اسلام اور مغرب میں عالمی تہذیبی کشمکش
اور حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کا پیغام

مولانا محمد یعقوب قاسمی

مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ۳۰ جولائی ۲۰۰۰ء کو سپورٹ سنٹر ڈیوزبری برطانیہ میں مسلم کمیونٹی فورم ڈیوزبری کے زیراہتمام ایک عالمی سیمینار منعقد ہوا جس سے حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی (بھارت)، حضرت مولانا محمد تقی عثمانی (پاکستان)، محترم ڈاکٹر تقی الدین ندوی (متحدہ عرب امارات)، حضرت مولانا عبد اللہ کاپودروی (کینیڈا)، الشیخ نادر عبد العزیز (کویت)، حضرت مولانا احمد خانپوری (بھارت)، حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی (لکھنؤ)، ڈاکٹر مزمل الحق صاحب صدیقی (امریکہ)، مفتی زبیر بھیات (جنوبی افریقہ)، حضرت مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی (لندن)، حضرت مولانا محمد عیسٰئ منصوری (چیئرمین ورلڈ اسلامک فورم، لندن)، اور مجلس تحقیقاتِ شرعیہ برطانیہ کے سربراہ مولانا محمد یعقوب قاسمی آف ڈیوزبری نے خطاب کیا۔ مولانا قاسمی موصوف کا مقالہ پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)



بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اس فانی دنیا میں مخلوق میں سے کسی کو بھی ہمیشگی و دوام نہیں۔ جو دنیا میں ماں کی گود میں آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن قبر کی گود میں ضرور جانا ہے۔ حی القیوم صرف باری تعالیٰ کی ذات ہے۔ جو ذی روح دنیا یں آیا اسے کم و بیش وقت گزار کر اللہ تعالیٰ کے متعین کردہ وقت پر آخرت کی طرف منتقل ہونا ہے۔ خالقِ کائنات کے اس اصول سے کوئی مستثنٰی نہیں، چاہے وہ حیوانات ہوں یا انسان۔ اور انسانوں میں سب سے افضل و اعظم انبیاء و رسل علیہم السلام کی ہستیاں، اور ان میں بھی افضل الرسل و سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس فانی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ طبعی عمر پوری کرنے پر ’’اللھم بالرفیق الاعلیٰ‘‘ کا ورد کرتے ہوئے اپنے رب ذوالجلال کی بارگاہ میں اس دنیا کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے تشریف لے گئے۔ زندگی کے ساتھ موت اس عالم کا اٹل قانون ہے۔ اسی کے تحت روزانہ ہر آن کرۂ زمین پر اس کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے اور زندہ لوگ اس کا مشاہدہ ہی نہیں کرتے، اپنے ہاتھوں اپنے عزیز و رشتہ داروں کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر زمین میں دفن کر دیتے ہیں۔

کرۂ زمین پر اشرف المخلوقات انسان اور اس میں انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی جماعت و گروہ کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی  فلاح و کامرانی کی رہبری کے لیے منتخب فرمایا، جن کی ربانی تعلیمات سے اپنے اپنے دور میں دنیا سے شرک و ضلالت کی ظلمت ختم ہو کر دنیا منور ہوئی۔ جب دنیا اپنی طبعی عمر کو پہونچی تو ایک ایسی روشنی اور ابدی تعلیم و ہدایت کی دنیا متلاشی اور ضرورتمند تھی کہ جو قیامت تک کے لیے انسانیت کی رہبری و ہدایت کی ضامن ہو۔

چنانچہ اس آخری ہدایت کو لے کر سرتاجِ انبیاء فخر المرسلین سیدنا و مولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اللہ تعالیٰ نے ’’قد جاءکم من اللہ نور و کتاب مبین‘‘ فرما کر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا‘‘ فرما کر اپنی عالمی و ابدی نبوت کا اعلان کیا۔ رب ذوالجلال نے ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولٰکن رسول اللہ وخاتم النبیین وکان اللہ بکل شئی علیما‘‘ کے ذریعے آپ پر نبوت ختم ہونے کا اعلان فرمایا کہ اب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور آپ کی لائی ہوئی تعلیمات قیامت تک کے لیے ہر دور اور ہر زمانہ میں انسانیت کی رہبری کے لیے کافی ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم کی صورت میں ابدی معجزہ دے کر ہمیشہ کے لیے انسانیت کی فوز و فلاح کو اس سے وابستہ کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ترکت فیکم امرین ان تمسکتھم بھما لن تضلوا کتاب اللہ و سنتی‘‘۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد امت کی رہبری کے لیے علماء امت کو اپنی تعلیمات کا وارث بناتے ہوئے فرمایا ’’العلماء ورثۃ الانبیاء‘‘۔ اب قیامت تک کے لیے احیائے دین اور کتاب و سنت کی ترویج و اشاعت، اور ان کی روشنی میں امت کی رہبری و قیادت کے ذمہ دار علماء امت قرار دیے گئے۔ چنانچہ ہر دور میں امت کے علماء ربانی نے اپنی اس ذمہ داری کو مخلصانہ طور پر نبھایا اور پورا فرمایا۔ اور ذمہ داری کی ادائیگی میں اپنے اور پرایوں کی طرف سے پہنچنے والی مشقتوں و اذیتوں اور تکالیف کو برداشت ہی نہیں کیا بلکہ ان کو اپنی سعادت تصور و یقین کرتے ہوئے اپنی جانوں تک کے نذرانے پیش کر کے خوشی محسوس کی۔

شمسی تقویم انیس سو ننانوے کی آخری تاریخ ۳۱ دسمبر ۱۹۹۹ء جمعہ کا دن ملتِ اسلامیہ بالخصوص ملتِ اسلامیہ ہند کے لیے ایک بجلی اور صاعقہ بن کر ظاہر ہوا۔ برطانیہ کے صبح کے تقریباً نو بجے ہوں گے کہ فون کی گھنٹی بجی اور کہنے والے نے یہ غمناک اور الم انگیز خبر کی اطلاع دی کہ آج ہندی وقت کے مطابق قبل جمعہ تقریباً ۱۲ بجے قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے مفکر اسلام ملت کے ہمدرد و غمخوار حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی اللہ کی جوار رحمت میں پہونچ گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جنہیں آج مرحوم اور قدس سرہ لکھتے ہوئے قلم جھجھکتا ہے، مگر مومن کی ایسے موقع پر ہی اسلامی تعلیم نے دست گیری کرتے ہوئے رضاء بالقضاء اور راضی برضائے مولا کی تلقین کی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک میں وارد ہوا ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا، جس کی توضیح علماء امت نے اس طرح کی ہے کہ اکابر علماء اللہ کو پیارے ہو جائیں گے اور ان جیسے علم میں پختہ کار لوگ پیدا نہیں ہوں گے تو جہل و جہالت کی بادشاہت ہو جائے گی۔ ہر زمانہ میں اہلِ علم و فضل کی موت سے علم کا نقصان ہوتا رہا ہے، لیکن اسلاف کے زمانہ میں ان کے شاگرد اور اخلاف مسلسل علمی محنت و مجاہدہ سے ان کی خالی جگہوں کو پُر کرتے رہے ہیں۔ مگر اب عصرِ حاضر میں علمی شوق کی کمی، محنت و مطالعہ کے فقدان، سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے طویل علمی راستوں سے وحشت و اجتناب، اور پراپیگنڈا کے ہتھیاروں اور سیاست کے طریقوں سے جلد شہرت و عظمت کے میناروں تک رسائی کی امنگ کی وجہ سے آج جب کسی عظیم عالمی و داعی کا وصال ہوتا ہے تو پھر اس جیسی شخصیت کا دوبارہ پیدا ہونا بہت مشکل نظر آتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں عالم اسلام جن نامور اور عظیم ہستیوں سے محروم ہوا ہے ان کا نعم البدل تو کیا بدل ملنا بھی دشوار ہے۔

  • عظیم عالمی داعئ اسلام جامعہ ازہر کے مشہور عالم اور امام حسن بنا شہیدؒ کے خصوصی تربیت یافتہ فضیلۃ الشیخ محمد غزالیؒ،
  • جامعہ ازہر کے عظیم عالم و مفکر، صحابہ و خلفاء رسول کے سیرت نگار الاستاذ خالد محمد خالدؒ،
  • شیخ الازہر فضیلۃ الامام الاکبر شیخ جاد الحق علی جادؒ،
  • دور حاضر کے عظیم محقق شیخ عبد الفتاح ابو غدہؒ،
  • اور مسجد نبوی کے واعظ شیریں بیان اور مدینہ منورہ کے قاضی علامہ شقیطیؒ کی نشانی شیخ عطیہ محمد سالمؒ،

پھر ۱۹۹۹ء میں دنیائے علم نے جن مذہبی رہنماؤں اور ریسرچ اسکالروں کو الوداع کہا ہے ان میں ہر شخص مینارہ نور اور اپنے فن کا نایاب لعل و گوہر تھا۔

  • شیخ ابو زہرہؒ،
  • علامہ شعراویؒ،
  • شیخ عبد القادر شہیدؒ کے بعد جو فقیہ عصر ِ حاضر باقی رہ گیا تھا اور فقہ و قانون کو جس پر ہزار ناز تھا یعنی ڈاکٹر مصطفٰی احمد زرقاءؒ،
  • میدانِ دعوت والی اللہ کے بہادر اور جری سپاہی، توحید کا پرستار اور حق پرست و حق گو مفتی اعظم عبد العزیز بن عبد اللہ بن بازؒ،
  • محافظِ حدیثِ رسولؐ محدث و محقق ناصر السنہ شیخ ناصر الدین البانیؒ،
  • اور سال کے آخری دن عظیم داعئ اسلام، علم و تحقیق و ادب کا شاہکار علی میاں رحمہم اللہ رحمۃ واسعۃ اللہ کو پیارے ہو گئے۔

حضرت مولانا سید ابو الحسن حسنی ندویؒ (جنہیں محبت و اپنائیت کی وجہ سے علی میاں کہا جاتا تھا) عصرِ حاضر کی عظیم شخصیات میں سے ایک تھے۔ آپ کی ولادت، ابتدائی حالات، تعلیم و تربیت، دعوت الی اللہ سے بھرپور زندگی، آپ کی علمی و تحقیقی مصروفیات، آپ کے سفر و حضر کے مشغلے، آپ کی تقریریں، اور ہمہ جہات حیاتِ طیبہ کے حسین و جمیل پہلوؤں پر تفصیل پیش کرنا راقم کے مختصر مقالے کا موضوع نہیں ہے، کیونکہ حضرت مولانا مرحوم نے اپنے قلم سے قدرے مفصل بلکہ مطول اپنی داستانِ زندگی بعنوان ’’کاروانِ زندگی‘‘ ۸ جلدوں میں تحریر فرما دی ہے۔ جس میں اپنے عصر کی تاریخ سے لے کر دعوت الی اللہ کے سفروں تک کی کلی و جزوی روداد موجود ہے۔ نیز آپ کے شاگردوں، دوستوں اور آپ کی حیاتِ طیبہ پر لکھنے والوں نے بھی اکثر و بیشتر آپ کی خود نوشت سوانح سے نقل و اقتباس کے ذریعے بہت سے مضامین لکھے ہیں۔

مولانا مرحوم کی تحریروں کے تجزیے، دعوت الی اللہ کے اصولوں پر گفتگو، آپ کی علمی و تحقیقی و اجتہادی آراء پر سیر حاصل بحث، مجھ سے کم علم کے بس کی بات نہیں۔ راقم اس مختصر مضمون میں مولانا کی مغربی تہذیب پر تنقید اور اسلامی تہذیب کی برتری پر گفتگو کرے گا، مولانا کے عہد میں مختصر تصویر اور بعض تحریروں کا اختصار پیش کرے گا، پھر مولانا کی مغرب (میں) کی ہوئیں تقریروں خصوصاً ۱۹۶۹ء میں شیفیلڈ یونیورسٹی اور شیفیلڈ کے تبلیغی اجتماع کی تقریروں سے اس موضوع پر سیر حاصل اقتباس پیش کرے گا۔ یہ تقریریں آج بھی مغربی ممالک میں رہنے والوں کے لیے تاریخی دستاویز و یورپین تہذیب پر صحیح اور ناقدانہ تبصرہ ہیں۔ اور ایسا تریاق ہے جس کے ذریعے تہذیبِ حاضر کے زہریلے جراثیم سے بچا جا سکتا ہے۔ صرف اسلام وہ نسخۂ شفا ہے جسے قلب و نظر اور عقل و ضمیر سے ماننا ہو گا، پھر عملی زندگی میں اس کو اپنانا ہو گا، اور زبانی و عملی دونوں طریقوں سے مغرب کے اندھیروں میں اس روشنی کو پھیلانا ہو گا۔

مولانا کا عہد

مولانا کی ولادت ۱۹۱۴ء میں ہوئی۔ اس سال پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی۔ اس سے پہلے انگریزوں کی دراندازی مشرقی ممالک میں شروع ہو چکی تھی۔ ہندوستان میں پہلے تجارتی کمپنی کے ذریعے، پھر باقاعدہ حکومت کی شکل میں ۱۸۵۷ء کی تحریکِ آزادی کے ناکام ہو جانے پر انگریز سامراج نے اپنا ہمہ جہتی تسلط قائم کر لیا۔ شرعی قوانین و حدود کو ختم کیا۔ انگریز اپنے ساتھ پادریوں کی ایک بڑی کھیپ بھی لائے تھے اور یونیورسٹی کے اسکالروں کی ایک بہت جماعت بھی، جس کا محبوب ترین مشغلہ اسلامی اصولوں کے خلاف نیش زنی، اور اسلامی عقائد و افکار پر اعتراضات، اور مسلمانوں کی شاندار طویل تاریخ کو جھوٹ اور پُرفریب تحقیق کے نام پر داغدار کرنا تھا۔ اس لیے ہندوستان کے باشندوں کے ذمہ دو کام تھے:

  1. ایک تو ملک کی آزادی کی جدوجہد، اس میں علماء اسلام نے ہم وطنوں کے ساتھ مل کر سیاسی طریقوں اور جدوجہد، اور جان و مال کی عظیم قربانیاں دے کر آخرکار ملک کو آزاد کروا لیا۔
  2. دوسرا اہم کام مسلمانوں کو اکیلے کرنا تھا، یعنی اسلام کے عقائد و افکار کے خلاف انگریزوں نے جس منظم طریقہ پر علم و ریسرچ کے نام پر جو اعتراضات کیے، اور پورے ملک میں مغربی تہذیب کو پھیلانے کا جو منظم پروگرام بنایا، اس کے خلاف محاذ بنانا۔

اس سلسلے میں علماء دیوبند و ندوہ اور دوسرے لوگوں نے بھی کام کیے۔ تاکہ مسلمانوں کے ذہن و دماغ سے مرعوبیت نکلے اور انگریزوں کے علمی مراجع کی بے ثباتی ظاہر ہو جائے۔ اس سلسلہ میں اللہ کی توفیق سے علامہ شبلی نعمانیؒ نے بڑا کارنامہ انجام دیا۔ انگریزوں کے مراجع کی غلطی، ان کے استدلال کی کمزوری، اور ان کے جھوٹ اور فریب کا پردہ چاک کیا۔ ان کے مضامین، ’’کتب خانہ اسکندریہ‘‘، ’’اورنگزیب عالمگیر‘‘، اور آخر میں ’’سیرۃ النبیؐ‘‘ نے تعلیم یافتہ طبقے سے انگریز مرعوبیت کو دور کیا۔ اس سلسلہ میں ہمارے محترم و مخلص دوست بھوپال کے مشہور عالم دین مولانا حبیب ریحان ندوی ازہری کا مقالہ ’’مغربی افکار کی یورش اور شبلیؒ کا کارنامہ‘‘ ملاحظہ کے قابل ہے جو ماہنامہ معارف اعظم گڑھ نومبر ۱۹۹۶ء میں چھپا تھا۔

جس سال مولانا علی میاںؒ کی پیدائش ہوئی اسی سال علامہ شبلیؒ کا وصال ہوا۔ جب مولانا سنِ شعور کو پہونچے تو شبلی کا شہرہ تھا اور ان کے علمی استدلال اور مستشرقین کے جوابات سامنے تھے۔ مولانا ندوہ میں تھے جہاں شبلی کے افکار اور تحریروں کا زور تھا، اور شبلی کے جانشین مولانا سید الملت سید سلیمان ندویؒ کی علمی تحقیقات کا لوہا مانا جاتا تھا۔ اسی وقت شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ شعر کی زبان میں مغربی تہذیب کے فاسد عناصر پر زبردست تنقید کر رہے تھے۔ مولانا علی میاںؒ کو شروع ہی سے علامہ اقبال سے قلبی لگاؤ تھا اور مغربی تہذیب کے مضر اثرات سے نفرت تھی۔ علامہ اقبال سے آپ کا غیر معمولی لگاؤ اور تاثر اس وجہ سے ہے کہ شاعرِ اسلام نے اسلامی نظریۂ حیات کی بہترین تشریح کر کے روحِ جہاد کو میدانِ عمل میں کامیابی کی کلید بتایا ہے، اور مغربی تہذیب کو غارت گر اقوام و اخلاق ثابت کیا ہے۔ قلبی و فکری ہم آہنگی ہی کی وجہ سے مولانا نے ’’روائع اقبال‘‘ کے نام سے اقبال کے کلام کا عربی ترجمہ کر کے عربی دنیا کو پہلی مرتبہ علامہ اقبال سے متعارف کرایا۔

اسی زمانہ میں بعض دوسرے دانشور و مفکرین بھی مغربی افکار اور بے راہ روی، الحاد، نسلی تفوق، جنسی انارکی پر نثر میں پُرزور تنقیدیں کر رہے تھے، اور اس کے بالمقابل اسلام اور اس کی شریعت و قانون پر کامل اعتماد کے ساتھ اس کی برتری پر مدلدل و ؟؟ دلائل پیش کیے جا رہے تھے۔ اور اسلامی نظامِ حیات سے متعلق کتابیں اور مضامین نشر ہو رہے تھے، اور مغربی تہذیب کے ایک ایک طلسم کو مضبوط استدلالی و منطقی پیرایہ میں توڑا جا رہا تھا۔ اور مدافعانہ و معذرت خواہانہ انداز کے بجائے جارحانہ اور ہجوی انداز میں مغربی تہذیب کے علمبرداروں سے اس کی ناکامی کے متعلق سوالات اور اعتراضات کیے جا رہے تھے، جس کے نتیجہ میں تعلیم یافتہ مسلمانوں کے دماغوں سے مغرب کا تفوق اور مرعوبیت کم ہو رہا تھا۔ قدرتی بات ہے کہ مولانا اپنے زمانہ کی اس قسم کی ساری ہی تحریرات سے متاثر ہوئے اور ان کو سراہا، کیونکہ وہ ان کے دل کی بات تھی۔

غلبۂ اسلام اور مغربی تہذیب

حضرت مولانا علی میاںؒ نے دعوتِ اسلام کی خوبیوں کو نشر کرنے اور صالح قیادت کے ماتحت خالص اسلامی قانون و شریعت پر مبنی نظامِ شریعت برپا کرنے کی بات اپنی سب سے پہلی تصنیف ’’سیرتِ سید احمد شہیدؒ‘‘ میں تفصیل سے لکھی ہے۔ اور راہِ خدا میں جہادِ نفس کو عظیم خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ مولانا علی میاںؒ نے مغربی تہذیب بلکہ تمام قدیم و جدید جاہلی تہذیبوں اور تمدنوں کی خامیوں پر اپنی مشہور کتاب ’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر‘‘ میں بحث کی ہے، اور مسلمانوں کے عالمی قیادت سے ہٹ جانے اور علمی و فوجی ترقی میں پیچھے رہ جانے کے تفصیلی اسباب بیان کیے ہیں، اور دنیائے انسانیت کو اس کی وجہ سے جو روحانی اور تہذیبی نقصانات اٹھانے پڑے ہیں، ان کو بیان کیا ہے۔

اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش

مولانا نے اپنی اہم کتاب ’’اسلامی ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش‘‘ میں، جو ۱۹۶۴ء میں لکھنؤ سے شائع ہوئی ہے، مغربی تہذیب و اقدار پر سخت تنقید کی ہے، اور ہندوستان و اسلامی ممالک میں مغربی تہذیب کی آمد اور رواج پذیر ہونے کی تفصیلی تاریخ اپنے مخصوص نقطۂ نظر سے بیان کی ہے۔ نیز ان اشخاص اور نقطہ ہائے نظر کی وضاحت بھی کی ہے جنہوں نے اس تہذیب کو درآمد کیا، اس کے پھیلانے میں پوری جدوجہد کی، ان پر مولانا نے بھرپور تنقید کی۔ اور ان مومنانہ کردار اشخاص اور تحریکوں کا بھی تذکرہ کیا جنہوں نے مغرب کے کھوکھلے مادی نظامِ زندگی کی ہلاکت خیزیوں کو بے نقاب کر کے اس کے بالمقابل اسلام کا دفاع کیا اور اسلام کے عادلانہ قانونِ حیات کی تفصیلات پیش کیں، اور ان کی طرف واپسی کی کوششیں کیں۔

مولانا نے مغربی نظامِ تعلیم، مغرب کے الحاد و لا دینی، جنسی انارکی اور جرائم کی داستان بھی بیان کی۔ اور مشرق و مغرب کی سرمایہ داری اور اشتراکیت کی پھیلائی ہوئی زہریلی بیماریوں کا علاج صرف اور صرف اسلام کی تعلیمات میں بتایا۔ اور یہ کہ مسلمان خیر امت ہے، اور امتِ دعوت ساری انسانیت کو سعادتِ دارین سے ہم کنار کرنے کے منصب پر فائز کی گئی ہے۔ مولانا کا نظریہ یہ ہے کہ پختہ عقیدے اور روح کی سرمستی اور اخلاص و جہد کے ساتھ مادی ترقی کے بہترین اور فائدہ مند اقدار سے استفادہ کے ساتھ انسانیت کی گاڑی صحیح طریقہ پر چل سکتی ہے۔

مولانا کی اکثر کتابوں اور کتابچوں، مضامین اور تقاریر کا مرکزی نقطۂ فکر مغربی تہذیب کی بے راہ روی پر شدید تنقید و تبصرہ اور اسلام پر کامل یقین و اعتماد کے ساتھ اس کی دعوت کو عام کرنا ہے۔

اب راقم قدرے تفصیل سے مولانا کی لیڈز یونیورسٹی میں ۲۶ جون ۱۹۶۹ء کو کی گئی تقریر کے اقتباس پیش کرے گا۔ برطانیہ کے اس سفر میں مولانا نے متعدد مقامات پر تقریریں کی تھیں، راقم کی سعادت ہے کہ راقم جسم و جان اور ہوش و گوش کے ساتھ ان تقریروں میں شریک رہا۔ اس تقریر کی قلمی تصویر راقم کے پاس ہے۔ لیکن چونکہ یہ مولانا کی کتاب ’’مغرب سے کچھ صاف صاف باتیں‘‘ میں کچھ حذف و اختصار کے ساتھ چھپ چکی ہے، اس لیے مناسب یہ ہے کہ اقتباس اسی سے لے لیے جائیں۔ یہ ایک جامع تقریر ہے جو مغربی تہذیب کی صحیح ترجمانی کرتی ہے، اور اسلام کی جامع تصویر پیش کرتی ہے۔ تقریر کے بہت سے عنوانات ہو سکتے ہیں، کتاب میں اس کا عنوان ہے ’’سیاسی آزادی لیکن تہذیبی غلامی‘‘۔

مشرق سے مغرب کا تعارف

مغرب کا مشرق سے تجارتی تعلق تو پرانا ہے، لیکن اصل تعلق اس وقت ہوا جب مغربی قوموں کے پاس جارحانہ فوجی طاقت ہوئی اور انہوں نے مشرقی ممالک کو تسخیر کرنا چاہا۔ خلافتِ عثمانیہ کے بعض مقامات پر مغربی طاقتیں بیڑہ ڈال چکی تھیں لیکن مولانائے مرحوم کے نزدیک یہ زیادہ قابل ذکر نہیں، بلکہ مغربی تہذیب کا اصل تعارف مولانا کی نظر میں اس طرح ہے:

’’مغربی تہذیب کا اصل تعارف اس وقت ہوا جب ہندوستان، مصر، اور ترکی براہ راست ایک عظیم مغربی قوم کے تسلط میں آئے۔ ہندوستان، مصر اور ترکی یہ تین ممالک ایسے تھے جو مختلف حیثیتوں سے نہ صرف دنیائے اسلام میں بلکہ اس وقت کی معاصر دنیا میں بڑی اہمیت رکھتے تھے۔

ہندوستان کی اہمیت یہ تھی کہ وہ ایک کثیر تعداد مسلمان قوم کا وطن تھا۔ مسلمان وہاں بڑی تعداد میں رہتے تھے اور بڑی شان و شوکت کے ساتھ صدیوں تک وہاں حکومت کر چکے تھے۔ انہوں نے اسلامی علوم میں بہت بڑا اضافہ کیا تھا۔ انہوں نے اپنی ذہانت، اپنے علم و فضل، اپنے علمی شغف اور اپنی صلاحیت کا مختلف میدانوں میں بڑا ثبوت دیا تھا۔ ۱۸۵۷ء میں جب باقاعدہ انگریزی حکومت کا اقتدار ہندوستان پر قائم ہو گیا، اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے بجائے وہاں پر منظم اور باقاعدہ حکومت قائم ہو گئی، تو یہ سمجھا جانے لگا کہ اب ہندوستان انگریزی اقتدار کے قبضہ میں رہے گا۔

مصر کی اہمیت یہ تھی کہ وہ عربی زبان، عربی علوم کا بہت بڑا مرکز تھا۔ وہاں جامع ازہر موجود تھا اور وہاں کے علماء، ادباء، شعراء اور وہاں کی کتابیں عالمِ اسلام میں بہت وقعت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں۔

ترکی کے متعلق بھی مجھے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں، وہ خلافت کا مرکز تھا اور بڑی حوصلہ مند، باصلاحیت اور جواں مرد قوم وہاں رہتی تھی جس نے دنیا کی تاریخ میں بہت بڑا کردار ادا کیا تھا۔

ان تینوں ملکوں کا جب مغربی تہذیب سے تعارف ہوا تو ان کے لیے ایک نیا تجربہ اور تاریخ کا ایک نیا موڑ تھا۔ اس کو آپ خوش قسمتی کہیے یا بدقسمتی، بلکہ شاید خوش قسمتی بھی تھی اور بدقسمتی بھی۔ بدقسمتی اس لحاظ سے کہ یہ تینوں ممالک قریب قریب ایک ہی وقت میں انگریزی اقتدار سے متاثر ہوئے۔ ہندوستان پر تو براہ راست انگریزوں کا قبضہ ہو گیا، اور مصر میں بھی انتداب کے نام سے اور قرض وصول کرنے کے عنوان سے انگریزوں نے اپنے نمائندے مسلط کر دیے۔ ترکی پر براہ راست اثر تو نہیں پڑا لیکن انگریزی سیاست کا یہ ملک بھی بڑا شکار ہوا۔ اس لیے حقیقت میں مشرق کا تعارف مغربی تہذیب سے اسی قوم کے ذریعے ہوا جس قوم کا یہ وطن ہے، جہاں آج ہم آپ جمع ہیں۔

آج مورخین اسی قوم کے متعلق یہ بات کہہ رہے ہیں کہ مشرق کو پہلا زخم اس سے لگا۔ اس کو اپنی پستی، اپنی پسماندگی اور سیاسی و فوجی کمزوری کا احساس اسی قوم کے ذریعے ہوا۔‘‘

یہ انیسویں صدی کے اوائل کا ذکر تھا، اس کے بعد مولانا نے مختصر بتایا کہ آزادی کی تحریکیں شروع ہوئیں، یہ ایک غیر فطری بات تھی کہ سات سمندر پار سے کوئی قوم آئے اور وسیع رقبے اور کثیر آبادی والے ملکوں پر ہمیشہ قابض رہے، اس لیے قدرتی طور پر یہ نظام ختم ہوا اور ملکوں کو جسمانی آزادی ملی۔

سیاسی آزادی، لیکن تہذیبی غلامی

مولانا اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:

’’ان ملکوں نے سیاسی آزادی تو حاصل کر لی ۔۔۔ لیکن اس تہذیب کی ذہنی، اخلاقی اور دماغی غلامی سے ابھی تک نجات نہیں حاصل ہوئی ۔۔۔ سیاسی آزادی حاصل کرنے کے بعد ذہنی غلامی اور علمی غلامی کی زنجیریں اور زیادہ مضبوط ہو گئیں۔ اس کے اسباب کیا تھے، یہ بحث طویل ہے ۔۔۔ یہ واقعہ ہے کہ جتنے ممالک آزاد ہوتے جا رہے ہیں وہ سیاسی طور پر تو آزاد ہو رہے ہیں لیکن ذہنی، فکری اور علمی طور پر زیادہ غلام ہوتے جا رہے ہیں۔ اور فکری، علمی، سیاسی اور اقتصادی حیثیت سے انہوں نے اپنے کو مغرب کا ایسا دست نگر بنا دیا ہے کہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اُس ملک میں اِس ملک کی رہنے والی قوم حکومت کر رہی ہے۔‘‘

راقم کا خیال ہے کہ یہ ایک فطری صورت حال ہوتی ہے کہ جب تک دشمن اپنی زمین پر رہتا ہے، اس سے نفرت ہوتی ہے۔ اور اگر اپنے عقائد، روحانی تصورات اور تہذیبی اقدار پر مکمل یقین و اعتماد نہ ہو، اور دانشمند دشمن نے اپنے تہذیبی ورثہ کو دل پسند اور مستحسن بنا کر پیش کیا ہو، تو اس کے جانے کے بعد اس کی دشمنی کا احساس ختم ہو جاتا ہے، اور مرعوبیت کی وجہ سے اس کی تقلید شروع ہو جاتی ہے۔ اور اس کی صنعتی و مادی و سائنسی ترقی کو دیکھتے ہوئے یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اس کی تہذیب و اخلاق بھی بلند ہو گا۔ یہ واقعہ ہے کہ انگریزی زبان، لباس اور مختلف تہذیبی مظاہر آج آزادی کے بعد کچھ زیادہ ہی رواج پذیر ہیں۔ اس کی وجہ مولانا کی نظر میں یہ ہے کہ ہم زندگی کے معیار اور دینی نظریات تک میں مغرب کے دست نگر ہیں۔ فرماتے ہیں:

’’اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہم علم مغرب سے لیتے ہیں، زندگی کا معیار مغرب سے لیتے ہیں، یہاں تک کہ ہم دینی نظریات اور دینی تحقیقات بھی مغرب سے لیتے ہیں۔ اس وقت علومِ اسلامیہ میں بھی انہی مغربی یونیورسٹیوں کی نظر دیکھی جاتی ہے۔ مستشرقین کا لوہا نہ صرف مغرب میں بلکہ مشرق میں بھی مانا جاتا ہے، اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ مستشرقین جو کہہ دیں وہ حرفِ آخر ہے اور اس پر تبصرہ کا کوئی جواز نہیں۔

یہ وہ صورت حال ہے جس سے اس وقت کوئی اسلامی ملک مستثنٰی نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ حقیقی آزادی کا فائدہ اٹھانے کا ان ملکوں اور قوموں کو ابھی تک موقع نہیں مل سکا۔ ان کے دماغوں پر مغرب کے تفوق، مغرب کے نظریات، اور زندگی کے مغربی نقطۂ نظر کا اتنا بڑا بوجھ رکھا ہوا ہے کہ اس بوجھ کے نیچے یہ قومیں دبی بلکہ کچلی جا رہی ہیں۔ بعض ایسے بھی خوش قسمت ملک ہیں کہ وہاں کی کل آبادی مسلمان ہے، لیکن انہوں نے ابھی تک زندگی کا کوئی ایسا نقشہ نہیں بنایا جو ان کے معتقدات اور ان کی مسلّمات (یعنی جن چیزوں کو وہ تسلیم کرتے ہیں اور طے شدہ عقیدہ سمجھتے ہیں اس) کے وہ مطابق ہو۔ وہ ایسے ذہنی انتشار میں مبتلا ہیں جس کا نتیجہ سوائے کمزوری اور پراگندگی اور سوائے بے اعتمادی اور کشمکش کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔‘‘

فاسد قیادت

تعلیمی نظام کے مغربی اور مادی نہج کی وجہ سے تعلیم یافتہ اور قیادت کرنے والا طبقہ ملک کے سیاسی تخت پر متمکن ہو کر مغربی نظریات کی سرپرستی اور توسیع کا کام کرتا ہے، اور اسلامی اقدار اور ناموس شریعت کے تحفظ سے دست کش ہو جاتا ہے، اور سیدھے سادے مسلم عوام کو گمراہ کرتا ہے، حضرت مولانا مرحوم کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیے:

’’ایک بڑی کشمکش ان ملکوں میں یہ برپا ہے کہ ان ملکوں کی زمامِ قیادت یعنی ان کی باگ دوڑ جن کے ہاتھ میں ہے وہ مغربی نظریات پر پورا پورا عقیدہ رکھتے ہیں۔ گو ان کا نام مسلمانوں کا ہے، ان کی رگوں میں مسلمانوں کا خون ہے، وہ بہت اچھے قابل فخر خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان کو اسلام سے انکار بھی نہیں، لیکن ان کا ذہن، ان کا عقیدہ بالکل مغربی سانچہ میں ڈھلا ہوا ہے۔

اور جن قوموں سے ان کا واسطہ ہے ان کی بدقسمتی کہیے یا خوش قسمتی کہ وہ قومیں سیدھی سادی مسلمان ہیں، وہ اللہ و رسول پر عقیدہ رکھتی ہیں، ان کو یہ یقین ہے کہ مرنے کے بعد ایک زندگی آنے والی ہے، وہاں جنت دوزخ ہے، وہاں ہر عمل کا حساب دینا ہو گا، یہاں کا عیش بھی فانی، یہاں کی راحت بھی فانی اور یہاں کی تکلیف بھی فانی ہے۔ ان کے سامنے وہ مقاصد ہیں جو مادی مقاصد سے بالاتر ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ صرف کھا پی لینا اور صرف اچھی مُرفّہ الحال اور آسودہ زندگی گزار لینا منزلِ مقصود نہیں۔ بلکہ اچھا انسان بننا، خدا سے ڈرنا، نیکی اختیار کرنا، برائی سے بچنا اور صاف ستھری پاکیزہ زندگی اختیار کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور شریعت کے مطابق عمل کرنا، ان کے اسوہ اور نمونہ پر چلنا، انسانیت کی خدمت کرنا، ساری دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچانا، انسانیت جن مشکلات سے دوچار ہے اس میں اس کی مدد کرنا، وہ اصل کام ہے جو ایک مسلمان کے شایانِ شان ہے۔

لیکن جن لوگوں کے ہاتھ میں حکومت کی باگ دوڑ ہے، وہ زندگی کا بالکل ایک دوسرا نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ بہت سی اسلامی حقیقتوں پر سے متزلزل ہو چکا ہے۔ ان کو بہت سی چیزوں میں شک ہے۔ یہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں (کہ) اس کے پیچھے کوئی اور دنیا ہے، اس شہود کے پیچھے کوئی غیب ہے، اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی ہے، اور ان چیزوں کے علاوہ جن سے آدمی کو لذت و عزت حاصل ہو رہی ہے کچھ اور حقیقتیں ہیں، جن سے آدمی کو لذت حاصل ہو سکتی ہے، جن سے اس کو سکون اور خوشی حاصل ہو سکتی ہے۔ اس قسم کی کوئی چیز ان کے سامنے نہیں۔‘‘

صحیح رہنمائی اور ایمان کی طاقت

اگر عالمِ اسلام کو مومنانہ قیادت نصیب ہو جائے جو عوام الناس کی صحیح رہنمائی کرے، ان کی خفتہ قوتوں کو بیدار کر دے، اور ان میں ایمان کا جذبہ اور اس کی ناقابل تسخیر صلاحیت بیدار کر دے تو ان ملکوں کا نقشہ بدل جائے۔ مولانا فرماتے ہیں:

’’ہماری مشرقی قومیں وہ ہیں کہ اگر ان کو صحیح قیادت مل جائے اور صحیح رہنما میسر آجائیں جو ان کی اندرونی صلاحیتوں سے واقف ہوں، ان کے اندر خدا نے جو ناقابل تسخیر طاقتیں رکھی ہیں، ان کے اندر زندگی کا جو جوش ہے، قربانی کا جو جذبہ ہے، ایثار کا جو مادہ ہے، جس چیز کو یہ صحیح سمجھ لیں اس پر مٹ جانے کی جو صلاحیت ہے، اگر ہمارے ان ممالک کے رہنما ان کی ان مخفی اور پوشیدہ طاقتوں سے واقف ہو جائیں، اور وہ اس سے باخبر ہوں کہ ان قوموں کا مزاج کیا ہے؟ ان کا خمیر کیا ہے؟ تو یہ اتنی بڑی طاقت بن سکتی ہے کہ اس طاقت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔

ان مشرقی ممالک میں اگر کوئی طاقت ہے تو وہ ایمان کی طاقت ہے، وہ طاقت اس بات کی ہے کہ خدا کا نام لے کر ان سے بڑے سے بڑا کام لیا جا سکتا ہے۔ خدا کے نام میں اب بھی ان کے لیے اتنی کشش ہے کہ یہ قومیں اس پر اپنی جان، اپنی اولاد، اپنا گھربار سب کچھ قربان کر سکتی ہیں۔ خدا کے نام میں، شہادت میں، جہاد کے لفظ میں، اسلام کی خدمت کے نعرہ میں، ان کے اندر اتنی کشش ہے اور ایسی مقناطیسی طاقت ہے کہ اس موقع پر ان کو اپنا ہوش باقی نہیں رہ سکتا اور اس وقت ان کا مقابلہ آسان نہیں ہوتا۔ لیکن افسوس ہے کہ جو لوگ ان یونیورسٹیوں سے تیار ہو کر جاتے ہیں، وہ سب سے واقف ہوتے ہیں لیکن خود اپنی قوموں کی صلاحیتوں سے واقف نہیں ہوتے۔‘‘

جدید علوم کا حصول ضروری ہے

علم انسانی زندگی کی طرح نمونہ پذیر چیز ہے۔ علم میں کوئی تعصب یا گروہ بندی نہیں۔ ہر مفید علم کے حصول کی کتاب و سنت نے ترغیب دی۔ ہمارے اسلاف عظام نے تمام جدید سے جدید تر علوم حاصل کیے۔ مولانا نے یورپ میں موجود طلباء کو علمی قابلیت پیدا کرنے پر ابھارا لیکن یہ نصیحت بھی کی کہ مقصد اور وسائل کے فرق کو نہ بھولیں۔ مولانا فرماتے ہیں:

’’میں ہرگز یہ پوزیشن اپنے لیے قبول نہیں کر سکتا کہ میں جدید علوم کی مخالفت کروں۔ آپ کو ان یونیورسٹیوں سے زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرنا چاہیے۔ بلکہ ہم تو آپ کو آپ کے والدین کو مبارکباد دیں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے مسلمان نوجوان کو جدید عمل میں بڑے سے بڑے مرتبہ حاصل کرنا چاہیے۔ ان میں اتھارٹی بننا چاہیے اور بڑے محقق کا درجہ حاصل کرنا چاہیے۔ یہ موجودہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

لیکن میرے عزیز اور دوستو! آپ جانتے ہیں کہ مقصد اور وسیلہ میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ میری یہ چھڑی بڑی کارآمد چیز ہے، میں اس سے ٹیک لگاتا ہوں، یہ مجھے سہارا دیتی ہے، میں اس سے مدافعت بھی کر سکتا ہوں۔ مگر چھڑی بجائے خود مقصد نہیں، اگر اس سے بہتر چیز مجھے ملے یا میں اس سے بے نیاز ہو سکوں تو میں خودبخود اس کو چھوڑ دوں گا۔ ایک زمانہ میں اس سے ہتھیار کا کام لیا جاتا تھا، لیکن اس سے زیادہ کارگر اور مؤثر ہتھیار ایجاد ہوئے تو لوگوں نے اسے چھوڑ کر بندوق لے لی۔ اس لیے یہ جدید اور قدیم علم کی تقسیم بالکل غلط ہے، علم ہمیشہ تازہ ہی ہوتا ہے، وہ جس کو آپ قدیم کہہ رہے ہیں اپنے زمانہ میں بالکل جدید تھا۔ اور جسے آپ جدید کہہ رہے ہیں، بالکل ممکن ہے وہ پچاس برس بعد ایسا قدیم ہو جائے کہ اس کا نام لینا بھی بڑے عیب اور شرم کی بات ہو جائے۔ آپ زبانوں میں مہارت پیدا کریں، علوم میں کمال پیدا کریں۔ یہاں کے جتنے شعبے ہیں، کیمسٹری سے لے کر انجینئری تک، اور آرٹ، تاریخ، فلسفہ اور نفسیات سب میں بہت شوق سے آپ کمال پیدا کریں، لیکن آپ اس کو ایک ذریعہ سمجھیں۔‘‘

علم کا مقصد اور فائدے

علم کا مقصد و غایت یہ ہونا چاہیے کہ دنیاوی و اخروی نجات اور سعادت حاصل ہو۔ انسانیت کی فتح ہو، ظلمتوں کا پردہ چاک ہو، ظلم و نا انصافی دور ہو، ہر چہار سو روشنی پھیلے، اور سکون کی دولت سے دل بہرہ مند ہو۔ لیکن جدید تعلیم اور مادی و صنعتی اور صرف دنیاوی فلاح پر قائم مغربی سوسائٹی آج مادی فلاح اور سکون سے بھی محروم ہے، کیونکہ خدا، کائنات اور انسان کی ہستی سے بے خبر ہیں۔ اس سلسلہ میں مولانا فرماتے ہیں:

’’اصلی اور بنیادی حقیقت یہ ہے کہ انسان کیا ہے؟ اور انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ انسان کس طرح زندگی گزار سکتا ہے؟ اس معاملہ میں یہ قومیں بالکل مفلس ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج یہ تمام فتوحات بچوں کا کھیل بن کر رہ گئیں۔ مغربی تہذیب ایک ڈرامہ کھیل رہی ہے۔ جیسے شکسپیئر کے ڈرامے ہوتے تھے، ہم اور آپ تماشائی ہیں، دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ واہ واہ کیا ہوا میں اڑے اور کیا پانی پر چلے۔ لیکن ہوا کیا؟ انسان نے کتنی ترقی کی؟ دنیا میں امن کتنا پھیلا؟ محبت اور بھائی چارہ کتنا عام ہوا؟ انسان ایک دوسرے سے کتنا قریب ہوا؟ انسان نے انسان کو کتنا پہچانا؟ دل کتنے روشن ہوئے؟ قلب کو سکون کتنا حاصل ہوا؟ انسان کو اپنی منزل کا کتنا پتہ چلا؟

انسان کے اخلاق درست ہوئے یا نہیں؟ اس کے اندر جو خراب اخلاق تھے، دوسروں کو پھاڑنا اپنے بچوں کو پالنا، دوسرے کے گھروں کو لوٹ کر اپنے گھروں کو بھرنا، دوسروں کی جیب کاٹ کر اپنی جیب بھرنا، دوسروں کو ذلیل اور غلام بنا کر خوش ہونا اور اپنی فتح کے جھنڈے اڑانا، اس میں کتنی کمی آئی؟ ان قوموں نے اس دنیا کو منڈی سمجھ لیا ہے یا اقبال کے الفاظ میں ایک قمار خانہ اور جوا خانہ سمجھ لیا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں پہلی اور دوسری دو عظیم جنگیں ہوئیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ آخر اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ ان ساری فتوحات سے انسانیت کو کیا حاصل ہوا؟ کیا دنیا کو امن و سکون حاصل ہوا؟ اور انسان نے اپنے حقیقی مقصد میں کتنی کامیابی حاصل کی؟

آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ قوموں کی باہمی عداوتیں کم نہیں ہوئیں بلکہ ایسی شدید نا انصافیاں ہو رہی ہیں جسے کہتے ہیں ہاتھی نگل جانا۔ ایک فلسطین کا مسئلہ لے لیجئے، زبردستی ترقی یافتہ قوموں نے اس سرزمین کے اصلی رہنے والوں کو جلا وطن کر کے ایک ایسی قوم کو وہاں لا کر بسایا اور قومی وطن بنانے کا موقع دیا جو سینکڑوں نہیں ہزاروں برس سے اس ملک سے باہر ٹھوکریں کھا رہی تھی۔‘‘

انسانیت کو نجات دینے والی امت

قدیم تاریخ شاہد ہے کہ امتِ اسلامیہ نے انسانیت کی ڈوبتی کشتی کو ساحلِ مراد سے ہمکنار کیا تھا۔ آج بھی یہ امت اور اس کے صالح افراد قرآن و سنت کے پیغام برحق کے ذریعے انسانیت کے نجات دہندہ بن سکتے ہیں۔ مولانا مرحوم نے حاضرین کو اس طرح عزم و حوصلہ اور ہمت کا سبق دیتے ہوئے فرمایا:

’’آپ اس قوم کے فرد ہیں جس نے ایک زمانہ میں عام دنیا کی قیادت کی ہے، جس نے انسانیت کی ڈوبتی کشتی کو ترایا ہے۔ میں کل ہی اپنے عرب دستوں سے کہہ رہا تھا کہ جس وقت انسانیت کی کشتی ڈوب گئی اور دلدل میں پھنس گئی اور کوئی اس کا نکالنے والا نہ تھا تو یہی امت ِمسلمہ اور یہی عرب جو سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے تھے، آگے بڑھے اور انہوں نے اس کشتی کو دلدل سے نکالا، اور آج ہم آپ اس کشتی میں بیٹھے ہوئے اپنا سفر طے کر رہے ہیں۔ اب مشرقی قوموں کی پست ہمتی کہ ہم نے علوم کے میدان میں ترقی نہیں کی، اس کے برخلاف یورپ نے اس میں خاطر خواہ فتوحات حاصل کیں۔ یہ ہماری بدقسمتی تھی ورنہ اصل میں دنیا کی رہنمائی اور دنیا کی اتالیقی اور نگرانی ہمارے سپرد تھی، اور میں دعوٰی کے ساتھ آپ سے کہتا ہوں کہ آج بھی صرف مسلمان ہی اس قابل ہیں کہ وہ دنیا کی رہنمائی کریں۔‘‘

یورپ سے علوم سیکھئیے لیکن انہیں حقائقِ زندگی سکھائیے

مولانا نے تقریر کے اخیر میں ایک عنوان اس طرح باندھا ہے ’’اگر ہم یورپ سے کچھ لے سکتے ہیں تو اس سے بہتر دے بھی سکتے ہیں‘‘۔ اور واقعہ یہ ہے کہ یورپ نے جو مادی و صنعتی اور سائنسی ترقی کی ہے اس سے استفادہ کرنا اور اسے سیکھنا یقیناً ضروری ہے، لیکن ہمارے بعض نوجوان ان علوم کے ساتھ ہر کس و ناکس کی اطوار و عادات، خصلتیں اور تہذیب و تمدن کو اختیار کر لیتے ہیں۔ اسلام میں ہمیں اس کی اجازت نہیں، زندگی کا نصب العین اور دنیا و آخرت کے یقینی حقائق ہمارے پاس ہیں۔ اس لیے درآمد برآمد کے اصول کے تحت ہم یہ روحانی سکون اور دنیا و آخرت کی فلاح کے ضامن حقائق ہمیں دوسروں کو سکھانا ہو گا۔ اس سلسلہ میں مولانا فرماتے ہیں:

’’آپ جن قوموں سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا ایک معیار، ایک مقصدِ زندگی ہے، کچھ عقائد ہیں، ان کے سامنے ایک منزل ہے۔ وہ اس مغربی تہذیب پر کبھی مطمئن نہیں ہو سکتے۔ بے شک آپ اہلِ مغرب سے علوم حاصل کیجئے ۔۔۔ اسلامی علوم کے بارے میں بھی آپ ان کے نظریات معلوم کیجئے، اس سے بھی آپ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن آپ یہ نہ سمجھئے یہ امام برحق ہیں اور آخری مثال ہیں اور دنیا ان کی رہنمائی کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اور مشرق کی جاہل، نیم وحشی اور پسماندہ اقوام کے لیے یہ فرشتہ رحمت ہیں، انہوں نے ہم کو سکھایا اور آدمی بنایا۔ اگر آپ ایسا سمجھیں گے تو آپ سے بڑھ کر آپ کا اپنے اوپر، اور جن سے آپ کا انتساب ہے، کوئی ظلم اور قوموں اور اپنی تاریخ کے ساتھ اس سے بڑی کوئی نا انصافی نہ ہو گی۔

آپ بے شک ان سے وہ چیزیں لیجئے جو آپ کو وہاں نہیں مل سکیں گی، لیکن آپ یہاں رہتے ہوئے بھی یہ سمجھئے کہ یہ بہت سی چیزوں میں کھوکھلے ہیں، اور جیسے ہم ان سے بہت سی چیزیں سیکھ سکتے ہیں، یہ بھی ہم سے بہت سی چیزیں سیکھ سکتے ہیں۔ جو چیزیں ہم ان کو سکھاتے ہیں وہ زیادہ قیمتی اور اہم ہیں۔ اور جو چیزیں ہم ان سے سیکھتے ہیں وہ بہت غیر اہم اور حقیر ہیں۔ لیکن میں اس موقع پر اتنا ضرور کہوں گا کہ دو چیزیں ہم ان سے سیکھ سکتے ہیں، تو دو چیزیں ہم ان کو سکھا بھی سکتے ہیں۔ اور یہ بھی میں بہت نیچے اتر کر کہہ رہا ہوں، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ دو چیزیں ہم ان سے سیکھ سکتے ہیں تو چار چیزیں ہم ان کو سکھا بھی سکتے ہیں۔ اس لیے کہ آپ جو اُن کو دے سکتے ہیں اس سے ان کی زندگی یہاں بھی کامیاب ہو سکتی ہے اور آخرت میں بھی کامیاب ہو سکتی ہے (اس پر ہمارا عقیدہ ہے، اور عیسائیوں کا بھی عقیدہ ہے)۔ اور یہ جو ہم کو دے رہے ہیں، اگر یہ نہ ملے تو زیادہ سے زیادہ ہمارا سفر ذرا دیر میں طے ہو گا، ہم کو تھوڑی دقتیں ہوں گی، ہمارا وقت ذرا زیادہ صرف ہو گا۔  یہ حاصل ہے ان کے دین کا اور وہ نتیجہ ہے ہمارے دین کا۔ اب آپ ہی انصاف کیجئے کہ ہماری دین بڑھی ہوئی ہے یا ان کی؟‘‘

یورپ جانے والوں سے مطالبہ

مولانا علی میاںؒ نے ۱۹۶۱ء میں ایک مضمون اسلامک سنٹر جنیوا کی فرمائش پر لکھا جو عربی رسالہ ’’المسلمون‘‘ میں چھپا تھا، جس میں اسلام کے عالمگیر امتیازات بتانے کے بعد مسلمان نوجوانوں سے مولانا نے تین مطالبے کیے تھے۔ مختصر طور پر ہم ان کو یہاں نقل کرتے ہیں تاکہ یورپ و امریکہ وغیرہ ممالک میں رہنے والے اور مغربی تہذیب میں پلنے والے ان سے فائدہ اٹھائیں:

  1. آپ اسلام کا ازسرنو مطالعہ کریں۔ اور ان خصوصیات اور اس کے روشن امتیازات کی روشنی میں ۔۔۔ آپ نئے طرز، نئے انداز اور جدید خطوط پر اسلام کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس کے مطالعہ میں اپنی سنجیدہ فکر کا استعمال کریں ۔۔۔ آپ قرآن مجید پڑھیں کہ وہ کوئی قدیم آسمانی کتاب نہیں بلکہ اس دور کے لیے نازل ہوئی ہے اور آپ ہی اس کے مخاطب ہیں۔ آپ سیرت نبویؐ اور حدیث شریف کے مطالعہ میں اپنا قیمتی وقت صرف کریں۔ اور صاحبِ سیرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شخصی محبت اور ذاتی تعلق پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ یہ تعلق مطالعہ، تحقیق، محبت، جذبات، تکریم و تعظیم اور اتباع و تقلید کی پاکیزہ بنیادوں پر قائم ہو۔
  2. اس کے بعد آپ پر فرضِ عین ہے کہ آپ یورپ میں اسلام کی صحیح نمائندگی کریں، اسلامی عقائد کا اظہار پوری جرأت سے کریں اور اس کی صحیح تصویر پیش کریں۔ اسلام کے دیے ہوئے فرائض، اخلاق اور شعائر کی حفاظت کریں۔ آپ ایسے دین کے نمائندے ہیں جو خیر الادیان اور موجودہ معاشرہ اور تہذیب کے لیے موزوں ہے اور اسے آپ کی ضرورت ہے۔
  3. آپ کو اپنے دوستوں اور ہم عمر مسلمان نوجوانوں کو، جو اسلام کی نمائندگی میں شرم محسوس کرتے ہیں، ان کے سامنے اس کی شکل اچھی پیش کرنا ہے۔ اسلامی ملکوں ۔۔۔ عربی مراکز کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے نوجوان جو اسلام کے اظہار سے کنارہ کش رہتے ہیں، ان کے لیے ایک اچھی مثال قائم کرنا ہے، اور اس کے لیے یقیناً آپ کے واسطے ایک مستقل اور مسلسل اجر کا وعدہ ہے۔ اس پاکیزہ اسلامی زندگی کے ساتھ، جو صلاح و تقویٰ، صدق و امانت، ذکر و عبادت، رضا و قناعت، نشاط و قوت، روحانی بالیدگی اور پُرکیف جذبات سے معمور ہے، آپ اپنے دوست و احباب، اساتذہ اور پاس پڑوس کے رہنے والوں کو اسلام کی طرف کھینچ سکتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس طریقہ پر اسلام نے سینکڑوں دانشمندوں کو اپنی گود میں پناہ دی ہے، اور بغیر کسی لشکر کے، فوج کشی اور مجاہد کی تلوار کی جنبش کے، ملکوں اور قوموں نے اس سرمایۂ حیات کو سینے سے لگایا ہے۔ آپ ان حالات میں اپنی اہمیت اور قیمت کو محسوس کریں اور اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اس کے حقوق کو پورا کریں۔‘‘

مضمون ختم کرنے سے پہلے راقم مرحوم کی ایک تقریر جو ۲۸ جون ۱۹۶۹ء میں شیفیلڈ کے تبلیغی اجتماع میں کی ہے، سے چند باتیں پیش کرنا چاہے گا۔ یہ تقریر راقم کے پاس تحریری شکل میں موجود ہے، کہیں چھپی ہے یا نہیں مجھے اس کا علم نہیں۔ مولانا نے تقریر آیتِ کریمہ ’’ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ‘‘ کے تحت فرمائی اور دین کی خدمت و نصرت و تبلیغ سے کنارہ کش کو ہلاکت سے تعبیر کرتے ہوئے ناصحانہ انداز میں ارشاد فرمایا:

’’دوستو! اللہ تعالیٰ نے آپ حضرات کو اس سرزمین پر پہنچایا ہے، اب میں آپ کو صاف کہتا ہوں کہ آپ کے لیے خودکشی کیا ہے؟ اور آپ کے لیے اپنے اوپر احسان کیا ہے؟ آپ کے لیے تنزل کا راستہ کیا ہے؟ اور ترقی کا راستہ کیا ہے؟ ہلاکت اور خطرہ کا راستہ کیا ہے؟ اور حفاظت و ضمانت کا راستہ کیا ہے؟

اگر آپ یہاں صرف کاروبار اور پیسہ کمانے میں مشغول رہے اور آپ کی ساری تگ و دو اسی پر صرف ہو گئی تو آپ یاد رکھیئے یہ ایک اجتماعی اور عمومی خودکشی ہو گی جو قوموں کے لیے بہت خطرناک ہوتی ہے ۔۔۔ اگر آپ یہاں نہ آتے اور انگریز قرآن پاک و سیرتِ رسولؐ پڑھ کر اسلام کی طرف مائل ہوتے تو وہ سوچتے کہ یہ امت کیسی ہو گی۔ وہ تو بس مقدس انسان ہوں گے، ہر چیز میں نمونہ اور آئیڈیل ہوں گے، ان کی ہر چیز سیرتِ نبویؐ کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہو گی۔ فرض شناس، صادق الوعد اور صادق القول ہوں گے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا انہیں خیال ہو گا۔

اس لیے اگر آپ نے اسلامی زندگی کا اچھا نمونہ پیش نہ کیا، آپ کو اللہ کے احکام اور شریعت کے حلال و حرام کے معلوم کرنے کی فرصت نہ ہوئی، اپنی اصلاح کی فکر نہ ہوئی، اور دوسروں میں تبلیغِ دین کی فرصت نہ ہوئی، اپنی ہدایت اور جس ملک میں رہے رہے ہیں اس کے باشندوں کی ہدایت کی فکر نہ ہوئی، تو آپ کا بھی نقصان ہے اور انسانیت کی راہ راست تک رسائی نہ ہونے سے دنیا کا بھی بھاری نقصان ہے۔

آج الحمد للہ قدیم گرجے خرید کر ان میں مسجدیں بن رہی ہیں جن سے اللہ کا نام بلند ہو رہا ہے، ’’اشہد ان محمدًا رسول اللہ‘‘ کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں جو عقیدۂ تثلیث پر ضرب لگا رہی ہیں۔ یہاں تمہاری خصوصیت، قابلیت اور ضرورت اس لیے ہے کہ یہاں کی زندگی ہدایت کی پیاسی ہے۔ یہاں کی فضائیں اذانوں کی منتظر ہیں۔ تم یہ عہد کرو کہ ہم یہاں اسلام کو پھیلائیں گے، چمکائیں گے، اپنی زندگیوں سے بھی اور اپنی تبلیغی و دعوتی سرگرمیوں سے بھی۔ تو اللہ تعالیٰ تمہیں فتح و نصرت عطا کریں گے اور تمہاری اور آل اولاد اور تجارتوں کی بھی حفاظت کریں گے۔ تمہیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ تم اس سرزمین کے لیے مفید ہو، اس قوم کو تمہاری ضرورت ہے، تم اس کے معالج ہو، اس کو ہدایت کا راستہ بتانے والے ہو۔  خدا ہمارے قلوب کو ہدایت کی طرف موڑے اور ہم سے اپنے دین کی حفاظت کا کام لے  (آمین)۔ ‘‘


شخصیات

(اکتوبر ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter