مغربی تہذیب کے غلبے کے نتیجے میں جب اہل مغرب نے مسلمان ممالک پر قبضہ کر لیا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اس وقت تک جو صورت حال ہے کہ مغربی استعمار بظاہر مسلم ممالک سے نکل گیا ہے لیکن اپنا تہذیبی، تعلیمی، سیاسی اور معاشی تسلط بہرحال اس نے مسلم دنیا پر قائم کر رکھا ہے، مغرب کے اس عمل کے نتیجے میں مسلم معاشرے سے جو رد عمل ابھرا، اسے ہم تین دائروں یا حلقوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک روایتی دینی حلقہ جس نے اس ہمہ جہت تہذیبی حملے کی بھرپور مزاحمت کی اور شکست کے بعد عافیت اس میں جانی کہ اپنے نظریات پر سختی سے قائم رہے اور مغرب سے استفادہ کرے نہ مفاہمت۔ دوسرے وہ حلقہ جو فکری مرعوبیت کا شکار ہو گیا اور اس نے مغربی تہذیب اور اس کے اصولوں کی ’’بڑائی‘‘ کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور وہ اس چیز کا علم بردار بن گیا کہ اپنے نظام فکر وعمل کو بدل کر اسے اس نئی اور غالب تہذیب سے ہم آہنگ کر دے۔ اور تیسرے وہ معتدل مزاج حلقہ جس نے مغرب کے اس فکری چیلنج کی اہمیت کو محسوس کیا اور اپنی اساس سے جڑے رہ کر اپنے نظام فکر وعمل کی کمزوریوں کو دور کرنے اور مغرب کی ان اچھی باتوں کو قبول کرنے میں حجاب محسوس نہ کیا جو اس کے اپنے فکری دائرے کے خانہ مباحات میں قابل قبول ہو سکتی تھیں۔ مسلم معاشرے میں مغربی تہذیب کے غلبے کے خلاف رد عمل میں یہ تین فکری دائرے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے، ان کی صورت حال کوئی ہوا بند کمروں جیسی نہیں تھی کہ یہ مکمل طور پر الگ تھلک ہوتے بلکہ ہر دائرے میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو دوسرے دائرے کے قریب تھے۔ تاہم سہولت بیان کی خاطر کہا جا سکتا ہے کہ بڑے فکری دائرے یہی تین تھے۔ اس وقت ان میں سے دوسرے فکری دائرے پر کچھ گفتگو مقصود ہے، گو اس ضمن میں دیگر فکری دائروں پر بھی کچھ تبصرہ ہو جائے گا۔
برصغیر میں اس نقطہ نظر کے علم بردار سرسید احمد خان تھے اور امیر علی، عبد اللہ چکڑالوی، علامہ مشرقی، اسلم جیراج پوری، چراغ علی اور احمد دین امرتسری وغیرہ سے ہوتی ہوئی یہ روایت قیام پاکستان کے بعد غلام احمد پرویز، غلام جیلانی برق اور نیاز فتح پوری وغیرہ تک پہنچی۔ آج کل لاہور میں اس کے علم بردار جناب جاوید احمد غامدی اور ڈاکٹر جاوید اقبال ہیں۔ ڈاکٹر رشید جالندھری، قاضی جاوید، حنیف رامے، محمود مرزا اور پروفیسر رفیق وغیرہ بھی اسی حلقے میں شامل ہیں۔ غامدی صاحب کا تعلق فراہی مکتب فکر سے ہے۔ شروع میں لوگوں کا خیال تھا کہ مولانا حمید الدین فراہی اور مولانا امین احسن اصلاحی کا حدیث کے بارے میں رویہ محض ان کے تفردات میں سے ہے جس سے صرف نظر کرنا چاہیے کہ ہر بڑے عالم کے کچھ تفردات ہوتے ہیں جن کی حیثیت اس کی مجموعی فکر کے استثناء ات کی سی ہوتی ہے (اگرچہ کچھ حساس لوگ ابتدا ہی میں کھٹک گئے تھے اور انھوں نے مولانا حمید الدین فراہی کی تکفیر کی تھی)۔ مولانا اصلاحی صاحب نے اس لے کو مزید آگے بڑھایا، لیکن جناب غامدی صاحب کے اجتہادات نے تو اس حسن ظن کا خاتمہ ہی کر دیا اور دوسرے متجددین کی طرح اب ان کا رویہ بھی یہی لگتا ہے کہ مغربی تہذیب کے فکری چولے کو اسلام پر فٹ کرنے کی کوشش کی جائے۔ خصوصاً حدیث وسنت کے بارے میں ان لوگوں کے موقف کے حوالے سے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ تجدد کا پائے چوبیں جب بھی حرکت میں آتا ہے، خواہ وہ قدیم تجدید ی تحریکیں ہوں (جیسے خوارج اور معتزلہ) یا عصر حاضر کی تجدیدی تحریکیں ہوں، ان کا پہلا نشانہ حدیث وسنت بنتی ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ حدیث وسنت قرآنی فکر کو تفصیلی عملی ڈھانچہ مہیا کرتی ہے اور دین کو ’’جدید تقاضوں‘‘ کے مطابق ڈھالنے میں رکاوٹ بنتی ہے، لہٰذا قرآن اور دین کی من چاہی تفسیر وتاویل اور اسے ’’جدید افکار‘‘ سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ان اسکالرز کو ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ درمیان میں سے حدیث وسنت کا کانٹا نکال دیا جائے۔ قدیم تجدیدی تحریکوں سے جدید تجدیدی تحریکوں کا قارورہ اس لیے بھی ملتا ہے کہ پہلی تحریکیں جس یونانی فکر سے مرعوبیت کا نتیجہ تھیں، وہ عقل پرستی اور الحاد پر مبنی تھی اور جاہلیت جدیدہ یعنی مغربی تہذیب جس فکری اساس پر مبنی ہے، وہ بھی عقل پرستی اور الحاد پر مبنی ہے، بلکہ حقیقی صورت یہ ہے کہ موجودہ مغربی تہذیب اسی یونانی تہذیب کا تسلسل اور اس کی نشاۃ نو ہے۔
تو بات ہو رہی تھی لاہور کے اہل تجدد کی۔ یہ لوگ اگرچہ پہلے سے موجود تھے اور کام کر رہے تھے اور اپنے افکار پھیلا رہے تھے، لیکن مغربی تہذیب کی حالیہ ’’کامیابیوں‘‘ (افغانستان اور عراق کی فتح) اور عالم اسلام اور مسلم معاشرے کے مختلف طبقات کو ترغیب وترہیب سے (مغربی محاورے کے مطابق چھڑی اور گاجر کی پالیسی سے) اپنے ڈھب پر لانے کا عمل جب سے امریکہ نے نئی آب وتاب اور نئے جوش وجذبے سے شروع کیا ہے، اور ہمارے مولانا مفتی سید پرویز مشرف صاحب نے جب سے اعتدال پسند اور روشن خیال اسلام کا ڈول ڈالا ہے، ان تجدد پسندوں کو بھی مہمیز ملی ہے اور سرکاری میڈیا اور حکمرانوں کی آنکھ کا اشارہ سمجھنے والے پرائیویٹ میڈیا نے ان حضرات کو ابھارنا شروع کیا ہوا ہے اور افسوس تو یہ ہے کہ روایتی ذہن سے قربت رکھنے والے مجید نظامی صاحب (اور ان کے ادارے) اور مجیب الرحمن شامی صاحب (اور ان کے اخبارات وجرائد) بھی اس میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ مزید حیرانی بلکہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان حضرات کو چیک کرنے اور انھیں ان کے غلط نظریات سے ٹوکنے اور ان کے نظریات پر پھیلنے والے فساد کا تدارک کرنے والے لوگ غافل پڑے ہیں۔ روایتی علما حسب عادت اپنے مدارس ومساجد میں لمبی تان کر سو رہے ہیں۔ مشائخ اپنے مراقبوں میں مشغول ہیں اور اسکالرز اپنی علمی غیر جانبداری اور رواداری کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ لے دے کر دم غنیمت ہے جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب کا جو ان سے مجادلہ حسنہ کرتے رہتے ہیں، یا پھر ماہنامہ ’’محدث‘‘ کے حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب ہیں جو جارحانہ انداز میں ان کا پیچھا کرتے ہیں۔ مسائل اور مباحث تو بہت ہیں لیکن اس نشست میں ہم ان سے صرف نظر کرتے ہوئے تجدد پسندی کے مرکزی موضوع اور اساسی فکر پر کچھ گفتگو کریں گے۔
مسئلہ تجدد کی اساس کیاہے؟ اس کی فکری اساس یہ ہے کہ شارع حکیم نے یہ فیصلہ فرما دیا کہ نبوت محمدی کے بعد لوگوں کی رہنمائی کے لیے اب نبوت کے تسلسل کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ اعلان کر دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں اور ان کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ (الاحزاب ۳۳:۴۰) اس کے مابعد زمانے میں لوگوں کی ہدایت کے لیے اس نے یہ انتظام فرمایا کہ ایک تو یہ اعلان کر دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک آنے والی ساری نسلوں اور سارے علاقوں کے لیے نبی ہیں۔ (سبا ۳۴: ۲۸) دوسرے اس نے کتاب (قرآن حکیم) کی حفاظت کا ذمہ خود لیا کہ یہ محفوظ رہے گی۔ (الحجر ۱۵:۹) تیسرے اس نے امت محمدیہ کی یہ ڈیوٹی لگائی کہ ہدایت لوگوں تک پہنچانا اب اس کی ذمہ داری ہے۔ (البقرۃ ۲:۱۴۳) چوتھا یہ کہ ہدایت کی بنیادی باتیں تفصیل سے بتانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان امور کی بھی نشان دہی فرما دی جو انسانوں کے لیے اس زمین میں صالح معاشرت کی بنیاد ہیں۔ (جیسے حدود، نکاح وطلاق اور وراثت کے مسائل) اور اس کے اجتماعی معاملات میں (جیسے معیشت، معاشرت اور سیاست وغیرہ) جہاں تفصیلات کا پہلے سے تعین لوگوں کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتا تھا (اور ویسے بھی خالق کائنات یہ جانتا تھا کہ قرآن وسنت کی محدود نصوص قیامت تک پیدا ہونے والے لا محدود مسائل کے لیے کافی نہیں ہو سکتی تھیں) چنانچہ اس نے اپنی رحمت سے ان معاملات میں صرف پالیسی اور بنیادی اصول دینے کا اہتمام کیا اور تفصیلات کا تعین امت کے اہل علم اور مجتہدین پرچھوڑ دیا کہ وہ اپنے زمانے، علاقے اور حالات کی رعایت سے ان کا تعین کر لیں۔ یہ انتظامات دین اسلام اور شریعت محمدی کے دوام کے لیے کافی تھے اور ہیں۔
پہلے تین امور تو واضح ہیں، چوتھے کے لیے اہل علم اور ہمارے اسلاف نے ابتدائی تجربات کے بعد اس کے بھی تفصیلی قواعد وضوابط وضع کر لیے اور یوں اجتہاد کا ادار ہ بھی منظم ہو گیا۔ یہ قواعد وضوابط اگرچہ انسانوں ہی کے وضع کردہ ہیں لیکن قرآن وسنت سے ماخوذ ہونے کے ساتھ وہ اتنے جامع اور وسیع انسانی تجربات کی کسوٹی پر اتنے آزمائے جا چکے ہیں کہ ان میں شاید ہی کسی کمی بیشی کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ چنانچہ الشاطبی جیسا عبقری اور عالی فکر فقیہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ اصول فقہ قطعی الدلالۃ ہیں۔ (الشاطبی، الموافقات فی اصول الشریعہ، ج ۱ ص ۴۵ ومابعد (اردو ترجمہ) مرکز تحقیق، دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری، لاہور، ۱۹۹۳) پس اصولی لحاظ سے دیکھا جائے تو کوئی مسئلہ باقی نہیں رہتا اور ہر مسئلے کے حل کا میکانزم فکر اسلامی میں موجود ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ کسی اجتہادی مسئلے میں اہل علم کا آپس میں اختلاف ہو جائے۔ تو ہوتا رہے، یہ کون سی بڑی بات ہے۔ سوچنے سمجھنے والے لوگوں کا آپس میں اختلاف تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ ویسے امت نے صدیوں کے تجربات سے اس کا بھی حل نکال لیا اور امت کی ایک بہت بڑی اکثریت منتخب اجتہادی مکتب ہائے فکر سے منسلک ہو گئی (ائمہ اربعہ، غیر مقلدین اور شیعہ) اور آج بھی منسلک ہے۔ تو یوں کسی ممکنہ بڑے فکری انتشار سے بچنے کا بھی ایک مستحکم حل مل گیا۔ تو اب اصولی طور پر کوئی مسئلہ باقی نہیں، مسئلہ ہے تو صرف ہمارے رویوں کا کہ اعتدال کا راستہ چھوڑ کر کچھ لوگ تجمد کا رویہ اختیار کر لیتے ہیں تو کچھ تجدد کا۔ تجمد کا رویہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنے اختیار کردہ اجتہادی مسلک کو عین دین سمجھنے لگتے ہیں اور اس کی حقانیت ثابت کرنے اور اس کی مدافعت میں اپنی زندگیاں لگا دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حرف آخر اور حتمی ہے، ناقابل تغیر ہے اور اس میں کسی کمی بیشی کی کوئی گنجایش نہیں۔ یہ رویہ لاریب غلط اور نقصان د ہ ہے۔ اس سے مقاصد شریعت فوت ہوتے ہیں۔ دین اسلام ظاہر ہے کہ محض پوجا پاٹ کی مناجات اور اخلاقی ہدایات کا مجموعہ نہیں، یہ تو زندگی گزارنے کا لائحہ عمل ہے۔ تو جب ہم اس تجمد کا شکار ہوتے ہیں تو ہم اس دین کو زندگی کے رواں دواں دھارے سے کاٹ دیتے ہیں اور اس سے پچھڑنا قبول کر لیتے ہیں۔ یہ گویا زندگی کے متحرک ریلے کے ساتھ عدم مطابقت اور اس کا ساتھ نہ دینا ہے جس کے نتیجے میں ظاہر ہے کہ زندگی کا متحرک ریلا آگے نکل جائے گا اور آپ کا دین پیچھے رہ جائے گا۔ یوں تجمد کا رویہ اختیار کرنے والے لوگوں سے دین اور امت کو نقصان پہنچتا ہے۔
اس کے مقابلے میں تجدد کا رویہ یہ ہے کہ کچھ لوگ دوسری قوموں اور تہذیبوں کے افکار واعمال سے متاثر ہو جاتے ہیں، انھیں اپنے فکر وعمل سے اچھا اور اعلیٰ وبرتر سمجھنے لگتے ہیں اور یہ کوشش کرنے لگتے ہیں کہ انھیں اسلامی لباس پہنا کر اختیار کر لیا جائے۔ یوں وہ اجتہا د کے نام پر غیر اسلامی افکار واعمال کو گلے لگا لیتے ہیں اور اپنا اور اپنے دین کا نقصان کرتے ہیں۔ آج اسلام اور مسلمانوں کی صورت حال بڑی گھمبیر ہے اور بڑے حوصلے، تدبر اور ژرف نگاہی کا تقاضا کرتی ہے۔ مسلمان جو اپنے دین سے تمسک کی وجہ سے اور اسے دنیا میں پھیلانے اور غالب کرنے کی دھن میں ایک ہزار سال تک دنیا پر چھائے رہے، پچھلی تین صدیوں میں کمزور اور مغلوب ہو گئے ہیں۔ اس دوران میں مغربی قومیں اپنے نظریہ حیات (سیکولرزم، ہیومنزم، لبرلزم، میٹریلزم وغیرہ جن کا مطلب ہے اجتماعی زندگی میں اللہ کی اتھارٹی کا انکار اور اپنی عقل اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنا، دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھنا، آخرت سے صرف نظر کرنا اور اللہ کی ہدایت کو جاننے کے لیے اس کے فرستادہ شخص کی غیر مشروط اطاعت نہ کرنا، گویا توحید، رسالت، آخرت اور آسمانی دین کا صریح انکار) سے مستحکم وابستگی کے نتیجے میں دنیا میں ترقی کر گئیں۔ چونکہ وہ مسلمانوں سے مغلوب ہوئی تھیں، لہٰذا انھوں نے انتقاماً مسلمانوں کے علاقوں کو فتح کیا، انھیں کچلا، غلام بنایا، ان پر ظلم ڈھائے اور آج بھی وہ اسی مسلم دشمنی کی روش پر گام زن ہیں۔ چونکہ وہ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کی قوت وشوکت کی بحالی ان کے دین سے تمسک میں پوشیدہ ہے، اس لیے مجبوراً مسلم ممالک کو آزادی دینے کے باوجود وہ ہر ایسا ہتھکنڈا اختیار کر رہی ہیں جن سے مسلمان اپنے دین سے حقیقی وابستگی اختیار نہ کر سکیں۔ ظاہر ہے انھیں نماز روزے وغیرہ سے پرخاش نہیں، لیکن وہ اسلام کو بحیثیت ایک نظریہ حیات اور نظام حیات اور بطور ایک منفرد ومستقل تہذیب کے قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ان حالات میں مسلم امہ کے اہل علم وفکر کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ فکری استقلال کی روش اختیار کریں، اپنے اصولوں پر سختی سے جمے رہیں اور یہ جدوجہد کریں کہ امت دوبارہ اپنے دین سے جڑ جائے اور اس کے تقاضوں کو کماحقہ پورا کرنے لگے۔ یہ ہے کرنے کا اصل کام اور نجات کا راستہ۔ اس کے برعکس دین کے وہ داعی اور علم بردار جو منفعل اور مرعوب ذہن کے مالک ہیں، وہ اپنی کوتاہ فکری سے یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی تہذیب کی بالادستی کی وجہ اس کی خوبیاں اور اچھائیاں ہیں، لہٰذا وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی قوم میں بھی یہ اچھائیاں پیدا ہو جائیں اور وہ دنیا میں ترقی کرنے لگے۔ ا س کے لیے وہ یہ طریقہ اختیار کر تے ہیں کہ قرآن وسنت کی نصوص کی ایسی تاویل وتشریح اور تعبیر کرتے ہیں کہ مغربی فکر وعمل مسلمانوں کے لیے قابل قبول ہو جائے اور اجتماعی معاملات کی تفصیلات کے تعین کے لیے شریعت نے اجتہاد کا جو دروازہ کھلا رکھا ہے، اسے اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ مغربی فکر وعمل اور اس کے اداروں کو اسلام میں امپورٹ کر لیا جائے۔ ظاہر ہے تجدید اسلام کا یہ منہج اگر نیک نیتی سے اپنایا جائے تو یہ گمراہی ہے اور اگر ذاتی مفاد کے لیے اپنایا جائے تو یہ اسلام اور مسلمانوں سے غداری ہے۔ اس کی بدترین مثال غلام احمد قادیانی کی ہے جس نے استعمار کی نفیِ جہاد کی ضرورت پوری کرنے کے لیے جعلی نبوت کا ڈھونگ رچایا۔ باقی متجددین بھی اسی راہ کے راہی ہیں، لیکن مرزا غلام احمد جیسی اونچی اڑان، ظاہر ہے، ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔
کج فکری کی اساس
متجددین عصر حاضر کی کج نظری کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اس بات کو نہیں سمجھ سکے کہ مسلمانوں کے زوال کی اصل وجہ کیا ہے اور وہ کس طرح زوال کے اس گرداب سے نکل سکتے ہیں۔ اسی طرح وہ یہ بھی نہیں سمجھ سکے کہ مغرب کے عروج کی اصل وجہ کیا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب کے عروج کی وجہ اس کی سائنس وٹیکنالوجی میں ترقی ہے، اس کا انفع اور اصلح ہونا ہے اور اس میں بعض انسانی خوبیوں (اتحاد، محنت، تنظیم، پلاننگ، استقرائی منہج اور ریسرچ وغیرہ) کا ہونا ہے، لہٰذا مسلمان بھی اگر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو اس کی واحد صورت یہی ہے کہ وہ مغربی تہذیب کے ان خصائص کی پیروی کریں۔ یوں وہ اپنے ضمیر اور شعور کو مطمئن کرتے ہیں کہ وہ اسلام کی تعبیر نو اور اجتہاد کے ذریعے اگر مغربی تہذیب اور اس کے اصولوں کو مسلمانوں کے لیے قابل قبول بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ کوئی غلط کام نہیں کرتے بلکہ مفید اور اچھا کام کرتے ہیں، حالانکہ یہ سارا تصور ہی سراب پر مبنی ہے اور غلط فہمیوں کا پلندہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ دنیا میں قوموں کے عروج وزوال کے فلسفے کو سمجھ ہی نہیں سکے۔
دنیا میں قوموں کے عروج وزوال کا صحیح اور اسلامی فلسفہ یہ ہے کہ اللہ نے یہ دنیا دار الاسباب بنائی ہے اور جو فرد اور قوم بھی اسباب دنیا فراہم کرنے پر زیادہ بہتر طور پر اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں کو استعمال کرتی ہے ، وہ ایسا نہ کرنے والوں سے آگے نکل جاتی ہے۔ اس کا کسی کے دینی موقف کے صحیح یا غلط ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ دیکھیے، اللہ ان کو بھی رزق دیتا ہے جو اسے مانتے اور اس کی عبادت کرتے ہیں اور ان کو بھی رزق دیتا ہے جو اس کا انکار کرتے اور اسے گالیاں دیتے ہیں۔ ایک تہجد گزار مسلمان اگر اپنی دکان وقت پرنہیں کھولتا، اس کے پاس سامان تجارت کم ہے اور گاہکوں سے درشتی سے پیش آتا ہے تو اس کی دکان فیل ہو جائے گی۔ اور اس کے برعکس ایک بت پرست ہندو اگر اپنی دکان وقت پر کھولتا ہے، اس کے پاس سامان وافر ہے اور وہ گاہکوں سے خوش اخلاقی سے پیش آتا ہے تو اس کی دکان خوب چلے گی، لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہوگا کہ اس مسلمان کو ہندو بن جانا چاہیے یا ہندووں کی اور ہندو مت کی پیروی شروع کر دینی چاہیے، کیونکہ خود اس مسلمان کا اپنا دین اس سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ خوش اخلاق ہو، وہ وقت کی پابندی کرے اور جو کام بھی کرے، بہترین انداز میں کرے۔ لہٰذا ایسے مسلمان کو یہ کہنا چاہیے کہ اگر تم کامیاب دکاندار بننا چاہتے ہو تو اپنے دینی اصولوں کی پیروی کرو نہ کہ یہ کہنا چاہیے کہ تم ہندووں کی، ان کے اصولوں کی اور ان کی تہذیب کی پیروی کرو۔ اسی مثال کو آپ مغرب اور مغربی تہذیب پر منطبق کر لیں تو آپ سمجھ لیں گے کہ مسلمانوں کو دنیوی ترقی کے لیے مغرب کی اور اس کی بعض خوبیوں کی طرف دعوت دینا کس طرح غلط ہے۔
جو بات سمجھنے کی ہے، وہ یہ ہے کہ کسی قوم کی دنیوی ترقی کا تعلق اس کے اختیار کردہ نظریہ حیات؍دین کے سچا یا جھوٹا ہونے سے نہیں ہوتا بلکہ اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ قوم جس نظریہ حیات پر ایمان لائی ہے (یا اس کا دعویٰ کرتی ہے) وہ کتنی شدت اور اخلاص سے اس سے عملاً وابستہ ہے۔ اگر وہ ہو تو اس کے اندر وہ معروضی انسانی خوبیاں پید اہو جائیں گی جو دنیوی ترقی کا سبب بنتی ہیں ( جیسے محنت، تنظیم، پابندی قانون، اتحاد، ایثار، تحقیق وغیرہ) اور اگر وہ نہ ہوں تو اس میں وہ خوبیاں پیدا نہ ہوں گی۔ مسلمان جب تک اخلاص اور شدت سے اپنے دین سے وابستہ رہے، ان میں وہ خوبیاں پیدا ہو گئیں جو دنیوی ترقی کے لیے ضروری ہیں اور جب ان کی یہ وابستگی کمزور ہو گئی تو ان میں وہ خوبیاں بھی ناپید ہو گئیں اور وہ کمزور ومضمحل ہو کر مغربی قوموں کے غلام بن گئے جو اپنے نظریہ حیات (سیکولرزم، ہیومنزم وغیرہ) پر اخلاص اور شدت سے عمل پیرا تھے اور وہ میں وہ معروضی خوبیاں پید اہو گئیں جو دنیوی ترقی کے لیے مطلوب ہیں۔
سطور بالا میں جس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان اہل مغرب اور مغربی تہذیب کی پیروی کر کے ترقی نہیں کر سکتے، کیونکہ ان کا نظریہ حیات اہل مغرب کے نظریہ حیات کے بالکل الٹ ہے (مسلمان توحید، رسالت اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں، جبکہ اہل مغرب سیکولرزم، ہیومنزم، لبرلزم وغیرہ پر جو کہ اسلامی اصولوں کے بالکل متضاد ہیں) لہٰذا اگر وہ اپنے نظریہ حیات کو چھوڑ کر مغرب کے نظریہ حیات پر چلیں گے تو ان میں ہرگز وہ معروضی انسانی اوصاف پیدا نہیں ہوں گے جو دنیوی ترقی کے لیے ضروری ہیں بلکہ اس اجتماع ضدین کا لازمی نتیجہ فکری انتشار اور ذہنی پراگندگی کی صورت میں نکلے گا جس سے ان کی شخصیت مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر بکھر جائے گی اور وہ قعر ذلت سے نکلنے کے بجائے مزید اس میں دھنستے چلے جائیں گے۔ اور اگر ایک لمحے کے لیے اس ناممکن بات کو صحیح فرض بھی کر لیا جائے کہ مسلمان مغربی تہذیب کی پیروی کر کے دنیوی ترقی کر سکتے ہیں تو یہ دیکھیے کہ مغرب کے پیش نظر صرف دنیا ہے (ظاہر ہے کہ سیکولرزم ، لبرلزم، میٹریلزم وغیرہ آخرت کے تصور پر مبنی نہیں) اور آخرت تو ان کے پیش نظر ہے ہی نہیں، تو کیا مسلمانوں کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ دنیوی ترقی کے ایک ایسے ماڈل کی پیروی کریں جس کے نتیجے میں ان کی آخرت برباد ہو جائے؟ ظاہر بات ہے کہ کمزور سے کمزور ایمان کا حامل مسلمان بھی اس بات کو برداشت نہیں کر سکتا، لہٰذا عقل ومنطق کے ہر تقاضے کی رو سے مسلمانوں کو مغرب اور مغربی تہذیب کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ (اس مبحث کے تفصیلی مطالعے کے لیے دیکھیے ہماری کتاب ’’مسلم نشاۃ ثانیہ۔ اساس اور لائحہ عمل‘‘ مطبوعہ کتاب سرائے، اردو بازار لاہور)
لہٰذا وہ علما اور اسکالرز صریح غلطی پر ہیں جو مسلمانوں کو مغربی تہذیب کے اچھے اصولوں کی پیروی کا مشورہ دیتے ہیں یا اسلام کی ایسی تاویل وتعبیر کرتے ہیں جس سے وہ مغربی اصولوں کے مطابق ہو جائے یا اجتہاد کے نام پر مغربی تصورات اور اداروں کو مسلمانوں میں رائج کرنا چاہتے ہیں۔ دراصل یہ فاتح اور غالب مغربی تہذیب کا جادو ہے جو ان کے سر چڑھ کر بول رہا ہے اور وہ اپنی فکری مرعوبیت کو دانش کے ملمع میں چھپا کر مسلمانوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ یہ اسکالرز بھول جاتے ہیں کہ اسلام کی دانش ابدی اور سرمدی ہے اور غیر حقیقی دانشیں وقتی طور پر اپنی چھب دکھا کر تاریخ کے سفر میں گم ہو جاتی ہیں۔ اعتزال کا غلغلہ کس زور سے اٹھا تھا لیکن وہ کتنی دیر چل سکا؟ مین اسٹریم اسلام یا جمہور اہل سنت کا اسلام معتزلہ سے پہلے بھی موجود تھا، ان کے بعد بھی موجود رہا، الحمد للہ آج بھی موجود ہے اور ان شاء اللہ آئندہ بھی موجود رہے گا لیکن معتزلہ آج کہاں ہیں؟ ابھی کل تک ہمارے دیکھتے اشتراکیت کا طوطی بولتا تھا اور کتنے بڑے بڑے علما اور اسکالرز تھے جو اسلام کی تعبیر وتشریح اشتراکی اصولوں کے مطابق کرتے تھے اور سوشلزم کو عین اسلام ثابت کرتے تھے۔ آج وہ کہاں ہیں اور ان کی دانش کہاں ہے؟ یہی حال مغربی تہذیب کا ہے۔ وہ اسکالرز جو آج مغربی تہذیب سے مرعوب ہو کر اسلام کی تعبیر وتاویل کر رہے ہیں، ان کی سطحی سوچ کا مہتاب جلد غروب ہو جائے گا کیونکہ مغربی تہذیب کی جھوٹی ملمع کاری زیادہ دیر چلنے کی نہیں۔ یہ زیادہ سے زیادہ دس، بیس، پچاس، چلیے سو برس اور چل جائے گی۔ خود مغربی دانش ور کہہ رہے ہیں کہ یہ زیادہ سے زیادہ سو سال اور نکالے گی۔ (Samuel P. Huntington: Clash of Civilization & Remaking of World Order, Simon & Scuster, New York, 1997) جبکہ ہمارا اندازہ یہ ہے کہ یہ ربع صدی بھی نہیں نکالے گی اور اس کا تارو پود بکھر جائے گا جیسے کہ کمیونزم کا بکھرا۔ اس وقت یہ دانش ور کیاکریں گے اور کیا کہیں گے؟ ان کی حالت تو یہ ہے کہ ڈارونزم اور ارتقا کو خود مغربی اہل علم اور سائنس دان رد کر چکے ہیں، لیکن یہ بزرجمہر آج بھی نظریہ ارتقا کو صحیح ثابت کرنے کے لیے قرآن وسنت سے دلائل پیش کرتے ہیں۔ یہ ’’عبقری‘‘ نہیں سوچتے کہ مغربی دانش کا سورج غروب ہو جائے گا لیکن اسلام کی دانش مندی کا سورج ہمیشہ چمکتا رہے گاکیونکہ وہ وحی پر مبنی ہے نہ کہ محدود انسانی عقل اور اس کے مخدوش تجربات پر۔
ہم تجمد کی مذمت کرتے ہیں، ہم حریت فکر کی حمایت کرتے ہیں، ہم اجتہا دکے حامی ہیں، ہم روشن خیالی کے قائل ہیں، ہم جدت کو سراہتے ہیں، ہم ترقی کے خواہاں ہیں، دوسری قوموں سے محتاط استفادے میں بھی کوئی حرج نہیں، یہ سب ہونا چاہیے لیکن اسلام کے فکری دائرے کے اندر رہتے ہوئے، فکری استقلال کے ساتھ، مین اسٹریم اسلام پر چلتے ہوئے، کسی غیر اسلامی فکر اور تہذیب سے مرعوب ہوئے بغیر اور تجدد سے بچتے ہوئے۔ یہی اعتدال کا راستہ ہے۔ تجمد اور تجدد کا راستہ غلط ہے اور تباہی کا راستہ ہے۔
تجدد پسندوں کا طریق کار
اس بحث کو سمیٹنے سے پہلے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ تجدد پسندوں کی حکمت عملی اور ان کے طریق کار پر کچھ روشنی ڈا ل دی جائے تاکہ ان کو پہچاننے میں آسانی رہے۔ ان کی حکمت عملی کے اہم نکات یہ ہیں:
۱۔ قرآن حکیم پر زور دیا جائے لیکن اس طرح کہ جس ہستی پر قرآن نازل ہوا تھا اور جس کے ذمے اس کی تبیین تھی، دین میں اس کے کردار اور اس کی تبیین (حدیث وسنت) دونوں کو اہمیت نہ دی جائے (گویا یہ بے عقل لوگ اس بات کو نہیں سمجھ سکے کہ یہ امت آج اگر زندہ اور متحد ہے تو صرف محبت رسول کے صدقے۔ فداہ ابی وامی صلی اللہ علیہ وسلم)
۲۔ حدیث وسنت کو بے اعتبار ٹھہرایا جائے۔ اس کے لیے جو ’دلائل‘ دیے جاتے ہیں، وہ کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں:
احادیث اکثر وضعی ہیں اور عجمی سازش۔ یہ بہت تاخیر سے مدون ہوئیں لہٰذا قابل اعتماد نہیں۔ بہت سی احادیث قرآن حکیم کے خلاف ہیں۔ متواتر احادیث گنتی کی ہیں اور اکثر حدیثیں آحاد ہیں اور آحاد حدیثیں ظنی الدلالۃ ہوتی ہیں۔ احادیث اس زمانے کے حالات کے مطابق تھیں۔ اب حالات بدل گئے ہیں۔ حدیث وسنت میں فرق ہے۔ حدیثیں آحاد ہیں اور ناقابل اعتماد، صرف وہ چند سنتیں قابل اعتماد ہیں جو تعامل امت سے ثابت ہوتی ہیں ، وغیرہ۔
۳۔ مغرب اس لیے غالب ہے کہ انفع اور اصلح ہے، لہٰذا وہ خلافت ارضی کا حق دار ہے۔
۴۔ مغرب نے اسلامی اصول اپنا لیے ہیں، اس لیے وہ غالب اور بالادست ہے۔
۵۔ اہل مغرب سے ہمیں مفاہمت اختیار کرنی چاہیے کیونکہ وہ اہل کتاب ہیں، آخر حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ ہمارے بھی تو پیغمبر ہیں۔
۶۔ مغرب نے جن اصولوں پر عمل کر کے دنیا میں ترقی کی ہے، ان کی پیروی کر کے ہمیں بھی ترقی کرنی چاہیے۔
۷۔ ملا کی تحقیر اور اس کو گالی دینا، کیونکہ ان کے نزدیک وہ مسلمانوں میں ساری خرابیوں کی جڑ ہے اور مسلم معاشرے سے اس کا خاتمہ اور اس کو غیر موثر کرنا ضروری ہے۔
۸۔ مسلمان اگر اپنے علاقے کا دفاع کریں تو بھی اسے جہاد نہ سمجھنا اور دہشت گردی قرار دینا۔
۹۔ مغرب کی ریاستی دہشت گردی کو صحیح ثابت کرنے کے لیے دلائل دینا اور جواز تراشنا۔
۱۰۔ اسلاف کی بے ادبی۔
۱۱۔ اجماع کا انکار۔
۱۲۔ تقلید کی مذمت۔
۱۳۔ مغرب سے متاثر جو تنظیمیں مسلم معاشرے میں آزادی نسواں کی تحریک چلا رہی ہیں، ان کی حمایت کرنا۔
۱۴۔ مغربی لائف اسٹائل کا دفاع کرنا مثلاً دوپٹے کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، کوٹ پتلون اور نکٹائی وغیرہ پہننے میں کوئی حرج نہیں۔
۱۵۔ مغربی تصورات اور اداروں کی حمایت کرنا، جیسے جمہوریت، آزادی، رواداری، عدل، بنیادی حقوق اور حریت فکر وغیرہ، حالانکہ ان امور کے مغربی تصور اور اسلامی تصور میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔
۱۷۔ بے دین مسلم حکمرانوں کی حمایت کرنا۔
۱۸۔ قوم پرست اور سیکولر سیاسی جماعتوں، تنظیموں اور اداروں کی حمایت کرنا۔
۱۹۔ ملک میں قائم دینی اداروں کی تنقیص اور ان پر تنقید، جیسے شرعی عدالت، حدود قوانین اور نظریاتی کونسل وغیرہ۔
۲۰۔ تصوف کے غیر اسلامی رسوم ورواج اور افکار واعمال کی حمایت کرنا۔
۲۱۔ دعوت دین کے ایک ایسے تصور کی حمایت جو مفاہمت، مسکینی اور گوسفندی پر مبنی ہو اور جس میں عزیمت، نہی عن المنکر، جہاد، نفاذ دین اور غلبہ اسلام کا ذکر نہ ہو۔
۲۲۔ مسلمانوں کے زوال کی وجہ ان کا مادی انحطاط ہے۔
۲۳۔ شریعت پر عمل کیا جائے اور فقہ کو چھوڑ دیا جائے۔
۲۴۔ خاندانی منصوبہ بندی کی حمایت۔
۲۵۔ قربانی دینے کے بجائے اس کے پیسے غریبوں کو دے دیے جائیں۔
۲۶۔ عورتوں کی آزادی، مساوات، بے پردگی اور مردوں کے ساتھ کام کرنے کی حمایت۔
۲۷۔ عقلیت پسندی بلکہ عقل پرستی۔
۲۸۔ لغت اور بائبل کو سنت پر ترجیح دینا۔
۲۹۔ موسیقی اور گانے بجانے کی حمایت بلکہ اس پر عمل۔
خلاصہ یہ کہ ہمیں تجمد اور تجدد کا راستہ چھوڑ کر اعتدال کا راستہ اپنانا چاہیے۔ ہمیں اسلام کو جدید بنانے کی ضرورت نہیں بلکہ ’’الی الاسلام من جدید‘‘ کی ضرورت ہے۔