تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’خطباتِ سواتی‘‘

حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی دامت برکاتہم گذشتہ نصف صدی سے جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں خطبات کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ اور شہر کا تعلیم یافتہ طبقہ خصوصیت کے ساتھ ان کے خطبات سے مستفید ہوتا ہے۔ دینی مسائل و احکام کی وضاحت، روزہ مرہ پیش آنے والے معاملات میں راہنمائی، اور باطل نظریات و عقائد کا رد ان خطبات کا خصوصی امتیاز ہے۔ حضرت صوفی صاحب مدظلہ کے دروسِ قرآن کریم اور دروسِ حدیث کے مرتب الحاج لعل دین ایم اے نے خطبات کو مرتب کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے جو بلاشبہ علوم و معارف کے ایک خزینہ کو جمع کرنے کی کوشش ہے اور علماء و خطباء پر بہت بڑا احسان ہے۔

زیر نظر مجموعہ ’’خطباتِ سواتی‘‘ کی پہلی جلد ہے جس میں ۲۱ مئی ۱۹۸۲ء سے ۱۵ اکتوبر ۱۹۸۲ء تک کے ۲۲ خطباتِ جمعہ کو ترتیب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اور یہ خطبات واقعہ معراج النبیؐ، شبِ برات، رمضان المبارک، عید مبارک، اکل بالباطل، اونچی گھاٹی پر چڑھنا، آزادی اور غلامی میں امتیاز، یہودی عوام و خواص کی خرابیاں، آخرت کا گھر، شرائطِ بیعت، اور قربانی کا فلسفہ جیسے اہم موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔ پہلی جلد پونے چار سو صفحات پر مشتمل ہے اور عمدہ کتابت و طباعت کے ساتھ مضبوط جلد سے مزین ہے۔ اسے مکتبہ دروس القرآن فاروق گنج گوجرانوالہ نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت صرف ۹۰ روپے ہے۔

’’پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور تحریکیں‘‘

حافظ تقی الدین صاحب ہمارے محترم دوست ہیں، مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے سابق خطیب محدثِ پنجاب حضرت مولانا عبد العزیز سہالوی نور اللہ مرقدہ کے فرزند ہیں، اور پرانے سیاسی کارکن ہیں۔ انہوں نے سیاسی زندگی کا آغاز جمعیت علمائے ہند سے کیا اور پھر خدائی خدمت گار تحریک اور نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ زیادہ ذہنی لگاؤ کے باعث اس کیمپ میں منتقل ہو گئے اور ساری عمر وفاداری کے ساتھ وہیں گزار دی۔

حافظ صاحب موصوف نے مذکورہ بالا عنوان کے تحت اپنی یادداشتوں کو مرتب کر کے تاریخ کے حوالے کیا ہے اور اس پر اچھی خاصی محنت کی ہے۔ تاریخ کا بنیادی مواد اسی قسم کی یادداشتیں ہوتی ہیں۔ اور اس طرح انہوں نے مستقبل کے مؤرخ کے لیے اپنی یادداشتوں کا ذخیرہ پیش کر دیا ہے۔ اس مجموعہ میں تقسیمِ ہند سے قبل کی سیاسی تحریکات اور قیام پاکستان کے بعد کی سیاسی جماعتوں اور تحریکات کا تذکرہ ہے۔ لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے محنت و مشقت کے باوجود زیادہ انحصار اپنی یادداشت پر ہی کیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے مقامات پر واقعات کی ترتیب اور واقعیت معیاری نہیں رہی۔

مثلاً جمعیت علماء اسلام کے دورِ ثانی کے حوالے سے انہوں نے مولانا مفتی محمودؒ کی طرف سے ملتان میں بلائے گئے کنونشن کا ذکر کرتے ہوئے مفتی صاحب کو خیر المدارس کا مدرس لکھا ہے۔ کنونشن کے شرکاء میں مولانا احتشام الحق تھانویؒ کا نام شامل کر دیا ہے بلکہ انہیں جمعیت کا سیکرٹری جنرل لکھ دیا ہے۔ جبکہ مولانا غلام غوث ہزارویؒ کو مغربی پاکستان کا امیر قرار دیا ہے۔ اور کنونشن کا سن انعقاد ۱۹۵۴ء لکھا ہے۔ حالانکہ ان میں سے کوئی بات بھی درست نہیں ہے۔ اگر حافظ صاحب موصوف تھوڑی سی محنت واقعات کی ترتیب کو ریکارڈ کے حوالے سے درست کرنے پر صَرف کر لیتے تو ان کی اس کاوش کی افادیت دوچند ہو جاتی۔

بہرحال حافظ تقی الدین کی محنت قابلِ داد ہے اور دیگر سیاسی نظریاتی کارکنوں کے لیے اپنی یادداشتوں کو مرتب کرنے کی اچھی ترغیب ہے۔ چھ سو صفحات کی یہ ضخیم کتاب ’’فکشن ہاؤس ۱۸ مزنگ روڈ لاہور‘‘ نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت تین سو روپے ہے۔

’’سید امین گیلانی کی تصانیف‘‘

الحاج سید امین گیلانی کا شمار ملک کے ممتاز شعراء میں ہوتا ہے اور وہ بزم سے زیادہ رزم کے شاعر ہیں۔ تحریک آزادی، تحریک ختم نبوت، تحریک نفاذ شریعت اور دیگر دینی و قومی تحریکات میں انہوں نے جس انداز میں لوگوں کے دلوں کو گرمایا اور برمایا ہے، وہ ان تحریکات کی تاریخ کا ایک مستقل باب ہے۔ گیلانی صاحب کے متعدد شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ اور اس کے علاوہ وہ اکابر علماء حق کے ساتھ رفاقت کے دنوں کی یادیں صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے کا بھی ذوق رکھتے ہیں اور ان کی یادداشتوں کے کئی مجموعے چھپ چکے ہیں۔ اس وقت ہمارے سامنے درج ذیل کتابچے ہیں:

(۱) ’’دو بزرگ‘‘

اس میں شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ اور حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ کے واقعات اور ان کے بارے میں یادداشتیں درج ہیں۔

(۲) ’’بخاریؒ کی باتیں‘‘

اس میں امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ کے واقعات جمع کیے گئے ہیں۔

(۳) ’’صنم کدے میں اذان‘‘

یہ الحاج سید امین گیلانی کی نظموں کا مجموعہ ہے جن کے ذریعے وہ عام اجتماعات میں دینی حمیت کی جوت جگاتے رہے ہیں۔

یہ کتابیں ادارہ سادات، شرق پور روڈ، شیخوپورہ نے شائع کی ہیں۔

’’عبدہ و رسولہ‘‘

الحاج سید امین گیلانی کے فرزند سید سلمان گیلانی کو اللہ رب العزت نے ان کے والد محترم کا شعری ذوق منتقل کیا ہے اور وہ بالکل انہی کی طرز پر دینی و قومی اجتماعات میں توحید و رسالتؐ، ختمِ نبوت، مدحِ صحابہؓ اور اکابر علماء حق کی جدوجہد کے حوالے سے نغمے اور ترانے پیش کر رہے ہیں۔ زیر نظر مجموعہ ان کی نعتیہ نظموں پر مشتمل ہے جن میں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور نذرانۂ عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ یہ مجموعہ بھی ادارہ سادات، شرق پور روڈ، شیخوپورہ نے شائع کیا ہے۔

تعارف و تبصرہ

(جون ۱۹۹۵ء)

تلاش

Flag Counter