عید الفطر کے موقع پر مرکزی عید گاہ اہل سنت گوجرانوالہ میں مدیر "الشریعۃ" کا خطاب ۔
بعد الحمد والصلوٰۃ آج عید کا دن ہے‘ عید خوشی کو کہتے ہیں اور آج دنیا بھر کے مسلمان اس بات پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خوشی اور تشکر کا اظہار کر رہے ہیں کہ رمضان المبارک کا رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ نصیب ہوا اور اس میں ہر مسلمان کو اپنے ذوق اور توفیق کے مطابق اللہ تعالیٰ کی بندگی اور نیک اعمال کا موقع ملا۔ روزہ‘ قرآن کریم کا سننا سنانا ‘ صدقہ خیرات اور نوافل کی توفیق ہوئی‘ اس خوشی میں مسلمان بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہیں اور تشکر و امتنان کا اظہار کر رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ وہ شکر گزاری پر نعمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں ۔ قرآن کریم میں سور ۃ ابراھیم کی آیت ۷ میں ارشاد خداوندی ہے کہ
"اگر تم میری نعمتوں پر شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں مزید دوں گا اور اگر نا شکری کرو گے تو میرا عذاب بہت سخت ہے۔"
یعنی جس طرح شکر گزاری پر نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اسی طرح نا شکری پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت عذاب اور سزا بھی دی جاتی ہے۔اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک اور ضابطہ بھی بیان فرمایا ہے کہ جونعمتیں خود انسانوں کی فرمائش پر انہیں دی جاتی ہیں‘ ان کی ناشکری پر عذاب بھی سب سے زیادہ سخت ہوتا ہے۔ میں نے آج خطبہ کے بعد سورۃ المائدۃ کی جو آیات کریمہ (۱۱۲ تا ۱۱۵) آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ رب العزت نے اسی ضابطہ اور قانون کی وضاحت کی ہے اور ایک تاریخی واقعہ کا تذکرہ کیا ہے‘ سورۃ المائدۃ اسی واقعہ سے منسوب ہے۔ مائدۃ دستر خوان کو کہتے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں بنی اسرائیل کے لیے آسمان سے تیار کھانوں کا خوان اترنے کا واقعہ اس سورہ میں بیان ہوا ہے جس کی وجہ سے اس سورۃ کو "المائدۃ" کہا جاتا ہے‘ وہ واقعہ انہی آیات میں ہے جو میں نے آپ کے سامنے پڑھی ہیں اور ان کا مفہوم یہ ہے کہ
" اور جب حواریوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ کیا آپ کا رب اس کی طاقت رکھتا ہے کہ ہم پر آسمان سے خوان اتارے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ حواریوں نے کہا کہ ہم یہ ارادہ کرتے ہیں کہ ہم اس میں سے کھائیں گے جس سے ہمارے دلوں کو اطمینان نصیب ہوگا اور ہم یہ جان لیں گے کہ آپ نے ہم سے سچ کہا اور ہم اس پر گواہ ہو جائیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دعا کی کہ یا اللہ ہم پر خوان اتار دے۔ وہ ہمارے پہلوں اور پچھلوں کے لیے عید ہوگی اور آپ کی قدرت کی نشانی ہوگی‘ آپ ہمیں رزق عطا فرمادیں کیونکہ آپ بہترین رزق دینے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم پر خوان اتار دوں گا مگر اس کے بعد تم میں سے جس نے نا شکری کی تو میں اسے ایسا عذاب دوں گا کہ وہ عذاب اس کائنات میں اور کسی کو نہیں دوں گا۔"
یعنی جس نعمت کی فرمائش کی جا رہی ہے اس کے ملنے کے بعد بھی اگر نا شکری کی گئی تو اس پر خدا کا عذاب بہت زیادہ سخت اور بے مثال ہوگا اور اس کی سنگینی اور شدت دوسرے عذابوں سے کہیں زیادہ ہوگی۔
ان آیات کے ضمن میں امام ابن جریر طبریؒ نے "تفسیر طبری" میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اور حضرت مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ نے " تفسیر مظہری" میں حکیم ترمذیؒ کی "نوادر الاصول " کے حوالہ سے حضرت سلمان فارسیؓ کی تفصیلی روایات نقل کی ہیں‘ ان دونوں کو سامنے رکھ کر واقعہ کی تھوڑی سی تفصیل آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
ان روایات کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے پیروکاروں کو جب روزہ رکھنے کی تلقین کی اور فرمایا کہ اگر تم ایک ماہ کے روزے رکھو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری دعا کو قبول کریں گے۔ چنانچہ بنی اسرائیل نے ایک ماہ مسلسل روزے رکھے اور جب تیس روزے مکمل ہوگئے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ان کے حواریوں نے عرض کیا کہ ہمارے ہاں رواج ہے کہ جب ہم ایک ماہ تک کسی کے ہاں مزدوری اور کام کرتے ہیں تو وہ ہمیں اپنی طرف سے کھانا کھلاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے درخواست کریں کہ وہ ہمارے لیے آسمان سے تیار کھانوں کا خوان اتارے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پہلے تو انہیں تنبیہ کی کہ خدا سے ڈرو ‘ اس قسم کے سوالات مناسب نہیں لیکن جب وہ اپنے سوال پر قائم رہے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے خوان اتارنے کی درخواست کر دی جس پر اللہ رب العزت نے خوان اتارنے کا وعدہ کرلیا اور ساتھ ہی فرمایا کہ اگر اس کے بعد بھی نا شکری کی تو پھر میرا عذاب ایسا ہوگا کہ اس کی مثال پوری کائنات میں نہیں ہوگی۔ چنانچہ آسمان سے تیار کھانوں کا دستر خوان اترا بلکہ مسلسل چالیس دن تک اترتا رہا اور بنی اسرائیل سب کے سب روزانہ اس سے کھاتے رہے۔ چالیس دن کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش شروع ہوئی اور حکم ہو اکہ آج کے بعد یہ خوان غریب اور مستحق لوگوں کے لیے ہوگا اور امیر اور صاحب استطاعت افراد کو اس سے کھانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس سے قبل یہ شرط بھی لگائی گئی تھی کہ دستر خوان پر بیٹھ کر جتنا کھا سکتے ہو کھاؤ مگر ساتھ لے جانے اور ذخیرہ کرنے کی اجازت نہیں ہے اور دستر خوان سے کوئی چیز اٹھا کر لے جانے کو خیانت شمار کیا جائے گا۔ مگر امیر لوگ اور صاحب استطاعت افراد ان شرائط کی پابندی نہ کر سکے اور طرح طرح کے حیلے نکال کر خلاف ورزی شروع کر دی جس کی وجہ سے یہ خوان اترنا بند ہوگیا اور خلاف ورزی کرنے والے سینکڑوں افراد کو یہ عذاب ہوا کہ رات کو بے فکری کے ساتھ اپنے بستروں پر محو خواب تھے کہ ان کی شکلیں بدل گئیں اور انہیں خنزیروں کی شکل میں مسخ کر دیا گیا۔ صبح اٹھے تو عجیب صورت حال تھی ۔ دھڑ اور جسم انسانوں کے تھے مگر چہرے اور شکلیں خنزیروں کی بن چکی تھیں۔ بنی اسرائیل میں کہرام مچ گیا‘ سب لوگ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے گرد جمع ہو کر آہ و زاری کرنے لگے۔ وہ سینکڑوں خنزیر نما انسان بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے گرد گھومتے اور روتے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان میں سے کسی کا نام لے کر پکارتے تو وہ سر ہلا کر ہاں کرتا مگر گفتگو کی طاقت سلب ہو چکی تھی۔ ان کا رونا دھونا بعد از وقت تھا اس لیے کسی کام نہ آیا اور وہ خنزیر نما سینکڑوں انسان تین دن اس حال میں رہنے کے بعد موت کا شکار ہوگئے ۔ ان میں سے کوئی زندہ نہ رہا اور نہ ہی کسی کی نسل آگے چلی۔
گویا اس واقعہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قانون کا عملی اظہار فرما دیا کہ وہ عام نعمتوں کی ناشکری پر بھی سزا دیتے ہیں لیکن جو نعمت فرمائش اور درخواست کر کے لی جائے اس کی ناشکری پر ان کا عذاب بہت زیادہ سخت ہوتا ہے۔
اس حوالہ سے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کا ایک ارشاد گرامی بھی آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں جو انہوں نے یہ واقعہ بیان کر کے عربوں سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا ۔ "تفسیر ابن کثیرؒ " میں انہی آیات کریمہ کے ضمن میں منقول ہے کہ حضرت عمار بن یاسرؐ نے ایک مجلس میں "مائدہ" والا یہ واقعہ بیان فرمایا اور پھر کہا کہ اے اہل عرب ! تم پر اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا احسان کیا کہ حضرت محمد ﷺ جیسے عظیم پیغمبر تمہیں عطا فرمائے۔ حالانکہ ان سے پہلے تم صرف اونٹ اور بکریاں چرانے والے چرواہے تھے لیکن رسول اللہ ﷺ کی برکت سے تمہیں عرب و عجم کی بادشاہت مل گئی اور نبی اکرم ﷺ نے تمہیں ہدایت کی کہ سونا چاندی ذخیرہ نہ کرنا یعنی دولت کو جمع کرنے کے بجائے اسے مستحقین پر خرچ کرتے رہنا مگر تم نے دولت کو ذخیرہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس لیے یاد رکھو کہ تم بھی اسی طرح خدا کے عذاب کا شکار ہوگے جس طرح مائدہ والے بنی اسرائیل خدا کے عذاب میں مبتلا ہوئے تھے۔
حضرت عمار بن یاسرؓ نے یہ بات اپنے دورکے پس منظر اور حالات میں کہی تھی لیکن آج کے حالات اور تناظر میں ان کے اس ارشاد گرامی کو دیکھ لیجئے کہ کس طرح حرف بہ حرف صادق آرہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ پون صدی میں عربوں کو تیل اور سونے کی صورت میں جس دولت سے مالا مال کیا‘ اس کی مثال نہیں ملتی لیکن یہ دولت کہاں خرچ ہوئی؟ یہ دولت ملت اسلامیہ کے اجتماعی اور ملی مفاد میں خرچ ہوتی تو اس کا میدان سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ دفاع اور معیشت تھا مگر عربوں کی دولت ان معاملات میں مسلمانوں کے کسی کام نہ آئی اور نہ ہی غریب مسلمانوں اور نادار لوگوں کی ضروریات پر یہ دولت صرف کی گئی البتہ عیاشی پر‘ اللّوں تللّوں پر‘ بیکار بلڈنگوں پر اور شاہانہ اخراجات پر تیل کی دولت برباد ہوگئی اور جو دولت ان کاموں پر صرف نہ ہو سکی وہ مغربی ملکوں کے بینکوں میں ذخیرہ کر دی گئی ہے جو مسلمانوں کے بجائے ان کے دشمنوں کے تصرف میں ہے اور ان کے کام آرہی ہے۔
اللہ نے چھپر پھاڑ کر عربوں کو دولت دی تھی‘ زمین کا سینہ ان کے لیے چاک کر دیا تھا مگر انہوں نے اس عظیم نعمت کی جو ناشکری کی‘ اس کی سزا آج ہم سب بھگت رہے ہیں اور اسرائیل جیسے چھوٹے سے ملک کے سامنے تمام عرب ممالک بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ یہ خدا کا عذاب ہے اور اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ نعمتیں بھی بے حساب دیتا ہے مگر ان کی ناشکری پر اس کی گرفت بھی بڑی سخت اور عبرتناک ہوتی ہے۔ عربوں کو ایک طرف رکھئے خود ہمارا حال کیا ہے؟ ہم نے یعنی جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے " پاکستان" جیسی عظیم نعمت اللہ تعالیٰ سے مانگ کر لی تھی اور یہ کہا تھاکہ یا اللہ ! اس خطہ کے مسلمانوں کو الگ ملک عطا فرما دے‘ ہم اس میں تیرے احکام کی پابندی کا اہتمام کریں گے‘ ہمارے ایک ہاتھ میں قرآن شریف اور دوسرے ہاتھ میں بخاری شریف تھی اور ہم نے لاکھوں کے اجتماع میں عہد کیا تھا کہ پاکستان بن گیا تو ان دو کتابوں کی حکمرانی قائم کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں الگ ملک دے دیا اور پاکستان بن گیا مگر ہم نے کیا کیا؟ اور نصف صدی سے مسلسل کیا کر رہے ہیں؟ ہم نے مملکت خداداد پاکستان کو لوٹ کھسوٹ اور مار دھاڑ کا مرکز بنا لیا۔ ہم میں سے جس کا جتنا داؤ چلا اس نے ملک کو لوٹنے اور اس کے وسائل کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
ہم نے خدا کے قانون کو‘ اسلام کے نظام کو اور قرآن و سنت کی ہدایات کو نظر انداز کردیا اور خواہشات کی غلامی میں لگ گئے۔ آج غریب آدمی کے پاس تن ڈھانپنے کو کپڑا نہیں ہے‘ بجلی کا بل دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں‘کھانے کو روٹی نہیں ہے اور سر چھپانے کو مکان نہیں ہے مگر چند افراد نے اپنی تجوریوں اور بیرون ملکوں بینکوں میں دولت کے انبار لگا رکھے ہیں۔ آج مجھے اور آپ سب کو اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے اور اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم تو عید کے روز نئے کپڑے پہنے‘ خوشبو لگائے اور بنے سنورے بیٹھے ہیں مگر ہمارے اردگرد کتنے لوگ ہیں جو آج کے دن بھی اپنے بچوں کے لیے ایک دن کی عارضی خوشیوں کا اہتمام نہیں کر سکے۔ ان کی تعداد تھوڑی نہیں بہت زیادہ ہے او ردن بدن بڑھتی جا رہی ہے‘ ان لوگوں کا بھی وہی خدا ہے جو سب کچھ دیکھ رہا ہے اور ان لوگوں کے دلوں سے بھی آہیں نکلتی ہیں جو سیدھی عرش پر جاتی ہیں۔ اس لیے ہمیں بنی اسرائیل کے اس واقعہ سے عبرت حاصل کرنی چاہیے‘ سبق لینا چاہیے اور نصیحت پکڑنی چاہیے۔ ابھی وقت ہے اگر ہم ندامت اور توبہ کے ساتھ اپنی اصلاح کا راستہ اختیار کر لیں تو توبہ کا دروازہ کھلا ہے لیکن اگر ہم نے اب بھی سبق نہ سیکھا تو عذاب کا قانون سب کے لیے یکساں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اصلاح اور توبہ کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین