عصرِ حاضر کے چیلنجز اور علماء کرام کی ذمہ داریاں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۱۹ نومبر ۲۰۲۳ء کو العصر فاؤنڈیشن اور مکتبہ یاران کراچی کے زیر انتظام ’’عصرِ حاضر کے چیلنجز اور علماء کرام کی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان پر سیمینار سے خطاب۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مکتبہ یاران اور العصر فاؤنڈیشن کراچی کا شکر گزار ہوں کہ علماء کرام اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام کرنے والے اہلِ علم کی اس متنوع مجلس اور گلدستہ میں مجھے بھی حاضری کا شرف بخشا، عروس البلاد کراچی کے حضرات سے ملاقات ہوئی اور کچھ عرض کرنے کا موقع مل رہا ہے، اللہ رب العزت اس کاوش کو قبول فرمائیں، انتظام کرنے والوں کو جزائے خیر عطا فرمائیں اور ہم سب کی حاضری کو قبول کرتے ہوئے اسے دارین کی سعادتوں اور خیر کا ذریعہ بنائیں۔

مجھے گفتگو کا عنوان دیا گیا ہے ”عصر حاضر کے چیلنجز اور علماء کرام کی ذمہ داریاں“ ۔پہلی بات یہ ہے کہ عصر حاضر کیا ہے اور انسانی سوسائٹی کی تاریخ میں عصر حاضر کی مجموعی کیفیت کیا ہے؟ انسانی تاریخ اور سماج میں مختلف ادوار آئے ہیں جنہیں آپ بیسیوں مراحل میں ترتیب دے سکتے ہیں، اچھے ادوار بھی آئے ہیں اور اعمال کے اعتبار سے برے ادوار بھی آئے ہیں، اچھے لوگوں کی حکمرانی بھی قائم ہوئی ہے اور بروں کی بھی قائم ہوئی ہے، یہ انسانی فطرت ہے کہ اس کی زندگی میں تنوع اور تغیر ہے ؏ ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘۔ تغیر انسانی سوسائٹی کا حصہ ہے جس میں صرف ارتقا نہیں ہوتا بلکہ تنزل بھی ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے ’’تلک الایام نداولھا بین الناس‘‘ کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے زمانہ کو پیدا کیا تھا اس دن کے بعد سے زمانہ اپنے آپ کو دہراتا رہتا ہے، اپنے آپ کو بدلتا رہتا ہے، اچھے ادوار بھی آتے ہیں اور برے ادوار بھی آتے ہیں۔

آج ہم آزمائش ،امتحان اور تنزل کے دور میں ہیں۔ اگرچہ انسان نے اسباب میں بہت ترقی کی ہےمگر میرا سوال ہوتا ہے کہ خود انسان نے کیا ترقی کی ہے؟ مثال کے طور پر میڈیکل سائنس میں ہم نے بہت ترقی کی، علاج اور تشخیص کے نئے نئے اسباب بنائے ہیں، لیکن اگر ایک جملے میں بات کی جائے تو یہ ہے کہ انسانی علم اور ساری صلاحیتیں مشینوں میں منتقل ہو گئی ہیں۔ آپ اسے ارتقا کہیں یا تنزل ۔ ایک زمانہ تھا کہ معالج نبض پر ہاتھ رکھ کر بیماری اور اس کے سبب کے ساتھ علاج بھی بتا دیتا تھا، بلکہ بعض معالجین چہرہ دیکھ کر بیماری سمجھ جاتے تھے۔ اب ڈگریاں ہمارے پاس ہیں لیکن چہرہ دیکھ کر اور نبض پر ہاتھ رکھ کر بیماری کی تشخیص کی صلاحیت ہمارے پاس نہیں ہے، اور یہ صلاحیت آلات اور مشینوں میں منتقل ہو گئی ہے۔ انسان بحیثیت انسان کمزور ہوتا جا رہا ہے، اسباب اور مشینیں اس پر غالب آتی جا رہی ہیں، یہی زندگی کے ہر شعبے میں ہے۔ میں اس کی ایک اور چھوٹی سی مثال دوں گا کہ ہم لڑکپن اور جوانی میں پیدل پانچ چھ میل چل لیا کرتے تھے۔ میں بہت دفعہ پہاڑی علاقوں میں کئی کئی پیدل میل چلا ہوں ،لیکن آج اس عمر کا نوجوان دو میل پیدل نہیں چل سکتا۔ جسمانی صلاحیتیں کمزور ہوتی جا رہی ہیں اور اسباب کی طاقت بڑھتی جا رہی ہے، آپ اس کو ترقی یا تنزل جو بھی تعبیر کر لیں۔

یہی صورتحال تہذیبی، دینی اور علمی اعتبار سے بھی ہے، لیکن میں اس کو یہیں چھوڑتے ہوئے یہ عرض کروں گا کہ ہم بحیثیت مسلمان ، بحیثیت امتِ مسلمہ، اور اس حیثیت سے کہ نسل انسانی کی قیادت اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو عطا فرمائی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنہون عن المنکر‘‘ قرآن کریم کے بقول انسانی معاشرے میں امتِ مسلمہ کی حیثیت قائد کی ہے ۔ اس وقت دنیا میں آٹھ ارب کے لگ بھگ انسان ہیں، ان میں مسلمان پونے دو ارب کے لگ بھگ بتائے جاتے ہیں، جو باقی چھ ارب انسان ہیں وہ کس کے رحم و کرم پر ہیں؟ ان تک قرآن مجید کی دعوت پہنچانا، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعارف کروانا، اور آخرت کا عقیدہ ان تک منتقل کرنا کس کا فریضہ ہے؟ اللہ تعالیٰ نے انسانی سماج کی بہتری اور کامیابی کے لیے جو نظام دیا ہے، جو کتابوں میں بھی ہے اور جس کا تجربہ کئی بار ہو چکا ہے، اس نظام کو انسانی سماج میں دوبارہ عملی طور پر متعارف کرانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نظام دیا کہ اس کے ذریعے تم دنیا میں بہتر زندگی گزار سکتے ہو، اور دنیا میں رہ کر عمل کر کے اس کا نمونہ دکھایا۔ اب اس نظام سے دنیا کو زبان کے ذریعے، قلم کاغذ کے ذریعے ، آج کی زبان میں سکرین کے ذریعے، اور عمل کے ساتھ متعارف کرانا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔

آج دنیا کو موجودہ نظام میں کیا چیلنجز درپیش ہیں، اس پر دو حوالے دوں گا۔ برطانیہ کے شاہ چارلس جنہوں نے طویل عرصہ شہزادہ رہ کر گزارا ہے، اپنے مزاج کے اعتبار سے لیکچرار اور دانشور ہیں، اگر کسی کو ذوق ہو تو چارلس کے لیکچرز ضرور دیکھیں۔ میں ان کے دو حوالے نقل کروں گا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایک لیکچر کے دوران شہزادہ چارلس نے کہا کہ دنیا کا موجودہ سسٹم ناکام ہو گیا ہے جو کہ بیساکھیوں کے سہارے چل رہا ہے، لہٰذا ہمیں اس کا متبادل تلاش کرنا چاہیے۔ اور کہا کہ میں اس کے لیے اہل دانش کو ایک مشورہ اور تجویز دوں گا کہ وہ متبادل کے طور پر اسلام کو اسٹڈی کریں۔ اور یہ ماضی کے حوالے سے نہیں بلکہ موجودہ سسٹم کی ناکامی کے تصور کے ساتھ اس کے متبادل کے طور پر۔ اور انہوں نے کہا کہ میں اسکالرز سے یہ کہوں گا کہ اسلام کو اسٹڈی کرتے ہوئے تین باتیں ذہن میں رکھیں: پہلی یہ کہ ہمارے بڑوں نے ہمیں جو بتا رکھا ہے کہ اسلام ایسا ہے اور مسلمان ایسے ہیں، یہ بھول جائیں۔ دوسری یہ کہ اس وقت مسلمان جیسے نظر آ رہے ہیں اس کو بھی نظر انداز کر دیں۔ تیسری یہ کہ اسلام کو اوریجنل سورسز یعنی اصل مآخذ سے اسٹڈی کریں ۔ اگر آپ یہ تین باتیں سامنے رکھ کر اسلام کو اسٹڈی کریں گے تو میرا وجدان کہتا ہے کہ مستقبل کے لیے متبادل نظام ہمارے پاس اسلام کے سوا کوئی نہیں ہے۔

نیویارک میں پولیوشن پر ایک کانفرنس تھی۔ ماحولیاتی آلودگی آج کا بڑا مسئلہ ہے۔ شہزادہ چارلس نے کہا کہ میری دیانت دارانہ رائے یہ ہے کہ پولیوشن کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے ہمیں وہ سماجی اصول اختیار کرنا ہوں گے جو قرآن مجید نے بیان کیے ہیں کہ سماج کیا ہے ، سماج کے اصول، تقاضے اور ضروریات کیا ہیں،اور وہ تقاضے کیسے حل ہوں گے۔

دنیا کے کرنٹ ایشوز میں ماحولیات اور معیشت سرفہرست ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی کے مسائل سے کیسے چھٹکارا ملے گا اور معیشت کیسے توازن پر آئے گی ۔ شہزادہ چارلس تو بادشاہت کی دنیا کا آدمی ہے، میں مذہبی دنیا کا حوالہ دینا چاہوں گا کہ اس وقت پاپائے روم پوپ فرانسس ہیں، ان سے پہلے پوپ بینی ڈکٹ تھے، مسیحی دنیا میں مذہبی طور پر سب سے بڑا پیشوا پاپائے روم ہوتے ہیں۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے کی بات ہے، جن دنوں معیشت میں بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیاں بیٹھ گئی تھیں ، بڑا بحران پیدا ہو گیا تھا اور بڑے بڑے جلوس ہو رہے تھے، اس وقت پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ نے ایک کمیٹی بنائی کہ معاشی بحران اور اَن بیلنسڈ سسٹم کے بارے میں ویٹی کن سٹی کو کیا موقف اختیار کرنا چاہیے۔ اس کمیٹی نے جو رپورٹ پیش کی وہ آن لائن موجود ہے۔ اس کمیٹی کی رپورٹ کا خلاصہ یہ تھا کہ معیشت ڈی ٹریک ہو گئی ہے، اس کو بیلنس اور ٹریک پر لانے کے لیے ایک ہی صورت ہے کہ معیشت کے وہ اصول اختیار کیے جائیں جو قرآن مجید نے بیان کیے ہیں۔

میں علماء کرام سے یہ باتیں اس لیے ذکر کر رہا ہوں کہ اپنے ذہن کو وسیع کر کے اپنے ماحول سے اوپر اٹھ کر دنیا کا منظر دیکھیں کہ جتنا فضا میں زیادہ بلند ہو کر دیکھیں گے اتنا کھلا ماحول نظر آئے گا۔ اہل دانش کے مختلف لیولز ہیں، میں سب کی بات نہیں کر رہا ۔ میں نے ایک لیول کی بات کی ہے جو مستقبل کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور اس حوالے سے اسلام کو اسٹڈی کر رہے ہیں۔

ایک مشاہدہ اور عرض کر دیتا ہوں۔ یونیورسٹیوں میں اسٹڈی گروپس بنے ہوتے ہیں اور مغرب کی یونیورسٹیز کے کام کے انداز کا آپ کو پتہ ہے کہ کیسے کام کرتی ہیں۔ آج سے دس سال پہلے امریکہ کی ہنٹنگٹن یونیورسٹی کے ایک پروفیسر پاکستان تشریف لائے، میرے پاس بھی آئے اور کہا کہ میں پی ایچ ڈی کر رہا ہوں اور میرا موضوع امام ابو منصور ماتریدیؒ ہیں۔ اہلِ سنت کے ہاں علمِ کلام کے دو بڑے امام ہیں ابوالحسن اشعریؒ اور ابو منصور ماتریدیؒ۔ معتزلہ کے مقابلے میں بنیادی کام ابو الحسن اشعریؒ کا ہے کہ ان کی عقلیات کا روایت کی دنیا میں امام احمد بن حنبلؒ اور درایت کی دنیا میں ابو الحسن اشعریؒ نے مقابلہ کیا۔ امام احمد بن حنبلؒ کا موقف یہ تھا کہ قرآن کی آیت یا حدیث پیش کرو، ورنہ جتنا مارنا ہے مارو، میں نہیں مانوں گا، ان کی استقامت اور قربانی نے اہل سنت کے عقیدے کو استحکام بخشا، جبکہ درایت کی دنیا میں ابو الحسن اشعریؒ نے یہ کام کیا۔ اللہ کی قدرت کہ معتزلہ کے بانی واصل بن عطا حضرت حسن بصریؒ کے شاگرد ہیں اور ابو الحسن اشعریؒ واصل بن عطا کے شاگرد ہیں ’’یخرج الحی من المیت ویخرج المیت من الحی‘‘ ۔ امریکی پروفیسر نے کہا کہ میرے ذہن میں کچھ سوالات ہیں وہ پوچھنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے پوچھیں لیکن ایک شرط پر کہ میں بھی سوال کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ علمی میدان میں معتزلہ کا مقابلہ تو ابو الحسن اشعریؒ نے کیا تھا، لیکن حنفی لوگ ابو الحسن اشعریؒ کی بجائے ابو منصور ماتریدیؒ کو اپنا امام کہتے ہیں ، تو ان کا کنٹریبیوشن کیا ہے؟ میں نے کہا کہ واقعی معتزلہ کا مقابلہ ابو الحسن اشعریؒ نے کیا ہے، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے، لیکن جب آدمی مقابلہ کر رہا ہوتا ہے تو محاذ پر مناظر کو بہت سی باتیں گھڑنی پڑتی ہیں اور بعض باتیں اوور (Over) کرنی پڑتی ہیں تاکہ مقابل کا منہ بند ہو جائے۔

اس پر ایک لطیفہ عرض کر دیتا ہوں۔ قرآن مجید میں ذکر ہے کہ چار تک بیویوں کی اجازت ہے اس سے زیادہ کی نہیں۔ جبکہ مستشرقین کا ہم پر یہ اعتراض چلا آ رہا ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے بعد باقی سب سے چار سے زیادہ بیویاں چھڑوا دیں لیکن اپنے پاس نو تھیں ان میں سے ایک کو بھی نہیں چھوڑا۔ یہ اعتراض آج بھی قائم ہے۔ ۱۹۹۰ءکی بات ہے کہ ڈاکٹر حمید اللہؒ جو ہمارے بڑے اہل علم میں سے تھے، انہوں نے کہیں لکھ دیا کہ حضورؐ نے بھی پانچ بیویاں چھوڑ دی تھیں اور چار باقی رکھی تھیں، اس طرح کہ پانچ کو ازواجِ شرف یعنی اعزازی رکھا تھا جبکہ حقیقی بیویاں چار ہی تھیں۔ اس پر اعتراض ہوا کہ یہ نئی بات کیسے کہہ دی۔ ہم نے ڈاکٹر حمید اللہ سے رابطہ کیا کہ یہ آپ نے کیا کہا؟ ڈاکٹر صاحب نے لکھا کہ میں نے مستشرقین کو جواب دینے کے لیے یہ بات بنائی ہے۔ ہم نے کہا ڈاکٹر صاحب! اگر آپ کی اور ہماری بات ہو تو آپ چاہے دس باتیں گھڑیں مگر یہ تو رسول اللہ کی بات ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے رجوع کیا اور کہا کہ میں امت سے بھی اور اللہ سے بھی معافی مانگتا ہوں۔ اس طرح مناظر کو بہت سی باتیں اوور کرنی پڑتی ہیں ۔

میں نے امریکی پروفیسر سے کہا کہ ابو الحسن اشعریؒ کو معتزلہ کے مقابلے میں کچھ باتیں اوور کرنا پڑی تھیں، جنہیں بعد میں ابو منصور ماتریدیؒ نے آ کر بیلنس کیا تھا، اور یہی ان کا کنٹریبیوشن ہے۔ اس پر پروفیسر صاحب نے کہا کہ میں بات سمجھ گیا ہوں۔

اس کے بعد میں نے ان سے سوال کیا اور کہا کہ ہم ما تریدی ہیں، ہمارے سینکڑوں مدرسین اصولِ عقائد پڑھاتے ہیں، لیکن ہم پڑھانے والوں میں سے نوے فیصد کو پتہ نہیں کہ ابو منصور ماتریدیؒ کون تھا؟ میں نے پوچھا کہ ہم عقائد پڑھانے والے حنفی مدرسین عام طور پر انہیں نہیں جانتے، تو تمہیں کس نے بتایا ہے کہ دنیا میں ماتریدیؒ بھی ایک آدمی تھا اور تمہیں اس کی قبر پر کون لے گیا ہے؟ تو اس نے پوری کہانی سنائی ۔ اس نے کہا کہ ہم کچھ یونیورسٹیوں کے اہل دانش پروفیسرز کا گروپ ہے، پندرہ بیس سال سے ہماری ریسرچ جاری ہے، ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایک تو سوسائٹی میں مذہب واپس آرہا ہے، اور دوسری بات یہ طے ہے کہ مذہب وہی واپس آئے گا جو واقعتاً‌ مذہب ہوگا۔ مذہب ہونے کا معیار یہ ہے کہ اس مذہب کے پاس اپنی وحی اور اپنے پیغمبر کی تعلیمات اصل حالت میں موجود ہوں، اور یہ بھی طے ہے کہ ایسا مذہب اسلام ہی ہے۔ یہ دو باتیں ہم ذہن میں طے کر کے اس پر ریسرچ کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کی مختلف ادوار کی شخصیات میں سے ہماری ضروریات کون پوری کرتا ہے۔ ہم مغرب کے لوگ ہیں، ہمارا اپنا مزاج اور اپنی نفسیات ہیں۔ اس پر ہم نے پندرہ بیس شخصیات اسٹڈی کی ہیں جن میں غزالیؒ، ابن رشدؒ، ابن سینا اور ابن عبد السلامؒ وغیرہ شامل ہیں۔

میں نے پوچھا کہ آپ کی ضروریات کیا ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم تین باتیں دیکھ رہے ہیں: روایت، درایت اور وجدانیات۔ (۱) روایت یعنی قرآن و حدیث (۲) درایت یعنی تفقہ، استنباط اور تعقل (۳) وجدانیات یعنی قلبی کیفیات، تصوف و سلوک۔ ہم ایسی شخصیت تلاش کر رہے ہیں جس میں یہ تینوں چیزیں موجود ہوں، وہ روایت میں بھی پکا ہو، درایت میں بھی مضبوط ہو، اور وجدانیات اور قلبی کیفیات میں بھی تجربہ رکھتا ہو۔انہوں نے بتایا کہ ہم پندرہ بیس شخصیات پر ریسرچ کر چکے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ اب تک کہاں پہنچے ہیں؟ اس نے کہا، ہم سمجھے ہیں کہ یہ تینوں چیزیں بہت سی مسلم شخصیات میں موجود ہیں، اب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ روایت، درایت اور وجدانیات کا توازن کس شخصیت میں ہے۔ کیونکہ نسخے کے اجزا میں توازن بھی ضروری ہوتا ہے، اگر بیلنس بدل جائے تو نسخہ بدل جاتا ہے۔ اس پر ہم نے دو شخصیات کو فوکس کیا ہے، ایک پر میں اسٹڈی کر رہا ہوں یعنی ابو منصور ماتریدیؒ، اور دوسری شخصیت شاہ ولی اللہؒ کی ہے جس پر میرا ایک اور ساتھی اسٹڈی کر رہا ہے۔

میں نے ذکر کیا ہے کہ آج کی انسانی دنیا کو درپیش مسائل، یعنی عصر حاضر کے چیلنجز انسانی سماج کے دائرے میں، اس پر کہاں بات ہو رہی ہے اور کس سطح پر بات ہو رہی ہے؟ میں نے علماء کرام کے سامنے موجودہ چیلنجز میں سے ایک چیلنج پر آج کا ماحول عرض کیا ہے، یہ دعوت دینے کے لیے کہ صرف ایک دائرے میں نہ دیکھیں بلکہ غور و فکر کے بہت سے دائرے اور لیولز ہیں۔ یہ میں نے امت مسلمہ کی معروضی صورتحال عرض کی ہے، معیشت اور ماحولیات کے حوالے سے، اور پھر روایت، درایت اور وجدانیات کے توازن کے بارے میں کچھ حوالے دیے ہیں۔ اس کو یہیں سمیٹتے ہوئے اب یہ عرض کروں گا کہ بطور عالم ہماری حیثیت کیا ہے؟

جب پاکستان بنا تھا تو ہمارا بنیادی ویژن یہ تھا کہ ہم ایک ریاست قائم کریں گے جس میں اسلام کی حکمرانی کا نظم قائم کریں گے ، انسانی سماج قائم کرنے کی ترتیب بنائیں گے، اور دنیا کے سامنے اس کو نمونے کے طور پر پیش کریں گے۔ آپ قائد اعظم مرحوم کی تقریریں پڑھیں، ان میں یہ ویژن دیا گیا ہے کہ ہم اسلامی ریاست قائم کر کے قرآن و سنت کی عملداری قائم کریں گے، اسلامی سماج کی تشکیل کی کوشش کریں گے اور اسے دنیا کے سامنے بطور مثال پیش کریں گے۔ ہمارا یہ ویژن ریکارڈ پر موجود ہے۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد یہ ہوا کہ یہ سارے کام جو اسٹیبلشمنٹ نے کرنے تھے وہ سب کچھ نظرانداز کر دیا، ہم نے ریاست کا نظامِ تعلیم اور سسٹم وہی رہنے دیا اور اس کے ذمے کام سارا یہ ڈال دیا ۔ حالانکہ نوآبادیاتی دور کی اسٹیبلشمنٹ کی تربیت کا دائرہ اور تھا۔ گویا ہم مونجی والی مشین سے گندم کا کام لے رہے ہیں۔ میں نے وفاقی شرعی عدالت کے ایک جسٹس صاحب مرحوم سے نجی مجلس میں سوال کیا کہ دنیا میں کوئی اور ملک بھی ایسا ہے جس کے دستور میں طے کیا گیا ہو کہ ملک کا قانون یہ ہوگا، لیکن اس کے ایجوکیشن سسٹم میں وہ قانون نہ پڑھایا جاتا ہو؟ دنیا میں اس کی کوئی مثال ہے؟ انہوں نے جواب گول مول کر دیا۔

ملک کے دستور میں لکھا ہوا ہے کہ ملک کا قانون قرآن اور سنت کے مطابق ہوگا، قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں ہوگا، اور قرآن و سنت کی عملداری لازم ہوگی۔ لیکن ملک کے نظام تعلیم میں قرآن و سنت نہیں ہے۔ قانون بنانا مقننہ کی ذمہ داری ہے، قانون کے مطابق فیصلے کرنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے، اور ان فیصلوں پر عملدرآمد کرانا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ مقننہ، عدلیہ،انتظامیہ، تینوں کے نظام تعلیم میں قرآن و سنت کا قانون کہیں نہیں پڑھایا جاتا ۔ سوال یہ ہے کہ جو قانون پڑھانا لازمی نہیں ہے وہ نافذ کیسے ہوگا؟

ہمارے ہاں یہ مسئلہ ہے کہ ملک میں جو کام بھی نہ ہو رہا ہو وہ علماء کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے، اس پر ایک لطیفہ عرض کر دیتا ہوں۔ ہمارے سابق گورنر پنجاب ایک جنرل صاحب تھے، وہ ایک دفعہ جامعہ اشرفیہ لاہور تشریف لائے اور علماء کرام سے خطاب فرمایا ۔ یہ ہمارے افسران کا مزاج ہے کہ جب سامنے علماء بیٹھے ہوں تو لمبی تقریر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علماء کرام کیا کر رہے ہیں؟ ملک میں انجینئر ضرورت کے مطابق نہیں ہیں، ڈاکٹروں کی کمی ہے، سائنس دانوں کی کمی ہے اور ملک ترقی نہیں کر رہا۔ میں نے اس پر کالم میں لکھا کہ جنرل صاحب! بات یہ ہے کہ آپ کے سوال ٹھیک ہیں لیکن جگہ غلط ہے۔ یہ نہر سے اِس پار کے نہیں اُس پار کے سوال ہیں۔ ایک طرف جامعہ اشرفیہ ہے، درمیان میں نہر ہے، اور دوسری طرف پنجاب یونیورسٹی ہے۔ میں نے کہا کہ آپ نے یہ کام جن کے ذمے لگائے تھے ان سے جا کر پوچھیں۔ انجینئر نہیں مل رہے تو انجینئرنگ یونیورسٹی سے پوچھیں، اگر وکیل نہیں مل رہے تو لاء کالج میں جا کر پوچھیں، اگر ڈاکٹر نہیں مل رہے تو میڈیکل یونیورسٹی سے پوچھیں۔ ہاں اگر امام نہیں مل رہے تو ہم سے پوچھیں۔

۱۸۵۷ء کے بعد مسجد اور مدرسے کی ضرورت کے افراد تیار کرنے سے یعنی حافظ، امام، خطیب، قاری، مولوی اور مفتی بنانے کی ذمہ داری سے اس وقت کے ایجوکیشن سسٹم نے انکار کر دیا تھا، تو وہ خلا ہم نے پر کیا۔ ہم نے کہا تھا کہ مسجد اور مدرسہ آباد رہیں گے، اس لیے اگر آپ کو امام نہیں ملتے تو ہم سے بات کریں، جبکہ صورتحال یہ ہے کہ مسجدیں کم ہیں اور امام زیادہ ہیں۔ اگر پاکستان میں کہیں تراویح پڑھانے کے لیے حافظ نہیں ملتا، اگر جمعہ پڑھانے کے لیے خطیب نہیں مل رہا ، قرآن مجید یاد کرانے کے لیے قاری نہیں مل رہا، اور فتویٰ دینے کے لیے مفتی نہیں مل رہا، تو ہم سے پوچھیں۔ لیکن اگر آپ کو ڈاکٹر اور انجینئر نہیں مل رہے تو یہ سوال جامعہ اشرفیہ میں کرنے کا نہیں ہے بلکہ پنجاب یونیورسٹی سے کرنے کا ہے۔

جو بات میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ قوم کو تو ہر میدان میں افراد کی ضرورت ہے، اگر وہ پورے نہیں کریں گے تو قوم ہم سے مانگے گی۔ آج یہ مسئلہ درپیش ہے کہ معیشت اور تجارت کی دنیا میں اہلِ علم کی ضرورت ہے جبکہ اسلامی ماہرین کی ضرورت پوری کرنا اصلاً ریاستی تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ہے جو اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لیکن الحمد للہ ہمیں خوشی ہوتی ہے کہ جو ضرورت کہیں پوری نہیں ہوتی وہ کہتے ہیں کہ مولوی صاحب آپ یہ ضرورت پوری کریں، اس کا مطلب یہ ہے کہ قوم ہماری کارکردگی پر مطمئن ہے، اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ توقع رکھتے ہیں کہ علماء اسے پورا کر لیں گے۔ ملک کے کسی بھی شعبے میں ملک کے دستور کے مطابق دینی تعلیم و تربیت سے بہرہ ور افراد فراہم کرنا اصلاً‌ ریاستی نظام تعلیم کی ذمہ داری ہے، لیکن وہ یہ ذمہ داری پوری نہیں کر رہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس مقام پر کھڑے ہو کر سوچیں کہ قوم ہم سے توقع کر رہی ہے تو ہمیں اپنی صف بندی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ اگر ہمارے کام کرنے سے معیشت کو اسلامی ماہرین ملتے ہیں تو ہمیں اسے پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن اپنی اصل ذمہ داری کو چھیڑے بغیر، دینی ضروریات، مسجد اور مدرسے کی ضروریات پوری کرنے کے بعد جو فاضل کمائی ہے اس کی پلاننگ کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے جو ادارے کام کر رہے ہیں، جیسا کہ العصر فاؤنڈیشن، مکتبہ یاران، مختلف بڑے بڑے مدارس اور بہت سے ادارے کر رہے ہیں ، ایسے فورمز دیکھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے کہ ہم کسی حد تک کام کر رہے ہیں۔ ہم ضرورت پوری نہیں کر سکتے لیکن کچھ نہ کچھ کرتے رہیں تاکہ رجحان باقی رہے، اور ہم آج کی دنیا کو اپنے ماضی سے وابستہ رکھنے کی کوئی کھڑکی کھلی رکھیں تاکہ مستقبل کو ہمارے بارے میں شکایت نہ ہو کہ جو کچھ تم کر سکتے تھے تم نے وہ نہیں کیا۔

میں نے اس نشست میں متفرق باتیں کیں اور عرض کیا کہ ہمیں آج کی ضروریات کو سمجھنا چاہیے جو کہ ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔ جیسا کہ ہمیں تخصص فی الافتاء میں بنیادی اصول پڑھایا جاتا ہے ’’من لم یعرف اہل زمانہ فہو جاہل‘‘ ہمیں اپنے اہل زمانہ کو سمجھنا چاہیے، ان پر نظر رکھنی چاہیے، اور عصر حاضر کی ضروریات سمجھتے ہوئے انہیں پورا کرنے کے لیے جو کچھ ہم سے ہو سکتا ہے کرنا چاہیے۔ اللہ رب العزت مجھے اور آپ کو توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(الشریعہ — جنوری ۲۰۲۴ء)

تلاش

Flag Counter