حلال وحرام سے آگاہی اور علماء کرام کی ذمہ داری

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۲۲ نومبر کو جامعہ اشرف  المدارس کراچی میں’’حلال آگاہی کونسل پاکستان ‘‘ کے زیر اہتمام علماء کرام کی نشست سے خطاب)



بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حلال آگہی کونسل پاکستان اور محترم جناب آفاق شمسی کا شکرگزار ہوں کہ میری کراچی حاضری کے موقع پر حضرات علماء کرام کے ساتھ علمی، تعلیمی اور روحانی مرکز جامعہ اشرف المدارس میں ملاقات کا اہتمام فرمایا۔ میری حضرت حکیم محمد اختر ؒ کے ساتھ نیاز مندی تھی، ان کی خدمت میں حاضری ہوتی رہتی تھی اور بعض بیرونی اسفار میں ان کے ساتھ شرکت رہی ، حکیم محمد مظہر صاحب کے ساتھ بھی نیاز مندی کا تعلق ہے، یہاں حاضری میرے لیے ویسے بھی سعادت کی بات ہے لیکن ایک کارِ خیر اور دینی و علمی کام کے لیے حاضری دوہری خوشی اور سعادت کا باعث ہے۔ حلال آگہی کونسل ایک عرصے سے پہلے کراچی اور اب پورے پاکستان میں ایک اہم دینی ، ملی اور قومی ضرورت پر کام کر رہی ہے۔ حلال و حرام کا فرق کرنا ہمارے دین کا تقاضہ ہے، اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے، اور ہماری اخروی ضرورت ہونے کے ساتھ ساتھ دنیوی ضرورت بھی ہے۔

حلال و حرام سے آگاہی ہماری اجتماعی معاشرتی ضرورت ہے جس پر عموماً عقیدہ اور تعلیم کے دائرے میں بات کی جاتی ہے۔ قرآن مجید میں حلال و حرام سے متعلق سینکڑوں آیات ہیں اور جناب نبی کریمؐ کی ہزاروں احادیث ہوں گی جن میں حلال و حرام کی بات کی گئی ہے۔ ہمارے ہاں دینی تعلیم اور خطبات کے دائرے میں اس موضوع پر بات ہوتی ہے لیکن معاشرے کی عملی صورتحال کے ساتھ اس کی تطبیق کا ماحول نہیں ہے۔ لوگوں تک بات پہنچانا کہ معاملہ اس طریقے سے ہوگا تو حلال ہوگا اور یوں ہوگا تو حرام ہوگا، متعلقہ اداروں اور پیشوں سے تعلق رکھنے والوں کو سمجھانا اور عوام کو آگاہ کرنا علماء کرام کی ذمہ داری ہے، اور لوگوں پر یہ واضح کرنا بھی علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ فلاں معاملہ میں فلاں طریقہ اختیار کریں گے تو حرام سے بچ جائیں گے، اور ایسے طریقے بیان کرنا سنتِ نبویؐ ہے، اس پر بہت سی مثالیں ہیں، میں ایک مثال عرض کروں گا۔

بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اچھی قسم کی کھجوریں لے کر آئے ۔جناب نبی کریمؐ نے دریافت فرمایا کہ بلال! پہلے تو عام قسم کی کھجوریں آیا کرتی تھیں، یہ اچھی قسم کی کھجوریں کہاں سے لائے ہو؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے ان کا تبادلہ کر لیا ہے، دو صاع عام کھجوریں دے کر ایک صاع اچھی کھجوریں لے لی ہیں۔ اس پر حضور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ یہ تو عین سود ہے۔ جنس کا جنس سے تبادلہ اور تفاضل سود ہے، یہ تم نے کیا کیا؟ حضرت بلالؓ نے پوچھا یا رسول اللہ! اچھی کھجوریں اور عام کھجوریں برابر میں تو کوئی تبدیل نہیں کرتا، تو میں اس کے لیے کیا طریقہ اختیار کروں؟ آپؐ نے فرمایا کہ پہلے دراہم کے بدلے اپنی کھجوریں بیچ دو اور پھر ان درہموں سے اچھی کھجوریں خرید لو ۔ ایک کی بجائے دو سودے کر لو تو جائز ہو جائے گا۔ اس کو فقہی اصطلاح میں حیلہ کہا جاتا ہے جو خود جناب نبی کریمؐ نے حضرت بلالؓ کو سکھا یا۔

جناب نبی کریمؐ کے گھر کے معاملات کے انچارج حضرت بلالؓ تھے ،جسے امورِ امور خانہ داری کہتے ہیں کہ چیزیں خریدنا، بیچنا، مہمانوں کو سنبھالنا، گھر کا خرچہ چلانا وغیرہ۔ حضرت بلالؓ کے پاس خرچہ موجود ہوتا تو کرتے رہتے، ورنہ قرضہ لے کر ضرورت پوری کرتے، بعد میں حضورؐ کے پاس کوئی رقم آتی تو اس سے قرضہ ادا ہو جاتا تھا۔ حضرت بلالؓ اور جناب نبی کریمؐ کا آپس میں یہ معاملہ چلتا رہتا۔ مدینہ منورہ کا ایک یہودی تھا جس سے حضرت بلالؓ اکثر قرضہ لیتے تھے۔ ابوداؤد شریف میں ان کے قرضہ سے متعلق یہ واقعہ مذکور ہے کہ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ حضرت بلالؓ اس یہودی سے قرضہ لیتے رہے جو بڑھتے بڑھتے خاصا بڑھ گیا۔ اس یہودی نے حضرت بلالؓ سے مطالبہ کیا کہ قرضہ واپس کرو۔ ان کے پاس گنجائش نہیں تھی تو ٹال مٹول کرتے رہے۔ بالآخر قرض خواہ یہودی نے ایک دن دھمکی دے دی کہ تین دن کے اندر اندر میرا قرضہ واپس کر دو ورنہ تمہارے گلے میں رسی ڈال دوں گا۔ اس زمانے میں گلے میں رسی ڈالنے کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ تمہیں غلام بنا کر بیچ دوں گا اور اپنا قرض پورا کروں گا۔ حضرت بلالؓ بہت پریشان ہوئے اور حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اس قرض خواہ نے دھمکی دے دی ہے لہٰذا آپ کچھ کریں۔ آپؐ نے فرمایا اس وقت تو میرے پاس گنجائش نہیں ہے۔

اسی اثنا میں مہلت کا وقت گزر گیا، تیسرے دن اس یہودی نے حضرت بلالؓ سے کہا کہ اگر آج رات تک میرا قرضہ واپس نہ کیا تو میں تمہارے گلے میں رسی ڈال دوں گا۔ اب پھر حضرت بلالؓ حضورؐ کی خدمت میں آئے کہ آج قرضہ ادا نہ ہوا تو میرے گلے میں رسی پڑ جائے گی، میں ایک دفعہ غلامی بھگت چکا ہوں دوسری دفعہ غلام بننے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ یارسول اللہ! کوئی راستہ نکالیے۔ آپؐ کے پاس کوئی گنجائش نہیں تھی، کیا کرتے۔ تو حضرت بلالؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اگر انتظام آپ کے پاس بھی نہیں ہے اور میرے پاس بھی نہیں ہے اور اس نے کل صبح مجھے غلام بنا لینا ہے اور بازار میں لے جا کر بیچ دینا ہے تو مجھے ایک بات کی اجازت دیجیے کہ میں چپکے سے رات کہیں کھسک جاؤں، جب کہیں سے گنجائش ہو جائے گی تو آجاؤں گا، حضورؐ نے اجازت عطا فرما دی۔ حضرت بلالؓ کہتے ہیں کہ رات میں نے سونے سے پہلے سواری تیار کی، سفر کا سامان تیار کیا اور عشاء کے بعد تیاری کر کے لیٹ گیا۔ پروگرام یہ تھا کہ آدھی رات کے بعد اٹھوں گا اور سفر شروع کر دوں گا، صبح ہوتے ہی میں دور کہیں پہنچ جاؤں گا ۔

حضرت بلالؓ کہتے ہیں کہ میں سارا بندوبست کر کے ابھی لیٹا ہی تھا کہ کسی نے آواز دی بلال! رسول اللہ بلا رہے ہیں۔ میں اٹھا اور حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپؐ مسجد کے باہر تشریف فرما تھے اور آپ کے سامنے چار اونٹ سازوسامان سمیت کھڑے تھے۔ سازوسامان میں غلہ، کپڑے اور دیگر ضروریات کی چیزیں ہوتی تھیں۔ حضورؐ نے فرمایا بلال! دیکھو اس سے قرضہ پورا ہو جائے گا؟ میں نے اندازہ کیا اور کہا یارسول اللہ! قرضہ بھی ادا ہو جائے گا اور کچھ بچ بھی جائے گا۔ آپؐ نے فرمایا، یہ فلاں قبیلے کے سردار نے مجھے ہدیہ بھیجے ہیں، ان سے قرضہ ادا کر دو، اگر ان میں سے کچھ بچ گیا تو وہ میرے گھر نہیں لانا بلکہ صدقہ کر دینا۔

میں یہ بات کر رہا ہوں کہ حلال و حرام کا فرق واضح کرنا اور حلال کا طریقہ بتانا سنتِ نبویؐ ہے ۔ علماء کرام دراصل انبیاء کرام کی نمائندگی کرتے ہیں ’’العلماء ورثة الانبیاء‘‘ تو علماء کرام کی ذمہ داری یہ ہے کہ حلال و حرام کا فرق لوگوں کو بتائیں، صرف زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر متعلقہ لوگوں تک رسائی حاصل کریں اور ان کو حلال و حرام کا فرق عملاً بتائیں ۔ میں اس پر اپنا ذاتی واقعہ بیان کیا کرتا ہوں۔

کافی عرصہ پہلے کی بات ہے مجھے مرغی کا گوشت لینا تھا تو میں اپنے محلے کی ایک دکان پر گیا، دکاندار میرے سامنے مرغیاں ذبح کر رہا تھا، اس کے ساتھ ڈرم پڑا تھا، وہ مرغیوں پر چھری پھیر کر اس ڈرم میں پھینکتا جا رہا تھا۔ اس نے میرے سامنے دو منٹ میں دس گیارہ مرغیاں ذبح کر کے ڈرم میں پھینکیں۔ میں نے دیکھا کہ ذبح کرتے ہوئے اس دکاندار کا منہ بند تھا۔ میں تھوڑی دیر اسے دیکھتا رہا اور بالآخر اس سے پوچھ لیا کہ آپ ذبح کرتے ہوئے کچھ پڑھتے بھی ہیں یا نہیں؟ وہ کہنے لگا کہ استاد جی! صبح ایک دفعہ بسم اللہ پڑھ لی تھی۔ یہ سن کر میں سناٹے میں آگیا کہ یہ میرا مقتدی ہے، نمازیں اور جمعہ میرے پیچھے پڑھتا ہے، اس کا یہ حال ہے تو باقی شہر کا کیا حال ہوگا؟ میں نے اسے ذبح کے دو چار مسائل سمجھائے ۔ لوگوں کو ان مسائل کا علم نہیں ہوتا اور ہماری اس طرف توجہ نہیں ہوتی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے مسئلہ بیان کر دیا تو ہمارا فرض ادا ہو گیا، حالانکہ ایسی بات نہیں ہے بلکہ لوگوں کے کام پر نظر رکھنا اور جہاں خرابی نظر آئے اس کی اصلاح کرنا محلے کے امام صاحب کی ذمہ داری ہے۔

اسی حوالے سے ایک اور واقعہ عرض کر دیتا ہوں۔ ایک دفعہ میں لندن میں ایک جگہ ٹھہرا ہوا تھا، ہمارے ایک دوست وہاں خطیب تھے ۔ ایک دن انہوں نے کہا کہ چلیں مارکیٹ کا چکر لگاتے ہیں، انہوں نے گوشت خریدنا تھا تو ہم ایک دکان پر گئے۔ وہاں جا کر میں نے محسوس کیا کہ دکاندار نے انہیں آنکھ سے کوئی اشارہ کیا۔ آنکھوں کا اشارہ سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی اسے خطرناک قرار دیا ہے ’’یعلم خائنة الاعین وما تخفی الصدور‘‘ جب دکاندار نے اشارہ کیا تو مولانا نے مجھے کہا کہ واپس چلیں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ تو گوشت خریدنے آئے تھے تو بغیر خریدے واپس کیوں جا رہے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ دکاندار نے مجھے اشارہ کر کے بتایا ہے کہ آج آپ والا گوشت نہیں ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ یہ سمجھ کر مطمئن ہیں کہ میں تو حرام سے بچ گیا ہوں، مگر باقی عوام کا کیا بنے گا؟ آپ کے مقتدیوں میں سے کتنے لوگوں نے وہ گوشت خریدا ہوگا، ان کی ذمہ داری کس پر ہے؟ اور دکاندار بھی صرف آپ کو اشارہ کر کے مطمئن ہو گیا کہ میں نے مولانا صاحب کو بتا دیا ہے۔ اتفاق سے اس دن جمعہ تھا، میں وہاں مہمان تھا تو انہوں نے مجھے کہا کہ آپ جمعہ پڑھائیں، چنانچہ میں نے اسی موضوع پر گفتگو کی۔

حلال و حرام کا فرق ہماری دینی ضرورت تو ہے ہی، ہماری دنیوی ضرورت بھی ہے، اس پر بھی ایک حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ عشرہ مبشرہ اور اکابر صحابہ میں سے ہیں، ان کے بارے میں ایک بات مشہور ہو گئی تھی جس کا مشاہدہ بھی تھا کہ آپؓ مستجاب الدعوات ہیں۔ اس طرح کی خصوصی فضیلت اللہ تعالیٰ کسی کو عطا فرما دیتے ہیں جیسا کہ ایک حدیث مبارکہ میں ہے ’’لو اقسم علی اللہ لابرہ‘‘ جناب نبی کریم ؐنے فرمایا کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ دیکھنے میں کچھ بھی نہیں لگتے لیکن اگر وہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات کہہ دیں تو اللہ ان کی لاج رکھ لیتا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے بارے میں بھی یہ شہرت ہو گئی تھی کہ جو بات زبان سے کہہ دیتے وہ پوری ہو جاتی ۔ ایک آدمی نے حضرت سعدؓ سے پوچھا کہ حضرت! آپ کی شہرت بھی ہے اور مشاہدہ اور تجربہ بھی کہ آپ مستجاب الدعوات ہیں، اس کی وجہ کیا ہے کہ اللہ تعالی آپ کی کوئی بات رد نہیں کرتے؟

آدمی کو کوئی اعزاز اور کمال ملتا ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے۔ جیسا کہ حضرت بلال ؓ سے خود جناب نبی کریمؐ نے پوچھ لیا تھا کہ بلال !جنت میں تمہارے قدموں کی چاپ سنی ہے، تم کون سا عمل کرتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! جو باقی مسلمان کرتے ہیں میں بھی وہی کچھ کرتا ہوں، ہاں ایک بات ہے کہ میں تحیۃ الوضو کا ناغہ نہیں کرتا۔ آپؐ نے فرمایا اسی وجہ سے تمہیں یہ اعزاز ملا ہے۔ تو ہر اعزاز اور کمال کے پیچھے کوئی عمل ہوتا ہے۔

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے ان کے مستجاب الدعوات ہونے کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ میں اور تو کوئی خاص کام نہیں کرتا، جو باقی لوگ کرتے ہیں وہی کچھ کرتا ہوں، ہاں یہ بات ہے کہ میں نے جب سے کلمہ پڑھا ہے اس وقت سے لے کر آج تک میرے حلق سے کوئی ایک لقمہ بھی ایسا نہیں اترا جس کے بارے میں تسلی نہ ہو کہ یہ کہاں سے آیا اور کیسے آیا ہے۔ یہ حضرت عمر ؓکے زمانہ تھا جب حضرت سعدؓ میں یہ بات بتا رہے تھے۔ اتنے عرصے کے متعلق اتنے یقین سے حضرت سعدؓ ہی بات کہہ سکتے ہیں ،ہم تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہی لقمۂ حلال ان کے مستجاب الدعوات ہونے کی وجہ تھی کیونکہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے نبی کریم ؐ سے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ! میرے لیے اللہ تعالیٰ سے مستجاب الدعوات بننے کی دعا فرما دیں تو آنحضرتؐ نے فرمایا کہ اے سعد! اپنا کھانا پاکیزہ اور حلال رکھو، تم مستجاب الدعوات بن جاؤ گے، اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمدؐ کی جان ہے، جو آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کے اعمال قبول نہیں ہوتے، جس بندے کی نشوونما حرام اور سود کے مال سے ہوئی ہو، تو جہنم کی آگ اس کے زیادہ لائق ہے۔

جبکہ حرام کھانے کی وجہ سے دعا کی قبولیت میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے، چنانچہ ایک دوسری حدیث مبارکہ میں، جو حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے، جناب نبی کریم ؐ نے مالِ حرام کی قباحت و شناعت کو اس انداز میں ذکر فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہیں اور پاکیزہ مال ہی قبول فرماتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو بھی اسی چیز کا حکم دیتے ہیں جس کا حکم اپنے پیغمبروں کو دیا۔ پھر آپؐ نے قرآن مجید کی یہ آیات تلاوت فرمائیں ’’یا ایھا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا‘‘ اے رسولو! پاکیزہ اور حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ ’’یا ایھا الذین امنوا کلوا من الطیبات ما رزقناکم‘‘ اے اہل ایمان! جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔ اس کے بعد رسول اللہ ؐ نے ایک ایسے آدمی کا تذکرہ فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے، پریشان حال اور غبار آلود ہے، آسمان کی طرف ہاتھ پھیلا کر دعائیں مانگتا ہے، اے میرے رب! اے میرے رب! اور حال یہ ہے ’’مطعمہ حرام مشربہ حرام ملبسہ حرام فانی یستجاب لہ‘‘ کہ اس کا کھانا حرام کا ہے، اس پینا حرام ہے، اس کا پہننا حرام کا ہے، اور اس کی پرورش ہی حرام سے ہوئی ہے، تو اس کی دعا کیونکر قبول ہو سکتی ہے۔ یہ آج ہمارا بڑا معاشرتی اور ملی مسئلہ ہے کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہو رہیں اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ’’مطعمنا حرام، مشربنا حرام، ملبسنا حرام، فانی یستجاب لنا‘‘ ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے کہ ہمارا کھانا پینا حلال ہے یا حرام ہے تو دعائیں کہاں سے قبول ہوں گی۔ اس لیے حلال و حرام کا فرق ہماری دنیوی ضرورت بھی ہے۔

ہمارے ہاں ذبیحہ کو حلال و حرام کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے کہ ذبیحہ حلال ہے اور میتہ حرام ہے۔ حلال جانور اگر ذبح نہیں ہوا تو وہ حرام ہے۔ جانور میں سے خون بہتا ہوا نکل جائے تو وہ حلال ہوتا ہے، لیکن اگر دمِ مسفوح نہ نکلا ہو اور اندر ہی جذب ہو جائے تو جانور حرام ہوتا ہے۔ آج کی میڈیکل سائنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ جانور کے جسم سے دمِ مسفوح نکل جائے تو باقی گوشت صاف ہو جاتا ہے اور اگر خون اندر جذب ہو جائے تو اس کا زہر گوشت میں سرایت کر جاتا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ امریکہ ، یورپ اور فارایسٹ میں حلال میٹ کے نام سے ذبیحہ کی طلب بڑھتی جا رہی ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہی ہے کہ ذبیحہ کا گوشت صاف ہو جاتا ہے اور جو غیر ذبیح ہو وہ جسم میں خرابی پیدا کرتا ہے۔ فطری طور پر ان کو یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے کہ حلال طریقے سے ذبح کیا ہوا ذبیحہ اور حلال اشیا جسم کے لیے مفید ہیں۔ یہ ماحول بن گیا ہے اور اس پس منظر میں اب وہ حلال مانگتے ہیں۔

جب انٹرنیشنل مارکیٹ میں حلال میٹ کی طلب بڑھے گی تو گارنٹی کی ضرورت ہوگی کہ یہ ذبیحہ ہے یا نہیں، اور گارنٹی کے لیے سٹیمپ درکار ہوتی ہے۔ لہٰذا بین الاقوامی مارکیٹ کے ہم سے تقاضے ہیں کہ حلال میٹ کی کوئی سٹیمپ متعارف کرواؤ تاکہ ہمیں پتہ چل سکے کہ یہ گارنٹیڈ ہے۔ اب انٹرنیشنل مارکیٹ میں کوئی چیز لے جانے کی گارنٹی تو ریاست ہی دے سکتی ہے، عام آدمی نہیں دے سکتا۔ یہودیوں کی اپنی مہر ہے جس سے ان کے ہاں حلال ہونے کی تسلی ہو جاتی ہے۔ مگر مسلمانوں کی عالمی سطح پر حلال فوڈز سٹیمپ اور حلال فوڈز اتھارٹی نہیں ہے۔ مختلف ممالک میں اپنی اپنی ہیں جیسے ملائیشیا، جنوبی افریقہ اور ہائی لینڈ وغیرہ میں مسلمانوں نے اپنی حلال فوڈز اتھارٹیز بنائی ہوئی ہیں، جو علاقائی سطح پر کام کرتی ہیں، لیکن بین الاقوامی سطح پر حلال فوڈز اتھارٹی اور حلال فوڈز سٹیمپ نہیں ہے اور اس کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے۔

پاکستان دنیا میں مانا ہوا مسلم ملک ہے اور ہمارے اندر کا حال جو بھی ہے مگر دنیا ہمیں اسلام کا نمائندہ سمجھتی ہے۔ غیر مسلم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اور دنیا کے مسلمان بھی یہی سمجھتے ہیں۔ اس لیے بین الاقوامی مارکیٹ میں طلب ہے کہ پاکستان میں حلال فوڈز اتھارٹی بنے اور پاکستان کی سٹیمپ بین الاقوامی مارکیٹ میں جاری ہو۔ چونکہ یہ تقاضہ ہے تو اس پر گورنمنٹ نے ایک اتھارٹی پنجاب حلال فوڈز اتھارٹی کے نام سے بنائی ہے۔ شرعی عدالت کے سابق چیف جسٹس جناب خلیل الرحمٰن خان اس کے چیئرمین رہے ہیں اور اس پر کام کرتے رہے ، لیکن ابھی تک پاکستان میں ایسی سٹیمپ نہیں ہے جو دنیا میں متعارف ہو سکے۔

حلال فوڈز سٹیمپ اور حلال فوڈز اتھارٹی ایک بڑا مسئلہ ہے، میں اس پر ایک واقعہ عرض کر دیتا ہوں۔ آج سے دس بارہ سال پہلے حلال فوڈز کے مسئلے پر لاہور پی سی میں ایک دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس ہوئی جس میں بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، انڈیا، ملائشیا، جنوبی افریقہ، لندن اور پاکستان سمیت آٹھ دس ملکوں کے حلال فوڈز پر کام کرنے والے حضرات شریک تھے۔ مفتیان کرام اور دیگر ماہرین بھی تھے۔ مجھے بھی اس میں دعوت دی گئی تھی اور تقریباً بیس منٹ گفتگو کا موقع ملا۔ اتفاق کی بات ہے کہ جس نشست میں مجھے گفتگو کی دعوت دی گئی اس کی صدارت اس وقت پاکستان میں جو انڈونیشیا کے سفیر محترم تھے وہ کر رہے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ بہت اچھی بات ہے کہ دنیا میں حلال فوڈ متعارف ہو رہا ہے، اس کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے، بین الاقوامی مارکیٹ حلال میٹ کی گارنٹی اور سٹیمپ مانگ رہی ہے، اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ رب العزت نے جو احکامات دیے ہیں وہ سائنٹیفک بنیادوں پر بھی درست ہیں، اور یہ اسلام کا اعجاز ہے کہ جس میتہ کو قرآن مجید نے حرام قرار دیا تھا اس کو آج کی میڈیکل سائنس بھی نقصان دہ قرار دے رہی ہے۔ لیکن علماء کرام کے لیے یہ بات قابلِ غور ہے کہ حلال و حرام کا فرق کرتے ہوئے اور حلال فوڈز اتھارٹی قائم کرتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ ہم آپس کے اختلافی معاملات کے لیے کوئی فارمولہ طے کریں۔ کیونکہ حلال و حرام کا ایک دائرہ اجتہادی اور استنباطی ہے جس میں احناف اور شوافع کا اختلاف ہے۔

میں نے کہا کہ اس نشست کے صدر محترم انڈونیشیا کے سفیر محترم شافعی ہیں۔ انڈونیشیا، ملائیشیا اور تھائی لینڈ میں اکثریت شوافع کی ہے، بمبئی سے آگے بنگلہ دیش کو چھوڑ کر فار ایسٹ سب شوافع ہی شوافع ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ یہ سی فوڈ کا زمانہ ہے، شوافع کے ہاں پانی کی ہر چیز حلال ہے، جبکہ احناف کے نزدیک اگر مچھلی کی جنس سے کوئی جانور ہے تو حلال ہے ورنہ نہیں ۔ دنیا کو گارنٹی فراہم کرنے سے پہلے ہمیں حلال و حرام کا آپس میں کوئی فارمولہ طے کر لینا چاہیے تاکہ دنیا کی مارکیٹ میں یہ تماشہ نہ لگ جائے کہ یہ انڈونیشیا کا حلال ہے اور یہ پاکستان کا حلال ہے۔ اس لیے حلال و حرام کا آپس میں کوئی ضابطہ طے کر کے پھر دنیا کے سامنے بات کریں ۔ صدر محترم میری اردو تقریر کا ترجمہ اپنی زبان سن رہے تھے۔ جب میں نے یہ بات کی کہ ان کا حلال اور ہے اور ہمارا حلال اور ہے تو وہ مسکرائے۔ بعد میں اپنی صدارتی تقریر میں انہوں نے میری تائید کی کہ یہ مولانا ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ پہلے آپس میں حلال و حرام کا فارمولہ طے ہونا چاہیے۔ یہ میں نے اس پر حوالہ دیا کہ آج کل کے حلال و حرام کے مسائل کیا ہیں۔

میں آپ حضرات کی جدوجہد کے حوالے سے عرض کر رہا ہوں کہ یہ بات بہت خوشی اور اطمینان کی ہے کہ کچھ حضرات اس کام کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے مجھے فرداً‌ فرداً‌ اطلاعات ملتی رہتی تھیں مگر جب محترم آفاق شمسی صاحب نے ساری صورتحال بتائی اور اپنی جدوجہد سے آگاہ کیا تو بہت خوشی ہوئی کہ کراچی کے سرکردہ حضرات جن میں علماء کرام بھی شامل ہیں حلال اور حرام سے آگاہی کے حوالے سے کام کر رہے ہیں۔ یہ آگاہی علماء کرام کی ذمہ داری ہے اور صرف خود بچنا کافی نہیں ہے بلکہ اپنے ماحول میں دوسرے لوگوں کو بچانا بھی ضروری ہے۔ آج کل جوں جوں حلال کی طلب بڑھتی جا رہی ہے تو کنفیوژن بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ میں تقریباً پچیس تیس سال بیرون ملک بہت جاتا رہا ہوں، ایک زمانہ تھا کہ حلال میٹ یعنی ذبیحہ تلاش کرنا مسئلہ ہوتا تھا، ہم کئی کئی دن گوشت نہیں کھاتے تھے کیونکہ شک ہوتا تھا کہ یہ ذبیحہ ہے یا نہیں۔

اللہ تعالیٰ محترم آفاق شمسی صاحب اور ان کے رفقاء کو جزائے خیر عطا فرمائیں کہ جنہوں نے علماء کرام کی سرپرستی میں ، دار العلوم، جامعہ فاروقیہ اور بنوری ٹاؤن کے مفتیان کرام کی نگرانی میں کراچی میں اس حوالے سے محنت کا ماحول بنایا ہے اور فقہی طور پر آگاہی پیدا کرنے کے لیے انہوں نے یہ کام سنبھالا ہے۔ میں ان کے ساتھ پشاور بھی گیا ہوں، وہاں الحمد للہ بہت منظم کام دیکھا ہے، اسلام آباد اور لاہور میں بھی منظم کام ہو رہا ہے۔ اور یہ ذمہ داری علماء کرام ہی کی ہے کہ وہ حلال و حرام کا ماحول قائم رکھیں، اس پر ایک حدیث مبارکہ کا حوالہ دوں گا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید پر عمل کا معیار اور علامت یہ قرار دی ’’من تعلم القرآن و حفظہ و عمل بہ‘‘ کہ جس نے قرآن مجید یاد کیا، یاد رکھا ، اس پر عمل کیا ’’فاحل حلالہ وحرم حرامہ‘‘ اور اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھا۔ حضور ؐ نے قرآن مجید پر عمل کی ظاہری علامت یہ قرار دی ہے کہ وہ حلال و حرام کا فرق کرتا ہو۔ اس لیے حلال و حرام سے آگاہی کا ماحول اور اس پر عملی مسائل کو فیس کرنے کے حوالے سے جو کمپین چل رہی ہے یہ خوش آئند ہے ۔جیسا کہ شمسی صاحب نے ایک مجلس میں بیان کیا کہ ہم اپنے محلے میں چیک کریں کہ جو لوگ مرغیاں بیچ رہے ہیں کیا وہ صحیح طریقے سے ذبح کرتے ہیں۔ یہ جو عملی صورتیں ہیں ان پر علماء کرام کو سب سے زیادہ توجہ دینی چاہیے ،عوام کو آگاہ رکھنا، بیدار کرنا اور حلال اختیار کرنے اور حرام سے بچنے کے عملی طریقے بتانا علماء کرام کی اہم ذمہ داری ہے، ہمیں اس کام میں اپنی حیثیت کے مطابق شریک ہونا چاہیے۔

اس حوالے سے آپ کا کام پہلے بھی میرے علم میں تھا، لیکن شمسی صاحب نے تفصیلات سے آگاہ کیا اور کہا کہ آپ ہمارے ساتھ شریک ہوں تو میں نے عرض کیا کہ میں کوشش تو یہی کر رہا ہوں کہ کسی کام سے پیچھے نہ رہوں لیکن میں کون کون سے کام میں شریک ہو سکوں گا؟ میں ایک شرط کے ساتھ ان سے وعدہ کرتا ہوں جس کا ذکر حدیث مبارکہ میں ہے کہ جب ایک صحابیؓ نے حضور نبی کریمؐ سے بیعت کی تو عرض کیا یا رسول اللہ! جو آپ فرمائیں گے میں کروں گا۔ اس پر جناب نبی کریمؐ نے فرمایا ’’فیما استطعت‘‘ بھی کہو کہ جو میرے بس میں ہوگا میں وہ کروں گا۔ میں نے بھی ان سے یہی وعدہ کیا کہ جہاں تک میرے بس میں ہوگا اس کام میں شریک رہوں گا۔ آپ حضرات سے بھی یہ گزارش ہے کہ ہم جو کچھ کر سکتے ہیں اسے اپنی ذمہ داری سمجھ کر کرنا چاہیے، اس پر ثواب و اجر بھی ملے گا، اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت بھی ہوگی اور ہمارا ایک فریضہ بھی ادا ہوگا۔ اللہ رب العزت اس کار خیر میں برکات نصیب فرمائیں اور ہمیں اپنا اپنا کام کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔



دین اور معاشرہ

(دسمبر ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter