حکومت ڈیموکریٹس کی ہو یا ری پبلکن پارٹی کی، بعض اساسی اصول ایسے ہیں جن پر دونوں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے، لیکن حالیہ چند برسوں کے دوران بش انتظامیہ نے چند ایسی پالیسیاں اپنائیں جنھیں ان اساسی اصولوں کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ میں ان پالیسیوں پر حد درجہ فکر مند ہوں۔ ان میں وہ پالیسیاں بھی شامل ہیں جن پر ہم عالمی امن، عالمی اقتصادی ترقی، عالمی سطح پر سماجی انصاف، شہری آزادیوں اور بنیادی حقوق کے حصول اور آب وہوا میں آلودگی کی مقدار کو ممکنہ حد تک کم کرنے کے لیے عمل پیرا ہیں۔
ہمارے تاریخی اوصاف ہیں کہ ہم اپنے شہریوں کو درست معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ہم اختلاف رائے اور اختلافی عقائد کو عزت واحترام کے ساتھ برداشت کرتے ہیں۔ ہم نے ریاستوں اور مقامی حکومتوں کو (جائز حد تک) خود مختاری دے رکھی ہے اور مالیاتی ذمہ داریاں بھی وفاق ہی کے کندھوں پر ہوتی ہیں، لیکن اندریں حالات یہ تاریخی اوصاف خطرے سے دوچار ہیں۔
(یہ امر افسوس ناک ہے کہ) ہمارے سیاسی رہنماؤں نے یک طرفہ طور پر بین الاقوامی تنظیموں اور دیرینہ عالمی معاہدوں کی پابندیوں سے آزادی کا اعلان کر دیا ہے۔ ان میں وہ تمام معاہدے شامل ہیں جو ایٹمی اسلحے اور جراثیمی وحیاتیاتی ہتھیاروں کے ضمن میں طے ہوئے یا جو عالمی نظام انصاف کے بارے میں تھے۔
جب تک ہماری ملکی سلامتی کو (براہ راست) کوئی خطرہ لاحق نہ ہو، امن ہماری قومی ترجیحات میں سرفہرست ہے لیکن ہم اپنی اس روایت کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔ ہم نے ’’قبل از وقت‘‘ حملے کی پالیسی اپنا لی ہے۔ کسی ناپسندیدہ حکومت کو بدلنا مقصود ہو یاکوئی اور مقصد پیش نظر ہو، یک طرفہ اقدام کو ہم نے اپنا استحقاق سمجھ لیا ہے۔ جب کسی ملک کے ساتھ ہمارے اختلافات کی نوعیت سنگین ہو جاتی ہے تو ہم اسے ’’عالمی اچھوت‘‘ قرار دے کر اس کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے انکار کر دیتے ہیں۔
ہمارے چوٹی کے رہنماؤں کی شدید کوشش ہے کہ ساری دنیا پر امریکی سامراجیت مسلط کر دی جائے۔انھیں کوئی پروا نہیں کہ اس خواہش یا کوشش کی کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ یہ انقلابی پالیسیاں ان لوگوں کی تشکیل کردہ ہیں جن کی خواہش ہے کہ ہماری بے پناہ قوت اور ہمارے اثر ونفوذ کی راہ میں عالمی سطح پر کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ ایک طرف ہماری فوج مصروف جنگ ہے اور دوسری طرف ہمیں مزید دہشت گرد حملوں کے خطرات لاحق ہیں۔ پھر بھی ہم یہی کہہ رہے ہیں کہ ’’یا تو ہمارا ساتھ دو یا ہم تمھیں اپنا مخالف سمجھیں گے۔‘‘ ہم نے کسی کے لیے کوئی تیسرا راستہ رہنے ہی نہیں دیا۔ وہ دن گئے جب بین الممالک اتحاد کی بنیاد باہمی افہام وتفہیم کو یا مشترکہ مفاد کو پیش نظر رکھا جاتا تھا اور یا پھر دہشت گردی کے خطرے کو دو یا دو سے زیادہ ممالک مشترکہ خطرہ خیال کرتے تھے۔
ایک اور امر بھی خاصا پریشان کن ہے۔ قومی بحران کے اس دور میں ہمارا انحصار انھی گنے چنے مرد وزن پر ہے جنھیں لڑنے کے لیے عراقی دلدل میں بار بار دھکیلا جا رہا ہے۔ ہماری باقی ماندہ قوم سے کسی ایثار کا مطالبہ یا درخواست نہیں کی جا رہی، بلکہ ممکنہ حد تک ان سے حقائق چھپائے جا رہے ہیں اور ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے کہ امریکی عوام کو مرنے والے امریکی فوجیوں کی اصل تعداد کا علم نہ ہو سکے۔
بجائے اس امر کے کہ ہم بنیادی انسانی حقوق کے علم بردار اور چیمپین کا کردار ادا کرتے، ’’قانون حب الوطنی‘‘ (Patrio Act) کی بعض انتہا پسندانہ شقوں نے ہماری شہری آزادیوں اور نجی زندگی کے حقوق کو سلب کر لیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ امریکہ نے ’’جنیوا سمجھوتوں‘‘ کو پس پشت ڈال کر عراق، افغانستان اور گوانتانامو بے میں تشدد کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ مختلف ملکوں کی جو حکومتیں امریکہ کی حامی ہیں، ان سے بھی ان کے عوام پر تشدد کرایا جا رہا ہے۔ صدر اور نائب صدر مصر ہیں کہ سی آئی اے کو فری ہینڈ دے دیا جائے۔ اسے اجازت بخش دی جائے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ انتہائی متشدد، شرمناک، غیر انسانی اور توہین آمیز سلوک کر سکے جو امریکی حراست میں ہیں۔
چاہیے تو یہ تھا کہ ایٹمی اسلحے پر ہم اپنا انحصار (بتدریج) کم کر دیتے۔ ایٹمی پھیلاؤ کی راہ میں رکاوٹ بنتے، لیکن ہم تو ایٹمی اسلحے کے وسیع تر ذخائر کو برقرار رکھنے کا حق مانگ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسرے ملکوں کو بھی یہ حق حاصل رہے۔ گزشتہ نصف صدی کے دوران تخفیف اسلحہ کے ضمن میں جتنے عالمی معاہدے طے پائے، ہم چاہتے ہیں کہ انھیں بیک جنبش قلم منسوخ کر دیا جائے یا ان کی صریحاً خلاف ورزی کی جائے۔ ہم اب عالمی سطح پر ایٹمی پھیلاؤ کے ’’بڑے مجرم‘‘ بن چکے ہیں۔ غیر ایٹمی ممالک پر ایٹمی حملے میں پہل پر جو پابندی عائد تھی، امریکہ اس کو بھی ترک کر چکا ہے۔ ماضی میں خلا میں اسلحے کی تنصیب کو ناپسندیدہ قرار دے دیا گیا تھا، تاہم امریکہ اس پریکٹس کی تجدید کا ارادہ رکھتا ہے۔
حکومت امریکہ تیل کے صنعت کاروں اور دیگر طاقتور لابیوں کے سیاسی دباؤ کے سامنے بے بس ہو چکی ہے۔ ہماری آب وہوا اور فضا کو آلودگیوں کے خلاف جوتحفظ میسر تھا، وہ تنزل پذیر ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں سے ہمارا آلودگی کا تناسب جانچنے کا معیار مسلسل گر رہا ہے اور آب وہوا کے حوالے سے ہماری عالمی پالیسیاں عالمی سطح پر شدید تنقید کی زد میں ہیں۔
ہماری حکومت اپنی مالیاتی ذمہ داریوں کو نبھانے سے بھی قاصر رہی ہے۔ امرا کو بے پناہ مراعات دینے کے ساتھ ساتھ امریکہ کی ورکنگ کلاس کو کاملاً نظر انداز کر دیا گیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ امریکی کانگریس کے ارکان نے اپنی تنخواہوں میں ۳۰ ہزار ڈالر فی کس سالانہ اضافے کی منظوری دے دی ہے۔
عبادت گاہوں کے اندر اور حکومت میں مذہبی بنیاد پرستی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ مذہب اور ریاست بڑی تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ ماضی میں یہ صورت حال ناقابل تصور تھی۔
دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کے ناتے امریکہ کو چاہیے تھا کہ وہ امن، آزادی اور انسانی حقوق کا انتہائی ثابت قدم علم بردار نظر آتا۔ عالمی امن کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے اقوام عالم ہمارے گرد جمع ہو جاتیں۔ ہم ان کی توجہ کا مرکز بن جاتے۔ دوسرے ممالک ہماری عمومی آب وہوا کو معیار مان کر ہماری تقلید کرتے اور ہم ضرورت مند انسانیت کی خدمت میں پیش پیش ہوتے۔
ہمارے ملک میں پائی جانے والی گہری اور تشویش ناک سیاسی تقسیم کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے کے لیے یہ وقت انتہائی مناسب اور موزوں ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی ان تاریخی، سیاسی اور اخلاقی اقدار کی تجدید اور نشاۃ ثانیہ کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں جن کی ہم گزشتہ ۲۳۰ برس مسلسل آب یاری کرتے رہے۔
(بشکریہ روزنامہ پاکستان لاہور)