پردہ، دہشت گردی، عمرانہ کیس اور اس طرح کے دیگر موضوعات کے حوالے سے ٹیلی ویژن پر اسلام کی معاندانہ اور تعصب پر مبنی تصویر کشی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کی مسلم کمیونٹی نے معاملے کو اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس مقصد کے لیے دو نئے اسلامی چینل قائم کیے گئے ہیں جو پوری مسلم دنیا کو درپیش مسائل سے متعلق صحیح اسلامی نقطہ نظر پیش کریں گے۔ ایک چینل ’کتاب‘ کے نام سے ہے جبکہ دوسرا چینل جس کے لیے ’پیس ٹی وی‘ کا نام زیر غور ہے، کیو ٹی وی کے معروف مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائک شروع کریں گے۔
’کتاب‘ چینل کے بانی اور چیف پروموٹر اختر شیخ نے کہا ہے کہ یہ چینل نہ صرف میڈیا میں مسلم مخالف پراپیگنڈا کا مقابلہ کرے گا بلکہ مسلم سوسائٹی کی تربیت کی ذمہ داری بھی انجام دے گا۔ انھوں نے کہا کہ مسلمان بڑے عرصے سے ایک ایسے چینل کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں جو ان کے خیالات واحساسات کی ترجمانی کرتا ہو۔
چینل کی پروگرامنگ کی ذمہ داری مدارس کے تعلیم یافتہ قدامت پسند دیوبندی علما کے ایک گروپ کو سونپی گئی ہے۔ بمبئی کے مرکز المعارف نے اس چینل کے اغراض ومقاصد متعین کیے ہیں جن میں اسلام سے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ، مولانا آزاد، علی برادران اور ان جیسے جنگ آزادی میں خدمات انجام دینے مسلمانوں کی قربانیوں کو نمایاں کرنا، نکاح، طلاق، نفقہ او ر پردہ جیسے پرسنل لا کے مسائل پر بحث ومباحثہ شامل ہیں۔
بھارت میں ٹی وی کے جواز وعدم جواز کے حوالے سے علما دو گرہوں میں تقسیم ہیں۔ گزشتہ سال دار العلوم دیوبند کے مفتی محمود الحسن نے ٹی وی کے عدم جواز کا فتویٰ دیا تھا۔ مفتی مذکور نے یہ کہہ کر اردو پریس میں ایک بحث کا آغاز کر دیا تھا کہ ’’ٹیلی ویژن سطحی تفریح کا ذریعہ ہے۔‘‘تاہم مولانا برہان الدین قاسمی نے، جو ’کتاب‘ کی پروگرامنگ میں شریک ہیں، کہا ہے کہ علما بصری ذرائع ابلاغ کی اہمیت کا انکار نہیں کر سکتے۔ انھوں نے کہا کہ ’’عمرانہ کیس ہی کو لے لیجیے۔ اس پر باقی تمام مسئلوں کو نظر انداز کر کے ایک نہ ختم ہونے والی بحث چھیڑ دی گئی، گویا مسلمانوں کو اس کے علاوہ کوئی مسئلہ ہی درپیش نہیں۔‘‘
پروگرامنگ پینل میں شریک دوسرے ارکان میں جمعیۃ علماے ہند کے مولانا محمود مدنی اور ندوۃ العلماء لکھنو کے سید سلمان ندوی بھی شامل ہیں۔
(ٹائمز آف انڈیا۔ ۲۸ ستمبر ۲۰۰۵)
مولانا قاسمی اور مولانا مدنی کے مابین مصالحت
دار العلوم دیوبند اور دار العلوم وقف کے مابین اختلافات کے تصفیے کے حوالے سے کچھ پیش رفت کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ یہ حقیقت اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ دار العلوم وقف کے مہتمم مولانا سالم قاسمی نے مولانا اسعد مدنی کی طرف سے مجلس شوریٰ کے ارکان اور اپنے اعزہ اور قریبی دوستوں کے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے میں شرکت کی۔ اسی طرح جب مولانا سالم قاسمی نے اپنی رہایش گاہ پر مجلس شوریٰ کے ارکان کو ایک پرتکلف دعوت پر مدعو کیا تو مولانا اسعد مدنی نے اپنے بیٹے اور قریبی دوستوں کے ساتھ اس میں شرکت کی۔ مولانا سالم قاسمی نے ان کا پرجوش استقبال کیا اور مولانا مدنی اور دیگر رفقا سے معانقہ کیا۔ دونوں مواقع پر ماحول بے حد دوستانہ تھا۔
یہ بتانا مشکل ہے کہ فریقین کے مابین مصالحت کامعاملہ کس حد تک آگے بڑھا ہے، تاہم دار العلوم کے مہتمم مولانا مرغوب الرحمن نے بتایا ہے کہ فریقین کے مابین بعض عدالتی مقدمات واپس لینے کا معاہدہ طے پا چکا ہے، اگرچہ اس کی عدالتی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔ مجلس شوریٰ کا اجلاس منعقد ہوا ہے، لیکن تنازع پر بحث اس کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھی اور متنازعہ امور پر فریقین کے مابین کوئی سنجیدہ بحث مباحثہ نہیں ہوا۔ مولانا مرغوب الرحمن اس سے پہلے یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ تنازع مولانا مدنی کا ذاتی معاملہ ہے نہ کہ دار العلوم کا۔ یہی رویہ مولانا سالم قاسمی کا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تنازع دراصل اداروں کے مابین نہیں بلکہ زیادہ تر دونوں بزرگوں کی انا کا مسئلہ ہے۔ دار العلوم کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ملی گزٹ کو بتایا کہ زیادہ تر مقدمات اپنے آخری مراحل کو پہنچ چکے ہیں۔ انھوں نے واضح طور پر کہا کہ دونوں اداروں کا انضمام نہ کسی بھی صورت میں ممکن ہے اور نہ اس پر کوئی گفت وشنید ہی ہو رہی ہے۔
(ملی گزٹ، دہلی، ۱۶۔۳۰ نومبر ۲۰۰۵)