خلفاء راشدینؓ کا طرز حکمرانی

محسن الملک نواب مہدی علی خانؒ

محسن الملک نواب مہدی علی خان مرحوم ان زعمائے ملت میں سے ہیں جنہوں نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد ملت اسلامیہ کو سہارا دیا اور علم و فکر کے میدان میں ان کی راہنمائی کی۔ وہ سرسید احمد خان مرحوم کے رفقاء میں سے تھے۔ زیر نظر مضمون میں انہوں نے خلفاء راشدین کے طرز حکومت پر بحث کی ہے۔ یہ مضمون ہم نے فیروز سنز کی مطبوعہ کتاب ’’جواہر پارے‘‘ (مرتبہ مقبول انور داؤدی مرحوم) سے اخذ کیا ہے۔ (ادارہ)


اسلام کو ہماری ذات سے دو قسم کا تعلق ہے۔ ایک متعلق عقائد کے، جس کو حکماً حکمتِ بالغہ یا کمالِ علمی کہتے ہیں۔ دوسرا متعلق اعمال کے، جس کو عقلاً قدرتِ فاضلہ اور کمال عملی سے تعبیر کرتے ہیں۔ پہلے امر کو، جو درحقیقت اصول ہے، کتاب و سنت نے ایسا صاف کر دیا ہے کہ اب کسی دوسرے سے پوچھنے بتلانے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ مراتبِ توحید اور نبوت اور معاد کی کامل تشریح کر دی ہے۔ دوسرے امر کو، جو در حقیقت فروع ہے، اس کے اصول بھی تصریح کے ساتھ بیان کر دیے ہیں۔ اس لیے ہم کو اپنی دونوں باتوں کو کتاب و سنت سے ملانا چاہیے، تب معلوم ہوگا کہ کتنی باتیں ہم میں اسلام کی ہیں اور کتنی اس سے خارج، اور کون کون سا عمل ہمارا موافق اس کے ہے، اور کون سا مخالف۔

ہمارے حالاتِ دنیوی بھی مذہب کے تعلق سے آزاد نہیں ہیں بلکہ ہر معاملہ میں، خواہ وہ سیاستِ مدن سے متعلق ہو، خواہ اس کو حکمتِ منزل سے علاقہ ہو، ہم کو شریعت کی پابندی ہی لازم ہے۔ ہمارا تمدن اور معاشرت اور برتاؤ آزادانہ یعنی بلاقیدِ شریعت کے نہیں ہو سکتا۔ جو برتاؤ دنیاوی ہمارا ہو گا وہ بھی مذہبی ہو گا اور ہماری ہر بات اور ہر چال اور ہر فعل اور ہر عمل میں جلوہ اسلام کا چمکے گا۔ اگر وہ برتاؤ مطابق شریعت کے ہے تو وہ نورِ اسلام ہے، اور اگر مخالف ہے تو وہ داغِ اسلام۔

شریعت نے ہم کو رہبانیت کی تعلیم نہیں کی، جوگی ہونے کی اجازت نہیں دی بلکہ فرمایا ہے کلو من الطیبات واعملوا صالحا اس لیے اگر دل بیار اور دست بکار ہو تو عین ثواب ہے۔ شریعت نے دائرۂ معیشت کو تنگ نہیں کیا، زینتِ دنیا سے ممنوع نہیں گردانا۔ ہم سب مسلمان محرمات سے بچ کر اپنی زندگی کو نہایت آرام سے بسر کر سکتے ہیں۔ اور اپنی اوقات کو اور اپنے مال کو اگر اپنے بھائیوں کی بھلائی میں صرف کریں تو کسی عبادت میں اس سے زیادہ ثواب کے مستحق نہیں ہو سکتے۔ لیکن ہم نے اپنی بدبختی سے دین کو شرک و بدعت کے عقیدوں سے خراب اور دنیا کو غفلت اور جہالت کے سبب سے برباد کر رکھا ہے۔ نہ دین کے ہوئے نہ دنیا کے۔

گئے دونو جہاں کے کام سے ہم
نہ اِدھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے

جب ہم خلفائے راشدین کے اصولِ سیاست اور طریقِ معاشرت و اخلاق اور عادات اور چال چلن اور برتاؤ کو دیکھتے ہیں تو ہماری آنکھوں کے سامنے بہت سی عجیب و غریب چیزیں پھر جاتی ہیں اور بہت سے عقدے ہمارے حل ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ہم کچھ مختصر سا حال خلفائے راشدین کی خلافت کا لکھتے ہیں، لیکن صرف ان باتوں کو جو کہ متعلق سیاست اور معاشرت کے ہیں، تاکہ اس سے فوائدِ ذیل حاصل ہوں۔

  1. اول معلوم ہونا ان کے اصولِ سیاست کا کہ وہ کیسے تھے اور کن قواعد پر مبنی تھے۔
  2. دوسرے ظاہر کرنا ان کے اخلاق و عادات کا کہ وہ کیسی صفائی اور سچائی اور راستی ہر معاملہ میں رکھتے تھے۔ اور غیر مذہب والوں سے کس طور سے پیش آتے تھے۔
  3. تیسرے ظاہر کرنا ان کے مختلف قواعدِ انتظامیہ کا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ موافق ضرورتِ وقت اور حالِ زمانہ کے اصول سیاست اور تمدن اور معاشرت کے مقرر کرنا، اور وقتاً فوقتاً ان میں اصلاح کرنا، اور نئے نئے ضابطے جو پہلے جاری نہ تھے منضبط کرنا، اور امورِ مفیدِ عام کے اجراء میں کوشش کرنا (بشرطیکہ کوئی نص کتاب و سنت سے اس کے منع اور حرمت پر نہ ہو) ان کے نزدیک بدعت نہ تھا۔
  4. چوتھے مخالفت ان سلاطینِ اسلامیہ کی شریعت سے جنہوں نے اپنی حرکاتِ ظالمانہ اور افعالِ جابرانہ سے اپنے بے جا تعصب اور غلط غضب کو سلطنت کے کاموں میں دخل دیا، اور ناجائز طور سے اپنے اختیاراتِ شاہی کو برتا اور اسلام کو بٹہ لگایا۔
  5. پانچواں واقف کرنا اپنے بھائی مسلمانوں کو ان کے پیشواؤں کے اخلاق اور عادات سے، اور ان کے قواعدِ انتظامیہ اور قوانینِ حکمیہ سے، تاکہ ان کو معلوم ہو کہ وہ امورات ِ انتظامِ سلطنت میں کیسی استعداد رکھتے تھے، اور وہ تہذیب و شائستگی کی ترویج میں کیسی سعی بلیغ کرتے تھے۔

پہلا اصول

پہلا اصول جس پر بنا خلافت کی تھی، اجتماع تھا۔ یعنی امام اور خلیفہ کا مقرر ہونا تمام امت اور رعیت کی مرضی پر موقوف تھا۔ قرابت اور رشتہ اور اِرث کو اس میں کچھ دخل نہ تھا۔ چنانچہ جب وقتِ وفات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قریب ہوا تو لوگوں نے کہا کہ آپ اپنے بیٹے عبد اللہ کو اپنا جانشین کر دیجئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اس کا کچھ حق نہیں ہے۔

دوسرا اصول

دوسرا اصول خلیفہ کو آزادی اور خودمختاری کا حاصل نہ ہونا۔ امام اور خلیفہ اجرائے احکام اور انتظامِ اموراتِ سلطنت میں آزاد اور خودمختار نہ تھا، اور اپنی خواہشات اور ارادوں کو بلاقیدِ شریعت کے پورا کرنا کیسا، ظاہر بھی نہ کر سکتا تھا۔ کتاب و سنت کا پابند ہوتا تھا۔ چنانچہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے، جبکہ وہ خلیفہ مقرر ہوئے، جو پہلا خطبہ پڑھا وہ یہ تھا:

’’اے مسلمانو، میں آدمی ہوں ویسا ہی جیسے کہ تم ہو۔ نہ خطاؤں سے معصوم ہوں، نہ غلطیوں سے محفوظ۔ نہ تم سب سے بہتر اور اچھا ہوں۔ اس لیے تم میری خبرداری رکھنا۔ جو باتیں میرے خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے موافق ہوں، ان میں میری تبعیت کرنا، اور جن میں مجھے لغزش کرتے ہوئے دیکھنا، سنبھالنا۔‘‘

تیسرا اصول

تیسرا اصول رعایا کو آزادی حاصل ہونا۔ سوائے شریعت کے احکام کے رعایا کو کسی قسم کے امام اور خلیفہ کی طرف سے پابندی نہ تھی۔ اور خلیفہ کو کسی پر کچھ اختیار، سوائے اس کے جو قانونِ شریعت سے جائز تھا، حاصل نہ تھا۔ بلکہ ذاتی معاملات میں خلیفہ خود مدعی اور خود مدعا علیہ ہوتا تھا۔ اور کوئی عامل اور والئ صوبہ اس اصول کی پابندی سے اپنے اختیارات کو ناجائز طور سے استعمال میں نہیں لا سکتا تھا۔

ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ فلاں حاکم نے مجھے بے قصور شرعی کوڑے مارے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے بعد ثبوت کے اس حاکم کو سو کوڑے مارنے کا حکم دیا۔ عمرو بن عاصؓ نے سفارش کی تب جواب دیا کہ جب پیغمبر خدا علیہا التحیۃ والشاء اپنی ذات کو قصاص اور احکامِ شرعی سے مستثنیٰ نہیں سمجھتے تھے، تو پھر میں یا یہ کون ہیں؟

آزادی کا درجہ یہاں تک پہنچا تھا کہ اگر خلیفہ کسی شخص کو شرعی جرم میں ماخوذ کرتے یعنی بغیر ضابطہ معین کے، تو مجرم عذر کرتا اور اپنے آپ کو بچا لیتا۔ چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رات کو مدینہ کا گشت کرتے کرتے ایک ایسے گھر کے پاس پہنچے کہ وہاں سے آواز گانے کی آتی تھی۔ وہ اس گھر کے اندر دیوار کی راہ سے گھس گئے، وہاں ایک عورت کو دیکھا کہ شراب رکھی ہوئی ہے اور وہ گاتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو پکڑا، اس عورت نے کہا کہ میں نے اگر ایک گناہ کیا ہے تو تم نے تین جرم کیے ہیں:

  1. اول، خدا نے فرمایا ہے لا تجسسوا کہ تم تجسس نہ کرتے پھرو۔ سو تم نے تجسس کیا۔
  2. دوم، خدا نے فرمایا ہے لیس البر بان تاتوا البیوت من ظہورہا کہ دیوار کے پیچھے سے کسی مکان میں گھسنا اچھا نہیں ہے۔ اور تم دروازہ بند پا کر پشت مکان سے داخل ہوئے۔
  3. سوم، خدا فرماتا ہے لا تدخلوا بیوتا غیر بیوتکم کہ اپنے گھر کے سوا دوسرے کے گھر میں نہ جاؤ۔ اور تم بغیر میری اجازت کے چلے آئے۔

چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو چھوڑ دیا۔ حضرت عمرؓ باوجود اپنے زہد اور ورع کے کہ جس سے زیادہ خیال میں نہیں آ سکتا، عام لوگوں کو مباحات سے منع نہ کرتے تھے، اور کھانے پینے آرام کرنے میں وہ آزاد مطلق تھے۔ چنانچہ جب حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ نے انطاکیہ شہر کو فتح کیا، اور بہ سبب پاک صاف ہونے اس شہر کے اور اپنے عمدہ چیزوں کے مسلمانوں نے وہاں چند روز ٹھہرنے کا قصد کیا، تو انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ میں اس شہر میں ٹھہرنا پسند نہیں کرتا، ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں کو اس کی آب و ہوا پسند آوے اور محبت دنیا کی ان پر غالب ہو جائے۔ بجواب اس کے حضرت عمرؓ نے لکھا کہ خدا نے پاک چیزوں کو حرام نہیں کیا، تم کیوں حرام کرتے ہو؟

چوتھا اصول

چوتھا اصول شورٰی۔ اس کی اصل قرآن مجید سے ہے کہ خدائے عالم نے فرمایا ہے کہ وشاورہم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہ کہ جو کام پیش آئے اس میں صلاح مشورہ کرنا اور پھر عزم مصمم ہو جائے تو خدا پر بھروسہ کر کے اس کو شروع کرنا۔ 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس اصول کا ہمیشہ لحاظ رکھا اور نہایت خوبی سے اس کی پابندی کی۔ جب وہ کوئی کام کرتے تو سب سے مشورہ اور صلاح کرتے اور پھر سب کو میزانِ عقل میں تولتے اور بعدہ ایک رائے پر نہایت استقلال سے قائم ہو جاتے۔ اسی واسطے تدبیرِ مملکت میں انہوں نے دھوکا نہ پایا اور ان کی سب تدبیریں مفید پڑیں۔

حضرت عمرؓ کو اس اصول کا یہاں تک لحاظ تھا کہ اگر کسی فروعی مسئلہ میں وہ نصِ صریح کتاب و سنت کی نہ پاتے تو وہ مشورہ کرتے۔ یہ چوتھا اصول بھی دوسرے اصول کا ثمرہ ہے، اس لیے کہ جب بادشاہ کو آزادی اور خودمختاری نہ ہو گی تو لامحالہ وہ صرف اپنی مرضی سے کام نہ کر سکے گا۔ اور اس کی ضرورت ان لوگوں سے پوچھنے کی ہو گی جو صائب الرائے ہوں۔ یہ اصول وہی ہے جو کہ اب تربیت یافتہ قوموں میں یورپ کی جاری ہے، جس کو باختلافِ لغت اور زبان کے کونسل کہتے ہیں۔

پانچواں اصول

پانچواں اصول خلیفہ کو ملک کی آمدنی کا سوائے حقِ معین کے اپنے صَرف میں نہ لانا۔ ملک کی آمدنی خواہ وہ جزیہ کی ہوتی ہو یا خراج کی یا عشر کی، وہ سب بیت المال میں جمع ہوتی۔ خلیفہ کو کسی قسم کا اختیار اس پر نہ تھا۔ صرف روزینہ یا تنخواہ مقرری کے سوا وہ کچھ نہ لے سکتے تھے۔ ابتدائے عہدِ خلافت میں حضرت صدیق اکبرؓ کو صرف کھانا کپڑا ملتا تھا۔ اور جب آمدنی زیادہ ہوئی تب وہ دو ہزار پانسو درہم ملنے لگے۔ اور حضرت عمرؓ بھی اپنی ذات کے واسطے صرف اس قدر لیتے جس قدر اور مہاجرین و انصار کو دیتے تھے۔

جو آمدنی ملک کی ہوتی وہ خزانہ میں جمع ہوتی۔ اور فوج کے سرداروں اور سپاہیوں اور مہاجرین و انصار کو اس سے مشاہرہ مقررہ، اور فقراء اور مساکین کو آذوقہ کافی دیا جاتا۔ اور بوقتِ ضرورت عام فائدہ کے کاموں میں صرف کی جاتی جس طرح پر کوفہ اور بصرہ وغیرہ شہروں کی آبادی اور عمارت میں، یا وقتِ ایامِ قحطِ مدینہ کے جس کا نام قحطِ مادہ ہے۔ غلہ کے باہر سے منگانے میں صَرف کی گئی ملک کی آمدنی سے جس طرح مسلمان فقراء و مساکین کو حصہ دیا جاتا، اسی طرح پر اہلِ کتاب وغیرہ کو۔ کچھ تخصیص مسلمانوں کی نہ تھی۔

ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایک بڈھے یہودی کو ایک جگہ سوال کرتے دیکھا اور وقتِ استفسار کے معلوم ہوا کہ جزیہ کے مطالبہ کے واسطے سوال کرتا ہے۔ اسی وقت اس کا ہاتھ پکڑ کر نہایت اخلاق سے اپنے گھر لائے اور کچھ اس کو دیا۔ اور جزیہ کے تحصیل کرنے والوں کو حکم دیا کہ اس کا اور اس قسم کے لوگوں کا خیال رکھنا، یہ کون سا انصاف ہے کہ اس کی جوانی کی کمائی تو ہم کھائیں اور بڑھاپے میں اس کو ذلیل کریں اور اس کی کچھ بھی خبر نہ لیں۔ اس لیے آئندہ ایسے لوگوں سے مطالبہ نہ کرو اور ان کو جزیہ سے معاف جانو۔ اور بیت المال کے داروغہ کو حکم دیا کہ خدا نے فرمایا ہے انما الصدقات للفقراء اور یہ بھی مساکینِ اہلِ کتاب سے ہیں اس لیے ان کو دینا چاہیے۔

چھٹا اصول

چھٹا اصول وقتِ لشکر کشی کے کسی ملک پر مراعات اور حسنِ سلوک کا لحاظ رکھنا اور کسی پر بے جا زیادتی نہ کرنا اور جہاں تک ممکن ہو نرمی سے پیش آنا۔ جب کسی ملک کے فتح کرنے کے لیے لشکر بھیجا جاتا تھا تو اس لشکر کے سردار کو جو احکام دیے جاتے تھے ان میں امورِ مفصلہ ذیل پر نہایت تاکید کی جاتی تھی:

  1. کوئی عورت اور لڑکا اور بڈھا اور ضعیف نہ مارا جائے۔
  2. کسی کا ناک کان نہ کاٹا جائے۔
  3. عبادت کرنے والے گوشہ نشین قتل نہ کیے جائیں، اور ان کے عبادت خانے نہ کھودے جائیں۔
  4. کوئی درخت پھل دار نہ کاٹا جائے، کوئی کھیت نہ جلایا جائے۔
  5. کوئی عمارت اور آبادی ویران نہ کی جائے۔
  6. کسی جانور، بکری، اونٹ وغیرہ کی کونچیں نہ کاٹی جائیں۔
  7. کوئی کام بغیر صلاح و مشورہ کے نہ ہو۔
  8. ہر ایک کے ساتھ طریقۂ انصاف اور عدل کا برتاؤ کیا جائے، کسی پر ظلم اور جبر نہ کیا جائے۔
  9. جو عہد و پیمان غیر مذاہب والوں سے کیا جائے، اس میں بے وفائی نہ کی جائے اور وہ ٹھیک ٹھیک وفا کیا جائے۔
  10. جو لوگ اطاعت قبول کریں اور جزیہ دیں ان کی جان و مال مسلمانوں کی جان و مال کے برابر سمجھی جائیں، اور ان کے دشمنوں سے ان کی حفاظت کی جائے، اور تمام معاملات میں ان کے احکام مثل مسلمانوں کے تصور کیے جائیں۔
  11. جب تک اسلام کے قبول کرنے کی دعوت نہ دی گئی ہو ۔۔ لڑنا نہ چاہیے۔

ان احکام پر غور کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ مقابلہ اور لشکر کشی کے وقت کیسی نیکی اور رحم اور نرمی کی رعایت کی جاتی تھی۔ اور غدر، فریب اور بدعہدی پر کس قدر تہدید ہوتی تھی۔ کوئی بادشاہ نیک سا نیک اور رحیم سا رحیم کیوں نہ ہو، لشکر کشی کے وقت اس سے زیادہ نرمی نہیں کر سکتا۔

ساتواں اصول

اموراتِ ریاست اور انتظامِ سلطنت کے عمدہ انصرام کے لیے لائق عہدہ داروں اور اہل کاروں کا منتخب کرنا، ان کو وقت مقرر کرنے کے ہدایات خاص کرنا اور ہمیشہ ان کی نگرانی رکھنا۔ جس عامل کو حضرت عمرؓ مقرر کرتے اس کو احکامِ ذیل سناتے اور اس کی تعمیل کی تاکید کرتے:

  1. جوبدار اور حاجب نہ رکھنا۔ کسی مستغیث کو آنے کی روک ٹوک کا ذریعہ پیدا نہ کرنا۔ گویا یہ حکم تھا کہ درِ عدالت کو ہر وقت کھلا رکھنا۔
  2. جب کوئی استغاثہ کرے اس کو سننا۔ اور مدعی سے گواہ عادل اور منکر سے قسم لے کر اس کو فیصلہ کرنا۔ جس شخص پر حدِ شرعی جاری نہ ہوئی ہو، یا جھوٹی شہادت میں مشہور نہ ہو، یا اس پر محبت اور وراثت کی تہمت نہ ہو، وہ عادل سمجھا جائے گا۔
  3. مقدمات کا جلد فیصلہ کرنا تاکہ ایسا نہ ہو کہ مدعی دیر کے سبب سے اپنا دعویٰ چھوڑ بیٹھے۔
  4. باہم مصالحہ اور رضامندی کو منظور کرنا، بشرطیکہ اس سے تحلیل حرام اور تحریم حلال نہ ہو۔
  5. متخاصمین پر سختی اور درشتی اور غصہ نہ کرنا۔
  6. رعب قائم رکھنا مگر نہ اتنا کہ وہ منجربہ جبر ہو۔ اور اخلاق و نرمی کرنا مگر نہ اس قدر کہ حکومت میں سستی اور بد رعبی ہو۔
  7. ہمیشہ عدل اور انصاف کرنا اور حق بہ حق دار پہنچانا۔

عدل اور انصاف پر یہاں تک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل رہتا تھا کہ وہ مسلمان اور کافر میں کچھ تفرقہ نہ کرتے تھے۔ چنانچہ سعید بن مسیبؓ سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک یہودی اور ایک مسلمان مخاصمہ کرتے ہوئے آئے، اور ان کے نزدیک حق یہودی کا ثابت ہوا، اسی کے حق میں فیصلہ کیا۔ وہ یہودی اس عدل کو دیکھ کر مدح و ثنا کرنے لگا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ جس طرح اپنے عاملوں کو تاکید کرتے تھے، اسی طرح رعایا کو بھی آگاہ کر دیا کرتے تھے کہ سوائے شریعت کے احکام کے کسی اعلیٰ سے اعلیٰ حاکم کو ادنیٰ سے ادنیٰ رعیت پر کچھ اختیار نہیں ہے کہ اگر کوئی عامل کچھ کسی پر جبر و زیادتی کرے میں اس کو اسی طرح مجرم سمجھوں گا جیسا کہ ادنیٰ رعیت کو سمجھتا ہوں اور اس کو سزا دوں گا۔ سب اپنی عزت اور جان اور مال میں سوائے احکامِ شرعی کے آزاد اور خودمختار ہیں اور حاکم اور رعیت سب برابر۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے عاملوں کو خودمختار اور آزاد نہ ہونے دیتے تھے، ان کی نگرانی کرتے، ہمیشہ ان کی تبدیلی کیا کرتے۔ ان سے اگر خطا ہو جاتی تو معزول کر دیا کرتے۔ جواب دہی کے لیے دارالخلافہ میں طلب کرتے، بعض قصوروں میں ان پر جرمانہ کرتے۔

آٹھواں اصول

امورِ مملکت کے انتظام کی نظیر سے قوانین اور ضوابطِ جدید کا جاری کرنا، اور وقتاً فوقتاً موقع اور مصلحتِ وقت دیکھ کر اس کی اصلاح و ترمیم کرنا، بشرطیکہ کوئی نصِ صریح اس کی حرمت پر کتاب و سنت کی موجود نہ ہو۔ 

آج کل کے زمانہ میں جہاں کسی نے کوئی نئی بات کی، گو اس کو ثواب اور عذاب سے علاقہ نہ ہو، لوگ بدعت کہنے لگتے ہیں اور اس کو حرام اور منع بتلاتے ہیں، اور یہ نہیں جانتے کہ جس بات کو شرع نے حرام کر دیا ہے اس کو چھوڑ کر سب چیزیں مباح ہیں۔ اس لیے الاصل فی الاشیاء الاباحہ اور یہ نہیں سوچتے کہ ان امور میں جو کہ متعلق سیاست، مدن اور معاشرت کے ہیں، ہمیشہ اختلافِ زمانہ سے اختلاف ہوتا رہتا ہے۔ اور ان کا ترمیم کرنا اور ان میں اصلاح دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ ان میں اسی قاعدہ کا لحاظ کرنا چاہیے جس کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں کیا۔ یعنی محرماتِ منصوصہ کو چھوڑ کر ان باتوں کو اختیار کرنے میں، جو کہ ان کے زمانہ کے مناسب حال تھیں، کچھ ذرا سا بھی تامل نہ کیا، اور کسی نے اس کو بدعت نہ کہا۔

پہلا نیا کام جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا وہ دفتر اور کچہری کا مقرر کرنا اور لشکریوں اور ملازموں اور روزینہ والوں کا نام لکھا جانا اور ان کی تنخواہیں مقرر کرنا ہے۔ قبل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جو مالِ غنیمت کا آتا تھا، ویسا ہی تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ نہ نام پانے والے کا، نہ تعداد اس مال کی لکھی جاتی تھی۔ مگر جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس قاعدہ میں ترمیم کی حاجت معلوم ہوئی تب مشورہ کیا۔ ولید ابن ہشامؓ نے کہا کہ میں نے پادشاہانِ شام کے ہاں دیکھا ہے کہ وہ دفتر رکھتے ہیں اور اس میں حساب کتاب تحریر رہتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو پسند کیا۔ اور عقیل ابن ابی طالبؓ اور ورقہ بن نوفلؓ اور جبیر بن مطعمؓ کو بطور منشی کے مقرر کیا۔ اور سب کے نام لکھنے کا ان کو حکم دیا اور یہ کام حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ۲۰ھ محرم کے مہینے میں کیا۔

دوسرا کام جو انہوں نے کیا، وہ تاریخِ ہجری کا جاری کرنا ہے۔ اس کا پہلے ان کے رواج نہ تھا۔

تیسرا کام ان کا خزانہ کا مقرر کرنا ہے۔ جس کو ہماری اصطلاح میں بیت المال کہتے ہیں۔

چوتھا کام ان کی تقسیمِ اختیارات اور عہدوں کا ہے۔ اس سے پہلے جو کام ہوتا تھا وہ ایک ہی شخص کرتا تھا۔ مگر بخیال اس کے کہ اس میں چند قباحتیں نظر آئیں، اس کو بدل دیا اور تین قسم کے عہدہ دار مقرر کیے۔ ایک امیر جس کے متعلق انتظام کُل امورِ ریاست کا ہوتا ہے، اور جس کے اختیار میں فوج رہتی تھی۔ دوسرا قاضی کا کام انفصالِ خصومات اور تصفیۂ حقوق تھا۔ تیسرا تحویل دار جس کے سپردگی میں خزانہ رہتا تھا۔ اور ایک دوسرے کے کام سے کچھ تعلق نہ تھا۔

پانچواں کام ان کا جو سننے والوں کو متعجب کرتا ہے، مقرر کرنا قواعدِ خراج اور محصول کا۔ محصول لینے کے چند طریقے رکھے گئے تھے۔ ایک جزیہ، اگر وہ برضامندی دینے والے کے ٹھہرتا تو اس میں کمی بیشی نہ ہوتی، ورنہ بشرح مختلف لیا جاتا، مگر درہم ماہواری سے زایدہ نہیں۔ دوسرا محصولِ تجارتی پر، جس کی شرح یہ تھی: ذمیوں سے پانچ روپیہ سینکڑہ اور حربیوں سے دس روپے سینکڑہ، لیکن یہ محصول سالانہ ہوتا تھا۔ اگر وہ مال سال بھر میں چند مرتبہ آوے تو پھر کبھی اس سے نہ لیا جاتا تھا۔ اور اگر کوئی تحصیل کنندہ غلطی سے لیتا تو وہ واپس کر دیا جاتا، جیسا کہ ایک عیسائی تاجر کو پھیر دیا گیا۔ تیسرا محصول زمین کا۔ اس محصول کے اس وقت باقاعدہ مقرر ہونے پر لوگوں کو تعجب ہو گا کہ وہ فی جریب شرح مقرر پر بعد پیمائش اراضی کے اکثر جگہ لیا جاتا تھا۔ چنانچہ جب ملک عراق فتح ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ اس زمین کی پیمائش کی جائے۔ چنانچہ عثمان بن حنیفؓ اور حذیفہ ابن یمانؓ اس کام پر مقرر ہوئے۔ بعد پیمائش کے معلوم ہوا کہ کل اراضی تین کروڑ ساٹھ لاکھ جریب ہے۔ اس پر موافق حیثیت پیداوار اراضی کے شرح مقرر کی گئی۔ اور یہ صرف عراق میں جاری نہیں ہوا بلکہ شام اور دیگر جزائر میں بھی اسی طور پر کیا گیا۔ لیکن سب مقبوضہ میں اس کا رواج نہ ہونے پایا۔ محصول کے تحصیل کرنے میں نہایت آسانی کا حکم تھا۔ اور تکلیفِ جسمانی دینے کی سخت ممانعت تھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وقتِ مراجعتِ سفرِ شام کے دیکھا کہ ایک قوم کی قوم کو تحصیل کرنے والے محصول کے ستاتے ہیں۔ آپ نے ان کو چھڑا دیا اور فرمایا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو لوگ دنیا میں عذاب دیتے ہیں وہ قیامت میں عذاب کیے جائیں گے۔ جو ملک فتح کیا جاتا اور مصالحہ کیا جاتا تو یہ شرطیں عہد نامہ میں داخل ہوتیں (۱) خراج کی تفصیل (۲) جو مسلمان ان کے ملک میں گزرے اس کی تین روز تک مہمانی کرنا (۳) راہ بتلانا (۴) دشمنوں سے سازش نہ کرنا (۵) مجرم کو پناہ نہ دینا۔

چھٹا کام ان کا زمین کی آبادی میں سعی کرنا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا کہ جو زمین بنجر کو مزرعہ کرے وہ زمین اسی کی ہو جائے گی۔ غرض اس حکم سے یہ تھی کہ لوگ زراعت کرنے لگیں۔

ساتواں کام ان کا شہروں کی آبادی تھی۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس جگہ پر جہاں اب بصرہ شہر آباد ہے، بنیاد آباد کرنے کی ڈالی اور بصرہ کو آباد کیا۔ قبل اس کے وہ مقام ایسا تھا کہ جہاں جہاز اور کشتیاں عجم اور ہند کی لنگر کرتی تھیں۔ بنظرِ حفاظت ملک کے دشمنوں سے اور بنظرِ فائدۂ تجارت کے اس شہر کو آباد کیا اور وہاں ایک فوج کی چھاؤنی مقرر کی۔ دوسرا کوفہ بھی آباد کیا ہوا ان کا ہے۔ اس کے آباد کرنے کا یہ سبب ہے کہ جب مسلمان شہر مداین میں بہت سے ہو گئے تو وہاں کی آب و ہوا بگڑ گئی اور لوگ بیمار ہو گئے۔ تب سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو عمدہ اور پھونس کے چھپر کا حکم دیا، لیکن پھر اس میں پختہ عمارت بنوانے کی اجازت دی۔

آٹھواں کام ان کا تجارت کی آزادی ہے۔ تمام لوگوں کو بِلحاظ مذہب اور دین کے تجارت کرنے کی اجازت تھی۔ بلکہ حربیوں کو حکمِ عام تھا کہ وہ مجاز ہیں کہ دارالاسلام میں آئیں اور مسلمانوں سے خرید و فروخت کریں۔ مدین شہر کے حربیوں نے درخواست کی کہ ہم کو عشر لے کر آنے کی اجازت ہو، چنانچہ ان کو اجازت دی گئی۔

سیرت و تاریخ

(جون ۱۹۹۵ء)

تلاش

Flag Counter