تحریک ولی اللہ کا موجودہ دور اور معروضی حالات میں کام کی ترجیحات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(یہ مضمون فکر ولی اللہی سے وابستہ نوجوان دانشوروں کی سوسائٹی ’’مجلس مشاورت‘‘ کی فکری نشست منعقدہ ۲۸ اپریل ۱۹۹۵ء بمقام مدرسہ قاسم العلوم شیرانوالہ گیٹ لاہور میں پڑھا گیا۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ علماء حق کی وہ جماعت جس نے گزشتہ دو صدیوں کے دوران برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں دین اسلام کے تحفظ و بقا اور ترویج و اشاعت کی مسلسل جدوجہد کی ہے اور اسلامی عقائد و نظریات اور مسلم معاشرہ کو بیرونی اثرات سے بچانے کے لیے صبر آزما جنگ لڑی ہے، آج پھر تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے اور عالمی سطح پر اسلام اور اسلامی معاشرت کے خلاف منظم اور ہمہ گیر انداز میں لڑی جانے والی ثقافتی جنگ علماء حق کی اس جماعت سے نئی صف بندی، ترجیحات اور حکمت عملی کا تقاضا کر رہی ہے۔

اس جماعت کو ہم امام ولی اللہ دہلویؒ کی جماعت کہہ لیں، اہل حق کی چودہ سو سالہ جدوجہد کے تسلسل کا ایک حصہ قرار دے لیں، یا ماضی قریب کے حوالے سے علمائے دیوبند کے نام سے منسوب کر لیں، یہ ایک ہی گروہ کے تعارف کی مختلف صورتیں ہیں۔ اس گروہ کے حال یا مستقبل کے بارے میں گفتگو کرنے سے قبل اس کی سابقہ جدوجہد کے دو اہم ادوار کا پس منظر کے طور پر ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

  1. ایک دور وہ تھا جب جنوبی ایشیا کے اس مردم خیز خطہ میں ہندو تہذیب نے مسلم تہذیب و ثقافت کو اکبر اعظم کے دینِ الٰہی کے نام پر ہضم کرجانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے تو اس وقت کے علماء حق کے سرخیل حضرت مجدد الف ثانیؒ اس کے نتائج کی سنگینی کا بروقت اندازہ کرتے ہوئے اس کے سامنے ڈٹ گئے اور اپنی ایمانی قوت اور جرأت و استقامت کے ساتھ ہندو تہذیب کے اس خوفناک وار کو ناکام بنا دیا،
  2. اور دوسرا وہ دور ہے جب سات سمندر پار سے تجارت کے نام پر آنے والے انگریزوں نے اپنی تہذیب اور کلچر کو صنعتی اور تجارتی بالادستی کے زور پر اس سرزمین کے باشندوں پر مسلط کرنا چاہا تو امام ولی اللہ دہلویؒ کے جانشین شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کی قیادت میں اس وقت کے علماء حق نے اس چیلنج کو قبول کیا اور کم و بیش ڈیڑھ سو برس کی مسلسل کشمکش کے بعد بالآخر اسلامی عقائد و نظریات اور تہذیب و ثقافت کو فرنگی استعمار کے چنگل سے بچانے میں کامیاب ہوگئے۔

یہی وجہ ہے کہ اسلامی عقائد و نظریات کی پختگی اور قدیم وضع کی اسلامی معاشرت کے آثار پوری دنیا میں اگر سب سے نمایاں کسی خطہ میں نظر آتے ہیں تو وہ یہی برصغیر ہے۔ اس سرزمین کے مسلم باشندوں کی یہی ’’بنیاد پرستی‘‘ پوری دنیا پر تسلط کا خواب دیکھنے والے نئے استعمار کے لیے ’’سوہانِ روح‘‘ بنی ہوئی ہے۔

اس پس منظر میں جب ہم اسلام اور ملت اسلامیہ کو درپیش نئے چیلنجز کو دیکھتے ہیں تو ہمیں حال یا مستقبل کی یہ جنگ بھی اسی کشمکش کا ایک حصہ اور اس کا آخری و فیصلہ کن دور نظر آتی ہے جس کا مقصد دنیا سے اسلامی تہذیب و معاشرت کا خاتمہ اور ویسٹرن سولائزیشن کی بالادستی کا قیام ہے۔ البتہ اس جنگ کا دائرہ وسیع ہوگیا ہے اور تکنیک بدل گئی ہے۔ پہلے دور میں مغربی استعمار نے ’’نیشنلزم‘‘ کے نام پر مسلمانوں کو ان کے مرکز خلافت سے محروم کیا، چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کیا اور ان کی پچاس سے زیادہ مستقل حکومتیں بنوا کر ان کے مفادات اور رجحانات کے دائروں کو الگ الگ کر دیا۔ اور اب دوسرے مرحلہ میں ’’انٹرنیشنلزم‘‘ کے نام پر ان چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو ایک ایسے عالمی نظام میں جکڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں ان کے لیے ویسٹرن سولائزیشن کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہ رہے اور وہ مغرب کی بالادستی اور قیادت میں ایک نئے عالمی نظام میں ضم ہو کر اپنی نظریاتی اور تہذیبی شناخت سے محروم ہو جائیں۔

یہ جنگ اصل میں تہذیب و معاشرت کی بالادستی کی جنگ ہے جبکہ سیاسی اقتدار اور معاشی بالادستی اس جنگ کے لیے ہمیشہ موثر ہتھیار کا کام دیتے رہے ہیں۔ اس لیے آج بھی مغربی استعمار نے عالم اسلام کی پچاس سے زیادہ اکائیوں کی سیاست و معیشت کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی طرف سب سے زیادہ توجہ مبذول کر رکھی ہے۔ اور ماضی کی طرح آج بھی انہی ہتھیاروں کے ذریعے وہ اسلامی تہذیب و معاشرت کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنے کے لیے بے تاب اور مضطرب دکھائی دے رہا ہے۔ اسلامی تہذیب و معاشرت کی سخت جانی گزشتہ ڈیڑھ ہزار برس سے پوری دنیا کے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہے کیونکہ یہ تہذیب دنیا کے جس خطہ میں گئی ہے اس نے وہاں کے کلچر میں ضم ہونے سے انکار کر دیا ہے اور اپنے اثرات اس مضبوطی کے ساتھ قائم کیے ہیں کہ علاقائی تہذیبیں اس کے لیے خود بخود راستہ چھوڑتی چلی گئی ہیں۔ ہندو تہذیب جو مختلف تہذیبوں کو ہضم کرنے میں اپنی مثال نہیں رکھتی، اسلامی تہذیب کے سامنے عاجز آگئی ہے اور مغربی تہذیب جس نے امریکہ، آسٹریلیا اور افریقہ میں جا کر وہاں کی تہذیبوں کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے، اسلامی تہذیب و معاشرت کو ہضم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے اور خود یورپ و امریکہ کی سوسائٹیوں میں اسلامی تہذیب و معاشرت کے بڑھتے ہوئے اثرات سے خوفزدہ دکھائی دیتی ہے۔

یہ تو ہے اس تاریخی کشمکش کا ایک نقشہ جو اب فیصلہ کن دور میں داخل ہوگئی ہے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے اس جماعت کے حالات پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہیے جس نے اس سے قبل ہر دور میں اس کشمکش میں امت مسلمہ کی فکری و عملی راہنمائی کی ہے اور جس سے امت کا سنجیدہ طبقہ آج بھی ماضی کی طرح جرأت مندانہ قیادت کی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہے۔ جہاں تک ماضی کا تعلق ہے، تمام تر کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود مجموعی طور پر ولی اللہی جماعت کا کردار تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کے عقائد و افکار کے تحفظ کا میدان ہو، دینی علوم کی ترویج و اشاعت کا محاذ ہو، قرآن کریم اور مسجد کے ساتھ عام مسلمان کا تعلق قائم رکھنے کا مسئلہ ہو، یا عام معاشرتی زندگی میں بیرونی اثرات کی روک تھام کا شعبہ ہو، علماء حق کی جدوجہد ان سب کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اور بے سروسامانی اور کس مپرسی کے باوجود ان میں سے کسی محاذ پر انہوں نے پسپائی اختیار نہیں کی۔

مگر اس شاندار ماضی کے آئینے میں جب ہم حال پر نظر ڈالتے ہیں تو ظاہری صورتحال کو دیکھ کر ذہن و قلب کو ایک دھچکا سا لگتا ہے اور نئی عالمی جنگ میں دشمن کی تیاری، اس کے خوفناک ہتھیاروں اور لشکر جرار کے سامنے ہماری دینی قیادت کی بے بسی پریشانی اور اضطراب کا باعث بن جاتی ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس صورتحال کا کچھ سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے لیا جائے۔

پاکستان کے حوالے سے اس وقت حالات کا عملی نقشہ کچھ یوں ہے کہ ملک کی عمومی مذہبی قیادت بالعموم اور علماء دیوبند یا ولی اللہی جماعت بالخصوص باہمی خلفشار اور انتشار کا شکار ہے۔ اس جماعت کی نظریاتی و عملی قوت یکجا ہونے کی بجائے چھوٹی چھوٹی ٹکریوں میں بٹ کر رہ گئی ہے، یہ ٹکریاں بھی نظریاتی اور فکری حلقے کم اور شخصی عقیدتوں اور وابستگیوں کے دائرے زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ کارکنان میں نعرہ بازی، سطحیت اور جذباتیت کا عنصر سنجیدہ مزاج اور علمی ذوق پر غالب آگیا ہے، جبکہ وسائل و سہولتوں کے حصول کی خاطر مختلف لابیوں کے ساتھ وابستگی نے مذہبی قیادتوں کو مفادات اور سہل پسندی کی دلدل میں الجھا کر رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رائے عامہ اور ملک کی مذہبی قیادت کے درمیان اعتماد اور مفاہمت کا وہ رشتہ کمزور تر ہوتا جا رہا ہے جو اس سے قبل مذہبی لیڈرشپ کی بات میں وزن اور قوت کی بنیاد ہوا کرتا تھا۔

ہمارے نزدیک اس صورتحال کے یہاں تک پہنچنے کے اسباب و عوامل میں تین امور سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

  1. دینی جماعتوں اور علمی اداروں میں طلبہ اور علماء کی ذہن سازی اور فکری تربیت کا فقدان ہے جو انہیں وقت کے تقاضوں کا احساس دلا کر کسی مشن اور پروگرام کے لیے تیار کر سکے۔
  2. انتخابی سیاست کو، جو اس عظیم جدوجہد میں ہدف تک پہنچنے کے مختلف ذرائع میں سے ایک ذریعہ تھی، اس حد تک اوڑھنا بچھونا بنا لیا گیا ہے کہ وہ ذریعہ کی بجائے مقصد کا درجہ اختیار کر گئی ہے۔ اور یہ انتخابی سیاست جماعتوں اور ان کی قیادتوں کی تمام تر تگ و دو کا محور بن کر رہ گئی ہے۔
  3. ہم نے ماضی کی طرح نظریاتی اور تہذیبی کشمکش کے اس دور کو بھی مقامی اور ملکی سطح کی جنگ سمجھ لیا ہے اور اسی دائرہ میں اس کے لیے صف بندی اور حکمت عملی اختیار کرتے آرہے ہیں۔ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا ہے کہ اب یہ جنگ کسی ایک ملک کی نہیں بلکہ عالمی جنگ ہے جس کے لیے اسی سطح کی صف بندی، رابطوں، ترجیحات اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

جبکہ آج مغربی استعمار اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس عالمی جنگ میں جو تکنیک اختیار کیے ہوئے ہیں، مذہبی جماعتوں کے کارکن تو رہے ایک طرف، ان کی قیادتوں کی غالب اکثریت تک اس کے ادراک سے محروم ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مغربی استعمار اور عالم اسلام میں ان کی ہمنوا قوتیں کسی بھی مسئلہ پر اطمینان کے ساتھ اپنا کام کر چکتی ہیں یا اس کے بیشتر مراحل سے گزر جاتی ہیں تو ہماری مذہبی قیادتوں کو کچھ کچھ احساس ہونے لگتا ہے۔ اور جتنی دیر میں وہ خود کو دفاع یا جواب کے لیے ذہنی طور پر تیار کر پاتی ہیں ’’چڑیاں کھیت چگ کر جا چکی ہوتی ہیں‘‘۔ دینی جماعتوں کی جدوجہد میں شریعت بل، شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے کے اندراج، اور توہین رسالتؐ کے مرتکب افراد کی بیرون ملک روانگی اور پذیرائی کے واقعات اگرچہ ہمارے نزدیک ضمنی اور جزوی حوالے ہیں، لیکن ان سے ہماری مذہبی قیادتوں کی اس نفسیاتی صورتحال کا اندازہ بخوبی ہو جاتاہے جس کی طرف ہم نے ابھی اشارہ کیا ہے۔

ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اصلاحِ احوال کی خواہش اور جذبہ رکھنے والوں کا سارا زور اس بات پر صرف ہو رہا ہے کہ قائدین اور کارکنوں کی اسی موجودہ کھیپ کو اس کام کے لیے تیار کر لیا جائے جس کے لیے ان کی تربیت نہیں ہوئی اور جو ان کی ذہنی سطح سے مختلف ہے۔ یہ بات فطرت کے خلاف ہے کیونکہ دو میل تک دوڑنے کی سکت رکھنے والے گھوڑے کو دس میل کی دوڑ میں شریک کیا جائے گا توا س کا حشر وہی ہوگا جو اس وقت ہماری مذہبی جماعتوں کا ہو رہا ہے۔ یا کسی مخصوص اسٹائل کی کشتی لڑنے والے پہلوان کو فری اسٹائل دنگل کے اکھاڑے میں کھڑا کیا جائے گا تو وہ اسی طرح عافیت کا گوشہ تلاش کرتا پھرے گا جیسے ہماری مذہبی لیڈرشپ تلاش کر رہی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حقائق کا کھلے دل سے اعتراف کیا جائے اور زمینی حقائق کو تسلیم کر کے ان کی بنیاد پر آئندہ حکمت عملی اور ترجیحات طے کی جائیں۔

ان گزارشات کے بعد ہم ان دوستوں کی خدمت میں، جو خلوص دل کے ساتھ اس سلسلہ میں کچھ کرنے کے خواہش مند ہیں، یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ معروضی حالات میں ولی اللہی جماعت کے کام اور کردار کو ازسرِنو منظم کرنے کے لیے ہمارے نزدیک چند امور انتہائی ضروری ہیں۔

  • جو دینی جماعتیں اور علمی ادارے اس وقت اپنے اپنے دائرے میں کام کر رہے ہیں ان کے کام کی افادیت کو اپنے اپنے دائرہ میں تسلیم کرتے ہوئے ان سے تعاون کیا جائے۔ ان میں سے کسی کے کام کی نفی نہ کی جائے اور ہر ایک کے کام میں افادیت کا پہلو تلاش کر کے اسے اجاگر کرنے اور اس میں اس سے تعاون کرنے کی کوشش کی جائے۔
  • ایک علمی و فکری سوسائٹی قائم کی جائے جس کی تشکیل کی بنیاد حالات کے ادراک، اہلیت، استعداد اور صلاحیت کار پر ہو۔ اور اصحابِِ خیر کھلے دل کے ساتھ اخراجات کے سلسلہ میں اس سے تعاون کریں۔ یہ سوسائٹی سیاسی اغراض سے بالاتر ہو، انتخابی سیاست سے قطعی طور پر لاتعلق رہے اور دینی جماعتوں اور علمی اداروں کے درمیان رابطہ کی خدمات سر انجام دے۔ یہ سوسائٹی دینی، علمی اور فکری سطح پر لابنگ، ہوم ورک اور پیپر ورک کا وہ خلاء پر کرے جو اس وقت دینی جماعتوں میں تکلیف دہ حد تک نمایاں نظر آرہا ہے۔ اور پیش آمدہ مسائل کے بارے میں حقائق اور معلومات کو یکجا کر کے دینی جماعتوں اور اداروں کی علمی و فکری راہنمائی کا اہتمام کرے۔
  • اس وقت سب سے زیادہ ضرورت مختلف ممالک میں کام کرنے والی تحریکات کے درمیان ٹھوس علمی و فکری رابطے اور مشاورت کی ہے۔ کیونکہ عالم اسلام کے خلاف مغربی استعمار کی نظریاتی اور تہذیبی جنگ میں مسلمانوں کی صحیح لیڈرشپ اسی اجتماعی مشاورت اور رابطہ کے ذریعہ سامنے آسکتی ہے اور وہی لیڈرشپ ملت اسلامیہ کی صحیح طور پر قیادت کر سکتی ہے۔
  • اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور انسانی حقوق و جمہوریت کے حوالہ سے عالمی معاہدات اور مغرب کے موقف کی تفصیلات کو سامنے رکھتے ہوئے امام ولی اللہ دہلویؒ کی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی نظام حیات کی وضاحت کا اہتمام کیا جائے، ہر شعبہ زندگی سے متعلقہ مسائل و مشکلات کا تجزیہ کرتے ہوئے اسلامی احکام و تعلیمات کو آج کی زبان میں منظم طریقے سے سامنے لایا جائے، اور اسلامی احکام و تعلیمات کے بارے میں مغربی دانشوروں کے اعتراضات و شبہات کا منطق و استدلال کے ساتھ جواب دیا جائے۔

اس گفتگو کے آخر میں اس امر کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ میں خود کو انتخابی اور گروہی سیاست کے لیے قطعی طور پر ان فٹ سمجھتے ہوئے اس سے چند سال قبل کنارہ کشی اختیار کر چکا ہوں اور اس پر آخری دم تک قائم رہنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ البتہ علمی و فکری محاذ پر مغربی استعمار کے خلاف اس جنگ میں بدستور شریک ہوں اور اپنے وسائل و بساط کی حد تک کسی کوشش سے حتی الوسع گریز نہیں کر رہا۔ میں نے ایک اصول حتمی طور پر طے کر لیا ہے کہ سنجیدہ علمی و فکری کام میں ہر ایک کا خادم ہوں جبکہ گروہی کشمکش میں کسی کا ساتھی نہیں ہوں۔ اس دائرہ میں رہتے ہوئے اگر دوست مجھ سے کسی خدمت کا تقاضہ کریں گے تو مجھے اس میں خوشی ہوگی اور ہو سکتا ہے ایسا ہی کوئی عمل آخرت میں نجات کا ذریعہ بن جائے، آمین یا رب العالمین۔

اسلامی تحریکات اور حکمت عملی

(جون ۱۹۹۵ء)

تلاش

Flag Counter