اسلامی شریعت کے نفاذ بالخصوص سزاؤں سے متعلق اس کے قوانین کے اجرا کے سلسلہ میں صحیح نبوی ترتیب کیا ہے؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جو مسلم معاشروں میں اسلامی حلقوں میں ایک عرصہ سے زیر بحث ہے۔ صوبہ سرحد میں شریعت کے نفاذ کے اعلان اور اس کی منظوری کے بعد اس سوال کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ یقیناًاسلامی شریعت کا نفاذ ہر دردمند مسلمان کے دل کی آواز ہے اور اس سے بڑھ کر کسی علاقہ اور صوبہ کی سعادت اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کا ریاستی نظام قوانین شریعت پر تشکیل دیا جائے لیکن بالخصوص موجودہ دور میں شریعت کے عملی نفاذ کے سلسلے میں جو دشواریاں پیش آ گئی ہیں، انہیں پیش نظر رکھ کر غور وفکر کے بغیر اس سلسلے میں پیش قدمی کرنا شدید دشوار ہے۔
ایک بڑا مسئلہ جو اس وقت مسلم ممالک اور پاکستان کو درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ وہ معاشی، اقتصادی اور مالیاتی طور پر عالمی اداروں اور عالمی قوتوں کے محتاج ہیں۔ اس معاشی محتاجی کی وجہ سے ان کی جملہ سیاسی، انتظامی، قانونی، تعلیمی، سماجی اور داخلی پالیسیاں عالمی اداروں اور عالمی قوت کی مرضی سے ہی متشکل ہوتی ہیں۔ اس طرح مسلم ممالک بالخصوص پاکستان بظاہر تو آزاد ممالک ہیں لیکن عملاً ان کی حیثیت غلام اور مقبوضہ ریاستوں سے مختلف نہیں۔
دوسرا بڑا مسئلہ جو پاکستان جیسے مسلم ممالک کو درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ پچھلے ۵۵ سال سے نظام تعلیم وتربیت اور میڈیا کے ذریعہ مختلف شعبوں کے ماہرین، صنعت وتجارت اور انتظامیہ، عدلیہ اور تعلیمی اداروں کے حاملین بڑے پیمانہ پر جس ذہن اور مزاج کے تیار کیے گئے ہیں، ان کی اکثریت اسلام کی پابندیاں قبول کرنے کے لیے کسی طرح تیار نہیں۔ وہ سیکولرزم اور آزادی کے دل دادہ ہیں، جس کے تحت عیش وعشرت کے ساتھ زندگی بسر کرنا ہی ان کا مقصود زندگی بن گیا ہے۔ معاشرہ کے ہر شعبہ زندگی کے یہ موثر طبقات نہ صرف یہ کہ اسلامی شریعت کے نفاذ کی راہ میں عملاً تعاون کرنے اور نفاذ اسلام کی تحریک میں معاون بننے کے لیے تیار نہیں، بلکہ وہ اس عظیم اور مقدس مشن کی مزاحمت بھی کریں گے اور اسے ناکام بنانے کی بھی کوشش کریں گے۔ نظام تعلیم اور میڈیا کے ذریعہ تہذیب جدید کے مقلدین تیار کرنے کا جو نتیجہ برآمد ہوا ہے، وہ یہ ہول ناک نتیجہ ہے کہ اپنے ہی لوگ شریعت کی راہ کے مزاحم بن رہے ہیں۔ جہاں سیاسی، معاشی، تعلیمی، صنعتی، تجارتی اور انتظامی قیادت اسلامی شریعت سے بے بہرہ ہو جائے اور سیکولرزم کی حامل ہو جائے تو ظاہر ہے وہاں نفاذ شریعت کا مسئلہ دشوار تر ہو جاتا ہے۔
ایک قابل غور نکتہ یہ ہے کہ جس ریاست میں عالمی سرمایہ دار ریاست کی سرکردگی میں سرمایہ داری کی بدترین لعنت موجود ہو، جس کی وجہ سے عوام کی عظیم اکثریت کی روز مرہ بنیادی ضروریات کی تکمیل تو دور کی بات ، انہیں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہ ہو اور علاج ومعالجہ کی سہولت حاصل نہ ہو، ایسی ریاست میں شریعت کے قوانین کے نفاذ سے پہلے کیا لوگوں کی بنیادی ضرورت کی چیزوں کی فراہمی کا مسئلہ اہم نہیں؟ کیا سزاؤں سے پہلے سزاؤں کے عوامل اور اسباب کا کسی حد تک ازالہ ضروری نہیں؟
تیسرا اہم مسئلہ جو قابل غور ہے، وہ یہ ہے کہ عام آبادی کی بڑی اکثریت ایسے افراد پر مشتمل ہے جو اگرچہ اسلام سے جذباتی تعلق رکھتی ہے لیکن دینی اور اخلاقی اعتبار سے اس کی تربیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ لاکھوں بلکہ کروڑوں افراد ایسے ہیں جنہیں اسلام کے عقائد حتیٰ کہ کلمہ تک پڑھنا نہیں آتا۔ نفاذ اسلام کی تحریک کا ہراول دستہ عوام ہی ہیں لیکن جب عوام کی دینی اور اخلاقی حالت پست ہو، وہ خیر وشر اور دور جدید کے باطل کی نوعیت کو سمجھنے سے قاصر ہوں تو ان کے لیے نفاذ شریعت کی تحریک میں عملاً ساتھ دینا اور مزاحم قوتوں کی مخالفت کر کے اس تحریک کو کام یاب بنانا جتنا دشوار ہو سکتا ہے، وہ ظاہر وباہر ہے۔
ان رکاوٹوں اور مشکلات کے علاوہ چوتھا اہم سوال یہ درپیش ہے کہ اسلامی شریعت کے نفاذ کا نبوی طریق کار اور حکمت عملی کیا ہے؟ کیا ہر قسم کا فاسد معاشرہ شریعت اسلامی کے قوانین کا متحمل ہو سکتا ہے یا نفاذ شریعت سے پہلے معاشرہ کی ایمانی اور اعتقادی حالت کی تبدیلی اور ذہنی، نظریاتی اور اخلاقی انقلاب برپا ہونا ناگزیر ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن پر غور وفکر کرنا بہت ضروری ہے۔ اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ نفاذ شریعت کی تحریک کو ناکامی سے بچایا جا سکے۔
اس سلسلے میں ہم نے کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے ممتاز عالم دین مولانا محمد طاسین صاحبؒ سے تفصیلی تبادلہ خیال کر کے زیر بحث موضوع کے اہم پہلوؤں پر ان کے خیالات معلوم کیے تھے۔ مولانا کے ان خیالات کو ہم نے اپنے ایک مضمون میں مرتب کیا تھا۔ یہ مضمون بارہ تیرہ سال پہلے روزنامہ جنگ کراچی میں شائع ہوا تھا۔
’’ہمارے ہاں نفاذ اسلام کے مختلف تصورات موجود ہیں جو کتاب وسنت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ مثلاً ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ ایک منظم جماعت قائم کر کے انتخابات یا انقلاب کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کیا جائے اور پھر ڈنڈے کے زور سے لوگوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ اسلامی احکام پر عمل پیرا ہوں اور اسلامی قوانین کی پابندی کریں، چاہے عام لوگوں میں عدم اطمینان کی وجہ سے ان احکام وقوانین کا کوئی احترام موجود ہی نہ ہو۔ اسلام کے لیے ہمارے ہاں ایک دوسرا طریق فکر یہ ہے کہ معاشرے میں ایمانی عقائد اور اسلامی اخلاق کی درستی کا تو کوئی پروگرام وانتظام نہیں ہے، لیکن سارا زور چند فقہی احکام پر صرف ہو رہا ہے۔ ایسے فقہی احکام جو معاشرت، معیشت اور سیاست سے تعلق رکھتے ہیں، جو معاشرے میں ایمانی عقائد اور اسلامی اخلاقی تغیر کے بغیر نہ تو صحیح طور پر عمل میں آ سکتے ہیں اور نہ ہی پائیداری کے ساتھ قائم رہ سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں اسلام کے لیے ایک تیسرا طریقہ کار یہ ہے کہ معاشرے سے ان مادی ومعنوی اسباب ومحرکات کو تو دور کرنے کا کوئی قابل عمل اور موثر پروگرام موجود نہیں جو لوگوں کو برائیوں کے ارتکاب پر ابھارتے اور مجبور کرتے ہیں لیکن وعظ ونصیحت کے ذریعہ لوگوں سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ برائیوں کو ترک کر دیں اور ان سے باز آ جائیں، ورنہ وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے اور خود دنیا میں بھی حد یا تعزیر کی سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔ اسلام کے لیے چوتھا طریقہ کار یہ ہے کہ نام نہاد مسلمان معاشرے کا معاشی نظام تو سراسر سرمایہ دارانہ نوعیت کا ہے لیکن اس نظام کو اسلامی بنانے کے لیے صرف اس کے بعض اجزا مثلاً بنکاری کے شعبہ میں ردوبدل کر کے باقی نظام کو جوں کا توں قائم وبرقرار رکھنے پر زور ہے۔ یہ طریق کار سراسر غیر اسلامی ہے۔‘‘
مولانا محمد طاسین صاحب جو اسلام کی تعبیر وتشریح اور جدید مسائل کے اسلامی حل کے سلسلے میں ممتاز مقام رکھتے ہیں اور ان موضوعات پر ان کے سینکڑوں مقالے اور مضامین شائع ہو چکے ہیں، ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دین کے نفاذ کے لیے جو حکمت عملی اختیار فرمائی تھی، اس سے واقف ہو کر اسے اپنائے بغیر دین کے لیے جو کام ہوگا، وہ افراط وتفریط سے عبارت ہوگا اور اس طرح کے کام سے معاشرے میں دین اور اہل دین سے دوری کو روکنا دشوار ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ کی حکمت عملی کیا تھی؟ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ ﷺ کو جو معاشرہ ملا، وہ ہر لحاظ سے بگڑا ہوا اور انتہائی فاسد معاشرہ تھا لیکن اصلاح کے بعد وہ ایک ایسا صالح اور عادلانہ معاشرہ بن گیا جس کی مثال تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ یہ اس لیے ہوا کہ آپ نے اللہ کی دی ہوئی اس حکمت سے کام لیا جس کا ذکر قرآن میں ’’الحکمۃ‘‘ کی صورت میں موجود ہے۔ آپ ﷺ تزکیہ کے ساتھ ساتھ حکمت کی تعلیم بھی دیتے ہیں اور کتاب کی بھی۔ اصلاح کے کام کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کی حکمت اور طریق کار کو اختیار کرنا ہمارے لیے واجب ہے اور ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ غلبہ دین کے شوق میں آ کر ’’پیغمبرانہ حکمت‘‘ کو نظر انداز کرنا جہاں گناہ کا کام ہے، وہاں اس کے اثرات ونتائج سے بچنا بھی ممکن نہیں۔ اس وقت کا عرب معاشرہ صدیوں سے اعتقادی اور عملی گمراہیوں میں مبتلا تھا۔ توحید کا تصور ختم ہو چکا تھا۔ رسالت کا عقیدہ بھی ذہنوں سے نکل چکا تھا۔ تصور آخرت اور اعمال کی جزا وسزا کا احساس بھی مٹ چکا تھا۔ اسی طرح کی صورت حال اعمال کے سلسلے میں تھی۔ قرآن کے مطالعہ سے رسول اللہ ﷺ کے نفاذ دین کے سلسلے میں جو حکمت نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ عملی زندگی کے بیشتر احکام وقوانین مدنی زندگی کے دس سالہ دور میں رفتہ رفتہ اور بتدریج نازل ہوئے۔ اس میں اس وقت کی جماعت کے حالات کا پورا پورا خیال رکھا گیا۔ ہر قسم کے احکام کا نزول ونفاذ اس وقت ہوا جب اس کے عمل میں آنے اور پائیداری کے ساتھ قائم رہنے کے لیے مناسب وموافق خارجی فضا تیار ہو گئی تاکہ لوگ آسانی کے ساتھ اس پر عمل کر سکیں اور ان قوانین سے بچنے کے لیے چور دروازے تلاش نہ کر سکیں۔ مثلاً سود کے مسئلے کو لیجیے۔ جہاں تک اس کے حرام ہونے کا تعلق ہے تو معاشی ظلم ہونے کی وجہ سے وہ حرام تو شروع سے تھا لیکن اس کی ممانعت کا اعلان ۹ ہجری میں اس وقت ہوا جب اس کے لیے سازگار ذہنی اور خارجی فضا تیار ہو گئی۔ سورہ بقرہ کی جن آیات میں اس کا اعلان ہوا ہے، وہ نزول کے اعتبار سے قرآن مجید کی تقریباً آخری آیات ہیں۔ اسی طرح رسو ل اللہ ﷺ نے اس کا اعلان جس خطبہ حجۃ الوداع میں کیا، ا س کا زمانہ ۱۰ ہجری ہے یعنی یہ اعلان اس وقت ہوا جب ایک طرف ذہنوں میں قرض حسنہ اور انفاق فی سبیل اللہ کا جذبہ عمومی طور پر بیدار ہو گیا۔ دوسری طرف مسلمان معاشی ضرورت کے لحاظ سے خود کفیل ہو گئے اور ان کے لیے یہ اندیشہ باقی نہ رہا کہ اگر یہودیوں نے معاشی بائیکاٹ کر دیا تو مسلمان جماعت اور ان کے مقاصد کو نقصان پہنچے گا۔ تیسری طرف بیت المال کا ایسا ادارہ قائم ہو گیا جس سے ضرورت مندوں کو معاشی طور پر سہارا مل گیا۔ اس کے برعکس اگر سود کے حرام ہونے اور ممانعت کا اعلان مدنی دور کے آغاز میں ہوتا تو اس سے بہت ساری پیچیدگیاں پیدا ہوتیں، مقصد حاصل نہ ہوتا اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا۔ یہی حکمت عملی دوسرے معاملات میں قوانین اور احکام کے نفاذ کے سلسلے میں اختیار کی گئی۔ مقصد یہ ہے کہ لوگ آسانی سے ان قوانین پر عمل کرسکیں۔
چونکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح اسی حکمت عملی کے ساتھ بتدریج فرمائی، اس لیے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اصلاح کے سلسلے میں جو پیش قدمی ہوئی، وہ مخالفانہ رد عمل کا شکار ہو گئی۔ اسی طرح حکمت نبوی میں ہمیں یہ لطیف عمل بھی نظر آتا ہے کہ جب تک شریعت کے اصل اور حقیقی حکم وقانون کے لیے معاشرے میں سازگار حالات پیدا نہ ہوئے، تب تک عبوری عرصہ کے لیے ایسے وقتی احکام سے کام لیا گیا جو اس عرصہ کے لیے نسبتاً مناسب ہو سکتے تھے، لیکن جوں ہی عبوری دور کی یہ مجبوری ختم ہو گئی، وہ احکام منسوخ ہو گئے۔ مثلاً سود کے قطعی حرام ہونے سے پہلے اس کی بعض بدترین صورتوں سے روکا گیا۔ اسی طرح مزارعت، جو سود سے ملتا جلتا معاملہ تھا، اس کی بعض نزاعی شکلوں سے منع کیا گیا۔ آگے چل کر اس کی ہر شکل کو ممنوع قرار دیا گیا۔ شراب کی حرمت کے بارے میں بھی ایسا ہی ہوا۔
نفاذ شریعت اور اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا یہ حکیمانہ طریق کار اور طرز عمل ایک ایسی عظیم سنت ہے جس پر مسلم زعما اور اصلاح کے علم برداروں کو گام زن ہونا چاہیے۔ بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح کے لیے شرعی قوانین کی تحریک چلانے اور انقلاب کی بات کرنے کی بجائے یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ معاشرے میں شریعت کے نفاذ اور پائیداری کے ساتھ اس کے قائم رہنے کے لیے ذہنی اور خارجی طور پر فضا موجود ہے یا نہیں۔ اگر اس طرح کی فضا موجود نہیں ہے تو قوانین کے انطباق اور نفاذ کے عمل کو اس وقت تک موخر رکھنا چاہیے جب تک اس کے لیے سازگار حالات پیدا نہ ہو جائیں۔ نیز عبوری عرصہ کے لیے ایسے قوانین تیار کیے جائیں جو ان حالات میں قابل عمل اور قابل قبول ہوں اور جن پر عمل کرنے سے حالات میں نسبتاً بہتری پیدا ہو سکتی ہو۔ عبوری قوانین یا قانون کی صحت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ قابل عمل بھی ہو یعنی اس پر عمل کرنے سے داخلی طور پر شدید مخالفانہ رد عمل کا اندیشہ نہ ہو۔ نیز وہ قانون ایسا بھی ہو جس پر عمل کرنے سے حالات میں کچھ نہ کچھ تبدیلی وبہتری پیدا ہو۔ اگر عبوری عرصہ کے لیے اس قانون یا قوانین میں مذکورہ دونوں خوبیوں میں ایک بھی خوبی موجود نہ ہو تو وہ غلط ہو جاتے ہیں۔
قوانین کے نفاذ کی یہ صورت اس معاشرے کے لیے ہوگی جس نے توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان لا کر طے کر دیا ہو کہ وہ اپنی پوری زندگی اللہ اور اس کے رسول کے ہدایت کردہ احکامات کے مطابق بسر کرے گا۔ ایسا ہی معاشرہ اس بات کا استحقاق رکھتا ہے کہ ا س میں دین کے احکام بتدریج نافذ ہوں۔ اس طرح کے معاشرے کے لیے اسلامی شریعت خیر وبھلائی کو پیش نظر رکھتی ہے اور اسے زندہ اور قائم رہنے کا ڈھنگ سکھاتی ہے۔ ایسے معاشرے کو اسلامی شریعت ایک طرف تو عادلانہ اصول واحکام دیتی ہے جن پر عمل کرنے سے معاشرے کے ہر فرد کے ہر قسم کے حقوق محفوظ ہوں اور افراد معاشرہ کو اپنی فطری صلاحیتوں کو برگ وبار لانے اور ارتقا کے مواقع مہیا ہوں تو دوسری طرف افراد معاشرہ وہ معروف طور طریقے اختیار کریں جو معاشی خود کفالت اور سیاسی خود مختاری کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ تیسری طرف اجتماعی امور ومعاملات میں نظم وضبط قائم رکھنے اور کاروبار زندگی کو باقاعدگی سے چلانے کے لیے عبوری قوانین وضع کیے جائیں۔ ایسے عبوری قوانین جن سے شریعت کے حقیقی ومثالی اصول واحکام کی منزل قریب ہونے میں مدد ملتی ہو۔ چونکہ عبوری قانون سازی کا تعلق معاشرے کے تغیر پذیر حالات سے ہوتا ہے جو کچھ نہ کچھ بدلتے رہتے ہیں، اس لیے عبوری قانون سازی کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے اور نئے نئے عبوری قوانین بنتے رہنے چاہییں۔ چونکہ یہ تغیر پذیر عبوری قوانین کامل عدل پرمبنی نہیں ہوتے جو شریعت کا اصل منشا ہے بلکہ ان میں ظلم وحق تلفی کے اجزا موجود ہوتے ہیں، اس لیے ان قوانین کو پورے اسلامی اور شرعی قوانین تو نہیں کہا جا سکتا لیکن چونکہ یہ شریعت کی حکمت عملی کے مطابق ہوتے ہیں اور ان کو شریعت کی طرف سے سند جواز حاصل ہوتی ہے، اس لیے ان کو نسبتی اور اضافی طور پر اسلامی اور شرعی کہہ سکتے ہیں۔
شریعت کی نفاذ کی یہ ترتیب تو اس معاشرے کے لیے ہے جو اسلام کے نفاذ کے لیے واقعتاً سنجیدہ ہو اور اس پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہے لیکن جو معاشرہ ایمان وعقائد کے اعتبار سے ناپختہ ہو، طرح طرح کی اعتقادی اور اخلاقی بیماریوں میں مبتلا ہو، عملی طور پر بغاوت کی شدید روش پر گام زن ہو، مادیت کی دوڑ میں شریک ہو، اس معاشرے میں اصلاح اور تعمیر افکار وکردار کے ہمہ جہتی منصوبوں کے بجائے نفاذ شریعت کی بات کرنا پیغمبرانہ حکمت عملی کے سراسر منافی ہے۔ اس معاشرہ کا تو بنیادی مسئلہ ہی یہ ہے کہ اسے ذہنی، نظری، فکری اور عملی طور پر اسلام پر چلنے کے لیے آمادہ کیا جائے۔ جب تک معاشرے کی اکثریت کے ذہنوں میں ایمان وعقائد کی بنیاد پر وسیع وعالمگیر قسم کے اخلاقی جذبات واحساسات پیدا نہ ہوں جس کے زیر اثر لوگ ایک دوسرے کے ساتھ عدل واحسان کی روش اختیار کریں اور معاشی طور پر بہتر نظام متشکل ہو، تب تک اس معاشرے میں کرنے کا اصل کام یہی ہے کہ ایمان وعقیدہ اور اخلاقی زندگی میں تغیر پیدا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کام ہو۔
احکام شریعت کا سارا دار ومدار ایمانی عقائد پر ہے اس لیے کہ شریعت کا تعلق ہی ایسے معاشرے سے ہے جس کی بڑی اکثریت کے اندر ایمانی عقائد اپنی صحیح صورت میں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ جس معاشرے میں یہ صورت نہ ہو، اس کے لیے شریعت کی بات ہی بے محل ہو جاتی ہے۔ ایسے معاشرے میں شریعت سے بے اعتنائی اور بے رغبتی کا پایا جانا ایک قدرتی امر ہے۔ ایسے معاشرے کو اسلامی بنانے کے لیے، جیسا عرض کیا گیا، ضروری ہے کہ پہلے اس کے اندر ایمانی عقائد کی بھرپور تبلیغ اور تعلیم ہو، صحیح عقائد پختہ ہوں، اس کے بغیر ذہنی فضا تیار ہی نہیں ہو سکتی، جو شریعت کے قیام کے لیے ضروری ہے۔‘‘
مولانا محمد طاسین صاحب کے یہ خیالات ایسے ہیں جو اسلام اور سیرت نبوی کے گہرے مطالعے اور غور وفکر پر مبنی ہیں۔ ہمارے ہاں اسلامی حکومت کے قیام کے لیے چلنے والی تحریکوں کے نتائج کے بعد ان خیالات کی اہمیت وافادیت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ کاش کہ مولانا کے ان خیالات کو گروہی اور جماعتی تعصبات سے بالاتر ہو کر پڑھا جائے اور ان کے بصیرت افروز نکات سے استفادہ کیا جائے۔
(بشکریہ ماہنامہ ’’بیداری‘ ‘حیدر آباد)