قرآن مجید میں قارون اور اس کی بے انتہا دولت، اس کے تکبر اور تباہی کا عبرت انگیز بیان صرف ایک جگہ (سورہ القصص آیت ۷۶ تا ۸۴) آیا ہے۔ یہ گویا دولت ومنصب رکھنے والوں کا ایک ایسا عبرت ناک قصہ ہے جو ہمیشہ پیش آ سکتا ہے اور اس پر قرآن کا یہ تبصرہ انتہائی سبق آموز ہے۔
قرآن میں قارون کا قصہ اس طرح شروع ہوتا ہے:
اِنَّ قَارُوْنَ کَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰی فَبَغٰی عَلَیْہِمْ وَآتَیْنٰہُ مِنَ الْکُنُوْزِ مَآ اِنَّ مَفَاتِحَہُ لَتَنُوْءُ بِالْعُصْبَۃِ اُولِی الْقُوَّۃِ اِذْ قَالَ لَہُ قَوْمُہُ لاَ تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْفَرِ حِیْنَ O(آیت ۷۶)
’’کوئی شک نہیں کہ قارون موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں سے تھا۔ پھر اس نے ان کے خلاف سرکشی کی۔ اور ہم نے جو خزانے اس کو دیے تھے، وہ اتنے تھے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقت ور جماعت بھی مشکل سے ہی اٹھا سکتی تھی۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس کی قوم نے اس سے کہا کہ (اپنی بے انتہا دولت پر) اتراؤ نہیں، کیونکہ یقیناًاللہ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے۔‘‘
اس آیت کی تشریح یہ ہے کہ قارون تھا تو موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل سے، لیکن اس نے اپنی قوم کو چھوڑ کر مال وزر اور جاہ ومنصب کے لالچ میں فرعون وقت کا ساتھ دیا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جو فرعون تھا، ا س کا نام جدید ترین تحقیقات کے مطابق رعمسیس دوم تھا۔ اس فرعون نے قارون کو بنی اسرائیل (مصر میں مقیم یہودی) پر حاکم بنا دیا تھا اور بنی اسرائیل کو اپنا غلام یا فرماں بردار رکھنے کے لیے اس کو بہت مال ودولت سے نوازا تھا۔ اس وقت فرعون کا وزیر ایک شخص ہامان تھا۔ اسی وجہ سے قرآن میں ایک اور جگہ اس کا ذکر فرعون وہامان کے ساتھ آیا ہے۔ (سورۃ المومن آیت ۲۳) اس بے انتہا دولت نے اس کو اتنا سرکش وخود غرض بنا دیا تھا کہ وہ اپنی قوم کے خلاف ہو گیا۔
توراۃ میں بھی قارون کا ذکر ہے لیکن اس میں اس کا ذکر بالکل مختلف انداز سے ہے۔ اس میں اس کی فراوانی دولت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو متنبہ (Challenge) کیا تھا اور کہا تھا کہ تم اپنے آپ کو اللہ کا برگزیدہ بندہ کہتے ہو اور میں بھی برگزیدہ ہوں کیونکہ مال ودولت میں تم سے زیادہ ہوں۔ (توراۃ، کتاب گنتی، اصحاح ۱۶)
بائبل کے عہد عتیق (Old Testament) کے اس بیان کے برخلاف قرآن میں قارون کے مال ودولت کی حرص اور تکبر اور گھمنڈ کا ذکر تو ہے لیکن اس Challenge کا ذکر نہیں اور جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ بائبل کی یہ بات یہودی مادہ پرستوں کی اس فکر سے زیادہ تعلق رکھتی ہے جس کے بموجب اہل ثروت وجاہ کو برگزیدہ وبرتر انسان سمجھا جاتا ہے۔ قرآن کی تعلیمات اس کے بالکل برعکس ہیں۔
توراۃ کی مذکورہ کتاب اور اسی فصل میں قارون کے خزانے کی تفصیل میں ہے کہ ’’اس کے خزانے کی کنجیاں چمڑے کی تھیں اور تین سو اونٹوں پر لادی جاتی تھیں۔‘‘
بعض عرب مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ کنجیاں ساٹھ خچروں پر لادی جاتی تھیں۔ ’’عصبۃ‘‘ عربی زبان میں دس سے چالیس آدمیوں کو کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قارون کے خزانے کی کنجیاں ہی اتنی زیادہ تھیں کہ ان کو دس بیس آدمی اٹھاتے تھے۔ یہاں توراۃ کا بیان غلط معلوم ہوتا ہے کہ چمڑے کی کنجیوں میں اتنا وزن نہیں ہوتا۔
بعض مفسرین نے توراۃ کے حوالے سے یہ بات لکھی ہے کہ قارون، موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی تھا اس لیے ا س کو یہ بھی غرور تھا کہ میں انبیا کی اولاد میں سے ہوں اور دوسرے یہ کہ مال ودولت بھی بہت رکھتا ہوں، اس لیے میں بھی موسیٰ علیہ السلام کی طرح برگزیدہ ہوں۔
سورۂ قصص، جس میں قارون کا ذکر ہے، مکہ مکرمہ میں اتری۔ اس قصے کی شان نزول یہ معلوم ہوتی ہے کہ سرداران قریش حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ ہمیں اللہ نے مال ودولت دی ہے، اگر تم اللہ کے محبوب بندے ہوتے تو تمھار ے پاس بھی کثیر مال ودولت ہوتی۔ اس طرح کی باتیں کر کے کفار مکہ یہ سمجھتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو اسلام کی دعوت دے رہے ہیں، ان کے مقابلے میں اپنی ناداری کی وجہ سے کبھی کامیاب نہ ہو سکیں گے اور وہ خود اپنی دولت کی وجہ سے ہمیشہ سرخ رو اور کامیاب رہیں گے۔
اس قصے کے ذیل میں قرآن کا نظریہ مال ودولت بھی ہمارے سامنے آتا ہے۔ جہاں تک مال ودولت کا تعلق ہے تو قرآن میں مختلف مقامات پر ذکر ہے کہ مال کس طرح سے کمایا جائے اور کس طرح خرچ کیا جائے، لیکن قارون کے سیاق (Context) میں یہ ذکر نہیں کیا گیا ہے بلکہ بنیادی طور پر یہ بات ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ مال انسان کو تکبر میں مبتلا کر دے اوروہ یہ سمجھنے لگے کہ یہ محض اس کی اپنی دانش وحکمت کے سبب حاصل ہوا ہے تو ایسے آدمی سے یہ دولت چھین لی جاتی ہے۔
اِنَّ قَارُوْنَ کَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰی فَبَغٰی عَلَیْہِمْ وَآتَیْنٰہُ مِنَ الْکُنُوْزِ مَآ اِنَّ مَفَاتِحَہُ لَتَنُوْءُ بِالْعُصْبَۃِ اُولِی الْقُوَّۃِ اِذْ قَالَ لَہُ قَوْمُہُ لاَ تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْفَرِ حِیْنَ (۷۶) وَابْتَغِ فِیْ مَآ آتَاکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْآخِرَۃَ وَلاَ تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَاَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ وَلاَ تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ (۷۷) قَالَ اِنَّمَا اُوْتِیْتُہُ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ اَوَلَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَہْلَکَ مِنْ قَبْلِہٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ ہُوَ اَشَدُّ مِنْہُ قُوَّۃً وَّاَکْثَرُ جَمْعًا وَّلاَ یُسْئَلُ عَنْ ذُنُوْبِہِمُ الْمُجْرِمُوْنَ (۷۸) فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہٖ فِیْ زِیْنَتِہٖ قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ قَارُوْنُ اِنَّہُ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ (۷۹) وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوتُوا الْعِلْمَ وَیْلَکُمْ ثَوَابُ اللّٰہِ خَیْرٌ لِّمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً وَّلاَ یُلَقّٰہَا اِلاَّ الصّٰبِرُوْنَ (۸۰) فَخَسَفْنَا بِہٖ وَبِدَارِہِ الْاَرْضَ فَمَا کَانَ لَہُ مِنْ فِئَۃٍ یَّنْصُرُوْنَہُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَمَا کَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ (۸۱) وَاَصْبَحَ الَّذِیْنَ تَمَنَّوْا مَکَانَہُ بِالْاَمْسِ یَقُوْلُوْنَ وَیْکَاَنَّ اللّٰہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ لَوْلَآ اَنْ مَّنَّ اللّٰہُ عَلَیْنَا لَخَسَفَ بِنَا وَیْکَاَنَّہُ لاَ یُفْلِحُ الْکَافِرُوْنَ (۸۲) تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لاَ یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلاَ فَسَادًا وَّالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ (۸۳) مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہُ خَیْرٌ مِّنْہَا وَمَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَۃِ فَلاَ یُجْزَی الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّآتِ اِلاَّ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (۸۴)
اس قصے کے آغاز میں قارون کے بے انتہا مال ودولت کے ذکر کے بعد ارشاد ہوتا ہے:
آیت ۷۷: ’’اللہ نے تجھے جو مال ودولت دیا ہے، اس کے ذریعے تو اپنی آخرت کو بنا‘‘ ۔
یعنی اللہ کے راستے میں خرچ کر کے اپنی آخرت کو سنوار۔ اس سے پتہ چلا کہ مال خود بری چیز نہیں لیکن اگر مال سے صرف اور صرف دنیا کی زندگی ہی بنائی جائے تو وہ بے کار چیز ہے، لیکن مال سے آدمی اپنی آخرت کی زندگی بھی بنا سکتا ہے۔ قرابت داروں، یتیموں اور مساکین کے ساتھ سلوک کر کے یا فلاح وبہبود یعنی ہسپتال، مساجد، اسکول، مدارس وغیرہ قائم کر کے اپنی آخرت کا بہترین سامان کر سکتا ہے، اس صورت میں مال برا نہیں۔ ’وَابْتَغِ فِیْ مَآ آتَاکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْآخِرَۃَ‘ کے جملے سے اس کی ترغیب دی گئی ہے تاکہ فلاحی کام کیے جا سکیں جن سے آخرت بنتی ہے۔
’’اور دنیا میں جو تمھارا حصہ ہے، اس کو بھی نہ بھولو‘‘۔
دنیا کی ضروریات مثلاً گھر، سامان، سواری، ان چیزوں کو بھی حاصل کر سکتے ہو۔ اس حقیقت کو مولانا رومی نے اپنی مثنوی میں اس طرح بیان فرمایا ہے:
چیست دنیا از خدا غافل بدن
نے قماش ونقرہ وفرزند وزن
یعنی دنیا داری خدا سے غافل رہنے کا نام ہے، کپڑے لتے، چاندی (مال) اور اولاد وبیوی کا نام نہیں۔
’’اور اللہ نے جس طرح تمھارے ساتھ اچھائی کی ہے، تم بھی ایسے ہی لوگوں کے ساتھ بھلائی کرو اور زمین میں فساد پھیلانے کی آرزو نہ کرو۔‘‘
دیکھیے اسلام نے کیسا اچھا اصول معاشرے میں بھلائی پھیلانے کے لیے پیش کیا ہے۔ اللہ نے تمھارے ساتھ بھلائی کرتے ہوئے تمھیں مال ودولت میسر کیا تو تم بھی لوگوں کے ساتھ بھلائی کے کام کرو۔ افسوس ہے کہ اگرچہ ہمیں قرآن نے فلاحی کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے لیکن مسلمان ممالک کے کروڑ پتی، ارب پتی اس درجے کے فلاحی کام نہیں کرتے جیسے فورڈ فاؤنڈیشن (Ford Foundation) یا راک فیلر فاؤنڈیشن (Rockfeller Foundation) وغیرہ کرتے ہیں۔
فساد عربی زبان کا ایک عام لفظ ہے۔ ہر خرابی، خواہ وہ فکری ہو یا مادی، ا س میں شامل ہے۔ ’فسد اللبن‘ کے معنی ہیں: دودھ پھٹ گیا۔ فساد کے مقابل میں صلاح کا لفظ ہے۔ جو آدمی اصلاح نہیں کر رہا، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ فساد کر رہا ہے۔ جو لوگ اپنے مال کو فتنہ وفساد پھیلانے یا برائیوں کو عام کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، وہ بڑا گناہ کرتے ہیں اور قرآن کی رو سے فسادی ہیں۔
آیت ۷۸: ’’اس (قارون) نے کہا کہ یہ مال ودولت تو میں نے اپنے علم سے حاصل کی ہے (یعنی اپنی مہارت اور اپنی دانش سے حاصل کی ہے) کیا اس (قارون) کو معلوم نہیں کہ اس سے پہلے جو زیادہ طاقتور اور زیادہ لاؤ لشکر رکھنے والے تھے، ان کو اللہ نے ہلاک کر دیا اور مجرموں سے اللہ ان کے گناہوں کے بارے میں پوچھتا نہیں ہے، (بلکہ ان کے جرائم اور ان کے گناہوں کی پاداش میں ان کو بغیر کسی پوچھ گچھ کے ہلاک کر دیا جاتا ہے)‘‘
آج خلیج کے علاقے میں جو لوگ ہیں، ان میں سے ایک ایک کے پاس سو سو قارونوں کے برابر دولت ہے مگر یہ اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے اور نہ مسلمانوں پر جو مصائب آتے ہیں، مثلاً بوسنیا میں، چیچنیا میں، ان پر صرف کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو عالمی سیاست میں بے مقام اور خوار کر رکھا ہے۔ وہ اپنے مال کے مختار نہیں ہیں۔ وہ امریکہ کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے۔ ان کے ساتھ ان کے گناہوں اور جرائم کی صورت میں وہ ہو سکتا ہے جو قارون کے ساتھ کیا گیا۔
آیت ۷۹: ’’ایک دن وہ (قارون) پوری شان وشوکت کے ساتھ باہر نکلا۔‘‘
’یوم الزینۃ‘ ان کے ہاں جشن کا دن تھا۔ اس کی تفصیل قرآن میں نہیں لیکن Jewish Encyclopaedia میں ہے کہ اس کے ساتھ پانچ ہزار زرق برق باندیاں تھیں اور بہت سے گھڑ سوار تھے اور حشم وخدام وغیرہ تھے۔ یہ سب شان وشوکت دیکھ کر :
’’جو لوگ دنیا کی زندگی کے خواہش مند تھے، وہ کہنے لگے، کاش جیسا مال ودولت قارون کو دیا گیا، ہمارے پاس بھی وہ سب کچھ ہوتا۔ وہ تو بڑا نصیب والا ہے۔‘‘
کسی بڑے سرمایہ دار کو دیکھ کر ہم میں سے بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ کاش ہم بھی اس طرح سرمایہ دار بن جائیں۔ اس قصے سے معلوم ہوا کہ ایسی آرزو کرنا بڑی غلط بات ہے۔
آیت ۸۰: ’’جن لوگوں کو (حق کا) علم دیا گیا تھا، انھوں نے کہا، کیا بات کرتے ہو، خدا کی تم پر پھٹکار ہو۔ اللہ کا ثواب اس شخص کے لیے بہتر ہے جو ایمان لائے اور نیک کام کرے۔ اور اس بات کو وہی سمجھ سکتے ہیں جو ایمان پر جمے ہوئے ہیں۔‘‘
اس سے یہ سبق نکلتا ہے کہ صاحب ایمان نیک لوگوں کو کسی کافر ومغرور دولت مند کو دیکھ کر یہ خواہش نہیں کرنی چاہیے کہ ان کو بھی اس کے جیسی دولت مل جائے، بلکہ ان کو اللہ کے ثواب کا طلب گار رہنا چاہیے۔
آیت ۸۱: ’’پھر اس غرور کی وجہ سے ہم نے اسے (قارون کو) زمین میں دھنسا دیا اور اس کا گھر بھی۔ اس کا کوئی ایسا جتھا نہ تھا جو اللہ کے مقابلے میں اس کی مدد کو آتا اور نہ وہ کسی سے انتقام لے سکتا تھا۔‘‘
اب اس کے بعد دوسرے گروہ کا ذکر آتا ہے:
آیت ۸۲: ’’سو صبح ہوئی تو وہ لوگ جو کل اس جیسا مقام حاصل کرنے کی تمنا کر رہے تھے، کہنے لگے، ارے معلوم تو یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے رزق میں چاہے، کشایش پیدا کر دیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے، رزق تنگ کر دیتا ہے۔‘‘
یعنی جس کو بہت رزق دیا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اللہ کا محبوب بندہ ہے۔ غریب آدمی اللہ کا زیادہ محبوب ہوتا ہے۔ یہ نیک لوگ قارون کا یہ حشر دیکھ کر کہنے لگے:
آیت ۸۳: ’’اگر اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان نہ ہوتا تو ہمیں بھی زمین میں دھنسا دیتا۔ (ہماری اس آرزو کی وجہ سے کہ ہمیں بھی قارون کی طرح دولت مل جائے) معلوم تو ایسا ہوتا ہے کہ کافر کامیاب نہیں ہوتے۔‘‘
یعنی ناشکرے کامیاب نہیں ہوتے۔
اس پورے قصے کاخلاصہ اب آگے آنے والی آیت میں بتایا گیا ہے:
آیت ۸۳: ’’یہ آخرت کا گھر ہم نے بنایا ہے ان لوگوں کے لیے جو نہ تو دنیا میں سربلندی کے متمنی ہوتے ہیں اور نہ فساد کرتے ہیں اور اچھا انجام ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ کی نافرمانی سے بچتے ہیں۔‘‘
اس کے بعد ایک عام اصول بیان کیا گیا ہے:
آیت ۸۴: ’’جو آدمی اچھائی کرے گا، ا س کو اللہ تعالیٰ اس سے بہتر عطا فرمائے گا، لیکن جو برائی کرے گا، اس کو وہی بدلہ ملے گا۔‘‘
یعنی ایک نیکی کے مقابلے میں دس نیکیاں ملیں گی بلکہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ سات سو گنا تک اللہ بڑھا دیں گے۔ اس کے بالمقابل ایک برائی کے بدلے میں ایک ہی سزا ملے گی۔
یہ اس قصے کا خلاصہ ہے کہ وہ قارون جس کو اللہ تعالیٰ نے اتنا مال ودولت دیا تھا، اس کو یہ توفیق نہیں تھی کہ نیکیاں کرے او اس کے بدلے میں سینکڑوں گنا ثواب حاصل کرے، بلکہ اس نے تکبر کیا جس کے نتیجے میں اسے نہ تو دنیا میں فائدہ حاصل ہوا اور نہ ہی آخرت میں ہوگا۔ اس سے مسلمانوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ اگر وہ تکبر نہ کریں اور اللہ کے دیے ہوئے مال کو اللہ کی راہ میں فلاحی کاموں میں خرچ کریں تو ان کی دنیا بھی آباد ہوگی اور آخرت بھی۔ غریب کو مال ودولت والے آدمی کو دیکھ کر یہ تمنا نہیں کرنی چاہیے کہ مال ودولت مل جائے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخرت کے ثواب کی تمنا اور امید رکھنی چاہیے۔