چارلس ڈارون (۱۸۸۲۔۱۸۰۹) کو مغرب کی مادہ پرست فکر اور تحریک الحاد کا نمائندہ مفکر قرار دیا جا سکتا ہے۔ ڈارون نے اگرچہ ابتدائی عمر میں طب اور دینیات کی تعلیم حاصل کی تاہم اسے حیوانات اور نباتات کے مشاہدہ اور ان کی شکل وساخت کے تغیرات معلوم کرنے اور ان کی توجیہات پر غور کرنے کا بہت لپکا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کے پانچ نہایت قیمتی سال بحری سفر میں صرف کیے۔ یہ سفر دراصل ڈارون کے لیے حیوانات اور مظاہر فطرت کا ایک مطالعاتی سفر تھا۔ اس سفر کے مشاہدات نے ڈارون کے فلسفہ ارتقا کے لیے خشت اول کا کردار ادا کیا۔ مظاہر فطرت کے اندر تغیرات اور مماثلتوں کے مشاہدہ نے اس کے ذہن میں کئی ایک سوالات پیدا کیے جس کے نتیجے میں اس کے دماغ میں مختلف انواع کے درمیان ایک منطقی ربط اور تسلسل کا خیال پیدا ہوا۔ یہ گویا ڈارون کے تصور ارتقا کا ابتدائی مبہم خاکہ تھا۔
ڈارون کا فلسفہ ارتقا پہلی مرتبہ جامع صورت میں اس کی کتاب ’’مبدا حیات بوسیلہ قدرتی انتخاب‘‘ (On the Origin of Species by Means of Natural Selection) میں منظر عام پر آیا۔ یہ کتاب ۱۸۵۹ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب نے فکری دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ ڈارون نے کہا کہ ہر جاندار کے جسم اور شکل وساخت میں مسلسل خفیف تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں اور ایک طویل مدت کے بعد ان تبدیلیوں کے جمع ہونے سے ایک نیا جاندار وجود میں آ جاتا ہے۔ اگر اس جاندار کی نسل جسمانی بناوٹ کے لحاظ سے جہد للبقا (Struggle for existence) کے دوران میں اپنے ماحول کی مشکلات کے ساتھ کامیاب مقابلہ کر سکے تو وہ زندہ رہتی ہے ورنہ مٹ جاتی ہے۔ زندگی اپنے ظہور کے بعد مسلسل ارتقا پذیر ہے اور اسی وجہ سے مختلف انواع کے وجود بنتے اور مٹتے رہتے ہیں۔ روئے زمین پر نوع بشر کا ظہور بھی ارتقا کے اسی قاعدے کا نتیجہ ہے۔
"As Natural selection acts solely by the preservation of profitable modifications, each new form will tend in a fully-stocked country to take the place of, and finally to exterminate, its own less improved parent form and other less favoured forms with which it comes into competition. Thus extinction and natural selection go hand in hand." 1
ڈارون کے تصور ارتقا میں انتخاب طبعی (Natural Selection) اور تنازع للبقا (Struggle for existence) دو اہم پہلو ہیں۔ ڈارون کے خیال میں وقت اور ماحول کے مطابق اپنے آپ کو جلد از جلد ڈھال لینے کا عمل انواع کی نہ صرف بقا بلکہ دیگر انواع پر حکمرانی اور تغلب کا باعث بھی بنتا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا آف فلاسفی میں درج ہے:
"Some variations provide the organisms with an advantage over the rest of the population in the struggle for existence." 2
ایسی انواع جو تنازع للبقا کے دوران میں بہتر حکمت عملی کی بدولت اپنے نظام اور ساخت حیات میں ایسے تیز رفتار تغیرات کے عمل سے گزرتی ہیں جو انھیں دیگر انواع سے یکسر مختلف (Distinct) کر دے، وہ انتخاب طبعی کے عمل میں بھی سرخرو رہتی ہیں۔ انتخاب طبعی کا عمل کیا ہے؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈارون کہتا ہے کہ انواع کے اندر غیر محدود طور پر بڑھنے، ترقی کرنے اور اپنی نسل میں اضافہ کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے جس سے آبادی میں بے حد اضافہ ہو جاتا ہے، لیکن وسائل حیات نہیں بڑھتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قدرتی آفات مثلاً بیماری، وبا، جنگ، قحط، زلزلہ اور موت کی دیگر صورتوں سے انواع اور وسائل حیات میں توازن قائم ہوتا ہے۔ ڈارون کا خیال ہے کہ اس طریقے سے قدرت صرف ان انواع کا انتخاب کرتی ہے اور صرف انھیں زندہ رہنے کا حق دیتی ہے جو کسی لحاظ سے دیگر انواع سے بہتر ہوں اور جنھوں نے تنازع للبقا کے عمل میں ماحول کے ساتھ موافقت کرتے ہوئے اپنے آپ کو تغیرات کے عمل سے گزار کر ارتقا کے اگلے مراحل میں قدم رکھ لیا ہو۔ (۳) ڈارون لکھتا ہے:
Every being, which during its natural lifetime produces several eggs or seeds, must suffer destruction during some period of its life, and during some season or occasional year, otherwise, on the principle of geometrical increase, its number would quickly become so inordinately great that no country could support the product. Hence, as more individuals are produced than can possibly survive, there must in every case be a struggle for existence, either one individual with another of the same species, or with the individuals of distinct species or with the physical conditions of life." 4
آگے چل کر ڈارون زیادہ واضح انداز میں رقم طراز ہے:
"There is no exception to the rule that every organic being naturally increases at so high a rate that, if not destroyed, the earth would soon be covered by the progeny of a single pair." 5
چارلس ڈارون چونکہ میکانکی اور مادی نقطہ نظر کا حامل تھا، اس لیے ابتداے حیات کے سوال کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں اور وہ اسے ایک ناقابل حل معما اور انسان کے حیطہ عقل سے ماورا مسئلہ قرار دیتا ہے۔ اسے اس بات کا پختہ یقین تھا کہ انواع کے حیاتیاتی ارتقا میں کسی مافوق الفطرت ہستی یا قوت کا عمل دخل نہیں۔ ہیرلڈ ہونڈنگ لکھتا ہے:
’’اگر مادیت سے محض یہ مراد لی جائے کہ یہ فوق الفطرت مداخلت کو برطرف کر کے مظاہر کو فطری طور پر معین فطری قوانین میں تحویل کرنے کا نام ہے تو ڈارون یقیناًمادیتی تھا۔ اس کا نظریہ یہ ہے کہ جانداروں کی صورتیں مکمل طور پر خدا کے تصور میں نہیں تھیں۔ یہ شکلیں نہایت ادنیٰ شروعات سے اور ماحول کے مسلسل اثرات سے طویل عمل ارتقا کے بعد بنی ہیں۔‘‘ (۶)
مختصر یہ کہ ڈارون کے نزدیک کائنات کی حیثیت ایک مشین کی سی ہے جس میں مظاہر اور انواع، مشین کے پرزوں کی صورت میں میکانکی انداز میں کام کرتے ہوئے اور مقررہ قوانین کے تحت چلتے ہیں۔ زندگی اپنے ادنیٰ ترین مراحل سے انسانی سطح کے اعلیٰ ترین مرحلے تک انھی معین قوانین اور میکانکی عمل کے نتیجے میں پہنچی ہے۔
اقبال کی فکرکا بنیادی نکتہ اس کا فلسفہ خودی تصور کیا جاتا ہے، تاہم اگر بنظر عمیق دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کی فکر پر اول تا آخر فلسفہ ارتقا کی چھاپ ہے، یہاں تک کہ تصور خودی بھی اسی بنیادی اور بڑے فلسفے کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے۔ (۷)
اقبال اور ڈارون کا ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک تمام مادہ کی حقیقت روحانی ہے۔ ’’کائنات میں جذبہ الوہیت جاری وساری ہے۔‘‘ (۸) مادہ کو اس کی روحانی حقیقت سے الگ رکھ کر دیکھا اور پرکھا نہیں جا سکتا جبکہ ڈارون کی کمزوری یہ ہے کہ اس کی نظر کائنات کے صرف مادی پہلو پر ہے جیسے کہ ڈارون کے متعلق پروفیسر سی۔ ای۔ ایم جوڈ رقم طراز ہیں کہ ’’ڈارون کاپیش کردہ عمل ارتقا ارتقاے حیات کا ایسا عمل ہے جسے خالصتاً فطری قوتوں کی کارفرمائی کا ماحصل سمجھنا چاہیے۔‘‘ (۹) چنانچہ مغربی فلسفہ ارتقا میں ڈارون مادیت پرست اور میکانکی طرز فکر کا سب سے بڑا نمائندہ مفکر بن کر سامنے آتا ہے۔ اس کا یہ خیال ہے کہ تمام مظاہر فطرت میکانکی نوعیت کے حامل قوانین قدرت کے پابند اور اسیر ہیں۔ خدا کے وجود کو فرض کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہاں تک کہ حیات اور اس کے تمام ارتقائی مراحل بھی طبعی اور کیمیائی طاقتوں کے اندھا دھند عمل سے انجام پاتے ہیں۔ گویا اقبال کے الفاظ میں:
"The concept of mechanism, a purely physical concept, claimed to be the all embracing explanation of nature." 10
لیکن اقبال کے خیال میں مظاہر فطرت کی توضیح کے لیے محض میکانکی نقطہ نظر کافی اور تسلی بخش نہیں کیونکہ میکانکی انداز فکر نہ صرف یہ کہ نامکمل معلومات فراہم کرتا ہے بلکہ مظاہر کے باہمی ربط وتعلق کی نوعیت پر روشنی نہیں ڈالتا۔ اقبال رقم طراز ہیں:
"Natural science is by nature sectional; it can not, if it is true to its own nature and function, set up its theory as a complete view of Reality." 11
ڈارون کی مادیت پرست سوچ نہ صرف مظاہر فطرت کو میکانکی قوانین کا اسیر دیکھتی ہے بلکہ حیاتیاتی مظاہر کو بھی میکانکی قوانین کی قلم رو میں شامل کر کے تمام حیاتیاتی ارتقائی مراحل کو فطرت کے اندھا دھند عمل کا حاصل قرار دیتی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ڈارون کے تصور ارتقا میں حیات ارتقائی مراحل طے کرنے کے باوجود ان ماقبل ارتقائی مراحل کی قوتوں کے رحم وکرم پر ہے جنھیں وہ تنازع للبقا کے عمل میں پیچھے چھوڑ آئی ہے۔ اس طرح ڈارون حیات کی آزادہ روی اور تخلیقی رو کا گلہ دبا کر رکھ دیتا ہے کیونکہ اقبال کے بقول:
"In fact all creative activity is free activity. Creation is opposed to repetition which is a characteristic of mechanical action." 12
اقبال کی نظر میں مادہ درحقیقت حیات کی ادنیٰ درجے کی خودیوں کی بستی کا نام ہے۔ ان خودیوں کے مسلسل ارتباط، اتصال، عمل اور رد عمل سے باہمی یگانگت کا ایک ایسا مقام آ جاتا ہے کہ جہاں سے ایک ایسی اعلیٰ درجے کی خودی کا صدور ہو کہ جو احساس وادراک کی حامل ہو۔ اقبال لکھتے ہیں:
"Suffice it to indicate that even if the body takes the initiative, the mind does enter as a consenting factor at a definite stage in the development of motion." 13
چونکہ ابتدا میں اشیا میں خودی کا احساس پست درجے کا ہوتا ہے، اس لیے جسم پر میکانکی قوانین کی عمل داری زیادہ نظر آتی ہے۔ تاہم خودی کے احساس وادراک کا رجحان مسلسل ترقی پذیر رہتا ہے، یہاں تک کہ خودی مراحل ارتقا طے کرتے کرتے ارتفاع کے اس درجے پر فائز ہو جاتی ہے جہاں وہ بدن اور مادے کی غلامی سے مکمل طور پر آزادی حاصل کر لیتی ہے۔ اقبال رقم طراز ہیں:
"The evolution of life shows that though in the beginning the mental is dominated by the physical, the mental -- as it grows in power -- tends to dominate the physical and may eventually rise to a position of complete independence." 14
دراصل ڈارون اس حقیقت کو نہ سمجھ سکا کہ حیات، ارتقا کے سفر میں تدریجی مراحل سے گزرتی ہوئی ہر مرحلے کی صفات وخصوصیات کو اپنے اندر سمو کر ایک نئی اور بے چگوں کلیت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اقبال کے بقول:
"The movement of life as an organic growth involves a progressive synthesis of its various stages." 15
اقبال کے خیال میں زندگی میکانگی نقطہ نظر سے توضیح کرنے والے ماہرین حیاتیات کا مطالعہ ومشاہدہ حیات کی صرف ایسی ادنیٰ صور واشکال تک محدود ہے جن کے طرز عمل میں کسی حد تک میکانکیت سے مشابہت ہے، لیکن اگر وہ خود اپنی ذات اور اس کے اندر مچلتے ہوئے احساسات، تحریکات، جذبات اور ماضی وحال سے مستقبل کی طرف ابھار اور حرکت کے رجحان پر غور کریں تو انھیں یقیناًحیات کے میکانکی تصور سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ گویا حیات کے اندر آئندہ مراحل میں جو تبدیلیاں بھی واقع ہوتی ہیں، وہ اس کی اپنی آغوش سے جنم لیتی ہیں اور اس پر کوئی خارجی میکانکی جبریت عمل پیرا نہیں ہوتی۔ فکر کا یہی وہ مقام ہے کہ جہاں اقبال حیات کے اندر ارتقا کی لگن کو مقصد کے ساتھ وابستہ کر کے اسے میکانکیت کی حدود سے باہر لے آتا ہے اور لکھتا ہے:
"The action of living organisms, initiated and planned in view of an end, is totally different to causal action." 16
اقبال ڈارون کے اس خیال سے تو متفق ہیں کہ انواع کے اندر غیر محدود طور پر بڑھنے اور اپنی نسل میں اضافہ کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ انواع کا تحرک اور کثرت آفات قدرت کو دعوت دینے کاباعث بنتا ہے۔ اقبال
غنچہ ہے اگر گل ہو، گل ہے تو گلستاں ہے (۱۷)
اور
یمے تعمیر کن از شبنم خویش (۱۸)
کا مشورہ دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک کائنات کا ذرہ ذرہ سوئے منزل دوست گامزن ہے اور ارتقا کی منازل طے کر رہا ہے۔ اقبال کے ہاں ارتقا ادنیٰ درجات حقیقت سے اعلیٰ درجات حقیقت کی طرف سفر کا نام ہے اور یہ سفر خارجی عوامل کے سفاکانہ عمل سے نہیں، بلکہ انواع کی اندرونی لگن اور تسلسل عمل سے انجام پاتا ہے، چنانچہ اقبال ڈارون کے اس خیال کو درست نہیں سمجھتے کہ آفات قدرت ارتقا کے رخ کو متعین کرنے میں کوئی کردار ادا کرتی ہیں کیونکہ اگر اس نقطہ نظر کو قبول کر لیا جائے تو مراحل ارتقا میں حرکت وعمل اور جدوجہد کے تصور کی نفی ہو جاتی ہے اور ارتقا کا عمل محض آفات قدرت کا محتاج نظر آنے لگتا ہے۔ علاوہ ازیں ارتقا ایک ایسا اتفاقی اور حادثاتی عمل بن کر رہ جاتا ہے جس میں نہ عضویہ کی مرضی اور خواہش کو دخل حاصل ہے اور نہ کسی لگن، مقصد اور آرزو کو۔ یوں عضویہ کے جسم میں تمام تبدیلیاں خارجی عوامل کی مرہون منت ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ ڈارون کے نظری ارتقائی دھارے کے مطابق کسی عضویہ کے لیے ارتقا کے اگلے مرحلے میں داخل ہونے سے پہلے بڑے سکون اور صبر سے کسی ناگہانی آفت یا بلا کا انتظار اس کا مقدر ہے۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین اپنے ایک انگریزی مضمون میں لکھتے ہیں:
"Darwin is a terrible shock to man's justified conviction of his own dignity over the rest of creation, which he thinks he enjoys by virtue of the nobility of his mind and spirit and the sanctity of his reason and free will. For the implications of his theory are that the whole of his wonderful world of life is nothing but the blind and fortuitous play of the reckless forces of nature-----this position is, of course, completely antagonistic to that of Iqbal." 19
ڈارون کے نزدیک چونکہ ماحول ایک تغیر پذیر عامل ہے، اس لیے حالات اور ماحول کے مطابق انواع کی مطابقت کی خواہش، تحول اور جدوجہد ارتقا کا باعث ہے۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ نئے حالات اور جدید تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا، زمانے کی نبض پر ہاتھ رکھنا اور آئین نو کا ساتھ دینا افراد اور اقوام کی زندگی میں بہت اہم ہے اور وہی افراد اور اقوام ترقی، کامیابی اور ارتقا حاصل کرتی ہیں جو جمود اور سکوت کا شکار رہنے کے بجائے وقت اور حالات پر گہری نظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو ان کے مطابق ڈھال لیتی ہیں، تاہم اقبال کے نزدیک افراد اور اقوام کی کامیابی اور ارتقا وقت اور حالات کی اندھا دھند تقلید سے ہی مشروط نہیں، بلکہ ان کے ہاں بقول اکبر الٰہ آبادی:
مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں (۲۰)
کے فلسفے کی زیادہ اہمیت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال انسان کو مظاہر فطرت کے سامنے جھکانا نہیں چاہتا، بلکہ وہ مظاہر فطرت پر انسان کے دست تسخیر کو قائم اور مستحکم دیکھنے کا متمنی ہے۔ انسان کے لیے قوانین فطرت کا اسیر ہونا شایان شان نہیں، بلکہ قوانین فطرت، وقت اور حالات کو اپنے دست تصرف میں لانا، انھیں اپنی آرزووں اور گہری تمناؤں کے مطابق ڈھالنا، اپنی دنیا آپ پیدا کرنا، نئی بستیاں بسانا اور راہوار وقت کی لگام کو ہاتھ میں لے کر اپنے آدرش کے مطابق موڑنا اور پھیرنا اصل کامیابی اور ارتقا کی علامت ہے۔ اقبال رقم طراز ہیں:
"It is the lot of man to share in the deeper aspirations of the universe around him and to shape his own destiny as well as that of the universe now by adjusting himself to its forces, now by putting the whole of his energy to mould its forces to his own ends and purposes." 21
گفتند جہان ما آیا بتو می سازد؟
گفتم کہ نمی سازد، گفتند کہ برہم زن ۲۲
ڈارون کے برعکس اقبال کے نزدیک عالم رنگ وبو میں اپنے آپ کو کھو دینے، گم کر دینے یا محض موافقت پیدا کرنے میں ہی کمال حیات یا ارتقا مضمر نہیں بلکہ باطنی امکانات کی زیادہ سے زیادہ تسخیر سے اپنے اندر ایسی قابلیت اور صلاحیت کو نشوو نما دینا وہ کارنامہ ہے جس سے انسان اس ’’بت خانہ شش جہات‘‘ پر نہ صرف تغلب اور تسلط حاصل کر پاتا ہے` بلکہ اس کی اپنی مرضی کے مطابق تراش کرتے ہوئے ارتقا حاصل کرتا ہے۔
مہر ومہ وانجم کا محاسب ہے قلندر
ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر ۲۳
اقبال کے تصور ارتقا کے اس پہلو کی بہترین تفسیر ڈاکٹر اے۔ ریہل (Dr. A. Riehl) کے درج ذیل اقتباس سے ہوتی ہے:
"The animal can adopt its actions to the changed conditions of its environments and from this power of adaptation, we first have reason to conclude that it possesses intelligence. Man on the other hand, can change the conditions about him and adopt them to his mind. He knows how to call forth independently new conditions which correspond to his purpose. He creates tools for himself, and changes the external world by his work. He fills and changes the surface of his plannet with the products of his industry and skill; and his practical understanding shows its superiority to mere adaptation by its power of initative, his theoretical understanding shows its superiority by its power to arrange the perceptions it receives according to the concepts of his thought." 24
اس میں شک نہیں کہ اقبال نے مذہب، فلسفہ، سیاست اور سائنس، ہر میدان میں حکمائے مغرب کی فکر ونظر کا گہرا مطالعہ کیا اور جہاں جو خوبی نظر آئی، اسے قبول کیا، تاہم انھوں نے یکسرمادی اور الحادی نظریات پر بھرپور تنقید بھی کی اور انھیں انسانیت کے لیے گمراہ کن قرار دیا۔ اقبال اور ڈارون کا بنیادی فرق یہ ہے کہ اقبال کے فکر کی اساس دینی وروحانی ہے جبکہ ڈارون کی مادی وعنصری فکری روش اس روحانی سہارے سے محروم ہے۔ اقبال کا تصور ارتقا مغربی طرز فکر کی غلامانہ پیروی کا ماحصل نہیں۔ وہ ارتقا کے ضرور قائل ہیں اور اس لحاظ سے وہ ڈارون کے ہم نوا بھی نظر آتے ہیں، تاہم انھیں ارتقا کا وہی تصور دل پذیر ہے جس کی تعلیم قرآن پاک دیتا ہے۔
------------------
’الشریعہ‘ کے اکتوبر ۲۰۰۵ کے شمارے میں میرے ایک فاضل دوست پروفیسر میاں انعام الرحمن نے راقم کے ایک مضمون بعنوان ’’انسان کا حیاتیاتی ارتقا اور قرآن‘‘ (الشریعہ ستمبر ۲۰۰۵) پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ڈاکٹر آصف صاحب نے زیر بحث مضمون میں اقبال کے تصور ارتقا کو اگرچہ براہ راست ڈسکس نہیں کیا، لیکن ان کی تحریر کے پس منظر کی بافت وبنت اس تصور سے ہی ہوئی ہے۔‘‘ (ص ۳۴)
پھر میاں صاحب اقبال کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اقبال نے جہاں جمود زدہ مسلم فکر میں حرکت پیدا کر کے مسلم معاشرے کی مردہ رگوں میں زندگی کی لہر دوڑا دی، وہاں نطشے اور ڈارون کے افکار کی اسلامی تعلیمات سے تطبیق کی کوشش میں مسلم معاشرے کی روایتی فکر کو بری طرح مجروح کیا۔‘‘ (ص ۳۴)
قارئین محترم نے درج بالا سطور میں ڈارون اور اقبال کے تصور ارتقا کا تقابل ملاحظہ فرمایا ہے۔ چنانچہ اب قارئین بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اقبال نے ڈارون کے تصور ارتقا کو کس حد تک سراہا ہے اور آیا اقبال نے ڈارون کے تصور کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ تطبیق دینے کی کوشش کی ہے یا اس کے بہت سے اجزا کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا ہے۔ ان شاء اللہ جلد ہی نطشے اور اقبال کے حوالے سے بھی ایک مضمون پیش کروں گا جس سے یہ بات بھی واضح ہو جائے گی کہ اقبال مغربی مفکر نطشے یا اس کے خیالی کردار ’’مافوق البشر‘‘ کے متعلق کیا رائے رکھتے تھے۔
------------------
حوالہ جات
۱۔
Darwin, Charles, "The Origin of Species, by Means of Natural Selection", William Benton Publishers, Chicago:1987, p.80
۲۔
Edwards, Pual, (Ed) et.el., "The Encyclopedia of Philosophy", vol.3 & 4, Collier Macmillan Publishers, London: 1972, p.297
۳۔ ڈارون نے انتخاب طبعی کا یہ تصور مالتھس (Robert Malthus) کے نظریہ آبادی سے لیا اور اسے حیوانات کی دنیا پر چسپاں کر دیا۔
۴۔
Darwin, Charles, "The Origin of Species, by Means of Natural Selection", p.33
۵۔ As above
۶۔ ہیرلڈ ہونڈنگ، ڈاکٹر، ’’تاریخ فلسفہ جدید‘‘ (جلد دوم)، ترجمہ: خلیفہ عبد الحکیم، نفیس اکیڈمی کراچی:۱۹۸۷، ص ۵۳۱
۷۔ اقبال نے ’’اسرار خودی‘‘ میں ارتقاے خودی کے تین مراحل بیان کیے۔ مرحلہ اول اطاعت، مرحلہ دوم ضبط نفس اور مرحلہ سوم نیابت الٰہی۔
۸۔ محمد اقبال، ’’اقبال نامہ‘‘ (حصہ اول)، شیخ محمد اشرف لاہور، سن ندارد، ص ۴۵۹
۹۔ جوڈ، سی ای، ایم۔ ’’افکار حاضرہ‘‘، ترجمہ: محمد بن علی باوہاب، مجلس ترقی ادب لاہور: ۱۹۶۶، ص ۳۵
۱۰۔
Muhammad Iqbal, "The Reconstruction of Religious Thought in Islam", Sh. Muhammad Ashraf, Lahore: 1965, p. 41
۱۱۔ Ibid, 42
۱۲۔ Ibid
۱۳۔
Muhammad Iqbal, "The Secrets of the Self", translated by Reynold A. Nicholson, Sh. Muhammad Ashraf, Lahore: 1975, p.XIX
۱۴۔
Muhammad Iqbal, "The Reconstruction of Religious Thought in Islam", p. 106
۱۵۔ Ibid, p.56
۱۶۔ Ibid, p.42
۱۷۔ بانگ درا، ص ۲۸۰
۱۸۔ پیام مشرق، ص ۶۶
۱۹۔
Muhammad Rafiuddin, Dr., "Iqbal's Concept of Evolution", essay included in "Iqbal Review", Ed. Dr. Rafiuddin, vol. 1, April 1960, No. 1, Karachi, p. 39
۲۰۔ اکبر الٰہ آبادی، ’’کلیات اکبر‘‘، پنجاب پبلشرز، کراچی: سن ندارد، ص ۳۸
۲۱۔
Muhammad Iqbal, "The Reconstruction of Religious Thought in Islam", p.12
۲۲۔ زبور عجم، ص ۷۵
۲۳۔ ضرب کلیم ص ۴۱
۲۴۔