اسلام میں انسانی حقوق کی اہمیت اور دائرہ کار

مولانا عصمت اللہ

عصر حاضر میں ہر طرف انسانی حقوق (Human Rights) کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ یورپی اقوام اس معاملہ میں زیادہ ہی فکر مندی ظاہر کر رہی ہیں۔ ان کے اس طرز عمل سے لگتا ہے کہ انسانی حقوق کے بارے میں زیادہ فکر‘ غم‘ پریشانی انہیں کو لاحق ہے۔ اگرچہ دکھی انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ان لوگوں نے کچھ تنظیمیں بھی قائم کر رکھی ہیں۔ ان کی مختلف شاخیں مختلف ممالک میں کام کر رہی ہیں۔ اس سلسلہ میں اقوام متحدہ بھی اپنی فکرمندی ظاہر کرتا رہتا ہے اور اقوام متحدہ نے اپنے زیر اہتمام کئی شعبے ترتیب دے رکھے ہیں اور ہر سال کچھ دن منانے کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ کہیں خواتین کے حقوق کا عالمی دن منانے کی صدا بلند کی جاتی ہے‘ کہیں مزدوروں ‘یتییموں‘ بچوں‘ معذوروں کے عالمی دن منانے کا شور مچایا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس انداز میں کیا جاتا ہے کہ گویا انسانی حقوق‘ انسانیت کا احترام‘ خواتین کی فلاح و بہبود اور آدمیت کے مقام و مرتبہ کا تصور اور خیال ایک نئی ایجاد ہے۔

یورپی اقوام کے اس طرز عمل سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ اور این جی اوز اقوام عالم کو یہ باور کرانے کی کوشش اور فکر میں مبتلا ہیں کہ انسانیت کی جو عظمت‘ مقام کی بلندی اور حقوق کی ادائیگی کی فکر ان کے اندر ہے‘ وہ کسی اور قوم کے اندر نہیں۔ وہ یوں ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلامی نظام حیات کے پاس تو اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ مسلمانوں کا دین و مذہب‘ تعلیمات اسلامیہ‘ تہذیب و تمدن‘ اسلامی معاشرہ اور قرآن و سنت انسانیت کے حقوق اور عظمت سے غافل و بے خبر ہیں۔ ان کے پاس تو اس سلسلے میں کوئی آئینی‘ دستوری‘ تعلیمی‘ تہذیبی‘ فکری‘ نظری‘ علمی و عملی سرمایہ نہیں ہے اور آدمیت کے احترام حقوق کا تصور نیا پیدا ہوا ہے۔

آئیے مختصراً اسلامی تہذیب کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لیں کہ اسلام کی تعلیمات انسانی حقوق اور عظمت کو کس نظر سے دیکھتی ہیں اور اسلامی تعلیمات اس بارے میں کیا کہتی ہیں اور اسلام انسانی حقوق کے بارے میں کیا تصور پیش کرتا ہے۔ اس سے قبل کہ قرآن و سنت کی روشنی میں اس اہم مسئلے پر تبصرہ کریں‘ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ حقائق دوسرے مذاہب اور تہذیبوں مثلاً ہندو مت‘ بدھ مت‘ یہودیت‘ نصرانیت کے بھی پیش کر دیے جائیں تاکہ مسابقت کے اس دور میں اسلام میں انسانی حقوق کے معاملہ کو مقابلہ کی صورت میں سمجھنا آسان ہو سکے۔ اس طرح اسلام کی عظمت و وقار دلوں میں خوب راسخ ہو سکے گی اور تقابلی مطالعہ سے اچھائی‘ برائی‘ اعلیٰ و ادنیٰ‘ بہتر‘ بدتر‘ صدق و کذب اور حق و باطل باسانی سمجھا جا سکے۔

چنانچہ جب ہم دوسرے مذاہب کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان مذاہب اور تہذیبوں میں انسان اور حیوان کے درمیان حد فاصل قائم نہیں کی گئی۔ بدھ مت کی تعلیمات میں انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا۔

اسی طرح ہندو قانون میں ایک جانور اور ایک انسان کا قتل برابر کا درجہ رکھتا ہے اور ایک جانور بھی اپنی کسی نفع رسانی کے باعث انسان کی ماں کا درجہ پا سکتا ہے ۔

یہودیت‘ نصرانیت میں قرابت داروں کو چھوڑ کر صرف ماں باپ کا ذکر کیا گیا ہے لیکن دوسرے قرابت داروں اور رشتہ داروں کو کوئی مرتبہ نہیں دیا گیا۔

دنیا کے ایک بڑے جمہوری نظام کے دعوے دار ملک ہندوستان میں حال ہی میں پیش آنے والے ان واقعات سے ہندو نظام میں انسانی حقوق کی پاسداری کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

روزنامہ جنگ میں ہندوستانی انگریزی ہفت روزہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ آزادی کے ۵۳ سال بعد بھی کسی نچلی ذات میں پیدا ہونا ہندوستان میں ایک عذاب ‘ ایک لعنت سے کم نہیں۔ اس کا تازہ ترین ثبوت اس وقت ملا جب ایک کانگریسی رکن پارلیمنٹ ویلدروی نے اپنے بیٹے کی شادی کی رسم اپنے علاقے کے مندر میں ادا کی۔ رسم کے بعد مندر کے پرومہت نے حکم دیا کہ ساری عبادت گاہ کو نجاست سے پاک کیا جائے۔ اس کے لیے ایک عظیم عمل کیا گیا۔ مندر نجس کس طرح ہوا؟ صرف اس وجہ سے کہ رکن پارلیمنٹ کی بیوی ایک عیسائی عورت ہے اور وہ بھی اپنے بیٹے کی شادی کی رسم میں شرکت کے لیے مندر میں آئی تھی۔ حالانکہ مسٹر روی ایک زمانے میں صوبائی وزیر داخلہ بھی رہے ہیں۔

ایک اور مثال سنئے ‘ گزشتہ اگست میں ایک عدالتی افسر بھرھتری پرشاد نے سپریم کورٹ میں درخواست دی کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے یو پی حکومت کی طرف سے جبری طور پر ریٹائر کرنے کے خلاف اس کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ اسے جبری طور پر اس لیے ریٹائر کیا گیا تھا کہ اس نے حکومت کا ایک حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ حکم کیا تھا؟ جب مذکورہ افسر کا ایک عدالت سے دوسری عدالت میں تبادلہ ہوا تو ان کا جو جانشین جج مقرر ہوا جس کا نام اے کے سری وستوا تھا۔ اس نے عدالت میں بیٹھنا شروع کرنے سے پہلے گنگا جل منگوایا۔ پوری عدالت کو دہلوایا اس لیے کہ میرا پیش رو جو یہاں بیٹھتا رہا ہے وہ ایک نچلی ذات سے تعلق رکھتا تھا۔ دیکھئے آج بھی بھارت میں لوگ ذات پات کی تقسیم کے عذاب میں مبتلا ہیں۔

اس وقت امریکہ جو انسانی حقوق کا بڑا چیمپئن بنا ہوا ہے اس کا اپنا یہ حال ہے کہ اس نے جاپان کے دو بڑے شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے جس میں لاکھوں جانیں آن واحد میں لقمہ اجل بن گئیں۔ ہزاروں مکان زمیں بوس ہوگئے اور دونوں شہر ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ اسی طرح جب مشرقی تیمور کے عیسائیوں کامسئلہ پیش آتا ہے تو اس کی حمایت میں امریکہ‘ اقوام متحدہ اور پورا یورپ کھڑا ہو جاتا ہے اور انسانی حقوق کا اس قدر شور و غل بپا کیا جاتا ہے کہ اس کو آزادی دلا کر ہی چین لیتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں دیکھیں یہ کشمیر ہے۔ ۵۳ برس سے آزادی کا مطالبہ کر رہا ہے‘ اس کی قراردادیں امریکہ‘ یورپ اور سلامتی کونسل کے دروازے پر مسلسل دستک دے رہی ہیں۔ وادی کشمیر مسلسل آگ میں جل رہی ہے۔ خون میں نہا رہی ہے‘ عزتیں لٹ رہی ہیں‘ نہ صرف نوجوان بلکہ بچے‘ بوڑھے اور صنف نازک تک کو عقل و فکر سے بالا اذیتیں اور تکلیفیں دی جا رہی ہیں۔ لیکن انسانی حقوق کے دعوے داروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ بوسنیا‘ کسووا اور چیچنیا کے ہاں جس قدر انسانی حقوق کی پامالی ہوئی ہے اس کی مثال چشم فلک نے بھی شاید نہ دیکھی ہو۔ آج تک اجتماعی قبریں دریافت ہو رہی ہیں۔ بایں ہمہ پوری دنیا پر سکوت و جمود طاری ہے۔

اور یہ فلسطین ہے ۱۹۴۲ء کو انگریزوں نے اس پر قبضہ کیا۔ پھر عالم عرب کے قلب میں اسرائیل ریاست قائم کر دی گئی جس کی درندگی ‘ بربریت کی خبریں آتی رہی ہیں۔ لیکن اب اکتوبر کے آغاز سے ٹینکوں‘ توپوں اور راکٹوں سے فلسطین کا ناطقہ بند کر دیا گیا۔ وہاں مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ آئے دن مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔ نوجوانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے لیکن افسوس بالائے افسوس کہ کسی کو بھی یہاں انسانی حقوق کی پامالی نظر نہیں آتی بلکہ روس ‘ امریکہ ‘ بھارت جب ذرا محسوس کرتے ہیں کہ عالم عرب خواب غفلت سے بیدار ہوا چاہتا ہے تو فوراً مذاکرات کا بگل بجا دیا جاتا ہے۔

خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری

تاکہ مسلمان سویا رہے اور ہم انسانی حقوق کے شور و ہنگامے میں اپنوں کے حقوق کا تحفظ اور مسلمانوں کے جان و مال اور عزت و آبرو سر عام نیلام کرتے رہیں۔ ان واقعات میں خاص طور پر یہ نقطہ قابل غور ہے کہ جو لڑائی میں مقابلہ کر رہے ہیں ان کا قتل تو سمجھ میں آتا ہے لیکن تہی دست (خالی ہاتھ) غیر مسلح لوگوں کا خون بہانا‘ خواتین کی عزت کو تار تار کرنا‘ بچوں کو گولیاں کا نشانہ بنانا اور بوڑھوں تک کو ٹینکوں تلے روند دینا انتہائی بدبختی ‘ شقاوت قلبی اور حیوانیت و درندگی ہے۔

آئیے ذرا اسلامی تعلیمات‘ اسلامی نظام حیات‘ واقعات اور تاریخ اسلامی کے حوالے سے حقوق انسانی کا جائزہ لیں کہ اسلامی تعلیمات میں انسانیت و آدمیت کا کیا مقام ہے؟ اور حقوق انسانی کی کیا اہمیت و عظمت ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں حقوق انسانی کا دائرہ بڑا وسیع ہے اسلام میں انسانی حقوق کا آغاز ایک فرد کی ذات سے ہوتا ہے اور پھر اس کا دائرہ پھیلنا شروع ہوتا ہے تو پھیلتا چلا جاتا ہے۔ یوں یہ دائرہ وسعت اختیار کرتے کرتے گھر‘ قرابت دار‘ پڑوس‘ محلہ ‘ شہر ‘ ملک اور پوری دنیا کے افراد انسانی تک وسیع ہوجاتا ہے۔ اسی طرح تمام آفاق سے سمٹتا سمٹتا ایک فرد کی ذات میں جمع ہو جاتا ہے۔ اسلام نے انسانی حقوق کو صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ حیوانات‘ چرند پرند‘ درند‘ جمادات‘ نباتات تک کے حقوق بیان کر دیے ہیں۔

امام الانبیاء ﷺ کی تعلیمات مین اونٹ‘ ہرن اور چڑیا کے لیے بھی فلاح و بہبود اور حسن سلوک کرنے کی ہدایات موجود ہیں۔ انسانوں کے لیے درجہ وار حقوق کی ایسی ترتیب قائم کر دی ہے کہ زندگی کا کوئی شعبہ حقوق سے خالی نہیں چھوڑا۔ چنانچہ مرد و عورت‘ اپنے پرائے‘ چھوٹے بڑے‘ بیمار تندرست‘ امیر غریب‘ حاکم رعایا‘ بہن بھائی‘ ماں باپ‘ شوہر بیوی‘ قریبی‘ اجنبی‘ مسلم غیر مسلم‘ شہری دیہاتی‘ غلام آقا‘ مہمان میزبان اور یتیم ‘ بیوہ غرض معاشرے کے ہر فردکے حقوق کی ایسی تفصیلات بیان کر دی ہیں کہ ایسی حد بندی کسی دوسرے مذہب و ملت میں نہیں پائی جاتی۔ مذہبی درجہ وار حقوق کی ایسی تفصیل موجود ہے جبکہ اسلام نے نے تو انسان کو من حیث الانسان بڑی تکریم اور فضیلت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے :

"اور ہم نے اولاد آدم کو عزت دی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری میں سواری دی۔ اور ہم نے ان کو صاف ستھری چیزوں کا رزق دیا اور ہم نے ان کو اپنی بہت ساری مخلوق پر فضیلت دی۔" (بنی اسرائیل)

صرف اسی پر اکتفا نہیں ہے بلکہ اسلام میں انسانی خون کو انتہائی قیمتی قرار دیا گیا ہے۔ اگر کوئی فرد کسی دوسرے انسان کو ناحق موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے تو مذہب اسلام میں مناسب سزا مقرر کر دی گئی ہے۔ قتل و خون بہانے کو مختلف صورتوں میں تقسیم کر دیا ہے جس قسم کا قتل ہوگا اسی طرح کی سزا کا تعین ہوگا۔ اس کے بارے میں قصاص و دیت کے تفصیلی احکام قرآن و سنت میں موجود ہیں۔ عذاب آخرت اس کے علاوہ ہے۔

اس سلسلے میں چند قرآنی ارشادات ملاحظہ فرمائیں:

"اے ایمان والو ! تم پر مقتولوں کے بارے میں برابری کرنا فرض کر دیا گیا ہے۔" (البقرہ)

"جس نے کسی جان کو بلا عوض یا زمین میں فساد کرنے کے بغیر مار ڈالا۔ تو گویا اس نے سب لوگوں کو مار دیا اور جس نے ایک جان کو زندہ رکھا گویا اس نے سب لوگوں کو زندہ رکھا۔" (المائدہ)

"اور نہ قتل کرو اس جان کو جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا‘ مگر جائز صورت میں" (الانعام)

اس سلسلے میں امام الانبیاء ﷺ کے فرموادت کا مطالعہ کریں کہ آپ نے کس قدر اہمیت سے انسانی جان کے تحفظ کو بیان کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا :

"مومن کا قتل اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کے تہہ و بالا ہونے سے بڑھ کر ہے۔"

اگر کوئی شخص کسی مسلمان کے قتل میں ایک لفظ سے مدد کرے گا تو قیامت کے دن اس کی پیشانی پر رحمت سے مایوس لکھا ہوگا۔

اسلام کی نظر میں کوئی جان بے وقعت اور بے قیمت نہیں ہے اور کسی کو رائیگاں اور فضول قرار نہیں دیا جاتا۔ چنانچہ اگر کوئی لاش آبادی میں یا آبادی سے باہر اتنی دور پائی جائے کہ اگر کوئی شخص زور سے آواز لگائے تو وہاں تک اس کی آواز پہنچ سکے تو اس مقتول کے آس پاس قریبی آبادی پر اس کی ذمہ داری ڈالی جائے گی تا کہ اسلامی معاشرے کا ہر فرد بیدار مغز‘ حالات سے با خبر اور محلہ میں ہر کوئی ایک دوسرے کا خیر خواہ‘ خیر اندیش‘ بھلائی کا خواہاں بن کر رہے۔ کسی کو اپنے علاقے میں شر و فساد‘ دہشت گردی اور امن و امان برباد نہ کرنے دے اور رات کی تاریکی میں بھی معاشرہ دن کی روشنی کی طرح ہی بیدار محسوس ہو۔ چنانچہ اس لاش کے ورثہ مقتول کے مطالبے پر فقہی کاروائی پوری کر کے دیت دلائی جاتی ہے۔ اس سے یہ وہم نہ کیا جائے کہ یہ قوانین تو مسلمانوں کے لیے ہیں۔ ایسا نہیں اسلامی قوانین بین الاقوامی امن و سلامتی کے ضامن ہیں۔

آئیے ذرا ایک ہلکی سی جھلک آپ کو اقلیتوں کے حقوق کی دکھلائے جائیں۔ اسلامی معاشرہ میں جس طرح ایک مسلمان کی جان و مال‘ عزت و آبرو کی حفاظت کو ضروری قرار دیا گیا ہے اسی طرح اقلیتوں اور غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت و نگرانی بھی اسلامی حکومت اور معاشرے پر ڈالی گئی ہے۔ چنانچہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا۔

"جو کوئی غیر مسلم پر ظلم کرے گا یا اس کے حقوق میں کمی کرے گا یا طاقت سے زیادہ تکلیف دے گا اس کی کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر لے گا تو قیامت کے دن اس کی طرف سے میں دعوے دار ہوں گا۔"

جنگ بدر میں جو مشرکین قید ہوئے تھے سرکار دو عالم ﷺ نے ان قیدیوں کو صحابہ میں تقسیم کر دیا تھا اور آپؐ نے فرمایا تھا : "قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔"

خود قید ہونے والے لوگ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ پر آپؐ کے اس ارشاد کا یہ اثر تھا کہ صحابہ کرامؓ پہلے ہمیں کھانا کھلاتے تھے اگر کھانا بچ جاتا تو کھاتے ورنہ صرف کھجور پر ہی اکتفا کر لیتے تھے۔

یہ وہ قیدی تھے جنہوں نے مکہ میں حضور پاک ؐ اور صحابہؓ کو اذیت و تکلیف دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا تھا۔ اب موقع تھا کہ صحابہ کرام ان سے اپنی مرضی کے مطابق بدلہ لے سکتے تھے لیکن یہاں تو صورت حال یہ ہے کہ ان کو تشدد کا نشانہ بنانا تو درکنار بلکہ ہر ممکن آرام کا خیال رکھا جاتا ہے۔

آج کے مہذب و متمدن اور ترقی یافتہ ہونے کے دعوے دار ملکوں سے ذرا پوچھیں کہ کیا وہ اپنے اسیروں کے ساتھ ایسے سلوک کی مثال پیش کر سکتے ہیں۔ ان ملکوں میں تو حال یہ ہے کہ آئے دن جیلوں میں قیدیوں کو اذیتیں دے کر ہلاک کرنے کی خبریں پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ‘ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے معلوم ہوتی رہتی ہیں۔ کتنے قیدی ہیں جن کو روزانہ انڈین جیلوں میں تشدد کر کے ہلاک کر دیا جاتا ہے۔

امریکہ اسامہ بن لادن کے بہانے افغانستان اور سوڈان میں میزائل پھینک کر کتنا جانی و مالی نقصان کر چکا ہے۔ اور مزید موقع کی تلاش میں ہے۔ اہل عراق کے لیے پابندیاں لگا کر معصوم عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ امریکہ فلسطین میں جو کھیل کھیل رہا ہے اب تو پوری دنیا اس سے واقف ہو چکی ہے۔ بایں ہمہ ایک ہی سانس میں مسلسل انسانی حقوق کے راگ بھی الاپ رہا ہے۔ جبکہ اسلام میں جنگی ہدایات‘ تعلیمات میں یہ بات زور دے کر کہی گئی ہے کہ لڑائی کے دوران کسی بچے‘ بوڑھے‘ عورت‘ راہب ‘ معذور اور بیمار کو قتل نہ کیا جائے۔ درختوں اور فصلوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ غیر مسلموں کو ان کی زمینوں‘ گھروں اور عبادت گاہوں سے الگ نہ کیا جائے۔

دور فاروقی میں جب بیت المقدس فتح ہوا تو ایک موقع ایسا آیا کہ سیدنا فاروق اعظمؓ کو نماز کا وقت ہوگیا۔ جب آپ عیسائیوں کے مشہور گرجا گھر (قمامہ) کی سیر کر رہے تھے۔ عیسائی پادری نے کہا کہ یہیں نماز ادا فرما لیں۔ آپؓ نے یہ کہہ کر نماز ادا کرنے سے انکار کر دیا کہ کہیں کل کو مسلمان میرے نماز پڑھنے کو بہانہ بنا کر اس پر قبضہ نہ کر لیں۔ لہذا میں اس میں نماز ادا نہیں کروں گا۔

حضرت ابو عبیدہؓ نے ملک شام کو فتح کیا تو غیر مسلم ابو عبیدہؓ کے سلوک اور اسلامی تعلیمات میں اپنے حقوق کی حفاظت کی ہدایات کو دیکھ کر مسلمانوں کے حامی و مددگار بن گئے۔

محمد بن قاسم فاتحانہ سندھ میں داخل ہوئے اور راجہ داہر قتل ہوگیا تو لوگ مارے ڈر اور خوف کے اپنے گھروں کو چھوڑکر بھاگ رہے تھے۔ اسی وقت محمد بن قاسم کی طرف سے اعلان کر دیا گیا کہ جو کوئی اپنی جان بچانے کے لیے جانا چاہتا ہے اسے جانے دیا جائے اور اس سے کوئی تعرض نہ کیا جائے۔ محمد بن قاسم کے اس اعلان سے لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا اور لوگ بدستور اپنے ہی گھروں میں ٹھہر گئے اور جو بھاگ گئے تھے واپس آگئے۔

ولید بن عبد الملک نے اپنے دور خلافت میں جامع مسجد دمشق کا کچھ حصہ جبراً عیسائیوں کی جگہ پر تعمیر کر دیا تھا۔ جب عمر بن عبد العزیز خلیفہ مقرر ہوئے تو مسجد کے اس حصہ کو گرانے اور عیسائیوں کے حوالے کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ بالاخر عیسائیوں کی مرضی سے معاملہ طے پا گیا تو مسجد کے اس حصہ کو باقی رہنے دیا گیا۔

بیت المقدس سیدنا فاروق اعظمؓ کے دور خلافت سے مسلمانوں کے قبضہ میں چلا آرہا تھا۔ ۴۹۲ھ میں جب عیسائیوں نے دوبارہ بیت المقدس کو فتح کر لیا تو چند سال میں فلسطین کا بڑا حصہ ان کے تصرف میں آگیا۔

انگریز مورخ لین پول لکھتا ہے :

"بیت المقدس میں فاتحانہ داخلہ پر صلیبی عیسائیوں نے ایسا قتل عام مچایا کہ ان صلیبوں کے گھرڑے جو مسجد عمر سوار ہوگئے گھٹنوں گھٹنوں خون کے چشمے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ بچوں کی ٹانگیں پکڑ کر ان کو دیواروں سے دے مارا یا ان کو دیواروں سے پھینک دیا گیا۔

اس کے بالمقابل جب ۵۸۳ء کو سلطان صلاح الدین ایوبی نے دوبارہ بیت المقدس کو حاصل کیا اور ۹۰ سال بعد بیت المقدس کو فتح کرنے کی آرزو پوری ہوئی۔

ابن شداد لکھتے ہیں کہ ہر طرف دعا و تہلیل و تکبیر کا شور بلند تھا۔ ۹۰ برس بعد جمعہ کی نماز ہوئی۔ صلیب اتار دی گئی۔ اسلام کی فتح مندی اور اللہ تعالیٰ کی مدد کا عجیب منظر آنکھوں کے سامنے تھا۔

بہرحال اسلام میں انسانی حقوق کو جو اہمیت حاصل ہے اس کی مثال کسی مذہب و ملت ‘ تہذیب و تمدن‘ اور نظام و دستور میں نہیں ملتی۔ اسلامی تاریخ ایسے حقائق و مشاہد سے بھری پڑی ہے۔

انہیں چشم روشن اور دل زندہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائیں۔ آمین

اسلام اور عصر حاضر

(جنوری ۲۰۰۱ء)

تلاش

Flag Counter