بلوچستان کا مسئلہ اس وقت وفاق پاکستان کو درپیش ایک نہایت حساس اور نازک معاملہ ہے۔ اس مسئلے کے حقیقی اور ممکنہ محرکات کوئی پوشیدہ راز نہیں، بلکہ بہت حد تک ظاہر، قابل فہم اور لائق توجہ ہیں۔ بلوچستان، پاکستان کا سب سے بڑا اور سب سے پس ماندہ صوبہ ہے جو معدنی وسائل سے مالامال مگر بڑی حد تک مراعات سے محروم وفاقی اکائی کی شناخت رکھتا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے اہم محل وقوع کا حامل اور تہذیب وثقافت کا مرکز یہ علاقہ گزشتہ دو صدیوں سے بد قسمتی کا شکارہے۔ سامراجی آقاؤں، مستبد وقاہر حکمرانوں اور مفاد پرست سرداروں کی کشمکش کی چکی میں پستے پستے آج بلوچی عوام بے حالی کے مقام پر آ گئے ہیں۔ ظہور پاکستان کے وقت سے ہی خارجی قوتوں کے کردار، اسلام آباد کی مرکزیت پسند حکمرانی اور اختیار واقتدار کے لیے قبائلی سرداروں کی سودے بازی کی فضا میں بلوچی عوام اپنی محرومی اور پس ماندگی کے جنگل میں گم کردہ راہ مسافر کی طرح ہیں اور نہ معلوم کب تک ایسے ہی رہیں گے۔
بلوچستان کی شکایات ومطالبات نئے نہیں، لیکن انھیں سازگار فضا موجودہ عالمی حالات نے فراہم کی ہے۔ دیکھتی آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ اگر طالبان کے خلاف عالمی جنگ میں صوبہ سرحد کی ایک خاص اہمیت تھی تو اب نئے منظر میں ایران کے خلاف کھولے جانے والے محاذ پر بلوچستان کا حساس جغرافیہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ مرکز سے ارتکاز اختیارات کی شکایات بھی پرانی ہیں، مگر لیڈی ڈاکٹر کے ساتھ زیادتی کے واقعہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ پاکستان کے دامن پر بنگالی خواتین کی عزتوں کی پامالی کے داغ ابھی دھلے نہیں تھے کہ ڈاکٹر شازیہ کی بے حرمتی کا شرم ناک واقعہ رونما ہو گیا۔ بلوچستان کی تاریخ وتہذیب سے آشنا جانتے ہیں کہ بنات حوا کی حرمت بلوچی روایات کا نازک معاملہ ہے جسے جدیدیت کے حامل لبرل روشن خیال شاید اس طرح نہیں سمجھتے۔ اس پہلو کو پیش نظر رکھ کر دیکھا جائے تو یہ واقعہ اتفاقی نہیں دکھائی دیتا۔ کوئی نادیدہ قوت ہے جس نے تقدس کے لبادے میں محرومیوں کے بارود میں جلتی تیلی پھینک دی ہے۔ یہ سب کچھ جیسے ہوا، وہ اپنی جگہ، مگر مقدس ادارے سے وابستہ ملزم کو اب تک جس طرح تحفظ فراہم کیا گیا ہے، اس سے وفاق کے دوسرے صوبوں کے عوام بھی حیران رہ گئے ہیں۔
بے شک بلوچستان میں قومی وسائل پر حملے ناقابل برداشت ہیں، مگر کہیں یہ کسی کی برداشت کا امتحان لینے کا نتیجہ تو نہیں؟ اب تک دونوں اطراف سے جو کچھ ہوا، اسے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ وہ آنکھیں صحیح صورت حال سے بے خبر ہیں جو ملک کے معاملات کا فیصلہ کر رہی ہیں۔ اعتدال پسند وروشن خیال صدر مملکت نے بلوچستان کے معاملہ پر تند وتیز لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ’’بلوچ قوم پرستوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ یہ ۷۰ کی دہائی نہیں ہے۔ انھیں پتہ بھی نہیں چلے گا کہ انھیں کیا چیز آ کر لگی ہے۔‘‘ یہ لب ولہجہ وفاقیت کے تقاضوں کے برعکس تھا۔ مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن وفاق کی روح کو گھائل کر چکا تھا، اس لیے عوامی حلقوں نے تنقید کی تو جناب صدر نے ’’حکیمانہ سکوت‘‘ اختیار کر لیا۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ بندوق کی گولی یا تحکمانہ سکوت، دونوں ہی الجھی ہوئی گتھیوں کو نہیں سلجھا سکتے۔
پاکستان آرمی پہلے بھی کئی دفعہ بلوچستان میں کارروائیاں کر چکی ہے۔ سب سے پہلے مارچ ۱۹۴۸ میں جب ریاست قلات کا الحاق پاکستان سے ہوا تو پرنس عبد الکریم نے اس کی مخالفت کی جس کو کچلنے کے لیے فوج یہاں آئی۔ پھر اکتوبر ۱۹۵۸ میں زہری قبائل کی کشاکش ختم کرنے کے لیے فوج کو تعینات کیا گیا۔ ایوب دور میں قبائلیوں سے جھڑپیں جاری رہیں۔ اس کے خاتمے پر بگتی قبیلے سے متعدد تصادم ہوئے۔ ایوبی دور میں کوشش کی گئی کہ بلوچستان کے دانش وروں کو حکومت کا حامی بنایا جائے۔ اس کے لیے ثقافتی وادبی تنظیموں کی سرکاری سرپرستی کی گئی۔ ۱۹۶۱ میں بلوچی اکیڈمی قائم کی گئی مگر ’’دی بلوچی براہوی زبان تحریک پاکستان میں‘‘ ٹی رحمان کے بیان کے مطابق مذکورہ کوششیں ناکام ہو گئیں کیونکہ نوزائیدہ پیشہ ور طبقہ پرنس عبد الکریم کی استامان گال (پیپلز پارٹی) کا حامی تھا۔ یہ پارٹی انجام کار نیپ میں مدغم ہو گئی۔ بلوچستان کا نسلی اور لسانی اختلاط ۱۹۷۱ میں ون یونٹ کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔
ذو الفقار علی بھٹو نے ۱۹۷۱ کے بعد کی داخلی سیاست میں بھی فوج پر انحصار جاری رکھا۔ بنگلہ دیش کے سانحہ کے بعد فوج پھر جدید اسلحہ سے لیس ہو کر بحال ہو چکی تھی۔ R.G. Wirsing اپنی کتاب "The Balochis and Pathans" میں لکھتے ہیں کہ بھٹو نے یونیفارم میں ملبوس افراد کو پھر سیاست میں واپس آنے کی ترغیب دی۔ ۱۹۷۳ سے ۱۹۷۶ تک پچاس لاکھ سے بھی کم اور بکھری ہوئی آبادی والے صوبے میں ۸۰ ہزار فوجی جوانوں کو قبائلی اور صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کرنے والے باغیوں سے نمٹنے کے لیے رکھا گیا۔ قوت کا یہ استعمال جائز مطالبات کو وحشیانہ طریقے سے دبانے کا عمل تھا جس نے علاقائی مخالفت کو جنم دیا اور قومی یک جہتی کو نقصان پہنچایا۔
بلوچستان میں پنجابیوں اور پختونوں کی آمد نے مقامی لوگوں کے احساس تشخص کو مجروح کیا۔ بلوچی دانش ور پاکستانی ریاست میں بلوچوں کی کم تر نمائندگی پر انگشت نمائی کرتے تھے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ ان کے قدرتی وسائل مثلاً گیس وغیرہ سے استفادہ کرتے ہوئے ان کو استحصال کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر مقامی آبادی کو سہولت پہنچانے اور بلوچوں کے مفادات کے تحفظ کے بجائے فوجی نقطہ نظر سے کی جاتی ہے۔ ۱۰ فروری ۱۹۷۳ کے بعد بلوچستان میں قبائلی بغاوت ایک بڑے عسکری تصادم میں تبدیل ہو گئی۔ بلوچستان پیپلز لبریشن فرنٹ میں ۶۰ ہزار کے قریب عسکریت پسند شامل ہو گئے۔ محاذ آرائی کے عروج کے دور میں پاکستان ایئر فورس کی مدد شاہ ایران نے کی جو خود بھی اپنے بلوچ مسئلے پر پریشان تھے۔ بلوچ قبائل ایران کی آبادی کا ۲ فی صد ہیں، لیکن چار باہر کے بحری اور فضائی اڈوں کی تعمیر کے علاوہ ہرمز کے علاقے سے خلیج عمان کو تیل کی ترسیل نے بلوچ قبائل کو اہم بنا رکھا ہے۔ امریکی تجزیہ نگار Slaig Harrison نے اپنے مضمون "Baloch Nationalism and Super Power Rivalry" میں اس وقت ۷۰ کے عشرے میں سوویت خطرے کو غیر ضروری طور پر محسوس کیا تھا۔ فوج اور باغیوں کی لڑائی میں نو ہزار افراد مارے گئے۔ اس دہائی میں فوج کے متحرک کردار کے حوالے سے بھٹو نے موت کی کوٹھڑی میں اپنی آخری تحریر "If I Am Assasinated" میں دعویٰ کیا کہ بلوچستان سے واپسی کے ان منصوبوں کو فوج نے نظر انداز کر دیا کیونکہ جرنیل پورے بلوچستان میں اپنا جال بچھانا چاہتے تھے۔ بعد ازاں بلوچستان اسمبلی کی حیات نو بھی فوج کے جن کو بوتل میں قید نہ کر سکی۔ بھٹو نے اپنے بعد آنے والوں کو بتا دیا تھا کہ شورش زدہ علاقوں میں امن وامان بحال رکھنے کا درست طریقہ ترقیاتی کام ہیں۔ ۸۰ کے بعد کے عشروں میں صوبے کے زخم بھرنے کے لیے مرہم رکھے گئے اور حالات معمول پر آ گئے۔
آج ایک مرتبہ پھر بلوچستان کی صورت حال افواہوں کی زد میں ہے۔ ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ افواہیں بے یقینی کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں، مگر جب کوئی قوم یا ملک ان کی زد میں آ جائے تو سمجھ لیجیے کہ معاشرے میں جگہ جگہ ٹائم بم نصب ہو گئے ہیں جن کے پھٹنے سے سب کچھ تلپٹ ہو کر رہ جائے گا۔ اسی نازک دوراہے پر اعتدال پسندی کا اصل امتحان ہے۔ افواہ زدہ قوموں کو تعمیراتی منصوبوں یا میگا پراجیکٹس کی ضرورت نہیں رہتی۔ وہ تو سنسنی خیز افواہوں کی منتظر ہو کر رہ جاتی ہے۔ بلوچستان کے مسئلے کو جس طرح حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ مزید بہتری کی متقاضی ہے۔ حکمرانوں کی توجہ، ریاضت، اعتدال پسندی، رواداری، تدبر وفراست اور عوام کی اقتدار میں حقیقی معنوں میں شراکت ناگزیر ہے۔ مرکزیت اور اختیارات کا شخصی ارتکاز قومی یک جہتی کا شعور بیدار نہیں کر سکتا۔
وقت کے مسیحاؤں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ قوم وملت کے معمار دھیمے، محکم اور پختہ فکر ہوتے ہیں۔ ہمیں خوش فہمیوں کے گھروندوں سے باہر نکل کر سچ سننا اور سچ کہنا ہوگا۔ یہ امر باعث تشویش ہے کہ قومی یکجہتی اور اتحاد کی ضامن قوتیں پورے ساز وسامان اور بے حد وحساب وسائل کے باوجود مختلف محاذوں پر بٹی ہوئی ہیں۔ وانا سمیت ہم اپنے ہی وطن میں کتنے محاذ کھول کر لڑ سکیں گے؟ گولی مسائل کا حل کبھی نہیں بنی، بلکہ ہمیشہ مسائل کو ضرب دینے کا ذریعہ ثابت ہوئی ہے۔ طوفان پھولوں کو تو تباہ کر سکتا ہے، لیکن کیا اس سے بیج بھی برباد کیے جا سکتے ہیں؟ لازم ہے کہ وفاق کی اکائیوں کو فوجی کارروائیاں نہ ہونے کی ضمانت دی جائے، اس لیے کہ سیاسی مسائل کبھی فوجی طریقے سے حل نہیں ہو سکتے۔
بلوچستان کے مسئلے کی سنجیدگی اور ماوراے آئین تشدد آمیز ہتھکنڈوں کے نتیجے میں اصلاحاتی پیکجوں کی زکوٰۃ مستقل، پائیدار اور مناسب حل نہیں۔ اس سے ہم وفاق کی دیگر اکائیوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ کیا یہ کہ بنیادی حقوق، سہولتوں اور مراعات کے حصول کے لیے دوسرے صوبوں کو بھی یہی طریقہ اختیار کرنا ہوگا؟ قلیل المدت حوالے سے مسائل کے اونٹ کے منہ میں اصلاحاتی پیکجوں کا زیرہ اپنی جگہ، مگر جب تک ملک میں شراکتی جمہوریت کا سچا، کھرا اور دیانت دارانہ نفاذ نہیں ہو جاتا، معاملات ایسے ہی رہیں گے اور صوبوں میں تحفظ کا احساس پیدا نہیں ہو گا۔
یہ حقیقت تسلیم کر لینے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے کہ وفاق پاکستان کو درپیش مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ پاکستان میں فوج کا سیاسی کردار ہے۔ فوج اور انتظامی شعبوں میں پنجاب کی بالادستی کے خلاف علاقائیت کا رد عمل نصف صدی سے موجود ہے۔ اس غلبہ کے متعلق سنجیدہ مگر کھلا مباحثہ وقت کا ایک اہم تقاضا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کا خمیازہ پنجاب کو دوسری اکائیوں کی ناراضی کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے، حالانکہ پنجابیوں کی کثیر تعداد اس ’’پنجاب‘‘ سے آشنا نہیں جس سے سارا ملک ناراض ہے۔ اب وفاق میں اس ’’پنجاب ‘‘ کے کردار پر تدبر وتفکر ضروری ہو گیا ہے جس میں خود پنجابیوں کی بھی ایک بڑی تعداد نہیں رہ رہی۔ مگر یہ ساری سوچ بچار بامقصد، منظم اور باشعور عوامی سیاسی قوتوں کے ذریعے سے ہو، تب ہی خوش گوار تبدیلی ممکن ہوگی۔ حقیقت پسندی کے بغیر اعتدال پسندی خام خیال سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ سیاسیات کے ماہرین کا یہ کہنا غلط نہیں کہ وفاقیت اور جمہوریت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ شراکتی جمہوریت وفاق کی لازمی شرائط میں سے ہے۔ اقتدار واختیار کا ایک شخص، ایک ادارے یا ایک طبقے یا ٹولے تک محدود ہو کر رہ جانا وفاق کے لیے زہر قاتل ہے۔ حد سے زیادہ مرکزیت کی روک تھام نہ کی جائے تو یہ نظام یا تو وحدانی صورت اختیار کر لیتا ہے جیسا کہ سوویت یونین میں ہوا تھا، یا اگر صوبے اور اکائیاں ماورائے آئین مزاحمت پر اتر آئیں جیسا کہ ۱۹۷۱ میں جنرل یحییٰ کے دور میں ہوا تو وفاقی نظام خود ہی اپنے ہاتھوں تباہ ہو جاتا ہے، یا پھر علاقائیت نمو پا کر اس صورت میں ظاہر ہوتی ہے جس طرح یوگو سلاویہ کی تقسیم کی صورت میں ہوئی۔ ۶۰ کے عشرے میں نائیجریا میں بیافران کا بحران (Biafran Crisis) بھی ایسے ہی حالات ومسائل کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان میں وفاقیت کو درپیش مسائل کا حقیقت پسندانہ مطالعہ ضروری ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو طویل المدت منصوبے کے طور پر دھڑا دھڑ سکالر شپس دینے کے ساتھ ساتھ مختلف جامعات میں پاکستان کو درپیش مسائل کے حوالے سے سنجیدہ تحقیق کروانے کا بھی بندوبست کرنا چاہیے تاکہ تعلیمی وظائف قومی مفاد میں استعمال ہو سکیں۔ بالخصوص وفاقیت کے حوالے سے چاروں صوبوں میں اکیڈمک ریسرچ اشد ضروری ہے۔
وفاقیت کے تقاضے حقیقی معنوں میں ذہنی، فکری اور عملی اتحاد ویگانگت ہیں۔ ہمیں ذاتی مفادات، نجی تحفظات، صوبائی تعصبات اور قوم پرستانہ شبہات کو پس پشت ڈال کر ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے نعرے کو عملی شکل دینا ہوگی اور اس کے لیے اجتماعی دانش کو بروئے کار لانا ہوگا۔ آج ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے جس میں ہر فریق اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرے۔ سیاست دان سیاست کریں اور فوج، فوج بن کر رہے۔ ہر کسی کو آئینی حقوق ملیں، مرکز وفاق کا محافظ ہو اور صوبے وفاقیت کے علم بردار بن جائیں۔ ورنہ امریکی تھنک ٹینک آنے والے عشرے میں وفاق پاکستان کے حوالے سے درست اشارے نہیں دے رہے۔ ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہر کوئی اس نیک کام کے لیے تیار ہے۔ بس ان کی آمادگی کی ضرورت ہے جنھوں نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔