حضرت عمرؓ کے دور میں بکثرت فتوحات ہوئیں جن کے نتیجے میں مسلمانوں پر مال ودولت کے خزانے کھل گئے اور مسلمانوں کا ایسی تہذیبوں اور تمدنوں سے پالا پڑا جن سے وہ پہلے واقف نہ تھے۔ لہٰذا ناگزیر ہوا کہ خلیفہ دوم ان نئے تہذیبی اور ارتقائی حالات کا مقابلہ ایسے متبادل اصولوں سے کرتے جو اسلامی شریعت اور اس کے عمومی اصولوں ہی سے ماخوذ ہوں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے زندگی کے تمام پہلوؤں میں، خواہ وہ سیاسی ہوں یا اقتصادی، معاشرتی ہوں یا قانونی، ایسی تبدیلیاں روشناس کر ائیں جو ایک طرف امت مسلمہ کی ضرورتوں اور مصلحتوں کو پورا کریں اور دوسری طرف معاشرے کو اسلام کے بنیادی تقاضوں سے بھی دور نہ ہونے دیں۔
خلفائے راشدین میں سے حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ خاص طور پر مسائل شریعت کی نسبت سے ہمیشہ مصالح اور اسباب وعلل پر غور کرتے تھے اور اگر کسی بات کی حکمت ان کی گرفت میں نہ آتی تو حضور سے دریافت کرتے تھے۔ شاہ ولی اللہ نے احکام شریعت کے مصالح اور حکمتوں کے اس خاص علم کو ’’علم اسرار دین‘‘ کا نام دیا ہے اور ان کی معروف کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کا موضوع یہی علم ہے۔ مولانا شبلی نعمانی فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے علم اسرار دین کی بنیاد ڈالی۔ یہاں ایک حدیث کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے حضرت عمر کو جنت کے ایک محل میں اس حالت میں دیکھا کہ وہ لمبی چوڑی قمیض پہنے ہوئے ہیں۔ آپ نے ان کو اپنا پس خوردہ دودھ بھی عطا کیا اور ان دونوں واقعات کی تعبیر دین اور علم کے ساتھ فرمائی۔
خلیفہ اول حضرت ابوبکر حضور سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور سے سنا کہ آپ فرماتے تھے کہ ’’عمرؓ سے بہتر شخص پر کبھی سورج طلوع نہیں ہوا۔‘‘ ابوبکرؓ وعمرؓ انبیاء مرسلین کو چھوڑ کر بوڑھے اہل جنت کے سردار ہیں۔ حضرت علی کی موقوف روایات میں ہے کہ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے پروردگار کی تین مقامات پر موافقت کی: مقام ابراہیم، حجاب اور اساریٰ بدر۔ یہ تینوں موافقات عمر میں شامل ہیں۔ مولانا سید احمد رضا بجنوری نے ’’انوار الباری‘‘ میں اٹھائیس موافقات عمر کا ذکر کیا ہے۔ شاہ ولی اللہ نے اپنی کتاب ’’ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء‘‘ میں ایک سو بارہ آیات کی شرح فرمائی ہے جس میں شیخین کے فضائل ومناقب بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے بہت سی آیات کا تعلق موافقات عمر سے ہے۔ مثال کے طور پر نماز باجماعت کے لیے اذان کا طریقہ اور منافقوں کی نماز جنازہ سے ممانعت اس سلسلے کی دو اہم مثالیں ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ اگر حضرت عمر کسی معاملہ میں یہ کہتے کہ ’’میرا اس کی نسبت یہ خیال ہے‘‘ تو ہمیشہ وہی پیش آتا تھا جو ان کا گمان ہوتا تھا۔ اس سے زیادہ اصابت رائے کی دلیل اور کیا ہوگی۔
یہاں ہم شریعت اسلامی کی تعبیر میں حضرت عمرکے اسلوب اور ان کے طریقہ اجتہاد کی چند مثالیں ذکر کریں گے:
۱۔ جزیہ وہ سالانہ ٹیکس ہے جو اسلامی ریاست میں بسنے والے غیر مسلموں پر عائد کیا جاتا ہے جس کے عوض میں ریاست ان کی جان ومال اور آبرو کی حفاظت کی ذمہ دار قرار پاتی ہے۔ جزیہ کے بارے میں بنی تغلب کے نصاریٰ کی ایک مخصوص حیثیت رہی ہے۔ بنی تغلب زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہو گئے تھے۔ حضرت عمرؓ نے انھیں دعوت اسلام دی جسے انھوں نے قبول نہیں کیا۔ پھر انہیں جزیہ ادا کرنے کے لیے کہا گیا تو اس سے بھی انکار کر دیا اور اس کو انھوں نے اپنی ذلت خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم عرب ہیں، ہم سے وہی لو جو زکوٰۃ کے نام پر تم آپس میں ایک دوسرے سے لیتے ہو۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں کسی مشرک سے زکوٰۃ نہیں لے سکتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے بعض افراد رومیوں سے جا ملے۔ اس پر نعمان بن زرعہ نے کہا، اے امیر المومنین! یہ طاقتور اور بہادر لوگ ہیں اور عرب ہیں، اس لیے جزیہ دینے میں اپنی ذلت محسوس کرتے ہیں، لہٰذا ان سے ایسا سلوک نہ کریں جس سے یہ دشمنوں کے مددگار بن جائیں۔ آپ ان سے زکوٰۃ کے نام پر جزیہ لے لیں۔ چنانچہ حضرت عمر نے ان کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا اور ان پر زکوٰۃ دوگنی کر کے عائد کر دی۔ حضرت عمر کا یہ فیصلہ اسی طرح جاری رہا اور صحابہ میں سے کسی نے اس پر اعتراض نہ کیا۔ اب یہ واضح ہے کہ غیر مسلموں سے زکوٰۃ نہیں، بلکہ بعض مراعات کے بدلے میں جزیہ لیا جاتا ہے، لیکن حضرت عمر نے ایک قومی ضرورت کے پیش نظر جزیہ کا عنوان بدل کر ’زکوٰۃ‘ رکھ دیا۔
۲۔ سیدنا عمر دینی احکام ورسوم کی حفاظت کے سلسلے میں بھی ازحد محتاط اور حساس تھے۔ آپ ’’حجر اسود‘‘ کو بوسہ دیتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے اور تیرے اختیار میں زندگی ہے نہ موت، لیکن تیری تعظیم ہم اس لیے کرتے ہیں کہ حضور نے تجھے بوسہ دیا تھا۔‘‘ آپ نے اس درخت کو کٹوا دیا جس کے نیچے ’’بیعت رضوان‘‘ کی گئی تھی تاکہ لوگ عقیدت کے طور پر اس سے رجوع نہ کریں۔ مسجد نبوی میں منبر تعمیر ہونے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے ایک درخت سے ٹیک لگا کر آپ خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ اس درخت سے لوگوں کی جذباتی وابستگی کے پیش نظر آپ نے اس کو کٹوا دیا۔ درختوں کو کاٹنا بظاہر غیر مناسب اور غیر ضروری نظر آتا ہے، لیکن حضرت عمر کی بصیرت کا تقاضا یہی تھا کہ آئندہ یہ شریعت اسلامی کے محکمات میں رختہ کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ آپ نے ان راستوں کو ہی بند کر دیا جن سے برائی اور گمراہی کا صدور ہو سکتا تھا۔
۳۔ حج ہر صاحب استطاعت مرد وزن پر زندگی میں ایک بار فرض ہے، البتہ عورت پر فرضیت حج کی ایک مزید شرط یہ ہے کہ اس کے ساتھ جانے کے لیے کوئی محرم رشتہ دار موجود ہو۔ حضرت عمر نے ازواج مطہرات کو حج کی اجازت دی اور ان کے ساتھ حضرت عثمان اور حضرت عبد الرحمن بن عوف کو بھیجا۔ معلوم ہوا کہ اگر محرم موجود نہ ہو لیکن ایسے قابل اعتماد رفقا میسر ہوں تو عورت ان کے ساتھ حج کے لیے جا سکتی ہے۔ آج بھی ایسی صورت حال میں اس واقعے کو مثال بنا کر بہت سی ایسی خواتین جنھیں کسی محرم کی رفاقت میسر نہ ہو، حج کی سعادت حاصل کر سکتی ہیں۔
۴۔ ابو عبیدہ بن الجراح نے حضرت عمر کو لکھا کہ ایک شخص نے زنا کا اعتراف کیا ہے۔ حضرت عمر نے ان کو جواباً تحریر کیا کہ اس شخص سے دریافت کیا جائے کہ کیا اسے زنا کی حرمت کا پتہ ہے۔ اگر وہ اقرار کرے تو حد جاری کر دی جائے، ورنہ اسے بتایا جائے کہ یہ ایک حرام فعل ہے۔ اگر اس کے بعد وہ پھر ارتکاب کرے تو اس پر حد جاری کی جائے۔
اسی طرح ایک مرتبہ ایک عورت حضرت عمر کے پاس لائی گئی جو صحرا میں پیاسی تھی۔ اس نے ایک چرواہے سے پانی مانگا۔ چرواہے نے پانی دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ پانی اسی صورت میں مل سکتا ہے کہ تم مجھے اپنے ساتھ بدکاری کی اجازت دے دو۔ اس نے اللہ کا واسطہ دیا لیکن چرواہے نے انکار کر دیا۔ جب عورت کے لیے پیاس ناقابل برداشت ہو گئی تو اس نے چرواہے کو اپنے اوپر قدرت دے دی۔ حضرت عمر نے یہ صورت حال معلوم ہونے پر اس عورت سے حد ساقط کر دی۔
۵۔ عہد فاروقی کا مشہور واقعہ ہے کہ قحط سالی کے زمانے میں آپ نے حد سرقہ ساقط کر دی تھی اور فرمایا تھا کہ قحط کے سال میں قطع ید نہیں کیا جائے گا کیونکہ بھوک نے لوگوں کو سرقہ پر مجبور کر دیا ہے۔
حاطب ابن ابی بلتعہ کے غلاموں نے قبیلہ مزینہ کے ایک شخص کی اونٹنی چرا لی۔ ان غلاموں کو جب حضرت عمر کے پاس لایا گیا تو انھوں نے چوری کا اقرار کر لیا جس پر حضرت عمر نے کثیر بن ابی الصلت کو حکم دیا کہ ان غلاموں کے ہاتھ کاٹ دو۔ لیکن کثیر جب حکم کی تعمیل کرنے لگے تو آپ نے غلاموں کو واپس بلا لیا اور فرمایا: ’’یاد رکھو! بخدا، اگر مجھے یہ معلوم نہ ہوتا کہ تم لوگ غلاموں سے خوب کام لیتے ہو اور ان کو بھوکا رکھتے ہو، یہاں تک کہ اگر کوئی مجبور ہو کر حرام چیز کھالے تو وہ بھی حلال ہو جائے تو میں یقیناًان کے ہاتھ کاٹ ڈالتا۔‘‘ اس کے بعد مزنی سے پوچھا کہ اونٹنی کی قیمت کیا ہوگی؟ اس نے جواب دیا کہ چار سو درہم۔ آپ نے غلاموں کے آقا حاطب کو حکم دیا کہ وہ اونٹنی کے مالک کو چار سو درہم ادا کریں۔
امام احمد بن حنبل سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ اگر لوگ بھوک سے دوچار ہوں اور کوئی شخص مجبور ہو کر چوری کر لے تو کیا اس وقت بھی اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا؟ امام احمد نے غالباً حضرت عمرؓ ہی کے فیصلے کے پیش نظر فرمایا کہ جب اس کو حالت مجبور کرے اور لوگ بھوک اور سختی کے دور سے گزر رہے ہوں تو چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔
یہ تمام واقعات سرسری نظر سے گزر جانے کے نہیں ہیں، بلکہ غور وفکر کر کے ان کی روح تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔ قرآن وحدیث سے اور بھی بہت سے دلائل دیے جا سکتے ہیں جن سے حالات زمانہ اور لوگوں کے مصالح کی رعایت کا ثبوت ملتا ہے۔ مولانا تقی امینی نے اپنی کتاب میں اس بارے میں بڑی مفصل اور مدلل بحث کی ہے۔ اس سلسلے میں نزول قرآن کے اسلوب سے بھی استدلال کیا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم کا نزول دفعۃً نہیں ہوا بلکہ ۲۳ سال کے عرصے میں حسب ضرورت ومصلحت بتدریج نازل ہوا ہے، یعنی جیسی جیسی ضرورتیں پیش آئیں اور جس طرح کے مصالح کی رعایت ناگزیر ہوئی، ان کی مناسبت سے احکام کا نزول ہوتا رہا۔ اس طریق نزول سے ایک طرف حالات وزمانہ کی رعایت کا ثبوت ملتا ہے تو دوسری طرف انسانی زندگی اور قانون کے باہمی ربط کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔
حضرت عمر نے حالات وزمانہ کی رعایت، موقع ومحل کی تعیین، تقدیم وتاخیر، تخصیص وتعمیم اور اطلاق وتقیید کی بہت سی مثالیں قائم کیں جن کی مدد سے بعد میں فقہ کی تدوین کے عظیم الشان کام کا انجام پانا ممکن ہوا۔ آپ نے مشکل مسائل کے استنباط، نئے مسائل کے حل اور معارض روایات میں تطبیق پیدا کر کے شریعت کو زندہ وجاوید رکھنے کا راستہ متعین کر دیا۔ شاہ ولی اللہ نے حضرت عمر کے اسی فہم دین پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ انھوں نے ملکی اور تمدنی مسائل کی طرف خصوصی توجہ مبذول کی جن کی وجہ سے وہ بجا طور پر ’’مجتہد مستقل‘‘ کے خطاب کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی نے ’’الفاروق‘‘ میں لکھا ہے کہ فقہ کے جس قدر مسائل حضرت عمرؓ سے بروایت صحیحہ منقول ہیں، ان کی تعداد کئی ہزار تک پہنچتی ہے۔ ان میں تقریباً ہزار مسائل ایسے ہیں جو فقہ کے مقدم اور اہم مسائل ہیں اور ان تمام مسائل میں ائمہ اربعہ نے ان کی تقلید کی ہے۔ کتب فقہ میں اولیات عمر کی بحث انہی مسائل سے متعلق ہے۔ مولانا شبلی نے بجا فرمایا ہے کہ فقہ کے تمام سلسلوں کے مرجع حضرت عمر ہیں۔ حضرت عمر کے اجتہادات، فتاویٰ ، تفحص احادیث، روایات کی جانچ پڑتال، اصول فقہ، اصول حدیث اور علم اسرار الدین کے حوالے سے یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ ’’فقہ اسلام‘‘ کی بنیاد اور وجود فقہ عمر سے ہی قائم ودائم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرت عمر کے نقوش اجتہاد کی روشنی میں عصر حاضر کے جدید تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے فقہ اسلامی کی تشکیل جدید پر توجہ مرکوز کی جائے اور حالات وواقعات کی رعایت رکھتے ہوئے خلق خدا کے حق میں اسلامی احکام ومسائل کی تعبیر کا وہی طریقہ اختیار کیا جائے جو خود شارع اسلام اور آپ کے بعد حضرت عمر اور حضرت علی نے اختیار کیا۔