(پیر محمد کرم شاہ صاحب الازہریؒ بریلوی مکتبہ فکر کے ایک نامور اور سنجیدہ صاحب علم ہونے کے ناتے ممتاز مقام کے حامل ہیں۔ مسلکی اختلافات میں اعتدال و توازن اور علمی واخلاقی حدود کی پابندی ان کے طرز فکر کی نمایاں خصوصیت ہے اور اسی بنا پر انھیں تمام علمی حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ عقیدۂ ختم نبوت کے حوالے سے بانی دار العلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی ایک عبارت دیوبندی اور بریلوی حلقوں میں ہمیشہ نزاع کا باعث رہی ہے اور بریلوی مکتب فکر کے بہت سے علما کی طرف سے اس عبارت کو ختم نبوت کے انکار کے مترادف قرار دے کر حضرت نانوتویؒ کے خلاف طعن وتشنیع کی جاتی ہے۔ حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ نے اس بارے میں بھی متوازن موقف اختیار کیا اور کہا کہ حضرت نانوتویؒ کی عبارت کا مطلب وہ نہیں ہے جو معترضین بیان کرتے ہیں بلکہ انھیں مذکورہ عبارت کو سمجھنے میں غلطی لگی ہے۔ زیر نظر مضمون میں ان کی علمی ودعوتی جدوجہد کے جن پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے، وہ ہر مکتبہ فکر کے علما وطلبہ کی فکری وعملی تربیت کے حوالے سے خاص طور پر توجہ کے مستحق ہیں اور اسی تناظر میں اس مضمون کو یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔ مدیر)
رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری اب قیامت تک امت محمدیہ ﷺ کے ذمہ ہے ۔ داعی اعظم ﷺکی سیرت ہادیان عالم میں اس حوالے سے ممتاز اور منفرد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو دعوت و تبلیغ کے بنیادی اصولوں کی خود تعلیم ارشاد فرمائی۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے: ’اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَا دِلھُمْ بِاَلَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ‘ (۱)
اس آیت مقدسہ میں دعوت دین کے تین بنیادی اصول بیان ہو ئے ہیں : -iحکمت، -ii موعظہ حسنہ، -iiiبحث و تمحیص کا معقول انداز ۔ رسول کریم ﷺ کی دعوت زندگی انہی اصولوں کی عملی تفسیر اور داعیان اسلام کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ آپ ﷺ نے دعوت دین کے جو مختلف اسا لیب اختیار فرمائے، سیرت طیبہ کے مطالعہ سے ان کی اثر آفرینی کی بے شمار مثالیں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو دعوتِ دین کے مختلف اسالیب کی تعلیم دی ۔ آپ ﷺ کی تر بیت سے براہ راست فیض یاب ہو نے والے صحابہ کرامؓ کے دعوتی کر دار میں بھی انھی اصولوں کا غلبہ نظر آتا ہے۔ ایک غیر تر بیت یا فتہ داعی دعوت دین کے لیے کس قدر غیرموزوں ہے، اس کی وضاحت کرتے ہو ئے پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ رقمطراز ہیں :
’’ ایک نادان اور غیر تر بیت یافتہ مبلغ اپنی دعوت کے لیے اس دعوت کے دشمنوں سے بھی زیادہ ضرر رساں ہو سکتا ہے۔ اگر اس کے پیش کیے ہو ئے دلائل بودے اور کمزور ہوں، اگر اس کا اندازِ خطابت درشت اور معاندانہ ہو گا، اگر اس کی تبلیغ اخلاص اور للہیت کے نور سے محروم ہو گی تو وہ اپنے سا معین کو اپنی دعوت سے متنفر کر دے گا ۔ کیونکہ اسلام کی نشر و اشاعت کا انحصار تبلیغ اور فقط تبلیغ پر ہے، اس کو قبول کرنے کے لیے نہ کوئی رشوت پیش کی جاتی ہے اور نہ جبرو کراہ سے کام لیا جاتا ہے ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ایمان ، ایمان نہیں جس کے پس پر دہ کوئی دنیوی لالچ یا خوف و ہراس ہو اس لیے اللہ تعالیٰ نے خود اپنے محبوب مکرم ﷺ کو دعوتِ اسلامی کے آداب کی تعلیم دی۔‘‘(۲)
گویا دعوتِ دین کی کامیابی میں مر کزی کر دار داعی کا ہے۔ داعی جس قدر تر بیت یافتہ اور انسانی نفسیات کا عالم ہوگا، اسی قدر اس کی دعوت موثر ہو گی۔ ایک جاہل، ان پڑھ اور اجڈ مخاطب کو دعوت کا انداز پڑھے لکھے اور شہر کے رہنے والے سے مختلف ہو نا چاہیے۔
ضیاء الا مت پیر محمد کرم شاہ ؒ داعیانِ اسلام کے اس عظیم سلسلہ کے سر خیل اور میرِ کارواں ہیں جنھوں نے اپنی زندگیاں دعوتِ دین کے لیے وقف کیے رکھیں اور دعوت کے میدان میں شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔ ایک سچے داعی اور عاشق رسول ﷺ کی طرح آپ ؒ نے دعوتِ دین کے وہ جملہ اسا لیب اختیار کیے جو اسوۂ رسول ﷺ ہو نے کی وجہ سے داعیانِ اسلام کا لازمی نصاب ہیں۔ آپ ؒ نے اپنے قول و فعل، تقریر ، تدریس اور تحریر کے ذریعہ ایک عالَم کو متاثر کیا ۔ پیر صاحب ؒ نے دعوتِ دین کی کامیابی کے لیے مخاطبینِ دعوت کی ذہنی استعداد، صلاحیت ،نفسیات اور موقع و محل کی مناسبت سے جو اسا لیب اختیار فرمائے، وہ ایک مستقل موضوعِ تحقیق ہے اور آپ ؒ سے محبت اور عقیدت رکھنے والے احباب پر قرض ہے کہ وہ اس موضوع کا تفصیل سے جائزہ لیں اور ان وجوہات کا تعین کریں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو کارِِ نبوت ﷺ کی انجام دہی میں شاندار کامیابیاں عطا فرمائیں۔
دعوتِ دین کے لیے آپؒ نے جو مختلف اسالیب اختیار فرمائے، درج ذیل عناوین کے تحت ان کی وضاحت کی جا سکتی ہے تا کہ دورِ حاضر کے مبلغین ان سے بھر پور استفادہ کر سکیں ۔ سرِ دست ان سطور میں ضیاء الا مت ؒ کے تحریری سر مایہ سے چند مثالیں پیش کر کے اس حقیقت کی وضاحت کی جا رہی ہے کہ مخاطبینِ دعوت کو متاثر کر نے کے لیے کس طرح آپ ؒ نے اسوہ رسول ﷺکی پیروی کی اور صحابہ کرامؓ اور داعیانِ اسلام کے طریقِ دعوت کی بھر پور خوشہ چینی کی۔
داعی کی دل سوزی / اخلاص و للہیت
اگر داعی کی نیت صحیح اور خالص ہو اور اس کا مقصود رضائے الٰہی کا حصول ہو تو نہ صرف وہ عند اللہ اجر و ثواب کا مستحق ہو گا بلکہ اس کی بات میں اثر بھی زیادہ ہو گا۔ لوگ نہ صرف اس کی بات کو زیادہ توجہ سے سنیں گے بلکہ اس پر عمل پیرا بھی ہوں گے ۔ کوئی شخص اس وقت تک اپنے تاریخی پس منظر، نظریاتی وابستگی اور خاندانی وقار کے تقاضوں کو نہیں بھلا سکتا ، جب تک اسے داعی کی بے لوثی ، نیک نفسی اور دل سوزی کا یقین نہ ہو جائے۔ حضرت ضیاء الا مت کی تصانیف کے مطالعہ سے یہ حقیقت نکھر کرسامنے آتی ہے کہ آپ کی تحریر کا ایک ایک لفظ واضح اور با مقصد پیغام پر مشتمل ہے اور آپ کے دل میں امت کا جو درد ہے، ہر ہرفقرہ اس در دِ نہاں کا تر جمان ہے اور آپ کی جملہ تصا نیف آپ کے خون جگر کا ثمرہ ہیں۔ ’’عصر حاضر اور ہماری ذمہ داریاں ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہو ئے آپ کے سورزِ دروں اور دل سوزی کو ملاحظہ فرمائیں:
’’ میں یہ تصور کر کے لرز جاتا تھا۔ مجھے یہ احساس کچھ کرنے پر مجبور کرتا تھا۔ اگر میرا بس چلتا تو ایسا صور پھونکتا کہ سارے سو نے والے سنی جاگ اٹھتے اور اگر کوئی سونا چاہتا تو اس کے لیے سو نا نا ممکن بنا دیتا۔ اگر میرے مقدور میں ہو تا تو میں ایسی دل دوز چیخ مارتا کہ پتھروں میں شگاف ہو جاتے اور احساسِ زیاں سے سب بے چین و بے قرار ہو جاتے ۔ طوفان بن کر آتا اور فتنہ و فساد کے شعلوں کو بھسم کر کے رکھ دیتا ۔ نسیم سحر بن کر چلتا ، خوابیدہ غنچوں کو جگاتا ، دل گرفتہ عنادل کو گدگداتا اور انہیں حیات آفریں نغموں پر مجبور کر دیتا ۔‘‘ (۳)
ضیاء الا مت ؒ کی پوری زندگی اخلاص اور للہیت کی عملی تفسیرتھی اور آپ کے پیغام کی اثر آفرینی کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔ جن احباب کو براہ راست آپ کی ؒ صحبت سے فیض یاب ہو نے کا موقع ملا ہے، وہ اسلام کے لیے آپ کی والہانہ محبت،سوزِ دروں اور دل سوزی کے عینی شاہد ہیں۔ گویا اشاعت اسلام کے لیے آپ کی حیات مستعار کا ایک ایک لمحہ آیت مقدسہ: ’وَمَا اَسْألُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ ان اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘ (۴) کی عملی تفسیر تھا ۔ آپ کی جملہ تحریروں میں اخلاص اور محبت کا یہی رنگ نمایاں ہے ۔بحیثیت داعئ اسلام آپ ؒ کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد بے اختیار زبان سے نکلتا ہے :
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کے لیے
انتشار و افتراق سے اجتناب
اسلام کے بنیادی عقائد و نظریات جن کے بغیر اسلام کا تشخص باقی نہیں رہتا ، مثلاً توحید ، رسالت ، آخرت اور دیگر ارکانِ اسلام وغیرہ، ان پر کوئی سمجھوتہ کرنا دین کی عمارت منہدم کرنے کے مترادف ہے اس لیے داعی کے لیے کسی صورت یہ درست نہیں کہ وہ فریق مخالف سے بنیادی عقائد پر کوئی سمجھوتہ کرے یا اپنے رویہ میں لچک پیدا کرے ، تا ہم فروعی مسائل میں داعی کارویہ نسبتاً لچک دار ہو نا چاہے اور اس کو ایسا موقف اختیار کرنا چاہیے جس سے قوم انتشار و افتراق کا شکار نہ ہو ۔دورِ حاضر میں فرقہ وارنہ تشدد لا علاج مرض کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے ،حالانکہ بقول اقبال :
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں، اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
بدقسمتی سے عوام الناس ایسے تفرقہ بازوں سے بد ظن ہونے کی وجہ سے اسلام سے بھی دور ہو رہے ہیں اور صورتِ حال کچھ یوں ہے:
کوئی کارواں سے ٹوٹا، کوئی بد گماں حرم سے
کہ میرِ کارواں میں نہیں ہے خوئے دل نوازی
حضرت ضیاء الا مت نے فروعی مسائل میں ہمیشہ لچک دار رویہ اختیارکیا ہے۔ ’ ضیاء القرآن‘ اور ’ ضیاء النبی‘ سے اس کی بے شمار مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ آپ کو امت کے انتشار و افتراق سے جو قلبی دکھ تھا، اس کا اظہار ان الفاظ سے ہو تا ہے :
’’یہ ایک بڑی دل خراش او ر روح فر سا حقیقت ہے کہ مرورِ زمانہ سے اس امت میں بھی افتراق و انتشار کا دروازہ کھل گیا ہے جسے ’’ واعتصمو ابحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا ‘‘ کا حکم دیا گیا تھا ۔ یہ امت بھی بعض خود غرض اور بد خواہ لوگوں کی ریشہ دوانیو ں سے متنازع گروہوں میں بٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی اور جذبات میں آئے دن کشیدگی اور تلخی بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔۔۔۔۔۔ اس باہمی اور داخلی انتشار کا سب سے الم ناک پہلو اہل السنۃ والجماعت کا آپس میں اختلاف ہے جس نے انہیں دو گروہوں میں بانٹ دیا ہے۔ دین کے اصولی مسائل میں دونوں متفق ہیں، اللہ تعالیٰ کی تو حیدِ ذاتی اور صفاتی ، حضور نبی کریمﷺکی رسالت اور ختمِ نبوت ، قرآن کریم، قیامت اور دیگر ضروریاتِ دین میں کلی موافقت ہے لیکن بسا اوقات طرزِ تحریر میں بے احتیاطی اور اندازِ تقریر میں بے اعتدالی کے باعث غلط فہمیاں پیدا ہو تی ہیں اور باہمی سوء ظن ، غلط فہمیوں کو ایک بھیانک شکل دے دیتا ہے ۔‘‘ (۵)
امت کو انتشار و افتراق اور گروہ بندیوں سے بچانے کا جو نسخہ آپ ؒ نے تجویز فرمایا ہے، اگر مبلغین اور واعظین حضرات اس کو پیش نظر رکھیں تو نہ صرف باہمی اختلافات کا دائرہ محدود کیا جا سکتا ہے بلکہ غیر ضروری اختلاف کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کیا جا سکتا ہے ۔ آپ کی تجویز ملاحظہ ہو :
’’ اگر تقریر و تحریر میں احتیاط و اعتدال کا مسلک اختیار کیا جائے اور اس بد ظنی کا قلع قمع کر دیا جائے تو اکثر و بیشتر مسائل میں اختلاف ختم ہو جائے اور اگر چند امور میں اختلاف باقی رہ بھی جائے تو اس کی نوعیت ایسی نہیں ہو گی کہ دونوں فریق عصرِ حاضر کے سارے تقاضوں سے چشم پوشی کیے آستینیں چڑھائے ، لٹھ لیے ایک دوسرے کی تکفیر میں عمریں بر باد کرتے رہیں۔ ملتِ اسلامیہ کا جسم پہلے ہی اغیار کے چر کوں سے چھلنی ہو چکا ہے۔ ہمارا کام تو ان خونچکاں زخموں پر مر ہم رکھنا ہے، ان رستے ہو ئے نا سوروں کو مندمل کرنا ہے، اس کی ضائع شدہ توانائیوں کو واپس لانا ہے۔ یہ کہاں کی دانش مندی اور عقیدت مندی ہے کہ ان زخموں پر نمک پاشی کرتے رہیں، ان ناسوروں کو اور اذیت ناک اور تکلیف دہ بناتے رہیں ۔‘‘ (۶)
خود آپ ؒ نے اپنی پیش کردہ تجویز پر کس حد تک عمل کیا، اس کو جاننے کے لیے آپ کی جملہ تصنیفات کا سر سری مطالعہ ہی کافی ہے۔ دعوہ اکیڈمی اسلام آباد کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خالد علوی فرماتے ہیں:
’’اختلافی مسائل کے حوالے سے آ پ نے جو اسلوب اختیار کیا ہے، وہ بہت دل نشیں ہے۔ آپ میں دوسرے گروہ کو دکھی کیے بغیر اپنا موقف بیان کرنے کا سلیقہ اور قرینہ تھا۔ آپ میں مسلکی حوالے سے مناظرانہ رنگ نہیں تھا۔‘‘ (۷)
اختلافِ امت سے اجتناب کی اسی روش نے آپ ؒ کو ہر مسلک کے وابستگان کی نظر میں محترم و معتبر ٹھہرایا اور اسی وجہ سے آپؒ کی تصنیفات نہ صرف ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں بطور نصاب شامل ہیں بلکہ تمام مسالک کے سر کردہ اہل علم آپ کی آرا کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اختلافِ امت کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے آپ کے تجویز کردہ مسلکِ اعتدال کو اختیار کیا جائے۔
عصر ی تقاضوں کا لحاظ
دعوت دین کے ہر کارکن کو اپنے گرد و پیش کا پوری ہو شیاری اور مستعدی سے جائزہ لیتے رہنا چاہیے اور دعوت کے بیج کی تخم ریزی کے لیے ایسا اسلوب اختیار کرنا چاہیے جو حالات اور موقع محل کے مطابق ہو۔ ہمارے مبلغین کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ موقع محل اور عصری تقاضوں کا لحاظ کیے بغیر دعوت کا کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی ان تھک اور پر خلوص کوششوں کے با وجود دعوت کے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہو تے۔ حضرت ضیاء الا مت ؒ نے اپنی تصانیف میں ایسا اسلوب تحریر اختیار فرمایا ہے جو عصر ی تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہے اور جس میں مخاطبینِ دعوت کی ذہنی اور نفسیاتی ضرورتوں کا پوری طرح لحاظ رکھا گیا ہے ، عصری تقاضوں اور قارئین کی خواہشات کو پوری اہمیت دی گئی ہے۔ عصری تقاضوں اور قارئین کی خواہشات کو پیش نظر رکھنے کی خوبصورت مثال تر جمہ قرآن میں ضیاء الامتؒ کا منفرد اسلوبِ تحریر ہے ۔ پیر صاحب خود فرماتے ہیں:
’’ قرآن کریم کے اردو تر اجم جو میری نظر سے گزرے ہیں، وہ عموماً دو طرح کے ہیں: ایک قسم تحت اللفظ تراجم کی ہے لیکن ان میں زورِبیان مفقود ہے جو قرآن کریم کا طرۂ امتیاز بلکہ اس کی روح رواں ہے ۔ دوسری قسم با محاورہ تراجم کی ہے۔ ان میں دقت یہ ہے کہ لفظ کہیں ہو تا ہے اور اس کا تر جمہ دو سطر پہلے یا دو سطر بعد درج ہو تا ہے اور مطالعہ کرنے والا یہ معلوم نہیں کر سکتا کہ میں جو نیچے لکھا ہوا تر جمہ پڑھ رہا ہوں، اس کا تعلق کس کلمہ یا جملہ سے ہے۔ میں نے سعی کی ہے کہ ان دونوں طرزوں کو اس طرح یکجا کر دوں کہ کلام کا تسلسل اور روانی بھی بر قرار رہے، زور بیان میں بھی فرق نہ آنے پائے اور ہر کلمہ کا تر جمہ اس کے نیچے بھی مر قوم ہو ۔‘‘ (۸)
پیر صاحب ؒ کی تفسیر ’’ ضیاء القرآن‘‘ اور تر جمہ’’ جمال القرآن ‘‘کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ بھی یہ ہے کہ وہ عصری تقاضوں اور قارئین کی ذہنی استعداد اور ضرورتوں کے مطابق ہے۔ دورِ حاضر کے مصنفین اگر اس معاملہ میں ضیاء الا مت کے طرزِ تحریر کو سامنے رکھیں تو یقیناًوہ دعوتِ دین کا کام زیادہ موثر انداز میں کر سکتے ہیں۔
پیر صاحب ؒ نے موقع و محل کی مناسبت سے تفسیرِ قرآن میں قارئین کو محاسبہ نفس اور عمل کی طرف بلایا ہے۔ ایک ماہر اور حاذق حکیم کی طرح آپ ؒ نے حالات حاضرہ کو پیش نظررکھ کر تفسیرِ قرآن کا جو اسلوب اختیار کیا ہے، اس کی وضاحت خود آپ ؒ کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے:
’’ ہم اکثر بگڑی ہو ئی قوموں کے حالات اور ان کے حسرت ناک انجام کے متعلق قرآن میں پڑھتے ہیں اور ایک لمحہ توقف کیے بغیر آگے نکل جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ میں نے ہر ایسے موقع پر کوشش کی ہے کہ مطالعہ کرنے والے کے وجدان کو جھنجھوڑوں اور اسے اپنا محاسبہ کرنے کی رغبت دلاؤں تا کہ وہ اپنی جنسِ عمل کواسلام اور قرآن کے مقرر کیے ہو ئے ترازو میں تولے اور اس کی کسوٹی پر پرکھے تا کہ اسے اپنے متعلق کوئی غلط فہمی یا اشتباہ نہ رہے اور اگر اس کا قدم جادۂ حق سے پھسل گیا ہے تو وہ سنبھلنے کی بروقت کوشش کرے ‘‘۔ (۹)
عصرِحاضر کے دینی لٹریچر کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے اور اس میں دین کے اس پہلو کو کم ہی اجاگر کیا جاتا ہے جس کا لوگوں تک اس مخصوص وقت میں پہنچنا ضروری ہو تا ہے۔ حضرت ضیاء الامت نے اپنی تصا نیف میں علمی ، عقلی ، تحقیقی اور منطقی اسلوب اختیار کیا جو ہر طبقہ فکر کے افراد کے لیے یکساں مفید ہے اور کسی نہ کسی پہلو سے ان کی ذہنی صلاحیتوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ آپ کی تحریروں سے متاثر ہو نے والوں میں اصحابِ علم و ادب کی ایک بڑی تعداد ہے تو دوسری طرف طبقہ عوام سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔
بحث و تمحیص کا دل نشیں اسلوب
قرآن مجید کے بیان کردہ دعوتِ دین کے تیسرے اصول ’’ مجادلہ ‘‘ سے مراد دلائل کا باہمی تبادلہ ہے جس سے مخاطب کو مطمئن کرنے کے لیے اس کے دلائل کا جواب دیا جاتا ہے اور ایسا طرزِ استدلال اختیار کیا جاتا ہے جو فریق ثانی کو قبولِ حق پر آمادہ کر سکے۔ مجا دلہ کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ اس کی نوعیت محض مناظرہ بازی نہ ہو، اس میں الزام تراشیاں ، چوٹیں اور پھبتیاں نہ ہوں، اور اس اسلوبِ دعوت کا مقصد فریقِ مخالف کو چپ کر ا دینا اور اپنی زبان آوری کے ڈنکے بجا دینا نہ ہو بلکہ اس میں شیریں کلامی ، اعلیٰ درجہ کا شریفانہ اخلاق ، معقول اور دل لگتے دلائل ہوں ، جو مخاطب کے اندر ضد اور ہٹ دھرمی پیدا نہ ہو نے دیں۔ اپنی بات منوانے کے لیے مخاطب پر محبت، اعتماد، حسنِ اخلاق اور حسنِ استدلال کا ایسا جال پھینکا جائے کہ وہ داعی کی دل سوزی، اس کی بے لوثی اور اس کے اخلاص سے متاثر ہو کر اس کی بات کی صداقت پر غور کرنے کے لیے مجبور ہو جائے ۔
حضرت ضیاء الا مت کی تصنیفات اس طرزِ تحریر کا نادر نمونہ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بریلوی مسلک پیر صاحب ؒ کی پہچان ہے اور پیر صاحب ؒ بریلوی مسلک کے بعض مخصوص عقائد کے مبلغ بھی ہیں، لیکن فریقِ مخالف سے بحث و تمحیص میں انہوں نے کبھی مناظرانہ انداز اختیار نہیں فرمایا۔ ان کے قلم میں نشتر کی چبھن نہیں بلکہ احساسِ زیاں کا مرہم ہے۔ ’’ ایک شیعہ دوست کے جواب میں‘‘ (۱۰) آپ کا ایک مقالہ ہے جس میں آپ نے گیارہ سوالات کے جوابات دیے ہیں۔ اس مقالے میں آپ نے جو ناصحانہ اسلوبِ تحریر اختیار فرمایا، اس کی ایک ایک سطر سے مخاطب کے لیے اخلاص جھلکتا ہے اور فریق ثانی کے لیے ’’جناب معترض‘‘ کے الفاظ آپ ؒ کی دل سوزی اور اخلاص کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس مقالے کی ہر سطر سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی نظر میں فریق ثانی دشمن قوم کا فرد نہیں بلکہ اپنا ہے، مقصودِ نظر اس کو لا جواب کرنا نہیں بلکہ اس کی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے۔ مقالے کا عنوان آپ کی اسی خواہش کا واضح ثبوت ہے ۔
میلاد النبی ﷺکے موقع پر پوری دنیا کے مسلمان اپنے اپنے انداز میں بارگاہ رسالتِ مآبﷺ میں عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔ اس موقع پرچراغاں کرنا ، جلسے اور جلوسوں کا اہتمام کرنا اور میلاد النبی کو ’’ عید ‘‘ کے طور پر منانا بریلوی مسلک کی خاص پہچان بن چکا ہے ۔ بہت سے اہل علم اس طرزِ عمل کو بدعت کہہ کر ناجائز گر دانتے ہیں ۔ پیر صاحب ؒ کوجناب رسالت مآبﷺ سے جو والہانہ عشق و محبت ہے، اس کی بنا پر آپ ؒ نے اظہارِ عقیدت کے اس انداز کا دفاع پورے علمی اور تحقیقی انداز میں اپنی کتاب ’’ضیاء النبی‘ میں تقریباً بارہ صفحات پر کیا ہے۔ (۱۱) لیکن جذبات کی رو میں بہہ کر نہ تو آپ ؒ نے مناظرانہ انداز اختیار کیا اور نہ ہی فریق ثانی پر الزام تراشیاں اور پھبتیاں کسی ہیں بلکہ آپ ؒ نے ایسا علمی اور تحقیقی انداز اختیار کیا ہے جو متلاشیانِ حق کو اپنے موقف پر نظر ثانی پر مجبور کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ خالص علمی دلائل کے بعد دل کو موہ لینے والا یہ انداز ملاحظہ ہو:
’’ ہم بصد ادب اور ازراہ جذبہ خیر اندیشی ان حضرات کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ وہ اس تشدد کو ترک کر دیں۔ اللہ تعالیٰ کے محبوب کی ولادت با سعادت سب امتیوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا عظیم الشان احسان ہے۔ آئیے اس روز مل کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ شکر ادا کریں۔ سب مل کر اس کی تسبیح و تہلیل کے نغمے الا پا کریں۔ اظہارِ مسرت کے ہر جائز طریقہ کو شر عی حدود کے اندر رہتے ہو ئے بروئے کار لائیں ‘‘۔ (۱۲)
یہ طرزِ کلام ، یہ طرزِ تخاطب اور محبت بھرے اصرار کا یہ انداز قرآن کی اصلاح میں مجادلہ ہے۔ پیر صاحب ؒ نے اپنے طرزِ استدلال اور اسلوبِ تحریر سے ’’ مجادلہ ‘‘ اور’’ مناظرہ‘‘ کے درمیان بڑی خوبصورتی سے فرق قائم کیا ہے ۔ بد قسمتی سے ہمارے واعظین اورمبلغین اس فرق کو نہیں سمجھ سکے ۔ عموماً مناظرانہ طرز استدلال ،فریقِ ثانی کو ہٹ دھر می پر مجبور کر دیتا ہے جس کی وجہ سے دعوت کے مطلوبہ نتائج کی توقع رکھنا عبث ہے ۔ضیاء الا مت ؒ کی مسلمانوں کے تمام مسالک میں ہر دل عزیزی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ کے اسلوبِ نگارش میں اعتدال کا رنگ بڑا واضح اور نمایاں ہے ۔
اہل کتاب اور دیگر غیر مسلم اقوام میں دعوت کا کام کرنے والے کارکنوں کے لیے اس اسلوبِ دعوت کو پیش نظر رکھنا اور بھی ضروری ہے۔ بات اگر دلیل اور شائستگی کے ساتھ کی جائے تو وہ موثر ہو گی کیونکہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ وہ دلیل سے متاثر ہو تا ہے اور جو بات وہ دلیل کے بغیر ماننے کے لیے تیار نہیں ہو تا، اس کو مضبوط دلیل کے ساتھ تسلیم کر لیتا ہے۔ ضیاء الا مت کا مقالہ ’’ مقامِ مصطفی انجیل کی روشنی میں ‘‘ اس طرزِ تخاطب اور طرزِ استدلال کی بہترین مثال ہے جس کی طرف قرآن مجید نے ان الفاظ میں واضح اشارہ کیا ہے: ’وجادلہم بالتی ہی احسن‘۔ (۱۳)
از دل خیزد بر دل ریزد / خطیبانہ طرزِ تحریر
داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ انسانی عقل کے ساتھ ساتھ انسانی دل کو بھی مخاطب کر ے کیونکہ انسانی جسم میں اصل قوتِ محرکہ دل ہے۔ اگر داعی دل کو متاثر کرنے میں کامیاب ہو جائے تو باقی کام آسان ہو جاتاہے اور بسا اوقات عقلِ انسانی معمولی استدلال کے سامنے بھی ہتھیار پھینک دیتی ہے جس کی وجہ سے داعی مخاطب کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔
حضرت ضیاء الا مت ؒ دعوتِ دین کے جملہ اسالیب سے پوری طرح آگاہ تھے، اورانسانی نفسیات کا پورا شعور رکھتے تھے ۔ چنانچہ آپ کی تحریروں کا معقول حصہ ایسا بھی ہے جس میں آپ نے تحقیقی انداز کو یکسر تر ک کرتے ہو ئے براہ راست انسانی دل کو متاثر کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ قاری چشم تصور میں آپ کو ایک ایسے خطیب کے روپ میں دیکھتا ہے جو اپنی جگر پاش چیخوں سے امت کے تنِ مردہ میں زندگی کی روح دوڑانا چاہتا ہے۔ خطیبانہ طرز کی یہ تحریر ملاحظہ فرمائیں :
’’ اے در ماندہ راہ قوم ! قرآن تمہیں عظمت و عزت کی بلندیوں کی طرف آج بھی لے جا سکتا ہے بشر طیکہ تم اس کی قیادت قبول کر لو۔ اے اپنی قسمت بر گشتہ پر آہ و فغاں کرنے والے نوجوانو ! دنیاکی امامت تمہاری متاعِ گم گشتہ ہے۔ تمہیں یہ واپس مل سکتی ہے اگر تم میں اس کی واپسی کی تڑپ ہو ۔۔۔ قرآن تمہیں واپس دلا سکتا ہے اگر تم اس کا حکم ماننے کے لیے تیار ہو ‘‘ (۱۴)
نوجوانانِ امت کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کا انداز ملاحظہ ہو:
’’ اے سنتِ مصطفویﷺ کے پاسبانو! تمہارے وجود سے گلشنِ اسلام میں بہاریں ہیں ۔ گلستانِ وجود میں تمہاری ہستی ہی شمع محفل ہے۔ خدارا ! اپنا فرض پہچانیے اور اپنی انانیت پر اپنی ملت کی عزت کو قر بان نہ کیجیے۔ ان سنگین حالات میں اپنی بھر پور اجتماعی کوششوں سے ملک کے اندرونی و بیرونی دشمنوں کو خاک میں ملائیے‘‘۔ (۱۵)
آپ کے دل سے نکلنے والی یہ ایسی بانگ درا تھی جس نے امت کے وسیع حلقہ کو متاثر کیا اور کتنے ہی بھٹکے ہو ئے آہو پھر سوئے حرم رواں دواں ہو گئے اور ان کے قدم پھر کبھی جادۂ حق سے نہ ڈگمگائے۔
بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں مگر طاقتِ پرواز رکھتی ہے
حق گوئی وبیباکی / اظہارِ حق
اگر خود امرا ، سلاطین اور حکومتی عہدہ داروں میں حق پسندی کا مادہ موجود نہ ہو تو رعایا کی نکتہ چینی اور حقوق طلبی بالکل بیکار ہے ۔ قرونِ اولی میں خود خلفا اور امرا میں حق پسندی کا اس قدر مادہ موجود تھا کہ و ہ ہر قسم کی جائز نکتہ چینی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتے تھے ۔ اس لیے جائز مثبت اور تعمیری تنقید و احتساب کے ہمیشہ عملی نتائج نکلتے تھے اور دوسری طرف عوام الناس میں حق پسندی کا مادہ پیدا ہو تا تھا جو اسلامی ریاست کے استحکام کے لیے ایک ضروری اور لازمی چیز ہے ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ امرا کا احتساب جان جو کھوں کا کام ہے جو ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ۔ ضیاء الا مت ؒ کی دعوتی زندگی جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی بہترین مثال ہے۔ کلمہ حق کہنے کے جرم کی پا داش میں نہ صرف آپ کو ہراساں کیا گیا بلکہ حوالہ زنداں بھی کیا گیا لیکن دنیا کی کوئی طاقت آپ کو حق کہنے سے باز نہ رکھ سکی ۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی جماعت پر بے لاگ تنقید ملاحظہ ہو :
’’پیپلز پارٹی کے لچھن صاف بتا رہے ہیں کہ کھلنڈرے بے فکروں کا یہ طائفہ لٹیا ڈبو کر رہے گا۔ ان میں حالات کا مزاج پہچاننے کی صلاحیت ہے اور نہ حالات سے نبرد آزما ہو نے کی اہلیت۔ یہ طائفہ اس سے یکسربے بہرہ ہے ۔ اجڑے ہو ئے چمن کو پھر بہار آشنا کرنا مداریوں کے بس کا روگ نہیں۔ اگر کسی کو اس پارٹی کے بارے میں غلط فہمی تھی تو وہ اس رات دور ہو گئی جس رات لاڑکانہ میں جشنِ عیش و نشاط منایا گیا ۔ شراب کے خم کے خم لنڈھائے گئے اور ملک کا عوامی صدر اپنے حواریوں کے ساتھ دنیا بھر کے سفرا کی آنکھوں کے سامنے رنگ رلیاں منانے میں مصروف ہو گیا ‘‘۔ (۱۶)
وزیر اعلیٰ پنجاب حنیف رامے کے رویہ پر تنقید کرتے ہو ئے رقمطراز ہیں :
’’ ہمارے وزیر اعلیٰ بھی بڑے مزے کے آدمی ہیں ۔ آیتیں بھی پڑھتے ہیں اور اشتراکیت کے گن بھی گاتے ہیں اور اس کو اپنی دانشوری کا کمال بھی خیال کرتے ہیں ۔ حق و باطل کی یہ آمیزش معلوم نہیں ہمارے وزیر اعلیٰ کے لیے کس طرح قابل قبول ہے۔ ان کے نام میں حنیف اور رامے کا جو بے ربط جوڑ ہے، شاید اس کا اثر ہو ۔ بہرحال ہم ان کی خدمت میں عرض کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے لیے کسی سوشلسٹ یا کمیونسٹ نے کوئی قر بانی نہیں دی۔ اس گلشن کی آبیاری فر زندانِ تو حید نے اپنے خونِ ناب سے کی ہے ۔ اس کا حصول اور اس کی بقا غلامانِ مصطفی ﷺکی مخلصانہ سر فروشیوں کی مر ہونِ منت ہے۔ اگر پاکستان کی مانگ میں شہیدوں کے خون کی سر خی دمک نہ رہی ہو تی، اگر یتیموں اور بیواؤں کے آنسوؤں کے موتیوں کا جھومر اس کی پیشانی کو مزین نہ کر رہا ہو تا تو شاید کوئی اس مذموم ارادے میں کامیاب ہو جاتا ۔ لیکن شہیدوں کے خون کی چمک چشمِ مہر و ماہ کو خیرہ کر رہی ہو، وہاں انسانیت و کر دار کشی کی سر انڈ میں بسی ہو ئی اشتراکیت سے پاکستان کی مانگ کو ملوث کرنا کون عقلمند گوارا کرے گا ۔ ہمار ے وزیر اعلیٰ اس غلط فہمی سے جتنا جلد چھٹکارا حاصل کر لیں گے اتنا ہی ان کے مفید ہو گا ۔ سارے کمیونسٹ سن لیں اور ہمارے وزیر اعلی بھیٰ اگروہ خدا نخواستہ کمیونسٹ ہیں تو وہ بھی سن لیں کہ پاکستان نے اسلام کی آغوش میں جنم لیا ہے ،اسلام کی آغوش میں پروان چڑھا ہے اور جب تک یہ زندہ رہے گا، اس کی فضاؤں میں صرف اسلام کا پر چم ہی لہرا سکتا ہے ۔‘‘ (۱۷)
حقیقت یہ ہے کہ آپ کے قلم کی اسی کاٹ کا اثر تھا کہ وقت کی فر عونی طاقتیں لرزہ براندام ہو گئیں۔ اس طرح آپ ؒ نے نہ صرف پاکستان کی نظریاتی سر حدوں کی حفاظت کا فریضہ کما حقہ ادا کیا بلکہ اظہارِ حق کے اس بے باک اسلوبِ تحریر نے حکمرانوں کو اپنے رویوں میں تبدیلی پر بھی مجبور کر دیا۔ آزادانہ تنقید اور حق پسندی کے اس طرزِ عمل کا مثبت اثر یہ ہوا کہ اس سے نہ صرف اسلام طاغوتی طاقتوں کی دست برد سے محفوظ ہو گیا بلکہ دوسرے اخبار و رسائل کو بھی نیا حوصلہ ملا۔ داعیانِ اسلام نے ہر دور میں ہمیشہ اس اسلوبِ دعوت کو پوری تندہی سے اختیار کیا ہے اور دین اسلام کو ہر طرح کی تحریف سے محفوظ رکھا ہے۔ اگر آج حکمران طبقہ اسلام کے خلاف زہر اگلنے میں بے باک ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ان لوگوں کا اسلام سے تعلق محض برائے نام ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ داعیانِ اسلام اظہارِ حق کا فرض پوری قوت سے ادا نہیں کر رہے اور ملت کا اجتماعی ضمیر اس فریضہ سے غفلت کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔
مخاطب کی عزتِ نفس اور مقام و مر تبہ کا لحاظ
اگر داعی غلطی کرنے والے کو براہ راست مخاطب کرنے کے بجائے اشارے کنایے میں اس کی کو تا ہی کو واضح کرے تو اس صورت میں غلطی کرنے والے کی عزت نفس مجروح نہیں ہو تی۔ نیز وضاحت کے اس عمومی انداز سے مخاطب کی طرف سے کس قسم کے منفی ردِ عمل کا بھی خطرہ نہیں رکھتا اور شیطان اس کے انتقامی جذبات کو ہوا دے کر انتقام کی طرف مائل نہیں کر سکتا ۔ ویسے بھی اس اسلوب سے مخاطب کے دل میں داعی کی قدر و منزلت بڑ ھ جاتی ہے اور وہ ا س کی بات کو زیادہ توجہ اور انہماک کے ساتھ سنتا ہے۔ اگر بات بھلائی اور خیر خواہی کے جذبے سے کی جائے تو یہ ایسا اندازِ تر بیت ہے کہ جس سے غلطی کرنے والے کو بھی فائدہ ہو تا ہے اور عام لوگوں کو بھی ، بشر طیکہ اسے استعمال کرتے ہو ئے حکمت سے کام لیا جائے ۔
رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے دعوت و تبلیغ میں اس اسلوب کو بارہا اختیار کیا اور غلطی کرنے والے کو براہ راست مخاطب کرنے کے بجائے عمومی وضاحت پر اکتفا کیا تا کہ مخاطب کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو اور اس کی اصلاح بھی ہو جائے ۔ حضرت ضیاء الا مت ؒ نے بھی دعوتِ دین کے اس اسلوب کو اپنی تحریروں میں جا بجا استعمال کیا ہے۔ آپ ؒ چونکہ خود مشائخ کرام اور پیرانِ عظام کے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں مشائخ کرام کو جو مقام و مر تبہ حاصل ہے، بد قسمتی سے پیران عظام اس اثر و رسوخ کو دین کی سر بلندی کے لیے کم اور ذاتی فوائد کے لیے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ حضرت ضیاء الا متؒ نے اپنا فرضِ منصبی سمجھا کہ انھیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلایا جائے لیکن اس مقصد کے لیے انھوں نے جو اسلوب تحریر اختیار کیا، اس میں ان کی عزت نفس اور معاشرتی وقار کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچنے دی، فرماتے ہیں :
’’ اگر میرے کرم فرما مجھ سے بر ہم نہ ہوں تو حدیثِ دل زبان پر لاؤں اور زخمِ جگر سے پر دہ اٹھاؤں۔ نہیں نہیں، ان کی بر ہمی کا خطرہ مول لیتے ہو ئے بھی بصد ادب و نیاز عرض کروں گا ۔موجودہ صورتِ حال کی ساری نہیں تو بیشتر ذمہ داری پیر صاحبان پر عائد ہو تی ہے جو اہل سنت کے کشورِ دل کے سلطان ہیں، جو ہماری عقیدتوں کا مر کز ہیں، جو ہمارے عشق و مستی کا عنوان ہیں، جن کے اشارہ ابرو پر نیک دل سنی دل و جان قر بان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ تسلیم کہ انھوں نے پاکستان کے حصول میں قابلِ فخر حصہ لیا ہے لیکن پاکستان کو اسلامی سلطنت بنانے کے لیے جس مسلسل جدو جہد کی ضرورت تھی، غیر اسلامی تحریکوں کو ختم کرنے کے لیے عملی اور فکری میدان میں جس جہاد کی ضرورت تھی، اس کی طر ف انھوں نے توجہ نہیں دی ۔۔۔۔۔۔ اگر ہمارے مشائخ یہ فرض ادا کریں تو بخدا ہم باطل کے ہر لشکر کو ہزیمت دے سکتے ہیں، لا دینیت کی تحریکیں خود بخود حرفِ غلط کی طرح مٹ جائیں گی۔ برائی اور گناہوں کا نام و نشان تک نہ رہے گا۔ سارا پاکستان صحنِ حرم کی طرح مصفیٰ و مجلیٰ اور اس کی فضا ئیں معطر و معنبر بن جائیں گی ‘‘۔ (۱۸)
مسلمانوں کے اندر پائے جانے والے اسلامی فر قوں کے عقائد و نظریات میں باہم اختلاف موجود ہے۔ حضرت ضیاء الا متؒ کو ان میں سے کئی ایک سے اختلاف بھی ہے۔ اگرچہ باطل فر قوں کے رد میں آپؒ نے معقول سختی سے کام لیا اور نام لے کر ان کی گرفت کی ہے تا ہم اسلامی فر قوں میں پائے جانے والے فروعی اختلافات پر آپ کی تنقید بڑی حکیمانہ اور متاثر کرنے والی ہے۔ آپ نے براہ راست فریق ثانی پر طعن و تشنیع کے تیر چلانے کے بجائے نام لیے بغیر ان کے نظریات کی اصلاح کی مساعی جمیلہ فرمائی ہے۔ آپ کی جملہ تصانیف اس اسلوبِ تحریر کی بہترین مثال ہیں ۔
حاصل کلام
حضرت ضیاء الا متؒ اسلام کے ایک سچے داعی تھے، انہوں نے پوری دل سوزی کے ساتھ دعوتِ دین کا مقدس فریضہ سر انجام دیا ۔ آپ ؒ کی دعوتی زندگی کا مطالعہ ایک مستقل موضوعِ تحقیق ہے ۔ سطور بالا میں آپ ؒ کے طرزِ تحریر سے دعوتِ دین کے چند اسا لیب اخذ کیے گئے ہیں۔ یہ اس سلسلہ کی بالکل ابتدائی اور غالباً پہلی تحریر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس موضوع پر بھر پور تحقیق کی جائے۔ آپ سے محبت اور عقیدت رکھنے والے اصحابِ علم پر یہ فرض ہے کہ وہ آپ ؒ کی تحریر، تدریس ، خطابت و تقاریر کے ساتھ ساتھ کر دار یت کو موضوعِ تحقیق بنائیں ، تا کہ میدانِ دعوت میں آپ ؒ کو جو کامیابیاں حاصل ہو ئی ہیں، ان کا حقیقی عرفان حاصل کیا جا سکے۔ اس طرح دورِ حاضر کے مبلغین کے لیے دعوتِ دین کے ان اصولوں اور اسالیب سے راہنمائی حاصل کرنا آسان ہو جائے گا ۔
حوالہ جات
(۱) النحل، ۱۶:۱۲۵
(۲) محمد کرم شاہ، پیر، ضیاء القرآن، ۲/۶۱۷۔ ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور ۱۴۰۲ھ
(۳) محمد کرم شاہ، پیر، مقالات (مرتبہ: پروفیسر حافظ احمد بخش) ۱/۸۳، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور ۱۹۹۸ء
(۴) الشعراء، ۲۶:۱۲۷
(۵) ضیاء القرآن، مقدمہ، ۱/۱۱
(۶) ضیاء القرآن، مقدمہ، ۱/۱۱
(۷) چشتی، شہباز احمد، دانائے راز ضیاء الامت، ص ۳۱۷، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور، ۲۰۰۲ء
(۸) ضیاء القرآن، مقدمہ، ۱/۱۲
(۹) ضیاء القرآن، مقدمہ، ۱/۱۰
(۱۰) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: مقالات، ۲/۳۳۷ تا ۳۶۷
(۱۱) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: محمد کرم شاہ، پیر، ضیاء النبی، ۲/۴۶ ۔ ۵۷۔ ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور ۱۹۹۳
(۱۲) ایضاً، ۲/۵۵
(۱۳) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: مقالات، ۲/۸۔۲۲
(۱۴) ضیاء القرآن، مقدمہ، ۱/۹
(۱۵) ماہنامہ ضیاے حرم، ’سر دلبراں‘، شمارہ اگست ۱۹۷۱ء
(۱۶) ایضاً، شمارہ دسمبر، ۱۹۷۵ء
(۱۷) ایضاً، شمارہ جولائی، ۱۹۷۵ء
(۱۸) ایضاً، شمارہ دسمبر، ۱۹۷۷ء