مدارس رجسٹریشن ایکٹ، صدارتی آرڈی نینس اور مولانا فضل الرحمٰن

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

مدارس کی رجسٹریشن: قانونی سوالات

ہمارے ملک کا تعلیمی نظام بھی عجیب ہے۔ ایک جانب سکول، کالج اور یونیورسٹیاں ہیں جو سرکاری، نیم سرکاری، نجی اور پھر طبقاتی تقسیم پر مشتمل ہیں۔ دوسری جانب دینی مدارس ہیں جن کو عموماً اس نظام سے باہر ایک ”غیر“ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ 

دینی مدارس کو مسئلہ اور سکول، کالج و یونیورسٹی کو حل سمجھا جاتا ہے۔ ”مسئلے“ کے ”حل“ کے لیے بعض حکومتوں نے چند دینی مدارس کو اپنی تحویل میں لیا (جیسے ریاستِ سوات میں گورنمنٹ دارالعلوم الاسلامیہ سیدو شریف)، پھر ان میں بعض کو یونیورسٹی میں تبدیل بھی کر لیا (جیسے ریاستِ بہاولپور کاجامعہ عباسیہ، جسے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کر دیا گیا)، لیکن ان کی حالت دیکھ کر دینی مدارس نے بجا طور پر یہ پوزیشن لی کہ اگر ”مین سٹریم“ میں آنا ایسا ہوتا ہے، تو ہم لنڈورے ہی بھلے! جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایک کوشش بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے قیام کی صورت میں کی گئی لیکن جنرل مشرف کے دور میں اس کی بین الاقوامیت بھی ختم ہو گئی اور اسلامیت بھی، اور نری یونیورسٹی باقی رہ گئی۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران میں یکساں نصابِ تعلیم کے لیے بھی کوششیں کی گئیں لیکن اس کی زیادہ مزاحمت دینی مدارس کے بجائے اشرافیہ کے سکولوں نے کی۔

انگریزوں کے دور سے رائج سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ کے تحت ویسے بھی نوکر شاہی کو سارا اختیار تھا، لیکن نائن الیون کے بعد بدلتے حالات میں جنرل مشرف کی حکومت نے مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ خصوصاً بہت مشکل کر دیا اور وزارتِ داخلہ کے تسلط کے بعد ایجنسیوں کی مداخلت کی شکایات بھی بڑھ گئیں۔ 

وقت تھوڑا بدلا، تو چودھری نثار علی خان کی وزارتِ داخلہ نے اسی قانون کو ان این جی اوز کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا جن کو مغرب سے فنڈنگ دی جاتی تھی اور معاملہ کسی حد تک ”بیلنس“ ہوگیا۔

بہت مغزماری اور طویل مذاکرات کے بعد بالآخر ۲۰۱۹ء میں دینی مدارس اور حکومت کے درمیان معاملات یوں طے پائے کہ رجسٹریشن کا معاملہ وزراتِ تعلیم کے تحت کر دیا گیا، لیکن اس مقصد کے لیے جو ڈائریکٹریٹ بنائی گئی تو ایک ریٹائرڈ میجر جنرل کو اس کا سربراہ بنا دیا گیا، اور معاملہ انگریزی محاورے کے مطابق واپس پہلے خانے تک آگیا!

بہرحال اس معاملے میں مدارس کے اکابر کے درمیان تقسیم پیدا کرنے میں حکومت کامیاب ہو گئی اور ایک طرف مدارس کے کئی نئے بورڈ وجود میں آگئے جن سے بعض مدارس نے الحاق بھی کر لیا، اور دوسری طرف ان مدارس نے وزارتِ تعلیم کے ڈائریکٹریٹ کے ساتھ رجسٹریشن شروع کی۔ تاہم یہ حقیقت ماننی چاہیے کہ مدارس کی غالب اکثریت اس معاملے سے دور رہی۔

رجسٹریشن کے معاملے میں ایک راستہ کمپنیز ایکٹ کے تحت بطور پرائیویٹ کمپنی کام کرنے کا ہے۔ کمپنی اور پارٹنرشپ میں ایک بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ کمپنی کو قانون ایک الگ شخص کی حیثیت دیتا ہے۔ اور کمپنی بنانے والے رہیں یا نہ رہیں، کمپنی کا قانونی وجود برقرار رہتا ہے۔ کمپنی پبلک بھی ہوتی ہے اور پرائیویٹ بھی۔ پھر دونوں صورتوں میں ذمہ داری یا تو ”غیر ادا شدہ شیئرز“ کی حد تک ہوتی ہے یا ”جس حد تک گارنٹی دی گئی ہو“۔ اب اگر ایسی پرائیویٹ کمپنی ہے جس میں ذمہ داری گارنٹی کی حد تک ہو، تو سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے تحت ایسی رجسٹریشن، سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کی بہ نسبت، فلاحی اداروں کے لیے بہت بہتر آپشن ہے جس کے قانونی فوائد بھی بہت ہیں۔ لیکن عام طور پر لوگ اس کی طرف شاید اس لیے متوجہ نہیں ہوتے کہ ان کے خیال میں کمپنی صرف کاروبار کے لیے ہوتی ہے حالانکہ دنیا بھر میں کمپنی کی یہ قسم فلاحی اداروں کے لیے آئیڈیل سمجھی جاتی ہے۔

یہ مسئلہ اس سال اکتوبر میں ۲۶ویں ترمیم کے موقع پر بھی سامنے آیا جب حکومتی اتحاد کو ترمیم کے لیے مولانا فضل الرحمان صاحب کا تعاون درکار تھا۔ اس تعاون کے مقابل میں مولانا نے آئینی ترمیم میں سود کے خاتمے کے لیے مدت کے تعین، اور اسلامی نظریاتی کونسل اور شریعت اپیلیٹ بنچ کی فعالیت یقینی بنانے کے علاوہ، سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ میں ترامیم بھی تجویز کیں۔ یہ ترمیمی ایکٹ ۲۱ اکتوبر کو پارلیمان سے منظور کیا گیا اور اسے صدر کے پاس دستخطوں کے لیے بھیج دیا گیا۔

آئین کی دفعہ ۷۵ کے تحت صدر پابند تھے کہ وہ ۱۰ دنوں میں یا تو اس پر دستخط کر لیتے اور یوں اسے قانون کی حیثیت مل جاتی، یا اگر انہیں اس پر کوئی اعتراض تھا، تو اعتراض لگا کر واپس کر دیتے۔ تاہم میڈیا رپورٹوں کے مطابق صدر کے اعتراضات کے ساتھ بل کو ۵ دسمبر کو واپس پارلیمان بھیج دیا گیا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ۱۰ دن گزرنے پر یہ بل قانون نہیں بن گیا تھا؟ دفعہ ۷۵ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں دو راؤنڈ ذکر کیے گئے ہیں:

  1.  پہلے راؤنڈ میں اگر صدر نے دس دن کے اندر نہ دستخط کیے، نہ ہی بل واپس کیا، تو بل کے قانون بن جانے کے معاملے میں آئین خاموش ہے۔ البتہ حکومت کا عام طرزِ عمل یہ رہا ہے کہ اگر ۱۰ دن کی مدت کے بعد بھی صدر نے بل واپس بھیج دیا تو پارلیمان نے اس پر دوبارہ ووٹنگ کی ہے۔
  2.  اور دوسری دفعہ کی منظوری کے بعد بھی صدر نے مقررہ دنوں میں دستخط نہیں کیے تو دفعہ ۷۵ میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ مدت گزرنے پر فرض کر لیا جاتا ہے کہ صدر نے دستخط کر لیے ہیں، اور بل قانون بن جاتا ہے۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اس کی مثال ہے۔

میرے نزدیک بھی اصولاً یہ بات درست ہے کہ پہلے راؤنڈ میں صدر کے دستخطوں کے بغیر بل قانون نہیں بنتا۔ تاہم اگست ۲۰۲۳ء میں جب حکومت نے آفیشل سیکرٹس ایکٹ میں ترامیم کیں اور صدر نے اس پر دستخط نہیں کیے، تو دوسرے راؤنڈ میں لے جائے بغیر ہی گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا کہ صدر کے دستخط فرض کر لیے گئے ہیں اور یہ ترامیم اب قانون کا حصہ بن گئی ہیں۔ اس لیے اب کوئی فیصلہ کرنا ہے:

  •  اگر اس کی پوزیشن یہ ہے کہ پہلے راؤنڈ میں ۱۰ دن کے بعد بل خود قانون نہیں بنتا، تو آفیشل سیکرٹس ایکٹ والی ترامیم سے بھی دستبردار ہونا ہو گا؛
  •  اور اگر وہ یہ کہے کہ ۱۰ دن گزرنے پر بل قانون بن جاتا ہے، تو اسے ماننا ہوگا کہ مدرسوں والا بل بھی قانون بن چکا ہے۔

میڈیا میں صدر کا ایک یہ اعتراض نقل کیا گیا ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن صوبائی معاملہ ہے، اس لیے اس پر قانون سازی صوبوں کو کرنا چاہیے۔ اس عذر میں وزن نہیں ہے کیونکہ کوئی ایسا قانون نہیں ہے جو اسے صوبائی معاملہ بناتا ہے۔ یہ اعتراض تو مدارس سے زیادہ یونیورسٹیوں پر عائد ہوتا ہے جن پر ابھی تک ہایئر ایجوکیشن کمیشن کو مسلط کیا گیا ہے حالانکہ ۱۸ویں ترمیم کے بعد انہیں صوبوں کے تحت ہونا چاہیے تھا۔ 

دوسرا اعتراض یہ نقل کیا گیا ہے کہ یہ ترامیم اسلام آباد میں نافذ قانونِ وقف سے متصادم ہیں۔ یہ عذر بھی وزن نہیں رکھتا کیونکہ قوانین کی تعبیر و تشریح عدالت کا کام ہے۔

مقدمہ اصل میں تعلیمی اداروں کی خود مختاری کا ہے جو یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کو لڑنا چاہیے تھا لیکن ان کے ذمے کا قرض اہلِ مدارس تنہا ادا کر رہے ہیں۔

(۱۳    دسمبر ۲۰۲۴ء)

https://www.roznama92news.com

مدارس رجسٹریشن ایکٹ اور آرڈیننس: ویل ڈن، مولانا صاحب!

مولانا فضل الرحمان صاحب کے ساتھ مذاکرات کے بعد وزیرِ اعظم کے مشورے پر صدر آصف علی زرداری نے پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور شدہ سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی بل 2024ء پر دستخط کر لیے ہیں اور اب اسے باقاعدہ اور مستقل قانون کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔

اس قانون کے چیدہ نکات پر میں پہلے ہی لکھ اور بول چکا ہوں، وہ باتیں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ایک بات کی یاددہانی ضروری ہے کیونکہ اس کے بعد ہی اگلی بات سمجھ میں آسکے گی جس کے لیے صدارتی آرڈی نینس جاری کیا گیا ہے۔

وہ بات یہ ہے کہ اس مستقل قانون کی رو سے مدارس کی رجسٹریشن سوسائٹیز ایکٹ کے تحت کرنی لازم ہے اور اس کا اطلاق ان مدارس پر بھی ہوتا ہے جو ابھی وجود میں نہیں آئے، اور ان پر بھی جو وجود میں تو آئے ہیں لیکن انھوں نے ابھی نہ تو اس قانون کے تحت رجسٹریشن کی ہے، نہ ہی وزارتِ تعلیم کے ساتھ رجسٹریشن کی ہے۔

البتہ ان مدارس کا معاملہ مختلف ہے جو پہلے سے موجود ہیں اور انھوں نے وزارتِ تعلیم کے ساتھ رجسٹریشن کی ہے۔ میرے فہم کے مطابق تو انھیں استثنا حاصل ہے، یعنی ان پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوگا، لیکن ان مدارس والوں کو اطمینان نہیں تھا، اس لیے میں نے یہ تجویز دی تھی کہ ان کے لیے ایسے الفاظ کا اضافہ کیا جائے کہ ”خواہ انھوں نے رائج الوقت کسی بھی قانون کے تحت رجسٹریشن کی ہو“۔

شاگردِ عزیز رفیق اعظم بادشاہ کے ساتھ بنوریہ عالمیہ کے لیے اس موضوع پر پوڈ کاسٹ میں اس ناچیز نے یہ بات بھی واضح کی کہ وزارتِ تعلیم کے ساتھ رجسٹریشن کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی ہے اور یہ بہت بڑا خلا ہے۔ خیر، اس موضوع پر الگ سے گفتگو کی ضرورت ہے۔

اس وقت یہ بات ملاحظہ کرنے کی ہے کہ ان مدارس کو اس قانون کے اطلاق سے بچانے کے لیے فوری طور پر ایک صدارتی آرڈی نینس جاری کیا گیا ہے جس کے ذریعے اس قانون میں کئی ترامیم کی گئی ہیں۔ ان میں دو ترامیم بہت اہم ہیں:

  1. ایک یہ کہ سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کے لیے shall کا لفظ ختم کر کے may کردیا گیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب یہ رجسٹریشن لازمی نہیں ہے بلکہ اختیاری ہو گئی ہے؛
  2. دوسری یہ کہ جو مدارس اس ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کرنے کے بجاے کسی اور بندوبست (dispensation) کے تحت رجسٹریشن کرنا چاہیں وہ اس کے لیے آزاد ہیں اور وہ وزارتِ تعلیم کے ڈائریکٹریٹ براے مذہبی تعلیم کے ساتھ رجسٹریشن کر سکتے ہیں۔

اس طرح مولانا فضل الرحمان صاحب نے یہ بات تو منوا لی ہے کہ پارلیمان کا بنایا ہوا قانون ہی اصل اور مستقل قانون ہے، البتہ انھوں نے ان مدارس کے لیے جو اس قانون کے اطلاق سے بچنا چاہتے تھے، صدارتی آرڈی نینس کے ذریعے گنجائش مان لی ہے۔

تاہم یہ بات یاد رہے کہ آرڈی نینس ایک عارضی قانون ہے اور چار مہینے بعد اس نے ختم ہونا ہے، الا یہ کہ پارلیمان اسے منظور کر لے، یا پھر سے صدر اسے آرڈی نینس کے طور پر جاری کر دے۔

اس سے دو اہم نتائج سامنے آتے ہیں:

  1. ایک یہ کہ مولانا نے ان مدارس کے لیے جو گنجائش پیدا کی، اس پر ان مدارس کو مولانا کا شکرگزار ہونا چاہیے، لیکن آگے کا کام ان مدارس والوں نے خود ہی کرنا ہے؛ اب وہ یہ بہانہ بھی نہیں کر سکتے کہ ہمیں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ کب قانون بنا اور ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا؛
  2. دوسرا یہ کہ ایف اے ٹی ایف وغیرہ کا بہانہ محض بہانہ تھا؛ اصل میں ان مدارس کے لیے گنجائش پیدا کرنی تھی جو اس ایکٹ کے اطلاق سے بچنا چاہتے تھے اور وزارتِ تعلیم کے ڈائریکٹریٹ کے ساتھ رجسٹریشن چاہتے تھے۔ ان مدارس کو بچانے کی فکر ایف اے ٹی ایف کو نہیں تھی، تو کیا اب کیا یہ بھی بتاؤں کہ یہ فکر کن کو تھی اور کس نے اتنا عرصہ اس بل کو قانون بننے سے روکے رکھا؟

بہرحال، آخری تجزیے میں مولانا فضل الرحمان ہی اس معرکے کے فاتح ہیں۔ انھوں نے نہ صرف اپنے موقف کی حقانیت منوالی ہے، بلکہ اپنے خلاف موقف رکھنے والوں کے لیے بھی (عارضی ہی سہی) گنجائش پیدا کر لی ہے، اور پردے کے پیچھے چھپے اصل ایکٹروں کو بھی آشکارا کر دیا ہے۔

ویل ڈن، مولانا صاحب!

(۲۹ دسمبر ۲۰۲۴ء)

https://www.facebook.com/JUIAnswersBack

مدارس و جامعات / تعلیم و تعلم

(الشریعہ — جنوری ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جنوری ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter