ورلڈ اسلامک فورم کی ماہانہ فکری نشست ۱۹ اپریل ۱۹۹۵ء کو بعد نماز عصر مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں مولانا زاہد الراشدی کی زیرصدارت منعقد ہوئی جس میں متعدد رفقاء نے شرکت کی۔ جبکہ جناب محمد اقبال بھٹی ایڈووکیٹ، پروفیسر حافظ عبید اللہ عابد، راؤ مظفر حسین اور صدر نشست نے ’’جداگانہ انتخابات اور انسانی حقوق‘‘ کے عنوان پر اظہار خیال کیا۔
مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ بعض مخصوص لابیوں کی طرف سے پاکستان میں جداگانہ انتخابات کے قانون کو اقلیتوں کے انسانی حقوق کے منافی قرار دینے کی جو مہم جاری ہے وہ غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ کیونکہ اقلیتوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے اسمبلیوں میں جداگانہ نمائندگی کا حق ان کے سیاسی حقوق کے تحفظ کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر میں مسلمانوں نے اپنی سیاسی اور آئینی جدوجہد کا آغاز ہی جداگانہ تشخص اور جداگانہ انتخاب کے ذریعے علیحدہ نمائندگی کے مطالبات سے کیا اور اسی کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا۔
مقررین نے کہا کہ جداگانہ انتخابات کی نفی قیامِ پاکستان کے سیاسی پس منظر اور دو قومی نظریہ کی نفی ہے جس کی پاکستان میں اجازت نہیں دی جا سکتی۔
مقررین نے کہا کہ پاکستان میں سنجیدہ مسیحی تنظیمیں اب تک جداگانہ انتخابات کا مطالبہ کرتی رہی ہیں، اور امرِ واقعہ یہ ہے کہ جداگانہ انتخابات کے ذریعے مسیحی اقلیت کو اسمبلیوں میں جس قدر نمائندگی حاصل ہے، مخلوط الیکشن میں وہ اس کے چوتھے حصے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ لیکن بعض بین الاقوامی لابیوں کے اشارے پر چند ناعاقبت اندیش مسیحی لیڈر جداگانہ انتخابات کی مخالفت کر کے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔
مقررین نے کہا کہ جہاں تک سیاسی مفاد کا تعلق ہے ملک کی اسلامی مذہبی قوتوں کا مفاد اس میں ہے کہ مخلوط الیکشن ہوں کیونکہ اس صورت میں اقلیتوں کے اس قدر نمائندے اسمبلیوں میں آ ہی نہیں سکیں گے کہ وہ کسی مسئلہ میں مشکلات پیدا کر سکیں، یا ان کی آواز میں کوئی وزن ہو۔ لیکن اصول کا تقاضہ یہ ہے کہ مسیحیوں سمیت تمام اقلیتوں کو اسمبلیوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی کا حق دیا جائے، اور ایسا کرنا الیکشن کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
مقررین نے کہا کہ مسیحی اقلیت کے بعض لیڈروں کی طرف سے جداگانہ الیکشن کی مخالفت دراصل مسیحیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان کے اندر قادیانیوں کا اور عالمی سطح پر سیکولر لابیوں کا مسئلہ ہے، جس کے لیے یہ مسیحی لیڈر بلاوجہ استعمال ہو رہے ہیں، کیونکہ قادیانیوں نے اپنے بارے میں پاکستان کے دستور کا یہ فیصلہ ابھی تک تسلیم نہیں کیا کہ وہ مسلمانوں سے الگ ایک غیر مسلم اقلیت ہیں۔ اس لیے اگر وہ جداگانہ الیکشن کو تسلیم کر لیتے ہیں تو عملاً دستوری فیصلہ تسلیم ہو جاتا ہے اور وہ اقلیت کی پوزیشن میں چلے جاتے ہیں۔ جبکہ قادیانی خود کو اقلیت تسلیم نہیں کرتے اور وہ پاکستان کے دستور سے اس معاملہ میں منحرف ہیں۔ لیکن انہوں نے اس مسئلہ میں خود آگے آنے کی بجائے مسیحی اقلیت کے بعض لیڈروں کو ورغلا کر آگے کر دیا ہے اور خود پس منظر میں رہ کر جداگانہ الیکشن کے قانون کو ختم کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے شناختی کارڈ میں مذہب کے خانہ کے اضافہ کی اصل زد قادیانیوں پر پڑتی ہے کیونکہ انہیں اس صورت میں خود کو غیر مسلم ظاہر کرنا پڑتا ہے جو ان کے جماعتی موقف کے خلاف ہے۔ لیکن انہوں نے یہاں بھی مسیحی لیڈروں کو استعمال کرنے کی حکمتِ عملی اختیار کی اور مسیحی جماعتوں نے شور مچایا کہ شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے کا اضافہ ان کے بنیادی حقوق کے منافی ہے۔ حالانکہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں کسی بھی شخص کے تعارف میں اس کے مذہب کا ذکر کر دیا جائے تو اس کا کوئی انسانی حق متاثر نہیں ہوتا، سوائے اس شخص کے جو اپنے مذہب کو جان بوجھ کر چھپانا چاہتا ہے اور اپنا مذہب چھپانے کو بھی اپنا حق قرار دیتا ہے۔ ورنہ کوئی بھی شخص جو اپنے مذہب پر سچے دل سے یقین رکھتا ہے اسے اپنے مذہب کے اظہار اور مذہب کے حوالے سے اپنے تعارف پر کوئی حجاب نہیں ہو سکتا، اور نہ ہی اس سے اس کا کوئی انسانی حق پامال ہوتا ہے۔
مقررین نے کہا کہ جداگانہ الیکشن کے خلاف چند مسیحی لیڈروں کی منفی مہم کی دوسری وجہ بین الاقوامی سیکولر لابیاں ہیں جنہیں پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت اور دستور پاکستان کی اسلامی دفعات پر اعتراض ہے۔ اور وہ پاکستان کے اسلامی تشخص اور دستور پاکستان کی اسلامی دفعات کو ختم کرا کے پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتی ہیں، اور وہ اپنے سیکولر مقاصد کے لیے پاکستان کی مسیحی تنظیموں کو استعمال کر رہی ہیں۔
مقررین نے کہا کہ پاکستان میں جداگانہ الیکشن کا قانون ختم کرنے سے جہاں قیامِ پاکستان کے سیاسی اور نظریاتی پس منظر کی نفی ہو گی وہاں اس خدشہ کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ انتخابات میں مذہب کا حوالہ ختم کرنے کے بعد صدر پاکستان اور وزیر اعظم جیسی کلیدی اسامیوں کے لیے مسلمان ہونے کی شرط بھی ختم کر دی جائے۔ اور پھر ہارس ٹریڈنگ کے روایتی طریقوں سے کام لیتے ہوئے کسی غیر مسلم کو صدر یا وزیراعظم کے منصب پر مسلط کر دیا جائے، جو پاکستان کے خلاف مغربی قوتوں کے عزائم کی تکمیل بہتر طریقے سے کر سکے۔
مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ ملک کی مذہبی اور سیاسی جماعتیں اور اہلِ دانش اس مسئلہ کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں اور رائے عامہ کی راہنمائی کرتے ہوئے اس سلسلہ میں صورتحال کا صحیح تجزیہ لوگوں کے سامنے پیش کریں۔ اور اس کے ساتھ سنجیدہ مسیحی لیڈروں سے رابطہ اور ملاقاتیں کر کے انہیں بھی یہ بات سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ وہ عالمی سیکولر لابیوں اور پاکستان کی قادیانی اقلیت کے مفادات کے لیے استعمال نہ ہوں اور جداگانہ انتخابات کی مخالفت کر کے اسمبلیوں میں مسیحیوں کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی کے مواقع کو ضائع نہ کریں۔