حضرت مولانا سید سلمان الحسینی، استاذ حدیث ندوۃ العلماء لکھنو کی یہ کتاب درحقیقت امام ولی اللہ دہلوی کی معرکہ آرا کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے ایک اہم باب ’’اسباب اختلاف ائمہ‘‘ کے متعلق ایک نہایت بصیرت افروز اور محققانہ تبصرہ ومحاکمہ ہے۔ یہ اس دور کا اہم تقاضا بھی ہے کہ فروعی اختلافات میں شدت کو ختم کر کے دین کو ایک متفقہ لائحہ عمل کے طور پر سامنے لایا جائے۔
اسلام خالق کائنات کی طرف سے بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے آیا ہے۔ کائنات اور زمانہ ترقی پذیر ہے، ا س کے تقاضے اور ضروریات ہر آن بدلتے رہتے ہیں۔ نئے نئے تقاضے اور پہلو سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس لیے قرآن وسنت میں اتنی گہرائی، وسعت اور ہمہ گیری قدرت نے پنہاں کر دی کہ قیامت تک ہر ہر زمانہ ومکان کی انسانی ضروریات کے لیے کافی ہوں، مگر قرآن وسنت کی گہرائی میں غواصی کر کے وقت کے تقاضوں میں رہبری حاصل کرنا ہر فرد بشر کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر صدی میں ایسے اشخاص رونما ہوتے رہے ہیں جو دین کو ہر طرح کی آمیزش، تحریف اور غلط تاویل سے نکھار کر اسے اپنی اصل شکل وصورت میں لے آتے ہیں جیسے کسی بیش قیمت ہیرے پر سے گرد وغبار کو صاف کر دیا جائے تو وہ اصل حالت میں چمکنے دمکنے لگتا ہے اور مرور زمانہ کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
بعض شخصیات ایسی جامعیت وعبقریت لیے ہوتی ہیں کہ ان کی فکر اور دماغی قوت وبصیرت اپنے دور سے بہت بعد تک کا احاطہ کر لیتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ وقت آ جاتا ہے تو ان کے علوم وافکار اور نتائج اجتہاد نکھر کر سامنے آتے ہیں۔ مثلاً شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کے علوم وافکار سے اگرچہ محدود طور پر ہر زمانے میں اہل علم واقف تھے، مگر ان کی وفات کے تقریباً ۶۰۰ سال بعد سعودی عرب میں آل سعود کی حکومت قائم ہوئی جس نے حنبلی فقہ ومسلک کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ امام ابن تیمیہ کے تمام اجتہادات وتفردات کا وکیل اور ترجمان بن کر اپنے وسیع وسائل سے امام موصوف کی تمام کتب آب وتاب سے شائع کر کے دنیا بھر میں پھیلا دیں۔ اسی طرح امام ولی اللہ دہلویؒ (۲۱ فروری ۱۷۰۳-۲۰ اگست ۱۷۶۲ھ) کے افکار ونظریات، ایک طویل زمانے تک زاویہ خمول میں رہے ہیں۔ ان سے خاص خاص اہل علم ہی واقف تھے۔ آپ کی پہلی کتاب آپ کی وفات سے تقریباً ۱۲۰ سال بعد ۱۸۸۰ء میں محدودتعداد میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد ۱۹۱۱ء میں مصر کے مشہور مطبع بولاق نے حجۃ اللہ البالغہ شائع کی جس سے امام ولی اللہ دہلوی کا چرچا برصغیر سے نکل کر عرب دنیا میں شروع ہوا۔ بیسویں صدی کے آخر تک آپ کی بیشتر کتب برصغیر کے مختلف اداروں سے شائع ہو کر گھر گھر پہنچ چکی تھیں۔ جگہ جگہ آپ کے نام پر ادارے، اکیڈیمیاں اور ریسرچ سنٹر قائم ہوئے۔ آپ کے نام پر ایوارڈ کا سلسلہ شروع ہوا۔ برصغیر اور دنیا بھر کی یونیورسٹیوں نے آپ کے نام پر چیئرز اور تحقیقی شعبے قائم کیے۔ آپ کی فکر اور علوم پر وسیع کام شروع ہوا، حتیٰ کہ امریکہ کی ایک نومسلم اسکالر ڈاکٹر مارسیا کے ہرمنسن (Marcia K. Hermansen) نے بھی آپ پر پی ایچ ڈی کی۔
شاید اللہ تعالیٰ نے اکیسویں صدی کے لیے آپ کے علوم وافکار کو محفوظ رکھا ہوا ہے۔ علم الٰہی میں وہ وقت آ گیا ہے جب آپ کے علوم وافکار کی عام ترویج ہو اور اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں آپ کی تصانیف اور فکر میں اس قدر کام ہو چکا ہے کہ اب ہر مکتب فکر اور گروہ اپنی نسبت آپ کی طرف کرنا اپنے لیے باعث عز وشرف سمجھ رہا ہے، حتیٰ کہ وہ گروہ جن کے تصور اسلام میں تصوف واحسان کے لیے کوئی گنجایش نہیں اور جن کے نزدیک نفس تصوف واحسان زیغ وضلال ہے اور جن کی شدت وانتہا پسندی کا یہ عالم ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان انھیں مشرک اور بدعتی نظر آتے ہیں، وہ بھی اپنی نسبت اس امام ولی اللہ دہلوی کی طرف کر رہے ہیں جو زندگی بھر تصوف واحسان پر عامل رہا اور اس موضوع پر اس کی آدھ درجن سے زیادہ مستقل تصانیف ہیں، جیسے لمعات، وحدۃ الوجود والشہود، القول الجمیل، التفہیمات الالٰہیہ، الطاف القدس، الخیر الکثیر، انفاس العارفین وغیرہ۔ جس کا اصل سلسلہ، نقشبندیہ مجددیہ تھا، مگر اس نے اپنی جامعیت سے چاروں سلسلوں کو جمع کیا۔ اس وقت برصغیر میں چاروں سلسلوں میں بیعت کا جو رواج ہے، وہ آپ ہی کا فیض ہے۔ برصغیر کے تصوف کے بیشتر سلسلے آپ کے جلیل القدر صاحبزادے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ تک منتہی ہوتے ہیں۔
امام ولی اللہ دہلوی کی سب سے نمایاں خصوصیت جامعیت وتطبیق ہے۔ شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں:
’’شاہ ولی اللہ کی ایک نمایاں خصوصیت ان کی جامعیت ہے، یعنی وہ اختلافی مسائل میں ایسا راستہ ڈھونڈتے ہیں اور اپنی علمی وسعت اور ذہانت کی مدد سے اکثر ایسا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس پر فریقین متفق ہو سکیں۔‘‘ (موج کوثر، ص ۵۳۶)
معلوم ہوتا ہے یہ آپ کی خاندانی خصوصیت ہے۔ چنانچہ مولانا عبید اللہ سندھی، شاہ ولی اللہ کے والد اور چچا کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:
’’ہر دو بھائیوں کے خاص نظریات کا ماحصل ایک ایسی شاہراہ بنانے کی سعی ہے جس پر مسلمان فلاسفرین (صوفیہ ومتکلمین) اور فقہا ساتھ ساتھ چل سکیں۔‘‘ (ایضاً، ص ۵۳۶)
خود شاہ ولی اللہ کے الفاظ میں آپ کا فقہی مسلک فقہی مذاہب میں تطبیق کی صورت نکالنا ہے: ’’بقدر امکان جمع می کنم در مذاہب مشہورہ‘‘ ۔ آپ کے والد اور چچا حنفی تھے، لیکن محبوب استاد شیخ ابو طاہر مدنی شافعی تھے۔ اگر آپ کا بس چلتا تو چاروں فقہی مذاہب یا کم از کم دو مشہور فقہی مذاہب (حنفی وشافعی) کو ملا کر ایک کر دیتے، کیونکہ یہی دو مذاہب امت میں زیادہ مشہور وشائع ہیں۔ چنانچہ آپ ’’تفہیمات‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’اس وقت جو امر حق ملا اعلیٰ کے علوم سے مطابقت رکھتا ہے، وہ یہ ہے کہ دونوں کو ایک مذہب کی طرح کر دیا جائے۔ دونوں کے مسائل کو حدیث نبوی کے مجموعوں سے مقابلہ کر کے دیکھا جائے۔ جو کچھ ان کے موافق ہو، اس کو رکھا جائے اور جس کی کچھ اصل نہ ہو، اس کو ساقط کر دیا جائے۔ پھر جو چیزیں تنقید کے بعد ثابت نکلیں، اگر وہ دونوں میں متفق علیہ ہوں تو مسئلہ میں دونوں قول تسلیم کیے جائیں۔‘‘ (ایضاً، ص ۵۸۲)
اگر احادیث کی تدریس میں امام ولی اللہ دہلویؒ کا طریقہ جو آپ نے اپنی مشہور کتب موطا امام مالک کی عربی وفارسی شروح ’المسویٰ‘ اور ’المصفیٰ‘ میں اختیار فرمایا تھا، جاری رہتا تو بڑی حد تک فقہی اختلافات کی شدت اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی ہی میں ختم ہو جاتی اور ملت اسلامیہ کے عوام الناس کے لیے دین پر چلنے کی ایک متفقہ شاہراہ سامنے ہوتی۔ مگر بدقسمتی سے حضرت شاہ ولی اللہؒ کے فوراً بعد ہندوستان کا علمی مرکز ثقل دہلی سے لکھنو منتقل ہو گیا جہاں غالی اہل تشیع کی حکومت نے قرآن وحدیث کے درس کو ختم کرنے اور معقولات کی ترویج کی ہر امکانی کوشش کی۔ خود دہلی میں ابو المنصور صفدر جنگ نے مغلیہ سلطنت پر غاصبانہ قبضہ کر کے یہی کچھ کیا۔
حضرت امام ولی اللہ دہلوی کے فلسفہ وفکر کے عظیم شارح مولانا عبید اللہ سندھی تھے، مگر ان کے بعض شاگردوں نے ان کی فکر کو پوری طرح ہضم کیے بغیر ان کی طرف بعض کمزور باتیں منسوب کر کے مولانا کی شخصیت کو سخت نقصان پہنچایا۔ ان کے بعد دار العلوم دیوبند کے مہتمم قاری محمد طیب صاحب کا ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کا درس مشہور تھا۔ زمانہ قریب میں مفکر اسلام مولانا ابو الحسن علی ندویؒ اور مولانا منظور نعمانی فکر ولی اللہی کے علم بردار تھے۔ اس کی جھلک ’ارکان اربعہ‘ اور ’معارف الحدیث‘ میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اب چند سالوں سے ندوۃ العلماء کے استاذ حدیث مولانا سلمان الحسینی کے حجۃ اللہ البالغہ پر درس مشہور ہو رہے ہیں۔ مولانا سلمان صاحب مدظلہ نے گزشتہ چند سالوں سے لندن میں علماء کرام کو خصوصی طور پر حجۃ اللہ کا درس دیا۔ ۲۰۰۳ء میں لندن کے معروف تعلیمی ادارے ابراہیم کمیونٹی کالج میں اور ۲۰۰۴ میں انگلینڈ کے شہر لیسٹر میں یہ درس بہت کام یاب رہا جس میں علماء کرام کی ایک بڑی تعداد نے بھرپور دلچسپی کے ساتھ شرکت کی۔ مولانا نے وقت کے تقاضے اور احوال کی مناسبت سے درس میں حجۃ اللہ البالغہ کے اس حصے پر خصوصی توجہ مبذول کی جو باب دوم کے تتمہ میں ’اسباب اختلاف الائمہ‘ کے عنوان سے ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اس وقت فقہی اختلافات کی شدت کو کم کرنے کی جتنی ضرورت ہے، اتنی شاید کبھی نہیں تھی، کیونکہ موجودہ دور ہوائے نفس اور اعجاب بالرائے کا دور ہے۔ اختلافات میں انسان کے لیے نفسیات واغراض پر دین کا لبادہ ڈالنا آسان ہوتا ہے۔ غور کیا جائے تو فی زماننا دین کے نام سے ہمارے نوے فی صد اختلافات فی الحقیقت تعصبات اور نفسانیت کے اختلافات ہیں۔ اختلافات کی شدت کم کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ زمین کی طنابیں کھینچ دی گئی ہیں، اور پوری دنیا ایک بستی (گلوبل ولیج) بن چکی ہے اور پوری دنیا پر اہل شر وفساد اور معاندین اسلام کا پوری طرح تسلط قائم ہو چکا ہے۔ ان احوال میں فروعی اختلافات اور مسلک وذوق کے اختلافات میں فکر ولی اللہی کے مطابق اعتدال وتوازن اور وسعت ظرفی کے ساتھ تطبیق کی اشد ضرورت ہے۔
ایک زمانہ تھا جب سو ڈیڑھ سو میل کے فاصلے پر زبان، تمدن، معاشرت اور رہن سہن کے طور طریقے بدل جاتے تھے، مگر اب تیزی سے پوری دنیا کا کلچر، معاشرت، لباس اور طرز زندگی ایک سا ہوتا جا رہا ہے، بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں کافرانہ (مغربی) ہوتا جا رہا ہے۔ درحقیقت یہ تمہید ہے اس بات کی کہ جلد ہی دنیا کا مذہب بھی ایک یعنی اسلام ہوگا، کیونکہ قبول حق میں ایک رکاوٹ کلچر، تمدن اور طرز زندگی کا اختلاف بھی رہا ہے۔ احادیث پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ قرب قیامت میں پوری دنیا ایک ہی مذہب (اسلام) کی طرف گامزن ہو جائے گی، اس لیے علماء کرام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دور اور اس کے تقاضوں کو سمجھیں اور فروعی اختلافات کی شدت ختم کر کے اسلام کو ایک متفقہ شاہراہ کے طور پر پیش کریں۔ اگرچہ آل سعود کے سیاسی جرائم بے شمار ہیں، مگر ان کے گنتی کی چند حسنات میں ایک یہ بھی ہے کہ انھوں نے حرم میں ایک امام پر امت کو مجتمع کر دیا۔ اگر آج وہاں ماضی کی طرح چار مصلے ہوتے تو کس قدر بد نمائی اور جگ ہنسائی کا موقع ہوتا اور اسلام کے آفاقی نظام وفکرکو پیش کرنا مزید دشوار ہو جاتا۔
امام ولی اللہ دہلوی کے متعلق مولانا شبلی نعمانی ’’تاریخ علم کلام‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ابن تیمیہ اور ابن رشد کے بعد بلکہ خود انھیں کے زمانے میں مسلمانوں میں جو عقلی تنزل پیدا ہوا تھا، اس کے لحاظ سے یہ امید نہ رہی تھی کہ پھر کوئی صاحب دل ودماغ پیدا ہوگا، لیکن قدرت کو اپنی نے رنگیوں کا تماشا دکھانا تھا کہ اخیر زمانے میں جبکہ اسلام کا نفس باز بین تھا، شاہ ولی اللہ جیسا شخص پیدا ہوا جس کی نکتہ سنجیوں کے آگے غزالی، رازی اور ابن رشد کے کارنامے ماند پڑ گئے۔‘‘
نواب صدیق حسن خان بھوپالی لکھتے ہیں:
’’اگر آپ صدر اول اور پہلے زمانے میں ہوتے تو امام الائمہ اور تاج المجتہدین سمجھے جاتے۔‘‘
(ایضاً، ص ۵۵)
آپ کی شاہکار تصنیف ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے متعلق علامہ شبلی لکھتے ہیں:
’’مذہب دو چیزوں کا مرکب ہے، عقائد واحکام۔ شاہ صاحب کے زمانے تک جس قدر تصانیف لکھی جا چکی تھیں، صرف پہلے حصے کے متعلق تھیں۔ دوسرے حصے کو کسی نے مس نہیں کیا تھا۔ شاہ صاحب پہلے شخص ہیں جنھوں نے اس موضوع پر کتاب لکھی۔‘‘
نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں:
’’حجۃ اللہ جیسی کوئی تصنیف پہلے بارہ سو سال میں کسی نے نہیں لکھی، نہ کسی عربی نے نہ عجمی نے۔‘‘ (ترجمہ از رود کوثر)
حضرت امام ولی اللہ دہلوی کی قدرت کلام اور اعجاز اظہار کا یہ عالم ہے کہ آپ نے بیک وقت عربی وفارسی میں مہتم بالشان مسائل وموضوعات اور سنگین ونازک مسائل پر مجتہدانہ شان سے اظہار خیال فرمایا۔ آپ کی تصانیف کو درجہ کمال تک پہنچانے میں آپ کے اسلوب تحریر، دقت نظر اور سلامت فہم کے ساتھ ساتھ خود انشا وتحریر کے معجزانہ طرز کا بھی خاص حصہ ہے۔ یہ اسی کا اعجاز ہے کہ حجۃ اللہ البالغہ جیسی تصنیف وجود میں آئی جو بقول مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے اس مرتبہ کی حامل ہے کہ کسی مذہب کی تائید اور اس کی حکیمانہ توجیہ اور کسی نظام کی فلسفیانہ تشریح میں کسی زمانے میں ایسی کتاب نہیں لکھی گئی اور اگر لکھی گئی تو وہ دنیا کے سامنے نہیں ہے۔
بدیہی حقیقت ہے کہ اسلام کی بنیاد قرآن وحدیث پر ہے۔ برصغیر میں قرآن کا فارسی ترجمہ فتح الرحمن کے نام سے حضرت شاہ ولی اللہ نے کیا۔ اس کے بعد آپ کے جلیل القدر فرزندان حضرت شاہ عبد القادر اور شاہ رفیع الدین نے اردو تراجم کیے۔ یہی تراجم اب تک برصغیر کے تمام تراجم کی اصل واساس ہیں۔ اگرچہ کہا جاتا ہے کہ فارسی میں شیخ سعدیؒ اور قاضی شہاب الدین دولت آبادی نے ترجمہ کیا تھا، مگر وہ کبھی بھی متداول نہیں ہو سکے۔ اسی طرح شاہ ولی اللہ سے پہلے برصغیر کا نصاب تعلیم مشارق الانوار (شرح مشکوۃ) جیسی ایک آدھ کتاب کے علاوہ کتب احادیث سے بالکل خالی تھا۔ یہ امام ولی اللہ دہلوی کی برکت ہے کہ صحاح ستہ نصاب تعلیم کا حصہ بنیں۔ اگرچہ آپ سے پہلے شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ نے کتب احادیث کی ترویج کی کوشش کی، مگر بوجوہ کامیاب نہ ہو سکے۔ اسی طرح مغلیہ دور سے پہلے گجرات میں شیخ علی متقی اور علامہ طاہر پٹنی وغیرہ نے کتب حدیث کے درس وتدریس کا سلسلہ جاری فرمایا تھا مگر گجرات پر مغلوں کے قبضہ کے بعد وہ ختم ہو گیا۔ حضرت امام ولی اللہ دہلوی نے احادیث پر مجتہدانہ بصیرت سے کلام فرمایا اور تدریس میں صحاح ستہ بلکہ بخاری شریف پر بھی موطا امام مالک کو ترجیح دی۔ آپ نے ’المصفیٰ‘ کے نام سے فارسی میں اور ’المسویٰ‘ کے نام سے عربی میں موطا کی شرحیں لکھیں۔ غرض گزشتہ صدیوں میں برصغیر میں قرآن اور احادیث پر جو بھی کام ہوا ہے یا ہو رہا ہے، ان سب کا سہرا امام ولی اللہ کے سر ہے۔ یہ سب آپ کا صدقہ وطفیل ہے۔ نیز آپ کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے آنے والے دور کے لیے حجۃ اللہ البالغہ میں ایک جدید علم کلام کی بنیاد رکھ دی۔ چنانچہ آپ حجۃ اللہ البالغہ کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
’’مصطفوی شریعت کے لیے وقت آ گیا ہے کہ برہان ودلیل کے پیراہنوں میں ملبوس کر کے اسے میدان میں لانا چاہیے۔‘‘
یہ ایک نئے علم کلام کا پیغام تھا۔ اللہ تعالیٰ کی سنت رہی ہے کہ ہر دور کی ضرورت کے مطابق حقائق ومعارف اپنے خاص بندوں کے دلوں پر القا فرماتے ہیں اور انھیں اپنے زمانے کی ضرورتوں کے مطابق اسلام کی خدمت کے لیے متوجہ فرماتے ہیں۔ امام ولی اللہ دہلوی نے فلسفہ یونانی کی جگہ ایک نئے فلسفہ اور علم کلام کی بنیاد رکھی جسے بجا طور پر فلسفہ ایمانی کہا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ کے دور میں انگریز کے قدم جنوب مشرقی ہندوستان (مدراس وبنگال وغیرہ) میں جم چکے تھے۔ حضرت شاہ ولی اللہ پر اللہ تعالیٰ نے علم اسرار دین منکشف فرمایا۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ آج کے دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے جو مغرب کے لائے ہوئے الحاد وتشکیک کے زہر کا تریاق بن سکتا ہے۔ بعد کے دور میں مغرب کی فکری یلغار کے نتیجے میں فکری انارکی والحاد کا جو سیلاب آیا ہے اور اس نے اسلام کے پیش کردہ نظام حیات پر مسلسل اعتراضات اور حملے کیے، اس نے جدید طبقے کا اعتماد اسلام پر سے متزلزل کر دیا۔ یہی اس دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے جس کا علاج شاہ ولی اللہ کے ایمانی فلسفے میں موجود ہے۔ کاش کہ آپ کے بعد علماء کرام اس فلسفہ سے لیس ہوتے تو انیسویں اور بیسویں صدی میں مغرب کے نظریاتی وفکری حملوں کی کامیاب مدافعت کر سکتے بلکہ اس کا رخ موڑ دیا جاتا۔ اب بھی یہ کام باقی ہے کہ علماء کرام ایمانی فلسفہ سے لیس ہو کر مغرب کے فلسفوں، افکار ونظریات اور علم کلام کا پوسٹ مارٹم کر کے انھی کی زبان واسلوب اور لب ولہجہ میں جواب دیں۔ محدث شہیر حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ کی وصیت کے مطابق علماء کرام کو اپنی توجہ فروعی اختلافات سے ہٹا کر ملت کے حقیقی مسائل کی طرف مبذول کرنی ہوگی۔ یہی وقت کی پکار ہے اور مولانا سلمان الحسینی صاحب کی اس کتاب کا خلاصہ وسبق بھی یہی ہے۔ خدا کرے کہ مولانا سلمان الحسینی کی یہ کاوش کام یابی سے ہم کنار ہو اور وہ جدید علماء کرام میں اس طرز فکر کو عام کرنے میں کام یاب ہوں۔ آمین یا رب العالمین