دین کیلئے فقہاء کی خدمات

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

حضرت ابو موسیٰ الاشعری (المتوفی ۵۲ھ) سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو ہدایت و علم دے کر مبعوث فرمایا ہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے زور کی بارش جو زمین پر برسی ہو، اور

  1. زمین کا ایک وہ بہترین اور قابلِ زراعت ٹکڑا ہے جس نے پانی کو خوب جذب کر لیا، اور ساگ پات اور گھاس و چارہ بکثرت اگایا (جس سے انسانوں اور جانوروں کی اکثر ضرورتیں پوری ہو گئیں)،
  2. اور زمین کا ایک حصہ وہ ہے جو سخت ہے، اس سے کوئی چیز اگتی تو نہیں لیکن اس حصہ میں پانی خوب جمع ہو گیا، اور اس جمع شدہ پانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو نفع بخشا کہ وہ خود بھی پیتے ہیں اور جانورں کو بھی پلاتے ہیں، اور کھیتی کو بھی سیراب کرتے ہیں،
  3. اور زمین کا ایک اور قطعہ ہے جو بالکل چٹیل ہے، نہ تو وہ پانی کو روک سکتا ہے، اور نہ گھاس و سبزہ اگانے کی صلاحیت اس میں موجود ہے۔

پھر ارشاد فرمایا کہ پس یہ مثال ہے اس شخص کی جس نے اللہ تعالیٰ کے دین میں فقاہت حاصل کی، اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اس چیز سے نفع عطا فرمایا جو مجھے اللہ تعالیٰ نے دے کر مبعوث کیا ہے، جس کو اس نے سیکھا اور سکھلایا۔ اور مثال ہے اس کی جس نے ہدایتِ خداوندی کی طرف، جس کو میں لے کر آیا ہوں، مطلقاً سر ہی نہ اٹھایا۔‘‘

(بخاری ج ۱ ص ۱۸ و مسلم ج ۲ ص ۲۴۷ و مشکوٰۃ ج ۱ ص ۲۸)

آخری چٹیل زمین کی مثال تو ما و شما کی ہے کہ نہ تو محدث ہیں، نہ فقیہ کہ نہ روحانی بارش کو محفوظ رکھا اور نہ اس کو جذب کر کے اس سے کوئی خوشگوار نتائج ہی برآمد کیے۔

اور دوسری مثال محدثین کرامؒ کی ہے جنہوں نے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی موسلا دھار بارش کو بحفاظت تمام اصلی شکل میں مَصون رکھا۔ لوگ آ کر ان سے اپنی علمی پیاس بجھاتے ہیں، لوگوں کو وہ مصفیٰ پانی پلا پلا کر سیراب کرتے ہیں۔ اپنے تو کیا جو غیر مسلم اور بیگانے اور ’’اولئک کالانعام‘‘ کا مصداق ہیں، ان کو بھی وحئ الٰہی کی بارش سے وہ سیراب کرنے کے درپے ہوتے ہیں، اور لوگوں کے دلوں کی اجڑی ہوئی بے آباد اور خشک کھیتیوں کو اس پانی کے ذریعہ سرسبز و شاداب کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ غرضیکہ ’’فشربوا وسقوا وزرعوا‘‘ کے ایک ایک لفظ پر پورا عمل کرتے ہیں۔

اور پہلی مثال فقہاء کرامؒ کی ہے جن کے دلوں کی سرزمین ’’طائفۃ طیبۃ‘‘ کا مصداق ہے۔ اور وہ اپنے سینوں اور دلوں میں اس روحانی بارش اور وحئ الٰہی کو اچھی طرح جذب کرتے ہیں۔ اور اگرچہ وہ بارش اس قطعۂ ارضی پر اصلی شکل پر تو نہیں رہتی مگر اسی کی وجہ سے اس عمدہ زمین سے ساگ پات، گھاس اور اناج، سبزی و ترکاری، پھل اور پھول اور دیگر مختلف اجناس کی شکل میں متعدد چیزیں اگتی اور پیدا ہوتی ہیں۔ جن کو انسان بھی اور حیوان بھی استعمال کرتے اور اپنے مصرف میں لا کر اپنی مختلف قسم کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں۔

اور ظاہر بات ہے کہ پانی بھی اپنے مقام میں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، مگر نرے پانی سے تمام ضرورتیں تو ہرگز پوری نہیں ہو سکتیں۔ اسی پانی کے ذریعے جب مختلف قسم کے سبزہ زار اور لہلہاتی ہوئی کھیتیاں معرضِ وجود میں آئیں گی تو اس سے جو فائدہ مرتب ہو گا وہ اظہر من الشمس ہے۔ اسی طرح فقہائے کرامؒ بھی اس وحئ الٰہی کو جذب کر کے اس سے سینکڑوں اور ہزاروں مسائل استنباط کرتے ہیں جن سے پوری دنیا کو عظیم فائدہ نصیب ہوتا ہے۔

اب اگر کوئی شخص زمین کے اس قطعہ پر یوں اعتراض اور حرف گیری کرے کہ اس نے تو پانی کو محفوظ ہی نہیں رکھا، یہ تو بڑی ناکارہ زمین ہے، تو اس اعتراض کی نقلی و عقلی دنیا میں ہرگز کوئی وقعت نہ ہو گی۔ بلکہ یہ کہنا عین انصاف ہے کہ اس زمین کی قدر و منزلت باقی حصوں سے بہت زیادہ ہے کیونکہ اس نے مختلف قسم کی ضروریات کی کفالت کی ہے، اور یہی حال فقہائے کرامؒ کی بے لوث خدمات کا ہے کیونکہ نصوصِ صریحہ تمام سعائل و نوازل کی جزئیات کے لیے ناکافی ہیں۔

فقہ / اصول فقہ

(جون ۱۹۹۵ء)

تلاش

Flag Counter