(یوٹیوب چینل ’’دارالایمان والتقویٰ‘‘ پر موجود ایک ویڈیو کی گفتگو)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج کل عام لوگوں کے ذہنوں کو مشوش کرنے کے لیے یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ
- حکومت تو یہ چاہ رہی ہے کہ مدارس چونکہ تعلیمی ادارے ہیں لہٰذا وہ وزارتِ تعلیم کے ساتھ وابستہ ہونے چاہئیں،
- اور مدارس یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں تو سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہونا چاہیے، اور سوسائٹیز ایکٹ جو ہے وہ وزارتِ صنعت و تجارت سے تعلق رکھتا ہے، یا وزارتِ داخلہ سے تعلق رکھتا ہے۔
تو لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ ہم کیوں اس سوسائیٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہونا پسند کرتے ہیں، بنسبت وزارتِ تعلیم کے۔
(۱) پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ سوسائٹیز ایکٹ کیا چیز ہے؟ سوسائٹیز ایکٹ درحقیقت ایک ایسا قانون ہے جس کے تحت آپ کوئی سوسائٹی بنا سکتے ہیں، پرائیویٹ ادارہ بنا سکتے ہیں، کہ جس میں آپ کو کوئی بھی کام کرنا ہو، آپ کو تعلیم دینی ہو، کوئی رفاہی کام کرنا ہو، اپنا تربیتی ادارہ قائم کرنا ہو، پیشہ وارانہ تعلیم و تربیت کرنی ہو، یہاں تک کہ کوئی آرٹس کونسل قائم کرنی ہو، تو وہ سارے کے سارے پرائیویٹ ادارے اس سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوتے ہیں اور ہوتے چلے آرہے ہیں۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ سوسائٹیز ایکٹ پرائیویٹ اداروں کو رجسٹرڈ کرنے کا ایک ڈاکخانہ ہے کہ جس کے ذریعے پرائیویٹ ادارے ایک قانونی حیثیت حاصل کر لیتے ہیں۔
اب وہ پرائیویٹ ادارے اپنے نظام کے تحت چلتے ہیں، ان کا اپنا ایک طریقہ کار ہوتا ہے، ان کے کچھ عہدیدار ہوتے ہیں، یا مجلسِ انتظامی کے لوگ ہوتے ہیں، وہی اس کے تمام امور کے نگران ہوتے ہیں، ان کو مکمل اختیار ہوتا ہے کہ اپنی بنائی ہوئی سوسائٹی کے اندر جو چاہے کریں۔ صرف اتنا ہے کہ وہ رجسٹرڈ ہو جاتے ہیں، جس کے معنی یہ ہے کہ ان کا وجود قانونی طور پر تسلیم کر لیا جاتا ہے، لیکن اپنے اندرونی معاملات میں وہ بالکل خود مختار آزاد ہوتے ہیں۔ یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ ہم خود مختار آزاد ہیں، بلکہ جوں ہی اس میں رجسٹرڈ ہوئے، تو مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے قوانین کے تحت اپنے نظام کے تحت اپنے ادارے کو چلا سکتے ہیں۔
(۲) دوسری طرف وزارتِ تعلیم جو ہے وہ حکومت کا ایک ادارہ ہے، اور حکومت کے ادارے کی حیثیت سے وہ اپنے سارے تعلیمی نظام کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس میں یونیورسٹیاں بھی آتی ہیں، کالج بھی آتے ہیں، اسکول بھی آتے ہیں، جو سرکار کے تحت قائم ہو رہے ہیں۔ تو وہ اُس نظام کے پابند ہو جاتے ہیں۔
سادہ لفظوں میں اگر کہا جائے تو تقریباً یہ فرق ہے کہ
- اگر سوسائٹیز ایکٹ کے تحت کوئی ادارہ رجسٹرڈ ہے، وہ پرائیویٹ ہے اور اس کو اپنے نظام کو چلانے کا مکمل اختیار حاصل ہے،
- اور اگر کوئی کسی وزارت کے تحت اس کا حصہ بن گیا، تو اس وزارت کے نظام کے اندر وہ آگیا۔
ہمارے مدارس کی بنیاد حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے وقت سے ہی اس بات پر ہے کہ یہ پرائیویٹ ادارہ ہے اور اس کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے، نہ ہمیں حکومت سے کوئی امداد چاہیے، نہ حکومت سے ہمیں کوئی پیسے چاہئیں، نہ حکومت سے ہمیں مداخلت چاہیے۔ اپنے اپنے طریقہ کار پر، جو اکابر کا طریقہ کار چلا آ رہا ہے، اس کے تحت چلنا چاہتے ہیں۔ کسی ایسے ادارے کو اپنے اوپر مسلط نہیں کرنا چاہتے جو ہمارے اندرونی نظام میں دخل اندازی کرے، جو ہمارے طریقہ کار میں مداخلت کرے، جو کسی طرح بھی ہمارے مقاصد پر اثرانداز ہو، ہم مدرسہ کو اس سے آزاد رکھنا چاہتے ہیں۔
اور یہ آزادی ہمیں سوسائٹیز ایکٹ کے تحت ملتی ہے کیونکہ وہ پرائیویٹ ہے، اس میں سارے ادارے پرائیویٹ ہیں۔ بہت سے تعلیمی ادارے اب بھی سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں، اس لیے کہ وہ پرائیویٹ ہیں اور پرائیویٹ طریقے سے اپنے نظام کے تحت چلنا چاہتے ہیں۔
ہمیں اس بات پر اس لیے اصرار ہے کہ وزارتِ تعلیم کے ساتھ اگر ہم منسلک ہو گئے، اور میری تو اول روز سے یہی رائے ہے کہ اس کے ساتھ منسلک (نہیں) ہونا۔ ہم نے انتہائی دباؤ کے حالات میں اتنی سی بات تسلیم کی تھی کہ بھئی ہمارا ڈاکخانہ بدل جائے اور وزارتِ تعلیم کی طرف چلا جائے۔ لیکن جو اندیشہ تھا اور جس کی بنا پر ہم وزارتِ تعلیم میں جانے سے پرہیز کر رہے تھے، وہ اس وقت سامنے آگیا کہ ایک دن ہمارے ساتھ مذاکرات کے اندر ایک مفاہمتی یادداشت تیار ہوئی، جس کو آج معاہدہ کا نام دیا جا رہا ہے، وہ درحقیقت اصطلاحی اعتبار سے MOU ہے، memorandum of understanding، مفاہمتی یادداشت، قانونی اعتبار سے اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا، صرف یہ بات ہوتی ہے کہ ابھی بات چل رہی ہے، اس کے اندر کچھ چیزوں پر مفاہمت ہوئی۔
اس مفاہمت کا ایک حصہ یہ تھا کہ ہمارے بینک اکاؤنٹ کھلیں گے، ہم خود مختار اور آزاد رہیں گے، ہمارے غیر ملکی طلباء کو ویزے ملیں گے، اور اس میں یہ بھی تھا کہ جب تک اس پر پوری طرح عمل نہیں ہو جاتا، سوسائٹیز ایکٹ کے تحت جو مدارس رجسٹرڈ ہو رہے ہیں وہ اپنی جگہ رجسٹرڈ ہوتے چلے جائیں گے۔ لیکن یہ بات ہماری اس مفاہمتی یادداشت کے مرحلہ میں ابھی تھی کہ اسی کے ساتھ ایک ارب روپے کا بجٹ بنا کر ایک ڈائریکٹریٹ قائم کر دی گئی، ایک سابق ملٹری میجر جنرل کے ماتحت، اور اس کے لیے مختلف جگہوں پر دفاتر قائم کرنا شروع کر دیے گئے، اور اس کے مطابق رجسٹریشن کا آغاز بھی کر دیا گیا۔
تو یہ مرحلہ تھا جس میں ہمیں اس نقطہ نظر کی بالکل وضاحت سامنے آ گئی جو ہم کہتے تھے کہ ہم (وزارت) تعلیم کے اندر جائیں گے تو ہم پھر کسی نظام کے اندر پھنس کر اس کے تمام ارشادات کے تابع ہوں گے۔ اگرچہ اس میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں کہ مدارس اپنے نظام میں آزاد اور خود مختار رہیں گے، یہ لکھا ہوا ہے اس کے اندر بھی، لیکن آخر میں یہ لکھا ہوا ہے کہ وقتاً فوقتاً وزارتِ تعلیم کی طرف سے جو ہدایات آئیں گی مدارس اس کے پابند ہوں گے۔ ایک طرف یہ کہا ہے اور دوسری طرف یہ بھی کہا ہے ……
ہم بالکل واضح الفاظ میں یہ بات کہہ دینا چاہتے ہیں کہ کسی حکومت کے ماتحت ہو کر ہم نصاب و نظام کو جاری نہیں رکھ سکتے، اور رکھنا ہمارے لیے زہرِ قاتل ہے۔ ہم نے انجام دیکھے ہیں، ہم نے سعودی عرب دیکھا، امارات دیکھا، مصر دیکھا ہے، شام دیکھا ہے، اور وہاں پر مدارس کو کس طریقے سے ختم کیا گیا، مدارس کو کس طریقے سے دبایا گیا، آج وہاں ہر کوئی کلمہ حق کہنے والا موجود نہیں ہے، یا (اگر) ہو تو اس کی جگہ جیل ہوتی ہے یا اس کے اوپر تشدد کیا جاتا ہے۔
الحمد للہ پاکستان کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسلام کے لیے بنایا اور پاکستان کو درحقیقت اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسلام کا قلعہ بنایا ہے، ہم یہاں یہ صورتحال کسی قیمت برداشت نہیں کر سکتے کہ ہمارے مدارس اور ہمارے علماء اس طرح ہو جائیں کہ ان کے سامنے کچھ بھی ہوتا رہے اور وہ اپنی زبانوں کو بند رکھیں اور شیطان اخرس بن کر زندگی گزاریں۔
جب کسی بھی چیز کو گھیرنا ہوتا ہے تو شروع میں ساری پابندیاں عائد نہیں ہوتیں، شروع میں اس کے لیے ایک دام ڈالا جاتا ہے، ایک دانہ ڈالا جاتا ہے، اس کے بعد آگے جا کر اس کو کسی وقت میں گھیرا جاتا ہے، یہی طریقہ کار رہا ہے پوری تاریخ میں۔ اگرچہ اس (مفاہمتی یادداشت) میں لکھا ہوا ہے کہ اپنے نظام میں آزاد و خود مختار رہیں گے، لیکن اس کے باوجود ایک مرتبہ جب اس دائرے کے اندر آگئے، اور اس میں یہ لفظ موجود ہیں کہ وزارتِ تعلیم کی طرف سے وقتا فوقتاً ملنے والی ہدایات جو ملتی رہیں گی، اس کے پابند ہوں گے۔
تو اب آپ دیکھیے آج کسی کی حکومت ہے، کل کسی اور کی حکومت ہو گی۔ وہ لوگ بھی حکومت میں وزارتِ تعلیم کے اندر آئیں گے جو یہ کہہ رہے ہیں کہ مدارس جو ہیں وہ جہالت کی یونیورسٹیاں ہیں، جنہوں نے علی الاعلان یہ بات کہی ہے، جنہوں نے یہ کہا ہے کہ مدارس تو یہ سکھاتے ہیں کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا۔ گویا مذاق اڑا کر کہ ’’مرنے کے بعد کیا ہو گا‘‘ کے حالات پڑھانے والے مدارس ہیں، یہ دنیا کی موجودہ زندگی کے ساتھ کیسے چل سکتے ہیں؟ وہ بھی تعلیم کے نظام کے اندر آ سکتے ہیں- کل کو کون آتا ہے، کچھ نہیں کہا جا سکتا، لہٰذا مدارس کو اس دائرے کے اندر لانے کے ہم بالکل سختی کے ساتھ مخالف ہیں۔
اور چونکہ سوسائٹیز ایکٹ پرائیویٹ اداروں کا قانون ہے، اس واسطے ہم پرائیویٹ مدارس کے طور پر (اسے) استعمال کرنا چاہتے ہیں (اور) اپنا کام کرنا چاہتے ہیں، جس میں ہمارے کام میں کوئی مداخلت نہ ہو۔ ہم خود الحمد للہ اس حقیقت سے پوری طرح باخبر ہیں، وفاق المدارس پوری طرح باخبر ہے اور اس بات کا یقین رکھتا ہے کہ ہمیں ایک عالم کو موجودہ دور کے اندر اپنا پیغام بہتر طریقے سے پیش کرنے کے لیے جن معلومات کی ضرورت ہے، ہم اپنے مدارس میں وہ معلومات پڑھانا چاہتے ہیں۔ ہم اس لیے نہیں پڑھانا چاہ رہے، جو ساری دنیا یہ نامعقول بات کہتی ہے کہ مدارس سے ڈاکٹر کیوں نہیں پیدا ہوتے، لائیر کیوں نہیں پیدا ہوتے، انجینئر کیوں نہیں پیدا ہوتے، کسی ملٹری کے اندر کمیشن کیوں نہیں لیتے، اور اس بات کو بڑے فخر کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے کہ فلاں مدرسہ کے لوگ کمیشن لے چکے ہیں، وہ بریگیڈیئر بن چکے ہیں۔
ارے بھائی! یہ مدرسہ کرنل اور بریگیڈیئر پیدا کرنے لیے نہیں تھا، یہ قرآن و سنت کا علم محفوظ کرنے لیے تھا، یہ عالم پیدا کرنے کے لیے تھا۔ یہ بتاؤ کہ پورے پاکستان کے اندر کون سے سرکاری ادارے میں اسلام کی تعلیم دی جا رہی ہے؟
حافظ اتنے پیدا ہو رہے ہیں اس ملک کے اندر۔ کسی مسجد کے اندر کبھی یہ اعلان نہیں سنا گیا ہو گا کہ ہمارے ہاں تراویح پڑھانے کے لیے حافظ نہیں ہے، ہمیں فراہم کیا جائے۔ حافظ زیادہ ہیں، مسجدیں کم ہیں۔ کہاں سے پیدا ہو رہے ہیں یہ حافظ جو قرآن کریم کی خدمت انجام دے رہے ہیں اور تراویح پڑھانے کے لیے موجود ہیں۔ یہ کہاں سے آرہے ہیں؟ کسی کالج سے؟ کسی یونیورسٹی سے؟ کسی انسٹیٹیوٹ سے؟ یہی مدارس ہی ہیں جو یہ سب پیدا کر رہے ہیں۔
کوئی آدمی یہ بتائے کہ کیا اس معاشرے کی ضرورت نہیں ہے کہ اگر کسی شخص کو کوئی دینی مسئلہ پیش آجائے تو اس کا جواب دینے والا کوئی موجود ہو؟ ساری دنیا دیکھ لے کہ اگر کسی مسلمان کو کوئی نکاح طلاق کا بھی مسئلہ پوچھنا ہوتا ہے، بیع و شراء کا بھی پوچھنا ہوتا ہے، نماز اور روزے کا پوچھنا ہوتا ہے، تو وہ کیا کسی یونیورسٹی کے پروفیسر کے پاس جاتے ہیں جس نے ایم اے اسلامیات کی ڈگری لے رکھی ہے؟ یا کسی یونیورسٹی کے پروفیسر کے پاس جاتے ہیں جو اسلامک اسٹڈیز پڑھا رہا ہے؟ وہ اگر جاتے ہیں تو ان لوگوں کے پاس جاتے ہیں جن کے پاس قرآن و حدیث، فقہ، اصولِ فقہ کا پورا علم ہے۔ کیوں جاتے ہیں؟ اس لیے کہ یہ جانتے ہیں کہ صحیح علم ان کے پاس ہے، دین ان کو صحیح طریقے سے آتا ہے۔
یہ سارا کام مدارس اس لیے کر رہے ہیں اور اس طرح کر رہے ہیں کہ ہم کسی کے تسلط کے روادار نہیں ہیں، ہم وہ بات کہیں گے جو قرآن کہتا ہے، ہم وہ بات کہیں گے جو حدیث کہتی ہے، ہم وہ بات کہیں گے جو ہمارا دین کہتا ہے۔ اس وجہ سے ہم کوئی مداخلت کسی قیمت پر برداشت نہیں کر سکتے، اگر کریں گے تو ہم اپنے فرضِ منصبی میں زبردست کوتاہی کے، اور اللہ اور رسول کے کے ساتھ جو ہم نے عہد کیا ہے، اس سے غداری کے مرتکب ہوں گے۔
اس لیے یہ فرق ہے سادہ لفظوں میں کہ مدارس پرائیویٹ رہیں یا سرکار کے تحت رہیں؟ سیدھی سی بات یہ ہے کہ پرائیویٹ رہیں یا سرکاری تسلط میں رہیں؟ بنیادی سوال یہ ہے۔
- تو چونکہ سوسائٹیز ایکٹ میں ہم پرائیویٹ طریقے پر (کام) کر رہے ہیں، اس کا صنعت و تجارت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس کا تعلق ایک سوسائٹی سے ہے، اس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے، سوسائٹی کچھ بھی کر سکتی ہے۔ جس طرح ایک ٹرسٹ ہوتا ہے، وہ جو چاہے کر سکتا ہے، اسی طرح سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہو کر ایک سوسائٹی بنتی ہے اور وہ اپنے نظام کے مطابق جو چاہے کر سکتی ہے۔
- اور وزارتِ تعلیم میں جائیں گے تو ہم سرکار کے ماتحت ہوں گے۔
یہ ہماری گزارشات ہیں، یہ ہے ہمارا اصل مقصود، اور اس وجہ سے ہم اس پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ان شاء اللہ ڈٹے رہیں گے. واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔