رسول اکرمﷺ کا طرز حکمرانی

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز حکمرانی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مستثنیات، تحفظات، پروٹوکول اور پرسٹیج کا کوئی تصور نہیں، اور عالمِ اسباب میں اس طرز حکومت کے کامیاب اور مثالی ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تمام تر مواقع میسر ہونے کے باوجود ایک عام آدمی جیسی زندگی اختیار کی اور لوگوں کے درمیان گھل مل کر رہے۔ جس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ انہیں عام آدمی کی مشکلات و مسائل سے براہ راست واقفیت رہی۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ اپنے حکمرانوں کو اپنے ساتھ مشکلات و مسائل کا شکار دیکھ کر عام آدمی میں مشکلات کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا  ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر چاہتے تو اپنے لیے پروٹوکول اور تحفظات کا اہتمام کر سکتے تھے، اور اس کائنات میں یہ اگر کسی کا استحقاق ہو سکتا ہے تو وہ آپؐ کی ذات گرامی ہے، لیکن آپؐ نے اپنے گرد ایسا کوئی دائرہ نہیں کھینچا اور رہن سہن، نشست و برخاست، سفر و حضر، اور بول چال میں کسی قسم کا کوئی امتیاز روا نہیں رکھا۔ 

ہمارے ہاں پروٹوکول کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ کوئی بڑی شخصیت فون پر کسی سے بات کرنا چاہتی ہے تو پہلے اس شخص کو لائن پر لایا جائے پھر بڑے صاحب گفتگو کی زحمت فرمائیں گے، جبکہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ  عنہ کہتے ہیں کہ ہماری ہمیشہ یہ کوشش رہتی تھی کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرنے میں پہل کر سکیں، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا، ہم ابھی سلام  کا لفظ کہنے کی تیاری کر رہے ہوتے کہ حضورؐ سلام میں پہل فرما دیتے۔ اس بظاہر چھوٹی سی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ سنتِ نبویؐ میں پروٹوکول کا درجہ کیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی سنتِ نبویؐ کا یہ حسین منظر بھی ذہن میں تازه کر لیں کہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے ایک صحابی کے ننگے بدن پر چھڑی لگ گئی، چھڑی ذرا سخت لگی اور بعض روایات کے مطابق خراش بھی آگئی۔ اس صحابیؓ نے مجلس میں ہی بدلے کا تقاضہ کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پروٹوکول، پرسٹیج، یا تحفظ کا سوال نہیں اٹھایا، چھڑی اس صحابیؓ کے ہاتھ میں دے دی اور کپڑا ہٹا کر ننگی کمر بدلے کے لیے اس کے سامنے کر دی۔ یہی سادگی اور بے تکلفی ہمارے طرز حکومت کا حصہ بنے گی تو سنتِ نبویؐ کی برکات حاصل ہوں گی۔مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اردگرد مستثنیات اور تحفظات کے جو دائرے کھینچ رکھے ہیں وہ سنت نبویؐ اور ہمارے درمیان ایک ایسی خلیج کی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں جنہیں زندگی کے کسی بھی شعبہ میں عبور کرنے کا ہم میں حوصلہ نہیں۔  ہمیں حکومت و سیاست میں سنتِ نبویؐ کی پیروی کیلئے نوآبادیاتی نظام کے تحفظات و امتیازات سے نجات حاصل کرنا ہو گی، حاکم و رعیت کے درمیان اجنبیت و بیگانگی کی دیوار گرانا ہوگی، اور عام لوگوں کے ساتھ ان کی آبادیوں میں گھل مل کر رہنا ہو گا۔

؏     گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں!

———————————————————


’’لمحۂ فکریہ!‘‘

برادرِ مکرم مولانا ڈاکٹر عمار خان ناصر، جنہیں میں لڑکپن سے حضرت کہہ کر مخاطب کرتا ہوں، نے مجلہ الشریعہ کے معاملات سے  علیحدگی اختیار کر کے مجھے مشکل میں ڈال دیا ہے۔ میرا علمی و فکری کام کا کچھ ذوق تو ہے لیکن سمجھ بوجھ اور استعداد اس درجہ کی نہیں جو اس کام کیلئے ضروری ہے۔ میں کمپیوٹر سائنس کا آدمی ہوں اور اس حوالے سے میرا ایک چھوٹا سا  سلسلہ techurdu.org کے عنوان سے چل رہا ہے جس پر میں اپنے شعبے کے حوالے سے وقتاً‌ وقتاً‌  طبع آزمائی کرتا رہتا ہوں۔

والد محترم اور میرے مخدوم حضرت مولانا زاہد الراشدی اپنی تدریسی مصروفیات اور دینی اجتماعات کے مشاغل کی وجہ سے زیادہ وقت نہیں دے پاتے، اور اس عمر میں صحت کے مسائل کے ساتھ انہیں زیادہ آرام کی ضرورت بھی ہوتی ہے، چنانچہ اس حوالے سے بھی میری ذمہ داری کچھ بڑھ گئی ہے۔  میرا اندازہ ہے کہ والد محترم کے ساتھ میری صبح شام کی رفاقت اور غلطی کی صورت میں کان کھینچنے کی سہولت کے پیش نظر مجھے یہ عہدہ سونپا گیا ہے، ورنہ الشریعہ اکادمی کے رفقاء اور ذمہ داران میں سے اس کیلئے بہت بہتر انتخاب ہو سکتا تھا۔ بہرحال میں توقعات پر پورا اترنے کی حتی الوسع کوشش کروں گا، ورنہ ناکامی کی صورت میں تبدیلی کا راستہ بہرحال موجود ہے۔

ناصر الدین خان عامر

مدیر منتظم

حدیث و سنت / علوم الحدیث

(الشریعہ — جنوری ۲۰۲۴ء)

تلاش

Flag Counter