بچیوں کی پرورش اور سنتِ نبویؐ

مولانا عصمت اللہ

اسلام نے جس قدر عورت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے اس کی مثال کسی مذہب، تہذیب، تمدن اور ملک میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ یہ اسلامی تعلیمات ہی ہیں جس نے عورت کی زندگی کو عمر کے مختلف حصوں، شعبوں میں تقسیم کیا ہے اور پھر ہر شعبہ زندگی کی نسبت سے حقوق، احکام و مسائل اور ضرورتِ زندگی کی تفصیلات بیان کر دی گئی ہیں۔

بچی جب پیدا ہوتی ہے تو بالغ ہونے تک کے لیے الگ احکام اور تعلیمات ہیں۔ بالغہ ہونے کے بعد الگ احکامات ہیں۔ اسی طرح شادی سے قبل کی زندگی، شادی کے بعد کی زندگی کے احکامات کی تفصیلات موجود ہیں۔ تیسری تقسیم اس طرح کی جا سکتی ہے کہ بیٹی، بہن، بیوی اور ماں کے لحاظ سے اسلامی تعلیمات میں الگ الگ تفصیلات اور ہر حیثیت کے تعین کے اعتبار سے علیحدہ علیحدہ حقوق موجود ہیں۔

اسلامی تعلیمات میں عورت کی زندگی کی اس طرح الگ الگ حیثیات کا تعین اور زندگی کے درجات کی تفصیل اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام نے عورت کو مکمل اہمیت دی ہے۔ اس کی زندگی کے کسی شعبہ کو حقوق سے خالی نہیں چھوڑا۔ زندگی کے پورے سفر میں اس کی حفاظت و نگرانی، عفت و عصمت اور دیکھ بھال پر کسی نہ کسی کو ضرور مقرر کر رکھا ہے۔ بیٹی ہے باپ کی ذمہ داری اور نگرانی میں، بیوی ہے تو شوہر کی حفاظت میں، ماں ہے تو اولاد کے لیے، اس کے قدموں تلے جنت کی بشارت سنا دی ہے اور اولاد کو ماں کی خدمت پر لگا دیا ہے۔

اس کے برعکس انسانی زندگی کی تاریخ پر نظر ڈالیں۔ مذاہبِ عالم کی تعلیمات کا مطالعہ کریں۔ مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں پر نگاہ دوڑائیں۔ خواہ اس کا تعلق تہذیبِ حاضر سے ہو یا ماضی کے ظالمانہ اور بے ربط نظاموں سے، کہیں بھی عورت کے لیے حقوق کی وہ تفصیلات، انوثت کی وہ اہمیت، اور اس کی عفت کے ایسے انتظامات نظر نہیں آتے جو اسلامی تعلیمات میں ملتے ہیں۔

انسانی تمدن کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ عورت ننگ و عار کا باعث سمجھی جاتی تھی۔ بچی کی پیدائش باعثِ عزت نہیں تھی بلکہ باعثِ ذلت و رسوائی، شر و فساد اور موجبِ نحوست و عیب تصور کی جاتی تھی۔ جس تہذیب کی عمارت ہی بچی کی پیدائش پر ایسے غلط نظریات سے تعمیر کی گئی ہو، وہاں اس کی پیدائش پر خوشی و مسرت کی لہر کیسے دوڑ سکتی تھی؟ اس کی عفت و عصمت کا انتظام کیونکر کیا جا سکتا تھا؟ اس کی تعلیم و تربیت، کفالت و پرورش اور اچھی دیکھ بھال پر جنت کی بشارت، دوزخ سے آڑ اور رحمت و برکت کی خوشخبری کیونکر سنائی جا سکتی تھی۔

مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:

’’ہندومت میں عورتوں پر ویدوں کی تعلیم کا دروازہ سرے سے ہی بند کر دیا گیا تھا۔ بدھ مت میں بھی اس کا کوئی انتظام نہ تھا۔ یہودیت، مسیحیت ویسے ہی عورت کو گناہ کی بانی و مبانی قرار دیتی تھیں۔ اسی طرح روم، ایران، چین اور مصر کی تہذیب و ثقافت کے مراکز میں عورت کی تعلیم و تربیت کا کہیں نام و نشان تک نظر نہیں (آتا) تھا۔‘‘ (پردہ ص ۱۱)

اور عرب میں بچی کی پیدائش پر باپ اور ماں کا جو حال ہوتا تھا، قرآن اور عرب کے قدیم شعراء نے اس کی کیفیت بیان کی ہے۔ جب کسی کے ہاں بیٹی ہونے کی خبر دی جاتی تو باپ کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا، وہ غصے کے گھونٹ پیتا، مارے عار اور ذلت کے لوگوں سے چھپتا پھرتا کہ اس کو اپنے پاس رہنے دے یا اس کو مٹی میں دبا دے۔ (النحل آیت ۷)

قرآن کریم نے کوئی افسانوی یا خیالی و فرضی بات بیان نہیں کی بلکہ یہ ایک نفس الامری اور وجودی حقیقت کی نقاب کشائی کی ہے۔

علامہ سید سلیمان ندویؒ نقل کرتے ہیں:

’’ایک شخص نے آ کر خدمتِ اقدس میں عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ جاہلیت والے تھے، بتوں کو پوجتے تھے اور اولاد کو مار ڈالتے تھے۔ میری ایک لڑکی تھی، جب میں اس کو بلاتا تو وہ دوڑ کر میرے پاس آتی۔ ایک دن وہ میرے بلانے پر خوش خوش دوڑی آئی، میں آگے بڑھا وہ میرے پیچھے چلی آئی، میں آگے بڑھتا چلا گیا۔ جب میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کنویں میں ڈال دیا، وہ ابا ابا کہہ کر پکارتی رہی اور یہی اس کی زندگی کی آخری پکار تھی۔

رحمتِ کونینؐ اس پُردرد افسانہ کو سن کر آنسو ضبط نہ کر سکے۔ ایک صحابیؓ نے ان صاحب کو ملامت کی کہ تم نے حضورؐ پاک کو غمگین کر دیا۔ فرمایا، اس کو چھوڑ دو کیونکہ جو مصیبت اس پر پڑی ہے وہ اس کا علاج پوچھنے آیا ہے۔ پھر ان صاحب سے فرمایا، میاں تم اپنا قصہ پھر سناؤ۔ اس نے دوبارہ پھر بیان کیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت ہوئی کہ روتے روتے ریش مبارک تر ہو گئی۔ پھر فرمایا، جاؤ! جاہلیت کے گناہ اسلام کے بعد معاف ہو گئے، اب نئے سرے سے اپنا عمل شروع کرو۔‘‘ (سیرۃ النبی ص ۱۲۲ ج ۶)

قبیلہ بنی تمیم کے قیص بن عاصمؓ اسلام لائے تو عرض کیا، یا رسول اللہ! میں نے اپنے ہاتھ سے آٹھ لڑکیاں زندہ دفن کی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا، ہر لڑکی کے بدلہ میں ایک غلام آزاد کرو۔ عرض کیا، میرے پاس اونٹ ہیں۔ فرمایا، ہر لڑکی کے بدلہ میں ایک اونٹ کی قربانی کرو۔

تعجب تو یہ ہے کہ اسلام سے پہلے والدین اپنی مرضی اور خوشی سے بچیوں پر ایسے مظالم ڈھاتے تھے، اپنے بتوں اور دیوتاؤں کی خوشی کے لیے ان کو ذبح کر ڈالتے تھے، منت مانتے تھے کہ میرا فلاں کام ہو گا تو بچے کی قربانی کروں گا۔ یہ رسم صرف عرب میں ہی نہیں تھی بلکہ بہت سی بت پرست قوموں میں جاری تھی۔ رومۃ الکبریٰ کے عظیم الشان قانون میں اولاد کو مار ڈالنے کا باپ کو مکمل اختیار تھا، اس پر کوئی باز پرس کرنے والا نہ تھا۔

ہندوستان کے راجپوتوں میں یہ دردناک منظر لڑکیوں کی شادی کی شرم و عار سے بچنے اور بیواؤں کی ستی کی صورت میں اور لڑائیوں میں جوہر کی صورت میں رائج تھا۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ بتوں اور دیوتاؤں کی خوشی اور نذرانے کے لیے ان معصوموں کی جانیں بہت آسانی سے لی جاتی تھیں۔ (سیرۃ النبی ص ۱۲۵ ج ۶)

اسلام سے پہلے اس قسم کی رسومات کے انسداد کا کوئی انتظام کسی ملک کے قانون یا کسی قوم کی تہذیب میں نہ تھا۔ سوائے ایک یا دو نیک آدمیوں کے جن کی فطرت اور طبعی افتاد میں یہ جذبہ موجود تھا۔

چنانچہ اس سلسلہ میں ایک مشہور شاعر فرزدق کے دادا صعصعہ نے ۳۶۰ لڑکیوں کو خرید کر موت سے بچا لیا تھا۔ اسلام لانے کے بعد انہوں نے خدمتِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا، تم کو اس پر ثواب ملے گا اور خدا نے تم کو مسلمان بنا کر احسان کیا ہے۔

دوسرے شخص زید بن عمرو بن نفیل تھے جو ملت ِابراہیمیؑ پر تھے۔ حضرت امام بخاریؒ ان کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنی بیٹی کو زندہ درگور کرنے کا ارادہ کرتا تو زید بن عمرو اس کے اس ارادے کے درمیان حائل ہو جاتے۔ اس کو کہتے ’’لا تقتلھا انا اکفیکھا مونتھا‘‘ (بخاری شریف ص ۵۴۰ ج ۱) ’’اس کو قتل نہ کر میں تیری طرف سے اس کی پرورش کی مشقت برداشت کر لوں گا‘‘۔ چنانچہ اس بچی کو لے لیتے، تربیت کرتے، جب بڑی ہو جاتی تو اس کے باپ کو کہتے ’’اگر تو چاہے تو میں اس کو تیرے سپرد کر دیتا ہوں، اور اگر میرے پاس ہی رہنے دینا چاہتا ہے تو میں اس کے لیے بھی تیار ہوں۔‘‘

یہ انفرادی اور شخصی کوشش تھی ورنہ عموماً لوگ لڑکیوں کے وجود کو مصیبت اور بلا خیال کرتے تھے۔ یہ اسلامی تعلیمات اور ارشاداتِ نبویہؐ کا کرشمہ ہے کہ اس بلا اور مصیبت کو ایسی رحمت بنا دیا کہ یہ نجاتِ اخروی کا ذریعہ بن گئی۔

چنانچہ امام نوویؐ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں:

’’حضرت انس ؓ رسول اکرمؐ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا، جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ دونوں بلوغ تک پہنچ گئیں، میں اور وہ قیامت کے دن اس طرح ساتھ ساتھ آئیں گے جس طرح یہ دو انگلیاں‘‘۔ (ریاض الصالحین ص ۱۳۶)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان انقلابی تعلیمات کا اثر یہ ہوا کہ عرصے سے زنگ آلود ذہن پاک اور صاف ہو گئے، منفی سوچیں مثبت خیالات میں بدل گئے، دلوں میں نرمی پیدا ہو گئی، سفاک اور شقی مزاج رحیم و شفیق بن گئے، بچیوں سے نفرت و کراہت محبت و پیار میں تبدیل ہو گئی۔ تھوڑا ہی عرصہ پہلے جو لوگ بچی کی کفالت سے دور بھاگتے تھے اب اس کی پرورش کو سعادت سمجھنے لگے، اس کی تربیت پر جھگڑے ہونے لگے۔ بچی کا گھر میں ہونا، پالنا، دیکھ بھال کرنا، تعلیم و تربیت پر مشقت اٹھانا انتہائی آسان ہو گیا۔ یہ سب اسلامی تعلیمات کی سحر آفرینی تھی۔

چنانچہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ذی القعدہ ۶ھ کو مکہ کی طرف عمرہ کی ادائیگی کے لیے روانہ ہوتے ہیں، اہلِ مکہ آپ کو مکہ میں دخل نہیں ہونے دیتے، آخر کار کچھ شرائط پر طے پاتا ہے کہ آپ آئندہ سال عمرہ کے لیے حاضر ہو سکیں گے۔ جب اگلے سال آپؐ مکہ سے عمرہ کی ادائیگی کے بعد واپس لوٹتے ہیں تو حضرت حمزہؓ کی بیٹی امامہ ’’چچا چچا‘‘ کہتے ہوئے آپؐ کے پیچھے دوڑی آتی ہے۔ حضرت علیؓ اس کو ہاتھوں میں اٹھا لیتے ہیں اور حضرت خالدؓ ان سے کہتے ہیں یہ لو تمہارے چچا حمزہ کی بیٹی ہے۔ حضرت علیؓ، زیدؓ اور جعفرؓ کے درمیان اس کے بارے میں سرکار دو عالمؐ کے سامنے بحث شروع ہو جاتی ہے۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ یہ میرے چچا کی بیٹی ہے، لہٰذا اس کی پرورش میں کروں گا، یہ مجھے ملنی چاہیے۔ حضرت جعفر طیارؓ دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میرے نکاح میں ہے، لہٰذا اس کی کفالت کی سعادت میں لینا چاہتا ہوں، یہ مجھے دے دیں۔ حضرت زیدؓ عرض کرتے ہیں کہ یہ میرے مذہبی بھائی حمزہؓ کی بیٹی ہے لہٰذا اس کی ذمہ داری میں اٹھانا چاہتا ہوں، آپؐ اسے میرے سپرد کر دیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلمؐ نے یہ ارشاد فرما کر کہ ’’الخالۃ بمنزلۃ الام‘‘ خالہ ماں کے قائم مقام ہے، حضرت جعفر طیارؓ کے سپرد کر دیتے ہیں۔ (بخاری شریف ص ۶۱۰ ج ۲)

یہ سارے جذبات کس کی تعلیم و تربیت کے اثر سے پیدا ہوئے؟ ورنہ یہ تو وہی بچی ہے جس کی پیدائش کو ننگ و عار سمجھا جاتا تھا، اسے زندہ زمین میں دبا دیا جاتا تھا، اس کی پرورش پر اس کے خون سے ہاتھ رنگنے کو ترجیح دی جاتی تھی، اس کی ولادت پر چہرے سیاہ پڑ جاتے تھے، باپ لوگوں سے چھپتے پھرتے تھے، دم گھٹنے لگتے تھے، اس کے گھر آنے پر صفِ ماتم بچھ جاتی تھی۔ ذرا غور کریں کہ یکدم اس بچی کی پیدائش رحمت کا پیغام کیوں بن جاتی ہے اور اس کی پرورش پر دخولِ جنت کی خوشخبری پنہاں خیال کی جاتی ہے۔ اب اس کی پیدائش پر صفِ ماتم نہیں بچھتی، دم نہیں گھٹتے، چہرے سیاہ نہیں پڑتے، باپ لوگوں سے چھپتے نہیں بلکہ فرحت و مسرت کا اظہار کرتے ہیں، سرور و خوشی کے شادیانے بجاتے ہیں، اس کی تعلیم و تربیت کو دوزخ سے بچاؤ کا سبب سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس کو تربیت میں لینے پر بحث و مباحثہ شروع کر دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا اثر ہی تو ہے۔ ورنہ یہاں اکراہ و جبر کا تو نام و نشان تک نہیں ہے۔ کوئی دنیوی اغراض و مقاصد بھی نظر نہیں آتے، یقیناً یہ احساسات قرآنی افکار، دینی سوچ اور اسلامی تعلیمات کا کرشمہ ہی تو ہیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:

’’ایک مرتبہ میرے پاس ایک عورت آئی، اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں۔ وہ عورت غریب و بے کس تھی، اس نے مجھ سے کچھ سوال کیا، لیکن اس وقت میرے پاس ایک کھجور کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔ میں نے اس عورت کے حوالے وہی ایک کھجور کر دی، وہ کھجور تو اس نے لے لی لیکن اس کو دو برابر حصوں میں تقسیم کیا اور اپنی دونوں بیٹیوں کو ایک ایک پھانک دے دی اور خود اس میں سے کچھ بھی نہ کھایا، پھر وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور واپس چلی گئی۔ کچھ دیر بعد امام الانبیاءؐ تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے آپؐ سے سارا واقعہ بیان کیا تو آپؐ نے فرمایا، جو شخص ان بیٹیوں کی وجہ سے مشقت جھیلتا ہے، ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرتا ہے، تو وہ لڑکیاں اس شخص کے لیے دوزخ سے آڑ اور ڈھال بن جائیں گی۔‘‘ (متفق علیہ)

یعنی بچیوں کی اچھی تربیت کرنے والا دوزخ میں نہ جائے گا۔

حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ایک اور واقعہ بیان کرتی ہیں:

’’ایک اور مرتبہ میرے پاس ایک ضرورتمند اور بے سہارا عورت آئی، اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں۔ اس نے سوال کیا تو میرے پاس اس دفعہ تین کھجوریں تھیں۔ میں نے ان کو دے دیں۔ اس نے ان کو اس طرح تقسیم کیا کہ دونوں کو ایک ایک کھجور دے دی اور ایک اپنے کھانے کے لیے رکھ لی۔ جب اس کی لڑکیوں نے اپنی اپنی کھجور کھا لی، ان کی ماں کھانے کے لیے ابھی منہ تک ہی لائی تھی کہ اس کی لڑکیوں نے وہ بھی مانگ لی، ماں کی محبت دیکھئے کہ اپنے حصہ کی کھجور کھائی نہیں بلکہ اس کے دو ٹکڑے کیے اور وہ آدھی آدھی پھر دونوں کو دے دی۔

حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ مجھے اس عورت کی یہ بات بڑی اچھی لگی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپؐ کے سامنے اس کا تذکرہ کیا۔ آپؐ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے ان کی وجہ سے اس عورت کے لیے جنت واجب کر دی اور اس کو دوزخ کی آگ سے آزاد کر دیا۔‘‘ (ریاض الصالحین ص ۱۳۶)

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں: ’’والباقیات الصالحات خیر عند ربک ثواباً و خیر املاً‘‘ (الکہف) ’’اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے ہاں بہتر ہیں بدلہ میں اور بہتر ہیں توقع میں۔‘‘

عبید بن عمرؓ نے فرمایا کہ باقیات صالحات نیک لڑکیاں ہیں کہ وہ اپنے والدین کے لیے سب سے بڑا ذخیرۂ ثواب ہیں۔ اس پر حضرت عائشہؓ کی ایک روایت دلالت کرتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ میں نے اپنی امت کے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کو دوزخ میں لے جانے کا حکم دے دیا گیا تو اس کی نیک لڑکیاں اس کو چمٹ گئیں اور رونے اور شور کرنے لگیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کی کہ یا اللہ! انہوں نے دنیا میں ہم پر بڑا احسان کیا اور ہماری تربیت میں محنت اٹھائی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس پر رحم فرما کر بخش دیا۔ (معارف القرآن ص ۵۸۴ ج ۵)

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کو کتنی اہمیت دی ہے اور جاہلیت کی دختر کش روایات و اقدار کو مسترد کرتے ہوئے بچیوں کی پیدائش کو خدا کی رحمت اور ان کی پرورش کو باعثِ نجات قرار دے کر صنفِ نازک پر کس قدر احسان کیا ہے۔


دین اور معاشرہ

(اکتوبر ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter