غیر ملکی قرضوں کا جال اور پاکستان کی آزادی

لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل

عالمی سود خوروں نے قرضے کا قطرہ ایک بار پھر ہمارے خشک منہ میں ٹپکا دیا۔ ۱۹۷ ملین ڈالر کی حقیر رقم ہماری آزادی‘ معیشت اور مستقبل کی قیمت ٹھہرائی گئی ہے۔ ایک بار پھر ہماری تمام اقتصادی ‘ معاشی اور سیاسی پالیسی پر آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی اداروں کے ذریعے امریکہ کو تسلط کا حق حاصل ہوگیا ہے۔ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے بعد آزادی کے حصول کے جو امکانات روشن ہوگئے تھے ختم ہو کر رہ گئے ہیں چنانچہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو جس طرح بیرونی قوتوں کے حکم پر قانون و آئین کے منافی جیل سے نکال کر سعودی عرب پہنچایا گیا اس سے ثابت ہوگیاکہ پاکستان کی حکومت اور عوام اپنی مرضی اور اپنے آئین کے بجائے امریکہ کی مرضی اور حکم کے پابند ہیں۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ ہم قرضوں کے جال میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔

غیر ملکی قرضوں کا مسئلہ بہت پرانا ہے ایوب خان کے زمانہ میں بھی ہم مقروض تھے لیکن تب ہر پاکستانی صرف ساٹھ روپے کا مقروض تھا۔ آج ہمارا ہر شہری یہاں تک کہ نوزائیدہ بچہ بھی ۲۵۰۰۰ روپے کا مقروض ہے۔ موجودہ ۳۷ بلین ڈالر (۲۳ کھرب پاکستانی روپے) کا غیر ملکی قرضہ اگر عوام کو ادا کرنا پڑے تو ہر خاندان پر دو لاکھ روپے سے زائد کا بوجھ پڑے گا جس میں صدر مملکت سے لے کر ایک غریب مزدور اور ہاری سب ہی شامل ہوں گے۔ قیام پاکستان کے وقت ایک ڈالر ہمارے ایک روپے کے برابر تھا جو ایوب دور میں بڑھ کر نو روپے کا ہوگیا اور آج ساٹھ روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اب ہماری پوزیشن یہ ہے کہ ہمیں اس سال پانچ ارب ڈالر (تین سو ارب روپے) ادا کرنے ہوں گے جب کہ ہماری مجموعی برآمدات کا حجم بے پناہ کوششوں کے باوجود آٹھ ارب ڈالر سے زیادہ نہیں ہو سکا۔ دوسری طرف پوری کوشش کے باوجود ٹیکسوں کی مد میں ایک سو ارب روپے سے زیادہ اضافے کی امید نہیں۔ ماضی کے تجربات ‘ معروضی حالات اور مستقبل کے امکانات کو نگاہ میں رکھیں تو اس بات کا دور دور تک امکان نظر نہیں آتا کہ پاکستان یہ قرضے ادا کر سکتا ہے ۔ ہمارے موجودہ حکمران اب تک دعوے کر رہے ہیں کہ ہم یہ قرضے ادا کریں گے لیکن عملی صورت یہ ہے کہ یہ بھی پرانے قرضے ادا کرنے کے بجائے نئے قرضے لے رہے ہیں۔ ہم اپنے بل بوتے پر اغیار کا بچھایا ہوا غلامی کا یہ جال توڑ سکتے ہیں لیکن اس کام کے لیے جس درویش صفت اور بے لوث قیادت کی ضرورت ہے ہم اس سے محروم ہیں۔ ہمیں وہ لیڈر شپ میسر نہیں جس کی آواز پر ساری قوم لبیک کہے اور شعب ابی طالب میں محصور ہونے کا آپشن قبول کرنے پر آمادہ ہو۔ لہذا موجودہ صورت حال کے تناظر میں دو ہی آپشن رہ جاتے ہیں۔

پہلا آپشن یہ ہے کہ ہم آئی ایم ایف اور امریکہ کے سامنے مکمل سرنڈر کی راہ اپنا لیں۔ ایٹمی صلاحیت ختم کرنے پر رضامند ہو جائیں۔ اپنی خارجہ پالیسی امریکہ کے تابع کر لیں‘ کشمیر سے دستبردار ہو جائیں اور جہاد کشمیر ختم کرنے میں امریکہ اور بھارت کا ہاتھ بٹائیں۔ لیکن یہ سب کچھ کر کے ہماری اقتصادی حالت بہتر ہو سکے گی یا قرضے معاف کر دیے جائیں گے اس بات کی کوئی ضمانت نہیں اور یہ راستہ اختیار کرنے کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے عقیدے‘ نظریے اور آزادی سے محروم ہونا قبول کرلیں۔

دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہم قرضے ادا کرنے سے انکار کر دیں جب تک ادا کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی۔ ہمارے پاس انکار کی معقول وجوہ ہیں:

۱۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ یہ Odious Loans ظالمانہ اور غلیظ قرضے لیتے وقت ہماری حکومتوں نے قوم سے نہیں پوچھا۔ چاہے وہ مارشل لا کی غیر جمہوری حکومتیں ہوں یا عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی جمہوری حکومتیں‘ عوام سے کسی نے پوچھنے کی تکلیف گوارا نہیں کی۔ لہذا ان جبری قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ غریب عوام پر ڈالنا آئین‘ قانون اور اخلاق کے کسی قرینے سے جائز نہیں۔

۲۔ ان کی دیدہ دانستہ غلط پلاننگ mis management قرضے دینے والے ملکوں اور اداروں نے کی۔ اس دانستہ بد انتظامی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اتنے بھاری قرضوں سے ملک اور قوم کو فائدہ نہ پہنچا سوائے ایوب دور کے جب تربیلا اور منگلا وغیرہ تعمیر ہوئے۔ گزشتہ بارہ سال کے دوران ۲۳ ارب ڈالر کے قرضے لیے گئے۔ ان سے پاکستان کو کیا حاصل ہوا۔ سوائے موٹر وے کے جو ان قرضوں میں شامل نہیں۔ کوئی چھوٹا بنک بھی غیر معینہ یا ناقص منصوبے کے لیے قرض نہیں دیتا تو آئی ایم ایف اور عالمی بینک نے قرضے کیوں دیے۔ در اصل یہ رقم قرض دینے والوں کے ایما پر لوٹ لی گئی اور لوٹ مار کا یہ مال ان ہی بینکوں میں چلا گیا جہاں سے آیا تھا۔ اب لوٹ کے مال کے پیچھے لوٹنے والے بھی وہاں جا پہنچے ہیں لہذا قانون‘ اخلاق اور عقل و منطق کے کسی اصول کے تحت پاکستان کے عوام پر یہ بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا۔ بد انتظامی کی ذمہ داری سے قرض دینے والے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔

قرض دینے والے بنک اور ملک دیکھ رہے تھے اور اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ قرضے قوم کے بجائے چند افراد کے مفادات پر خرچ ہو رہے ہیں۔ ان عالمی اداروں کو معلوم تھا کہ ان قرضوں کا ثمر عوام کو نہیں ملے گا لیکن چونکہ قرض لینے والے ان کے سیاسی اور معاشی ایجنڈے پر عمل پیرا تھے اس لیے وہ کسی اصول اور ضابطے کے بغیر ہماری رقوم جاری کرتے رہے‘ مقروض ملکوں میں ان قرضوں کی مدد سے من پسند حکومتیں بھی لاتے رہے اور ان قرضوں کے عوض ایسی اقتصادی پالیسیاں بناتے اور چلاتے رہے جن سے غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہو۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ عوام کے نام پر لیا قرضہ چند افراد کے بنک اکاؤنٹس میں پہنچ رہا ہے۔ کون بتا سکتا ہے کہ گزشتہ بارہ برس میں لیا گیا ۲۳ ارب ڈالر (ساڑھے تیرہ کھرب روپے) کا قرضہ کہاں گیا۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ یہ قرض کہاں خرچ ہوا؟ اس کے علاوہ نواز شریف کے دور میں عوام کے منجمد گیارہ ارب ڈالر (چھ سو ساٹھ ارب روپے) کا بھی کچھ پتہ نہیں۔ موجودہ حکومت نے احتساب کا وعدہ کیا تھا لیکن اس نے سابق وزیر اعظم کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دی‘ ایسا لگتا ہے کہ اسے بھی احتساب کے پورے سلسلے کو فراموش کرنے میں ہی عافیت نظر آئی ہے۔

۳۔ قوم کو ان ظالمانہ قرضوں میں جکڑ کر نہ صرف یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ہمارے قرضے مع سود واپس کرو بلکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ تمہاری روٹی‘ روزگار اور روشنی کا فیصلہ بھی ہم کریں گے۔ چنانچہ آئی ایم ایف کے کہنے پر گیس‘ بجلی اور آٹے پر غریبوں کے لیے رعایت Subsidy بھی ختم کر دو‘ کرنسی کی قیمت کم کرو‘ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اپنے تمام ذرائع اور وسائل کثیر ملکی (Multi National) کمپنیوں کے حوالے کر دو۔ ایٹمی صلاحیت ختم کرنے کے لیے سی ٹی بی ٹی کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ کشمیر کے معاملے میں پسپائی پر مجبور کیا جا رہا ہے اور ان سارے معاملات کے لیے قرضوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

ہمارے اقتصادی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ ہماری معیشت سنبھل رہی ہے۔ یہ ایک سفید جھوٹ ہے‘ عوام معاشی بدحالی اور بیروزگاری کے ہاتھوں خودکشی کر رہے ہیں۔ مہنگائی ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔ بجلی‘ پٹرول اور گیس کی قیمتیں بار بار بڑھائی جا رہی ہیں‘ یہ کیسی معاشی ترقی ہے؟ ہم پانچ ارب ڈالر سالانہ ادا کر کے کیسے ترقی کر سکتے ہیں؟ یہ سلسلہ جاری رہا تو آئندہ چند برسوں کے اندر قرضے کی قسطیں ہمارے مجموعی بجٹ سے بھی بڑھ جائیں گی۔ معیشت کا احیا تو کجا الٹا ہماری آزادی اور بقا خطرے میں ہے۔ ہمارے اقتصادی دانشوروں کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے قرضے دینے سے انکار کیا تو ہمیں ڈیفالٹ قرار دے کر دنیا میں تنہا کر دیا جائے گا‘ برآمدات نہیں ہوں گی‘ ایل سی نہیں کھلے گی‘ یہ دانش بھی مغرب سے ہمارے ہاں آئی ہے۔ یہ مفروضہ ہی غلط ہے کہ ہماری برآمدات ختم ہو جائیں گی۔ برآمدات کا سلسلہ چین‘ افغانستان‘ ایران اور دیگر اسلامی ممالک سے جاری رہ سکتا ہے‘ جن پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ اس طرح ایک نیا تجارتی بلاک وجود میں آسکتا ہے۔ ہمارا سب سے زیادہ خرچ تیل پر ہوتا ہے جس کے بدلے ہم تیل پیدا کرنے والے ممالک کو چاول‘ گندم اور کپاس برآمد کر سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ڈیفالٹ کرنے والا پاکستان پہلا ملک نہیں ہوگا۔ لاطینی امریکہ کے سولہ ملک ڈیفالٹ کر چکے ہیں جس کے بعد ان کی معیشت میں بہتری کے آثار پیدا ہوئے ہیں۔ جہاں تک تنہائی کا معاملہ ہے تو چین اور روس نے سیاسی طور پر تنہا ہو کر ہی ترقی کی۔ دراصل یہ اقتصادی دانشور ایک سازش کے تحت ہمیں سمجھانے پاکستان آتے ہیں اور ہر بار ہمیں ایٹمی پروگرام‘ کشمیر اور دفاعی بجٹ میں کمی کرنے کی تلقین کا سلسلہ دوبارہ چالو کرا دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اقتصادی اور سیاسی تنہائی پاکستان کے حق میں خوش بختی کا ذریعہ ہو سکتی ہے۔ میرے یقین کے پیچھے ٹھوس دلائل ہیں:

  • سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی امداد ہمیں حاصل ہوگی جب ہم تمام جھوٹے سہاروں کو چھوڑ کر صرف اس کا دامن تھامیں گے تو وہ ہمیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ ہم پیغمبر آخر الزمانؐ کے نام لیوا ہو کر تنہائی سے کیوں ڈریں جنہوں نے شعب ابی طالب میں رہ کر اقتصادی مقاطعے کا سامنا کیا اور جنگ احزاب میں دشمنان اسلام کی متحدہ قوت کو پسپا کیا۔
  • دنیا میں وہ تمام ممالک جنہیں سیاسی طور پر تنہا کیا گیا اور جن کے خلاف استعماری ملکوں نے اتحاد کیا وہ اپنے قدموں پر کھڑے ہوگئے۔ ان کے عوام کے خفیہ جوہر بروئے کار آگئے۔ جاپان‘ روس‘ چین اور ان گنت دوسرے ممالک کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ چین پاکستان کے بعد وجود میں آیا‘ وہ آج کہاں کھڑا ہے۔ ایران‘ عراق‘ سوڈان اور لیبیا کو تنہا کیا گیا لیکن وہ سب زندہ رہے۔ کیوبا ایک چھوٹا سا بے وسیلہ ملک ہے۔ اس کو تنہا کیا گیا لیکن فیڈرل کاسترو کا بال تک بیکا نہ ہو سکا۔ پاکستان تو ایٹمی طاقت ہے ‘ اسے تنہا رکھنا اول تو ناممکن ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان ملت اسلامیہ کا قائد بن جائے گا پھر عین ممکن ہے تیل کی دولت سے مالا مال اسلامی ممالک پاکستان کے قرضے اتارنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ وہ اگر مغرب کی استعماری افواج کو اربوں ڈالر کی تنخواہ دے سکتے ہیں تو پاکستان کو اس مشکل سے نکالنے میں مدد کیوں نہیں دے سکتے۔
  • تنہائی کی مصیبت میں ایک رحمت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم اس سے فائدہ اٹھا کر پاک سرزمین کو اسلامی نظام کی برکات سے فیض پہنچانے کے قابل ہو جائیں گے۔ اسلام کو عروج اور ترقی شعب ابی طالب میں فاقہ کشی اور غزوہ خندق میں پیٹ پر پتھر باندھنے کے بعد ملی تھی۔ اس لیے ہمارے لیے تنہائی کوئی تباہی نہیں لائے گی بلکہ ہم یکسو ہو کر نئے نظام کی بنیاد رکھیں گے۔
  • پاکستان میں قیادت کا بحران اس وجہ سے پیدا ہوا کہ استعماری طاقتوں نے ہماری آزادی پر کنٹرول قائم کیا اور اپنے ایجنٹ اور کرائے کے لیڈر پاکستان پر مسلط رکھے اور عوام کو کوئی مخلص قائد نہ مل سکا۔ پاکستان تنہا ہوگا تو عوامی مزاحمت کی راہنمائی کرنے والی حقیقی قیادت ابھرے گی جو اپنے مفادات پر عوام کو قربان کرنے اور ان کا خون چوسنے کے بجائے اپنے جان و مال کی قربانی پیش کرے گی۔ ایک حقیقی لیڈر شپ پیدا ہوگی جو پاکستان کو موجودہ بحران سے نکالنے کی اہل ہوگی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ چین نے تنہائی اختیار کی تو اسے ماؤزے تنگ اور چو این لائی جیسے بے نفس اور بے لوث لیڈر ملے۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ جن ممالک کو تنہا کیا گیا ان کے لیڈروں کا دور قیادت طویل تر ہے۔ چین کے موزے تنگ‘ شمالی کوریا کے کم ال سنگ‘ کیوبا کے فیڈل کاسترو‘ لیبیا کے معمر قذافی اس کی مثال ہیں۔ ایران کے خمینی زندگی کے آخری سانسوں تک عوام کے دلوں میں زندہ رہے۔ اسی طرح صدام امریکہ اور مغرب کی تمام تر مخالفت کے باوجود تیس برس سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس جو حکمران مغرب کے سامنے جھک گئے ہیں ان کا دورانیہ چند سال کا ہوتا ہے چونکہ وہ اپنے آقاؤں سے مخلص ہوتے ہیں اور قوم کے وفادار نہیں ہوتے اس لیے قوم انہیں جلد ہی نظروں سے گرا دیتی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے سامنے عزت اور آبرو کا راستہ کھلا ہے۔ ہمیں پوری قوت سے اعلان کر دینا چاہیے کہ ہم غیر ملکی قرضے ادا نہیں کر سکتے اور نہ قرضوں کی خاطر اپنے ملک کی آزادی کو امریکہ کے پاس گروی رکھ سکتے ہیں۔ ہماری قوم اس پر متفق ہے ۔ میں اس مقصد کے لیے تحریک شروع کر چکا ہوں ۔ اب تک سرگودھا اور سیالکوٹ کی بار کونسلوں سے خطاب کر چکا ہوں جہاں وکلا برادری نے مکمل اتفاق رائے سے قراردادیں منظور کی ہیں جن میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ استعماری قرضے ادا کرنے سے انکار کر دے۔ میری درخواست ہے کہ قومی پریس اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے اور عوامی رائے کو منظم شکل میں ابھارے ۔میں ان شاء اللہ گھر گھر جا کر لوگوں سے کہوں گا کہ اگر ہم سسک سسک کر اور ذلت سے جینا نہیں چاہتے ‘ اگر ہم نہیں چاہتے کہ مٹھی بھر غیر ملکی ایجنٹ قوم کا مال لوٹ کر غیر ملکی بینکوں میں لے جائیں اور ہمارے قومی مجرموں کو امریکہ ہمارے آئین و قانون کے ہاتھوں چھڑا کر لے جائے تو ہمیں مزاحمت کرنا ہوگی۔ ہمیں قرضوں کی سازش کا شکار بننے سے صاف انکار کرنا ہوگا۔ ہم اپنے ایمان‘ نظریے اور آزادی سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ ہمیں عزت سے جینا ہے تو عزت سے مرنے کے لیے بھی تیار رہنا ہوگا۔ سرنڈر کی پالیسی سے موت نہیں ٹلتی۔ اس لیے ہمیں اعلان کر دینا چاہیے کہ ہم ذلت سے جینا اور مرنا نہیں چاہتے۔ ہمارے حکمرانوں کے سامنے دو ہی راستے ہیں ‘ امریکہ کے ساتھ کھڑے ہوں یا اپنی مظلوم مگر غیرت مند قوم کے ساتھ‘ درمیان کا کوئی راستہ نہیں۔

پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(جنوری ۲۰۰۱ء)

تلاش

Flag Counter