان احادیث کی کتابوں میں بے حد تحریف ہوئی ہے اور یہ اصل حالت میں باقی نہیں ہیں۔ امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کی اصل کتابیں جلا دی گئیں اور معدوم ہیں۔ چنانچہ آج کسی حدیث کی کتاب پر یہ تصدیق نہیں ملتی کہ یہ مطابق اصل کے ہیں۔

صحیح بخاری کی بعض مثالوں سے یہ بات واضح ہوگی:

۱۔ عمر حضرت عائشہؓ کے متعلق بخاری میں درج شدہ حدیث غلط ثابت ہو چکی ہے۔ نہ عہد خلفا میں اور نہ اس کے بعد کسی نے اس سنت پر عمل کرتے ہوئے ۶ سال کی عمر میں کسی لڑکی سے شادی کی۔

۲۔ حدیث قرطاس جس میں حضرت عمرؓ پر بہتان ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو لکھنے نہیں دیا، یہ کسی طرح درست نہیں۔

۳۔ مختصر صحیح بخاری مع ترجمہ انگریزی جو مکتبہ دار السلام ریاض سے شائع ہوئی ہے، جس میں دو ہزار دو سو تیس منتخب احادیث ہیں، اس میں درج ذیل احادیث ملاحظہ کریں:

حدیث نمبر ۱۴۸۲۔ راوی حضرت انسؓ۔ آنحضرت ﷺ دس سال مکہ میں اور دس سال مدینہ میں قیام پذیر رہے۔

حدیث ۱۵۸۰۔ راوی عبد اللہ بن عباس۔ (اسی کتاب میں) آنحضرت صلعم مکہ میں تیرہ سال رہے اور مدینہ میں دس سال۔

لکھنے والوں نے دوبارہ پڑھنے کی زحمت گوارا نہ کی۔

۴۔ وقت واحد میں تین طلاقوں کا بائن ہونا بھی حضرت عمرؓپر تہمت ہے۔ حضرت عمر قرآن کے واضح احکام کے خلاف نہیں جا سکتے تھے۔ اگر سزا کے طور پر حکم کرتے تھے تو وہ علیحدہ بات ہے۔ یہ ہمیشہ کے لیے شریعت کا قانون نہیں بن سکتا۔

دراصل شیعہ حکمرانوں کا جب حکومت پر قبضہ ہوا تو انھوں نے ساری شکل ہی بگاڑ دی اور ہمارے علما آنکھ بند کر کے آج تک اس کی پیروی کر رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی صحیح حدیث اور صحیح حکم سر آنکھوں پر، اس کی اطاعت ضروری ہے، لہٰذا اب علما کاکام ہے کہ صحیح احادیث کو الگ کریں اور اپنے دستخط سے اس کو جاری کریں۔ موجودہ حالت میں یہ نہ قابل تقلید ہے اور نہ قابل قبول۔ اس کو اصح الکتب بعد از قرآن کا درجہ دے کر اپنی من مانی احادیث شامل کر دی گئی ہیں۔

یہ بھی آپ دیکھیں کہ آنحضرت نے آخری حج کے موقع پر لاکھوں مسلمانوں کے سامنے جو خطبات دیے، ان کا ان دو ہزار دو سو تیس احادیث میں کہیں ذکر نہیں ۔ کیا وہ اس قابل نہیں؟

امید ہے کہ جواب سے سرفراز فرمایا جائے گا۔

والسلام

احقر سید مصلح الدین احمد

417/3 بہادر آباد

کراچی 74800

(۳)

محترمی جناب حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب زید مجدہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر وعافیت ہوں گے۔

’’الشریعہ‘‘ میں آپ کے مضامین پڑھ کر نہایت خوشی محسوس ہوتی ہے۔ سب کے دلوں کی ترجمانی آپ کے قلم کی زبانی بخوبی ہو جاتی ہے۔ اس پر فتن دور میں آپ قلم کے ذریعے جو خدمت انجام دے رہے ہیں، وہ بہت اہم ہے اور ہمارے علماء کی توجہ بھی اس طرف بہت کم ہے۔ 

الشریعہ اکادمی کے حالات اس کے ترجمان کے ذریعے سے معلوم ہو جاتے ہیں۔ مارچ کے شمارے میں ڈاکٹر محمود غازی صاحب کا الشریعہ اکادمی میں دیا گیا لیکچر پڑھا، جو کہ بہت ہی معلومات افزا ہے۔ ایسی چیزیں وقتاً فوقتاً طبع ہونی چاہییں۔

والسلام

محمد عمر انور

استاذ جامعہ علوم اسلامیہ

علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

مکاتیب

(جون ۲۰۰۵ء)

تلاش

Flag Counter