قدم عالم کا قول
شاہ صاحب کا قدم عالم کا تصور بھی ان کے تفردات میں شما رہوتا ہے۔التفہیمات الالہیۃ میں لکھتے ہیں:
(العماء) لیست عین الذات من کل وجه ولا غیرھا من کل وجه وانھا قدیمة بالزمان حادثة بالذات من جھة انھا موجودة بالذات الالھیة
’’عما ء نہ تومن کل وجہ عین ذات (قدیم) ہے اور نہ اس کا غیر ہے۔وہ زمان کے لحاظ سے قدیم اور ذات کے لحاظ سے حادث ہے۔ایک حیثیت سے وہ ذات الہیہ کے ساتھ (دائمی طورپر) موجود ہے‘‘۔ (۳۵ الف)
اپنے اس خیال کوشاہ صاحب نے’’ الخیرالکثیر‘‘ میں بھی موکد کرنے کی کوشش کی ہے۔اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ شاہ صاحب نے یہ تصورپوری طرح غوروفکر کے بعد ہی قبول کیا ہے۔ (۳۵ ب) زاہد الکوثری نے اس خیال کو ایک شر عظیم (داھیۃ الدواھی) قرار دیا ہے۔ (۳۶) شاہ صاحب نے ترمذی کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ سے ایک صحابی نے سوال کیا کہ : اے اللہ کے رسول! ہمارا رب اپنی مخلوقات کوپیدا کرنے سے قبل کہاں تھا؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ:’’عماء‘‘ میں تھا۔نہ اس کے اوپرہوا تھی اور نہ اس کے نیچے ہواتھی اور اس نے اپناعرش پانی پر بنایا۔ (۳۷) شاہ صاحب ’’عماء‘‘ کی تشریح ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ وہ ایک ہیولانی مزاج رکھنے والی چیز ہےجوتمام روحانی اور جسمانی صورتوں کوقبول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اس کا قیوم رحموت ہے جواس کے وجود کی شرط ہے۔ (وھو طبیعة ھیولانیة قابلة لجمیع الصور الروحانیة والجسمانیة وقیومھا الرحموت) (۳۸) لیکن انورشاہ کشمیری فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے استدلال صحیح نہیں ہے کیوں کہ سائل کا سوال مطلق عالم کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اس عالم کے بارے میں ہے جسے وہ دیکھ اورمحسوس کررہا ہے۔ظاہرہے سوال کرنے والا ’’عماء‘‘ کی حقیقت کا کوئ علم نہیں رکھتا۔کیوں کہ اس کاعلم شریعت سے حاصل ہوا ہے۔ چناں چہ اگرسائل کا سوال یہ ہوتا کہ خدا عما سے قبل کہاں تھا تواس کا جواب یہ ہوتا کہ خدا موجود تھا اور اس کے سوا اور کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ (۳۹)
قدم عالم کامسئلہ فلاسفہ ومتکلمین کے درمیان ایک معرکۃ الآرا مسئلہ رہا ہے۔متکلمین اس بات کے قائل رہے ہیں کہ عالم من جملہ اپنی تمام ترجزئیات وحیثیات کے ساتھ حادث ہے اورکلی طورپر کتم عدم سے وجود میں آیا ہے۔جب کہ فلاسفہ کا مذہب اس کے برعکس یہ ہے کہ قدیم حادث کی علت نہیں ہوسکتا کیوں کہ علت ومعلول کا وجود ایک ساتھ ہوتا ہے۔اس لیے علت کے قدیم ہونے کی صورت میں معلول بھی لازما قدیم ہوگا۔اس لحاظ سے وہ عالم کے قدم زمانی کے قائل ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ عالم کے وجود وخلق کوجس کی حیثیت ایک مظروف کی ہے ظرف زمانی کے بغیرفرض نہیں کیا جاسکتا۔ارسطوکے نزدیک زمان ماضی غیر متناہی ہے۔ (افلاطون کے برعکس جواسے متناہی تصورکرتا ہے) خلیق کا عمل حرکت سے عبارت ہے اورزمانہ دراصل حرکت ہی کی ایک مقدار کا نام ہے۔’’ فصل المقال‘‘ میں ابن رشد نے اس پرتفصیل کے ساتھ بحث کی ہے اوراس پر اپنے دلائل پیش کیے ہیں اور اس کا خلاصہ چند جملوں میں کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ قدیم یعنی خدا اور حادث یعنی کائنات یہ دونوں طرفین بالکل واضح اور متکلمین اورفلاسفہ دونوں کے نزدیک مسلم ہیں۔ البتہ فلاسفہ کے نزدیک ان دونوں کے وسط میں ایک اوروجود ہے جس میں طرفین میں سے ہرایک کی ایک گونہ شباہت پائی جاتی ہے۔اس لیےجس کی نظر میں قدیم کا پہلوغالب ہے اس نے اسے قدیم اورجس کی نظر میں حادث کا پہلوغالب ہے اس نے اسے حادث قراردیا۔حالاں کہ حقیقت میں نہ وہ حقیقی معنوں میں حادث ہے اورنہ قدیم۔ (فمن غلب علیه ما فیه من شبه القدیم علی ما فیه من شبه (المحدث) سماہ قدیما، ومن غلب علیه ما فیه من شبه المحدث سماہ محدثا۔وھوفی الحقیقة لیس محدثا حقیقیا ولا قدیما حقیقیا۔) (۴۰) شاہ صاحب فلاسفہ کے مسلک پراسی کے قائل ہوئے ہیں- تاہم اسی کے ساتھ اس میں ابن عربی کے وجودی فلسفے کی جھلک بھی موجود ہے۔جس کے مطابق کائنات اعیان ثابتہ کی شکل میں ابتدا سے ہی ذات واحدکا حصہ تھی۔البتہ اس نے جب تعینات کی شکل اختیارکی تواس میں حدوث کی صفت پید ا ہوگئی۔ شاہ صاحب واضح طورپر اس مسئلے میں فلاسفہ کے مسلک پرگامزن نظرآتے ہیں۔
انورشاہ کشمیری نے’ مرقاۃ الطارم لحدوث العالم‘میں اس مسئلےسے تفصیلی بحث کی ہے اور فلاسفہ کے اس قدم زمانی کے مفروضے کوغلط ٹھہرایا ہے۔علامہ کشمیری کا خیال ہے کہ شاہ صاحب کو اس تعلق سے ابن تیمیہ کے موقف سے شہہ ملی ہے جوقدم عرش اور حوادث لا اول لھا کے قائل ہیں۔ (۴۱) حوادث لا اول لہا کا مطلب یہ ہے کہ ایسے حوادث (جمع حادث) پائے جاتے ہیں جن کی کوئی ابتدا نہیں ہے۔گویا بالفاظ دیگروہ ایک حیثیت سےقدیم ہیں۔اس معنی میں وہ کائنات کے قدم نوعی کے قائل ہیں۔ ابن حجر نے ’’فتح الباری ‘‘ میں اورمتعدد دوسرے علما نے نے ابن تیمیہ سے منسوب اس نظریے کاشدت کے ساتھ رد کیا ہے۔جن میں ایک اہم نام بہا الدین الاخمیمی الشافعی (م، ۱۳۶۳ء) کا ہے، جنہوں نے اس موضوع پر کتاب: رسالة فی الرد علی ابن تیمیة فی مسألة حوادث لا اول لھا لکھی ہے۔ (۴۲)
اہم بات یہ ہےکہ علامہ کشمیری نے فلاسفہ کے اس نقطہ نظرکا رد کیا ہے لیکن وہ اسے خالص علمی مسئلہ تصور کرتے ہیں اور اس معنی میں ان کا اسلوب غزالی کے مقابلے میں ابن رشد سے زیادہ قریب ہے۔یعنی وہ اسے حق وباطل کے بجائے خالص علمی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اسی لیے انہوں نے کہیں بھی باضابطہ طورپرشاہ صاحب پرنکیر نہیں کی ہے بلکہ ان کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے مسئلے کی وضاحت کی ہے۔
واقعاتِ انبیا کی شاذ تاویلات اور دیگر تفردات
شاہ صاحب کے تفردات کا ایک پہلوواقعات انبیا کی تاویل سے تعلق رکھتا ہے۔ اس موضوع پر ان کی کتاب’’تاویل الاحادیث‘‘ بہت اہم ہے جس میں انہوں نے قرآن وحدیث میں مذکور انبیا سے متعلق خوارق عادت واقعات کی عقلی تفہیم کی کوشش کی ہے۔ چناں چہ وہ حضرت آدم کے جنت میں سکونت اختیار کرنے اورپھروہاں سے اخراج کے واقعے کوعالم مثال کا واقعہ قراردیتے ہیں، جس کی کیفیت شاہ صاحب کی نظر میں محض خواب (رؤیا) کی تھی۔ (۴۳) عالم مثال کی اس جنت میں اپنے ارضی جسم کے ساتھ اقامت اختیارکرنا ان کے لیے بایں معنی ممکن ہوسکا کہ اپنےکمال ذاتی وروحانی کی وجہ سے انہوں نے اخروی بدن حاصل کرلیا تھا۔ جن فرشتوں کو آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا، وہ صرف زمینی فرشتے (الملأ السافل) تھے نہ کہ فلکی (الملأ الاعلی)۔ حوا کی تخلیق آدم کے تخیل کا کرشمہ تھی۔ آدم کو جنسی رغبت محسوس ہوئی تو جنس لطیف کا خیال ان کے ذہن میں پیدا ہوا جس کے نتیجے میں حوا وجود میں آئیں۔ (۴۴)
حضرت موسی نے وادی ایمن میں جس آگ کا مشاہدہ کیا تھا وہ عالم مثال کی تھی۔ عصا کے سانپ بن جانے اور ید بیضا کی تاویل وہ اس طرح کرتے ہیں کہ کبھی کبھی عالم مثال کا جسم طبعی میں ظہور ہو جاتا ہے۔ (۴۵) حضرت عیسی علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کرنا اس معنی میں نہیں تھا کہ ان کی روح ان کو لوٹا دی جاتی تھی بلکہ مردہ جسم کے ساتھ زندگی کاقائم ہونے والا یہ تعلق روح کے بجائے’ وہم‘ کا ہوتا تھا، (فالنفس المتعلقة بالجسد تعلق الوهم لا تعلق الحیاة) چنانچہ جیسے ہی حضرت عیسی اس مقام سے رخصت ہوتے تھے، زندہ ہونے والے شخص کوفی الفوردوبارہ موت آجاتی تھی۔ (۴۶) حضرت عیسی کازہد اوردنیا اوردنیاوی حکومت وریاست سے بے رغبتی اختیارکرنا اورحضرت یحی کا عورت سے کنارہ کش رہنے کی وجہ یہ تھی کہ ان دونوں شخصیات کی ولادت عام طبعی قوانین سے ہٹ کرہوئی تھی اور ہروہ چیز جوزمینی اسباب کے بغیروجود میں آئےاس کی حیوانی طبیعت میں کمزوری رہ جاتی ہے۔ (۴۷)
یہ اوراس نوع کے دیگر واقعات کی تفہیم کے حوالے سے شاہ صاحب نے جواسلوب اورموقف اختیارکیا ہے، اس کے پس پشت واضح طورپر شاہ صاحب کایہ نقطہ نظر کارفرما نظرآتا ہے کہ بظاہر مافوق الفطری نظرآنے والے ان واقعات کی عقل اور اسباب و قوانین فطرت کے تناظر میں تشریح کرنے کی کوشش کی جائے، خواہ وہ اسبا ب کتنے ہی ضعیف کیوں نہ ہوں۔ چناں چہ لکھتے ہیں:
واعلم ان اللہ تعالی اذا یظھر خارق عادة لتدبیر فانه انما یظھر فی ضمن عادة ما ولو ضعیفة کالرجل یمرض مرضا ضعیفا اذا رآہ الحکیم الطبیعی لم یکترث به ولم یظن انه یموت ولکن یظھرقضاء اللہ فی ضمن ذلک المرض فیموت۔ فللخوارق اسباب ضعیفة کأنھا وجدت مشایعة لنفاذ قضاء اللہ تعالی وعنایته بالاسباب الارضیة لئلا یتخرق (کذا) العادۃ من کل وجه۔
’’جاننا چاہیے کہ اللہ تعالی جب کسی خارق عادت کوظہور میں لاتا ہے تووہ کسی معمول اورعادت کے ہی ضمن میں ہوتی ہے۔ اگرچہ وہ کتنی ہی ضعیف کیوں نہ ہو۔اس کی مثال ایسے مریض کی سی ہے جسے معمولی قسم کا مرض لاحق ہوا ہو۔طبیب اسے دیکھ کراس کے مرض کوسنجیدگی سے نہیں لیتا اور یہ گمان نہیں کرتا کہ اس مرض سے اس کی موت ہوجائے گی۔لیکن پھر اللہ تعالی کا قضا اسی مرض کے تحت اس کی زندگی چھین لیتا ہے۔اس لیے خوارق کے کمزوراسباب ہوتے ہیں جو گویا اللہ تعالی کے فیصلے کونافذکرنے اورزمینی اسباب سے بے اعتنا نہ ہوجانے کے لیے اس کے ساتھ ساتھ وجود میں آتے ہیں۔تاکہ ہرطرف عادت اورمعمول کا قاعدہ ٹوٹ نہ جائے‘‘۔ (۴۸)
ان تفردات کے علاوہ شاہ صاحب کے چند مزید تفردات بھی ہیں۔ ان میں سے تین کا ذکر انہوں نے حجۃ اللہ البالغہ میں کیا ہے جن کا حوالہ اس سے منقولہ عبارت میں اوپر آ چکا ہے یعنی آخرت میں اللہ تعالی کی تجلی کا ظہور مختلف شکلوں میں ہونا، انسان کے اعمال کے بجائے اس کی نفسیاتی کیفیت کا جزا و سزا کا سبب ہونا اور تقدیر کو صرف تقدیر مبرم میں محصور کرنا۔شاہ صاحب نے اپنی مختلف کتابوں میں اپنے ان تفردات کی توجیہ کی ہے۔ مثلا آخرت میں خدا کا مختلف صورتوں میں تجلی کرنے کے موقف کی تائید میں انہوں نے ابن ماجشون مالکی کا نقطہ نظر اختیار کیا ہے جس کا حوالہ اوپرآیا۔ تقدیر مبرم (القدر الملزم) کی تشریح مولانا سندھی کے لفظوں میں یہ ہے کہ:’’ تمام عالم مادی و غیر مادی ایک خاص نظام میں بندھا ہوا ہے اور ایک خاص تدبیر اس کے اندر کام کر رہی ہے۔ اس کا کوئی ذرہ اس نظام کے قانونوں سے باہر نہیں ہے۔ اس مسئلے کا نام شاہ صاحب کی اصطلاح میں قدر ملزم ہے‘‘۔ (۴۹) کیفیات قلبی کے مجازات کا سبب ہونے کا مطلب مولانا سندھی کی نگاہ میں یہ ہے کہ انسان جو بھی اعمال انجام دیتا ہے اس کا نتیجہ اور جوہر انسان کے نفس کے اندر ایک خاص کیفیت کی شکل میں جمع ہو جاتا ہے۔ یہی نفسیاتی کیفیت (نہ کہ نفس اعمال) جزا و سزا کا سبب بنتی ہے۔ چاہے اس سزا اور جزا کا تعلق اس زندگی سے ہو یا اخروی زندگی سے۔ (۵۰) شاہ صاحب کے کلامی تفردات کی ان کی جزئیات کے ساتھ ایک لمبی فہرست بنائی جاسکتی ہے لیکن ان تمام کا اس مقالے میں ذکر کرنا اوران کا جائزہ لینا مقصود نہیں ہے۔
قرآن میں مذکورانبیا وصالحین کے خوارق عادت واقعات کی تاویل کا جواندازواسلوب شاہ صاحب نے اختیارکیا ہے اس میں اشراقیت کا رنگ نمایاں ہے۔قرین قیاس یہ نظرآتا ہے کہ شاہ صاحب نے بجائے سہروردی مقتول کے، صدرالدین شیرازی (ملا صدرا) کے توسط سے یہ رنگ قبول کیا۔
شاہ ولی اللہ کے کلامی تفردات کے اثرات
شاہ صاحب کے کلامی تفردات پربحث کے ضمن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علمی حلقوں پران کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟ برصغیر کی اسلامی فکری روایت پرولی اللہی فکر کے جواثرات مرتب ہوئے ہیں، ان کوپیش نظررکھتے ہوئے اس سے انکار ممکن نہیں کہ ان کے متفردانہ اقوال وآرا نے اصحاب علم ودانش کے ایک طبقے کووادی فکر ونظر کی نئی راہوں سے روشناس کیا اور اس نے اس جہت سے اپنی فکر کوپروان چڑھانے میں خصوصی دل چسپی دکھائی۔اس حوالے سے سب سے اہم نام سرسید احمد خاں کا ہے۔ سرسید نے تحریر فی اصول التفسیر کے نام سے جوتفسیری اصول مرتب کیے اور ا ن کی روشنی میں ’’تفسیر القرٓن‘‘ کی تحریر کی، ان میں سے اکثراصول شاہ صاحب کی فکرسے ماخوذ ہیں۔خاص طور پرمعجزات اور اس حوالے سے اسباب ومسببات کی بحث میں اورواقعات انبیا کی تاویل کے حوالے سے شاہ صاحب کے کلامی موقف کے واضح اثرات سرسید کی فکرپرمحسوس کیے جاسکتے ہیں۔سرسید نے بجائے خود جا بجا اس کا اعتراف واظہارکیا ہے۔بعض اصحاب نے مافوق الفطری مظاہر اورخوارق عادت کے حوالے سے فراہی مکتب فکرپرسرسیدی فکرکے اثرات کا ذکرکیا ہے۔ (۵۱) لیکن راقم الحروف کا خیال ہے کہ یہ بالواسطہ یا بلا واسطہ خود شاہ صاحب کی فکرکے اثرات ہیں۔شاہ صاحب کے کلامی فکری پروجیکٹ کاسب سے اہم پہلویہی ہے کہ مافوق الفطری مظاہر و واقعات کی قوانین فطرت کے سیاق میں توضیح کی کوشش کی جائے۔
اس تعلق سے دوسرا اہم نام شبلی نعمانی کا ہے۔’’ الکلام‘‘ میں خاص طورپرخرق عادت کے حوالے سے ان کا موقف عین شاہ صاحب کے مطابق ہے کہ جوچیز بظاہر خرق عادت نظر آتی ہے’’وہ اصول قدرت (فطرت) کے خلاف نہیں ہوتی‘‘۔عالم مثال کے حوالے سے بھی وہ شاہ صاحب کی تشریحات سے متاثرنظرآتے ہیں۔ (۵۲) علمائے دیوبند میں مولانا عبید اللہ سندھی ولی اللہی علوم کے سب سے بڑے شارح تصورکیے جاتے ہیں۔صرف سیاست ومعیشت اورسماجیات ہی نہیں بلکہ وہ اسلامی مابعد الطبیعات کی ولی اللہی تشریحات کوبھی بعینہ قبول کرتے نظرآتے ہیں۔ (۵۳) علمائے دیوبند میں شاہ صاحب کے علوم ومعارف پرسب سے گہری اوروسیع نگاہ علامہ انورشاہ کشمیری کی ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا، وہ شاہ صاحب کے قدم عالم کے تصورکے ناقد ہیں لیکن دوسرے معاملات میں وہ بالکل خاموش نظر آتے ہیں۔عالم مثال کے تصور میں وہ شاہ صاحب سےبالخصوص متاثر نظر آتے ہیں۔ (۵۴)
چند ملاحظات
شاہ صاحب کے مشہور تفردات کے حوالے سے مندرجہ بالا سطور میں جو گفتگو کی گئی، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان میں سے اکثرتفردات میں شاہ صاحب منفرد نہیں ہیں۔ یا تو علمائے اسلاف واخلاف میں ایک طبقہ ان کا براہ راست یا بعض پہلوؤں سے قائل رہا ہے۔ یا پھر اہل سنت کے متعین دائرے سے باہر بعض اسلامی فرقے یا ان سے وابستہ اصحاب علم ان کے قائل رہے ہیں۔اگر شاہ صاحب کے اس موقف کو پیش نظر رکھ کر غور کیا جائے تو اس میں کوئی حیرت کا پہلو باقی نہیں رہتا کہ شاہ صاحب نے جمہور اہل سنت سے اختلاف رائے رکھتے ہوئے دوسرا موقف کیوں اختیار کیا؟ شاہ صاحب کا موقف یہ ہے کہ علم کلام میں اہل سنت کا اطلاق کسی متعین مکتب فکر پر نہیں ہوتا کہ اس کے مخصوص عقائد و افکار کے حاملین کو اہل سنت شمار کیا جائے اور باقی کو اہل بدعت، بلکہ اس کا تعلق مسائل سے ہے۔ منصوص مسائل کو بلا تاویل قبول کرنا ضروری ہے ۔ (۵۵) شاہ صاحب کے اس موقف کو غزالی کے اس موقف کے تناظر میں دیکھنا چاہیے جو انہوں نے فلاسفہ کی تکفیر کے حوالے سے اختیار کیا ہے۔۔ (۵۶) لیکن غیر منصوص مسائل جن میں صحابہ کرام سے کچھ بھی مروی نہیں ہے، ان میں کوئی نیا موقف اختیار کرنا اہل سنت کے منہج سے انحراف کے ہم معنیٰ نہیں ہے۔ تاہم ان کے بقول ان کے تفردات عام معنی میں تفرد بھی نہیں کیوں کہ علم لدنی کے حاملین بعض اہل سنت ان کے قائل رہے ہیں۔ (۵۷)
میرے خیال میں شاہ صاحب کا صرف ایک تفرد ایسا ہے جس کی بظاہر کوئی بھی قابل ذکر شخصیت قائل نہیں رہی ہے۔شاہ صاحب نے التفہیمات الالہیہ میں اس خیال کا ذکر کیا ہے کہ قرآن کے الفاظ خود رسول اللہ کے تخیل کانتیجہ ہیں۔ صرف معانی کا القا یا فیضان غیب سے ہوا ہے۔ (الفاظ القرآن انما ھی من اللغة العربیة التی یعرفھا نبینامحمدﷺ والمعانی فائضة من الغیب۔۔) (۵۸) شاہ صاحب کے اس موقف پر سرسید جیسی آزاد خیال شخصیت نے بھی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اسے قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ (۵۹) البتہ شاہ صاحب کی متعلقہ عبارت میں کچھ ابہام سانظرآتا ہے۔مزید یہ کہ شاہ صاحب کے اس نقطہ نظر کی کوئی توجیہ وتشریح یا اس پرکوئی تنقید مجھے کہیں نظرنہیں آئی۔
شاہ صاحب کے تفردات پر غور کرتے ہوئے یہ نکتہ نگاہ میں رہنا ضروری ہے کہ غزالی اور بعض دیگر اکابرین امت کی طرح شاہ صاحب کی بعض تحریریں صرف اصحاب علم وذوق کے ایک مخصوص طبقہ کے لیے ہیں۔غزالی نے ’’جواہر القرآن ‘‘ اوربعض دوسری کتابوں میں اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ ان کی بعض کتابیں صرف خواص کے لیے ہیں۔ شاہ صاحب کا کوئی ایسا بیان میری نگاہ سے نہیں گزرا لیکن حقیقت یہ ہے کہ شاہ صاحب کے بعض فرمودات کو اسی تناظر میں دیکھتے ہوئے کوئی رائے قائم کرنی چاہیے۔ظاہر ہے شاہ صاحب کے بعض ’قابل اعتراض مواقف ‘کے حوالے سے یہ تو جیہ کافی نہیں ہے۔تاہم اس سے شاہ صاحب کی ذہنی وفکری ساخت کو پڑھا جا سکتا ہے۔
ابوالحسن علی ندوی کا خیال ہے کہ ’’تفہیمات‘‘ کی حیثیت ایک ذاتی بیاض کی سی ہےجس کی اشاعت ممکن ہےشاہ صاحب کوپسند نہ ہو۔ (۶۰) لیکن یہ خیال صحیح محسوس نہیں ہوتا۔کیوں کہ’تفہیمات‘‘ کی نوعیت کے مضامین اورفکری تفردات دوسری متعدد کتابوں ’’ تاویل الاحادیث‘‘، ’’الخیر الکثیر‘‘ وغیرہ میں بھی بکثرت پائے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شاہ صاحب کلام میں’ اجتہاد ی‘ فکر کے دائرے کو وسیع تر رکھنے کے قائل تھے۔ اسی وجہ سے انہوں نے بھی اس حوالے سے اپنی فکر ونظر کی جولانیوں پر کوئی بندش قائم نہیں کی۔ علم کلام کے حوالے سے شاہ صاحب کی آزاد طبیعت کا ایک پہلو یہ ہے، جیسا کہ اوپر اس کا ذکرآیا، کہ انہوں نے غزالی کی ہی طرح تمام اسلامی اور نیم اسلامی فرقوں کے فلسفیانہ و کلامی افکار سے وسعت کے ساتھ استفادہ کیا، جس کے واضح اثرات ان کی کلامی فکر پر مرتب ہوئے۔ غزالی کی طرح وہ اپنی اسلامی ما بعد الطبیعاتی فکر کو ان فرقوں کی ایجاد کردہ اصطلاحات اور اختیار کردہ فکری اسلوب میں پیش کرتے ہیں اور گویا اسلامی فکر کا معیاری عقلی قالب تشکیل دینے کے لیے اسے وہ ضروری تصور کرتے ہیں۔ چنانچہ ابو علی سینا اور اخوان الصفا کی مشائی اور شہاب الدین سہروردی (مقتول) کی اشراقی فکر کی جھلکیاں شاہ صاحب کی فکر میں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔ اس فرق کے ساتھ کہ شاہ صاحب کی کلامی فکر نے ان تمام رجحانات سے عطر کشید کیا لیکن اپنی فکر کو اس میں مدغم نہیں ہونے دیا۔ تاہم کہنے والے کو پھر بھی ایک حد تک یہ کہنے کا حق حاصل ہے، جیسا کہ غزالی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: انہ دخل فی بطون الفلاسفة ثم اراد ان یخرج فما قدر۔ ( غزالی فلاسفہ کے پیٹ کے اندرون میں داخل ہوگئے لیکن جب اس سے نکلناچاہا تونہ نکل سکے۔ (۶۱)
خلاصۂ کلام
شاہ صاحب کے فقہی مسلک اورنظریات اور مسلک پراصحاب علم نے کافی لکھا ہے۔لیکن ان کے کلامی نظریات کوعام طورپرعلمی حلقوں میں بحث کا موضوع نہیں بنایا جاسکا۔حالاں کہ، جیساکہ اوپرکی بحث سے اندازہ کیا جاسکتا ہے، شاہ صاحب کی کلامی فکر اور اس کے مختلف پہلو اہل علم کے مطالعے اورغوروفکرکے متقاضی ہیں۔زیر نظرمقالے میں شاہ صاحب کی کلامی فکرکے صرف ایک زاویے کوموضوع گفتگو بنایا گیا ہے۔ان شا اللہ اس سلسلے کی بعض دوسری تحریروں میں شاہ صاحب کلامی نکات فکر کے بعض دوسرے پہلووں سے بحث کی جائے گی۔
حواشی و تعلیقات
(۳۵ الف) التفھیمات الالھیۃ، ج، ۱، ص، ۱۵۸۔
(۳۵ب) الخیر الکثیر، گجرات: المجلس العلمی، ۱۳۵۲ص، ۴۱)
(۳۶) حسن التقاضی، ص، ۹۸علامہ کشمیری نے بھی اس پر اپنی حیرت کا اظہارکیا ہے۔ملفوظات محدث کشمیری، (مرتب:احمد رضا بجنوری) دیوبند: بیت الحکمت، سال اشاعت غیرمذکور، ص، ۲۳۶
(۳۷) ترمذی، حدیث نمبر، ۳۱۰۹
(۳۸) ) التفھیمات الالھیۃ، ص، ۱۸۵
(۳۹) حاشیہ فیض الباری، ج، ۴ص، ۲۹۹۔۳۰۰
(۴۰) ابن رشد، فصل المقال فی تقریرما بین الشریعۃ والحکمۃ من الاتصال، (مع مدخل ومقدمہ الدکتور محمد عابد الجابری) بیروت:مرکز دراسات الوحدۃ العربیۃ، ص، ۱۰۴۔۱۰۵
(۴۱) انورشاہ کشمیری، مرقاۃ الطارم لحدوث العالم، مشمولہ’’مجموعہ رسائل الکشمیری، دیوبند:دارالعلم، ۲۰۱۵ص، ۶۱، علامہ کشمیری کے اس قول کے لیے کہ شاہ صاحب نے ابن تیمیہ کا اثرقبول کیا ہے دیکھیے: ملفوظات محدث کشمیری، ص، ۲۳۷
(۴۲) انور شاہ کشمیری بلاتاویل اس بات کوقبول کرتے ہیں کہ ابن تیمیہ عرش کے قدم نوعی کے قائل ہیں کیوں کہ وہ استوا کے معنی جلوس کے لیتے ہیں جس کا لازمی تقاضا عرش کی قدامت کا قائل ہونا ہے۔فیض الباری، ج، ۶ص، ۵۶۳
(۴۳) تاویل الاحادیث، ص، ۶
(۴۴) ایضا، ص، ۱۲۔۱۳
(۴۵) ایضا، ص، ۴۵
(۴۶) ایضا، ص، ۷۵
(۴۷) ایضا، ص، ۷۲۔۷۲
(۴۸) ۔تاویل الاحادیث، ص، ۸۔۹
(۴۹) عبید اللہ سندھی، اردو شرح حجۃ اللہ البالغۃ، کراچی: حکمت انسٹی ٹیوٹ، ۲۰۱۰ ص، ۵۵
(۵۰) ایضا
(۵۱) یسین مظہر صدیقی کا مقالہ بعنوان، ’’سرسید کے تفسیری اصول‘‘ مشمولہ، ماہنامہ تہذیب الاخلاق، اکتوبر، ۱۹۹۵، مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ، ص، ۱۸
(۵۲) پہلی مثال کے لیے : الکلام ص، ۲۴۸، ( اعظم گڑھ:دار المصنفین، ۱۳۴۱ھ) دوسری مثال کے لیے :علم الکلام (اعظم گڑھ:دار المصنفین، ۱۹۹۳) ، ۱۰۹۔۱۱۰
(۵۳) ( مختلف تحریروں کے علاوہ حجۃ اللہ البالغہ کی ان کی شرح اور الفرقان شاہ ولی اللہ نمبر میں شامل ان کے مقالے’’ امام ولی اللہ کی حکمت کا اجمالی تعارف‘‘ سے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
(۵۴) کشمیری مختلف مقامات پرعالم مثال کی تشریح شاہ صاحب کی تشریحات کے مطابق کرتے نظرآتے ہیں۔مثلا دیکھیے:فیض الباری، ص، ۲۶۶۔۲۶۷
(۵۵) حجۃ اللہ البالغۃ، ص، ۵۸۔۵۹
(۵۶) غزالی نے بیس مسائل میں سے تین : عالم قدیم ہے، خدا کو جزئیات کا علم نہیں اور حشر جسمانی نہیں ہوگا؛ میں فلاسفہ کی تکفیر جبکہ باقی میں تبدیع کی ہے دیکھیے الغزالی، تھافت الفلاسفۃ، (تحقیق وتقدیم الدکتورسلیمان الدنیا) القاہرۃ:دار المعارف، ط، ۸، سن غیرمذکور، ص، ۳۰۷۔۳۰۸
(۵۷) حجۃ اللہ البالغۃ، ص، ۵۸
(۵۸) التفہیمات الالھیۃ، ج، ۱، ص، ۱۸۵
(۵۹) سرسید احمد خاں، تفسیر القرآن وھو الہدی والفرقان، لاہور: رفاہ عام پریس، ص، ۱۹۔۲۰
(۶۰) دیکھیے: ابوالحسن علی ندوی، تاریخ دعوت وعزیمت، ج، ۵، لکھنؤ: مجلس تحقیقت ونشریات اسلام، ۲۰۱۰ص، ۴۰۲
(۶۱) یہ قول ابن عربی مالکی کا ہے جوغزالی کے شاگرد ہیں۔