گلوبلائزیشن اور لوکلائزیشن کے پروگرام کا شرعی جائزہ

ادارہ

سوال

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

جناب مفتیان کرام دامت برکاتکم و اطال اللہ بقاء کم!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیانِ شرعِ متین اس پیچیدہ مسئلہ میں کہ مستقبل قریب میں جو بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں وہ اکیسویں صدی میں مغربی غلبہ کا ایک ذریعہ ہے، اس کے ذریعے پاکستانی ریاست جو کہ اسلام کا قلعہ ہے، اس کو کمزور کر کے اس کو مغربی استعمار کے نرغہ میں دینے کا منصوبہ ہے، استعمار کے پاکستان میں غلبہ کے تین منصوبے ہیں: (۱) گلوبلائزیشن (۲) لوکلائزیشن (۳) شہری حکومتوں کا قیام-

(۱) گلوبلائزیشن کیا ہے؟

گلوبلائزیشن کا مقصد اعلیٰ سیاست سے مرکزی حکومت کی دستبرداری اور اس اعلیٰ سیاست کو امریکی استعمار اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں (آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک) اور بین الاقوامی کمپنیوں (سٹی بینک وغیرہ) کے سپرد کر دینا ہے۔ پاکستانی تناظر میں اگر اس کو دیکھیں تو پاکستانی ریاست خارجہ پالیسی، اقتصادی پالیسی، دفاعی پالیسی کی تشکیل سے دستبردار ہو کر ان کو امریکی استعمار اور ان کے گماشتوں کے حوالے کر دے گی، اس طرح پاکستانی ریاست ایک مجبور، لاچار، لاغر اور بے بس ریاست بن کر استعمار کی باج گزار ریاست بن جائے گی۔

(۲) لوکلائزیشن کیا ہے؟

لوکلائزیشن کا مطلب یہ ہے کہ مرکزی حکومت خدمات کی فراہمی کے عمل سے دستبردار ہو جائے اور اس کی ذمہ داری ضلعی اور تحصیلی سطح پر مقامی حکومتوں کو منتقل کر دی جائے۔ ان مقامی حکومتوں کو چلانے کی ذمہ داری محض منتخب نمائندوں کی نہ ہو بلکہ ورلڈ بینک کی ڈیویلپمنٹ رپورٹ برائے ۲۰۰۰ء و ۲۰۰۱ء کے مطابق اس میں پرائیویٹ سیکٹر، این جی اوز اور دیگر سیکولر عناصر مدبرین اور ماہرین شامل ہیں۔ اسی طرح غیر مسلموں کے لیے بھی کافی تعداد میں نشستیں رکھی گئی ہیں۔

دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ مقامی حکومتیں ان خدمات کو بطور خدمت نہیں بلکہ منافع کے حصول کے لیے انجام دیں۔ گویا مقامی حکومتیں منافع کے حصول کے لیے کمپنیاں بن جائیں اور ان کی خدمت کا سارا نظام پرائیویٹ کر دیا جائے اور اس کے بڑے خریدار ملٹی نیشنل کمپنیاں ہوں گی اور سود اور سٹہ کو عام کر دیا جائے گا۔

(۳) شہری حکومتوں کا قیام

گلوبلائزیشن اور لوکلائزیشن کا حتمی ہدف سنگاپور اور ہانگ کانگ کے طرز کے شہری حکومتوں کا قیام ہے۔ یہ شہری حکومتیں کم اور منافع کے حصول میں تگ و دو کرنے والی کمپنیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ اور ان کے شہری، شہری کم اور خریدار زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ پاکستان کے بڑے شہروں کراچی، لاہور، حیدر آباد، پشاور کو مضبوط پاکستان کا دل و جگر نہیں رہنے دیں گے، جو جہاد کشمیر اور جہاد افغانستان کے لیے اور استعمار کے خلاف جدوجہد کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکیں، بلکہ یہ ایسی کمپنیاں بن جائیں گی جو اپنے منافع اور غرض کو ملحوظ خاطر رکھ کر اس کی گلوبلائزیشن اور لوکلائزیشن کے لیے موجودہ حکومت بلدیاتی اور ضلعی انتخابات کا کھیل رچانا چاہتی ہے، جس کے خدوخال جنرل صاحب نے یوں وضع کیے ہیں:

  • ریاستی اقتدار کو چار سطحوں پر تقسیم کیا جائے گا: وفاق، صوبہ، ڈسٹرکٹ اور یونین کونسل۔
  • رائے دہندگان کی عمر ۲۱ سے ۱۸ سال کر دی جائے۔
  • وفاق اور صوبوں کے اختیارات کم کر دیے جائیں گے۔
  • ہر ڈسٹرکٹ اسمبلی میں دو غیر مسلم ممبر ہوں گے۔
  • ہر ڈسٹرکٹ اسمبلی اپنی علیحدہ مانیٹرنگ کمیٹی تشکیل دے گی تاکہ عوام حکومتی عمل میں شامل کیے جا سکیں، وغیرہ وغیرہ۔

مذکورہ عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے، نیز اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ جمعیت علماء اسلام نے ان انتخابات کے بائیکاٹ کے اعلان کا ارادہ کیا ہے، یہ بتائیں کہ ہونے والے انتخابات کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ نیز اہلیانِ پاکستان کے لیے عموماً اور دینی جماعتوں اور علماء کرام کے لیے خصوصاً ان انتخابات میں حصہ لینا کیسا ہے؟ نیز موجودہ حالات میں اس انتخابات کے لیے عوام اور علماء کرام کے لیے کیا ذمہ داریاں ہیں؟

براہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں مجموعی نظام کو دیکھتے ہوئے شرعی حکم واضح فرمائیں تاکہ اہلیانِ پاکستان اس سے رہنمائی حاصل کر سکیں۔

واجرکم علی اللہ

المستفتی: محمد جاوید اکبر انصاری، کراچی


الجواب و منہ الصدق والصواب

واضح رہے کہ دشمنانِ اسلام ہر زمانہ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف، اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے کئی تدبیریں کرتے رہے ہیں۔ شروع میں مسلمانوں کو بزور طاقت مٹانے کی کوشش کی، اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔ پھر اسلامی عقائد و تعلیمات میں شبہات پیدا کر کے اسلام کو مٹانے کی کوشش کی، اس میں بھی ان کو ذلت و رسوائی اور خفت اٹھانی پڑی۔ تو دشمنانِ اسلام نے اسلام اور مسلمانوں پر وار کرنے کا طریقہ کار تبدیل کر دیا ہے۔ اب موجودہ دور میں انسانی حقوق کی علمبرداری اور حقوقِ نسواں کے تحفظ کی تحریکوں کے ذریعے سے مسلمانوں میں بے راہ روی اور دین سے بیزاری کا طریقہ اپنایا گیا۔ اس میں کسی حد تک کامیابی حاصل کرنے کے بعد مکمل کامیابی حاصل کرنے کے لیے نظامِ حکومت کی تبدیلی اور معاشی پالیسیوں کی تبدیلی کے ذریعے مسلمان حکومتوں اور مسلم عوام کو خوشنما نعروں کے فریب میں اپنی غلامی کے شکنجے میں جکڑنے کی تدبیریں تیار کی جا چکی ہیں۔ اور ہمارے دینی غیرت سے عاری حکمران ظاہری چمک دمک سے متاثر ہو کر بے وقوف مکھی کی طرح مکڑی کے جال میں پھنستے جا رہے ہیں۔

مسلمان عوام اور مسلمان حکومتوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ غیر مسلم عوام اور حکومتوں کے ساتھ محبت کے تعلق اور میل جول رکھیں، اور ان کے ساتھ مسلمان عوام اور مسلمان حکومتوں کے بالمقابل معاملات میں ترجیحی سلوک کریں، اور ان کی طرز زندگی اور طرز حکومت کو اپنائیں۔ ایسا کرنا ان کے دین اور دنیا دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کے ساتھ تعلقات کے بارے میں قرآن پاک میں واضح ہدایات دی ہیں۔ قرآن پاک کی چند آیات پیشِ خدمت ہیں:

(۱) ترجمہ: اے ایمان والو! مت بناؤ یہود اور نصاریٰ کو دوست، وہ آپس میں دوست ہیں ایک دوسرے کے، اور جو کوئی تم (میں) سے دوستی کرے ان سے تو وہ انہی میں ہے، اللہ ہدایت نہیں دیتا ظالم لوگوں کو۔ (سورہ مائدہ پارہ ۶ آیت ۵۱)

(۲) ترجمہ: اے ایمان والو! مت بناؤ ان لوگوں کو جو ٹھہراتے ہیں تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل، وہ لوگ جو کتاب دیے گئے تم سے پہلے، اور نہ کافروں کو اپنا دوست، اور ڈرو اللہ سے اگر ہو تم ایمان والے۔ (سورہ مائدہ پارہ ۶ آیت ۵۷)

(۳) ترجمہ: اے ایمان والو! نہ بناؤ کسی کو صاحبِ خصوصیت اپنوں کے سوا، وہ کمی نہیں کرتے تمہاری خرابی میں۔ (سورہ آل عمران پارہ ۴ آیت ۱۱۸)

(۴) ترجمہ: اے ایمان والو! نہ بناؤ میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست، تم ان کو پیغام بھیجتے ہو دوستی کے اور وہ منکر ہوئے ہیں اس سے جو تمہارے پاس آیا سچا دین، نکالتے ہیں رسول کو اور تم کو اس بات پر کہ تم مانتے ہو اللہ کو جو رب ہے تمہارا۔ (سورہ ممتحنہ پارہ ۲۸ آیت ۱)

(۵) ترجمہ: اور مت جھکو ان کی طرف جو ظالم ہیں، پھر تم کو لگے گی آگ اور کوئی نہیں تمہارا اللہ کے سوا مددگار، پھر کہیں مدد نہ پاؤ گے۔ (سورہ ہود پارہ ۱۲ آیت ۱۱۳)

چند احادیث بھی ملاحظہ کریں:

(۱) ترجمہ: انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، قیامت کب ہے؟ آپؐ نے فرمایا، تو نے قیامت کے لیے کیا سامان کیا ہے؟ وہ بولا، اللہ اور اس کے رسول کی محبت۔ آپؐ نے فرمایا تو اس کے ساتھ ہو گا جس سے محبت رکھے۔ (مسلم شریف ص ۳۳۱ ج ۲)

(۲) ترجمہ: عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور بولا یا رسول اللہ! آپ کیا فرماتے ہیں اس شخص کے باب میں جو محبت رکھے ایک قوم سے اور اس قوم کے سے عمل نہ کرے۔ آپؐ نے فرمایا، آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے محبت کرے۔ (مسلم شریف ص ۲۳۳ ج ۲)

غیر مسلم استعمار مسلمان ملکوں کو اپنے شکنجے میں جکڑنے کے لیے نت نئی تدابیر اور اسکیمیں بروئے کار لاتے رہتے ہیں۔ انہی دشمنِ اسلام تدابیر و تجاویز میں سے طرز حکومت اور معاشی درستگی اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے منصوبے ہیں۔ ان میں سے زیادہ اہم تین منصوبے ہیں: (۱) گلوبلائزیشن (۲) لوکلائزیشن (۳) شہری حکومتوں کا قیام۔ اب ہم ان تینوں کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لیتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک میں کس قدر دینی و دنیوی نقصانات ہیں۔ ہر ایک منصوبہ ایک دوسرے سے بڑھ کر خوفناک نتائج لیے ہوئے ہیں۔

گلوبلائزیشن (عالمگیریت)

جس کا مفہوم یہ ہے کہ

(۱) تمام ممالک ایک جیسی پالیسی اپنائیں اور اس میں کسی کی اپنی علیحدہ پالیسی نہیں ہو گی۔ بظاہر اتحاد کی بات کی گئی ہے لیکن عملاً اس میں بڑے بڑے سرمایہ دار ملکوں کی مرضی اور منشا نافذ ہو گی۔ چھوٹے ملک اپنی خارجہ پالیسی، معاشی پالیسی سے دستبردار ہو کر اپنے آپ کو غیر مسلم بڑے ملکوں کے حوالے کر دیں گے۔

(۲) مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس کے کسی مسلمان ملک کے ساتھ خصوصی تعلق کا تصور یکدم ختم ہو جائے گا۔

(۳) کوئی اسلامی ملک اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کی ذمہ داری پوری نہیں کر سکے گا۔ جبکہ این جی اوز کے نام سے لوگوں کو عیسائی بنانے یا دیگر مذاہب اختیار کرنے کی ترغیبات پر کوئی روک ٹوک نہیں لگائی جا سکے گی۔

(۴) عالمگیریت کے نام سے آئندہ مکہ اور مدینہ کو کھلا شہر قرار دلوا کر اس میں یہودیوں، عیسائیوں کے داخلہ کا راستہ ہموار کر کے یہودیوں کے مدینہ پر قبضہ کے خواب کی تکمیل کی کوشش کرنا ہے۔

(۵) جبکہ حکومت تمام ملکی پالیسیوں میں آئی ایم ایف وغیرہ کی دست نگر بن کر خود لاچار بے بس ریاست بن کر رہ جائے گی۔

لوکلائزیشن

کسی بھی حکومت و سلطنت کی مضبوطی اس کی رفاہی اور سماجی خدمات اور عام رعایا کو زیادہ سے زیادہ مہیا کرنے پر ہوتا ہے۔ جس قدر حکومت کی طرف سے رعایا کی خدمت ہو گی اسی قدر اس کی جڑیں عوام کے اندر راسخ ہوں گی۔ لوکلائزیشن سے مرکزی حکومت خدمات کی انجام دہی سے دستبردار ہو کر مقامی حکومتوں کے سپرد کر دے گی، اور مقامی حکومتیں اس ذمہ داری سے عہدہ برآ نہ ہو سکیں گی۔ جس کی بنا پر یہ تمام خدمات کی فراہمی پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کی جائیں گی اور ان کی بڑی خریدار ملٹی نیشنل کمپنیاں ہوں گی جو خدمات کو تجارت کا ذریعہ بنائیں گی۔ اور مقامی حکومتوں کے نام سے انہی غیر مسلم دشمنِ اسلام کمپنیوں کی حکومت ہو گی، اور غیر مسلم یقیناً مسلمان اور اسلام کے خیرخواہ نہیں ہو سکتے۔ یہ کمپنیاں زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کے لیے عوام پر ناجائز بوجھ ڈال کر ان کو پریشان کیا جائے گا۔ اس تجارتی طریق کار سے آپس میں ایک دوسرے کو نفع رسانی، ہمدردی اور غمگساری کے جذبات کو ختم کر کے صرف دنیا کے مطمع نظر بنا کر انسانیت کا جنازہ نکال دیا جائے گا۔

شہری حکومتوں کا قیام

یہ منصوبہ بھی اپنے مجوزہ طریق کار کے مطابق بے شمار دینی اور دنیاوی نقصانات سے لبریز ہے۔ چند نقصانات کا تذکرہ کیا جاتا ہے:

(۱) شہری حکومتیں تمام خدمات کی فراہمی کی ذمہ دار ہوں گی۔ جس کے لیے فنڈ کی کمی، جو کہ یقینی ہے، کی صورت میں غیر ملکی سکوں اور مالیاتی اداروں سے سود پر رقوم کی فراہمی کی جائے گی، جو قوم کو مزید قرضہ کے شکنجہ میں جکڑنے کا ذریعہ ہو گا۔

(۲) ہر ایک کونسل میں دو غیر مسلم ممبران کا تقرر باوجود عددی معدومی کے غیر مسلم کی شان کو بلند کرنا ہے۔

(۳) مجوزہ منصوبہ کے مطابق آدھی سیٹیں صنفِ نازک کے لیے مخصوص ہوں گی۔ اس پر عملدرآمد سے گھریلو خاندانی نظام، جو کہ پہلے سے زوال پذیر ہے، حرفِ غلط کی طرح مٹ جائے گا۔

(۴) جمہوری نظام کی بنا پر عورت کو کسی بھی مقامی کونسل کا سربراہ بنایا جا سکے گا، جو کہ فطرت کے خلاف ہے۔

(۵) عورتوں کا بے پردہ مردوں کے ساتھ اجلاس میں شریک ہونا بھی ناجائز امر کا مرتکب ہونا ہے۔

(۶) عورتوں کی اس قدر کثیر تعداد میں اس سیاسی نظام میں دخل اندازی سے گھریلو نظام تباہ ہو جائے گا، جس سے سکون نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔

(۷) عورتوں کی اتنی کثیر تعداد کی اس مصروفیت کی بنا پر بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی تربیت کا نظام شدید متاثر ہو گا، جس سے نسلِ جدید میں جہالت اور بے راہ روی بڑھے گی، جو کہ معاشرہ کی تباہی لائے گا۔ یہ خرابیاں اپنے اندر کئی خرابیاں لے کر آئیں گی۔ ملکی سالمیت اور اس کے اسلامی تشخص کو ناقابلِ تلافی نقصان کا ذریعہ اور سبب ہوں گی۔

ان امور کی بنا پر تمام دیندار عوام، اسلامی تنظیموں، دینی، سیاسی جماعتوں اور علماء کی ذمہ داری ہے کہ ملک کی تباہی کے اس مجوزہ منصوبہ اور تدابیر کے لیے سد راہ بن جائیں اور ان منصوبوں پر عملدرآمد کو ہر ممکن طریقہ سے روکنے کی کوشش کریں۔

اللھم وفقنا و وفق ولاۃ امورنا۔

فقط واللہ اعلم

کتبہ: مفیض الرحمٰن چاٹگامی

متخصص فی الفقہ الاسلامی، جامعہ العلوم الاسلامیہ، علامہ بنوری ٹاؤن، کراچی

۱۶۔۴۔۱۴۲۱ھ بمطابق ۱۹۔۷۔۲۰۰۰ء

الجواب صحیح (مفتی) نظام الدین شامزئی

رئیس دارالافتاء جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی


سوال و جواب

(اکتوبر ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter