کراچی میں حافظ الحدیث کانفرنس کا انعقاد

ادارہ

شیخ الاسلام حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ساری زندگی اسلامی علوم کی ترویج و اشاعت ‘ اسلامی نظام کے نفاذ‘ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور باطل نظریات و افکار کے تعاقب کے لیے جدوجہد میں گزار دی اور ان کی بھرپور زندگی علماء کرام اور دینی کارکنوں کے لیے ہمیشہ مشعل راہ ثابت ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز علماء کرام نے گزشتہ دنوں جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن نارتھ کراچی میں حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمہ اللہ علیہ کی یاد میں پاکستان شریعت کونسل کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی "حافظ الحدیث کانفرنس" سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

کانفرنس کی پہلی نشست حضرت مولانا مطیع الرحمن درخواستی اور دوسری نشست کی صدارت پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی نے کی۔ جبکہ کانفرنس سے سپاہ صحابہؓ کی سپریم کونسل کے چیئرمین مولانا ضیاء القاسمی‘ جمعیت علماء اسلام (س) کے قائم مقام مرکزی امیر مولانا قاضی عبد اللطیف‘ پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی‘ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ کے سربراہ ڈاکٹر فضل احمد‘ مولانا اسعد تھانوی‘ مولانا بشیر احمد شاد‘ مولانا سیف الرحمن ارائیں‘ مولانا عبد الرشید انصاری‘ شیخ الحدیث مولانا زرولی خان‘ مولانا مفتی حبیب الرحمن درخواستی‘ مولانا قاری اللہ داد‘ شاعر اسلام سید سلمان گیلانی‘ قاری عبد الکریم اور قاری محمد اکبر مالکی نے خطاب کیا۔ کانفرنس صبح ساڑھے دس بجے سے شام ساڑھے پانچ بجے تک جاری رہی اور اس میں کراچی اور دیگر شہروں سے ہزاروں کی تعداد میں علماء کرام‘ دینی کارکنوں او رطلبہ نے شرکت کی۔

مولانا ضیاء القاسمی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت درخواستی رحمہ اللہ علیہ نے زندگی بھر محنت اور جدوجہد کے ساتھ دین کا جو گلشن آباد کیا وہ ہم سب کی امیدوں کا مرکز ہے اور ہم اس کی ہمیشہ آبادی کے لیے دعا گو ہیں۔ وہ اہل حق کے قافلہ سالار تھے اور انہوں نے حق پرست علما اور کارکنوں کی ہر دور میں سرپرستی کی۔

مولانا قاضی عبد اللطیف نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی نے ملک میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کی قیادت کی اور ان کی سربراہی میں اہل حق کے قافلہ نے ربع صدی سے زیادہ عرصہ تک نفاذ شریعت کی تحریک کو آگے بڑھایا۔ اس لیے آج ان کا سب سے بڑا ورثہ یہی جدوجہد ہے اور ہم سب کو اس جدوجہد میں زیادہ سے زیادہ حصہ ڈالنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آج فوجی حکومت کو این جی اوز اور لا دین عناصر نے گھیرے میں لے رکھا ہے اور یہ این جی اوز پاکستان کی اسلامی حیثیت کے خاتمہ کے لیے بین الاقوامی ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کے وجود اور اس کے نظریاتی تشخص کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ اس لیے علماء کرام اور دینی حلقوں کو چاہیے کہ وہ متحد ہو کر اس خطرے کا مقابلہ کریں اور ملک کی اسلامی حیثیت اور قومی وحدت کے تحفظ کے لیے کسی قربانی سے گریز نہ کریں ۔انہوں نے کہا کہ آج پاکستان کے اسلامی دستور کے مخالف قوم پرست سیاست دان لندن میں بیٹھ کر پاکستان کے دستور کے خلاف باتیں کر رہے ہیں اور اس کے خاتمہ کے لیے مطالبات کر رہے ہیں جو خطرے کا الارم ہیں کیونکہ اگر خدانخواستہ ۷۳ کا دستور ختم ہوگیا تو اس ملک میں پھر کسی آئین پر قومی اتفاق رائے حاصل نہیں کیا جا سکے گا اور قومی وحدت خطرے میں پڑ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بین الاقوامی ایجنڈے کے سب سے بڑے اہداف تین ہیں۔ ایک یہ پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کیا جائے‘ دوسرا یہ کہ پاکستان کو معاشی طور پر مفلوج کر کے رکھ دیا جائے اور تیسرا یہ کہ فوج سے عوام کو متنفر کر کے ملک کے دفاع کی قوت کو غیر موثر بنا دیا جائے۔ اس ایجنڈے پر تیزی سے عمل ہو رہا ہے اور مختلف شعبوں میں فوج کو براہ راست ملوث کرنے سے لے کر اشیاء صرف کے نرخوں میں اضافے اور ضلعی حکومتوں کے نام سے نیم خود مختار ریاستوں کے قیام اور عورتوں کی آزادی کے بہانے خاندانی نظام کی تباہی کی مہم تک منصوبوں پر تسلسل کے ساتھ عمل ہو رہا ہے۔ اس لیے اس وقت سب سے بڑی ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی حلقوں اور جماعتوں کی قیادتیں سرجوڑ کر بیٹھیں اورملکی وحدت اور اسلامی دستور کے تحفظ کے لیے متحد ہو جائیں۔

مولانا زاہد الراشدی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی اہل حق کی روایات کے امین تھے۔ انہوں نے اپنے عظیم اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین کے تحفظ و ترویج کے لیے ہر مورچہ پر جنگ لڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا درخواستی کی پون صدی سے زیادہ عرصے پر محیط جدوجہد کے سات اہداف سب سے نمایاں تھے جن کے لیے وہ ہر وقت سرگرم عمل رہتے تھے اور اپنے ساتھیوں اور کارکنوں کو سرگرم عمل رہنے کی تلقین کرتے تھے۔

پہلے نمبر پر وہ ملک میں نفاذ شریعت کے نفاذ کے خواہاں تھے اور انہوں نے مسلسل پینتیس برس تک جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر کی حیثیت سے اس جدوجہد کی راہنمائی کی۔ وہ اپنے ہر عقیدت مند اور شاگرد سے عام اجتماعات میں اس بات کا حلف لیا کرتے تھے کہ وہ زندگی بھر نفاذ شریعت کے لیے جدوجہد کرتا رہے گا۔

دوسرے نمبر پر وہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے تھے۔ منکرین ختم نبوت کا تعاقب‘ عقیدہ ختم نبوت کی وضاحت و تشریح اور علماء کرام کو اس محنت کے لیے تیار کرنا ان کا خصوصی موضوع تھا اور اس مقصد کے لیے انہوں نے کئی مہمات کی عملی طور پر بھی قیادت کی۔

تیسرے نمبر پر وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت و عقیدت کا بطور خاص درس دیا کرتے تھے۔ صحابہ کرامؓ کے واقعات بیان کرتے‘ ان کی محبت اور عقیدت کو ابھارتے‘ ان پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دیتے اور ان کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے علماء کرام اور کارکنوں کو جدوجہد پر آمادہ کرتے تھے۔

چوتھے نمبر پر جہاد حضرت درخواستی رحمہ اللہ تعالیٰ کے بیانات کا خاص موضوع ہوا کرتا تھا۔ جب افغانستان کے جہاد کا آغاز نہیں ہوا تھا وہ اس دور میں بھی جہاد کے فضائل بیان کرتے‘ قرون اولیٰ کے واقعات سناتے اور اپنے شاگردوں اور سامعین کو جہاد کے لیے تیار کرتے تھے اور جب جہاد افغانستان عملاً شروع ہوا تو انہوں نے افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقے کا طوفانی دورہ کر کے علماء کرام اور دیندار عوام کو افغان مجاہدین کی پشت پناہی کے لیے تیار کیا اور آخر دم تک افغان جہاد کی حمایت اور پشت پناہی کرتے رہے۔

پانچویں نمبر پر وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی تلقین کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے رابطہ اور تعلق کا سبق دیتے اور باطنی تزکیہ اور اصلاح کی طرف توجہ دلاتے تھے۔

چھٹے نمبر پر حضرت درخواستی کا خاص مشن ملک کے ہر حصے میں دینی مدارس کا قیام تھا‘ وہ جہاں جاتے دینی مدارس قائم کرنے کی تلقین کرتے‘ مدارس کے لیے چندہ اکٹھا کر کے دیتے اور ان مدارس کی عملی اور مالیاتی سرپرستی کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں اور انہی کے ذریعہ معاشرہ میں دین کی حفاظت ہوگی۔

ساتویں نمبر پر انہوں نے اہل حق کی مختلف جماعتوں کے درمیان مفاہمت و ارتباط کے لیے ہر دور میں کوشش کی‘ وہ علماء دیوبند سے تعلق رکھنے والی ہر جماعت کو اپنی جماعت کہتے تھے اور سب جماعتوں کی سرپرستی کرتے ہوئے ان میں اتحاد و اشتراک کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ دین کی جدوجہد کے یہ ساتوں محاذآج بھی موجود ہیں اور حضرت درخواستی ؒ کے ساتھ ہماری محبت و عقیدت کا تقاضا ہے کہ ہم ان محاذوں پر اسی طرح سرگرم عمل رہیں جس طرح ہمارے مرحوم اور مربی ہمیں سرگرم عمل رہنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔

مولانا بشیر احمد شاد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت جن مدارس کے ذریعہ قائم ہوئی ہے‘ ان مدارس کا جال حضرت درخواستی ؒ نے ہی بچھایا تھا اور ان کی جدوجہد کے نتیجے میں ہی دنیا میں ایک بار پھر اسلامی نظام کے نفاذ کا مبارک سلسلہ شروع ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت درخواستی ؒ کی جدوجہد جاری رہے گی اور ہم ان کے خدام کی حیثیت سے ان کے مشن کی تکمیل کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔

مقررین نے حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمہ اللہ تعالیٰ کی علمی خدمات‘ دینی جدوجہد اور ملی کارناموں کے ساتھ ساتھ ان کے ذاتی اوصاف ‘ کرامات اور نیکی و تقویٰ کے بیسیوں واقعات بیان کیے اور کہا کہ وہ اس صدی میں پرانے بزرگوں کی روایات اور اخلاق و عادات کا نمونہ تھے۔ جبکہ کانفرنس کے اختتام پر حضرت درخواستی ؒ کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی گئی اور ان کے مشن کو جاری رکھنے کے عزم کی تجدید کی گئی۔

اخبار و آثار

(جنوری ۲۰۰۱ء)

تلاش

Flag Counter