دینی مدارس: چند شکایات پر ایک نظر

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بیشتر مسلم ممالک پر برطانیہ، فرانس، ہالینڈ، پرتگال اور دیگر استعماری قوتوں کے تسلط سے قبل ان ممالک میں دینی تعلیمات کے فروغ کو ریاستی ذمہ داری شمار کیا جاتا تھا۔ اور ہر مسلمان حکومت اپنے ملک کے باشندوں کو قرآن و سنت کی تعلیمات اور دینی احکام و فرائض سے آگاہ کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتی تھی جس کے لیے ہر ریاستی نظام میں خاطر خواہ بندوبست موجود ہوتا تھا۔ مگر جب استعماری قوتوں نے مختلف حیلوں اور ریشہ دوانیوں سے مسلم ممالک کے اقتدار پر قبضہ کر کے ان ملکوں کے نظام تبدیل کیے تو دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی شعبہ میں بھی تبدیلی کر کے مسلم عوام کو دینی تعلیم کے صدیوں سے چلے آنے والے تسلسل سے محروم کر دیا۔

اس صورتحال میں آسمانی تعلیمات کے تحفظ، دینی تعلیمات کے فروغ، اور مسلم عوام کو قرآن و سنت کی تعلیمات و احکام سے آراستہ کرنے کی ذمہ داری کو اپنا بنیادی اور ناگزیر فریضہ سمجھتے ہوئے مسلمانوں کی مذہبی قیادت نے اس کے لیے امدادِ باہمی کی بنیاد پر رضاکارانہ اور پرائیویٹ تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی، جو آج مختلف مسلم ممالک بالخصوص جنوبی ایشیا کے ممالک میں ہزاروں بلکہ لاکھوں دینی مدارس کی شکل میں موجود ہے۔ برصغیر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں مغل حکومت کے دور میں ’’درسِ نظامی‘‘ کا یہی نصاب ملک کا سرکاری نصاب تعلیم تھا جو آج ضروری ترامیم اور تبدیلیوں کے ساتھ اسی نام سے دینی مدارس میں رائج ہے۔

دینی مدارس کے موجودہ نظام کی بنیاد امدادِ باہمی اور عوامی تعاون کے ایک مسلسل عمل پر ہے جس کا آغاز ۱۸۵۷ء کے جہادِ آزادی میں مسلمانوں کی ناکامی کے بعد اس جذبہ کے ساتھ ہوا تھا کہ اس معرکۂ حریت کو مکمل طور پر کچل کر فتح کی سرمستی سے دوچار ہو جانے والی فرنگی حکومت سیاسی، ثقافتی، نظریاتی اور تعلیمی محاذوں پر جو یلغار کرنے والی ہے، اس سے مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ اور تہذیب و تعلیم کو بچانے کی کوئی اجتماعی صورت نکالی جائے۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے دیوبند میں مدرسہ عربیہ، سہارنپور میں مظاہر العلوم اور مراد آباد میں مدرسہ شاہی کا آغاز ہوا، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت اور افغانستان کے طول و عرض میں ان مدارس کا جال بچھ گیا۔ ان مدارس کے لیے بنیادی اصول کے طور پر یہ بات طے کر لی گئی کہ ان کا نظام کسی قسم کی سرکاری یا نیم سرکاری امداد کے بغیر عام مسلمانوں کے چندہ کی بنیاد پر چلایا جائے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ انتہائی سادگی اور قناعت کے ساتھ ان مدارس نے برصغیر کے مسلمانوں کی بے پناہ دینی و علمی خدمات سرانجام دیں۔

دینی مدارس کے بارے میں شکایات کے حوالے سے ہم تفصیل کے ساتھ کئی بار گزارش کر چکے ہیں، مثلاً‌:

(۱) ان مدارس میں قرآن کریم اور حدیثِ نبویؐ کے اصلی اور محفوظ ذخیرہ کی کسی ترمیم کے بغیر تعلیم دی جاتی ہے، جس میں کسی اسلامی ملک میں اسلام کا ریاستی کردار، جہاد کے احکام، شرعی سزاؤں کا نفاذ، خاندانی نظام کے اسلامی قوانین، خلافت و حکومت کے فرائض و اہمیت، اور دنیا کے دیگر تمام مذاہب پر اسلام کی علمی و فکری برتری کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ سب باتیں مغرب اور ان کے ہمنوا مسلم ممالک کے مقتدر حلقوں کے لیے قابلِ قبول نہیں ہیں۔

مغرب اسلام کی تعلیمات کو اسی دائرے میں محدود کر دینا چاہتا ہے جس دائرے میں اس نے امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا کے مسیحی ممالک میں مسیحیت کو محدود کر دیا ہے، اور وہ دائرہ عقائد، عبادات اور اخلاق کی ان تعلیمات کا ہے جن کا تعلق کسی شخص کے ساتھ صرف ذاتی حد تک ہے جبکہ معاشرتی زندگی حتیٰ کہ خاندانی زندگی میں بھی مذہب کی تعلیمات کی بالادستی اور عملداری کو قبول کرنے کے لیے مغرب تیار نہیں ہے۔

(۲) یہ بات کہی جاتی ہے کہ یہ مدارس بنیاد پرستی کو فروغ دے رہے ہیں جو گلوبلائزیشن کے اس دور میں ملٹی نیشنل کلچر اور مشترکہ عالمی معاشرے کی تشکیل میں رکاوٹ ہے۔ جہاں تک بنیاد پرستی کا تعلق ہے، اگر اس سے مراد یہ ہے کہ مدارس عام مسلمانوں کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے وابستہ رکھے ہوئے ہیں، جس کی بدولت مسلم معاشرہ میں اس سولائزیشن کے فروغ میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے جو مذہب کے اجتماعی کردار کی نفی کرتے ہوئے سوسائٹی کی اجتماعی عقل و خواہش کی بنیاد پر سیکولر ثقافت کو پوری دنیا پر مسلط کرنے کے درپے ہے، تو دینی مدارس کو اس الزام کے قبول کرنے سے کوئی انکار نہیں ہے۔ بلکہ وہ اسے اپنے لیے الزام کی بجائے اعزاز اور کریڈٹ سمجھتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں کہ ان کے اس کردار کی اثر خیزی کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔

دینی مدارس کا بنیادی موقف ہی یہ ہے کہ انسانی سوسائٹی کی راہنمائی اور قیادت کے لیے انفرادی، طبقاتی، یا اجتماعی عقل و خواہش کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کی نگرانی اور بالادستی ضروری ہے۔ اور اس سے ہٹ کر اباحیت مطلقہ اور ہمہ نوع آزادی کی بنیاد پر جو کلچر ’’گلوبل سولائزیشن‘‘ کے نام پر فروغ دیا جا رہا ہے وہ سراسر غلط ہے، گمراہی ہے، اور نسلِ انسانی کو مزید تباہی و انارکی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔ اگر دینی مدارس اس موقف میں لچک پیدا کر لیں تو خود ان کا مقصدِ وجود ختم ہو کر رہ جاتا ہے اور ان کے باقی رہنے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ اس لیے اس معاملہ میں دینی مدارس کسی قسم کی کوئی لچک قبول کرنے کے روادار نہیں ہیں۔

(۳)  جہاں تک دینی مدارس کے نظام و نصاب پر نظرثانی اور اسے بہتر بنانے کے لیے ہماری اور ہمارے دیگر ہم خیال دوستوں کی خواہش اور تجاویز کا تعلق ہے، ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ دینی مدارس کا یہ نظام جن مقاصد کے لیے وجود میں لایا گیا تھا، ان کے حوالہ سے آج کے دور کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے جو کمزوریاں محسوس ہو رہی ہیں ان کو دور کیا جائے، اور جدید دور نے جو چیلنج علمی اور ثقافتی طور پر ہمارے سامنے رکھ دیا ہے، اس کا سامنا کرنے کے لیے دینی مدارس کے فضلاء کو علمی، فکری اور سائنٹیفک بنیادوں پر تیار کیا جائے۔

مثلاً ایک نوجوان عالم دین کا انگریزی زبان سے واقف ہونا ضروری ہے، کمپیوٹر سے استفادہ کی اہلیت لازمی ہے، تاریخِ عالم کے مختلف ادوار، مذاہب عالم کی تقابلی صورتحال، اسلامی تاریخ، مسلمانوں کے زوال کے اسباب، موجودہ عالمی ثقافتی کشمکش کے شعور و ادراک اور عالمی فکری تحریکات کے تصادم اور ٹکراؤ کی معروضی صورتحال کے ساتھ ساتھ اجتماعی نفسیات کے اصولوں پر پبلک ڈیلنگ کے تقاضوں سے آگاہی ناگزیر ہے۔ ہم درسِ نظامی کے نصاب اور تربیتی نظام میں ان امور کا اضافہ ضروری سمجھتے ہیں لیکن دینی مدارس کے جداگانہ تشخص، آزادانہ کردار اور روایتی تسلسل کے تحفظ کو اس سے بھی زیادہ ضروری خیال کرتے ہیں۔

(۴) ایک سوال قومی اجتماعی دھارے سے الگ رہنے اور جداگانہ تشخص قائم رکھنے کا ہے۔ اس کا تعلق بھی ان مدارس کے مقصدِ وجود سے ہے۔ کیونکہ جب تک ریاستی نظام ہمارے معاشرہ میں دینی تعلیمات کے فروغ، مساجد کے لیے ائمہ کی فراہمی، دینی رہنمائی کے لیے علماء کی تیاری، اور قرآن و سنت کی تعلیم کے لیے اساتذہ مہیا کرنے کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا اور اس کے لیے قابلِ قبول عملی نظام پیش نہیں کرتا، اس وقت تک ان مدارس کے قیام و وجود کی ضرورت بہرحال باقی رہے گی۔ ورنہ وہی خلا پیدا ہو جائے گا جس کو پر کرنے کے لیے مدارس قائم کیے گئے تھے اور اس خلا کو باقی رکھنے کا کوئی باشعور مسلمان رسک نہیں لے سکتا۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے نہ صرف ان مدارس کا وجود ضروری ہے بلکہ ان کی اس مالیاتی خودمختاری، انتظامی آزادی، اور نصابی تحفظات کا برقرار رکھنا بھی ناگزیر ہے جس کے بغیر یہ اپنا کردار اعتماد کے ساتھ ادا نہیں کر سکتے۔

اس لیے دینی مدارس کے جداگانہ تعلیمی نظام اور معاشرہ میں ’’دو ذہنی‘‘ اور ’’تعلیمی دوئی‘‘ کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری ریاستی نظام پر عائد ہوتی ہے جو اس کردار کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جو ان مدارس کے جداگانہ وجود کا باعث ہے۔ جبکہ ان مدارس کو اجتماعی دھارے میں شامل کرنے کی خواہش کا مسلسل اظہار کرنے کا منطقی نتیجہ معاشرہ میں دینی تعلیم کے اس نظام کو یکسر ختم اور بے اثر کر دینے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

(۵) ہمارے مقتدر حلقے دینی مدارس کے طلبہ کو قوم کے لیے ’’کارآمد شہری‘‘ بنانے کی بات بھی کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت دینی تعلیم کے مختلف شعبوں میں جو لوگ کام کر رہے ہیں، وہ ملک کے کارآمد شہری نہیں ہیں؟ اور یہ بات محض قیاس آرائی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ ہمارے مقتدر طبقوں کے نزدیک دینی تعلیم کے حوالہ سے خدمات سرانجام دینے والے لوگ مثلاً‌ حافظ، قاری، خطیب، امام، مدرس، مفتی اور مبلغ ملک و قوم کے کارآمد شہری تصور نہیں ہوتے، انہیں معاشرہ کا ’’عضو بیکار‘‘ سمجھا جاتا ہے اور انہیں مفت خوری کا طعنہ دے کر کوئی متبادل روزگار تلاش کرنے کی عام طور پر تلقین کی جاتی ہے۔

اس کا ایک خاص پس منظر ہے اور اس کے ڈانڈے بھی مغرب کے فلسفہ و فکر سے ملتے ہیں کہ جس طرح مغرب میں مذہب کو ایک زائد از ضرورت چیز تصور کر لیا گیا ہے اور مذہب کے کسی بھی معاشرتی کردار کو قبول نہ کرتے ہوئے اسے صرف ایک فرد کی ذاتی اور شخصی ذہنی تسکین کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، اسی طرح ہمارے ہاں بھی مقتدر حلقوں کو مذہب کی اس کے سوا کوئی ضرورت و افادیت دکھائی نہیں دیتی۔ اس لیے ظاہر بات ہے کہ جب خود دین و مذہب کو معاشرہ اور سوسائٹی کے لیے کارآمد چیز نہیں سمجھا جائے گا تو اس کے لیے کام کرنے والے آخر کس طرح ملک کے کارآمد شہری تصور کیے جا سکتے ہیں؟

(۶) دینی مدارس سرکاری امداد کیوں نہیں قبول کرتے؟ ۱۹۷۲ء میں جب مولانا مفتی محمودؒ صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ تھے۔ ان کی حکومت پر ملک کے دینی حلقوں میں بڑی خوشی محسوس کی گئی تھی جو فطری بات ہے۔ مفتی صاحب اس وقت وفاق المدارس کے ذمہ دار حضرات میں سے تھے۔ ان سے بعض دینی مدارس نے صوبائی حکومت کی طرف سے امداد کی درخواست کی اور ایک مجلس میں یہ بات بطور مشورہ زیر غور آئی کہ مفتی صاحب کی حکومت کو دینی مدارس کی مالی امداد کرنی چاہیے یا نہیں؟ بعض دوستوں کی رائے اس کے حق میں تھی، مگر مفتی صاحب نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ میں یہ روایت قائم نہیں کرنا چاہتا۔ آج میں وزیر اعلیٰ ہوں، کل کوئی اور ہوگا اور اگر میں دینی مدارس میں سرکاری امداد کا راستہ کھول دوں گا تو کل آنے والا مداخلت بھی کرے گا اور دینی مدارس کا نظام اپنے مقصد سے ہٹ جائے گا، اس لیے دینی مدارس کی امداد کے لیے صوبائی حکومت کی طرف سے کوئی فنڈ دینے کے لیے تیار نہیں ہوں۔

(۷) مدارس پر ایک الزام یہ ہے کہ یہ دہشت گردی کے فروغ کا باعث ہیں اور ان میں تعلیم کے ساتھ عسکری تربیت دی جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں دو باتوں میں فرق ضروری ہے: 

پہلی بات یہ کہ جہاد کے بارے میں شرعی احکام اور قرآن و سنت کے فرمودات کی تعلیم یقیناً ان مدارس میں ہوتی ہے، اور اسی طرح ہوتی ہے جس طرح قرآن و سنت کے احکام و قوانین کے باقی شعبوں کی ہوتی ہے۔ یہ دینی تعلیمات کا حصہ ہے اور کسی دینی ادارے کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ قرآن و سنت کی دیگر تعلیمات کا تو اپنے ہاں اہتمام کرے مگر جہاد سے متعلقہ آیاتِ قرآنی، احادیثِ نبویؐ، اور فقہی ابواب کو صرف اس لیے نصاب سے خارج کر دے کہ دنیا کے کچھ حلقے اس سے ناراض ہوتے ہیں۔ 

دوسری یہ کہ جہاد کی عملی اور عسکری تربیت ان مدارس میں کسی سطح پر نہیں ہوتی اور نہ ہی ان مدارس میں ایسا کوئی نظام موجود ہے۔ حتیٰ کہ سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں این سی سی طرز کی جو نیم فوجی تربیت عام طلبہ کو دی جاتی ہے، دینی مدارس کے نظام میں وہ بھی باضابطہ طور پر موجود نہیں ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ دینی مدارس اپنے طلبہ کو عسکری ٹریننگ دیتے ہیں۔

جہاں تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تعلق ہے ہم نے ہمیشہ اس کا ساتھ دیا ہے اور اب بھی اس قومی وحدت کا حصہ ہیں۔ لیکن اس حقیقت کو نظر انداز کرنا کسی طرح بھی قرینِ انصاف نہیں ہے کہ دہشت گردی کے مختلف عوامل اور اسباب یکساں توجہ کے مستحق ہیں اور ان میں تفریق اور ترجیح قائم کرنا دہشت گردی کے خاتمہ کی بجائے اس کے مزید فروغ کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ بات ملک کا ہر شہری کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ دہشت گردی کے اسباب بلوچستان میں مختلف ہیں، کراچی سے ان کی نوعیت اور ہے، اور قبائلی علاقوں میں ان کی صورت اس سے مختلف ہے۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف صرف مذہبی اسباب کو بعض حوالوں سے ٹارگٹ کرنے سے جو صورتحال سامنے آئی ہے وہ محبِ وطن حلقوں میں اضطراب کا باعث بنی ہے۔ ہم نے ہمیشہ یہ عرض کیا ہے کہ دہشت گردی جس طرف سے بھی ہو رہی ہے قابلِ مذمت ہے اور اس کا خاتمہ ضروری ہے لیکن اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ سب کے خلاف یکساں کارروائی ہو۔

 اس پس منظر میں ہم یہ گزارش کرنا چاہیں گے کہ (۱) دینی مدارس کے مالیاتی و انتظامی امور میں سرکاری مداخلت، (۲) تعلیمی نصاب و نظام میں حکومتی ڈکٹیشن، (۳) اور سرکاری امداد سے دینی مدارس چلانے کی پیشکش کو دوٹوک اور واضح انداز میں مسترد کر دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ دینی مدارس اپنی تمام تر کمزوریوں، خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود اس وقت مسلم معاشرے میں دینی تعلیم کے فروغ اور اسلامی اقدام کے تحفظ کے لیے جو فیصلہ کن کردار ادا کر رہے ہیں، مذکورہ بالا تین امور میں سے کسی ایک کو بھی قبول کرنا دینی مدارس کے اس معاشرتی کردار سے دستبرداری کے مترادف ہو گا۔

مدارس و جامعات / تعلیم و تعلم

(الشریعہ — جنوری ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جنوری ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter