ہیئۃ تحریر الشام اور ابو محمد الجولانی
’’ہیئۃ تحریر الشام‘‘ کے حلب پر ڈرامائی قبضے کے ساتھ الجولانی نے شام میں جنگ کے بارے میں بہت سی توقعات کو ختم کر دیا ہے۔
صدر بشار الاسد کی وفادار حکومتی فورسز کے زبردست خاتمہ کے بعد صرف تین دنوں میں حزب اختلاف کے جنگجوؤں نے شام کے دوسرے بڑے شہر حلب پر قبضہ کر لیا۔
اس حملے کی قیادت ابو محمد الجولانی کر رہے تھے جو ’’ہیئۃ تحریر الشام‘‘ (HTS) کے سربراہ ہیں، جو شام میں حزب اختلاف کی سب سے طاقتور مسلح قوت بن چکا ہے۔
شاید ان کی بڑھتی ہوئی ساکھ کو خراب کرنے کی کوشش میں، پیر کے روز ایک تصویر آن لائن گردش میں آئی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ الجولانی روسی حملے میں مارے گئے ہیں، یہ تصویر غلط ہونے کی وجہ سے فوری طور پر رد کر دی گئی۔
وہ اب آگے مرکز میں ہیں کیونکہ ان کی افواج حلب پر کنٹرول مضبوط کرنے اور شام میں مزید علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں۔
الجولانی کا تعارف یہاں پیش کیا جا رہا ہے:
حال
’’ہیئۃ تحریر الشام‘‘ کے بانی کے طور پر الجولانی نے تقریباً ایک دہائی سے خود کو دیگر مسلح افواج سے الگ کرنے کی کوشش کی ہے جن کی توجہ بین الاقوامی کارروائیوں پر مرکوز ہے۔ اس کی بجائے ان کی شام میں ایک "اسلامی جمہوریہ" قائم کرنے پر توجہ مرکوز ہے۔
2016ء سے وہ خود کو اور اپنے گروپ کو (بشار) الاسد سے آزاد شام کے ایک خیرخواہ کے طور پر قائم کر رہے ہیں۔ (الاسد) جنہوں نے 2011ء میں عرب (ممالک کی ) انقلابی کوششوں کے دوران ایک عوامی بغاوت کو بے دردی سے دبایا، جس کے نتیجے میں ایک ایسی جنگ شروع ہو گئی جو تب سے جاری ہے۔
’’ہیئۃ تحریر الشام‘‘ نے شام کی سالویشن گورنمنٹ (حکومۃ الإنقاذ السوریۃ)کے ذریعے ادلب کی حکومت چلائی، جسے اس نے سول سروسز، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، عدلیہ اور انفراسٹرکچر فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مالیات اور امداد کی تقسیم کے انتظام کے لیے 2017ء میں قائم کیا تھا۔
تاہم کارکنوں، خبری رپورٹوں اور مقامی مانیٹروں کے مطابق ’’ہیئۃ تحریر الشام‘‘ بھی سختی سے حکمرانی کرتی ہے اور اختلافِ رائے برداشت نہیں کرتی۔
آزاد صحافتی تنظیم ’’سیریا ڈائریکٹ‘‘ نے رپورٹ کیا ہے کہ ’’ہیئۃ تحریر الشام‘‘ کا کارکنوں کی گمشدگی کے پیچھے ہاتھ ہے اور اس نے ان مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی ہے جنہوں نے تنظیم پر الزام لگایا ہے کہ وہ مخالفت کرنے والے لوگوں کو خدمات مہیا نہیں کرتی۔
ماضی
وہ احمد حسین الشرع (کے نام سے) 1982ء میں ریاض، سعودی عرب میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد پیٹرولیم انجینئر کے طور پر کام کرتے تھے۔ یہ خاندان 1989ء میں شام واپس آیا اور دمشق کے قریب آباد ہوا۔
2003ء میں عراق جانے سے پہلے دمشق میں ان کے حالات کے بارے میں معلومات بہت کم ہیں، جہاں انہوں نے اسی سال امریکی حملے کے خلاف مزاحمت کے ایک حصے کے طور پر عراق میں ’’القاعدہ‘‘ میں شمولیت اختیار کی۔
2006ء میں عراق میں امریکی افواج کے ہاتھوں گرفتار کیا گیا اور پانچ سال تک قید میں رکھا گیا۔
الجولانی کو بعد میں شام میں ’’القاعدہ‘‘ کی شاخ ’’النصرہ فرنٹ‘‘ قائم کرنے کا کام سونپا گیا جس نے حزبِ اختلاف کے زیر قبضہ علاقوں خاص طور پر ادلب میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔
الجولانی نے ان ابتدائی سالوں میں ’’القاعدہ‘‘ کی "اسلامک اسٹیٹ ان عراق" کے سربراہ ابوبکر البغدادی کے ساتھ کام کیا، جو بعد میں داعش (ISIS) بن گئی۔
اپریل 2013ء میں البغدادی نے اچانک اعلان کیا کہ ان کا گروپ ’’القاعدہ‘‘ سے تعلقات منقطع کر رہا ہے اور شام میں اثر و رسوخ بڑھائے گا، اور نتیجتاً ISIL کے نام سے ’’النصرہ فرنٹ‘‘ کو ایک نئے گروپ کے طور پر اپنے دائرہ کار میں ضم کر لے گا۔
الجولانی نے ’’القاعدہ‘‘ سے اپنی وفاداری برقرار رکھتے ہوئے اس تبدیلی کو مسترد کر دیا۔
2014ء میں اپنے پہلے ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ شام پر ان کی تنظیم کی اسلامی قانون کی تشریح کے مطابق حکومت قائم ہونی چاہیے، اور ملک کی اقلیتوں، جیسے کہ عیسائیوں اور علویوں کو جگہ نہیں دی جائے گی۔
اگلے برسوں میں الجولانی، مسلم اکثریت کے تمام ممالک میں ’’القاعدہ‘‘ کے "عالمی خلافت" کے قیام کے منصوبے سے خود کو دور کرتے ہوئے دکھائی دیے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی توجہ شام کی سرحدوں کے اندر اپنی تنظیم کا دائرہ کار قائم کرنے پر ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ادلب کے گروپوں کی نظر میں یہ تقسیم بین الاقوامی عزائم کے برخلاف (تنظیم کی ) قومیت پر مبنی عزائم کا مظہر ہے۔
پھر جولائی 2016ء میں حلب شہر تنظیم کے قبضہ میں آ گیا، اور وہاں سے مسلح گروپ ادلب کی طرف بڑھنے لگے، جو ابھی تک اپوزیشن کے زیر قبضہ تھا۔ اسی دوران الجولانی نے اعلان کیا کہ ان کا گروپ ’’جبہت فتح الشام‘‘ میں تبدیل ہو گیا ہے۔
2017ء کے اوائل تک، حلب سے نکلنے والے ہزاروں جنگجو ادلب میں داخل ہوئے، اور الجولانی نے ’’ہیئۃ تحریر الشام‘‘ بنانے کے لیے ان میں سے بہت سے گروپوں کو اپنے گروپ میں ضم کرنے کا اعلان کیا۔
واشنگٹن ڈسی کے تھنک ٹینک ’’سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز‘‘ (CSIS) کے مطابق ’’ہیئۃ تحریر الشام‘‘ کا بیان کردہ مقصد شام کو اسد کی مطلق العنان حکومت سے آزاد کرانا، ملک سے ایرانی ملیشیا کو نکالنا،اور اسلامی قانون کی اپنی تشریح کے مطابق ایک ریاست قائم کرنا ہے۔
مستقبل
جب اپوزیشن کے جنگجوؤں نے حلب پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور جنوب کی طرف بڑھنے لگے، تو ایسا لگتا ہے کہ الجولانی نے شام کی اقلیتوں کے حوالے سے زیادہ مناسب موقف اختیار کیا ہے۔
حلب پر قبضہ کرنے کے بعد سے تنظیم نے یہ یقین دہانیاں پیش کی ہیں کہ مذہبی اور نسلی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
لیونٹ (بلاد الشام) میں مصروفِ عمل مسلح گروپوں کے حوالے سے ایک شامی ماہر حسن حسن کے مطابق، الجولانی ’’ہیۃ تحریر الشام‘‘ کو شام میں ایک قابل اعتبار حکومتی قوت اور انسدادِ دہشت گردی کی عالمی کوششوں میں ممکنہ شراکت دار کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔
CSIS کے مطابق انہوں نے ادلب میں ’’القاعدہ‘‘ کی نئی شاخ ’’حراس الدین‘‘ جیسے پرانے اتحادیوں سے بچتے ہوئے ’’حرکۃ نور الدین الزنکی‘‘، ’’لیوا الحق‘‘، اور جیش السنہ جیسے دیگر مسلح اپوزیشن گروپوں کے ساتھ شراکت داری کی کوشش کی۔
’’ہیئۃ تحریر الشام‘‘ پر اس وقت اقوام متحدہ، ترکی، امریکہ اور یورپی یونین کی طرف سے ’’دہشت گرد‘‘ کا لیبل لگا ہوا ہے۔
الجولانی نے کہا ہے کہ یہ پہچان غیر منصفانہ ہے کیونکہ ان کے گروپ نے قومی (ایجنڈے) کے حق میں اپنی ماضی کی وفاداریاں ترک کر دی ہیں۔
الجولانی کے بیان کردہ قومی عزائم سے قطع نظر، شام میں حزب اختلاف کے سب سے بڑے مسلح گروپ کے سربراہ کی حیثیت سے، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ان کا اثر ظاہر ہو گا۔
(۴ دسمبر ۲۰۲۴ء)
شام میں کس کے قبضہ میں کونسا علاقہ ہے؟
(نوٹ: درج ذیل رپورٹ کا اسکرین شاٹ اس لنک پر ہے، کیونکہ ممکن ہے بعد میں ’’الجزیرہ‘‘ کی پوسٹ اپ ڈیٹ ہو جائے۔ ادارہ الشریعہ)
شامی اپوزیشن کے جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ انہوں نے کرد فورسز سے شمال مشرقی شہر دیر الزور پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ ’’منبج‘‘ کے اردگرد کئی دنوں کی لڑائی کے بعد کرد زیرقیادت سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (SDF) اور ترکی کی حمایت یافتہ سیریئن نیشنل آرمی (SNA) کی طرف سے ہونے والے جنگ بندی کے اعلان کے بعد کی صورتحال ہے۔
’’سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘‘ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں شام کے ساحلی علاقے طرطوس میں فوجی مقامات کو نشانہ بنایا گیا ہے، اور انہیں ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں اس علاقے میں ’’سب سے بھاری حملے‘‘ قرار دیا ہے۔
شام میں زمین پر کنٹرول کے لیے چار اہم گروپس مقابلہ کر رہے ہیں جو یہ ہیں:
(۱) شامی حکومتی افواج:
(اسد) حکومت کی مرکزی فوجی قوت، نیشنل ڈیفنس فورسز کے ساتھ مل کر لڑتی ہے جو حکومت کا حامی نیم فوجی گروپ ہے۔
(۲) سیریئن ڈیموکریٹک فورسز:
یہ کرد اکثریتی، امریکہ کی حمایت یافتہ گروپ، مشرقی شام کے کچھ حصوں کو کنٹرول کرتا ہے۔
(۳) ہیئۃ تحریر الشام اور دیگر اتحادی اپوزیشن گروپس:
ہیئۃ تحریر الشام سب سے بڑی جنگجو قوت ہے اور حزبِ اختلاف کے زیر قبضہ ادلب میں سب سے مضبوط گروپ ہے۔
(۴) ترکی اور ترکی سے منسلک شامی باغی افواج:
شامی قومی فوج شمالی شام میں ترکی کی حمایت یافتہ باغی فورس ہے۔
اسرائیل نے شام بھر میں سینکڑوں اہداف کو نشانہ بنایا:
بشار الاسد کی برطرفی کے بعد، اسرائیلی افواج نے شام میں اپنے سب سے بڑے فضائی حملوں میں سے ایک کا آغاز کیا ہے، جس میں 480 سے زائد مقامات کو نشانہ بنایا گیا ہے، جن میں اہم ہوائی اڈے، فضائی دفاعی تنصیبات، لڑاکا طیارے، بحری جہاز اور دیگر اسٹریٹجک انفراسٹرکچر شامل ہیں۔
لطاکیہ اور البیدا کی بندرگاہوں پر بمباری کی گئی، جبکہ تیاس ایئربیس کے ساتھ ساتھ دمشق اور قمشلی ایئرپورٹس کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی فوج کا تخمینہ ہے کہ اس نے شام کی 80 فیصد فوجی صلاحیتوں کو تباہ کر دیا ہے جسے وہ اپنی تاریخ کی سب سے بڑی جارحانہ کارروائیوں میں سے ایک قرار دیتا ہے۔
اسرائیلی فوج اور ایک شامی جنگی نگران نے کہا کہ اہداف میں یہ شامل ہیں:
۔ فضائی دفاعی نظام، راڈار، میزائل لانچرز اور فائرنگ کی پوزیشنیں۔
۔ لڑاکا طیارے، فوجی ہیلی کاپٹر اور متعدد ایئر بیسز پر ہینگرز (جہازوں کے گودام)۔
۔ کم از کم 15 بحری اہداف جن میں بحری جہاز اور میزائل بوٹس شامل ہیں۔
۔ ہتھیاروں کے ڈپو، کارخانے اور مختلف قسم کے میزائل۔
۔ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے پروگرام سے منسلک سائنسی تحقیقی مراکز
(۱۶ دسمبر ۲۰۲۴ء)
اسد حکومت کے خاتمہ کے بعد شام پر اسرائیل کے حملے
8 دسمبر 2024ء کو ’’ہیئۃ تحریر الشام‘‘ (HTS) کی زیر قیادت فورسز نے شام کے دارالحکومت دمشق پر قبضہ کرتے ہوئے اسد خاندان کی 53 سالہ حکمرانی کا خاتمہ کر دیا۔
اسرائیل نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اپنی مغربی سرحد کی حفاظت کے پیش نظر ڈرامائی طور پر پورے شام میں فضائی حملے تیز کردیئے۔
15 دسمبر تک، ACLED نے 2024ء میں شام میں 300 سے زیادہ اسرائیلی فضائی حملوں کے واقعات ریکارڈ کیے، جن میں سے ایک تہائی سے زیادہ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد ہوئے۔ یہ حملے اسی رفتار سے جاری رہے تو دسمبر 2024ء میں اسرائیلی حملوں کی تعداد پورے 2023ء کی ریکارڈ کی گئی حملوں کی تعداد سے زیادہ ہو جائے گی۔
اسد حکومت کے ہتھیاروں کو ’’ہیئۃ تحریر الشام‘‘ کی زیر قیادت نئی حکومت کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے، اسرائیل کے ان حملوں نے پہلے 48 گھنٹوں کے اندر سابق حکومت کی 70 سے 80 فیصد کے درمیان جنگی فوجی صلاحیتوں کو تباہ کر دیا۔
65 فیصد سے زیادہ اسرائیلی حملے دمشق، درعا، لطاکیہ اور دیہی دمشق کے مشرقی علاقوں میں ہوئے۔
نیز اسرائیلی فورسز اپنے زیر قبضہ گولان ہائیٹس اور شام کے درمیان موجود غیر فوجی بفرزون میں داخل ہو گئیں اور قنیطرہ، درعا، اور دمشق کے آٹھ دیہات پر کنٹرول حاصل کر کر لیا۔ جو کہ 1974ء کی یومِ کپور جنگ کے بعد ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل کا ارادہ گولان ہائیٹس میں اپنے شہریوں کی تعداد دگنا کرنا کا ہے۔
اس دوران اسرائیلی وزیر اعظم اور ’’ہیئۃ تحریر الشام‘‘ کی قیادت دونوں نے کہا ہے کہ ان کا براہ راست جنگ کا ارادہ نہیں ہے۔
(۲۰ دسمبر ۲۰۲۴ء)