تحریک ریشمی رومال پر ایک نظر

مولانا شمس الحق مشتاق

یہ بیسویں صدی کا حیدر آباد سندھ ہے۔ قدیم طرز کے مکان میں ایک شخص پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس سوئی دھاگا لیے ایک زرد رنگ کا رومال جس کی لمبائی ایک گز ہے اور عرض بھی اتنا ہی ہے گدڑی میں سی رہا ہے۔ وضع قطع اور صورت شکل سے درویش نظر آتا ہے۔ اچانک ایک دھماکہ سا ہوتا ہے وہ سر اٹھا کر دیکھتا ہے چند گورے اور سکھ فوجی صحن کی دیواریں پھاند کر اس کی طرف لپکے آرہے ہیں۔ وہ گدڑی اٹھا کر کمرے کے پچھلے دروازے کی طرف بھاگنے لگتا ہے لیکن فوجی سر پر پہنچ جاتے ہیں اور اس سے گدڑی چھین لیتے ہیں۔ وہ شخص ان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور صحن میں پہنچ کر دیوار پھاند لیتا ہے۔ چند فوجی اس کے پیچھے جاتے ہیں لیکن تھوڑی دیر بعد ہاتھ ملتے لوٹ آتے ہیں۔

یہ درویش آزادی ہند کی انقلابی پارٹی کے سرگرم اور سرفروش رکن اور پارٹی کے قائد شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ کے قابل اعتماد پیروکار شیخ عبد الرحیم تھے۔ اچاریہ کرپلانی کے حقیقی بھائی جو مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے ہاتھ پر حلقہ اسلام میں داخل ہوئے تھے۔

پارٹی کا مرکزی دفتر پہلے دیوبند میں تھا بعد میں دہلی منتقل ہوگیا۔ تحریک کا نام جس کی بنا پر پارٹی تشکیل دی گئی تھی پہلے ثمرۃ التربیہ اور پھر جمعیۃ الانصار رکھا گیا تھا۔ اس کا پروگرام یہ تھا کہ ہندوستان پر قابض انگریز حکومت کے خلاف ملک بھر میں عام بغاوت کرائی جائے اس طرح ملک کو فرنگی استبداد سے آزاد کرانا تھا۔ منصوبے کے مطابق ترکی کی فوج کو افغانستان کے راستے حملہ آور ہونا تھا اس لیے افغانستان کی حکومت کو بھی جس کا سربراہ حبیب اللہ خان تھا ہموار کرنا تھا ۔ ترکی سے یہ طے کیا جا رہا تھا کہ اس کی فوج ہندوستان کو آزاد کراکے لوٹ جائے گی ۔ اس مدد کے عوض آزاد ہندوستان اس کی اخلاقی اور مالی امداد کرتا رہے گا۔ ترکی فوج کے کماندار غازی انور پاشا تھے۔

اس طریقہ کار پر عمل کرنے کے لیے دس جامع منصوبے ۱۹۰۵ء میں بنائے گئے تھے۔ ان کی تکمیل ۱۹۱۴ء میں ہوئی۔ منصوبے یہ تھے : ہندو مسلم مکمل اتحاد‘ علماء فکر قدیم اور جدید تعلیم یافتہ طبقے میں اشتراک فکر و عمل‘ اقوام عالم سے اخلاقی مدد کا حصول‘ جنگی نقشوں کی تیاری‘ انقلاب کے بعد عبوری حکومت کے خاکے کی ترتیب‘ بغاوت کے خفیہ مراکز کا قیام‘ بیرون ملک امدادی مراکز کا تعین‘ ترکی کی حمایت کے لیے دوسرے ملکوں سے رابطہ ‘ باہر سے حملے کے لیے راستوں کی نشاندہی‘ بیک وقت بغاوت اور حملے کے لیے تاریخ کا تعین۔

تاریخ شاہد ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے لیے معرکہ بالا کوٹ ۱۸۳۱ء اور انقلاب ۱۸۵۷ء کی خونچکاں اقدامات کے بعد یہ تیسری سرفروشانہ تحریک تھی جو تحریک ریشمی رومال کے نام سے تاریخ کے صفحوں پر انمٹ نقوش چھوڑ گئی۔ پہلی تحریک مسلمانوں کے جاہلانہ تغافل سے ناکام ہوئی۔ لیکن دوسری اور تیسری تحریکیں بعض لوگوں کے مجرمانہ عدم تعاون اور کھلے بندوں غداری سے ملیا میٹ ہوئیں۔ یہ ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے کہ تینوں تحریکوں میں بنیادی اور مرکزی کردار علمائے حق نے ادا کیا ۔ انقلاب ۱۸۵۷ء میں عام مسلمانوں کا زیادہ حصہ ہے لیکن دوسری دونوں تحریکوں کا سہرا تمام تر علماء حق کے سر ہے۔ تحریک ریشمی رومال کی کامیابی اپنوں کی غداری اور انگریزوں کے طے شدہ حفظ ما تقدم کے باوجود یقینی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ بیرونی امداد کے امکانات دسترس میں تھے۔ ۱۸۵۸ء میں سامراجیت کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ سے براہ راست حکومت برطانیہ کے ہاتھ میں منتقلی کے بعد انگریز دشمنی کے دور کا آغاز ہو چلا تھا ۔ بعید نہ تھا کہ یہ خارجی نیک فال داخلی جدوجہد کے لیے ممد و معاون ثابت ہوتی۔ برطانیہ کی توسیع پسندی کے پیش نظر ۱۸۵۰ء میں دوار آف بھوٹان پر قبضہ کیا گیا اور برما کے شمالی حصہ کو فتح کر کے سلطنت میں شامل کیا گیا۔ ۱۸۶۸ء میں تبت اور چین پر حملہ کیا گیا اور سرحد کے مجاہدین پر فوج کشی ہوئی۔ ۱۸۸۵ء میں کابل پر حملہ کیا گیا۔ ۱۸۹۰ء میں حکومت منی پور پر تسلط کیا گیا۔ ۱۸۹۵ء میں چترال پر قبضہ ہوا۔ ۱۸۹۶ء میں تیراہ پر حملہ کیا گیا۔ ۱۸۹۷ء میں دوبارہ سرحدی مجاہدین کے خلاف چھ مہمیں بھیجی گئیں۔ بیرونی امداد کے سلسلے میں حکومت ترکی سے توقع کسی خوش فہمی اور جذباتیت کی بنا پر نہیں تھی اس کے پس منظر میں ٹھوس حقائق اور دلائل تھے ۔ترکی برطانیہ کا زخم خوردہ تھا۔ اگر مذہب اور حریت پسندی ہندوستان اور ترکی میں قدر مشترک نہ ہوتی تب بھی سیاسی طور پر ترکی کی طرف سے مدد لازمی تھی۔ ۱۸۳۹ء میں انگریزوں نے سلطان عبد المجید خان کو محمد علی پاشا کی بغاوت کے خلاف مدد دی اور اس کے عوض میں پہلے عدن کی بندرگاہ اور پھر سارے عدن پر قبضہ کر لیا۔ اس قبضے کی وجہ سے آنے والے برسوں میں جو نتائج نکلے وہ تصور میں لائے جا سکتے ہیں۔ اس مدد کا سارا خرچ (بیس لاکھ پونڈ) ہندوستان کے ذمہ قرض کے طور پر ڈالا گیا۔ ۱۸۷۸ء میں باب عالی سلطان عبد المجید خان سے خفیہ معاہدہ کر کے جزیرہ قبرص قبضے میں کیا گیا اس کے بھی دور رس نتائج نکلے۔ اسی سال برلن میں یورپی ملکوں کی کانفرنس ہوئی جس میں ترکی کے حصے بخرے کر کے آپس میں بانٹ لیے گئے۔ برطانیہ بھی حصے دار بنا۔ ۱۸۵۸ء میں رومانیہ‘ بلغاریہ‘ کریٹ‘ سرویا‘ مولڈویا‘ ولاچیا‘ ابوسینا‘ مونٹی ‘ نیگرو اور ارضی گونیا کو ترکی کے قبضے سے نکلوا دیا۔ ۱۹۰۴ء میں برطانیہ کی شہ پر فرانس نے مراکش پر قبضہ کر لیا۔

۱۹۰۸ء میں ترکی میں فوجی انقلاب رونما ہوا۔ یہ انقلاب فوجیوں کی تنظیم " اتحاد المسلمین" نے برپا کیا تھا جس کے قائد غازی انور پاشا تھے۔ بعد میں یہی حکومت کے سربراہ بنے۔ ۱۹۱۲ء کی جنگ بلقان میں ہندوستان کی حریت پسند تحریکوں نے ترکی کی جو اخلاقی اور مالی مدد کی تھی اسے انور پاشا بھولے نہیں تھے۔ اس لیے تحریک ریشمی رومال کو ترک کے سربراہ کی حیثیت سے اس کی مدد غیر متوقع نہیں تھی۔ تحریک کے پہلے دو منصوبوں کے لیے فضا پہلے ہی سازگار تھی۔ ہندوستان کے تمام حریت پسندوں میں ذہنی ہم آہنگی اور اشتراک عمل کا جذبہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کے وقت ہی سے پیدا ہو چکا تھا اور اس کا مظاہرہ بار بار خصوصاً ۱۸۵۷ء میں اور اس کے بعد ہو چکا تھا۔ تحریک کے عملی قائد شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن تھے لیکن اس کے قیام اور ساری منصوبہ بندی میں جن شخصیتوں کا ہاتھ تھا ان میں رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا شوکت علی‘ مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا عبید اللہ سندھی‘ ڈاکٹر انصاری‘ موتی لال نہرو‘ لاجپت رائے اور راجندر پرشاد شامل تھے۔ اس کے علاوہ ۱۸۵۷ء کے انقلاب نے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک کھیپ مہیا کر دی تھی جن کے دلوں میں حریت کی چنگاریاں سلگ رہی تھیں اور ذہن جدید طبیعاتی تقاضوں سے روشن تھے۔ ان نوجوانوں میں جن لوگوں کو اہم فرائض سونپے گئے ان میں پروفیسر برکت اللہ ایم اے تھے جنہیں ترکی‘ جرمنی اور جاپانی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ چوہدری رحمت علی گریجویٹ‘ لالہ ہرویال ایم اے‘ کامریڈ ستھرا سنگھ گریجویٹ‘ مولوی محمد علی قصوری گریجویٹ‘ میاں عبد الباری ایم اے‘ رام چندر گریجویٹ‘ بمبئی کے شیخ محمد ابراہیم ایم اے اور چینی زبان میں ماہر بنگال کے شوکت علی گریجویٹ وغیرہ شامل تھے۔ تیسرے منصوبے کے تحت چین‘ جاپان‘ فرانس‘ برما اور امریکہ میں کام شروع کیا گیا۔ اس کے لیے مشنری طریقہ کار اپنایا گیا۔ پہلا مشن دیوبند سے فارغ التحصیل مولانا مقبول الرحمن مانسہرہ ہزارہ اور شوکت علی کی سرکردگی میں چین بھیجا گیا جس میں چھ اور افراد بھی شامل تھے لیکن چین میں ایک مرکزی سیرت کمیٹی قائم کر کے ملک بھر میں اس کی شاخیں کھول دی گئیں۔ اردو اور چینی زبانوں میں ایک رسالہ "الیقین" جاری کیا گیا۔ ان کاموں میں مشن کو بڑی کامیابی ہوئی۔ چینی مسلمانوں کی خاصی تعداد ہندوستان کی صورت حال سے متاثر ہوئی اور انگریز سامراجیت سے چھٹکارا دلانے میں ہر ممکن اخلاقی مدد کا وعدہ کیا۔ ہر چند کہ چینی عوام خودظلم و استبداد کی چکی میں پس رہے تھے ۔ حکومت کی سطح پر کوئی نمایاں کام نہ ہو سکا کیونکہ ملک پر سامراجیت کے دوسرے روپ شہنشاہیت اور جاگیر داری کا تسلط تھا۔ مشن نے اپنے اخراجات اس طرح پورے کیے کہ ایک شفاخانہ کھول لیا۔ مولانا مقبول الرحمن طبابت اور شوکت علی ڈاکٹری کرتے تھے۔

۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۹ء تک چین میں کام کرنے کے بعد دونوں صاحبان کو برما جانے کا حکم ملا۔ مشن کے تین ارکان کو چین میں کام کی نگرانی کے لیے چھوڑا گیا۔ شفاخانے کو فروخت کر کے ان کے گزارے کے لیے رقم دی گئی اور سفر کا خرچ بھی نکالا گیا۔ ایک آدمی کو واپس ہندوستان بھیجا گیا اور چار آدمی برما پہنچے۔ وہاں کپڑے کا کاروبار شروع کیا گیا جس میں کافی منافع ہوا۔ برما میں مذہبی طریقہ کار اپنانے سے کامیابی کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ لہذا انسانی رشتے کو مقصد کے حصول کے ذریعہ بنایا گیا اور انسانی برادری کے نام سے ایک انجمن بنائی گئی جس کا نصب العین انسانی فلاح و بہبود بتایا گیا۔ مولانا مقبول الرحمن نے عربی زبان میں ایک کتاب "الانسان" لکھی ۔ اس کا انگریزی اور برمی زبانوں میں شوکت علی نے ترجمہ کیا۔ مشن ۱۹۱۲ء تک بڑی کامیابی سے اپنا کام کرتا رہا ۔ اس نے ہزاروں افراد کو ہندوستان کی اخلاقی مدد کے لیے تیار کیا جس سے ایک مخلص حلقہ پیدا ہوگیا شومئی قسمت کہ ۱۹۱۲ء میں تحریک ناکام ہوگئی ۔ شوکت علی اور دونوں ہندو اراکین ہندوستان چلے گئے اور مولانا مقبول الرحمن رنگون جا پہنچے ۔ شوکت علی ہندوستان سے فرار ہو کر برلن چلے گئے اور مولانا مقبول الرحمن ۱۹۲۳ء میں وطن لوٹے۔

دوسرا مشن جاپان بھیجا گیا ۔ اس میں پانچ آدمی تھے اور قائد پروفیسر برکت اللہ تھے۔ انگریزی‘ ترکی‘ جرمنی زبانوں کے علاوہ جاپانی زبان میں بھی مہارت رکھنے کی وجہ سے انہیں ٹوکیو کے ایک کالج میں پروفیسری مل گئی۔ مشن نے اسلامک فریٹرنٹی کے نام سے ایک انجمن بنائی اور اسی نام سے انگریزی اور جاپانی زبانوں میں رسالہ نکالا جس کے مدیر پروفیسر صاحب تھے۔ ترکی کی طرح جاپان سے بھی بھرپور مدد کی توقع تھی کیونکہ جاپان برطانیہ کا سخت مخالف تھا۔ اسی مخالفت کی بنا پر اس نے دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ پر حملہ کیا تھا۔ مشن کو یہاں کامیابی سے ہمکنار ہوتا دیکھ کر ۱۹۱۰ء میں پروفیسر برکت اللہ کو چوہدری رحمت علی کی مدد کے لیے فرانس جانے کا حکم ملا۔ جہاں چوہدری صاحب کی سرکردگی میں تیسرا مشن کام کر رہا تھا۔ پروفیسر صاحب نے ملازمت چھوڑ دی ‘ اخبار بند کر دیا اور ساتھی کو لے کر فرانس کی طرف روانہ ہوگئے۔

فرانس کے مشن میں چوہدری رحمت علی کے ساتھ دو آدمی تھے‘ ان میں ایک گریجویٹ رام چندر نہایت قابل نوجوان تھا۔ پروفیسر برکت اللہ نے انگریزی زبان میں ایک اخبار "انقلاب" جاری کیا اور تندہی سے کام کرنے لگے۔ یہ اخبار مشن کی تشکیل کردہ غدر پارٹی کا ترجمان تھا۔ رولٹ کمیٹی کی رپورٹ میں اخبار کا نام بھی غدار لکھا گیا ہے جو کہ غلط ہے۔ فرانس میں چھ سال تک کام ہوتا رہا۔ عوامی سطح پر "غدر پارٹی" کی بہت حوصلہ افزائی کی گئی۔ اخلاقی مدد کے بھی روشن امکانات تھے لیکن حکومت کی طرف سے کوئی امید نہیں تھی۔ جو کچھ حاصل ہوا اسی پر اکتفا کر کے پروفیسر برکت اللہ اور چوہدری رحمت علی کو امریکہ جانے کا حکم ملا۔

امریکہ میں لال ہر دیال کی سربراہی میں چھ آدمیوں پر مشتمل مشن کام کر رہا تھا۔ پروفیسر صاحب اور چوہدری صاحب کی شمولیت سے تعداد آٹھ ہوگئی۔ یہاں بھی "غدر پارٹی" کام کر رہی تھی۔ ان دونوں حضرات کے آنے کے بعد پروفیسر صاحب کی ادارت میں "غدر" نام سے ایک اخبار نکالا گیا۔ در اصل واشنگٹن کے اسی اخبار کا مغالطہ رولٹ کمیٹی کو ہوا تھا۔ چوہدری رحمت علی کی سکونت تو پیرس میں تھی لیکن وہ واشنگٹن آتے جاتے رہتے تھے اور وہاں کچھ زمین بھی خرید لی تھی۔ انہوں نے اسے بیچ کر ایک ہوٹل کھول لیا۔ اس کے ایک کمرے میں پارٹی کا اور دوسرے کمرے میں اخبار کا دفتر قائم کیا گیا۔ ہوٹل کی آمدنی سے اخراجات پورے ہوتے رہے اور یہ پہلے ہردیال اور چوہدری صاحب کی نگرانی میں چلتا رہا اس کے علاوہ پارٹی والوں نے رنگوں کا کاروبار شروع کر رکھا تھا۔ اس میں سے آمدنی بھی تھی اور دہلی کے مرکز سے رابطہ بھی قائم تھا۔ دہلی کے چار مسلمان اور تین ہندو‘ پشاور کے دو مسلمان ‘ ایک ہندو ‘ لاہور کے دو مسلمان اور پانچ ہندو‘ بمبئی کا ایک مسلمان اور چار ہندو‘ کلکتہ کے چار ہندو اور ایک مسلمان‘ ڈھاکہ کے دو ہندو ایک مسلمان اور کراچی کا ایک ہندو ان لوگوں سے مال منگواتے تھے اور کاروبار کی آڑ میں مرکز کی رپورٹیں بھیجی اور ہدایات حاصل کی جاتی تھیں۔ ہندوستان میں تحریک کے ناکام ہونے کی خبر ملی تو ہوٹل فروخت کر دیا گیا اور اخبار بھی بند کر دیا گیا۔ مشن کے اراکین پیرس چلے گئے‘ وہاں سے جنیوا اور برلن ہوتے ہوئے افغانستان پہنچے اور وطن آ گئے۔

انقلابیوں کا چوتھا منصوبہ جنگی نقشوں کی تیاری تھا۔ اس منصوبے کو تین شکلیں دی گئیں۔ پہلی شکل تھی بیرونی حملے کے لیے راستوں اور محاذوں کی تفصیلی نشاندہی کرنا۔ حملہ آور فوج کے لیے رسد رسانی اور اس کے اپنے ہیڈ کوارٹر سے رابطے اور انقلابی رضا کاروں سے رابطے کے لیے پیغام رسانی کا انتظام کرنا اور حملہ آور فوج کی نقل و حرکت کے لیے سہولت فراہم کرنا۔ دوسری شکل یہ تھی کہ سی آئی ڈی کے آدمیوں سے تعاون حاصل کیا جائے اور اس محکمے میں اپنے آدمی داخل کیے جائیں تا کہ حکومت کی پالیسیوں اور اداروں کی خبر ملتی رہے ۔ تیسری شکل تھی فوج میں اپنے ہم خیال بنانا اور انقلابی کارکنوں کو فوج میں بھرتی کرانا تا کہ جب حملہ ہو تو دشمن کو سبو تاژ کیا جا سکے۔

پہلا کام مولانا عبید اللہ سندھی کو سونپا گیا اور بمبئی کے شیخ محمد ابراہیم ایم اے کو ان کا مددگار بنایا گیا۔ مولانا نے شمال مغربی سرحد کے کئی دورے کیے۔ جغرافیائی پوزیشن کا بغور نظر معائنہ کیا۔ فنون حرب سے آگاہی کے لیے انگریزی‘ جرمنی‘ ترکی‘ فرانسیسی اور عربی زبانوں کی کتابیں منگوا کر ان کا مطالعہ کیا۔ قدیم اور جدید طریقوں کو پرکھا اور متواتر سات سال تک کام کرنے کے بعد جنگ اور اس کے محاذوں کا ایک فقید المثال نقشہ تیار کیا۔ ان کے مطالعے سے بعد میں ترکی‘ جرمنی اور افغان فوجی افسروں نے بھی استفادہ کیا۔ مولانا کے تربیت یافتہ نوجوانوں نے والئی افغانستان امیر امان اللہ اور انگریزوں کے مابین جنگ میں افغان فوج کی ناقابل فراموش رہنمائی کی۔ دوسرے کام کی سربراہی ڈاکٹر انصاری نے انجام دی ۔ بہت سے ہندو اور مسلم نوجوان سی آئی ڈی میں گھس گئے اور حکومت کے راز قائدین تحریک تک پہنچاتے رہے۔ تحریک کی ناکامی کے بعد کئی نوجوان پکڑے گئے اور پھانسی پر لٹکائے گئے۔ تیسری شکل کے تحت منتخب نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کرایا گیا۔ انہوں نے حب الوطن فوجیوں کو اپنا ہم خیال بنایا۔ بعض پکڑے بھی گئے اور کچھ لوگ تحریک کی ناکامی کے بعد بھی رہے اور پہلی جنگ عظیم کے بعد فوج سے نکل گئے۔ بعض ایسے بھی جو مستقل طور پر فوج میں رہے اور دوسری جنگ عظیم میں دوسرے افراد کو اپنے ساتھ ملا کر آزاد ہند فوج کے روپ میں سامنے آئے۔

پانچویں منصوبے کے تحت انقلاب کے بعد قائم ہونے والی عبوری حکومت کا خاکہ یہ بنایا گیا کہ ایک ہندو اور ایک مسلمان پر مشتمل ایک اعلیٰ اختیارات کی کونسل ہوگی۔ مسلمان رکن کے لیے شیخ الہند مولانا محمود حسن کا نام تھا۔ ہندو رکن کا نام تحقیق طلب ہے۔ کونسل کے تحت صدر‘ وزیر اعظم‘ وزیر مملکت اور ان کے ماتحت کابینہ ہوگی۔ ان عہدے داروں کے لیے مجوزہ افراد علی الترتیب راجہ مہندر پرتاب‘ پروفیسر برکت اللہ او رمولانا عبید اللہ سندھی تھے۔ انہی لوگوں نے کابینہ بنانا تھی۔ فوج کے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے حضرت شیخ الہند کا نام تھا جرنیلوں کی تعداد بارہ رکھی گئی تھی۔

چھٹا منصوبہ بغاوت کے خفیہ مراکز کے قیام کا تھا۔ ہیڈ کوارٹر دہلی میں بنایا گیا ۔ اس میں شیخ الہند‘ مولانا محمد علی‘ مولانا شوکت علی‘ مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا عبید اللہ سندھی‘ ڈاکٹر انصاری‘ گاندھی جی‘ پنڈت موتی لال نہرو‘ لالہ لاجپت رائے اور بابو راجندر پرشاد وغیرہ صف اول کے لوگ تھے ہیڈکوارٹر کے تحت آٹھ شاخیں پانی پت (یوپی کے اضلاع) لاہور (پنجاب) راندیر (بمبئی) گجرات کاٹھیاواڑ (مہاراشٹر) کراچی (قلات) لسبیلہ وغیرہ‘ اتمان زئی (شمالی سرحد) دین پور (بہاول پور) اور ترنگ زئی (آزاد قبائل) ‘ امروٹ (سندھ) میں کام کرتی تھیں۔ ان شاخوں کے امیر علیٰ الترتیب مولانا احمد اللہ‘ مولانا محمد احمد‘ مولانا محمد ابراہیم‘ مولانا محمد صادق‘ خان عبد الغفار خان‘ مولانا غلام محمد‘ مولانا فضل واحد اور مولانا تاج محمود تھے۔ مرکز میں ہندو اراکین کی موجودگی کے باوجود کسی شاخ کا سربراہ ہندو نہیں تھا۔ بعض ذرائع کے مطابق بنگال میں بھی شاخیں تھیں۔ بنگال میں مولانا ریاض احمد اور شمال مغربی سرحد میں تین علماء کی مشترکہ کمان تھی۔ کہا جاتا ہے کہ چند سال بعد جب آزاد قبائل اور انگریزوں کی خونریز جھڑپیں ہوئیں اور انگریز فوج کو پے در پے ہزیمت اٹھانی پڑی تو یہ اسی کام کا کارنامہ تھا۔

ساتویں منصوبے یعنی بیرون ملک امدادی مراکز کے قیام کی سمت میں ہیڈ کوارٹر کابل میں تھا۔ یہاں کے سربراہ مہندر پرتاب تھے۔ بعد میں مولانا سندھی ان سے جا ملے اور دونوں نے مل کر کام کیا۔ اس ہیڈ کوارٹر کی شاخیں مدینہ منورہ‘ برلن‘ استنبول‘ انقرہ اور قسطنطنیہ میں تھیں۔ برلن میں لالہ ہردیال نے نمایاں کام کیا۔ ان کی کوشش سے جرمنی اور ترکی کا پیکٹ ہوا اور جرمنی ہندوستان کو آزاد کرانے کے لیے آمادہ ہوگیا۔ کابل کے ہیڈ کوارٹر نے فقید المثال کارنامہ انجام دیا۔ امیر حبیب اللہ اور اس کے لڑکے عنایت اللہ کے دوغلے پن (جو بعد میں غداری پر منتج ہوا) کے باوجود تحریک کے آدمیوں کو افغانستان کی سیاست میں اتنا عمل دخل حاصل ہوگیا کہ تحریک کی ناکامی کے بعد قائدین کے دوست اور ہمدرد افسروں نے امیر حبیب اللہ خان کو قتل کروا کر اس کے بیٹے خان امان اللہ کو تخت پر بٹھایا جنہوں نے شروع سے تحریک کی اخلاقی اور مالی مدد کی تھی۔ انہوں نے تخت پر بیٹھتے ہی تحریک کے نظر بند قائدین کو رہا کر کے اپنا مشیر بنا لیا۔ قائدین تحریک ہی کے مشورے سے امان اللہ خان نے انگریزوں سے دو دو ہاتھ کیے اور ۲۳ اگست ۱۹۱۹ء کو افغانستان کو مکمل آزاد کروا لیا۔ مولانا سندھی افغانستان میں چوری چھپے داخل ہوئے تھے تو فوج کے سپہ سالار نادر شاہ نے قندھار میں ان کا پرجوش خیر مقدم کیا۔ جب قائدین تحریک کے ایماء پر انگریزوں سے لڑنے کے بارے میں رائے معلوم کرنے کے لیے جرگہ بلایا گیا تو حبیب اللہ خان کے سوا سب لوگوں نے لڑائی کے حق میں رائے دی۔ ان میں امان اللہ خان اور عنایت اللہ خان اور ان کا بھائی نصر اللہ خان پیش پیش تھے۔

آٹھواں منصوبہ یہ تھا کہ برطانیہ اور ترکی کی آویزش میں (وسیع تر مقصد یہ تھا کہ ترکی کے ہندوستان پر حملے کے لیے) بعض ملکوں مثلاً روس‘ جرمنی‘ فرانس اور امریکہ کو ترکی کی حمایت پر آمادہ کیا جائے۔ اس ضمن میں کراچی میں اکابرین تحریک کی ایک مجلس مشاورت ہوئی۔ مولانا محمد علی کا خیال تھا کہ امریکہ ترکی کا ساتھ دے گا کیونکہ وہ خود بھی برطانیہ کا غلام رہ چکا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا خیال تھا کہ امریکہ غیر جانبدار رہے گا لیکن شیخ الہند کا موقف تھا کہ امریکہ برطانیہ کی کھلے بندوں مدد کرے گا۔ چنانچہ یہی ہوا تاہم امریکہ اور فرانس کے انصاف پسند لوگوں نے برطانیہ کے خلاف احتجاج کیا اور تحریک کا مشن کسی حد تک کامیاب رہا۔

روس میں بھی تحریک کا مشن حکومت کی سطح پر ناکام رہا۔ زار نے مشن کے قائدین ڈاکٹر مرزا احمد علی اور ستھرا سنگھ کی گرفتاری کا حکم دیا لیکن تاشقند کے گورنر نے جو تحریک کے کارکن بن گئے تھے انہیں گرفتاری سے بچا لیا۔ اس مشن کا تذکرہ روس کے انقلابیوں نے اپنے ایک پمفلٹ میں بھی کیا تھا اور اسے موثر قرار دیا تھا۔ عوامی سطح پر مشن اپنے مقصد میں کامیاب رہا اور روس برطانیہ دوستی خطرے میں پڑ گئی جس کے لیے لارڈ کچز خود روس پہنچا۔ البتہ ایک دوسرا مشن جو روس کے راستے جاپان جا رہا تھا زار کے ہتھے چڑھ گیا۔ بد قسمتی سے ستھرا سنگھ جو اس مشن میں شامل تھے اپنے ساتھی عبد القادر سمیت انگریزوں کے حوالے کر دیے گئے۔ انگریزوں نے ستھرا سنگھ کو پھانسی دے دی اور عبد القادر کو لمبی قید کی سزا دی۔

بیرون ملک تحریک کو صرف جرمنی میں کامیابی حاصل ہوئی۔ راجہ مہندر پرتاب نے وہاں تین سال رہ کر یہ کارنامہ انجام دیا۔ پروفیسر برکت اللہ اور لالہ ہردیال نے بھی ان کی اعانت کی۔ اس سلسلہ میں جرمنی کے کیپٹن ہنٹس نے بڑی مدد کی وہ محاذ کے معائنے کے لیے کابل بھی گیا۔ یہ کوششیں بار آور ہوئیں اور جرمنی ترکی کی مدد کرنے اور ہندوستان کو آزاد کرانے کے لیے آمادہ ہوگیا۔ مطمئن ہو کر راجہ مہندر پرتاب کابل چلے گئے جہاں مولانا سندھی بھی پہنچ گئے۔

نویں منصوبے میں حملے کے لیے راستوں کا تعین کرنا تھا۔ ایران‘ برطانیہ کا حلیف اور ترکی کا دشمن تھا۔ اس لیے وہ راستہ ترک کرنا پڑا‘ دوسرا راستہ افغانستان تھا۔ امان اللہ خان اور سول اور فوجی افسروں اور قبائل کے اٹل فیصلے سے ڈر کر حبیب اللہ خان راستہ دینے پر آمادہ ہوگیا۔ لیکن انگریز دوستی کا حق ادا کرنے کے لیے تجویز پیش کی کہ ترکی فوج بعض مخصوص دروں سے گزرے‘ ہم انگریزوں سے کہہ دیں گے کہ وہاں کے قبائلی باغی ہوگئے ہیں اور ہم مجبور ہیں اس کے علاوہ سرکاری فوج جنگ میں حصہ نہ لے البتہ رعایا رضا کارانہ طور پر حصہ لے سکتی ہے۔ در اصل اس کا مقصد یہ تھا کہ فریقین میں جس کا پلہ بھاری دیکھوں گا۔ اس کے ساتھ ہو جاؤں گا۔

امان اللہ خان اور نصر اللہ خان نے قائدین تحریک کو سمجھایا کہ اسی پر اکتفا کر لیں جب ترکی کی فوج ملک میں داخل ہو جائے گی تو ہم اپنے باپ کو انگریزوں کے خلاف بغاوت پر آمادہ کر لیں گے ورنہ اسے راستہ سے ہٹا دیں گے۔ حملہ کے لیے چار محاذ بنائے گئے۔ ہر محاذ پر ایک انقلابی کو نگران مقرر کیا گیا۔ مولانا محمد صادق کی نگرانی میں قلات اور مکران کے قبائل کا ترک فوج کی قیادت میں کراچی پر حملہ‘ حافظ مولانا تاج محمود سندھی کی نگرانی میں ترک فوج کی سربراہی میں غزنی اور قندھار کے قبائل کا کوئٹہ پر حملہ‘ درہ خیبر کے راستہ پشاور پر مہمند اور مسعود قبائل کا ترک فوج کی قیادت میں حملہ‘ نگران حاجی صاحب ترنگ زئی تھے‘ اوگی ہزارہ کے محاذ پر ترکی کی فوج کا کوہستانی قبائل کو لے کر حملہ‘ نگرانی مولانا محمد اسحاق مانسہروی کی تھی۔

دسویں منصوبے کا مقصد حملے اور بغاوت کی ایک تاریخ مقرر کرنا تھا۔ ۱۹۰۵ء سے ۱۹۱۴ء تک نو منصوبوں کو کامیابی سے عملی جامہ پہنایا گیا اور دسویں پر عمل باقی تھا کہ جنگ عظیم چھڑ گئی۔ یہ انقلابیوں کے لیے سنہری موقع تھا فوراً دیوبند میں مجلس مشاورت منعقد ہوئی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ بیرونی حملہ اور اندرونی بغاوت ۱۹ فروری ۱۹۱۷ء کو ہو مجلس شوریٰ نے اس کی اطلاع تمام شاخوں کو دے دی اور کہا کہ بغاوت کے لیے تیار رہیں لیکن حملے کی تاریخ کے حتمی فیصلے کے لیے دوسری اطلاع کا انتظار کریں۔ شیخ الہند کو ایک وثیقہ لکھ کر دیا گیا جس پر مجلس شوریٰ کے اراکین نے دستخط کیے۔ طے کیا گیا کہ شیخ الہند غازی انور پاشا سے بالمشافہ مل کر مجوزہ تاریخ کی منظوری لیں اور تحریک اور حکومت کے مابین نیز حکومت ترکی اور حکومت افغانستان کے درمیان تحریری معاہدہ کرائیں ۔ اس دوسرے معاہدہ کے سلسلہ میں انہیں انور پاشا کی تحریر لے کر افغانستان جانا تھا اور اس پر حبیب اللہ خان سے دستخط لے کر واپس انور پاشا کو پہنچانا تھا۔

شیخ الہند نے اپنی جائیداد شرعی قانون وراثت کے مطابق تقسیم کردی اور حج کا ارادہ ظاہر کر کے روانہ ہوگئے۔ حکومت نے انہیں دہلی میں گرفتار کرنے کا ارادہ کیا لیکن ان کے معتقدین کا ہجوم دیکھ کر بمبئی میں گرفتار کرنے کی ٹھانی۔ ڈاکٹر انصاری نے خفیہ پولیس میں اپنے آدمیوں کی مدد سے اس تار کو ہوم سیکرٹری کے دفتر میں رکوا دیا جو اس مقصد سے گورنر جنرل کی طرف سے بمبئی کے گورنر کو بھیجا جا رہا تھا۔ یہ تار اس وقت ملا جب آپ جہاز میں سوار ہو چکے تھے۔ چنانچہ عدن کے گورنر کو روانہ کر دیا گیا لیکن وہاں بھی انقلابیوں نے بروقت پہنچنے نہ دیا اور آپ بخیر و عافیت مکہ معظمہ پہنچ گئے۔ اس وقت حجاز ترکی کے زیر حکومت تھا۔ وہاں کے گورنر غالب پاشا جو انور پاشا کی جنگی کمیٹی کے سیکرٹری بھی تھے‘ انقلابی تحریک کے ہمنوا تھے۔ شیخ الہند نے ان سے دو تحریریں لیں۔ ایک میں جہاد کی ترغیب تھی اسے چھپوا کر ہندوستان اور افغانستان کے نام تھی کہ شیخ الہند جو کچھ بھی کہیں اسے ہماری تائید حاصل ہے۔ انگریزوں نے اس پہلی تحریک کو غالب نامہ کہا اور اسی کی بنا پر بعد میں غالب پاشا کو گرفتار کر کے جنگی قیدی رکھا۔ انہوں نے بھی اپنی اس تحریر کا اقرار کیا‘ دوسری کا نام تک نہ لیا۔

شیخ الہند نے "غالب نامہ" مولانا محمد میاں کے حوالے کیا کہ اسے ہندوستان اور افغانستان لے جائیں۔ وہ ہندوستان پہنچے تو سی آئی ڈی پیچھے لگ گئی۔ چنانچہ افغانستان چلے گئے اور اس کی اشاعت کی۔ اسی اثنا میں ریشمی رومال کے پکڑے جانے کے بعد افغانستان پہنچی۔ البتہ اس سے افسروں اور قبائلی سرداروں میں نیا عزم پیدا ہوا اور امان اللہ خان انقلاب لانے میں کامیاب ہوئے۔

شیخ الہند اور انور پاشا کی ملاقات مدینہ منورہ میں ہوئی ۔ جمال پاشا ان کے ساتھ تھے۔ انور پاشا نے پہلے ان سے تحریر کردہ دونوں معاہدے لے لیے اور واپس چلے گئے۔ ایک ماہ بعد یہ معاہدے شیخ الہند کو مدینہ منورہ کے گورنر نے بلا کر دیے۔ ان پر انور پاشا کے دستخط ثبت تھے اور حملے اور بغاوت کی منظوری بھی تھی۔ دونوں معاہدوں کا مجموعی نام "انور نامہ" رکھا گیا۔ شیخ الہند نے تحریر اور حکومت ترکی کے معاہدے کو اپنے پاس رکھ لیا اور افغانستان ترکی معاہدہ مولانا ہادی حسن کو دے کر انہیں بھیج دیاکہ اسے افغانستان پہنچا دیا جائے۔ اس دستاویز کو بھجوانے میں شیخ الہند نے غیر معمولی حسن تدبیر سے کام لیا۔ خاص طور پر سے لکڑی کا ایک صندوق بنوایا۔ اس کے تختوں کے درمیان اس طرح چھپوایا کہ نظر نہ آتا تھا۔ ساتھ ہی بمبئی کے ایک رکن کو پیغام بھجوایا کہ وہ عرشہ جہاز پر ہی مولانا ہادی حسن سے صندوق لے لیں اور اسے فلاں پتے پر پارسل کر دیں۔ جوں ہی جہاز بمبئی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا۔ وہ رکن عرشہ جہاز پر گئے اور اسے قلیوں سے اٹھوا کر باہر لے گئے۔ اسی وقت اسے مظفر نگر میں حاجی محمد نبی کے پتے پر پارسل کروا دیا۔ سی آئی ڈی نے مولانا ہادی حسن کی تلاشی لی اور انہیں مشتبہ قرار دے کر نینی تال بھجوا دیا جہاں انہیں حوالات میں بند کر دیا گیا۔

حاجی محمد نبی کو شیخ الہند نے ساری بات کہلوا بھیجی تھی۔ انہوں نے معاہدے کو اپنے پاس رکھا۔ کچھ عرصہ بعد مولانا ہادی حسن رہا ہو کر آئے۔ انہوں نے حلیہ بدل کر اپنا نام ظفر احمد رکھا اور معاہدے کو افغانستان پہنچا دیا ۔حبیب اللہ خان نے اپنے دونوں بیٹوں امان اللہ خان اور نصر اللہ خان اور سول فوجی افسروں اور قبائلی سرداروں کو آتش زیرپا دیکھا تو طوعاً و کرھاً اس کی منظوری دے دی۔ مولانا عبید اللہ سندھی اور نصرت اللہ خان نے ایک ماہر کاریگر سے معاہدے کی ساری عبارت جو عربی زبان میں تھی‘ ایک ریشمی رومال پر کڑھوائی اس میں حبیب اللہ خان اور اس کے تینوں بیٹوں کے دستخط بھی آگئے۔ رومال کا رنگ زرد تھا۔ اس کی لمبائی چوڑائی ایک مربع گز تھی۔ اس پر زرد رنگ سے چاروں کے دستخط دوبارہ کروا لیے گئے۔ اس کے بعد رومال کو پشاور بھجوایا گیا۔ یہ فرض شیخ عبد الحق نے انجام دیا جو بنارس کے نو مسلم گریجویٹ تھے اور افغانستان ہندوستان کے درمیان کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ اسی تجارت کی آڑ میں پیغام رسانی کرتے تھے۔ انہوں نے اسی قسم کے پانچ رومال لیے اور ریشمی رومال کو ان میں ملا دیا۔ پروگرام یہ تھا کہ رومال حیدر آباد میں شیخ عبد الرحیم کو پہنچایا جائے گا جو اسے لے کر حج کو جائیں گے اور شیخ الہند کے حوالے کریں گے۔ موصوف اسے انور پاشا کو لے جا کر دیں گے اور پروگرام کے مطابق ترکی‘ افغانستان کے راستے ۱۹ فروری ۱۹۱۸ء کو ہندوستان پر حملہ کر دے گا۔

شیخ عبد الحق نے یہ امانت پشاور میں حق نواز خان کو رات نو بجے پہنچائی انہوں نے صبح چار بجے اسے ایک خاص آدمی کے ہاتھ بہاول پور کے مقام دین پور میں سجادہ نشین خواجہ غلام محمد کو بھجوا دیا۔ نماز صبح سے پہلے فوج نے حق نواز کے گھر پر چھاپا مارا اور انہیں گرفتار کر لیا۔ ان کی رہائی ایک ماہ بعد ہوئی۔ خواجہ غلام محمد کو رومال اگلے دن دس بجے صبح ملا۔ انہوں نے اسی وقت اسے ایک آدمی کے ہاتھ حیدر آباد چلتا کیا۔ ان کے گھر پر بھی فوج نے شام کے چار بجے چھاپہ مارا اور انہیں گرفتار کر لیا ۔چار ماہ تک قید رہے۔ ریشمی رومال دوسرے دن دوپہر کو حیدر آباد میں شیخ عبد الرحیم کو ملا اور عشاء کے وقت جب وہ اسے گدڑی میں سی رہے تھے‘ فوج کے ہتھے چڑھ گیا۔ اس دستاویز کے ہاتھ آجانے سے انگریزوں کو مجاہدین اور حکومت ترکی کے تفصیلی عزائم کا ثبوت مل گیا۔ انہوں نے داخلی طور پر یہ فوری قدم اٹھایا کہ ہر اس مقام پر فوج بھیج دی جہاں بغاوت کا خطرہ تھا اور شمال مغربی سرحد پر فوج دگنی کر دی۔ اس کے ساتھ ہی ملک بھر میں انقلابیوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی۔ جس شخص پر ذرا سا شبہ گزرا اسے گرفتار کر لیا ‘ گرفتار شدگان پر طرح طرح کی سختیاں کیں۔ دو چار کے سوا سب ہی ثابت قدم رہے تاہم تحریک دفن ہوگئی۔

خاص طور پر سب سے پہلے ترکی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور ترکی کی ہر سرحد پر محاذ کھول دیے۔ ایران میں فوج داخل کر کے ترکی اور افغانستان کے درمیان حد بندی کر دی۔ سب سے بڑا انتقام یہ لیا کہ شریف مکہ کو آلہ کار بنا کر اس سے ترکی کے خلاف بغاوت کرا دی۔ اس کے علاوہ عرب اور ہندوستان کے زر خرید ایجنٹوں سے ترکوں کے خلاف فتوے دلوائے۔ جنگ ختم ہو چکی تھی اور انگریزوں کو موقع مل گیا تھا کہ افغانستان کو دبائیں لیکن تحریک کے جو کارکن وہاں گرفتاری سے بچ رہے تھے انہوں نے قبائلیوں کی بڑی رہنمائی کی۔ حاجی ترنگ زئی نے قبائلیوں کو جمع کر کے تین سال تک انگریزوں کا مقابلہ کیا۔ قلات اور لسبیلہ کے قبائل نے دو سال تک مقابلہ کیا۔ امان اللہ خان نے کوہاٹ تک قبضہ کر لیا تھا۔ لیکن انگریزوں سے صلح ہوگئی اور افغانستان کی مکمل آزادی اور خود مختاری تسلیم کر لی گئی۔ شیخ الہند کو مکہ معظمہ میں گرفتار کرلیا گیا۔ ان پر مصر کی فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور پھر جنگی قیدی بنا کر مالٹا بھیج دیا گیا۔ جنگ ختم ہوئی تو ہندوستان آئے کچھ عرصہ خلافت تحریک میں کام کیا اور رحلت فرمائی۔

اس ضمن میں ریشمی رومال پکڑا کیسے گیا؟ کچھ مصدقہ اور کچھ غیر تصدیق شدہ باتیں ہیں۔ مولانا عبید اللہ سندھی کا خیال تھا کہ پشاور کے نواز خان نے مخبری کی لیکن مولانا حسین احمد مدنی کو اس سے اختلاف تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حبیب اللہ خان اور اس کا لڑکا عنایت اللہ خان مجاہدوں کے ہر منصوبے کی انگریزوں کو باقاعدہ رپورٹ پہنچاتے تھے۔ ان لوگوں کی غدار فطرت کے سبب یہ بات خارج از امکان نہیں ہے۔ غداری کے سلسلے میں تحریک کے اکثر ارکان متفق ہیں کہ انگریزوں کے جاسوس مجاہدین کے روپ میں تحریک میں گھس گئے تھے اور کچھ لوگوں نے جان بچانے کے لیے بھی راز اگل دیے۔

من از بیگانگاں ہرگز نہ نالم
کہ بامن ہرچہ کرد آں آشنا کرد

عالم اسلام اور مغرب

(جنوری ۲۰۰۱ء)

تلاش

Flag Counter