پاکستان سماجی اتحاد کے چیئرمین جناب محمد اکرم چوہان ایڈووکیٹ کی دعوت پر مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کرام اور دانشوروں کا ایک اجتماع مجلسِ مذاکرہ کے عنوان سے ان کی رہائشگاہ ۱۹ گورونانک پورہ گوجرانوالہ میں یکم مئی ۱۹۹۵ء کو منعقد ہوا جس کی صدارت ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر چودھری جلیل احمد خان ایڈووکیٹ نے کی۔ مجلس مذاکرہ کا عنوان تھا ’’توہینِ رسالتؐ کی سزا کے قانون میں مجوزہ ترامیم اور دینی حلقوں کی ذمہ داریاں‘‘۔
مجلسِ مذاکرہ سے ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی، مرکزی جمعیت اہل حدیث پنجاب کے امیر مولانا محمد اعظم، آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے راہنما سردار محمد عارف ایڈووکیٹ، جمعیت علماء پاکستان کے راہنما مولانا نصرت اللہ مجددی، جماعت مبلغین اہلِ سنت کے سربراہ مولانا محمد نواز بلوچ، تحریک منہاج القرآن کے راہنما مولانا رحمت اللہ نوری، اور جمعیت اہلِ حدیث کے راہنما مولانا محمد عمر فاروق نے خطاب کیا۔ جبکہ سابق صوبائی وزیر تعلیم جناب عثمان ابراہیم بار ایٹ لاء بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔ اور پاکستان سماجی اتحاد کے راہنما شیخ عبد الستار قادری نے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیے۔ مجلسِ مذاکرہ میں مذکورہ بالا راہنماؤں کے علاوہ مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔
جناب محمد اکرم چوہان ایڈووکیٹ نے مذاکرہ کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا تحفظ ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی بھی سچے پیغمبر کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ ہمارا ایمان ہے لیکن مغربی قوتیں ہمیں اس ایمان اور محبتِ رسولؐ سے محروم کر دینا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گستاخئ رسولؐ پر موت کی سزا کا قانون موجود ہے لیکن حکومتِ پاکستان مغربی قوتوں کے دباؤ پر اس قانون میں ترامیم کر کے اسے غیر مؤثر بنا دینا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گستاخئ رسولؐ کے سلسلہ میں کسی اطلاع کے درست ثابت نہ ہونے پر اطلاع دینے والے کو دس سال قید کی سزا اور مقدمہ کے اندراج سے قبل ڈپٹی کمشنر کی انکوائری کی شرط عملاً توہینِ رسالتؐ پر موت کی سزا کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ موجودہ عدالتی سسٹم میں اس صورت میں کوئی شخص گستاخئ رسولؐ کے واقعہ کی اطلاع دینے کا حوصلہ نہیں کر سکے گا، اور توہینِ رسالتؐ کے مقدمہ کا اندراج صرف ایک ڈپٹی کمشنر کی صوابدید پر موقوف ہو کر رہ جائے گا۔ اس لیے حکومتِ پاکستان کی مجوزہ ترامیم کو کسی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے علماء کرام اور وکلاء پر زور دیا کہ وہ اس سلسلہ میں اپنا کردار ادا کریں اور توہینِ رسالتؐ پر موت کی سزا کے قانون کو بے اثر بنانے کی اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے منظم جدوجہد کریں۔
مولانا محمد اعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت و محبت ہمارے ایمان کی بنیاد ہے اور اس کے بغیر کسی شخص کا ایمان کامل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ توہینِ رسالتؐ پر موت کی سزا کا قانون شریعتِ اسلامیہ کا قانون ہے جس کو ختم کرنے یا غیر مؤثر بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اور علماء کرام اس سلسلہ میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
مولانا محمد نواز بلوچ نے مجلسِ مذاکرہ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں مغرب کے اثرات میں مسلسل اضافہ اور ہمارے مذہبی معاملات میں مغربی حکومتوں کی مداخلت کے حوالے سے علمائے کرام کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے کیونکہ وہی اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا کر کے قوم کو اس بحران سے نکال سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علماء کرام کو گروہی انا اور فرقہ وارانہ کشمکش کے دائرے سے نکلنا ہو گا ورنہ وہ اپنا کردار صحیح طور پر ادا نہیں کر سکیں گے۔
مولانا رحمت اللہ نوری نے کہا کہ اصل ضرورت قوم میں وحدت کے جذبہ کو ابھارنے اور دینی غیرت کو بیدار کرنے کی ہے۔ اور یہ کام علماء کرام اور دانشور مل کر کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام اور پاکستان کے خلاف مغرب کی سازشوں کو بے نقاب کرنا وقت کا سب سے ہم تقاضہ ہے۔
مولانا نصرت اللہ مجددی نے کہا کہ علماء کرام نے اس سے قبل بھی جب اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے، قوم نے ان کا ساتھ دیا ہے۔ اور اب بھی علماء کرام متحد ہو جائیں تو وہ بڑی سے بڑی طاقت کو شکست دے سکتے ہیں۔
مولانا محمد عمر فاروقی نے کہا کہ مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کو برداشت نہیں کر سکتے، اس لیے حکومت کو مسلمانوں کے جذبات سے نہیں کھیلنا چاہیے۔
سردار محمد عارف ایڈووکیٹ نے کہا کہ مغربی قوتیں پاکستان کو اس کے اسلامی تشخص سے محروم کرنے کے لیے پوری طرح سرگرمِ عمل ہیں اور بے شمار لابیاں اس سلسلہ میں منظم کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مغرب والے ہم پر بنیاد پرست ہونے کا الزام لگاتے ہیں لیکن سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین اور پاکستان کے گستاخِ رسول عیسائیوں کو جس طرح مغربی حکومتوں نے پذیرائی بخشی ہے اس سے پوری طرح اندازہ ہو جاتا ہے کہ اصل بنیاد پرست کون ہے۔
مہمان خصوصی جناب عثمان ابراہیم بارایٹ لاء نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت مغرب کی سرپرستی میں کام کر رہی ہے اور مغرب کے اثرات کو ہمارے معاشرہ میں پھیلانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس لیے علماء اور دانشوروں کو چاہیے کہ وہ اس حکومت سے قوم کو نجات دلانے کے لیے جدوجہد کریں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکمرانوں کے کارناموں کی ذمہ داری میں وہ لوگ بھی برابر کے شریک ہیں جو اس حکومت کو برسراقتدار لانے کا باعث بنے ہیں۔ اس لیے عوام کو ان سے خبردار رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ اب عوام کے ہاتھ میں ہے اور عوام اگر اپنی رائے کا صحیح استعمال کریں تو موجودہ حکومت سے نجات حاصل کرنا مشکل نہیں ہے۔
مجلسِ مذاکرہ کے صدر جناب چودھری جلیل احمد خان ایڈووکیٹ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جو باتیں یہاں کہہ رہے ہیں ان پر عمل بھی کریں، کیونکہ جناب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں کامیابی عمل اور کردار کی بنیاد پر حاصل کی تھی، اور آپؐ نے اس بات کی تلقین فرمائی ہے کہ ہم جو کچھ زبان سے کہتے ہیں اس پر عمل کا اہتمام کریں۔
مجلسِ مذاکرہ سے ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے تفصیلی خطاب کیا اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغربی لابیوں کی مہم کا جائزہ لیتے ہوئے علمائے کرام اور دانشوروں پر زور دیا کہ وہ مغرب کے چیلنج کو سمجھنے کی کوشش کریں، جو کمیونزم کے ساتھ سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد اسلامی تہذیب و معاشرت کے خلاف مورچہ زن ہو گیا ہے۔ اور ’’انسانی حقوق‘‘ کے نام پر نہ صرف اسلامی احکام و قوانین کا مذاق اڑایا جا رہا ہے بلکہ عالمِ اسلام میں مغرب پرست مسلمان حکومتوں کے ذریعے اسلامی معاشرت کے اثرات کو مٹانے کے لیے بھی پوری قوت صَرف کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین اور پاکستان کے گستاخانِ رسولؐ کی پشت پناہی کر کے مغربی حکومتوں نے واضح کر دیا ہے کہ مغرب دراصل مسلمانوں کے خلاف عقیدہ کی جنگ لڑ رہا ہے، اور ملتِ اسلامیہ کو اس کے عقائد سے محروم کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی خوفناک نظریاتی جنگ ہے جس کا ادراک کرنا ضروری ہے کیونکہ مغربی حکومتیں اور لابیاں قادیانیوں اور گستاخانِ رسولؐ کی پشت پناہی کر کے صرف ہمارے عقیدۂ ختمِ نبوت اور محبتِ رسولؐ کو چیلنج نہیں کر رہیں بلکہ جرائم کی شرعی سزاؤں کو بھی وحشیانہ اور ظالمانہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اور نکاح و طلاق کے حوالے سے ہمارے مذہبی قوانین کو بین الاقوامی معیار کے منافی قرار دے کر انہیں تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم مغرب کی مہم کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں اور پورے حوصلہ، تدبر اور جرات کے ساتھ اس کے مقابلہ کا اہتمام کریں۔