سرکاری حج پالیسی اور حجاج کو درپیش مشکلات ۔ چیف ایگزیکٹو کے نام ایک مکتوب

مولانا محمد عبد العزیز محمدی

- بخدمت جناب عزت مآب جنرل پرویز مشرف ‘ چیف ایگزیکٹو پاکستان (اسلام آباد)

- بخدمت جناب وزیر حج و امور مذہبیہ پاکستان(اسلام آباد)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ مزاج گرامی ؟ ۔ امید ہے طبیعت بعافیت ہوگی۔

چند ایک معروضات پیش خدمت ہیں۔ حجاج کرام کو ہر سال پیش آمدہ مشکلات و مسائل وقتاً فوقتاً اخبارات اور قومی جرائد میں آتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں روزنامہ جنگ کی طرف سے جنگ فورم میں منعقدہ مذاکرہ کے مطالعہ کے بعد میں ضروری سمجھتا ہوں کہ جناب کی توجہ چند ایک تجاویز کی طرف خصوصیت سے مبذول کرائی جائے جن پر سنجیدگی سے غور کر کے انہیں قابل عمل بنا دیا جائے تو ان شاء اللہ امید ہے کہ کافی حد تک حجاج کرام کی شکایات کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ تب ہی ممکن ہوگا کہ جناب ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے ان تجاویز کو بیوروکریسی کی روایتی سازش اور دست برد سے بچا کر عملاً نافذ کرنے کے لیے ذاتی و سرکاری ذرائع بروئے کار لائیں۔

۱۔ جناب والا ‘ حجاج کرام کے لیے رہائش ‘ معلم کا انتخاب اور مکہ سے منیٰ ‘ عرفات‘ مزدلفہ آمد و رفت ٹرانسپورٹ کا انتظام حجاج کرام کی اپنی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے اور ان کے لیے لازمی کٹوتی کو ختم کر دیا جائے۔

۲۔ بھارت غیر مسلم حکومت ہونے کے باوجود اپنے حجاج کرام سے درخواست کے ساتھ صرف پانچ ہزار روپے لیتی ہے۔ اور باقی رقم بعد میں جمع کرائی جاتی ہے جبکہ پاکستانی حکومت ہر سال حجاج کرام سے پوری رقم ۸ ماہ قبل جمع کراتی ہے جو حجاج کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ (یہ بہانہ کہ ہمیں سعودی حکومت کو بلڈنگ کے لیے ۲۳ فیصد ایڈوانس دینا پڑتا ہے‘ اسے آڑ بنا کر حجاج کرام سے پوری رقم اتنا عرصہ قبل لے لینے کا کوئی جواز نہیں) نیز بھارت اپنے حجاج کو سب سڈی دیتا ہے۔ جبکہ پاکستان ہر سال رقم میں اضافہ کر دیتا ہے۔ اس لیے گزارش ہے کہ حجاج کرام سے پہلے کی طرح ایک صد روپے کے فارم یا ایک چوتھائی رقم ایڈوانس لے لی جائے اور بقایا رقم حج سے دو تین ماہ قبل جمع کرائیجائے اس جائز اور مبنی بر حقیقت مطالبے کو مذہبی امور کے ناخدا سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ آئندہ حج قومی کانفرنس کے موقع پر سب سے پہلے یہی مسئلہ زیر بحث لایا جائے اور رائے عامہ کا احترام کیاجائے۔

۳۔ جناب والا حج پالیسی پہلے سے تیار ہوتی ہے جسے حج بیورو کریسی دفتروں میں بیٹھ کر تیار کرتی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ کانفرنس کے موقع پر کئی باتوں کا جواب وہاں کے ذمہ دار یہ دیتے ہیں کہ یہ حج پالیسی میں نہیں ہے‘ کانفرنس تو اب ہو رہی ہے‘ پالیسی پہلے کس طرح طے ہوگئی؟ حج قومی کانفرنس رسمی‘ روایتی اور مہمانوں کو شرمندہ کرنے کے لیے محض ایک دھوکہ ہے۔ عوامی تجاویز کو در خور اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ کانفرنس کے موقع پر مختلف کمیٹیوں کی تشکیل اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے ہوتی ہے۔ طے شدہ ٹارگٹ کے حصول کے علاوہ عوامی تجاویز کو ضیاع وقت سمجھ کر ٹال دیا جاتا ہے۔ اس دھوکہ دہی سے نجات دلا کر عوامی تجاویز کو قابل عمل بنایا جائے۔ وزارت مذہبی امور کے عملہ کی کارکردگی یہ ہے۔ ہماری ایک جوائنٹ درخواست (اپنے انتظام اور اپنی گاڑی سے چند احباب کا ایک گروپ حج پر لے جانے کے سلسلے میں) ڈائریکٹر مذہبی امور صوبہ سرحد نے اپنے مکتوب No 2(11)/94-DH(G)/962-63 Peshawar مورخہ ۲ دسمبر ۱۹۹۸ء سیکشن آفیسر (p.w) وزارت مذہبی امور کو بھیجی تھی۔ آج عرصہ دو سال کے بعد ہم ابھی تک جواب کے انتظار میں ہیں۔ متعلقہ افسران کو جواب دینے کی فرصت نہیں ملی یا جواب کی زحمت گوارا نہیں کر رہے یا ریکارڈ اتنا صاف ہے کہ درخواست ہی گم ہوگئی ۔

۴۔ حج و عمرہ کے لیے (Land Route) خشکی کے راستے ٹرانسپورٹ کارواں بھیجے جائیں۔ اس سے نوجوانوں میں شوق بڑھے گا۔ راستے میں مقدس مقامات کی زیارت ہوگی۔ P.I.A کا بوجھ کم ہوگا اور گزشتہ سال کی طرح P.I.A کی طرف سے پیدا شدہ مشکل صورت حال کا اعادہ نہیں ہوگا۔ وزارت مذہبی امور کا یہ عذر لنگ کب تک چلے گا کہ (Land Route) حج پالیسی میں نہیں ہے۔ آخر پالیسی میں کب آئے گا۔ کون پالیسی بنائے گا اور کب تک من مانی چلے گی۔ اگر حکومت سرکاری طور پر حج کارواں نہیں بھیج سکتی تو کم از کم اپنے طور پر پرائیویٹ قافلے By Road جانا چاہیں تو انہیں سہولیات‘ ویزہ کے حصول کے لیے سرکاری طور پر تعاون اور ضروری کارروائی کے ساتھ ساتھ N.O.C دے دی جائے۔

۵۔ حج و عمرہ کے لیے بحری راستے نامعلوم وجوہ کی بنا پر بند کر دیے گئے۔ صرف یہ بہانہ کہ بحری جہاز ناکارہ ہوگئے ہیں‘ بیک وقت سب کیسے ناکارہ ہوگئے۔ اس سلسلے میں تو ہم کچھ نہیں کہتے۔ اگر پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن والے بیک وقت بحری جہازوں کے ناکارہ ہونے میں اپنی غفلت و کوتاہی کی سزا غریب لوگوں کو دینے اور پاکستانی بندرگاہوں کی افادیت و اہمیت ختم کرنے کا فیصلہ کر ہی چکے ہیں تو پرائیویٹ جہاز رانی کی حوصلہ افزائی کے لیے پرائیویٹ کمپنیوں کو رائیلٹی اور خصوصی رعایات دی جائیں تا کہ سمندری صنعت کو فروغ ہو اور حج و عمرہ کے لیے پہلے کی طرح بحری راستوں کو بھی اختیار کیا جا سکے۔

۶۔ حج بدل در حقیقت حج فرض ہی کی طرح ہے اس لیے حج بدل والوں کو مخصوص کوٹہ سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔

۷۔ حاجیوں کو بلڈنگ مافیا کی رشوت‘ ناواقف اور سفارشی عملہ سے نجات دلائی جائے۔ حج کے نام پرناجائز منافع خوری کا سد باب کیا جائے۔ جو رہائش ۶۰۰ ریال پر ملتی ہے اس کا کرایہ حاجیوں سے ۱۴۵۰ ریال لے لیا جاتا ہے۔یہ کتنی بڑی زیادتی ہے۔ ویسے بھی حج فارموں میں حجاج کے لیے رہائش کی درجہ بندی کچھ اس طرح سے ہوتی ہے کہ کم سے کم ۸۰۰ ریال اور زیادہ سے زیادہ ۱۶۰۰ ریال لیے جانے کا کالم ہوتا ہے۔ مگر کسی حاجی کو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کس درجہ کی رہائش میں ہے۔ ہر حاجی سے زیادہ سے زیادہ (maximum) کٹوتی کر لی جاتی ہے۔ وہاں حاجی کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ خدام الحجاج صرف فوجی اور سکاؤٹس بھیجے جاتے ہیں ۔ اگر پرائیویٹ طور پر حجاج کرام کی خدمت کرنے والی تنظیموں سے بھی خدام بھیجنے کے لیے ایک کوٹہ مقرر کیا جائے تو وہ اپنی ساکھ باقی رکھنے کی خاطر صحیح معنوں میں خدام فراہم کرتے ہوئے دیندار‘ محنتی اور خدمت کا جذبہ رکھنے والے افراد مہیا کر سکیں گے ۔

۸۔ حاجی کیمپوں میں مستورات کے لیے پردے کا صحیح انتظام کیاجائے۔ پردے کے ریک (rack) اور کیبن بنائے جائیں تا کہ کوئی حاجی اپنے محرم‘ مستورات کو ملنا چاہیں تو بے پردگی کا احتمال نہ ہو‘ موجودہ صورت حال غیر تسلی بخش ہے۔ نیز حج و عمرہ کی پروازوں میں لیڈیز ایئر ہوسٹس کو ممنوع قرار دے کر سٹیورڈ مقرر کیے جائیں۔

۹۔ سرکاری سطح پر سعودی عرب کو آگاہ کیا جائے کہ بعض معلمین حجاج کے وقوف منیٰ و مزدلفہ کے حدود کی پرواہ نہیں کرتے۔ اس سال وقوف منیٰ کے خیمے منیٰ کے علاوہ مزدلفہ کی حدود میں بھی نصب کرائے گئے تھے۔ حجاج کو حدود کا علم نہیں ہوتا اس لیے معلمین کو پابند کیا جائے کہ وقوف منیٰ ‘ مزدلفہ اپنی اپنی حدود میں کرائیں۔

۱۰۔ رمضان المبارک کے احترام میں عمرہ کے لیے P.I.A کی ٹکٹ میں دس ہزار روپے اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ عام حالات میں واپسی ٹکٹ اسلام آباد سے 28-27 ہزار ہوتی ہے جبکہ رمضان شریف میں 38-35 ہزار روپے کر دی جاتی ہے۔ نیز ایک اور مشکل درپیش ہے کہ ٹریول ایجنسیز اور P.I.A سٹاف والے ملی بھگت سے عمرہ والوں کے لیے جعلی سیٹ (O.K.) کرا لیتے ہیں‘ جب ویزہ لگ کر آجاتا ہے تو سیٹ کی تصدیق (confirmation ) سے انکاری ہو جاتے ہیں کہ وہ تو صرف ویزہ کے حصول کے لیے O.K کرائی تھی۔ عازمین مجبور ہوتے ہیں۔ آخر تک پریشان رہتے ہیں ۔ بالاخر P.I.A اور ٹریول ایجنسیز کی بلیک میلنگ اور اضافی اخراجات کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کھلے فراڈ سے نجات دلائی جائے۔

۱۱۔ حاجی کیمپوں میں کسٹم سٹاف حجاج کی بعض استعمال کی چیزوں مثلاً ٹوتھ پیسٹ‘ تیل‘ صابن‘ ادویات وغیرہ کو ممنوع قرار دے کر حاجیوں کے ورثا کو واپس دینے کی بجائے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور بعد میں آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں جو شرعاً ناجائز ہے۔ اگر وہ اشیاء واقعی ممنوع ہیں تو حجاج کے ورثا کو واپس کر دی جائیں۔

یہ چند ایک گزارشات میں نے عرض کر دی ہیں جو وزارت مذہبی امور کی دانستہ یا غیر دانستہ غلط حکمت عملی کی وجہ سے حجاج کے لیے پریشان کن ہیں۔ اللہ پاک نے آپ کو اختیارات دیے ہیں‘ اللہ پاک کے مہمانوں کو ان مشکلات سے نجات دلا کر اپنے لیے ذخیرہ آخرت بنائیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو شریعت مطہرہ کی بالادستی قائم کرنے اور ملک کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی مملکت بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

خادم العلماء والحجاج : (مولانا) محمد عبد العزیز محمدی ‘خطیب جامع مسجد (امان) اسلامیہ کالونی ‘ ڈیرہ اسماعیل خان

پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(جنوری ۲۰۰۱ء)

تلاش

Flag Counter