عمومِ بلوٰی کی شرعی حیثیت، شرائط اور وضاحتی مثالیں

مفتی سید انور شاہ

اسلام ایسا دینِ فطرت اور ضابطہ حیات ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوں پر حاوی ہے۔اس میں انسانی مزاج، خواہشات،ضرورت و حاجت،عذر ،کمزوریوں اور مشقتوں کا پورا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔حرج،تنگی،مشقت،پریشانی اور معتبر عذر کے وقت اجازت،سہولت،وسعت،گنجائش اور لچک سے کام لیا گیاہے۔تاکہ انسان اس کی روشنی میں اپنی زندگی اعتدال کے ساتھ خوشگواری کی حالت میں گزار سکے،اور شریعت پر عمل کرنےمیں کوئی دشواری،تنگی اور مشقت محسوس نہ کرے۔

فقہاء کرامؒ نےقرآن و سنت کی روشنی میں تخفیف و رخصت کے بنیادی طور پہ سات اسباب بیان فرمائے ہیں، جبکہ ماضی قریب کے بعض علماء نے مزید تفصیل و تشقیق سے کام لیتے ہوئے چودہ اسباب بیان فرمائے ہیں۔ان اسبابِ تخفیف میں ایک اہم سبب عموم بلوٰی ہے۔

عمومِ بلوٰی

   عمومِ بلوٰی دو لفظوں سے مرکب ہے۔(۱)عموم اور(۲)بلوٰی۔

لفطِ عموم باب نصر ینصر کا مصدر ہے اس کا لغوی معنی ہے:عام ہونا،پھیل جانا۔(مختار الصحاح:۴۶۷/بیروت)

( لسان العرب لابن منظور/مادۃ عم/۱۰/۲۸۷)

اور لفظِ بلوٰی بھی باب نصر ینصر   کامصدر ہے،جس کا لغوی معنی :آزمائش ،امتحان اور مشقت کے ہیں۔

(لسان العرب:۱۴/۱۰۳/فصل فی الباء الموحدۃ)(مختار الصحاح:۷۳)

عمومِ بلوٰی کی اصطلاحی تعریف

عمومِ بلوٰی سے مراد یہ ہے کہ کوئی ممنوع چیز اتنی عام اور اس قدر پھیل جائے کہ عام آدمی کے لیے اس سے بچنا واقعتًامشکل اور دشوار کن ہو جائے۔

ڈاکٹر شیخ عبد الکریم زیدان عمومِ بلوٰی کی تعریف کے متعلق لکھتے ہیں:

شیوع ما یتعرض لہ الانسان بحیث یصعب لہ التخلص منہ۔ (الوجیز فی شرح القواعدا لفقہیۃ،۶۱/بیروت)

ترجمہ: عمومِ بلوٰی کا مطلب ہے کسی  چیزکا اس طور پر پھیل جانا کہ جس سے بچنا انسان کے لیے مشکل ترہو جائے۔

ملک شام کے مشہور عالمِ دین شیخ ڈاکٹروھبہ زحیلی صاحبؒ نے عمومِ بلوٰی کی تعریف یوں بیان کی ہے:

شیوع البلاء بحیث یصعب علی المرء التخلص او الابتعاد منہ۔ (نظریۃ الضروریۃ الشرعیۃ:۱۲۳،بیروت)

 ترجمہ:یعنی مصیبت کا اس قدر عام ہونا کہ آدمی کیلئے اس سے چھٹکارا حاصل کرنا اور بچنا دشوارہو جائے۔

معجم الفقہاء میں اس کی تعریف یوں بیان ہوئی ہے:عموم البلوٰی:شیوع المحظور شیوعًا یعسر علی المکلّف معہ تحاشیہ۔یعنی کسی ممنوع چیز کا اس قدر پھیل جانا کہ آدمی کیلئےاس سے دوررہنا مشکل ہو جائے۔ (معجم لغۃ الفقہاء:۳۲۲)

عمومِ بلوٰی کاحکم

عمومِ بلوٰی کاحکم یہ ہے کہ جن امور میں نص قطعی اور نص صریح موجود نہ ہو وہاں عمومِ بلوٰی کی وجہ سے عدمِ جواز کا حکم ساقط ہوجاتا ہےیا مکروہات میں تخفیف آجاتی ہے۔جیساکہ ایک حدیث میں بلی کو درندہ قرار دیا گیا ہے،یعنی بلی کا حکم وہی ہے جو درندہ کا ہے،اور درندے کا گوشت،لعاب اور جھوٹا ناپاک و نجس اور حرام ہے،لہذا قیاس کا تقاضہ تو یہ ہے کہ  بلی کا جھوٹا بھی ناپاک ہو،مگر چونکہ بلی کےجھوٹے سے عام طور پر بچنا دشوار ہوتا ہے،اس لیے ابتلاء عام کی وجہ سے   بلی کے جھوٹےکی نجاست ساقط ہوگئی ہے،البتہ کراہت باقی ہے۔چنانچہ اس سلسلے میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ:وہ خود ایک مرتبہ نماز پڑھ رہی تھیں انہوں نے گھر میں ہریسہ(ایک خاص قسم کا کھانا جو گوشت اور گندم سے تیار کیا جاتا تھا)ایک پیالے میں رکھا ہوا تھا۔اس دوران بلی آکر اس سے کھا گئی،جب حضرت عائشہ ؓ  نماز سے فارغ ہوئیں تو انہوں نے پڑوس کی خواتین کو اپنے گھر بلایا،تاکہ وہ ان کے ساتھ اس خاص کھانے میں شریک ہو جائیں، چنانچہ جب وہ خواتین کھانا کھانے کیلئےبیٹھ گئیں تو اس جگہ سے پرہیز کرنے لگیں جہاں بلی نے منہ مارا تھا،حضرت عائشہ ؓ نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اسی جگہ سے تناول فرمایا جہاں سے بلی نے کھایا تھا،اور فرمایا کہ میں نے جناب نبی کریم ﷺسے سنا ہے کہ بلی کا جھوٹا ناپاک نہیں ہے،کیونکہ وہ تمہارے گھر میں کثرت سے آتی رہتی ہے۔ (ابو داود:باب سورا لھرۃ)  

بہر حال حاصل یہ ہے کہ قیاس کا تقاضہ تو یہی ہے کہ بلی کا جھوٹا ناپاک ہو مگراس حدیث کی وجہ سے اس کی نجاست ساقط ہوگئی ہے،البتہ کراہت باقی ہے۔

علامہ ابن ہمامؒ فرماتے ہیں کہ:بلی کا جھوٹا اپنی اصل کے اعتبار سے نجس ہے،لیکن عمومِ بلوٰی کی وجہ سے اس کی اجازت دی گئی ہے،حدیث میں ذکر کردہ علتِ طواف خود کراہتِ تنزیہی پر دلالت کرتی ہے۔ (فتح القدیر: ۱/۱۱۶،DKI،بیروت)

لیکن جس چیزمیں ابتلاء عام نہ ہو اس کے متعلق کراہت میں تخفیف نہیں آئیگی،بلکہ اس کی ممانعت بحالہ باقی رہے گی۔جیسے گدھے کا گوشت کہ اس میں عمومِ بلو ی نہیں ہے اس لیے اس کی ممانعت اپنی جگہ بعینہ باقی رہے گی۔علامہ ابن عابدین شامیؒ لکھتے ہیں:

إن کان الأصل فیہ الحرمة ،فإن سقطت لعموم البلوٰی فتنزیہ کسؤر الھرة وإلا فتحریم کلحم الحمار۔(رد المحتار:۹/۵۵/کتاب الحظر والاباحۃ/رشیدیہ)

یعنی اگر اصل کے اعتبا رسے اس میں حرمت موجود ہو لیکن عمومِ بلوٰی کی وجہ سےوہ حرمت ساقط ہوچکی ہوتوپھر  کراہت ِ تنزیہی کے درجہ میں آجاتی ہے۔(یعنی عمومِ بلوٰی کی وجہ سےوہ چیز مکروہِ تحریمی کے بجائےمکروہ تنزیہی شمار ہوگی)۔اور اگر عموم بلوٰی نہ ہو تو مکروہ تحریمی اپنی حالت پر باقی رہے گی،جیسا کہ گدھے کا گوشت۔مبسوط میں ہے: فللبلوٰی تأثیر فی تخفیف حکم النجاسة۔ (۲۱/۲۳)

ترجمہ:عمومِ بلوی کی وجہ سے نجاست کے حکم میں تخفیف ہوجاتی ہے۔

عمومِ بلوٰی کی حجیت قرآن کی روشنی میں

عمومِ بلوٰی کی مشروعیت اور جواز  قرآن و سنت دونوں سے ثابت ہے۔ قرآن مجید  میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

یا أیُّھا الّذین اٰمنوا لیستأذنکم الذین ملکت أیمانکم  والذین لم یبلغوا الحُلُمَ منکم ثلاٰث مرّاتط من قبل صلاۃ ا لفجر وحین تضَعُوْن ثیابکم  من الظھیرۃ  ومن بعد صلاۃ العشاءط ثلاث عورات لکم  طلیس علیکم ولا علیھم جناح بعدھنططوافون علیکم بعضکم علی بعضطکذلک یبین اللہ لکم الایاتطواللہ علیم حکیم۔(سورۃ النور:۵۸)

اس آیتِ کریمہ میں نابالغ بچوں ،غلاموں اور خدام  کے خلوت گاہ میں داخل ہوتے وقت اجازت کے احکام موجود ہیں۔چونکہ نابالغ بچےاور خدام وغیرہ عمومًا ساتھ ایک گھر میں  رہتے ہیں۔ہر وقت ان کا آنا جانا رہتا ہے۔ان سے عورتوں کا پردہ بھی نہیں ہوتا،اس لیے ان کے لیے حکم یہ ہے کہ تین اوقات میں ان کو بھی کمرہ میں داخل ہوتے وقت اجازت لینی چاہیے۔وہ تین  اوقات یہ ہیں فجر کی نماز سے پہلے، دوپہر کوآرام کرتے وقت  اور عشاء کی نماز کے بعد۔ان اوقات میں اقارب، محارم یہاں تک کہ نا بالغ بچوں اور غلام کو بھی  اجازت کا پابند کیا گیا ہےکہ ان تین اوقات میں کوئی بھی کسی کی خلوت گاہ میں بغیر اجازت کے نہ جائے،کیونکہ یہ اوقات خلوت اور استراحت کے ہیں۔ البتہ باقی اوقات میں اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے،وجہ اس کی یہ ہے کہ بچوں اور خدام وغیرہ کابکثرت  آنا جانا اور میل جول ہوتاہے اب اگر ہر وقت ان پر اجازت لینے کی پابندی لگائی جائے  تو اس سے دشواری اور تنگی پیدا ہوگی۔آیتِ کریمہ میں لفظِ ’’طوّافون‘‘ سے اسی طرف اشارہ ہے ۔اس لیے ابتلاء عام کی وجہ سے تنگی اور دشواری کو ختم کرتے ہوئے دیگر اوقات میں اجازت لینے کے حکم کو ساقط کردیا گیا ہے۔اسی کو فقہ اسلامی کی زبان میں عمومِ بلوٰی کہتے ہیں کہ ابتلاء عام کے وقت لوگوں کی مشکلات کو  سامنے رکھ کر شرعی حدود میں رہتےہوئے آسانی کا جائز راستہ تلاش کیا جائے۔

(۲) یرید اللہ أن یخفف عنکم وخلق الانسان ضعیفًا۔ (سورۃا لنساء:۲۸)

ترجمہ: اللہ چاہتا ہے کہ  تمہارے ساتھ آسانی کامعاملہ کرے اور  انسان کو کمزور پیدا کیا گیا ہے۔

یعنی اللہ تعالی نےانسان کی ضروریات اور مشکلات کا لحاظ کر کے آسان اور ہلکے احکام نازل فرمائے ہیں تاکہ ان آسان اور نرم احکام پر  سب بآسانی عمل پیرا ہوسکیں۔

(۳) وما جعل علیکم فی الدین من حرج۔(سورۃالحج:۷۸)

ترجمہ:اور تم پر دین کے معاملے میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔

حضراتِ مفسرین نے اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ شریعت  نے انسانوں پر ایسے معتدل  اور مناسب احکام لازم کیے ہیں،جن پر عام حالات میں عمل کرنے سے بہت زیادہ مشقت،تنگی اور پریشانی لاحق نہیں ہوتی،بلکہ شریعت میں کوئی ایساحکم نہیں ہے  جو انسان کی طاقت سے باہر ہو۔دوسری طرف شریعت نے غیرمعمولی اور ہنگامی صورتِ حال یعنی ضرورت و حاجت اور ابتلاء عام کے وقت لچک،وسعت،گنجائش،سہولت اور آسانیاں فراہم کی ہیں، جیسے سفر میں نماز کاقصر،بیماری میں تیمم وغیرہ۔

فقہاء کرامؒ نے اسی آیتِ کریمہ سے مندرجہ ذیل فقہی قواعد  کا استنباط کیا ہے،مثلاً: ’’أنّ المشقة تجلب التیسیر‘‘ و ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ و ’’أن الضرر یزال‘‘ وغیرہ۔

 وفی تفسیر السعدی: وما جعل علیکم فی الدین من حرج :أی مشقة وعسر، بل یسرہ غایة التیسیر، وسھلہ بغایة السھولة، فأولا ما امرو ألزم  إلا بما ھو سھل علی النفوس، لا یثقلھا ولا یؤودھا، ثم إذ اعرض بعض الأسباب الموجبة للتخفیف، خفف ما اٰمر بہ، إما بإسقاطہ أو اسقاط بعضہ، ویؤخذ من ھذہ الاٰیة: قاعدۃ شرعیة وھی ’’أن المشقة تجلب التیسیر‘‘ و’’الضرورات تبیح المحضورات‘‘فیدخل فی ذالک من الأحکام الفرعیة شیءکثیر معروف فی کتب الحکام۔(تفسیر السعدی:سورۃ الحج:۷۸)
وفی تفسیر الوسیط الطنطاوی: ومن مظاھر رحمتہ بکم أیّھا  المؤمنون أنہ سبحانہ لم یشرع فی ھذا  الدین الذی یدینون بہ ما فیہ مشقة بکم، أو ضیق علیکم وِإنما جعل أمر ھذا الدین مبنی علی الیسر والتخفیف ورفع الحرج، ومن قواعدہ التی تدل علی ذلک: ’’أن الضرر یزال‘‘و’’أن المشقة تجلب التیسیر‘‘و’’أن الیقین لا یزول  بالشک‘‘(تفسیر الوجیز لطنطاوی، سورۃالحج:۷۸)


(۴) یرید اللہ بکم الیسر ولا ترید بکم العسر۔(سورۃا لبقرۃ:۱۸۵)

ترجمہ:اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی کا معاملہ کرنا چاہتاہے اور تمہیں مشکل میں  اور تنگی میں نہیں ڈالنا چاہتا ۔

عمومِ  بلوٰی احادیثِ طیبہ کی روشنی میں

احادیث طیبہ کے عظیم ذخیرہ میں بہت سی احادیث  سے بھی یہ بات واضح طور پر ثابت  ہےکہ جناب نبی کریمﷺ  نے مشقتِ شدیدہ ،تنگی اور ابتلاء عام کے وقت تخفیف،وسعت اور آسانی کا حکم فرمایا ہے۔ذیل میں صرف چند احادیث پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔

(۱) یسّروا ولا تعسّروا وبشروا ولا تنفروا۔ (بخاری:کتاب العلم/باب ما کان  النبی ﷺ ینخو لھم بالموعظۃ)

ترجمہ:لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کیا کرو،انہیں تنگی اور مشقت میں نہ ڈالو،لوگوں کو خوشخبری سناؤ،انہیں  نفرت نہ دلاؤ۔

(۲) إنما بعثتم میسّرین ولم تبعثوا  معسّرین۔ (بخاری/کتاب الوضوء/باب صب الماء علی البول)

          ترجمہ:تمہیں اس لیے مبعوث کیا گیا ہے تاکہ تم آسانی اور سہولت کا معاملہ کرو نہ کہ تنگی اور پریشانی کا۔

(۳)بنو اشھل کی ایک خاتون حضوراقدسﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا:یا رسول اللہ!ہمارے گھروں سے مسجد کی طرف جو راستہ نکلا ہوا ہے اس میں اکثر گندگی رہتی ہے خاص کر جب بارش ہوجائے تو گندگی پانی کے ساتھ مل جاتی ہےاور پھر اس سے بچنا مشکل ہوتا ہے۔ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ:اس کے بعد صاف راستہ شروع نہیں ہوتا؟،انہوں نے فرمایا :جی ہاں اس کے بعد صاف راستہ آتا ہے،آپ نے فرمایا:یہ صاف راستہ  اس گندگی کوصاف کردے گا،یعنی صاف جگہ کے رگڑنے سے وہ گندگی صاف ہوجائے گی۔(سنن ابی داؤد:کتاب الطھارۃ،باب فی الأذی،۱/۹)

اس حدیث سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوئی  کہ جس چیز سے بچنا مشکل ہو  وہاں تخفیف اور آسانی آجاتی ہے۔

قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات کریمہ اور احادیثِ طیبہ سےمعلوم ہوا کہ اسلام  نے انسانوں کے مفادات و مصالح، تنگی وحرج،ضرورت و حاجت ، کمزوریوں اورمشقتوں کا پورا پورا لحاظ و پاس رکھاہے۔اس لیے مقاصد شریعت میں رفع ِحرج و تنگی ،دفع ضرر ومشقت اور ابتلاء عام کے معتبر ہونے کو نمایاں مقام حاصل ہے۔

عمومِ بلوٰی کے معتبر ہونے کی شرائط و حدود

واضح رہے کہ ان آیات واحادیث کا ہرگز یہ منشاء نہیں کہ عمومِ بلوٰی یعنی ابتلاءِ عام کے وقت وسعت وگنجائش اور سہولت و لچک کیلئے ہر انسان کو آزاد چھوڑ دیا جائےیا اس کی حدود کی تعیین کے لیے ہر ایک شخص  کو ترازو ہاتھ میں دیدیا جائے کہ وہ اپنی نفسانیت اور خواہش کے مطابق اس کو تولتا رہےکہ ایسا کرنا اباحیت کے دروازے کو کھولنے کے مترادف ہوگا۔اس لیے فقہاء کرام ؒنے  عمومِ بلوٰی کے معتبر ہونے کیلئے چند شرائط مقررکی ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

(۱) عمومِ بلوٰی کسی نص قطعی اورنص صریح سےمعارض نہ ہو:-

جن مسائل کےمتعلق قرآن کریم  یا سنت ِنبوی میں نص قطعی یا نص صریح موجود ہو  ان میں کسی  قسم کا اجتہاد نہیں ہوسکتا۔اس لیے ایسے معاملات میں عمومِ بلوٰی کی کوئی گنجائش نہیں۔عمومِ بلوٰی کا اعتبار وہیں ہوتا ہے  جہاں کوئی نص قطعی موجود نہ ہو ۔مثلاً سود کاحرام ہونا قرآن کریم کی واضح نصوص سے ثابت ہے۔کسی بھی طرح کے سود کو حلال بنانے کیلئے اجتہاد کرنا یا عمومِ بلوٰی یا ابتلاء عام کو سند بنانا شریعت سے انحراف کے مترادف ہے۔لہذا اگر  کسی  ملک یا ساری دنیا میں سودی کاروبار اور شراب نوشی عام ہوجائے ،اسی طرح سٹہ بازی یا ایسا کاروبار  جو اس کی تعریف میں آتا ہو رواج پذیر ہوجائے،یا عورتیں  پردہ بالکل ترک کردیں تو ان امور میں عمومِ بلوٰی کا اعتبار بالکل نہیں  کیاجائے گا،کیونکہ نص قطعی کے مقابلے میں عمومِ بلوٰی کا  اعتبار نہیں ہوتا ۔

عمومِ بلوٰی نص ظنی کے معارض ہو:-

اگر عمومِ بلوٰی نص ظنی کے معارض ہو تو ایسی صورت میں عمومِ بلوٰی پر عمل کیا جائے گا ؟ یا خبر واحد پر؟ چنانچہ اس سلسلے میں فقہاء کرام ؒکا اختلاف ہے۔امام سرخسیؒ اور علامہ ابن نجیمؒ کا مذہب یہ ہے کہ اگر نص ظنی اور عموم بلوٰی میں تعارض ہوجائے تو ایسی صورت میں نص ظنی (خبر واحد) پر عمل کیا جائے گا۔

امام سرخسیؒ فرماتے ہیں:

وإِنما تعتبر البلوٰی فیما لیس فیہ نص بخلافہ فأما مع وجود النص لا معتبر بہ.  (المبسوط:۴/۱۰، تبیین الحقائق:۲/۸۰)

ترجمہ:عمومِ بلوٰی کا اعتبار وہاں کیا جائے گا جہاں اس کے خلاف کوئی نص موجود نہ ہو۔جہاں نص موجود ہو وہاں عمومِ بلوٰی کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔

وقال ابن نجیمؒ: ولا اعتبار عندہ بالبلوٰی فی موضع النص، وقال الحمویؒ: المشقة والحرج  إنما یعتبران فی موضع لا نص فیہ، وأما مع النص بخلافہ فلا.(غمز عیون الأبصار شرح کتاب الأشباہ والنظائر،۱/۲۷۴/تحت القاعدۃ الرابعۃ:المشقۃ تجلب التیسیر/بیروت)

جبکہ علامہ ابن ہمام ؒاور بعض دیگر فقہاء کرامؒ کی رائے یہ ہے کہ اگر عمومِ بلوٰی اور نص ظنی میں ٹکراؤ آجائے تو خبرِ واحد کو چھوڑ کر عمومِ بلوٰی پر عمل کیا جائے گا۔

علامہ ابن ہمامؒ فتح القدیر میں لکھتے ہیں:

وما قیل إن البلوٰی لاتعتبر  فی موضع النص عنہ ،کبول الانسان  ممنوع، بل تعتبر إذا تحققت،  بالنص النافی للحرج وھو لیس معارضة للنص بالرأی۔(فتح القدیر:۱/۱۸۹)

یہ جو بات کہی جاتی ہے کہ عمومِ  بلوٰی اس مسئلے میں معتبر نہیں ہے جس میں نص موجود ہو،یہ بات ناقابل تسلیم ہے۔نص کی موجودگی میں بھی عموم کا اعتبار کیا جائیگابشرطیکہ عمومِ بلوٰی متحقق ہو،اس نص کی بناء پر جو حرج کی نفی کرتی ہے،اور یہ رائے کے ذریعے نص کا معارضہ نہیں ہے۔

اس  مسئلے کے متعلق امام سرخسی ؒ اور علامہ ابن نجیم ؒ کا قول راجح معلوم ہوتا ہے۔لیکن مجھے دیگر فقہی عبارات اور جزئیات کی  روشنی میں یہ بات زیادہ درست معلوم ہوتی ہے کہ عمومِ بلوٰی کی وجہ سے حدیث (خبرِ واحد) کو بالکلیۃ چھوڑنا تو درست نہیں ہے البتہ حدیث میں تخصیص کرکے یوں کہا جاسکتا ہے کہ جس صورت کے متعلق حدیث وارد ہوئی ہے وہ تو ناجائز ہے لیکن دیگر صورتیں عمومِ بلوٰی کی وجہ سے جائز ہیں۔جیسا کہ بلخ کے فقہاء کرامؒ نے قفیز الطحان سے ملتی جلتی صورتوں کو تعامل کی بنیاد پر اس لیے جائز کہا ہے کہ عرف و تعامل کی وجہ سے اگرچہ حدیث کو منسوخ تو نہیں کیا جاسکتا،البتہ اس میں تخصیص کی جاسکتی ہے۔علامہ ابن عابدین شامیؒ لکھتے ہیں:

لو دفع إلی  حائک غزلاً لینسجه بالثلث فمشایخ بلخ کنصیر بن یحیی ومحمد بن سلمة وغیرھما کانوا یجیزون ھذہ الإجارۃ فی الثیاب لتعامل أھل بلدھم فی الثیاب، والتعامل حجة یترک بہ القیاس ویخص بہ الأثر  وتجوز ھذہ الإجارۃ فی الثیاب للتعامل بمعنی تخصیص النص الذی ورد فی قفیز الطحان، لأن النص ورد فی قفیز الطحان لا فی الحایک إلا أن الحایک نظیرہ  فیکون واردًا فیہ دلالة فمتی ترکناالعمل بدلالة ھذا النص فی الحایک  عملنا بالنص فی قفیز الطحان کان تخصیصًا لا ترکًا اصلاً وتخصیص النص بالتعامل جائز.(شرح عقود رسم المفتی:۱۴)

ترجمہ: اگر کسی نے کپڑا بننے والے کو کپڑا اس شرط پر دے دیا کہ اس کپڑے کی ایک تہائی مقدار کے بدلے میں اسے کپڑا بن دے گا تو بلخ کے مشائخ جیسے نظیر بن محمد یحییٰ،محمد بن سلمہ وغیرہ نے اس صورت کو جائز قرار دیا ہےکیونکہ ان کے شہر میں اس طرح معاملہ کرنے کا عام رواج تھااور تعامل ایک ایسی دلیل ہے جس کی وجہ سے قیاس کو ترک کیا جا سکتا ہے اور حدیث میں تخصیص کی جاسکتی ہے،لہذا تعامل کی  وجہ سے کپڑوں کے اجارہ میں اس صورت کو جائز قرار دینے کا  مطلب یہ  ہوگا کہ قفیز الطحان سے متعلق وارد حدیث کے اندر تخصیص کردی گئی ہے کیونکہ حدیث قفیز الطحان سے متعلق ہے،کپڑے بننے سے متعلق نہیں،البتہ کپڑابننے کی صورت اس کی نظیرہے،اس لیے وہ حدیث دلالۃً اس  کے بارے میں بھی ہوگی،لہذا ہم نے تعامل کی وجہ سے کپڑا بننے کے مسئلہ میں اس حدیث پر عمل نہیں کیا اور قفیز الطحان کے سلسلے میں اس حدیث پر عمل کیا تو یہ حدیث میں تخصیص ہوئی،حدیث کوبالکلیہ ترک کرنا نہ ہوا اور تعامل کی وجہ سےحدیث میں تخصیص کی جا سکتی ہے۔

حاصل یہ ہے کہ  اگر قفیز الطحان  کا رواج ہوجائے تو تعامل کی وجہ سے اس کوجائز نہیں قرار دیا جاسکتا  کہ اس سے حدیث کو بالکلیہ چھوڑنا لازم آتا ہے جو کہ درست نہیں ہے،البتہ اس سے ملتی جلتی صورتوں کا تعامل ہوجائے تو تعامل کی وجہ سے حدیث میں تخصیص کرکےان کو جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔

(۲) دوسری شرط یہ ہے کہ عموم بلوٰی کی وجہ سے واقعۃً مسلمانوں کی اجتماعی ضرورت متحقق ہو ،محض وہم اور تن آسانی  کی بنیادپر عموم بلوٰی کا فیصلہ کرنا درست نہیں ہوگا۔

(۳) عموم بلوٰی پر مبنی احکام کی سہولت ابتلائےعام کےوقت تک محدود ہوگی۔ابتلائے عام ختم ہوتی ہی سہولت وتخفیف کا حکم ختم ہوجائے گا۔یہ شرط فقہ کے اس مشہور قاعدہ سےماخوذہے (ما جاز لعذرٍ بطل بزوالہ) جو چیز کسی عذر کی بناءپر جائز قراردیا گیا ہو تو عذر ختم ہوتے ہی جواز کا حکم بھی ختم ہوجاتاہے۔

(۴) عموم بلوٰی بالفعل موجود ہو،آئندہ اس کی وقوع کا اندیشہ معتبر نہیں۔

(۵)عموم بلوٰی کے تحقق کا فیصلہ ارباب اہل علم واہل فتوی حضرات کے رائے پر موقوف ہوگا۔عوام کا فیصلہ  اس سلسلے میں معتبر نہیں ہوگا۔نیز اس سلسلے میں مناسب یہ ہے کہ  کوئی ایک مفتی خود رائی  کے ساتھ فیصلہ نہ کرےبلکہ دیگر اہل فتوی حضرات سے مشورہ کرے اگر وہ بھی متفق ہوں تواتفاق رائے کے ساتھ ایسا فتوی دیاجائے۔

عموم بلوٰی کی وضاحتی مثالیں

جن مسائل میں فقہاءکرام ؒنے عموم بلوٰی کو بنیاد بناکر سہولت ،وسعت اور گنجائش کا حکم لگایا ہےان کی تعداد تو فقہی کتب میں کافی زیادہ ہے جس کا احاطہ اس مختصر مضمون میں مشکل ہے اس لیے ذیل میں عموم بلوٰی کو مزید واضح کرنے کے لیے صرف پانچ مثالوں پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔

(۱) پیشاب کی باریک چھینٹیں

پیشاب کا ایک قطرہ قطرہ نجس و ناپاک ہے،لیکن  پیشاب کرتے وقت بدن اور کپڑے پرسوئی کی نوک کے برابر باریک چھینٹیں پڑ ہی جاتی ہیں۔عام طور پراس سے بچنا مشکل ہوتاہے،اس لیے شریعت نے عام لوگوں کے ابتلاء کی وجہ سے اس کو معاف قراردیاہے،لہذا پیشاب کے ایسی باریک چھینٹیں جوسوئی کی نوک کے برابر ہوں معاف ہے۔ان سے کپڑا اور بدن ناپاک نہیں ہوگا۔

وفی التنویر مع شرحہ: وبول انتضح کرأس إبرٍ، وفی الشامیة تحتہ: والحاصل أنّ فی المسألة قولین مبنیین علی الإختلاف فی المراد من قول محمّدؒ کرؤس الإبر، أحدھما:أنّہ قیّد بہ عن رأسھا من الجانب الآخر وعن رأوس المال...وثانیھما:أنّہ غیر قید وإنّما ھو تمثیل للتقلیل، فیعفی عنہ سواءً کان مقدار رأسھا من جانب الخرز أو من جانب الثقب، ومثلہ ما کان کرأس المسئلة، وعلمت أنّہ فی الکافی اختار القول الثانی ولکن ظاھر المتون والشروح اختار الأول لأنّ العلة الضرورۃ قیاساًعلی ما عمّت بہ البلوٰیٰ ممّا علی أرجل الذناب فإنّہ یقع علی النجاسة ثمّ یقع علی الثباب، قال فی النھایة ولا یستطاع الإحتراز عنہ۔ (۱/۳۲۳/باب الأنجاس)

(۲) بارش میں کیچڑ اور پانی کے چھینٹوں کا مسئلہ

بارش کی موسم میں راستوں پر موجودکیچڑ اور پانی کے چھینٹے اگر کپڑوں یا بدن پر لگ جائیں تو عموم بلوٰی کی وجہ سے فقہاء کرامؒ نے فرمایا ہے کہ ان چھینٹوں سے کپڑا اور بدن ناپاک نہیں ہوگا بشرطیکہ اس میں نجاست کا اثر محسوس نہ ہو۔

وفی ردالمحتار:طین الشوارع  عفو وإن ملأ الثوب للضرورۃ ولو مختلطاً بالعذرات وتجوز الصلاۃ معہ۔۔۔ والحاصل أن الذی ینبغی أنّہ حیث کان  العفو للضرورۃ۔۔۔ وإلّا فلا ضرورۃ۔ (۱/۳۲۴/باب الأنجاس وکذا فی حاشیۃ الطحطاوی: ۱/۱۶۱/باب الأنجاس)

(۳) تر نجاست سے جوتے کی پاکی کا مسئلہ

جوتے اور چمڑے کے موزے پراگر تر نجاست لگ جائے جیسے گوبر،پاخانہ اور خون وغیرہ اور خشک ہونے سے پہلے جوتے اورموزے کو زمین پر رگڑا جائے تو جمہور کے نزدیک  محض  زمین پر رگڑنے سے جوتا اور موزہ پاک نہیں ہوگا،کیونکہ تر نجاست زمین پر رگڑنے سے اور زیادی پھیل جاتی ہے،ظاہرہے کہ اس سے جوتا اور موزہ مزید  ملوث ہوگا نہ کہ پاک۔ لیکن امام ابویوسفؒ کے نزدیک اس صورت میں اگر جوتے اور موزے کو اچھی  طرح رگڑ دیا جائے یہاں تک کہ نجا ست کا اثر ختم ہوجائے تو عموم بلوٰی کی وجہ سے جوتا اور موزہ وغیرہ پاک ہوجائے گا،  دھونے کی ضرورت نہیں ۔

صاحب ہدایہ، علامہ ابن ہمامؒ اور علامہ ابن عابدین شامیؒ نے عموم بلوٰی یعنی ابتلائےعام کی وجہ سے حضرت امام ابویوسفؒ کے قول کو راجح قرار دیاہے۔

وفی الرطب لایجوز حتّی یغسلہ، لأنّ المسح بالأرض یکثرہ ولایطھرہ، وعن ابی یوسفؒ أنّہ إذا مسحه بالأرض  حتّی لم یبق اثرا لنجاسة یطھرلعموم البلوٰیٰ۔(فتح القدیر،کتاب الطھارۃ،۱/۹۴)
وفی ردّالمحتار:وعلی قول أبی یوسفؒ  أکثر المشائخ وھو الأصح، المختار وعلیہ الفتوی لعموم البلوٰیٰ۔ (۱/۳۱۰)

(۴) نماز میں قرأت کے دوران ایک  حرف کی جگہ دوسرا حرف پڑھنے کا مسئلہ

نماز میں قرأت کے دوران اگر ایک حرف دوسرے حرف سے بدل جائے تو نماز کے فساد اور عدم فساد کےمتعلق متقدمین فقہاءکرامؒ کےنزدیک تفصیل یہ ہےکہ اگران دوحرفوں کامخرج ایک یامتقارب ہو،اور ایک حر ف کا دوسرےسےبدل لینا بقواعد عربیت جائزبھی ہو،یعنی بدلنے سےمعنیٰ مراد میں زیادہ تغیرفاحش نہ  پیدا ہوتا ہو تو ان کے باہمی تبدیلی سے نمازفاسد نہ ہوگی،خواہ کوئی  بھی حرف ہواور کسی طرح بھی بدلا جائے،مثلاً:قاف اور کاف، سین اور صاد وغیرہ اور جہاں یہ  صورت نہ ہو،بلکہ اس کے تبدیل سے معنی میں تغیر فاحش  پیدا ہوجائے وہاں نماز فاسد ہو جائےگی۔

چنانچہ متقدمین کے قول کے موافق جب کوئی شخص ضاد کو ظا خالص سےبدل دے،یا دال پڑھے،دونوں صورتوں میں معنی پر غور کیا جائےگا،اگر تغیر فاحش پیداہوگیا کہ مراد قرآن بالکل بدل گئی تو فساد نماز کا حکم کیا جائے گا ورنہ نہیں۔

’’شرح منیہ‘‘ میں ہے:

أمّا إذا قرأ مکان الذال المعجمة ظاءً معجمةً او قرأ الظاء المعجمة مکان الضاد المعجمة أو علی القلب۔۔۔فتفسد صلاتہ وعلیه اکثر الأئمة للغیر الفاحش البعید ومنھا خضرا بالدال المھملة مکان الضاد المعجمة تفسد للبعد الفاحش۔(کبیری شرح منیہ،۱/۴۴۸)

متاخرین فقہاء کرام نے جب اس مسئلےمیں عموم بلوٰیٰ کا مشاہدہ کیا کہ اول تو عرب میں بھی بوجہ اختلاط عجم  اب ان چیزوں کی رعایت  کما حقہ نہیں رہی،پھر عجم تو اس سے عمومًا ناواقف ہیں۔اس لیے متقدمین کے مذہب کے مطابق تو شائد صرف خاص خاص قراء حضرات کی نماز صحیح رہےگی۔اس لیے متاخرین فقہاء نے عموم بلوٰیٰ کی وجہ سے یہ فتوی دیا کہ حروف کی باہمی تبدیلی  مطلقاً مفسد نماز نہیں،خواہ اتحاد وقرب مخرج ہو یا نہ ہو اور معنی میں تغیرفاحش ہو یا نہ ہو۔

الخطا إذا دخل فی الحروف لاتفسد لأنّ فیہ بلوٰی عامة الناس لأنھم لا یقیمون الحروف إلّا بمشقّةٍ وفیھا إذا لم یکن بین الحروفین اتحاد المخرج ولا قربة إلّا فیہ بلوٰی العامة کالذال  مع الضاد او الزاء المخلص مکان الذال والظاء مکان الضاد لاتفسد عند بعض المشائخ۔(شامیہ:۱/۵۹۲،با ب زلۃ القاری)

البتہ چونکہ متأخرین کے قول کے موافق عوام میں زیادہ بے پروائی ہونے کا احتمال تھا۔اس لیے بعض محققین متأخرین نے ایک بین بین اور درمیانی صورت اختیار فرمائی جس میں عوام پر تنگی بھی نہیں اور اصل حکم  سے زیادہ بُعدبھی نہیں۔وہ یہ ہے کہ  عوام جو مخارج اور صفات سے واقف نہیں،بوجہ عذر ناواقفیت یا عدم التمیزکے اگر ان کی زبان سے ایک حرف کے جگہ دوسرا حرف نکل جائے اور وہ سمجھے کہ میں نے وہی حرف نکالاہے جو قرآن مجید میں مذکور ہےتو عموم بلوٰی کی وجہ سےاس کی نماز فاسد نہ ہوگی۔اور جو شخص واقف ہےاورصحیح حرف نکالنے پر قادر ہے اور پھر بھی جان بوجھ کریا بے پروائی سے غلط حرف نکا لتا ہے تو جس جگہ معنی میں تغیر فاحش پیدا ہوجائے گا،تو متقدمین کے قول کے موافق اس کی نماز فاسد قرار دی جائے گی۔

حاصل یہ ہے کہ  عوام کے حق میں عموم بلوٰی کی وجہ سے متاخرین کے قول پر فتوی ہے،جبکہ مجودین  علماء اور مشاق قراء کے حق میں متقدمین کے قول پر فتوی ہے۔

کما فی الشامیة: والقاعدۃ عند المتقدمین أن ما غیر المعنی تغییرا فاحشاً یکون اعتقادہ کفراً یفسد فی جمیع ذلک۔۔۔فإن لم یکن مثله فی القرآن والمعنی بعید متغیر تغیراً فاحشاً یفسد۔۔۔وقال بعض المشائخ:لاتفسد لعموم البلوٰیٰ، وأمّاالمتأخرون ۔۔۔۔ فاتفقوا علی أنّ الخطأ فی الإعراب لایفسد مطلقاً ولو كان اعتقادہ کفراً لأنّ أکثر الناس لایمیّزون بین وجوہ الإعراب۔قال قاضی خاں:وما قال المتأخرون أوسع، وما قال المتقدمون أحوط، وإن کان الخطأ بابدال حرف بحرف، فإن أمکن الفصل بینھما بلا کلفةٍ کالصاد مع الطاء بأن قرأ الطالحات مکان الصالحات فاتفقوا علی أنّہ مفسد، وإن یمکن إلّا بمشقّة کا لظاء مع الضاد والصاد مع السین فأکثرھم علی عدم الفساد لعموم البلوٰیٰ (۱/۵۹۰، باب زلۃ القاری)
وفی شرح المنیة: أنّہ یفتی فی حقّ الفقہاء بإعادۃ الصلاۃ وفی حقّ العوام بالجواز۔ (کبیری:۱/۴۴۸، وکذا فی جواھر الفقہ،۳/۳۴)

(۵) درخت پر پھل چھوڑنے کی شرط لگانے کا مسئلہ

درخت پر موجود پھل اس شرط کے ساتھ خریدناکہ پھل کچھ مدت تک درخت پرلگا رہےگا تو یہ بیع فاسد ہے کیونکہ یہ شرط مقتضائے عقد کے خلاف ہے۔البتہ امام محمدؒکے نزدیک اگر پھل پک چکا ہوتو درختوں پر چھوڑنےکی شرط لگانا اگر چہ مقتضائےکے  خلاف ہےمگر عموم بلوٰیٰ کی وجہ سے یہ شرط لگانا جائزہے۔

وفی الدرالمختار: وإن شرط ترکھا علی الأشجار فسد وقیل قائله محمدؒ لایفسد إذا تناھت الثمرۃ لتعارف وبه یفتی، وفی ردّالمحتار:قوله وبه یفتی، ویجوز عند محمدؒاستحساناً وھو قول الأئمة الثلاثة، واختارہ الطحاوی لعموم البلویٰ۔ (۴/۵۵۴/کتاب البیوع،مطلب فی  بیع الثمر والشجر)

عموم بلویٰ کی وجہ سے مذہب غیر پر فتوی دینا

جس مسئلے میں واقعتا ابتلاءِ عام کی وجہ سے اپنے امام کے مذہب پر عمل کرنے میں شدید دشواری ہو ،تو ایسی صورت میں فقہاء کرامؒ نے مذہبِ غیر پر فتوی دینے کو جائز قرار دیا ہے۔ البتہ اس سلسلے میں خاص طور پر دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔

پہلی بات یہ ہے: کہ کوئی ایک مفتی خود رائی کے ساتھ فیصلہ نہ کرے بلکہ اس سلسلے میں دوسرے اہلِ فتوی سے مشاورت کا اہتمام کرے ۔ دوسری بات یہ ہے: کہ ائمہ اربعہ سے خروج نہ کیا جائے ۔

چنانچہ فقہاء ِاحنافؒ نے ضرورت وحاجت اور ابتلاءِ عام کی وجہ سے کئی مسائل میں دوسرے مذہب پر فتوٰی  دیا ہے۔ مثلا:اگر کسی کا مال دوسرے شخص کے ذمہ لازم ہو اور وہ نہ دے رہاہو ،پھر مدیون کا کوئی مال جو مالِ واجب کی جنس سے نہ ہو اور دائن کے پاس کسی طریقے سے آجائے ،تو اصل حنفی مسلک کے مطابق دائن کےلئے اس مال کو بیچ کر اپنا حق وصول کرنا جائز نہیں ہے ۔لیکن متاخرین حنفیہؒ نے اس سلسلے میں امامِ شافعیؒ کے قول پر فتوٰی دیا ہے ۔ چنانچہ در مختار میں ہے :

لیس لذی الحق أن  یأخذ غیر جنس حقہ وجوّزہ الشافعیؒ وھو الأوسع۔

اس کے تحت علامہ شامیؒ لکھتےہیں:

قولہ:(وجوّزہ الشافعیؒ) قدمنا فی کتاب الحجر أن عدم الجواز کان فی زمانھم ۔أمّاالیوم فالفتوٰی علی الجواز ۔ قولہ:(وھو الأوسع) لتعینہ طریقا لإستیفاء حقہ فینقل حقہ من الصورۃ إلی المالیة ۔ (رد المحتار ،۶/۱۵۱،کتاب الحظر والإباحۃ ) ۔

اس سلسلے میں استاد محترم شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:

’’چونکہ چاروں مذاہب بلاشبہ برحق ہیں اورہر ایک کے پاس دلائل موجود ہیں اس لئے اگر مسلمانوں کی کوئی شدید اجتماعی ضرورت داعی ہو ،تو اس موقع پر کسی دوسرے مجتہد کے مسلک پر فتوی دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ،حضرت والد صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت گنگوہی قدس سرہ نے حضرت تھانویؒ کو یہ وصیت کی تھی اور حضرت تھانویؒ نے ہم سے فرمایا کہ آجکل معاملات پیچیدہ ہوگئے ہیں اور اس کی وجہ سے دیندار مسلمان تنگی کا شکار ہیں ؛اس لئےخاص طور سے بیع وشرء اورشرکت وغیرہ کے معاملات میں جہاں  عام ہو وہاں ائمہ اربعہ میں سے جس امام کے مذہب میں عام لوگوں کے لئے گنجائش کا پہلو ہو اُس کو فتوی کے لئے اختیار کرلیا جائے ۔لیکن حضرت والد صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ کسی دوسرے امام کا قول اختیار کرنے کے لئے چند باتوں کا اطمینان کرلینا ضروری ہے ۔سب سے پہلے تو یہ کہ واقعۃً مسلمانوں کی اجتماعی ضرورت متحقق ہے یا نہیں،ایسا نہ ہو کہ محض تن آسانی کی بنیاد پر یہ فیصلہ کرلیا جائے اور حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس اطمینان کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی ایک مفتی خود رائی کے ساتھ یہ فیصلہ نہ کرے ،بلکہ دوسرے اہل فتوی حضرات سے مشورہ کرے ،اگر وہ بھی متفق ہوں تو اتفاق رائے کیساتھ ایسا فتوی دیا جائے ۔دوسری بات یہ ہے کہ جس مام کا قول اختیار کیا جارہا ہے اس کی پوری تفصیلات براہ راست اس مذہب کے اہل فتوی علماء سے معلوم کی جائیں ،محض کتابوں میں دیکھنے پر اکتفاء نہ کیا جائے ؛کیونکہ بسا اوقات اس قول کی بعض ضروری تفصیلات عام کتابوں میں مذکور نہیں ہوتیں اور ان کے نظر انداز کردینے سے تلفیق کا اندیشہ رہتا ہے۔‘‘

تیسری بات یہ ہے: کہ ائمہ اربعہ سے خروج نہ کیا جائے ؛کیونکہ ان حضرات کے علاوہ کسی بھی مجتہد کا مذہب مدوّن شکل میں ہم تک نہیں پہنچا اور نہ ان کے متعین اتنے ہوتے ہیں کہ ان کا کوئی قول استفاضہ یا تواتر کی حد تک پہنچ جائے۔حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نےعقد المجید میں ائمہ اربعہ سے باہر جانے کے مفاسد تفصیل کے ساتھ بیان فرمائے ہیں ۔

چنانچہ بعض مصیبت زدہ خواتین کے لئے حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے مالکی مذہب پر فتوی دینے کا ارادہ کیا تو ان تمام باتوں کو پوری احتیاط کے ساتھ مدِّنظر رکھا اور براہ راست مالکی علماء سے خط و کتابت کے ذریعے مذہب کی تمام تفصیلات معلوم کیں اور تمام علمائے ہندسےاستصواب کے بعد فتوی شائع فرمایا ۔(مفتی اعظم نمبر ۱/۳۸۱)۔

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے امداد الفتاویٰ کے اندر متعدد مسائل میں عموم بلوٰیٰ  کے خاطرمذہب غیر پر فتوی دیا۔مثلاً:بیع سلم میں احناف کے نزدیک شرط یہ ہے کہ مسلم فیہ وقت میعاد تک بازارمیں موجود رہے ، لیکن حضرتؒ نے اس معاملے میں عموم بلوٰی کی وجہ سےامام شافعیؒ کے قول پر عمل کی گنجائش دیتے ہوئےفرمایا ہے کہ:مبیع کا وقت میعاد تک پایا جانا حنفیہ کے نزدیک شرط ہے،لیکن امام شافعیؒ کے نزدیک صرف وقت میعاد پر پایا جاناکافی ہے،کذا فی الھدایۃ،تو اگر ضرورت میں اس قول پرعمل کرلیا جاوے تو کچھ ملامت نہیں ،رخصت ہے۔(امداد الفتاوی:۳/۱۰۴)

اسی طرح احناف کے نزدیک بیع سلم میں ایک مہینے کی مدت شرط ہے،لیکن حضرتؒ فرماتے ہیں:

’’اور امام شافعیؒ کے نزدیک چونکہ اجل شرط نہیں ،اس لیے سلم میں داخل ہوسکتاہے،چونکہ ابتلاء عام ہے،لہذا امام شافعیؒ کے قول پر عمل  کی گنجائش ہے۔‘‘ (امداد الفتاویٰ:۳/۲۱)

حضرت مولانا ظفراحمد عثمانی صاحبؒ امداد الأحکام میں لکھتے ہیں:

’’عموم بلوٰی کی وجہ سے کہ خاص وعام ایک ناجائز کام میں مبتلا ہوں،ہر ناجائز کام جائز نہیں ہوتا،بلکہ جس میں بوجہ اختلاف ائمہ کے کسی درجہ میں جواز کی گنجائش ہو وہاں عموم بلوٰیٰ کی وجہ سے کسی دوسرے امام کے قول کو اختیار کرلیاجاتاہے۔‘‘ (امداد لاحکام،۱/۲۱۳/کتاب العلم)

محدث العصر حضرت مولاناسید محمد یوسف بنوری صاحبؒ لکھتے ہیں:

’’اگرمسئلہ مطلوبہ سب فقہاء کے ہاں ملتا ہے،لیکن حنفی مذہب میں دشواری ہے اور بقیہ مذاہب میں نسبتاً سہولت ہے اور عوام کا عام ابتلاء ہے تو اخلاص کے ساتھ جماعت اہل علم غور کرے،اگر ان کویقین ہوجائے کہ عموم بلوٰی کے پیش نظر عصر حاضر میں دینی تقاضا سہولت وآسانی کا مقتضی ہے تو پھر مذہب مالک،مذہب شافعی،مذہب احمدابن حنبل کوعلی الترتیب اختیار کرکے اور اس پر فتوی دیکر فیصلہ کیا جائے۔‘‘ (بصائر وعبر:۱/۲۵۴،جدید فقہی مسائل اور چند رہنما اصول)

ایک اور موقع پر حضرت ؒنے فرمایا:

’’اگر مذہب حنفی میں واقعی دشواری ہے او رامت محمدیہ واقعی تیسیروتسہیل کی محتاج ہے،اور اعذار بھی صحیح واقعی ہیں،محض وہمی و خیالی نہیں ہیں تو دوسرے مذہب پر عمل کرنے اورفتوی دینے کی گنجائش ہوگی، اور ضرورت کس درجہ میں ہے اور ہے بھی یا نہیں؟ یہ صرف علماء اور فقہاء  کی جماعت طے کرے گی۔‘‘ (بصائروعبر:۱/۴۷۹،عصر حاضر کے جدید مسائل اور ان کا حل)

فتاوی قاسمیہ میں ہے:

’’جس طرح ضرورت عامہ کی وجہ  سےعدول عن المذہب جائز ہے،اسی طرح عموم بلوٰی کی وجہ سے بھی عدول عن المذہب جائزہے۔‘‘ (فتاوی قاسمیہ:۱/۲۷۳)

عموم بلوٰی اور حرج میں فرق

عموم بلوٰی اور حرج میں فرق یہ ہے کہ حرج عام ہےاور عموم بلوٰی اس کے مقابلے میں خاص ہے،جہاں عموم بلوٰی ہوگا وہاں حرج بھی ہوگا لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ جہاں حرج ہو وہاں عموم بلوٰی  بھی پایا جائے۔

عرف اور عموم بلوٰی میں فرق

بعض حضرات نے عرف اور عموم بلوٰی میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ اسباب غیر اختیاری کے تحت جو حاجت عامہ واقع ہوتی ہے اس کو عموم بلوٰی کہتے ہیں اور اسباب اختیاری کے تحت جب  حاجت عامہ کا وقوع ہوتا ہے تو اس کو عادۃ الناس تعامل اور عرف سے موسوم کیا جاتاہے۔استقراء سے یہ ثابت ہوتا ہےکہ عام طور پر طہارت وعبادات میں ابتلائے عام از قسم عموم بلوٰی ہوتاہے اور معاملات میں ابتلائے عام کو عرف وتعامل کہتےہیں۔ (ضرورت وحاجت کا احکام شرعیہ میں اعتبار،۴۳)

اس سلسلے میں عمدہ اورمناسب بات وہی ہے جو حضرت مولانا مفتی شبیر احمد قاسمی صاحب نے فتاوی قاسمیہ میں بیان فرمائی ہے :چنانچہ مفتی شبیر احمدقاسمی صاحب  لکھتے ہیں:

’’عرف الگ چیز ہے اور عموم بلوٰی الگ سے دوسری چیزہے،کیونکہ بہت سے امورایسے ہیں جو عموم بلوٰی کے دائرہ میں تو آتےہیں،مگر عرف کے دائرہ میں نہیں،مثلاً:طین شارع کا مسئلہ،گوبر کی راکھ کا مسئلہ،غسالہ میت کا مسئلہ اور اس نوعیت کی بعض دیگر مسائل کا تعلق عموم بلوٰی سے تو ہے مگر عرف سے نہیں۔اور بعض جزئیات ایسے بھی ہیں جن کا تعلق کبھی عموم بلوٰی اور عرف دونوں سے ہوجاتا ہے،مگر قلیل درجہ میں ہے،مثال کے طور پربیع الوفاء کا مسئلہ ہے کہ اس کا تعلق عرف سے بھی ہے اور عموم بلوٰی سے بھی ،اسی طریقہ سے نسج الحائک کی اجرت ،یہ مسائل ایسے ہیں جن کا تعلق عرف اور عموم بلوٰی دونوں سے ہو سکتا ہے۔‘‘ (فتاوی قاسمیہ:۱/۲۶۴)

عموم بلوٰی سے متعلق چند اہم قواعدِ فقہیہ

(۱) المشقة تجلب التیسیر۔ (الأشباہ النظائر:الفن الأول،۷۷)

مشقت آسانی کو لیکر آتی ہے۔

(۲) الأمر إذا ضاق إتسع ۔ (الأشباہ النظائر:الفن الأول،۸۵)

جب کسی کام میں تنگی پیدا ہو جائے تو وہاں وسعت دی جائیگی۔

(۳)الضرر یزال۔(مجلۃ الاحکام العدلیہ)        

ضرر کا ازالہ کیا جائے گا۔

(۴) الضرورات تبیح المحظورات،(الأشباہ النظائر۱/۸۸)

شدید حاجات،ممنوع چیزوں کو مباح کردیتی ہیں۔

(۵) ما لا یمکن التحرز منہ یکون عفواً۔ (بدائع الصنائع،۱/۲۲۹)

جس چیز سے بچنا ممکن  نہ ہو وہ قابل عفو ہے۔


فقہ / اصول فقہ

(مئی ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter