(۱)
کشمیر کے محاذ پر کل کیا ہونے والا ہے، اس کی تفصیلات ابھی پردۂ غیب میں ہیں لیکن اب تک کیا ہو چکا، اس باب میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔ ۸۹۔۱۹۸۸ء میں جو حکمت عملی اختیار کی گئی تھی، اس کی صفیں اب لپیٹی جا رہی ہیں۔ گزشتہ پندرہ سالوں میں جو کچھ ہوا، اس کا قرض ان لوگوں کے ذمے ہے جنھوں نے یہ ساری حکمت عملی ترتیب دی اور جو ان کے دست وبازو بنے۔ ہمارے ہاں چونکہ خود احتسابی کی کوئی روایت نہیں، اس لیے یہ امکان تو موجود نہیں کہ یہاں کوئی تحقیقاتی کمیشن بنے جو اس ناکامی کے اسباب کو موضوع بنائے لیکن ایک احتساب بہرحال اللہ کی عدالت میں ہونا ہے۔ اب یہ ان لوگوں کو سوچنا ہے کہ وہ اپنے پروردگار کے حضور میں کیا عذر پیش کریں گے۔ سردست ہمارے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس نئی تبدیلی کے منفی اثرات سے اپنی قوم کو کیسے محفوظ رکھا جائے اور جو لوگ پورے اخلاص اور ایک دینی احساس کے ساتھ دامے، درمے، سخنے اس عمل میں شریک رہے ہیں، کسی نفسیاتی حادثے کا شکار نہ ہوں اور ان کی صلاحیتیں کوئی مثبت رخ اختیار کریں۔
پہلا کام جو ناگزیر ہے، وہ یہ ہے کہ جہاد کشمیر کے نام پر عامۃ الناس کے جذباتی استحصال کا سلسلہ اب رک جانا چاہیے۔ اس عنوان سے ہم نے بہت سی زندگیاں برباد کیں۔ ہمارے گھر اور مال تو محفوظ رہے لیکن ہم نے بہت سے گھروں پر دکھ کی چادر ہمیشہ کے لیے تان دی اور انھیں کوئی خوشی نہیں دے سکے۔ اپنے مذہبی راہ نماؤں سے میری درخواست ہے کہ وہ جہاد کشمیر کے نام پر اب اس قوم کے نوجوانوں کو بہکانے کا سلسلہ ازراہ کرم بند کر دیں۔ ان کی یہ بڑی خدمت ہوگی اگر وہ اس سارے معاملے کے بارے میں قوم کی صحیح راہنمائی کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ اس وقت ان کے کرنے کے کام دوسرے ہیں۔ وہ نوجوانوں کو اس جانب متوجہ کریں کہ وہ تعلیم اور ہنر کے ذریعے اپنی تعمیر کریں۔ اس محاذ پر اپنی توانائیاں صرف کریں جہاں ان کی کامیابی یقینی ہے اور خود فطرت کے قانون کے تحت جس محاذ پر ان کی پیش قدمی کو روکنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔
میں جانتا ہوں یہ ایک مشکل کام ہے لیکن اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ ’’جہاد‘‘ اب ختم ہو چکا، ہم نے اگر ’’مجاہدین‘‘ کی تیاری کا کام جاری رکھا تو ہم اس قوم کے مجرم ہوں گے اور اللہ کے حضور میں بھی ہمارا کوئی عذر، مجھے ڈر ہے کہ شاید قبول نہ ہو۔ میری خوش گمانی ہے کہ ہماری مذہبی قیادت میں سے اکثر حضرات نے ایک نیک جذبے اور اللہ کی رضا کے لیے اس عمل کا ساتھ دیا لیکن اب صورت حال کی تبدیلی کے بعد اللہ کی رضا ہی کے لیے ضروری ہے کہ وہ جانتے بوجھتے لوگوں کو ایک آگ میں نہ جھونکیں۔ حکومت کو وہ مطعون کر سکتے ہیں کہ اس نے کیوں اس حکمت عملی پر نظر ثانی کی لیکن عوام کو صحیح صورت حال کے مطابق تیار کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے، تو یہاں بھی مذہبی قیادت کو یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کے پاس اب کیا راستہ باقی تھا؟ میں ان کالموں میں متعدد بار یہ بات دہرا چکا ہوں کہ دنیا میں آج کسی مسلح جدوجہد کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ ۹ ستمبر کے بعد جو کچھ ہوا، اس کے بعد بھی اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسے نوعیت کی کوئی سرگرمی نتیجہ خیز ہو سکتی ہے تو اسے کسی نفسیاتی معالج کے پاس جانا چاہیے۔ یہاں معاملہ صحیح یا غلط کا نہیں، زمینی تبدیلیوں کے ادراک کا ہے۔ دنیا میں آنے والی تبدیلیاں یہ بتاتی ہیں کہ کسی صحیح مقصد کے لیے بھی اگر پر تشدد طریقے اختیار کیے جائیں گے تو ایسے کسی عمل کو عالمی سطح پر کوئی تائید حاصل نہیں ہوگی۔ ضرورت ہے کہ ہماری مذہبی قیادت بھی اس تبدیلی کا ادراک کرے اور اپنے متاثرین کی تربیت نئی نہج پر کرے جس میں اس تبدیلی کی رعایت رکھی گئی ہو۔
دوسرا کرنے کا کام یہ ہے کہ جو لوگ اتنے سالوں سے پورے اخلاص کے ساتھ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس عمل کو آگے بڑھاتے رہے ہیں، ان کی واپسی کا محفوظ راستہ تلاش کیا جائے۔ یہ کام حکومت اور مذہبی جماعتوں کو مل کر کرنا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوج کے معاون ادارے کے طور پر ایک نیا ادارہ قائم کرے جس میں ان تربیت یافتہ نوجوانوں کو شامل کیا جائے۔ ان کی تنخواہوں اور ملازمت کا ایک باقاعدہ نظام ہو۔ جہاد کشمیر کے نام پر جو کروڑوں روپے جمع کیے گئے ہیں، وہ اس ادارے کو دے دیے جائیں۔ اس ادارے کو مختلف خدمات سونپ دی جائیں، جیسے تعلیمی اداروں میں این سی سی کی ٹریننگ، حادثات کی صورت میں لوگوں کی مدد، شہری دفاع کی تربیت اور اس نوعیت کے دیگر کام۔ اس طرح یہ امکان ختم ہو جائے گا کہ ان نوجوانوں کو کوئی غیر حکومتی یا عسکری تنظیم اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے اور اس سے معاشرے میں بد امنی اور فساد پیدا ہو۔
اس عمل میں مقبوضہ کشمیر کے جو لوگ شریک ہیں، ان کی واپسی کے بارے میں بھی ہمیں سوچنا ہوگا۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے میں بھارتی حکومت سے بات کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ یہ لوگ اپنے گھروں کو واپس جائیں اور بھارت ان سے کسی نوعیت کی بازپرس نہ کرے، تاکہ یہ لوگ وہاں اپنی معمول کی زندگی دوبارہ شروع کر سکیں۔ میرے نزدیک کشمیریوں کے جان ومال کے مزید ضیاع کو روکنا ہماری ذمہ داری ہے اور اس مرحلے پر جب یہ صفیں لپیٹی جا رہی ہیں، ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر کے جو لوگ اس سارے عمل میں ہمارے ساتھ شریک رہے ہیں، ان کا مستقبل محفوظ ہو۔
تیسرا کام ان اثرات کا جائزہ ہے جو جہاد کے عمل کو نجی تحویل میں دے دینے سے مرتب ہوئے ہیں۔ ہمیں اس پر پوری سنجیدگی سے غور وفکر کرنا ہوگا کہ کسی دوسرے ملک یا قوم کے خلاف ہم نے جہاد کو جس طرح غیر حکومتی سطح پر منظم کیا، اس کے اثرات خود ہمارے معاشرے پر کیا مرتب ہوئے؟ یہ بات بھی میں بارہا لکھ چکا کہ اسلام میں نجی جہاد کا کوئی تصور نہیں۔ جہاد ہمیشہ ریاست اور حکومت کے اہتمام میں ہوتا ہے اور حکومت بھی یہ کام کسی خفیہ طریقے سے نہیں بلکہ علانیہ کرنے کی پابند ہے۔ ہم نے اس اصول سے انحراف کیا اور نیا اجتہاد کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرہ بحیثیت مجموعی غیر محفوظ ہو گیا اور بد امنی نے ہمیں اپنے حصار میں لے لیا۔ جب جہاد نجی تحویل میں گیا تو یہ حق بھی مختلف تنظیموں کو منتقل ہو گیا کہ وہ اپنے طور پر یہ طے کریں کہ دین کا دشمن کون ہے۔ کسی کے نزدیک یہ دشمن خارج میں ہے اور کسی نے اسے اپنے ملک میں تلاش کیا۔ اس کے جو معاشرتی اثرات مرتب ہوئے، اس کو ہم سب بچشم سر دیکھ رہے ہیں۔ آج اس کی بھی ضرورت ہے کہ ہم غور کریں اور اس کو سنجیدہ بحث کا موضوع بنائیں کہ منظم فوج کی موجودگی میں جب افغانستان اور کشمیر کے تناظر میں ہم نے جہاد کو نجی تحویل میں دیا تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟
کشمیر کے محاذ پر آج جب ہم اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کر رہے ہیں، یہ تین کام ہمیں کرنا ہوں گے۔ حکمت عملی کی تبدیلی اقوام کی زندگی میں کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ قوم اس کے بارے میں باخبر ہو اور یہ جانتی ہو کہ اب اس کو کیا کرنا ہے۔ قوم کو اس معاملے میں کسی نئے انتشار فکر سے بچانا اب حکومت اور اس سے زیادہ ہماری مذہبی قیات کی ذمہ داری ہے۔
(خورشید احمد ندیم، روزنامہ جنگ، لاہور)
(۲)
جناب خورشید احمد ندیم ہمارے محترم اور فاضل دوست ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں علم ودانش کی دولت سے نوازا ہے اور وہ اپنے کالموں کے ذریعے اس میں ہم نیاز مندوں کو بھی شریک کرتے رہتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں سوچ اور فکر کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ کی حالت زار پر اضطراب اور بے چینی کے نئے پہلوؤں کی نشان دہی ہوتی ہے اور فطری طور پر بعض معاملات میں اختلاف رائے بھی پیدا ہو جاتا ہے جس کا اظہار بسا اوقات ضروری محسوس ہونے لگتا ہے۔ انھوں نے حال ہی میں کشمیر کے حوالے سے حکومت پاکستان کی حکمت عملی میں نظر آنے والی تبدیلیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ افغانستان اور کشمیر میں جہاد کے نام پر جو جدوجہد گزشتہ دو عشروں میں جاری رہی ہے، وہ ناکام ہو گئی ہے، اس کا آغاز ہی غلط تھا، یہ محض جذبات پر مبنی تھی اور ملک کی مذہبی قیادت کو اس حکمت عملی کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے طرز عمل اور طریقہ کار کو تبدیل کرنا چاہیے۔ انھیں اس بات پر بھی اصرار ہے کہ اس طریق کار کا مسئلہ کشمیر کو فائدہ پہنچنے کے بجائے نقصان ہوا ہے اور چونکہ یہ حکومتی اور ریاستی سطح کے بجائے پرائیویٹ طور پر نجی جماعتوں اور افراد نے شروع کی تھی، اس لیے ان کے نزدیک اس کا شرعی جواز بھی موجود نہیں تھا۔
ہمیں محترم ندیم صاحب کی ان دونوں باتوں سے اختلاف ہے۔ جہاں تک جہادی حکمت عملی کے ناکام ہونے کا تعلق ہے، اگر کسی تحریک کے صرف معروضی حالات اور محض وقتی نتائج دیکھ کر فیصلہ کر لینا ہی عقل ودانش کا تقاضا ہے تو ان کا یہ ارشاد کسی حد تک قرین قیاس لگتا ہے، لیکن اگر تحریکات کو ان کے تاریخی تسلسل اور دور رس نتائج کی روشنی میں دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے تو پھر ہم بصد ادب گزارش کریں گے کہ افغانستان اور کشمیر میں جہادی تحریکات کے بارے میں محترم خورشید احمد ندیم کا یہ تجزیہ حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔
ہمارے ہاں یہ روایت بن گئی ہے کہ کسی جدوجہد اور تحریک کی وقتی پسپائی کو دیکھ کر اس کی ناکامی کا فتویٰ صادر کر دیا جاتا ہے، حالانکہ جدوجہد اگر جاری ہے اور تحریک کی قیادت خود شکست قبول نہ کرے تو اس کی ناکامیاں بھی آخر کامیابی کا زینہ ہوتی ہیں۔ محمود غزنوی نے سومنات پر سترھویں حملے میں کامیابی حاصل کی تھی جبکہ اس کے پہلے سولہ حملوں کے بارے میں تاریخ یہ کہتی ہے کہ اگر وہ آخری حملے سے قبل ہتھیار ڈال دیتا اور شکست قبول کر کے گھر بیٹھ جاتا تو یہ سولہ حملے ناکامی ہی کے زمرے میں آتے، لیکن اس کے عزم واستقلال کے تسلسل اور جنگ جاری رکھنے کے عزم نے ان سولہ حملوں کو اس کے آخری اور کامیاب حملے کا زینہ بنا دیا تھا۔ ہمارے ہاں تحریک خلافت کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ وہ ناکام ہو گئی تھی اور اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ خلافت ترکی کا مسئلہ تھا، اس پھڈے میں شریک ہونا دوسروں کی آگ میں ہاتھ ڈالنا تھا اور محض جذباتیت تھی، جس کا کوئی فائدہ نہیں تھا، حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ خلافت ترکی کا نہیں، عالم اسلام کا مسئلہ تھا اور جناب نبی اکرم ﷺ نے ملت اسلامی کو ’’جسد واحد‘‘ سے تشبیہ دے کر اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ جسم کا ایک حصہ تکلیف محسوس کرے تو دوسرا حصہ خود بخود اسے محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ ملت اسلامیہ کے مسائل پاکستان، مصر، انڈونیشیا، سوڈان اور سعودی عرب کے جغرافیائی حوالوں سے نہیں بلکہ عالم اسلام کے اجتماعی ماحول اور ضروریات کے حوالے سے ہیں اور اگر ملت اسلامیہ کے کسی ایک حصے کے مسئلے اور تکلیف کو دوسرا حصہ محسوس نہیں کرتا اور اس کے ازالے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتا تو یہ ایسا ہی ہوگا جیسے آنکھ کو تکلیف ہوا ور پاؤں یہ کہہ کر ڈاکٹر کی طرف جانے سے انکار کر دیں کہ ہمیں تو کوئی تکلیف نہیں ہے، ہم کیوں آنکھ کی خاطر چلنے کی زحمت اٹھائیں۔
پھر تحریک خلافت ناکام نہیں ہوئی، بلکہ اس نے برصغیر کے مسلمانوں میں آزادی کے احساس اور جذبے کو بیدار کیا اور آزادی کی تحریکات کو نیا خون دیا۔ آپ تحریک خلافت کے بعد کی سیاسی تحریکات کو دیکھ لیجیے، وہ کانگریس ہو، مسلم لیگ ہو، مجلس احرار اسلام ہو یا جمعیت علماے ہند، ان میں سیاسی راہنماؤں اور کارکنوں کی ایک بڑی کھیپ تحریک خلافت ہی نے مہیا کی تھی اور اس طرح تحریک خلافت نے جنوبی ایشیا میں آزادی کی تازہ دم تحریکات کے لیے نرسری کا کام دیا تھا، اس لیے یہ کہنا کہ تحریک خلافت ناکام ہو گئی، برصغیر کی سیاسی جدوجہد کے تسلسل سے بے خبری کی علامت ہے۔ اسی طرح تحریک کشمیر میں جہادی جدوجہد کی صورت حال ہے، اور دو باتیں تو نقد نتائج کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں:
آزاد کشمیر کے نام سے جو خطہ اس وقت ہمارے ساتھ ہے، بلکہ گلگت، بلتستان اور سکردو پر مشتمل شمالی علاقہ جات کی پٹی کی آزادی بھی جہادی عمل ہی کا نتیجہ ہے، کیونکہ اسے جہاد کے باقاعدہ اور پرائیویٹ فتوے کی بنیاد پر ہی مجاہدین نے لڑ کر آزاد کرایا تھا اور اس وقت جہاد کے بجائے صرف مذاکرات کا سہارا لیا جاتا اور چند سرفروش جذبہ جہاد سے سرشار ہو کر ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف مسلح جنگ نہ لڑتے تو بھمبر سے گلگت تک کا پورا علاقہ بھی آج مقبوضہ کشمیر کے ساتھ بھارت کا حصہ ہوتا۔ دوسری بہت سی باتوں کے علاوہ ہم منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم کے پانی کے لیے بھی بھارت کے دست نگر ہوتے۔
آج اگر بھارت کشمیر کے مسئلے پر مذاکرات کے لیے آمادہ ہے اور امریکہ سمیت دنیا کی بڑی قوتیں مسئلہ کشمیر کے حل میں دلچسپی لے رہی ہیں تو یہ بھی مجاہدین کے خون کا صدقہ ہے۔ مجاہدین نے ہزاروں جانوں کی قربانی دے کر مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھا ہے۔ اس بات میں کسی شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور مقبوضہ کشمیر میں انڈین آرمی کے خلاف مجاہدین کی مسلح جدوجہد کی وجہ سے آج مسئلہ کشمیر زندہ ہے اور پوری دنیا کی توجہ کو اپنی طرف کھینچے ہوئے ہے۔ اگر مجاہدین کی یہ جدوجہد نہ ہوتی تو پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا وہ ماحول ہی نہ ہوتا جس نے آج کے بین الاقوامی ماحول میں پاکستان کے لیے ایٹمی قوت بننے کا کسی حد تک جواز فراہم کر رکھا ہے، اس لیے مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین کے ہاتھوں انڈین آرمی کی بے بسی اور پاکستان کا ایٹمی قوت بن جانا ہی وہ اہم عنصر ہیں جو بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے ہیں اور عالمی برادری نے بھارت کو مجبور کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات پر گفتگو کرے۔ اگر یہ دو باتیں نہ ہوتیں تو کشمیر کا مسئلہ کبھی کا ’’داخل دفتر‘‘ ہو چکا ہوتا اور اس کا تذکرہ اقوام متحدہ کی بوسیدہ فائلوں کے سوا کہیں نہ ملتا۔ کسی دیوار کے نیچے بنیادوں میں جو روڑے اور پتھر توڑے جاتے اور کوٹ کر دبا دیے جاتے ہیں، وہ دیوار بن جانے کے بعد کسی کو نظر نہیں آتے، لیکن دیوار کی مضبوطی اور اس کے کھڑے رہنے کی اصل وجہ وہی ہوتے ہیں اور ساری دیوار کا بوجھ انھوں نے ہی اٹھایا ہوتا ہے۔ انھیں معمولی سمجھ کر بے وقعت قرار دے دینا عقل ودانش کا تقاضا ہرگز نہیں ہے۔
محترم خورشید احمد ندیم صاحب کو دوسرا اعتراض جہاد کے پرائیویٹ ہونے پر ہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ جہاد کرنا صرف ریاست کا کام ہے، کسی پرائیویٹ جماعت یا فرد کا کام نہیں کہ وہ جہاد کا اعلان کرے اور اس کے لیے مسلح لوگوں کو تیار کر کے میدان جنگ میں دھکیل دے، مگر ہمارے خیال میں یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ فقہاے کرام نے جہاد کی جو مختلف صورتیں تفصیل کے ساتھ بیان کی ہیں، ان کی روشنی میں یہ بات حالات پر منحصر ہے کہ پرائیویٹ سطح پر لوگوں کو جہاد کا فیصلہ کرنے اور اس کے لیے میدان میں آنے کا حق حاصل ہے یا نہیں۔ اکثر وبیشتر صورتوں میں جہاد کا اعلان اور اقدام دونوں ریاست کا حق ہیں اور ہمیں اس سے انکار نہیں کہ ایسی صورتوں میں ریاست ہی اس بات کی مجاز ہے کہ وہ جہاد کا اعلان کرے اور اس کے لیے عملی اقدام کرے، لیکن جہاد کی بعض صورتیں فقہا نے ایسی بھی لکھی ہیں جن میں ریاست کے اقدام اور فیصلے کے بغیر بھی عام لوگوں پر جہاد میں شرکت واجب ہو جاتی ہے حتیٰ کہ فقہاے کرام کی تصریح کے مطابق بعض صورتوں میں بیوی پر خاوند سے اجازت لینا بھی ضروری نہیں رہتا اور اس پر جہاد میں شریک ہونا واجب ہو جاتا ہے۔
یہ بات صرف فقہاے کرام تک ہی محدود نہیں بلکہ جناب نبی اکرم ﷺ کی سنت وسیرت میں بھی اس کی مثال موجود ہے کہ صلح حدیبیہ میں کفار قریش نے یہ یک طرفہ اور غیر منصفانہ شرط ضد کے ساتھ معاہدے میں شامل کرا دی کہ اگر قریش کا کوئی شخص معاہدے کی دس سالہ مدت کے دوران مسلمان ہو کر مدینہ منورہ جائے گا تو نبی اکرم ﷺ اسے قریش کے مطالبے پر واپس بھجوانے کے پابند ہوں گے۔ اس کے بعد حضرت ابو بصیر رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ سے مسلمان ہو کر مدینہ منورہ پہنچے تو قریش نے دو آدمی بھیج کر ان کی واپسی کا مطالبہ کر دیا۔ نبی اکرم ﷺ نے معاہدے کے مطابق ابوبصیرؓ کو ان دو افراد کے ساتھ واپس بھجوا دیا۔ راستے میں ابوبصیرؓ نے موقع ملنے پر ان میں سے ایک کو قتل کر کے دوسرے کو بھگا دیا اور خود مدینہ منورہ آ گئے۔ وہ شخص بھی مدینہ منورہ پہنچا اور جناب نبی اکرم ﷺ کو ابو بصیرؓ کی کارروائی سے آگاہ کیا۔ آنحضرت ﷺ نے ابو بصیرؓ کو دوبارہ مکہ مکرمہ بھجوانے کا ارادہ کیا تو ابو بصیرؓ اس ارادے کو بھانپتے ہوئے وہاں سے کھسک گئے اور سمندر کے کنارے قریش کے شام کی طرف تجارتی راستے پر ایک جگہ ڈیرہ لگا لیا۔ مکہ مکرمہ میں اس طرح کے اور نو مسلموں کو پتہ چلا تو وہ بھی آہستہ آہستہ ان کے پاس جمع ہونے لگے اور اچھا خاصا جتھہ بن گیا۔ اب قریش کا جو تجارتی قافلہ اس راستے سے گزرتا، اس جتھے کی گوریلا کارروائیوں کا نشانہ بن جاتا، حتیٰ کہ قریش کے لیے اس راستے سے پرامن طور پر گزرنا ممکن نہ رہا۔ اس پر قریش نے جناب نبی اکرم ﷺ سے رابطہ قائم کیا اور یہ ’’گوریلا کیمپ‘‘ ختم کرنے کی شرط پر معاہدے کی مذکورہ شرط ختم کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ اس شرط کے خاتمے پر نبی اکرم ﷺ نے ان مجاہدین کو کیمپ ختم کرنے کا حکم دے کر مدینہ منورہ بلا لیا۔
اب اگر محترم خورشید احمد ندیم کے فلسفے کی روشنی میں دیکھا جائے تو حضرت ابوبصیرؓ کی یہ کارروائی جناب نبی اکرم ﷺ اور قریش کے دو طرفہ معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ یہ پرائیویٹ جہاد تھا جس کی ریاست کی طرف سے اجازت نہیں تھی اور آج کے معروف معنوں میں یہ دہشت گردی کی کارروائی تھی جس میں تجارت کے لیے جانے والے پرامن لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا تھا، لیکن یہی پرائیویٹ جہاد اور ریاستی نظم سے ہٹ کر مسلح جدوجہد تھی جس نے قریش مکہ کو اپنی غلط شرط پر نظر ثانی کرنے اور مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کر دیا اور جناب نبی اکرم ﷺ نے ان پرائیویٹ مجاہدین اور گوریلوں کی مسلح کارروائیوں کے سیاسی نتائج کو نہ صرف قبول کیا بلکہ انھیں باعزت طور پر واپس بلا کر مدینہ منورہ میں کسی باز پرس کے بغیر آباد کیا۔
دنیا کے کسی بھی حصے اور قوم کی آزادی کی تحریکات کو دیکھ لیا جائے، یہ مراحل ان میں لازمی طور پر ملیں گے۔ خود امریکہ کی جنگ آزادی کا مطالعہ کیا جائے تو اس کی تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری ہوئی ہے، کیونکہ اس کے بغیر آزادی کی کوئی تحریک آگے بڑھ ہی نہیں سکتی۔ اس طرح جانیں ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کی اندھی طاقت سے ٹکرا جانے والے گوریلے ہی قوموں کی آزادی کے اصل ہیرو ہوتے ہیں، اس لیے ہماری گزارش ہے کہ اگر مجاہدین کی جدوجہد اور قربانیوں کے اعتراف اور انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کا حوصلہ نہیں ہے تو کم از کم ان کی تحقیر تو نہ کی جائے اور انھیں جذباتی اور بیوقوف قرار دے کر ان کا تمسخر تو نہ اڑایا جائے۔
باقی رہا محترم خورشید احمد ندیم کا یہ ارشاد کہ اب مسلح تحریکوں اور قوت کے زور سے کوئی بات منوانے کا زمانہ گزر گیا ہے اور اب جو بات بھی ہوگی، مذاکرات کی میز پر ہی ہوگی، اگر ہمارے فاضل دوست ناراض نہ ہوں تو اس کے بارے میں یہ عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ یہ وہی سبق ہے جو مغرب ہمیں پڑھانا چاہتا ہے۔ وہ مغرب جس نے خود تو اسلحہ کے ذخائر جمع کر رکھے ہیں، قوت وطاقت کا انبار لگایا ہوا ہے اور دنیا سے اپنی ہر بات طاقت، دھونس، دباؤ اور دھوکے کے ذریعے منوانے پر تلا ہوا ہے۔ اس کا ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ ہم ہتھیار کو بھول جائیں، طاقت اور قوت حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہ کریں اور ہر مسئلے پر صرف درخواستیں لکھ لکھ کر اس کی بارگاہ میں پیش کرتے چلے جائیں۔ مگر اسلام اس کی نفی کرتا ہے اور جناب نبی اکرم ﷺ نے الجہاد ماض الی یوم القیامۃ (جہاد قیامت تک جاری رہے گا) کا تاریخی جملہ ارشاد فرما کر اس فکر کو ہمیشہ کے لیے مسترد کر دیا ہے۔ حالات اور طاقت کے جبر کا وقتی طور پر شکار ہو جانا اور بات ہے اور اسے ذہنی طور پر قبول کر لینا اور بات ہے، اور اسے اپنے موقف اور حکمت عملی کے لیے بنیاد قرار دے لینا اس سے بالکل مختلف چیز ہے۔
(ابو عمار زاہد الراشدی، روزنامہ پاکستان، لاہور)
(۳)
[یہ ایک فلسطینی کی کہانی ہے جس نے صہیونیوں کے مفاد میں اپنے دین اور ضمیر کا سودا کر لیا تھا اور ایک عرصے تک ’موساد‘ کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتا رہا۔ آنکھیں کھلنے کے بعد اس نے ایک انٹرویو میں اپنی داستان بیان کی اور بعض انتہائی سنگین حقائق کا انکشاف کیا۔ اس کے انٹرویو کا ایک حصہ درج ذیل ہے:]
س: ہمیں معلوم ہے کہ بعض اسلامی اور قومی جماعتوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے میں تمھیں کامیابی ملی ہے۔ آخر یہ کیسے ممکن ہوا؟
ج: درحقیقت صہیونیوں نے فلسطینیوں کی سادگی، دور اندیشی کے فقدان اور حالات کے تجزیے کی کمی کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے ہمیں مکلف کیا کہ ہم انٹرنیٹ پر اسلامی فلسطینی جہاد مقدس ، آزادی بیت المقدس، نوجوانان انتفاضہ کے نام سے ویب سائٹس جاری کریں اور ان ویب سائٹوں کے ذریعہ ہمیں بہت سے پرجوش نوجوانوں سے رابطے کا موقع ملا۔ یہ لوگ جہادی روح سے سرشار تھے۔ ہم نے انھیں مال اور ہتھیار سے لیس کیا اور انھیں بتایا کہ یہ مال انھیں کویت، اردن، خلیج اور مصر کے مال داروں کی طرف سے دیا جا رہا ہے۔
اس طرح ہمیں اسلام اور جہاد کے نام پر مجاہدین کے اکثر حلقوں میں دراڑ ڈالنے اور ان کے اندر گھسنے کا موقع ملا اور اس سے زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ بعض جذباتی نوجوانوں کے ذریعے ہمیں ایسی کتابوں کی نشر واشاعت کا موقع ملا جو مسلمانوں کے درمیان فتنہ بھڑکانے اور تفرقہ ڈالنے والی تھیں۔ ان کتابوں کے لیے سرمایہ کاری اور طباعت کا کام موساد کے حساب پر ہوا۔ ان کتابوں میں ایسا مواد تھا جن سے مسلمانوں کے درمیان فروعی اختلافات پیدا ہو سکتے تھے۔ خاص طور پر فلسطین، پاکستان، یمن اور اردن میں شیعہ، سنی اختلافات کو ہوا دینے کے لیے ان ملکوں میں دسیوں موضوعات پر کتابیں شائع کی گئیں۔ بعض کتابیں شیعوں کے خلاف تھیں جن میں انتہائی گندے اور رکیک انداز میں ان پر حملہ تھا اور بعض دوسری کتابیں سنیوں کے خلاف شائع کی گئیں جن میں سنیوں پر شدید ترین حملہ کیا گیا تھا اور اس گھٹیا کام کے لیے دونوں طرف کے متعصب لوگوں کو استعمال کیا گیا اور انھیں بتایا گیا کہ ان کتابوں کی شان دار طباعت بعض خلیجی محسنین کے ذریعے انجام پا رہی ہے اور بقیہ کام سنی گروہ کے بعض عقل سے پیدل متعصب لوگوں نے انجام دیے۔ بہرحال ان کتابچوں کی طباعت اور نشر واشاعت کا مقصد مسلمانوں کے درمیان فتنہ اور بغض اور کینہ بھڑکانا تھا تاکہ یہ لوگ ایک دوسرے کی تکفیر اور آپس کے فروعی اور غیر ضروری معرکوں میں مشغول ہو جائیں اور اسرائیلی اسلام کو مٹانے، ارض فلسطین کو نگلنے اور مسلم نوجوانوں کی شناخت کو ملیا میٹ کرنے کے اپنے ناپاک عزائم میں آسانی سے کام یاب ہو جائیں۔ صہیونیوں کا بڑا ہدف مسلم نوجوانوں کو اخلاق کے لحاظ سے بے قید وبے راہ رو بنانا ہے یا انھیں ایک ایسے وجود میں تبدیل کرنا ہے جو زندگی کے اہم مسائل سے بے خبر ہوں اور ان کے دل اپنے مسلمان بھائیوں (خواہ شیعہ ہوں یا سنی) کے خلاف کینہ اور بغض وعداوت سے بھر جائیں۔
اس میں شک نہیں کہ اس پہلو سے موساد کو بڑی حد تک کامیابی ملی ہے۔ یہ بات یمن، پاکستان اور فلسطین میں قابل لحاظ حد تک دیکھنے میں آ رہی ہے کہ تمام مساجد اور نوجوانوں کے مراکز کو ان کتب سے بھر دیا گیا ہے جو نامعلوم صاحب ثروت لوگوں کے خرچ پر شائع کی جا رہی ہیں اور جنھیں بلاقیمت تقسیم کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ درحقیقت ان کتب کی پشت پر موساد کا ہاتھ ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بہت سے احمق مسلمان ، ائمہ مساجد، خطبا اور داعیان کرام پوری تن دہی اور اخلاص کے ساتھ ان کی نشر واشاعت میں لگے ہوئے ہیں حالانکہ ان کتابوں سے متعلق کم سے کم جو بات کہی جا سکتی ہے، وہ یہ کہ یہ کتابیں فحاشی پر مبنی اور فتنہ پرور ہیں جبکہ فتنہ قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے۔ یہ بیچارے اپنی ذہنی تنگی کے باعث یہ سوچ نہیں پاتے کہ یہ کتابیں جن سے کراہیت، نفرت، تفرقہ وفتنہ کی بو پھوٹ رہی ہے، اس کی اشاعت کے پیچھے حقیقی اہداف کیا ہیں اور بالخصوص آج کل کے حالات میں ان کی کیا ضرورت ہے۔
ان کتابوں کے اثرات پاکستان میں صاف طور پر دیکھنے میں آ رہے ہیں جہاں انھوں نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ یہاں سنیوں نے سپاہ صحابہ تشکیل کر لی ہے جس کے جوشیلے نوجوان شیعوں پر ان کے شعائر دینی، ان کے گھروں پر ان کی نمازوں کے درمیان حملے کر رہے ہیں اور مساجد میں نماز فجر کے درمیان اتنی بری طرح انھیں قتل کر رہے ہیں کہ ان مناظر کو دیکھ کر پیشانی شرم سے جھک جاتی ہے۔ اسی طرح شیعوں نے رد عمل کے طور پر سپاہ محمد بنا لی ہے اور اس کے بے ہوش نوجوان بھی سنیوں پر شدید حملے کر کے انھیں قتل کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ان دونوں سپاہ کے تصادم کے نتیجے میں ہر ماہ کوئی نہ کوئی خوں ریز واقعہ پیش آتا رہتا ہے اور ان کے ذریعہ دونوں فرقوں کی جانب سے سنگین قسم کے فتنے اٹھائے جا رہے ہیں اور دونوں کے درمیان غیر ضروری جنگ جاری ہے۔ ان دونوں سپاہ کے سورما دراصل (موجودہ زمانے کے) خوارج ہیں جن سے موساد مسلمانوں میں فرقہ واریت پھیلانے کے لیے خود فائدہ اٹھا رہی ہے اور اس کی منصوبہ بندی یمن میں بھی جاری ہے جہاں بڑے پیمانے پر اس جہت میں کام ہو رہا ہے جس کے افسوس ناک نتائج قریب ہی ظاہر ہوں گے۔ بالخصوص مسلکی فتنہ جو کام پاکستان اور یمن میں کر رہا ہے، وہ اب تک فلسطین میں بھی نہیں کر سکا ہے (۱)۔
(بہ شکریہ روزنامہ انصاف لاہور)
(۴)
اپنی زندگی کو ختم کرنے سے آدھا گھنٹہ قبل جمیل بے حد مصروف رہا۔ سی فور پلاسٹک دھماکہ خیز مواد سے بھری ہوئی پک اپ پر بیٹھے ہوئے اس نے اپنے موبائل فون پر ۱۰۹ رابطے کیے۔ ان میں سے چند رابطوں میں اس نے صدر مشرف پر قاتلانہ حملے کے منصوبے میں شریک اپنے ساتھیوں کے ساتھ بات کی۔ ۲۳ سالہ جمیل نے غالباً سوچا ہوگا کہ (موبائل پر رابطوں کی) جو شہادتیں وہ بہم پہنچا رہا ہے، مشرف پر حملے کے دوران میں ختم ہو جائیں گی لیکن اس کا اندازہ غلط تھا۔ نہ صرف یہ کہ وہ اور اس کا ایک ساتھی حملہ آور ۲۵ دسمبر کو پرویز مشرف کو قتل کرنے میں ناکام رہے بلکہ اس کے موبائل فون کی یادداشت کی مدد سے، جو تفتیش کاروں کو دھماکوں کے ملبے میں محفوظ مل گئی، حکام درجنوں مشتبہ شرکاے جرم تک پہنچا چکے ہیں۔ ان میں سے کافی لوگوں کا تعلق ایک انتہا پسند پاکستانی تنظیم ’جیش محمد‘ سے ہے۔ یہ جماعت کبھی مشرف حکومت کے ساتھ تھی لیکن اب اس کا تعلق القاعدہ کے ساتھ ہے جس کے لیڈر اسامہ بن لادن نے ایک حالیہ آڈیو ٹیپ میں مشرف کا تختہ الٹنے پر (اپنے ساتھیوں کو) اکسایا ہے۔
ایک فون کال جس نے خاص طور پر تفتیش کاروں کو پریشان کر دیا، جمیل اور صدر مشرف کے محافظ دستے کے ایک سپاہی کے مابین تھی۔ کیس کی تفتیش کرنے والے ایک افسر نے ’ٹائم‘ کو بتایا کہ اس سپاہی نے، جس کو گرفتار کر کے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے، جمیل کو اطلاع دی تھی کہ مشرف کون سی کار میں سوار ہوئے ہیں، کیونکہ صدر کئی decoy لیموسین کاریں استعمال کرتے ہیں۔ امریکی اور پاکستانی تفتیش کاروں کو یقین ہے کہ ۱۴ دسمبر کے ناکام حملے کی منصوبہ بندی میں بھی، جس میں ایک پل کے نیچے پانچ بم فٹ کر دیے گئے تھے جو صدر کے وہاں سے گزرنے کے فوراً بعد پھٹ گئے، صدر مشرف کے محافظوں میں سے کوئی شخص ضرور شریک تھا۔ اس حملے کے حوالے سے بھی، جس میں صدر بال بال بچے، جیش محمد پر شک کیا جا رہا ہے۔ نئے حکم کے تحت صدر کے قافلے پر مقرر پولیس افسروں کو ڈیوٹی کے دوران میں موبائل فون ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ خدشہ ہے کہ وہ مشرف پر حملوں میں حملہ آوروں کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں۔
صدر کے محافظوں کی اندرونی مدد کے ساتھ جیش محمد کا اس قابل ہو جانا کہ وہ صدر پر اس طرح کے ماہرانہ حملے کروا سکے، خود مشرف کی پیدا کردہ صورت حال ہے۔ پاکستانی حکومت ایک طویل عرصے تک پہلے تو ہمسایہ ملک افغانستان سے سوویت یونین کو نکالنے اور پھر بھارت کے زیر تحویل کشمیر کے متنازعہ علاقے میں بھارتی فوج کو پریشان کرنے کے لیے انتہا پسند اسلامی گروپوں کو سپورٹ اور ان کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے۔ جیش محمد کو اسی دوسرے مقصد کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔ سرکاری طور پر ان گروپوں کو برداشت کرنے بلکہ بعض اوقات ان کی مدد کرنے کی پالیسی ۱۹۹۹ء میں مشرف کے حکومت پر قابض ہونے کے بعد بھی جاری رہی۔ صدر مشرف، جیش محمد کے جنگجو قائد مولانا مسعود ازہر کے خاص طور پر بڑے حامی تھے۔ جب مسعود ازہر دسمبر ۲۰۰۰ میں قیدیوں کے تبادلے میں بھارتی جیل سے آزاد ہوئے تو انھیں کراچی میں ایک بہت بڑی ریلی منعقد کرنے کا موقع دیا گیا جس میں بندوقیں لہراتے ہوئے ان کے (ہزاروں) پیروکار شریک ہوئے۔ حتیٰ کہ ۲۰۰۱ء میں مشرف نے مختلف کشمیری گوریلا گروپوں کو ان کی قیادت میں متحد کرنے کی کوشش بھی جو ناکام رہی۔
انتہا پسندوں کے ساتھ حکومت کی اس رفاقت میں گیارہ ستمبر کے بعد اس وقت دراڑ پڑی جب مشرف نے اسلامی دہشت پسندی کے خلاف بش انتظامیہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے باوجود مشرف نے شروع میں اپنے ملک کے انتہا پسندوں کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کیے رکھا۔ امریکی دباؤ کے تحت انھوں نے جنوری ۲۰۰۲ میں کئی انتہا پسند تنظیموں پر پابندی تو لگا دی لیکن ان کے قائدین کو عام طور پر کھلا چھوڑ دیا گیا اور تنظیموں کو نئے ناموں سے کام کرنے کی اجازت دی گئی۔ جیش محمد کے حوالے سے مشرف کا رویہ اس باپ کا سا تھا جو اپنے بیٹے کے دیوالیہ ہو جانے کے بعد اس کو اپنا ماننے سے انکار کر دے۔ پاکستان کی انٹیلی جنس سروسز بھی، جو ان گروپوں کو تشکیل دینے اور بھارت کے زیر تحویل کشمیر میں در اندازی کروانے میں (باقاعدہ) کردار ادا کرتی رہیں، خود ملک کے اندر جیش محمد کی طرف سے مذہبی دہشت گردی پھیلانے کی کوششوں کے باوجودان گروپوں پر ہاتھ ڈالنے میں جھجھک محسوس کر رہی تھیں۔ حکومت اس تنظیم اور اس کے ذیلی گروپوں کو کراچی میں ہونے والے دونوں بم دھماکوں کا ذمہ دار سمجھتے ہیں: ایک مئی ۲۰۰۲ میں ہونے والا حملہ جس میں فرانس کے گیارہ بحری فنی ماہرین جاں بحق ہوئے، اور دوسرا جون ۲۰۰۲ میں امریکی قونصلیٹ کے باہر ہونے والا دھماکہ ہوا جس میں بارہ پاکستانی شہید ہو گئے۔ اسلام آباد میں سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ مسلمان انتہا پسندوں پر سخت گرفت کرنے میں جھجھک محسوس کرنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان میں سے بیشتر گروپ ان مذہبی جماعتوں کے ساتھ منسلک تھے جن کی حمایت کی خود مشرف حکومت کو ضرورت تھی۔
اپنے اوپر دو حملے ہونے کے بعد مشرف کا رویہ بدلتا دکھائی دیتا ہے۔ جمیل کے موبائل فون سے اکٹھی کی جانے والی معلومات کی مدد سے پولیس نے گزشتہ ہفتے وسطی پنجاب کے علاقے میں مختلف مسجدوں اور مدرسوں سے ۳۵ مشکوک افراد کو گرفتار کیا جن میں سے بیشتر کے بارے میں خیال ہے کہ وہ جیش محمد سے منسلک ہیں۔ غیر معین تعداد میں کچھ لوگوں کو بعد میں چھوڑ دیا گیا۔ تاہم امریکی حکام کو یہ تسلی ہے کہ مشرف آخر کار جیش محمد کا پیچھا کرنے کے بارے میں پرعزم ہو گئے ہیں۔ یہ بات امریکہ کی طرف سے بڑے عرصے سے کہی جا رہی تھی لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا تھا۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک افسر نے کہا کہ ’’مشرف سنجیدہ ہیں۔ ۲۵ دسمبر کو انھیں ایک نئی زندگی ملی ہے۔‘‘
گزشتہ ہفتے جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا، ان میں سے ایک جنوری ۲۰۰۲ میں امریکی صحافی ڈینئل پرل کے اغوا اور قتل کے سلسلے میں شریک جرم کے طور پر پہلے ہی مطلوب تھا۔ پاکستانی عدالت احمد عمر سعید شیخ کو، جو جیش محمد سے قریبی تعلق رکھنے والا ایک انتہا پسند ہے، پہلے ہی پرل کے اغوا کا مجرم قرار دے کر اسے سزائے موت دے چکی ہے (۲)۔ ایک عینی شاہد کا کہنا ہے کہ اصل میں پرل کو القاعدہ کے کمانڈر خالد شیخ محمود نے قتل کیا تھا، جسے امریکہ نے یکم مارچ ۲۰۰۳ کو گرفتار کر لیا اور اب وہ امریکی تحویل میں ہے۔ انسداد دہشت گردی کے ایک سینئر پاکستانی افسر کے مطابق اسے ڈیگو گارشیا کے ایک فوجی اڈے پر رکھا گیا ہے۔ پاکستان کے وزیر داخلہ فیصل صالح حیات نے ’ٹائم‘ کو بتایا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ۲۵ دسمبر کے حملے میں بھی القاعدہ ملوث تھی۔
القاعدہ اور جیش محمد کے آپس میں یقینی روابط ہیں۔ کشمیر میں بھارت سے جنگ کرنے سے پہلے ۹۰ کی پوری دہائی میں جیش محمد کے انتہا پسند افغانستان جا کر القاعدہ کے تربیتی کیمپوں میں شریک ہوتے رہے اور پاکستان کی انٹیلی جنس سروسز چشم پوشی کرتی رہیں۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ آج کل جیش محمد کے کارکن القاعدہ کے دہشت گردوں کو پناہ فراہم کر رہے ہیں جبکہ القاعدہ ،جیش محمد کو فنڈز اور راہنمائی فراہم کرتی ہے اور غالباً قتل وغارت کے لیے ان کو ہدف بھی بتاتی ہے۔ اسلام آباد میں سکیورٹی امور کے ماہر ریٹائرڈ جنرل طلعت مسعود کہتے ہیں کہ ’’فوج کا ان جہادی گروپوں کے ساتھ گہرا تعلق قائم رہا لیکن پھر یہ بالکل قابو سے باہر ہو گئے۔‘‘
صدر پر خود کش حملہ کرنے والا جمیل پاکستانی انٹیلی جنس کی نظروں میں تھا۔ ہمالیہ کے دامن میں بھارتی بارڈ کے قریب ایک قصبے راولا کوٹ کا رہنے والا یہ دبلا پتلا نوجوان طالبان کی جانب سے امریکیوں کے خلاف افغانستان میں لڑتا رہا۔ کابل کے سقوط کے موقع پر زخمی ہو جانے کے باعث اسے پاکستان واپس آنے کی اجازت دی گئی۔ پشاور پہنچنے پر پاکستانی انٹیلی جنس سروسز نے اس سے پوچھ گچھ کی اور اپریل ۲۰۰۲ میں اسے بے ضرر قرار دے کر چھوڑ دیا۔ راولاکوٹ میں اس کے عزیزوں کے مطابق دوسرے بہت سے مسلم انتہا پسندوں کی طرح جمیل بھی مشرف کو مغرب کا ایجنٹ سمجھتا تھا۔ انتہا پسندوں کو شکایت ہے کہ مشرف نے طالبان کے ساتھ غداری کی اور اب جنوری میں بھارت کے ساتھ پرامن تعلقات کے لیے ان کی کوششوں کی بنا پر وہ یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ مشرف کشمیریوں سے بے وفائی کر رہے ہیں۔ ہمسایوں کا کہنا ہے کہ امریکہ اور مشرف کے خلاف جمیل اس قدر غم وغصے کا اظہار کرتا تھا کہ اس کے گھر والوں نے اسے گھر سے نکال دیا۔ لیکن کیا جمیل ۲۵ دسمبر کے حملوں کا گروپ سربراہ تھا؟ وزیر داخلہ فیصل صالح حیات طنزیہ انداز میں کہتے ہیں کہ ہرگز نہیں۔ سربراہ خود کبھی اپنے آپ کو ہلاک نہیں کرتے۔ یہ اپنے ماتحتوں کو اس کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘‘
مشرف پاکستانی انتہا پسندوں کا صفایا کرنے میں اب کتنے ہی پرعزم کیوں نہ ہوں، یہ کام لمبا اور خطرناک ہوگا۔ جمعرات کو کراچی میں دہشت گردوں نے ایک کرسچین سٹڈی سنٹر پر حملہ کر کے چودہ آدمیوں کو زخمی کر دیا۔ فیصل صالح حیات کہتے ہیں کہ ’’ان کے ہاتھ بہت دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔‘‘ (پولیس اور فوج کو) مطلوب یہ گروپ اب پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ لاہور میں ان کے ایک سابقہ کمانڈر نے کہا کہ ’’لڑکے کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ وہ بے حد مشتعل ہیں۔ وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ جہاد کے دن اب ختم ہو چکے ہیں۔‘‘
(ہفت روزہ ٹائم، ۲۶ جنوری ۲۰۰۴ء)
حواشی
(۱) جنوری ۲۰۰۴ء میں عراق سے گرفتار ہونے والے القاعدہ کے ایک کارکن حسن گل سے پکڑی جانے والی بعض دستاویزات عراق میں القاعدہ کی طویل مدتی حکمت عملی کو واضح کرتی ہیں۔ اس میں طے کیا گیا ہے کہ امریکی انتظامیہ کی مشکلات میں اضافہ کرنے کے لیے عراق کی شیعہ اور سنی آبادی کے مابین تصادم کرایا جائے۔ اس مقصد کے لیے شیعہ آبادی پر حملے کروائے جائیں تاکہ وہ جواب میں سنی آبادی پر حملے کریں اور اس طرح صورت حال حکومت کے قابو سے باہر ہو جائے۔ (ہفت روزہ ٹائم، ۲۳ فروری، ۲۰۰۴ء)
(۲) جولائی ۲۰۰۲ء میں جب احمد عمر سعید شیخ کو امریکی صحافی ڈینئل پرل کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تو اس نے عدالت میں یہ دھمکی دی کہ: ’’دیکھتے ہیں، کون پہلے مرتا ہے۔ میں یا مشرف‘‘ ۔ صدر مشرف پر حالیہ قاتلانہ حملوں کے بعد تفتیش کار عمر شیخ کی اس دھمکی کو ایک جذباتی بیان سے بڑھ کر حیثیت دے رہے ہیں اور اسے اچانک میں حیدر آباد سے راول پنڈی منتقل کر دیا گیا ہے جہاں قاتلانہ حملوں کی تحقیقات جاری ہیں۔ (ہفت روزہ ٹائم، ۲ فروری ۲۰۰۴ء)